روبی بڑی عیار لڑکی تھی، یہ میں نہ سمجھ سکی۔ وہ آزاد خیال ہے، اس کے بوائے فرینڈز ہیں، یہ تو میں ضرور جانتی تھی، مگر یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ حامد اور سازشی لڑکی بھی ہے، جو مجھ غریب کی قسمت کھلتے دیکھ نہیں سکتی۔ وہ خیام کے من سے میری تعریف بھی نہیں سن سکتی تھی۔ دل ہی دل میں وہ مجھ سے نفرت کرتی تھی۔ اس نے بظاہر پیار جتلایا اور مجھ سے ناتا بھی نہ توڑا، مگر رفت رفتہ وہ مجھ سے دور ہونے لگی۔ میں اور اُس کی طرف دیوانہ وار کھینچتی تھی کیونکہ خیام کی باتیں صرف اُس کے ساتھ کر سکتی تھی۔ میرے پوچھنے پر بھی اس نے نہ بتایا کہ وہ مجھ سے کیوں دور ہوتی جارہی ہے، تبھی ایک روز اس کی نفرت نے سر ابھارا اور اس لڑکی نے مجھے جیسے صفحہ ہستی سے مٹاہی ڈالنے کی قسم کھائی۔
پھو پھی دوبارہ شوکت صاحب کے گھر جارہی تھیں۔ خیام کے لئے محفل دعا کا انتظام رکھا گیا تھا۔ اس بار میں نے ساتھ چلنے کی خواہش کا اظہار کیا، تو وہ مجھے بھی ساتھ لے گئیں۔ وہاں میں ایک کونے میں جاکر پر بیٹھ گئی۔ روبی لاہور گئی ہوئی تھی، میں تنہائی محسوس کر رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ وہ ہوتی تو ہم دو ہو جاتے۔ پھو پھی بیگم ، انکل شوکت کے ساتھ جا بیٹھیں۔ میری نظریں ادھر ادھر کسی کو تلاش کر رہی تھیں، لیکن وہ کہیں نظر نہ آیا ، میں جس کو دیکھنا چاہتی تھی۔ تب میں ہال کمرے سے اُٹھ کر بر آمدے میں آگئی، تبھی وہ سامنے نظر آگیا، جیسے کوئی شہزادہ ہ سادہ سے سوٹ میں وہ بہت اسمارٹ لگ رہا تھا۔ میں بے اختیار ہو کر اس کو دیکھتی رہی۔ اچانک ہماری نظریں ملیں اور پھر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔ مجھے پانچ چھ برس پہلے والا خیام یاد آنے لگا۔
میرے بغیر وہ کوئی کھیل نہیں کھیلتا تھا اور اب وہ کتنا بر عکس نظر آرہا تھا۔ پھر میں پلیٹ رکھنے کی آواز پر چونگی۔ سامنے دیکھا تو وہ کھڑا تھا کچھ کمزور، تھکا تھکا اور افسردہ۔ کچھ کہا ، نہ عنا، ایک کاغذ کا پرزہ میری پلیٹ کے نیچے رکھا اور چلا گیا۔ میں نے پلیٹ کے نیچے دبا ہوا پر زہ، ٹشو پیپر کی طرح اٹھا لیا اور اسی وقت بغیر کسی سے اجازت لئے، گھر آگئی۔ کاغذ کھولا، لکھا تھا۔ نیا سفر ہے تیری زندگی کا اب اے دوست ، نئے سفر پہ نیا ہم سفر مبارک ہو۔ میں نے پڑھا اور رقعے کو سنبھال کر رکھ دیا۔ مجھے روبی کا انتظار تھا کہ اپنی خیر خواہ اور ہمدرد دوست سے مشورہ لے سکوں۔ دوسرے روز ہی وہ لاہور سے آگئی۔ اسے خیام کا لکھا ہوا شعر دکھایا تو وہ کہنے لگی۔ فراڈی، ظالم، خود عرض، پھر کوئی نیا فراڈ کرنا چاہتا ہے ، وحشی سنگدل ! تم قطعی اس کی باتوں میں نہ آنا۔ تم سے مخلص تحت تو رشتے کے لئے گھر والوں کو کیوں نہ بھیجا؟
اب سارا سارا دن میرے کان دروازے کی آہٹ پر لگے رہتے کہ اب خیام آیا ہو گا، لیکن وہ نہیں آیا۔ ہر بار مجھے مایوس ہونا پڑا۔ پہلے ہی مقدم پر ٹھوکر لگنے سے میں جیسے ایران ٹوٹ پھوٹ گئی۔ بس اب میں تھی اور میرے گھر کی تنہائی تھی۔ خود کو بد قسمت ترین لڑکی سمجھتی تھی ، صرف ایک ہستی تھی، سچا پیار کرنے والی جو میرے دکھ درد کی واحد سہارا تھیں اور وہ تھیں، پھو پھی اماں ، وہ بھی ہمیشہ کے لئے مجھے چھوڑ گئیں۔ اب میری زندگی کا واحد سہارا ابو تھے اور ان کے بعد ایک گانا، جس کو سن کر دل کو سکون ملتا تھا۔ جو ملا ، اس نے میرے دل کو کھلونا جانا۔ میں بار بار یہ گانا سنتی۔ ایک دن ابو نے غصے میں کہا۔ توڑ دو اس کیسٹ کو میرے کان پک گئے ہیں اس گانے کو سنتے سنتے۔ تب میں سوچتی کہ ابو کو کیا معلوم کہ مجھ پر کیا بیت رہی ہے۔
وہ تو اپنی مصروفیات میں مصروف تھے۔ اب روبی بھی میرا دکھ درد بانٹنے نہیں آتی تھی۔ ایک روز ابو نے بتایا۔ بیٹی ! تمہاری سہیلی کا آج نکاح ہے ، کل رخصتی ہو گی۔ کیا تم نہیں جاؤ گی؟ کس کے ساتھ اس کی شادی ہو رہی ہے ؟ بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا۔ شوکت صاحب کے بیٹے خیام کے ساتھ ، کیا روبی نے تم کو نہیں بلایا ؟ دوسرا فقرہ سنتے ہی میں بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی آئی، ورنہ ابو کے سامنے میرا بھرم کھل جاتا۔ مجھے اپنا کمرہ گھومتا ہوا دکھائی دینے لگا۔ کتنی تلخ حقیقت تھی، جس سے میرا ذہن مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔ ابو چلے گئے ، میں نہ جا سکی۔ بخار نے مجھے بستر پر گرادیا تھا۔ اگلے دن خیام کے مالی کا بیٹا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ باجی آپ کو خیام صاحب بلا رہے ہیں۔ اتفاق سے روبی اپنے گھر سے دیکھ رہی تھی۔ وہ مالی کے لڑکے کے پیچھے آگئی اور مجھے کہا۔ ٹھہرو، میں اس چالاک کو جواب دیتی ہوں اے ، جا کر خیام صاحب کو کہو کہ باجی صاحب نے کہا ہے ، میں اس کو پسند کرتی ہوں، جس سے میری منگنی ہوئی ہے۔ تم مجھے بھول جاؤ۔ حالانکہ میرا کوئی منگیتر نہ تھا، کوئی چپ ازاد نہ تھا، یہ سب تو روبی کا پلان تھا، جو سب کچھ جھوٹ تھا۔
ایک بار پھر ماضی کے اوراق میری نظروں میں پھڑ پھڑانے لگے۔ زخمی کبوتروں کی طرح ایک ایک کر کے تمام باتیں یاد آنے لگیں اور مجھے روبی سے نفرت محسوس ہونے لگی۔ ایک دوست نے دوست کی محبت پر ڈاکہ ڈالا۔ کاش ایسانہ ہوتا، کاش یہ سب جھوٹ ہوتا۔ اے کاش میں روبی کا اعتبار نہ کرتی۔ خیام نے تو پہلے دن مجھے ہو شیار کر دیا تھا کہ اس پر بھروسہ نہ کرنا، مگر میں نے دوست کو دوست ہی جانا، شاید اسی بات کی سزا مجھے خیام نے دی، اس نے اس سے شادی کر لی جس نے اسے مجھ سے جدا کیا تھا۔ وہ دونوں شادی کر کے امریکا چلے گئے۔ ادھر ابو کئی بار کہہ چکے تھے ، بیٹی اب جو بھی رشتہ آئے، انکار مت کرنا۔ میں کب تک زندہ رہوں گا، میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، تم کب تک یونہی اکیلی رہ سکو گی ؟ مگر میں نے ابو کی نہ سنی۔ بی اے کیا، پھر سروس کرلی۔ میں نے اپنی محرومیوں سے سمجھوتہ کر لیا پھر بھی کبھی کبھی سوچتی تھی کہ کیا واقعی روبی نے مجھے بالکل فراموش کر دیا ؟ شادی کسی سے ہو ، یہ تو قسمت کی بات ہے۔ خیام نے مجھ کو خواب ضرور دکھائے، مگر شادی اپنی ہم پلہ سے کرلی۔
اس روز میرا دل بڑا بے قرار تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ دیکھا تو احتشام بھائی تھے۔ بتایا کہ میں پرسوں امریکا جارہا ہوں، تم نے روبی کو کوئی پیغام دینا ہو تو بتا دو۔ یہ روبی کے کزن تھے ، ان کا گھر بھی قریب تھا۔ بس سلام کہہ دیجئے گا۔ ایک بات پوچھوں ، وعدہ کرو صحیح صحیح بتاؤ گی؟ ہاں پوچھئے ! آپ نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی ؟ ان کے پوچھنے پر میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے، میں نے کہا۔ ایک دوست پر اعتبار کیا تھا، اس نے مجھے لوٹ لیا، پھر میں نے ساری باتیں ان کو بتا دیں، آخر میں کہا۔ اگر خیام سے ملو تو اسے کہنا کہ روبی نے مجھے کہا ھتا کہ تم کو آزمانا ہے اور یہ پلان بھی اس نے بنایا تھا۔ یہ بات تم کو آج تک نہ بتا سکی، مگر تم نے بھی پروانہ کی۔ زمین اور آسمان کے فرق کو مٹانے کے لئے کچھ نہ کیا۔ اہمیت ہی نہ دی کسی بات کو بھلا وہ کیا زندگی بھر کا ساتھ نباہ سکتا تھا۔ ہاں تم ٹھیک کہتی ہو۔ احتشام بھائی بولے۔
تم بہت اچھی لڑکی ہو صاحب روبی سے بھی اچھی اور خوبصورت ، اس سے زیادہ گن ہیں تم میں۔ حقیقت یہ ہے کہ بات دراصل طبقے اور کلاس کی ہوتی ہے۔ اس نے وہی کیا جو اعلیٰ کلاس، مڈل کلاس سے برتاؤ کرتی آئی ہے ، ورنہ یہ کوئی ایسا بڑا مسئلہ نہ بھتا اس کے لئے۔ احتشام بھائی خود روبی کی کلاس کے تھے ، خیام کے ہم پلہ ، مگر مجھے لگا کہ وہ سچ بول رہے ہیں، میری حمایت کر رہے ہیں۔ مجھے وہ اپنے ہمدرد لگے۔ روبی سے بھی ملاقات ہوئی تھی ، سو ہو گئی، مگر بہت مدت بعد جب وہ امریکا سے لوٹی تو میرے اسکول آئی۔ میں ہیڈ مسٹریس تھی۔ وہ غمزدہ اور ٹوٹی پھوٹی دکھائی دیتی تھی۔ بالآخر اس نے اپنی بد نصیبی کا اعتراف میرے سامنے کر لیا۔ اس نے کہا۔ صاحب ! میں نے تم دونوں کو اتنے دکھ دیئے کہ خود دکھی ہو گئی ہوں۔ خیام کو تم سے اور تمہیں اس سے بد دل کرنے کے لئے میں نے بڑے جھوٹ بولے، مگر اب اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ جو دوسروں کو خوش نہیں دیکھ سکتے، وہ خود بھی خوش نہیں رہتے۔ میں نے تمہاری طرف سے بہت بد گمانیاں اس کے دماغ میں ڈال دی تھیں، پھر بھی وہ تم کو نہیں بھولا۔ اب تک تم کو ہی یاد کرتا ہے۔ یہ جھوٹ ہے ، میں اس کی کلاس کی نہیں پھر بھلاوہ مجھے کیسے یاد کر سکتا ہے ؟ تم اس کے لائق تھیں، اس نے تم کو پالہ ے تم کو پالیا اور بس۔
میں نے آنسو پی کر کہا تھا۔ اس ملاقات کے بعد روبی واپس نہیں آئی۔ شاید وہ میرے سامنے اعتراف جرم کرنے آئی تھی اور اپنی روح کو ہلکا پھلکا کر کے چلی گئی مگر آج تک میری روح بے سکون ہے، کسی کی یاد مجھے جینے نہیں دیتی۔ اے کاش کہ میرا دل اس شخص کو بھلا دے، جس نے کاغذ کے ایک پرزے پر محض دو چار جملے لکھ کر مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بے چین و بے قرار کر دیا اور میں آج بھی اس کے لوٹ آنے کے انتظار میں جی رہی ہوں۔
(ختم شد)
👇👇