سلمان کا گھر اتنا خوبصورت تھا کہ اس کے چاروں طرف لان اور پھول پودوں سے گھرا ہوا تھا۔ اس گھر کو دیکھتے ہوئے صائمہ بولی، "بند ہونے کے باوجود اس گھر کی دیکھ بھال کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں۔۔۔ نجانے لوگوں نے اسے کیوں اتنا ڈراؤنا سمجھ رکھا ہے۔ یہ بھی سنا ہے کہ جن کو مارا گیا، ان کی لاشیں بھی دوبارہ نہیں ملیں۔" سلمان نے کہا۔ صائمہ خاموشی سے سن رہی تھی۔
سلمان نے کہا، "چلو، گھر کے پچھلے حصے کی طرف چلتے ہیں۔" "ہاں، کیوں نہیں؟ آج سب کچھ چیک کر لیتے ہیں۔ اگر کہیں کوئی کمی ہو تو بتا دینا، میں کام کروا دوں گا۔"
آج وہ دونوں گھر دیکھنے آئے تھے تاکہ پروپر شفٹنگ سے پہلے اگر کوئی کمی بیشی ہو تو اسے پورا کیا جا سکے۔
"ٹھیک ہے، تم چلو گی؟" صائمہ نے پوچھا۔ "نہیں یار، تم ہی دیکھ لو۔ ویسے بھی عورتوں کو زیادہ پتہ ہوتا ہے کہ کون سی چیز کہاں فٹ کرنی ہے۔" "ٹھیک ہے۔" صائمہ مسکراتے ہوئے گھر کے پچھلے حصے کی طرف بڑھی۔
جیسے جیسے وہ گھر کے پچھلے حصے کی طرف بڑھ رہی تھی، اسے اپنے جسم میں عجیب سی سنسناہٹ محسوس ہو رہی تھی۔ پچھلے حصے میں ایک بڑا سا شہتوت کا درخت تھا، جس پر لکڑی کا ایک بڑا جھولا باندھا گیا تھا۔ لیکن گھر کے سامنے کے مقابلے میں یہ جگہ بالکل ویران تھی۔ زمین خشک تھی، اور شاید کبھی یہاں پھول پودے لگے ہوتے تھے، مگر اب صرف سوکھی ٹوٹی ٹہنیاں اور جھاڑیاں تھیں۔ وہ یہاں کسی منفی توانائی کو محسوس کر سکتی تھی۔
ابھی وہ اس جگہ کو کھڑی دیکھ ہی رہی تھی کہ اچانک جھولا زور زور سے ہلنا شروع ہو گیا، اور اس کے کانوں میں کسی کی آواز سنائی دی۔ "چلی جاؤ۔۔。" آواز ایک سرگوشی سے زیادہ نہ تھی۔
"کون ہو تم؟" صائمہ نے بے خوف ہو کر پوچھا۔ "کون ہو؟" اس بار وہ چلائی۔ "موت۔۔。" اور ایک زور دار قہقہہ سنائی دیا۔ وہ جو کوئی بھی تھی، سامنے نہیں آئی۔
ایک عجیب سی بو پھیلی ہوئی تھی۔ صائمہ آہستہ آہستہ شہتوت کے درخت کے قریب بڑھ رہی تھی جب سلمان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ "کیا ہوا؟ تمہاری چلانے کی آواز سنائی دی۔"
"کچھ نہیں۔" صائمہ ابھی سلمان کو کچھ نہیں بتانا چاہتی تھی۔
"سلمان ۔۔۔" اس نے پرسوچ انداز میں سلمان کو پکارا۔
"ہاں؟" وہ صائمہ کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا، جو شاید کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔
"گھر کے پچھلے حصے کی طرف بالکل صفائی نہیں ہے، نہ ہی وہاں کا خیال رکھا گیا ہے۔"
"ارے یار، اس پر اتنا سوچ رہی ہو؟ دراصل جس بندے کے ذمے اس گھر کی دیکھ بھال تھی، اس نے باقی سارا کام تو دن میں کیا، لیکن پچھلے حصے میں جانے سے اس نے صاف منع کر دیا تھا۔ میں نے بھی زیادہ زور نہیں دیا۔ جو تھوڑا بہت رہ گیا ہے، وہ ہم خود کر لیں گے۔"
ایک ہفتہ ہو چکا تھا انہیں شفٹ ہوئے۔ بظاہر تو کوئی ایسی بات نہیں ہوئی تھی جو پریشانی کا باعث بنے۔ لیکن صائمہ اکثر ایک کالی بلی کو گھر کے آس پاس دیکھتی۔ کبھی کبھی اسے عجیب سی آہٹیں بھی سنائی دیتی تھیں۔ اس کے برعکس، سلمان بالکل پرسکون تھا۔ صائمہ نے سوچ لیا تھا کہ اگر کچھ عجیب و غریب ہوا تو وہ اس سے نمٹ لے گی۔ فی الحال اس نے سوچا کہ جیسا چل رہا ہے، ویسے ہی چلنے دیا جائے۔ صائمہ نے اس سب کو بہت ہلکا لیا تھا۔
یہ اتوار کا دن تھا۔ سلمان نہا کر آیا تو اس نے سرخ جوڑے میں تیار صائمہ کو دیکھا۔ وہ ویسے تو خوبصورت تھی ہی، مگر آج معمول سے زیادہ حسین دکھ رہی تھی۔ وہ بیڈ پر نیم دراز حالت میں سلمان کو اپنی طرف بلا رہی تھی۔ سلمان بھی اس کی طرف کھنچتا چلا جا رہا تھا۔ صائمہ کے ہاتھ سلمان کے کندھوں پر تھے، اور سلمان اس کے حسن میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک دروازے کا ہینڈل گھوما اور دروازہ کھلتے ہی صائمہ اندر داخل ہوئی۔
"یہ لیجیے جناب، آپ کی کافی۔" سلمان کو بیڈ پر نیم دراز حالت میں دیکھ کر وہ بولی۔ وہ (سرخ جوڑے والی) فوراً وہاں سے غائب ہو گئی۔ سلمان کو اپنا سر بہت بھاری محسوس ہو رہا تھا، اور کندھوں میں شدید درد تھا، جیسے کسی نے بہت زیادہ وزن رکھ دیا ہو۔ اسے گم صم دیکھ کر صائمہ پریشانی سے بولی، "کیا ہوا سلمان ؟ طبیعت تو ٹھیک ہے؟" اسے کمرے میں عجیب سی بدبو محسوس ہو رہی تھی۔
"صائمہ ۔۔۔ آہ۔۔۔" وہ سر پکڑ کر کراہا۔
"کیا ہوا سلمان ؟"
"پتہ نہیں۔۔۔ سر اور کندھوں میں شدید درد ہو رہا ہے۔" سلمان کو کچھ یاد نہیں تھا کہ کیا ہوا۔ وہ اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔
"اچھا، اچھا، لیٹے رہو۔ میں دوائی دیتی ہوں، اس سے ٹھیک ہو جائے گا۔" صائمہ نے لائٹ آف کی، کمرہ بند کیا، اور کچن میں چلی گئی۔
پچھلے کچھ دنوں سے اسے عجیب سا محسوس ہو رہا تھا۔ کبھی گھر سے اچانک بدبو آنے لگتی، کبھی قہقہے سنائی دیتے، اور کبھی چلتا پھرتا کوئی سائے جیسا دکھتا۔ یہ سب اکثر سلمان کی غیر موجودگی میں ہوتا تھا، یعنی گویا یہ سب اسے تنگ کرنے کے لیے ہو رہا تھا۔
"سلمان ۔۔۔" صائمہ نے نیند میں سلمان کو پکارا۔ دو تین بار آواز دینے پر بھی جواب نہ آیا تو اس نے اپنا ہاتھ سلمان کی طرف بڑھایا، مگر ہاتھ خالی بستر پر جا پڑا۔ وہ ایک دم چونک اٹھی اور سلمان کو آوازیں دینے لگی۔ کمرہ، باتھ روم، سب چیک کر لیا، مگر سلمان کہیں نہیں تھا۔ وہ آہستہ آہستہ گھر کے باہری حصے کی طرف بڑھ رہی تھی، جبکہ سلمان کمرے میں ہی گہری نیند سو رہا تھا، جو صائمہ کی نظروں سے اوجھل تھا۔
اچانک اسے لگا کہ کوئی بہت تیزی سے اس کے پیچھے سے گزرا۔ وہ ایک دم مڑی، مگر وہاں کوئی نہ تھا۔ "سلمان ، تم کہاں ہو؟" اس نے ایک بار پھر آواز دی۔ جیسے ہی وہ گھر کے باہری حصے کی طرف آئی، اسے منظر انتہائی عجیب لگا۔ ہر طرف اجڑا ہوا لان، مرجھائے ہوئے پھول، کچھ جانوروں کے سر، اور ایک عجیب سا کالا سایہ تھا، جس نے پورے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ صائمہ کو ہلکا سا خوف محسوس ہوا، مگر اس نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے دائیں جانب بڑھنا شروع کیا، جہاں سے گھر کے پچھلے حصے کی طرف جایا جاتا تھا۔
اچانک اسے اسی طرف سے کچھ لوگ اپنی طرف آتے دکھائی دیے۔ اندھیرے سے روشنی میں جب صاف نظر آنا شروع ہوا تو صائمہ نے دیکھا کہ وہ بغیر سر کے کچھ لوگ تھے، جو تیزی سے اس کی طرف بڑھ رہے تھے۔ انہوں نے ایک چارپائی اٹھا رکھی تھی۔ جب انہوں نے چارپائی نیچے رکھی تو اس پر سلمان کی لاش تھی۔ پہلے تو ان بغیر سر والے وجود کو دیکھ کر، اور پھر سلمان کو اس حال میں دیکھ کر، صائمہ کے منہ سے ایک زور دار چیخ نکلی۔ اس کے بعد اسے کچھ ہوش نہ رہا۔ اور اسی لمحے ایک زوردار قہقہہ پورے گھر میں گونج اٹھا۔
اگلی صبح سلمان اٹھا تو صائمہ کو نہ پا کر سوچا کہ شاید وہ ناشتہ بنانے گئی ہوگی۔ وہ زور لے کر باہر آیا تو اسے کچھ عجیب سا لگا۔ اتنی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ کچن میں دیکھا تو وہاں بھی صائمہ نہیں تھی۔ سلمان پورا گھر چھانتا ہوا جب باہر آیا تو اس نے صائمہ کو بے ہوش پایا۔ وہ تیزی سے اس کے پاس پہنچا اور اٹھانے کی کوشش کی، مگر بے سود۔ اس نے صائمہ کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو وہ آگ کی طرح جل رہی تھی۔ سلمان نے اسے اٹھایا اور بیڈ روم میں لے آیا۔ ایک دو بار آواز دینے اور پانی کے چھینٹوں سے صائمہ نے آنکھیں کھولیں، مگر بخار کی شدت سے فوراً بند کر لیں۔
"صائمہ ، میں ناشتہ بناتا ہوں، پھر دوائی لے کر آرام کرو۔"
"ہمم۔" صائمہ نے اسی حالت میں جواب دیا۔
"تم کہو تو میں گھر پر تمہارے ساتھ رہ جاؤں؟"
"نہیں، اس کی ضرورت نہیں۔" ناشتہ کرنے اور دوائی لینے کے بعد صائمہ خود کو کافی بہتر محسوس کر رہی تھی، مگر رات کا خیال آتے ہی اسے جھرجھری آ جاتی تھی۔ چائے پیتے ہوئے وہ اس مسئلے کا حل سوچ رہی تھی، جبکہ اس نے سلمان کو زبردستی ہسپتال بھیج دیا تھا۔
صائمہ کے اندازے کے مطابق یہ ایک پچھل پیری نما بلا تھی، جو اپنی طاقتوں کے لیے ہر سال کی پہلی چودھویں رات کو ایک نوجوان کو مار دیتی تھی۔ وہ بلا پہلے اپنے شکار کو اس کی محبوب ہستی کی شکل میں اپنا گرویدہ کرتی اور آہستہ آہستہ اس پر حاوی ہوتی جاتی تھی، یہاں تک کہ وہ شخص اپنی اصلی محبوبہ کو چھوڑ کر اسی کے پیچھے چل نکلتا تھا۔ رات کو وہ اس کے قبضے میں ہوتا، مگر دن میں رات کا سب کچھ بھول جاتا تھا۔ اور اس بار اس بلا کا شکار کوئی اور نہیں، اس کا شوہر سلمان تھا۔
پچھلے ایک ہفتے سے یہی ہو رہا تھا۔ سلمان رات کو کمرے سے غائب ہو جاتا اور اگلی صبح گھر کے پچھلے حصے میں بے ہوش ملا تھا۔ صائمہ جتنا اس سے پوچھنے کی کوشش کرتی، سلمان کچھ نہ بتا پاتا تھا۔ اسے تو یہ بھی یاد نہیں ہوتا تھا کہ وہ کب اور کیسے اس درخت کے پاس پہنچ جاتا تھا۔ "آج میں پتا کر کے ہی رہوں گی،" صائمہ نے خود سے عہد کیا۔ آج کی رات وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ آخر سلمان کے ساتھ کیا ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہوش و حواس بالکل کھو دیتا ہے۔
رات کے بارہ بج رہے تھے جب صائمہ کی آنکھ کھلی۔ اس نے فوراً سلمان کی طرف دیکھا، مگر وہ اپنی جگہ پر موجود نہ تھا۔ صائمہ جلدی سے کمرے سے باہر آئی۔ کچن سے کچھ گرنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ دل مضبوط کرتے ہوئے وہ کچن تک پہنچی۔
"کون ہے؟" اس نے کچن کی لائٹ جلائی تو دیکھا کہ سلمان اس کی طرف پیٹھ کیے کھڑا تھا۔
"ارے، تم!" سلمان کو دیکھتے ہی اسے حوصلہ ملا۔ وہ ابھی بھی اس کی طرف پیٹھ کیے کھڑا تھا۔ "کچھ چاہیے تھا تو مجھے جگا دیتے، سلمان ۔"
جب اسے کوئی جواب نہ ملا تو صائمہ نے اپنا ہاتھ سلمان کے کندھے پر رکھا اور اس کا رخ اپنی طرف کیا۔ سلمان کے چہرے پر نظر پڑتے ہی صائمہ نے اپنی چیخ دبانے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ سلمان کی آنکھوں کی جگہ سیاہ دھبے تھے، ہونٹ بالکل سیاہ ہو چکے تھے، اور چہرہ لاش کی طرح سفید تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک تیز دھار چاقو تھا، اور وہ اب صائمہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ وہ ہلکا ہلکا ہنس رہا تھا، اور ایسا لگ رہا تھا جیسے کئی لوگ اس کے ساتھ ہنس رہے ہوں۔
صائمہ اس حالت میں سلمان کو دیکھ کر آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہی تھی، جبکہ سلمان مسلسل آگے بڑھ رہا تھا۔ "کون ہو تم اور کیا چاہتی ہو؟" صائمہ نے کہا۔ وہ جانتی تھی کہ اس وقت کوئی خبیث روح سلمان پر حاوی ہے۔ "ہمارے پیچھے مت آؤ! اسے چھوڑ دو، یہ اب تمہارا نہیں رہا!"
پھر وہی مکروہ ہنسی سنائی دی۔ صائمہ عجیب و غریب آوازوں میں یہ سن پائی: "نہیں، ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ میں تمہیں تمہارے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دوں گی۔ سنا تم نے؟"
سلمان زور سے ہنسا۔ اس نے اچانک اپنا چاقو والا ہاتھ آگے کیا اور اپنے دوسرے بازو پر کٹ لگانا شروع کر دیا۔ وہ بار بار اپنے بازو پر کٹ لگا رہا تھا، اور خون تیزی سے اس کے بازو کو بھگو رہا تھا۔
"آہ، صائمہ، مجھے بچاؤ!" سلمان کی اپنی درد بھری آواز سنائی دی۔
"سلمان !" صائمہ تڑپ کر آگے بڑھی۔ لیکن جیسے ہی وہ سلمان کے قریب پہنچی، اس نے زور سے صائمہ کو دھکا دیا۔ صائمہ لاؤنج میں پڑے شیشے کے ٹیبل پر جا گری۔
"ہاہاہا! دور رہو!" وہی گندی، بھدی آواز اور ہنسی سنائی دی۔
"میں تمہیں سلمان کو کچھ نہیں کرنے دوں گی، یہ میرا وعدہ ہے!" وہ بے ہوش پڑے سلمان کو دیکھتے ہوئے بولی، جس کے بازو سے خون بہہ رہا تھا۔
صائمہ کو شیشے لگنے سے بازو اور جسم پر چوٹیں آئی تھیں، جن سے خون بہہ رہا تھا۔ شکر ہے کہ اس کا چہرہ بچ گیا تھا، مگر وہ پھر بھی پرعزم تھی۔ ہمت کر کے وہ اٹھی اور ہسپتال کو کال کی۔ سلمان کی حالت دیکھتے ہوئے وہ مزید دیر نہیں کر سکتی تھی۔