خبیث روح - آخری حصہ

 Sublimegate Urdu Stories


براہ مہربانی پلے کا بٹن  ضرور دبائیں اور نیچے دی گئی کہانی پڑھیں۔ آپ کے تعاون کا بہت بہت شکریہ
👇👇

ڈاکٹر ردا اور ڈاکٹر خاور، جو صائمہ اور سلمان کے نہ صرف ساتھی بلکہ اچھے دوست بھی تھے، انہوں نے ایمرجنسی میں دونوں کا علاج کیا تھا۔ اب وہ دونوں صائمہ کے سامنے تھے۔ "یہ سب کیا ہے، صائمہ؟" ردا نے پوچھا۔ صائمہ نے ان کی آنکھوں میں سوال اور الجھن دیکھی تو سب کچھ من و عن بتا دیا۔ سلمان ابھی بھی بے ہوش تھا۔ ردا، صائمہ کے ساتھ بیٹھی، اسے غور سے سن رہی تھی۔

"تمہیں اس سب کو اتنا ہلکا نہیں لینا چاہیے تھا، صائمہ۔ تمہیں فوراً کچھ کرنا چاہیے تھا۔ تم تو خود بھی جانتی ہو کہ ایسی صورتحال سے کیسے نمٹنا ہے۔ اسے اتنا ہلکا نہیں لینا چاہیے تھا،" ردا نے صائمہ کی حالت دیکھتے ہوئے کہا، جس کے جسم پر جگہ جگہ پٹیاں بندھی تھیں۔

"ہاں، اب اس کا کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ میں نہیں جانتی تھی کہ وہ اتنی خطرناک ہو سکتی ہے،" صائمہ نے جواب دیا، دونوں کو تسلی دیتے ہوئے جو اس کے لیے بہت پریشان دکھائی دے رہے تھے۔

"تم کہو تو شاہ جی سے بات کریں؟" خاور نے مشورہ دیا۔

"نہیں، میں نے ابھی بابا سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ ضرورت پڑی تو میں خود انہیں بتا دوں گی۔ شکریہ،" وہ بستر پر لیٹتے ہوئے بولی۔ صائمہ کو شدید تکلیف تھی، مگر اس سے زیادہ تکلیف اسے سلمان کی حالت سوچ کر ہو رہی تھی۔ وہ ہمت نہیں ہارنا چاہتی تھی۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ اس سب کا انجام کیا ہونے والا ہے۔ ابھی اسے بہت کچھ کرنا تھا، بہت کچھ سہنا تھا۔ یہ تو بس شروعات تھی۔

تقریباً دو ہفتے لگے تھے صائمہ اور سلمان کو سنبھلنے میں، اور اس میں ردا اور خاور کا بڑا ہاتھ تھا، جنہوں نے دونوں کے لیے دن رات ایک کر دیے تھے۔ صائمہ اس دوران سلمان کو بھی دیکھتی رہتی تھی، جو اپنے بازو کی حالت دیکھ کر حیران تھا۔ اسے بالکل پتہ نہیں تھا کہ یہ سب کیسے اور کس طرح ہوا۔

آج وہ دونوں گھر واپس آ گئے تھے۔ گھر میں ہر طرف ایک عجیب سی بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ "سلمان، میں سوچ رہی تھی کہ کیوں نہ اوپر والا پورشن بنا کر کرائے پر دے دیا جائے؟ اس طرح گھر میں ویرانی نہیں رہے گی، اور ہمارا دل بھی لگا رہے گا،" صائمہ نے بدبو کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ یہ بدبو اب ہر دوسرے دن کا معمول بن گئی تھی۔

جواب نہ پا کر صائمہ پیچھے مڑی تو سلمان کو غائب پایا۔ "سلمان!" اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ وہ بھاگتی ہوئی گھر کے پچھلے حصے کی طرف بڑھی۔ بدبو کا احساس اتنا شدید تھا کہ برداشت سے باہر ہو رہا تھا۔ اس کا جی متلانے لگا، مگر اسے سلمان کی فکر تھی۔

جیسے ہی وہ لان میں پہنچی، اس نے دیکھا کہ سلمان شہتوت کے درخت کی طرف منہ کیے کھڑا تھا اور اپنا سر مسلسل درخت سے ٹکرا رہا تھا۔ اس کی پیشانی سے خون نکلنا شروع ہو چکا تھا۔ "سلمان، ہوش میں آؤ! یہ کیا کر رہے ہو؟" صائمہ دوڑتی ہوئی اس کی طرف بڑھی۔

اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتی، جھولا اچانک حرکت میں آیا۔ اگر صائمہ بروقت جھک نہ جاتی تو اس کا سر یقیناً زخمی ہو جاتا۔ صائمہ نے آیات کا ورد شروع کیا اور سلمان کی طرف پھونک ماری۔ ایک کانوں کو چیر دینے والی چیخ سنائی دی۔ اب صائمہ کو یقین تھا کہ کچھ وقت تک وہ خبیث روح ان کے سامنے نہیں آئے گی۔

وہ نیم بے ہوش سلمان کی طرف بڑھی اور آہستہ آہستہ اسے سہارا دیتے ہوئے اندر لے آئی۔

سلمان کی بینڈیج کر کے اور سکون آور دوائی دے کر صائمہ اسے بستر پر لٹا چکی تھی۔ اب سلمان گہری نیند میں تھا۔ صائمہ نے لائٹ بند کی اور کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے کچن کی طرف چلی گئی۔ اس کا ارادہ گھر میں اچھا سا کھانا بنانے کا تھا، مگر اس کا ذہن ابھی بھی انہی سوچوں میں الجھا ہوا تھا۔ کھانا بنا کر وہ سیدھا اس کمرے میں آئی جو اس کے اور سلمان کے کمرے کے ساتھ والا تھا۔

تازہ دم ہونے کے بعد وہ کمرے کے عین وسط میں آئی اور زمین پر ایک دائرہ بنا کر اس کے اندر بیٹھ گئی۔ شہتوت کے درخت کی ٹوٹی ہوئی ٹہنی، جو اس نے آج صبح ہی توڑی تھی، اس نے اپنے سامنے رکھی۔ صائمہ دو زانو پر آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی، اس کی انگلیاں ٹہنی پر تھیں، اور ہونٹ مسلسل ہل رہے تھے جیسے وہ کوئی دعا پڑھ رہی ہو۔ جب اس نے پھونک ماری تو اس جگہ کا نقشہ یک دم بدل گیا۔ جہاں ان کا گھر تھا، اب وہاں صرف میدان ہی میدان تھا—سنسان، ویران، اور اس کے بیچوں بیچ وہی شہتوت کا درخت۔ صائمہ اس سے کچھ فاصلے پر تھی اور کھلی آنکھوں سے اس جگہ کو دیکھ رہی تھی۔

اچانک ایک بچہ دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا۔ اس کے ہونٹ پیاس کی شدت سے خشک تھے، اور وہ روتا ہوا صائمہ سے کچھ فاصلے پر رک گیا۔ اسے دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے وہ بہت لمبا فاصلہ طے کر کے یہاں پہنچا ہو۔ وہ ہاتھ آگے بڑھا کر صائمہ سے پانی مانگ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی۔ صائمہ یقیناً اس بچے کی مدد کرتی اگر وہ اس سب سے واقف نہ ہوتی۔

جب صائمہ کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا تو وہ بچہ آہستہ آہستہ اپنا روپ بدلنے لگا۔ اس کی خوبصورت آنکھیں اب سیاہ گڑھوں میں بدل چکی تھیں، جن سے خون بہہ رہا تھا۔ اس کے ناخن بے تحاشا لمبے اور نوکیلے ہو چکے تھے۔ وہ چوپایوں کی طرح چلتا ہوا صائمہ کے قریب آرہا تھا۔ صائمہ کو اپنے چاروں طرف آگ ہی آگ محسوس ہو رہی تھی۔ پھر ہر طرف سے رونے اور چلانے کی آوازیں سنائی دینے لگیں، جن میں ایک واضح آواز سلمان کی تھی۔

صائمہ نے سلمان کی آواز کی سمت دیکھا۔ وہ درخت کے ارد گرد سیاہ لباس میں، کئی دوسرے لوگوں کے ساتھ دائرے کی صورت چکر لگا رہا تھا۔ وہ سب سیاہ لباس میں ملبوس تھے، ان کے چہرے ہر قسم کے تاثر سے خالی تھے، اور ان کی سیاہ گڑھوں والی آنکھوں سے خون رس رہا تھا۔ وہ سب بین کر رہے تھے۔ سلمان کو اس حال میں Sandoval دیکھنا کسی بڑی انہونی کی نشانی تھی۔

اچانک صائمہ کو اپنے گلے میں کانٹوں جیسا چبھن کا احساس ہوا۔ وہ جان گئی کہ وہ یہاں مزید نہیں رہ سکتی، ورنہ اس خبیث روح کے چنگل سے کبھی نہ نکل پائے گی۔ اس کے پاس اتنی طاقت نہیں تھی۔ وہ اس روح کی طاقت کو جان چکی تھی۔

صائمہ اس خبیث روح کا مقابلہ نہ کر سکی۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اس کا گلا دبایا جا رہا ہو، سانس لینا محال ہو چکا تھا۔ وہ فوراً اپنی دنیا میں واپس آئی۔ وہ مکروہ ہنسی، جو اسے اکثر سنائی دیتی تھی، اب بھی گونج رہی تھی۔ صائمہ اٹھی، اس کی حالت ٹھیک نہ تھی۔ وہ بمشکل کچن تک پہنچی، فریج سے پانی کی بوتل نکالی اور ایک ہی سانس میں خالی کر دی، جیسے نجانے کب سے پیاسی ہو۔ اس کی دنیا میں جانا اس خبیث روح کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا، جسے اس نے بخوشی قبول کر لیا تھا۔ اور وہ ٹہنی اب راکھ میں تبدیل ہو چکی تھی۔

شام کے سائے ہر طرف پھیل رہے تھے۔ صائمہ واپس کمرے میں آئی تو سلمان جوں کا توں سو رہا تھا۔ اس نے سلمان کو جگانا مناسب نہ سمجھا اور خود بھی سونے کا ارادہ کیا۔ اسے شدید تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی۔ بھوک تو جیسے اڑ سی گئی تھی۔ صائمہ کو اپنی گردن پر عجیب سی جلن کا احساس ہوا۔ وہ اٹھی اور آئینے کے سامنے جا کر خود کو دیکھنے لگی۔ اس کی گردن پر واضح لال نشانات تھے، جیسے کسی نے گلا دبانے کی کوشش کی ہو۔ صائمہ اس سب کا مطلب اچھی طرح سمجھ رہی تھی۔ یہ ایک صاف وارننگ تھی کہ وہ پیچھے ہٹ جائے۔ مگر اب صائمہ نے اس خبیث روح سے چھٹکارا پانے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا۔ سونے سے پہلے اس نے فون اٹھایا اور کال ملائی۔

رات کا نجانے کون سا پہر تھا جب صائمہ کی آنکھ کھلی۔ اس نے سلمان کی طرف دیکھا تو وہ بستر سے غائب تھا۔ وہ فوراً اٹھی اور تقریباً بھاگتی ہوئی کمرے سے نکلی۔ اسے پتہ تھا کہ سلمان کہاں ملے گا۔ جیسے ہی وہ گھر کے پچھلے حصے میں پہنچی، سلمان جھولے پر لیٹا ہوا تھا۔ وہ بلا پوری طرح اس پر قابو کیے ہوئے تھی۔ صائمہ نے فوراً آیات کا ورد شروع کیا اور سلمان کی طرف پھونک ماری۔ اپنی اصلی حالت میں آتے ہی وہ بلا وہاں سے غائب ہو گئی، اور سلمان کی زوردار چیخ سنائی دی۔ صائمہ اسے بس کچھ ہی دیر کے لیے روک سکتی تھی۔ وہ فوراً سلمان کی طرف بڑھی، جس کی گردن پر ناخنوں کے تین گہرے نشان تھے، جن سے خون رس رہا تھا۔ وہ سلمان کو سہارا دیتے ہوئے اندر لے آئی، احتیاط سے بستر پر لٹایا، اور خون صاف کرنے لگی۔

سلمان بالکل الگ لگ رہا تھا—کہیں کھویا ہوا، تاثرات سے عاری چہرہ، خالی نظروں سے بس سامنے دیکھ رہا تھا، جیسے وہاں اس کے علاوہ کوئی موجود ہی نہ ہو۔ صائمہ اس سے باتیں کرتی رہی، مگر اس کی آواز دیواروں سے ٹکرا کر واپس آ رہی تھی۔ سلمان کو لٹا کر وہ لاؤنج میں آئی۔ اب سب کچھ اس کی برداشت سے باہر ہو رہا تھا۔ اس نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں کئی ایسے کیسز سے نمٹا تھا، مگر یہ معاملہ بالکل مختلف تھا۔ وہ بلا کسی طرح سلمان کو چھوڑ نہیں رہی تھی، بلکہ اسے اذیتیں بھی دے رہی تھی۔ صائمہ دیوار سے لگ کر، منہ پر ہاتھ رکھے، اپنی سسکیاں دباتے ہوئے خاموشی سے رو رہی تھی۔ اس کا اپنے بابا سے رابطہ بھی نہیں ہو پا رہا تھا، اور یہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔

کئی دن گزر چکے تھے، اور صائمہ مسلسل اپنے بابا سے رابطے کی کوشش کر رہی تھی، مگر کسی طرح بھی وہ سید محراب علی شاہ سے رابطہ نہ کر سکی۔ سلمان کو چھوڑ کر وہ کہیں جا بھی نہیں سکتی تھی۔ سلمان کی حالت دن بہ دن بگڑتی جا رہی تھی۔ اب صائمہ کی ہمت بھی جواب دینے لگی تھی۔ سلمان کی عجیب و غریب اور خوفناک حالت دیکھ کر کبھی وہ رات کو گھر کی چھت پر چپکتا نظر آتا، تو کبھی شہتوت کے درخت کے پاس عجیب آوازیں نکالتا، جیسے ایک آواز میں کئی آوازیں شامل ہوں۔ اب تک سلمان نے صائمہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا، مگر اسے ہر طرح سے ڈرایا جا رہا تھا۔

خاور اور ردا نے اس دوران صائمہ کا بہت ساتھ دیا۔ آج وہ دونوں صائمہ اور سلمان سے ملنے ان کے گھر آئے تھے۔ صائمہ ردا کے سینے پر سر رکھے مسلسل رو رہی تھی۔ خاور تسلیاں دے رہا تھا۔ صائمہ نے سلمان کو نیند کی گولیاں دے کر سلا دیا تھا۔ وہ گھر سے باہر نہیں جا سکتی تھی، ہسپتال سے بھی چھٹی لے رکھی تھی۔ ردا اور خاور کا آنا اسے کسی نعمت سے کم نہ لگ رہا تھا۔

"تم کہو تو ہم چلے جاتے ہیں اور بابا کو ساری صورتحال سے آگاہ کرتے ہیں،" خاور نے مشورہ دیا۔ وہ تینوں گھر کے سامنے والے لان میں موجود تھے، اس بات سے بے خبر کہ کوئی ان پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

"میں بھی یہی سوچ رہی تھی۔ بس کسی طرح میری ان سے بات کروا دو۔ بابا کے پاس ضرور اس مسئلے کا کوئی حل ہوگا،" صائمہ نے عاجزی سے کہا۔ وہ دونوں واقعی اس کے لیے پریشان تھے۔

"تم پریشان نہ ہو، ہم کل ہی روانہ ہو جائیں گے،" خاور نے صائمہ سے ایڈریس اچھی طرح سمجھ کر کہا۔ کچھ وقت صائمہ کے ساتھ گزارنے کے بعد دونوں چلے گئے۔ لاؤنج میں کسی نے مسکراتے ہوئے پردہ آگے سرکایا۔

خاور اور ردا کے جانے کے بعد صائمہ کچھ دیر لان میں کرسی پر آنکھیں بند کیے بیٹھی رہی۔ جب اندھیرا ہر سو پھیلنے لگا تو وہ اٹھی۔ چیزیں سمیٹ کر کمرے کی طرف بڑھی، مگر سوچوں کے حصار میں گھری رہی۔ اسے سب یاد تھا کہ وہ اور سلمان اس گھر میں آنے سے پہلے کتنے خوش تھے۔ پھر نجانے یہ کیا ہو گیا جو اس کے قابو سے باہر تھا۔ وہ دعائیں کرتی نہ تھکتی تھی، ہر وہ عمل جس سے وہ سلمان کو بچا سکتی تھی، اس نے کیا، مگر معاملات اب اس کے ہاتھ میں نہ رہے تھے۔ وہ شدت سے اپنے بابا کو یاد کر رہی تھی، مگر اس نے عہد کیا تھا کہ وہ ہر حال میں سلمان کا ساتھ دے گی۔ اسے اللہ کی مدد پر پورا بھروسہ تھا۔

آنسو صاف کرتے ہوئے وہ کمرے میں داخل ہوئی جہاں سلمان بے سدھ سویا ہوا تھا۔ وہ اس کے قریب لیٹ گئی اور غور سے اسے دیکھنے لگی۔ اپنی انگلیاں اس کے چہرے پر پھیرتے ہوئے اس کے آنسوؤں پر قابو نہ تھا۔ سلمان بہت کمزور ہو گیا تھا۔ اس کی آنکھیں اندر دھنس چکی تھیں، چہرے پر عجیب سی سفیدی تھی۔ اسے اس حال میں دیکھنا صائمہ کے لیے کسی سخت امتحان سے کم نہ تھا۔ وہ روتے روتے اس کے سینے پر سر رکھ کر لیٹ گئی اور نجانے کب نیند کی آغوش میں چلی گئی۔

رات کا نجانے کون سا پہر تھا جب صائمہ کو اپنی گردن پر دباؤ محسوس ہوا۔ دباؤ مسلسل بڑھ رہا تھا۔ اس نے ہاتھ پاؤں چلانے کی کوشش کی، مگر بے سود۔ جیسے ہی اس نے آنکھیں کھولیں، سلمان اس کے اوپر ہوا میں معلق تھا، اس کے ہاتھ صائمہ کی گردن پر تھے۔ اس کی آنکھیں بالکل سفید تھیں، چہرہ زخمی اور خون میں ڈوبا ہوا تھا، کسی بھی جذبے سے خالی۔ صائمہ خود کو چھڑانے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔ اس قدر خوفناک چہرے کو اتنا قریب دیکھنا اس کے لیے سوہانِ روح تھا۔ اسے اپنی آنکھیں بند ہوتی محسوس ہو رہی تھیں، وہ اپنے حواس کھو رہی تھی، اور آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔

سید محراب علی شاہ کافی دنوں سے صائمہ اور سلمان کے پاس جانے کا سوچ رہے تھے۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ وہ صائمہ سے اتنا لمبا عرصہ دور رہے ہوں۔ کچھ وہ خود مصروف تھے، اور کچھ صائمہ کا رابطہ نہ ہونا اس کی وجہ تھا۔ نئے گھر کی مبارکباد بھی انہوں نے مصروفیت کی وجہ سے فون پر ہی دی تھی۔ آج وہ صائمہ کو بتائے بغیر ہی روانہ ہو چکے تھے، امید تھی کہ رات تک پہنچ جائیں گے۔ سارے راستے وہ خاموشی سے ذکر میں مصروف تھے کہ اچانک گاڑی جھٹکے سے رک گئی۔

"کیا ہوا، برخودار؟" شاہ جی نے نرم آواز میں ڈرائیور سے پوچھا۔

"کچھ نہیں، شاہ جی۔ بس ایسا لگا جیسے کوئی گاڑی کے سامنے آ گیا ہو، اس لیے اچانک بریک لگانی پڑی۔"

"ہمم،" شاہ جی نے پرسوچ انداز میں کہا۔ "یقیناً کوئی ہم پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ چلو، دیکھتے ہیں کس کی ہمت ہے جو ہمارا راستہ روکے۔ گاڑی آگے بڑھاؤ۔"

"جی، شاہ جی،" ڈرائیور کرم نے ادب سے کہا اور گاڑی اسٹارٹ کر دی۔ ابھی وہ کچھ ہی دور گئے تھے کہ گاڑی عجیب جھکڑوں میں پھنس گئی، اور ایک بے تحاشا بدبو ہر طرف پھیل گئی۔ شاہ جی کو سمجھنے میں ذرا دیر نہ لگی۔ انہوں نے فوراً آنکھیں بند کیں، ان کے ہونٹ ہلنے لگے، اور پھر انہوں نے پھونک ماری۔ اچانک سارا منظر صاف ہو گیا۔

"یہ کیا تھا، شاہ جی؟" کرم نے گھبراتے ہوئے پوچھا، جو فطرتاً بزدل تھا۔

"کچھ نہیں، بیٹا۔ بس کوئی اپنی حد سے بڑھی ہوئی مخلوق ہے جو نہیں چاہتی کہ ہم منزل تک پہنچیں۔ یہ بات بالکل اچھا اشارہ نہیں ہے۔ یقیناً ہماری بیٹی کسی مشکل میں ہے۔ تم آنکھیں بند کر لو، برخودار، اور جب تک ہم نہ کہیں، بالکل نہ کھولنا۔"

کرم نے حکم کی تعمیل کی اور آنکھیں بند کر لیں۔ اگلے ہی لمحے ایک جھٹکا سا محسوس ہوا، اور پھر شاہ جی کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو دیکھ کر اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا کہ وہ صائمہ اور سلمان کے گھر کے سامنے تھے۔

شاہ جی ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اندر داخل ہوئے، جبکہ کرم چوکیدار سے گیٹ کھلوا کر گاڑی اندر لے جا رہا تھا۔ شاہ جی لان پر نظر دوڑاتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ ہر چیز ان کی نظروں کے سامنے فلم کی طرح گزر رہی تھی۔ آسمان پر چودھویں کا چاند پورے آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ وہ فوراً اندر کی طرف بڑھے اور کمرے کا دروازہ کھولا۔ اندر سلمان صائمہ کے اوپر جھکا ہوا اس کا گلا دبا رہا تھا اور بڑبڑا رہا تھا، "نہیں چھوڑوں گی، نہیں چھوڑوں گی! آج میں اسے لے جاؤں گی، مجھے کوئی نہیں روک سکتا!"

"ہم روکیں گے تمہیں، اللہ کے فضل سے! دیکھتے ہیں کیسے لے جاتی ہو اسے یہاں سے!" شاہ جی نے رعب دار آواز میں کہا اور سلمان کو گردن کے پیچھے سے پکڑ کر اپنی چھڑی سے فرش پر بنائے ہوئے حصار میں پھینک دیا۔ وہی بدبو آس پاس پھیلی ہوئی تھی جو انہیں گاڑی میں محسوس ہوئی تھی۔

"اوہ، تو وہ تُو تھی جو ہمیں یہاں آنے سے روک رہی تھی۔ پر دیکھ، ہم پھر بھی پہنچ گئے!" شاہ جی نے طنز کیا۔

"اگر تو میرے راستے میں آیا تو میں نہ تجھے چھوڑوں گی، نہ تیری بیٹی کو، اور نہ اسے!" اس نے سلمان کی طرف اشارہ کیا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کئی لوگ ایک ساتھ سلمان کے اندر سے بول رہے ہوں، عجیب پھٹی بھدی آوازیں تھیں۔ یہ کہتے ہی وہ اڑتی ہوئی حصار سے باہر جانے لگی، مگر اتنی ہی شدت سے واپس زمین پر آ گری۔

"نکال مجھے یہاں سے، ورنہ میں اسے مار ڈالوں گی!" سلمان نے دھاڑتے ہوئے کہا۔

شاہ جی صائمہ کو دیکھ رہے تھے۔ شکر ہے کہ وہ بروقت پہنچ گئے تھے۔ صائمہ بس بے ہوش تھی، مگر سلمان کی حالت بہت خراب تھی۔ انہیں فوراً سلمان کو بچانا تھا، ورنہ وہ اسے ہمیشہ کے لیے کھو سکتے تھے۔ شاہ جی لمحہ ضائع کیے بغیر اس کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ ان کے چہرے سے غصہ اور جلال واضح تھا۔

"دیکھ، اسے چھوڑ دے اور تابع ہو جا، ورنہ میں تجھے جلا کر راکھ کر دوں گا!" انہوں نے گرج دار آواز میں کہا۔

سلمان، جو سر نیچے کیے بیٹھا تھا، آہستہ آہستہ سر اٹھایا۔ اس کی شکل ہی بدلی ہوئی تھی، اور مسلسل ہنسنے سے سیاہ کالے دانت نمایاں تھے۔ اچانک اس نے اپنے بائیں ہاتھ کے ناخنوں سے خود کو زخمی کرنا شروع کر دیا۔ وہ بلا شاہ جی کے عمل کو روکنے کے لیے ہر طرح کی اذیتیں دے رہی تھی اور مسلسل خوفناک ہنسی ہنس رہی تھی۔

شاہ جی، جو آنکھیں بند کیے بیٹھے تھے، اچانک صائمہ کی چیخ سنائی دی: "بابا، بابا! مجھے بچائیں! وہ سلمان کو لے جا رہی ہے!" شاہ جی جانتے تھے کہ یہ بھٹکانے کے حربے ہیں۔ عمل مکمل کرتے ہی انہوں نے آنکھیں کھولیں۔ سلمان حصار میں بلی کی طرح انہیں دیکھ رہا تھا۔

"چھوڑ دے مجھے! دیکھ، میں اب کبھی تنگ نہیں کروں گی!" اس نے کہا۔

شاہ جی ہلکا سا مسکرائے اور ایک پھونک سلمان کی طرف ماری۔ اچانک ایک زوردار چیخ اور جلنے کی بدبو پھیل گئی۔ چیخ و پکار اتنی شدید تھی کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔ "تیرے جیسی بدروحوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ اب تو واقعی کسی کو نہیں ستا پائے گی۔ تیرے شر سے سب کو نجات مل گئی!" شاہ جی نے کہا۔

ایسا لگا جیسے گھر سے کوئی سیاہ سایہ اٹھ گیا ہو۔ ہر طرف پرسکون خاموشی چھا گئی۔ صائمہ بھی ہوش میں آ چکی تھی۔ شاہ جی کو دیکھتے ہی وہ ان کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

"بس بیٹا، اب یہاں کوئی پریشان نہیں کرے گا۔ بے فکر رہو،" انہوں نے پیار سے صائمہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

مزید پڑھیں

پھر وہ سلمان کو ہسپتال لے گئے۔ وہاں ردا اور خاور کی مدد سے سلمان جلد صحت یاب ہونے لگا۔ صائمہ نے ردا اور خاور کو پہلے ہی سب بتا دیا تھا، اور وہ شاہ جی سے بھی مل چکے تھے۔ صائمہ شاہ جی کی مصروفیات سے واقف تھی، اس لیے جب انہوں نے جانے کی اجازت مانگی تو اسے نہ چاہتے ہوئے بھی اجازت دینی پڑی۔ مگر شاہ جی نے وعدہ کیا کہ باقی وقت وہ ان کے ساتھ ہی رہیں گے۔

(ختم شد)