مجھے اس لڑکے کا رستے میں ملنا اور پھر خاموشی سے میرے پیچھے چلنا بہت برا لگتا تھا۔ وہ کبھی ہم سے بات نہیں کرتا تھا، نہ ہی کچھ کہتا تھا، بس کچھ فاصلے سے ہمارا پیچھا کرتا رہتا تھا۔ میں، فائزہ اور نادرہ تینوں سہیلیاں اسکول سے نکل کر ساتھ ساتھ گھر آتی تھیں۔ میں نے ساتویں کا امتحان پاس کر لیا تھا اور انہی دنوں ابا جی ریٹائرڈ ہو گئے اور گاؤں میں اپنا مکان بنانے کا فیصلہ کیا۔ جہاں ہمارا گھر بن رہا تھا، وہ شہر سے آدھ پون گھنٹے کی دوری پر تھا۔ تعمیر شروع ہو گئی اور جب مکان رہائش کے قابل ہوا تو ہم وہاں منتقل ہو گئے۔ ابھی اوپر کی منزل بن رہی تھی اور مزدور سارا دن کام میں مصروف رہتے تھے۔
ان میں ایک نیا لڑکا بھی کام کرنے آیا تھا، اور وہ وہی لڑکا تھا جو اسکول کے بعد ہمیشہ خاموشی سے ہمارے پیچھے چلتا تھا۔ میں نے اسے اپنے گھر میں کام کرتا دیکھ کر خاموشی اختیار کر لی۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایک غریب بیوہ کا بیٹا ہے اور اس کا نام صدر الدین ہے۔ میں نے اس کو کچھ نہیں کہا، کیونکہ مجھے لگا کہ وہ محنت مزدوری کرکے اپنے اخراجات پورا کرتا ہوگا۔ پھر میں نے سوچا، کیوں نہ اس کے کام میں خلل ڈالوں؟ وہ شاید اسی محنت سے کچھ کما رہا ہو، اس لئے خاموشی بہتر ہوگی۔ ایک دن جب میں کچن میں تھی، وہ پانی مانگنے کے بہانے آیا اور اچانک کہنے لگا، تمہیں پتا ہے، میں یہاں کیوں کام کر رہا ہوں؟ صرف تمہاری خاطر۔ یہ سن کر میں سکتے میں آ گئی۔ ایک روز امی نے اس کو بلا کر کچھ کام بتایا، پھر پوچھا، تمہارے والد کیا کام کرتے ہیں؟ وہ جواب دیا، وہ وفات پا چکے ہیں۔ یہ سن کر امی کو افسوس ہوا اور انہوں نے کہا، بیٹا، تم پڑھتے کیوں نہیں ہو؟ یہ تو تمہارے پڑھنے کی عمر ہے۔ صدر الدین نے کہا، خالہ جی، میں پڑھ رہا ہوں، میٹرک کا امتحان دیا ہے۔
امی یہ سن کر خوش ہو گئیں اور ان کے دل میں اس لڑکے کی عزت بڑھ گئی۔ صدر الدین تقریباً دو ماہ تک ہمارے گھر میں کام کرتا رہا، دل میں میری محبت کی چپ ہوئی شمع جلائے، اور اپنے جذبات کو چھپائے رکھا۔ جب بھی مجھے کسی کمرے میں آتے جاتے دیکھتا، وہ خاموشی سے بیٹھ کر مجھے دیکھتا رہتا، لیکن جیسے ہی میں اس کی طرف دیکھتی، وہ فوراً اٹھ کر دوسری جگہ بیٹھ جاتا۔ میں نے اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ یہ غریب لڑکا مجھ سے محبت کرتا ہے، لیکن میرے دل میں اس کے لئے جگہ نہیں تھی۔ شاید اس لئے کہ اس کی زندگی کا معیار ہم سے کم تھا، اور میں نے اسے اپنی حیثیت سے نیچے سمجھا تھا۔ جب ہمارے مکان کی تعمیر مکمل ہوئی، تو وہ اچانک غائب ہو گیا۔ اس کے بعد وہ مجھے دیکھنے کے لئے بے تاب رہتا تھا، کیونکہ اب میں اسکول نہیں جاتی تھی۔ میں گھر پر پرائیویٹ امتحان کی تیاری کر رہی تھی اور سارا دن پڑھائی میں مصروف رہتی تھی، اس لئے میری نظر کسی اور طرف نہیں جاتی تھی۔
امی یہ سن کر خوش ہو گئیں اور ان کے دل میں اس لڑکے کی عزت بڑھ گئی۔ صدر الدین تقریباً دو ماہ تک ہمارے گھر میں کام کرتا رہا، دل میں میری محبت کی چپ ہوئی شمع جلائے، اور اپنے جذبات کو چھپائے رکھا۔ جب بھی مجھے کسی کمرے میں آتے جاتے دیکھتا، وہ خاموشی سے بیٹھ کر مجھے دیکھتا رہتا، لیکن جیسے ہی میں اس کی طرف دیکھتی، وہ فوراً اٹھ کر دوسری جگہ بیٹھ جاتا۔ میں نے اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ یہ غریب لڑکا مجھ سے محبت کرتا ہے، لیکن میرے دل میں اس کے لئے جگہ نہیں تھی۔ شاید اس لئے کہ اس کی زندگی کا معیار ہم سے کم تھا، اور میں نے اسے اپنی حیثیت سے نیچے سمجھا تھا۔ جب ہمارے مکان کی تعمیر مکمل ہوئی، تو وہ اچانک غائب ہو گیا۔ اس کے بعد وہ مجھے دیکھنے کے لئے بے تاب رہتا تھا، کیونکہ اب میں اسکول نہیں جاتی تھی۔ میں گھر پر پرائیویٹ امتحان کی تیاری کر رہی تھی اور سارا دن پڑھائی میں مصروف رہتی تھی، اس لئے میری نظر کسی اور طرف نہیں جاتی تھی۔
پھر ایک دن صدر الدین اچانک ہمارے گھر آ گیا۔ امی نے پوچھا، کیا بات ہے بیٹا، کوئی ضرورت ہے؟ صدر الدین نے جواب دیا، خالہ جان، کچھ خاص نہیں، بس ویسے ہی گزر رہا تھا، آپ کو سلام کرنے آیا ہوں۔ پھر اس نے بتایا کہ وہ گاؤں میں فصلوں کے موسم میں مزدوری ڈھونڈنے آیا تھا۔ مجھے فوراً اندازہ ہو گیا کہ وہ بہانے سے یہاں آیا ہے۔امی نے اسے ٹھنڈا پانی دیا اور کہا، بیٹا، میں اپنے شوہر سے بات کرکے تمہیں مزدوری دلا دوں گی، تم پھر آنا۔ اس وقت میری چھوٹی بہن ریاضی کے سوال حل کر رہی تھی۔ کہنے لگی، امی جان، یہ سوال میری سمجھ میں نہیں آ رہے۔ امی بولیں، ٹھہرو، میں صدر الدین سے پوچھتی ہوں۔ انہوں نے سوال اسے دکھایا تو وہ بولا، یہ تو بہت آسان سوال ہے۔ ایک منٹ میں ہی دروازے پر کھڑے کھڑے اس نے سوال سمجھا دیا۔ میری ماں بولیں، تم کھیتوں کی مزدوری کیوں کرتے ہو؟ ٹیوشن پڑھایا کرو۔ صدر الدین نے جواب دیا، خالہ جی، گاؤں والے کب ٹیوشن پڑھاتے ہیں؟ اچھا! تم میری بچی کو ٹیوشن پڑھا سکتے ہو تو کل سے یہاں آ جانا۔ اس کے بعد وہ روز ہمارے گھر آنے لگا اور ہم دونوں بہنوں کو پڑھا کر چلا جاتا۔
اس نے پڑھاتے ہوئے کبھی نظر اوپر نہیں اٹھائی، ہمیشہ نظریں کتاب یا کاپی پر رکھتا تھا، کبھی کوئی فالتو بات نہ کرتا۔ بس جیسے گم صم ہزاروں امنگوں کے ساتھ آتا، ویسے ہی خاموش اور ناکام محبت دل میں لیے واپس چلا جاتا۔ امتحان ختم ہو گئے تو ہم نے ٹیوشن ختم کرنا چاہی، تب اس نے ایک التجا بھرا خط مجھے لکھا کہ میری ٹیوشن ختم نہ کرو۔ جب وہ مجھے پڑھاتا تھا تو میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا، بس یہی سوچ دماغ میں گردش کرتی رہتی تھی کہ مجھے اس سے کس طرح جان چھڑانی ہے کیونکہ وہ اسکول کے زمانے سے میرے لئے ایک الجھن بنا ہوا تھا۔ میں نے اس خط کا کوئی نوٹس نہ لیا اور اسے آگ میں جھونک دیا۔ دوسرے روز امی نے اسے تنخواہ دینے کو بلایا تھا۔ اتفاق سے میں دروازے پر گئی، اس نے پھر سے ایک خط مجھے دے دیا جس میں لکھا تھا، خدارا میری ٹیوشن ختم نہ کرنا، ورنہ میرا رابطہ ختم ہو جائے گا اور میں تم کو دیکھ نہیں پاؤں گا۔ خط میری مٹھی میں تھا کہ امی وہاں آ گئیں۔ میں نے مٹھی کو دوپٹے میں چھپا لیا اور وہاں سے ہٹ گئی۔
مجھے خط کو جلانے کا موقع نہ ملا تو میں نے کمرے میں جا کر اپنی کتاب میں رکھ دیا تاکہ جب گھر میں کوئی نہ ہو تو جلا دوں گی۔ اتفاق سے وہ خط میری بہن کے ہاتھ لگ گیا۔ اس نے لے جا کر وہی خط امی کو دے دیا۔ وہ سمجھیں کہ میری اس کے ساتھ کچھ ملی بھگت ہے۔ انہوں نے مجھے الزام دیا کہ تم بھی اس کے ساتھ ملی ہوئی ہو، ورنہ اس کو یہ سب لکھنے کی جرات کیسے ہوئی؟ اب سمجھی کہ وہ کیوں بار بار آتا تھا۔ میں نے لاکھ کہا کہ اس میں میرا کوئی دوش نہیں، لیکن ماں کو یقین نہ آیا۔ ان کا خیال تھا کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ مجھے بڑا غصہ آیا، مگر کیا کرتی؟ سوچتی تھی کہ صدر الدین کہیں مل جائے، تو اس کو خوب برا بھلا کہوں۔ اس کی وجہ سے گھر والوں نے مجھے اپنی نظروں سے گرا دیا ہے۔ کچھ دنوں بعد وہ پھر سے ہمارے دروازے پر آ گیا۔ اس کو خبر نہ تھی کہ امی نے اس کا خط پڑھ لیا ہے۔ میری ماں تو صدر الدین کو دیکھتے ہی آپے سے باہر ہو گئیں۔ اس کو بے غیرت، کمینہ، نمک حرام اور جانے کیا کچھ کہہ دیا۔ اس کی ایسی حالت ہو گئی کہ خود مجھ کو بھی اس بے چارے پر ترس آگیا۔
اس کے بعد وہ نہ صرف گاؤں بلکہ اپنے گھر سے بھی چلا گیا، نجانے کہاں، پھر کسی کو نظر نہ آیا۔ حتیٰ کہ اس کی بیوہ ماں رو رو کر اس کے غم میں اندھی ہو گئی۔ جاتے ہوئے اس نے ماں کو رو رو کر اپنا دکھ سنایا تھا اور ہمارا پتا بھی بتایا تھا۔ اس کی ماں ہمارے گھر کئی بار آتی، روتی فریاد کرتی اور چلی جاتی۔ تب ہی میری ماں کا بھی دل دہل جاتا تھا، لیکن ہم اس کا کیا پتا بتاتے، کہاں سے ڈھونڈتے؟ ہمیں کیا خبر تھی کہ وہ کہاں گیا ہے؟ ماں کہتیں، اگر خبر ہوئی کہ میری وجہ سے اس غریب عورت کو بیٹے کی جدائی کا ایسا دکھ سہنا پڑے گا تو شاید میں کبھی اس کی اتنی بے عزتی نہ کرتی۔
اس کے بعد وہ نہ صرف گاؤں بلکہ اپنے گھر سے بھی چلا گیا، نجانے کہاں، پھر کسی کو نظر نہ آیا۔ حتیٰ کہ اس کی بیوہ ماں رو رو کر اس کے غم میں اندھی ہو گئی۔ جاتے ہوئے اس نے ماں کو رو رو کر اپنا دکھ سنایا تھا اور ہمارا پتا بھی بتایا تھا۔ اس کی ماں ہمارے گھر کئی بار آتی، روتی فریاد کرتی اور چلی جاتی۔ تب ہی میری ماں کا بھی دل دہل جاتا تھا، لیکن ہم اس کا کیا پتا بتاتے، کہاں سے ڈھونڈتے؟ ہمیں کیا خبر تھی کہ وہ کہاں گیا ہے؟ ماں کہتیں، اگر خبر ہوئی کہ میری وجہ سے اس غریب عورت کو بیٹے کی جدائی کا ایسا دکھ سہنا پڑے گا تو شاید میں کبھی اس کی اتنی بے عزتی نہ کرتی۔
میں نے بھی میٹرک پاس کر لیا تو میری شادی اپنے چچا زاد سے ہو گئی اور میں بیاہ کر ایک دور کے گاؤں میں چلی گئی۔ یہاں وڈیرا شاہی نظام رائج تھا۔ ایک روز اٹھارہ انیس برس کی ایک لڑکی ہمارے گھر آئی۔ چچی نے بتایا کہ اس کا شوہر ہمارا نیا منشی ہے۔ وہ کبھی کبھار کام میں ہاتھ بتانے ہمارے گھر آجاتی تھی۔ یہ لڑکی جس کا نام شاداں تھا، بہت خوبصورت تھی، لیکن غربت کی ستائی ہوئی لگتی تھی۔ وہ اکثر آتی رہتی تھی، یوں میری اس سے دوستی ہو گئی۔ ایک روز اس نے مجھے اپنی آپ بیتی سنائی کہنے لگی، جب میں نا سمجھ تھی تو ماں کے ساتھ سردار صاحب کے گھر جایا کرتی تھی۔ ماں ان کے گھر پر اور باپ ان کی زمینوں پر کام کرتا تھا۔ جب میں بڑی ہوئی تو ماں کے ساتھ مل کر سردار کے گھر کے کام کرنے لگی۔ دھان کوٹنا، اناج پھٹکنا، سرخ مرچیں کوٹ کر رکھنا۔ اس مشقت کا معاوضہ رقم کی صورت میں تو کم ملتا، لیکن سال بھر کا اناج گندم اور چاول کی صورت میں مل جاتا تھا۔
جب میں سولہ سال کی ہو گئی تو ماں نے میرا نکاح اپنی بہن کے لڑکے سے کر دیا جو دوسرے گاؤں میں رہتا تھا۔ ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ میرے ساتھ یہ واقعہ ہو گیا جس کو اپنی بدقسمتی ہی کہہ سکتی ہوں۔ ایک دن سردار صاحب کا بیٹا شیر باز شہر سے تعلیم مکمل کر کے گھر آگیا۔ اس نے مجھے دیکھا تو اس کے دل میں کسی مرض نے جنم لے لیا۔ ایک روز اس کے کمرے میں جھاڑ پونچھ کر رہی تھی کہ وہ اچانک اندر آیا اور کمرے کا دروازہ بند کر لیا اور ایسی باتیں مجھ سے کرنے لگا، جو بیان نہیں کر سکتی۔ اس قدر خوفزدہ ہوئی کہ بلند آواز سے چلانا شروع کر دیا۔ میری آواز سن کر گھر کی عورتیں شیر باز کے کمرے کے باہر جمع ہو گئیں۔ ان میں اس کی ماں، بہنیں اور منکوحہ بھی تھی جو اس کی چچا زاد تھی۔ سردارنی نے دروازہ پیٹ کر کہا، کیا بات ہے؟ گھبرا کر شیر باز نے دروازہ کھولا اور تیزی سے باہر چلا گیا، لیکن میری شامت آ گئی۔ میں نے رو کر مالکن کو ساری بات بتا دی، امید تھی کہ وہ مجھے تسلی دیں گی، لیکن انہوں نے جوتا اٹھا کر میری کمر پر دو چار جڑ دیئے۔
بولیں، خبردار جو اس بات کی باہر کسی کو خبر ہوئی، زندہ تنور میں ڈلوا دوں گی۔ حرام خور، ایسے چل رہی تھی جیسے کوئی ذبح کر رہا ہو۔ دفع ہو جا اور آئندہ اپنی منحوس شکل نہ دکھانا۔ اس کے بعد میری ماں کو بلا کر خوب لعن طعن کی اور کہا کہ اس نامراد کی فوراً شادی کر دے۔ یہ اپنے آپ سے سنبھالی نہیں جا رہی۔ یوں اگلے ہفتے میری شادی کر دی گئی۔ شادی سے ایک روز پہلے شیر باز کی منکوحہ اپنی خالہ کے ہاں گئی اور وہاں مجھے بلا کر کہا، سچ سچ بتا، قصور تیرا بھی شامل تھا کہ صرف شیر باز اکیلا مجرم ہے؟ میں نے رو رو کر سچ بتا دیا۔ اس کو یقین آ گیا۔ گھر جا کر اس نے اپنی ماں کو تمام حال بتایا تو انہوں نے شیر باز کی ماں سے خوب جھگڑا کیا۔ شیر باز کو بھی لعن طعن کی گئی، جس پر سردارنی اور شیر باز دونوں ہی میری جان کے دشمن ہو گئے۔
میری شادی کو صرف دو ماہ ہوئے تھے۔ گرمیوں کے دن تھے۔ ساس اور میں صحن میں سو رہے تھے، جبکہ میرے سسر اور شوہر کھیتوں میں پانی لگانے گئے ہوئے تھے۔ رات کا دوسرا پہر تھا کہ اچانک ہماری پالتو کتیا نے بھونکنا شروع کر دیا۔ ہماری آنکھ کھل گئی، سر اٹھا کر دیکھا تو خوف سے لرزنے لگی۔ تین آدمی پگڑیوں سے اپنے منہ لپیٹے ہوئے تھے اور ان کے ہاتھوں میں کلہاڑیاں تھیں۔ ایک نے بڑھ کر کتیا پر وار کیا، وہ تو وہیں ٹھنڈی ہو گئی۔ اس کے بعد وہ مجھے چارپائی سمیت اٹھا کر اندر کمرے میں لے گئے۔ بس آپ سمجھ لیں کہ یہاں غریب عورت کس قدر غیر محفوظ اور بے بس ہے۔ کاش وہ رات میری زندگی میں کبھی نہ آتی۔ اس سے تو اچھا تھا کہ مجھے موت آجاتی۔ وہ تین شیطان تھے اور میں اکیلی بے چاری، بوڑھی ساس باہر صحن میں خوف سے نیم غنودگی میں اکیلی پڑی تھی۔ اس وقت کا دکھ بیان نہیں کر سکتی۔ میری ناموس کو خاک میں ملا کر بھی ان کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا اور انہوں نے کھیتوں میں جا کر میرے شوہر کو جان سے مار دیا، تاکہ میں سہاگن نہ رہوں۔ یہاں دور دور گھر بنے ہوتے ہیں اور سرداروں کے معاملات ہوں تو یوں بھی اگر کوئی غریب مداخلت کی جرات کرے تو عزت اور جان دونوں گنوانی پڑتی ہیں۔
میرے شوہر کا قتل ہوا تھا۔ صبح کو پولیس گھر آ گئی۔ میری حالت زار سے معاملہ سمجھ گئے، لیکن انہوں نے بھی میرا معاملہ گول مول کر دیا۔ یہاں کا نظام ہی ایسا ہے۔ پولیس بھی طاقتور کی مٹھی میں ہوتی ہے، بھلا غریب کو انصاف کیسے مل سکتا ہے اور ہم تو بہت بے آسرا اور غریب لوگ تھے۔ صدیوں سے ہمارے علاقے میں سرداری نظام چل رہا تھا۔ ہماری حیثیت ان کے سامنے بے زبان غلام سے زیادہ نہیں تھی۔ مجھے شاداں کی باتوں نے بہت متاثر کیا۔ وہ واقعی پڑھی لکھی لگ رہی تھی۔
میرے شوہر کا قتل ہوا تھا۔ صبح کو پولیس گھر آ گئی۔ میری حالت زار سے معاملہ سمجھ گئے، لیکن انہوں نے بھی میرا معاملہ گول مول کر دیا۔ یہاں کا نظام ہی ایسا ہے۔ پولیس بھی طاقتور کی مٹھی میں ہوتی ہے، بھلا غریب کو انصاف کیسے مل سکتا ہے اور ہم تو بہت بے آسرا اور غریب لوگ تھے۔ صدیوں سے ہمارے علاقے میں سرداری نظام چل رہا تھا۔ ہماری حیثیت ان کے سامنے بے زبان غلام سے زیادہ نہیں تھی۔ مجھے شاداں کی باتوں نے بہت متاثر کیا۔ وہ واقعی پڑھی لکھی لگ رہی تھی۔
پتا چلا کہ وہ آٹھویں پاس ہے اور اس کا دوسرا شوہر میٹرک پاس ہے۔ ایک دن اس کے شوہر کو دیکھا۔ وہ چچا کے پاس کسی کام سے کھاتوں کے رجسٹر لایا تھا۔ اتفاق سے بیٹھک میں جاتے ہوئے میں نے اسے اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھ لیا۔ یہ صدر الدین تھا۔ میں نے اسے یہاں دیکھ کر حیران رہ گئی۔ بعد میں چچی نے بتایا کہ یہ مایوس نوجوان تمہارے چچا کو کچہری میں ملا تھا، جس کو بنا جرم کے پولیس سڑک پر آوارہ گردی کے الزام میں گرفتار کر کے لائی تھی۔ انہوں نے لڑکے کی صورت دیکھی تو وہ بے گناہ نظر آیا۔ اس سے بات چیت کی تو پتا چلا کہ اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ غربت کی پریشانی کے باعث سڑک پر دیر گئے بے مقصد چلتا جا رہا تھا کہ ٹریفک پولیس نے اسے دھر لیا اور آوارہ گردی کا جرم لگا دیا۔
بہرحال چچا اسے ساتھ لے آئے، اسے پناہ دے دی، روزگار دیا اور اپنے ساتھ رکھ لیا، پھر اس کی شادی شاداں سے کروا دی کیونکہ شاداں کا باپ ہمارے چچا کے گاؤں آبسا تھا اور اپنی لڑکی کی دوسری شادی کے لئے پریشان رہتا تھا۔ اس نے میرے چچا کے پاس پناہ لے لی تھی، لہٰذا چچا کا بھی فرض بنتا تھا کہ اس کے مسئلے مسائل حل کرے۔ انہوں نے اپنے منشی صدر الدین کو مظلوم شاداں کی دکھ بھری داستان سنائی تو وہ اس لڑکی سے شادی پر راضی ہو گیا۔ یوں اسے ایک بار پھر میرے دیدار کا موقع مل گیا۔ شاید اس نے خدا سے صدق دل کے ساتھ یہی دعا کی ہو گی۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
0 تبصرے