معراج دین کی زندگی کی ایک ہی آرزو تھی، جس کے پورا ہونے کا خواب وہ روز دیکھا کرتا تھا کہ اُس کا بیٹا، وقاص دین، ایک دن ماسٹر بنے اور بچوں کو پڑھائے۔ خود وقاص کو بھی ماسٹر بننے کا شوق تھا، شاید اس لیے کہ وہ بچپن سے اپنے باپ کے منہ سے یہی جملہ سنتا آیا تھا:وقاص، دل لگا کر پڑھ، تُو نے بڑے ہو کر ماسٹر بننا ہے۔ یوں وہ جاگتی آنکھوں سے یہ سپنا دیکھا کرتا کہ بہت سے بچے ٹاٹ پر بیٹھے ہیں، اور وہ ایک کرسی پر بیٹھا انہیں پڑھا رہا ہے۔ وقاص کے گاؤں میں اسکول صرف پرائمری تک تھا۔ سیکنڈری اسکول دوسرے گاؤں میں واقع تھا، اور وہاں جانا خاصا مشکل کام تھا۔ ڈیڑھ گھنٹے کا سفر، کھیت اور پگڈنڈیوں سے گزر کر، جب گاؤں کی حدود ختم ہوتیں، تب نالہ پار کر کے دوسرے گاؤں کی حدود شروع ہوتیں۔ مگر وقاص ان تمام مشقتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتا تھا۔
معراج دین کے پاس تھوڑی سی زمین تھی، جس پر وہ کاشت کاری کرتا تھا۔ اس کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ دونوں بیٹیوں کو بھی پڑھنے کا بے حد شوق تھا، مگر نزدیکی گاؤں میں کالج نہ ہونے کی وجہ سے وہ میٹرک کے بعد گھر بیٹھ گئی تھیں۔ وقاص کی پڑھائی اور رہائش کے اخراجات کے لیے کافی رقم درکار تھی۔ معراج دین کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ اتنی بڑی رقم کا بندوبست خود سے کر سکے۔ وہ سخت پریشان رہنے لگا۔ تب اس کی بیوی، ثریا بی بی، نے مشورہ دیا کہ وہ اپنی بکریاں فروخت کر دے۔ یوں وقاص کا کالج میں داخلہ ہو گیا، اور ہاسٹل میں رہنے کا بندوبست بھی ہو گیا۔ اسی دوران معراج دین کی بڑی بیٹی کی بات بھی پکی ہو گئی۔ چار ماہ بعد اس کی شادی طے تھی۔ ثریا بی بی نے شوہر سے کہا اب جب کہ وقاص کی پڑھائی کا مسئلہ حل ہو گیا ہے، تو بیٹی کی شادی کے لیے بھی کچھ بندوبست کریں۔ مجبوری کے عالم میں معراج دین اپنے گاؤں کے جاگیردار، ملک سرفراز، کے پاس گیا اور ساری صورتحال بیان کر کے مالی مدد کی درخواست کی۔ ملک سرفراز نے مشفق لہجے میں کہارقم تو میں دے دوں گا، مگر اس کے لیے تمہیں اپنی زمین کے کاغذات بطور ضمانت میرے پاس رکھنے ہوں گے۔ اس کے بغیر میں قرض نہیں دے سکتا۔
یہ سن کر معراج دین گھبرا گیا، لیکن بیٹی کی شادی کے لیے وہ مجبور تھا۔ اس نے زمین کے کاغذات ملک سرفراز کے حوالے کر دیے اور بدلے میں مطلوبہ رقم حاصل کر لی۔ گھر پہنچ کر اس نے ساری بات ثریا بی بی کو بتا دی۔ ثریا بی بی بے حد پریشان ہو گئی اور بولی تم نے بہت بڑی غلطی کی کہ زمین کے کاغذات ملک کے حوالے کر دیے۔ اگر مجھے اس شرط کا علم ہوتا، تو میں ہرگز اجازت نہ دیتی ۔ معراج دین نے تھکے ہوئے لہجے میں کہاایسے ہی قرض دیا جاتا ہے، ضمانت تو دینی پڑتی ہے۔ اگر میں قرضہ واپس نہ کر سکا، تو زمین ضبط ہو جائے گی ۔ مگر ہماری زمین تو قرض کی رقم سے کئی گنا زیادہ ہے۔ خدا ان کا بیڑا غرق کرے، یہ جاگیردار خود کو جانے کیا سمجھتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ ہم جیسوں کی مجبوریاں کیا ہیں، مگر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہمارے اپنے بھی ہماری طرح غریب ہیں، کوئی اور ہمیں قرض نہیں دے سکتا تھا۔ مجھے تو ہر حال میں بیٹی کی شادی کرنی تھی ۔
اگلے مہینے معراج دین کی بیٹی کی رخصتی ہو گئی اور اس نے سکون کا سانس لیا۔ وہ اپنی چھوٹی سی زمین پر کام کرتا تھا، لیکن آمدنی بمشکل گھر کا خرچ پورا کرتی۔ اب تو اس پر قرض کا بوجھ بھی آ گیا تھا۔ وہ صبح سے شام تک کولہو کے بیل کی طرح کام کرتا۔ پہلے کبھی کچھ فرصت مل جاتی تھی، لیکن اب قرض کے بعد فرصت کا تصور ہی ختم ہو گیا تھا۔ وقاص کی تعلیم پر بھی مسلسل پیسہ خرچ ہو رہا تھا۔ ایک دن ملک سرفراز نے اسے بلا لیا۔ وہ اس کے ڈیرے پر پہنچا، جہاں ملک سرفراز ایک تخت پر گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا، اور باقی لوگ قالین پر نیچے بیٹھے تھے۔ معراج دین نے سلام کیا اور ایک کونے میں بیٹھ گیا ۔ ملک سرفراز نے پوچھاہاں بھئی معراج، تمہارے ارادے کیا ہیں؟ قرض کی رقم واپس کرنے کا بندوبست کیا ہے تم نے؟معراج دین نے تھکے لہجے میں جواب دیاابھی کہاں، ملک صاحب! میری زمین سے جو فصل تیار ہوتی ہے، وہ بمشکل گھر کا خرچ پورا کرتی ہے۔ قرضہ کہاں سے اتاروں؟ملک سرفراز نے تیز لہجے میں کہامیں نے تمہیں منع بھی کیا تھا کہ بیٹے کو اتنی پڑھائی مت کراؤ۔ فضول میں اتنا پیسہ اس کی تعلیم پر لگا دیا۔ اب بھگتو! تمہارے قرض پر سود بڑھتا جا رہا ہے، نہ تم اصل رقم اتار سکے ہو نہ سود۔ وہ دن دور نہیں جب تمہاری زمین ضبط ہو جائے گی ۔ معراج دین حیرت اور بے بسی کے عالم میں ملک سرفراز کو دیکھنے لگا۔ اس نے درخواست کی کہ اسے کچھ مہینے کی مہلت دی جائے۔ اس بار فصل کی کٹائی پر وہ کچھ رقم دے کر قرض اتارنے کی کوشش کرے گا۔
٭٭٭
بخت آور نے مٹکے سے پانی نکالا اور غٹا غٹ پی گئی۔ خالی پیٹ پانی پینے سے پیٹ میں ایک تیز درد کی لہر اٹھی، تو وہ چارپائی پر جا کر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد طبیعت کچھ سنبھلی، تو اس کی نظر سامنے کمرے میں کام کرتی اپنی بیٹیوں پر پڑی۔ بڑی بیٹی، ثمرہ، بڑی دلجمعی سے زمین پر لیاف پھیلائے ڈورے ڈالنے میں مصروف تھی، جب کہ منجھلی بیٹی دوپٹے پر کروشیا کا کام کر رہی تھی ۔دونوں شادی کے قابل ہو چکی تھیں، مگر بغیر جہیز کے کوئی ان سے شادی پر آمادہ نہ ہوتا۔ ان کے گھر میں تو بمشکل چھ افراد کا کھانا پورا ہوتا تھا۔ بخت آور اور سکندر کی چار اولادوں میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا، عاقب، شامل تھا۔ جس دن عاقب پیدا ہوا تھا، سکندر نے فوراً مسجد جا کر شکرانے کے نفل ادا کیے تھے اور بیٹے کے نیک و صالح ہونے کی دعائیں مانگی تھیں۔ سکندر ایک بنگلے میں ڈرائیور تھا۔ اس کی قلیل آمدنی میں بمشکل گزارہ ہو پاتا۔ بچوں کو انہوں نے سرکاری اسکول میں داخل کرایا ہوا تھا۔ ثمرہ اور فوزیہ میٹرک کے بعد گھر بیٹھ گئی تھیں اور اب سلائی کڑھائی، مصالحوں کی پیکنگ، اور ہلکے پھلکے کاموں میں مصروف تھیں۔
روز بروز بڑھتی مہنگائی کے باعث سکندر نے بیرونِ ملک، خاص طور پر سعودی عرب جانے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں ایک ایجنٹ سے بات چیت چل رہی تھی۔بخت آور کو اپنی چھوٹی بیٹی اور بیٹے کے اسکول سے واپس آنے کا وقت یاد آیا۔ وہ چارپائی سے اٹھی اور بیرونی دروازے پر جا کر کواڑ کی آڑ سے گلی میں جھانکنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں عاقب اور زینت، بیگ لٹکائے آتے دکھائی دیے۔ دونوں نے قریب آ کر سلام کیا اور اندر داخل ہو گئے۔ جب تک وہ کپڑے تبدیل کر کے آئے، بخت آور دری بچھا کر کھانا لگا چکی تھی۔آج بھی پانی کی طرح پتلی دال اور روٹیاں دستر خوان پر تھیں۔ چاروں بچے ماں کے ساتھ بیٹھ کر کھانے لگے۔ عاقب نے بمشکل ایک روٹی کھائی اور ہاتھ کھینچ لیا۔ عاقب، اور روٹی لو نا، بخت آور نے کہا۔نہیں امی، دل نہیں چاہ رہا۔ میں سونے جا رہا ہوں۔ ایک گھنٹے بعد جگا دیجیے گا، مجھے ٹیسٹ کی تیاری کرنی ہے۔ کل اسکول میں دو دو ٹیسٹ ہیں۔یہ کہہ کر عاقب دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ رات دس بجے جب سکندر کام سے واپس آیا، تو بخت آور نے کھانا اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ عاقب کے ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ وہ کھاتا بھی کم ہے اور پڑھائی کا بوجھ بھی بہت ہے۔ اسے روز آدھا کلو دودھ ملنا چاہیے، ایک گلاس صبح اور ایک رات کو۔ سکندر نے نوالہ منہ میں رکھتے ہوئے جواب دیا کہ نہ بخت آور، صرف عاقب ہی کیوں؟ دودھ آئے گا، تو چاروں بچوں کو ملے گا۔ میری بیٹیاں کیا کم محنت کر رہی ہیں؟ بس دعا کرو کہ جلدی سے پیسوں کا بندوبست ہو جائے، تو میں سعودی عرب روانہ ہو جاؤں۔بخت آور نے پوچھا کہ تم نے چچا الیاس سے بات کی؟ ان کے دونوں بیٹے دبئی میں ہیں، پیسے کی ان کے پاس کوئی کمی نہیں۔
سکندر نے جواب دیا کہ ہاں، کی تھی۔ واپسی پر ان کے ہاں سے ہو کر آیا ہوں۔ ایک لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا ہے، مگراتنے میں کام نہیں چلے گا۔ مزید رقم کی ضرورت ہے۔ سکندر کی بات سن کر بخت آور پریشان ہو گئی۔ کہنے لگی کہ کب سے تم پیسوں کا بندوبست کرنے کی کوشش کر رہے ہو اور وقت ہے کہ گزرتا ہی جا رہا ہے۔ میں کل بھائی سے جا کر بات کرتی ہوں۔ ابا کا مکان جو اس نے بیچا، اس کا میرا حصہ اس نے آج تک نہیں دیا۔ تین سال ہو گئے، اس رقم سے کاروبار کرتا پھر رہا ہے، مگر مجال ہے جو دینے کا کبھی ذکر بھی کیا ہو۔ سکندر نے روکتے ہوئے کہا کہ بخت آور، تم ذاکر سے حصے کا تقاضا کرو گی، تو وہ یہی سمجھے گا کہ میں نے تمہیں بھیجا ہے۔ بخت آور بولی، سمجھ دار ہے، پر میں اپنا حق مانگنے جا رہی ہوں۔ پہلے اس لیے پیچھے نہیں پڑی کہ ایسی ضرورت نہیں تھی۔یہ کہہ کر وہ خاموشی سے کھانے لگا۔
☆☆☆
سردیوں کا موسم تھا، چولہے کی گرمی سے اسے سکون مل رہا تھا۔ بیٹھے بیٹھے اسے پیاس محسوس ہوئی، تو اس نے کھانے سے فارغ ہو کر لیٹنے کا ارادہ کیا۔ لیٹنے لگا تو اسے عاقب کتاب اٹھائے پڑھتا نظر آیا۔بیٹا، رات ہو گئی ہے، اب سو جاؤ۔ابو، بس تھوڑا سا یاد کرنا باقی ہے۔ وہ بولا۔ عاقب چوتھی جماعت میں پڑھ رہا تھا۔ کلاس میں ہمیشہ وہ پہلی پوزیشن لیتا تھا۔ سکندر کا ارادہ تھا کہ وہ باہر جا کر جب سیٹ ہو جائے گا، تو عاقب اور زینت کو کسی پرائیویٹ اسکول میں داخل کروا دے گا۔ بخت آور اس کے ساتھ والی چارپائی پر لیٹ گئی تھی۔بخت آور، میری بیٹیوں سے کہا کرو کہ میرے لیے دعا کریں، میں جلد از جلد سعودی عرب پہنچ جاؤں۔ بیٹیوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں، میرے ابا مرحوم کہا کرتے تھے۔ہاں، یہاں کہہ رکھا ہے میں نے ان کو۔ بخت آور نے جواب دیا۔ فوراً ہی اس کا دھیان اپنے بھائی کی طرف چلا گیا۔ کل اسے ہر حال میں جا کر ان سے ملنا تھا۔ اگلے دن، رات میں وہ اپنے بھائی کے کچے پکے گھر میں موجود تھی۔ ذاکر بخش کو اس کے آنے کا مقصد معلوم ہوا تو اس نے اسے صاف انکار کر دیا۔ بخت آور، تم کیا سمجھ رہی ہو کہ میں دکان سے لاکھوں کما رہا ہوں؟ چھوٹی سی پرچون کی دکان ہے میری جس میں ادھار مال ڈال رکھا ہے۔ دکان کی کمائی میں اپنے گھر کا خرچہ مشکل سے نکل رہا ہے۔ میں تمہیں کہاں سے رقم دے سکتا ہوں؟میں تم سے ادھار نہیں، اپنا حصہ مانگ رہی ہوں۔ ابا کی وفات کے بعد تمہیں خود میرا حصہ دے دینا چاہیے تھا، مگر تم نے کاروبار کا بہانہ بناتے ہوئے اس وقت انکار کیا تھا اور اب بھی کر رہے ہو۔
ذاکر بھائی، تم میری مجبوری کو سمجھو۔ مجھے اپنی لڑکیوں کی شادیاں کرنی ہیں۔ یہاں ہمارا خرچ ہی پورا نہیں پڑ رہا، تبھی تو سکندر سعودیہ جانا چاہتا ہے۔ اس کا لہجہ ملتجی تھا۔ دیکھو بخت آور، اماں ابا نے کوئی وصیت تو کی نہیں تھی کہ تم ان کی وراثت کی حق دار ہوتیں۔ اور جب میں نے ابا کی وفات کے بعد گھر بیچ کر کاروبار شروع کیا تھا، تب بھی تم حصے کا تقاضا کرنے چلی آئیں۔ تمہیں اگر ذرا سا بھی احساس ہوتا تو تم حصہ مانگنے نہ آتیں، مگر تمہیں مجھ سے یا میرے بچوں سے کیا انسیت؟ ذاکر بولا تو بخت آور، جو پچھلے ایک گھنٹے سے اس کے ساتھ بحث کر رہی تھی، گویا ہوئی۔ بھائی، مجھے تمہارا اور تمہارے بچوں کا خیال نہ ہوتا، تو تین سال سے خاموش نہ بیٹھی ہوتی۔ کہیں سے آس نہ بندھنے پر میں تمہارے پاس آئی ہوں۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ تم مجھے حصے کی پوری رقم دو، مگر فی الحال اتنی رقم کا بندوبست کر دو کہ سکندر کے جانے کا انتظام ہو جائے۔ بخت آور بمشکل کہہ سکی۔ بھائی سے اپنا حق مانگتے ہوئے اسے یوں لگ رہا تھا جیسے بھیگ مانگ رہی ہو۔ اس کی بھابی زیبو نخوت بھری نظروں سے اسے گھور رہی تھی۔ اس نے دونوں بہن بھائی کی گفتگو میں مداخلت کی کوشش کی تھی، مگر ذاکر بخش نے اسے خاموش کرا دیا تھا۔
ٹھیک ہے، میں کہیں سے کچھ بندوبست کرتا ہوں۔ اس کی روہانسی صورت دیکھ کر بھائی کا دل پگھلا تھا۔بول دے اپنی بہن کو، یہ جو منہ کھول کر اپنا حصہ مانگنے آئی ہے، رقم وصولنے کے بعد اس گھر میں قدم بھی نہ رکھے، ورنہ چوٹی پکڑ کر باہر کر دوں گی۔ زیبو سے چپ نہ رہا گیا تو بول پڑی۔ خدا حافظ کہتے ہوئے وہ وہاں سے نکل گئی۔ گھر پہنچی تو ثمرہ اور فوزیہ کی سہیلی ناعمہ اپنی امی کے ساتھ موجود تھی۔ وہ دواؤں کی کمپنی میں پیکنگ کا کام کرتی تھی اور یہ بتانے آئی تھی کہ اس کی فیکٹری میں جگہ خالی ہے۔ اگر وہ دونوں چاہیں تو وہاں کام کر سکتی ہیں۔ان کے ابو راضی نہیں ہوں گے۔ وہ تو انہیں محلے کی دکان پر جانے نہیں دیتے۔ بخت آور نے سنتے ہی منع کر دیا۔آخر اس میں برائی کیا ہے؟ تمہاری بیٹیاں گھر پر کام کر کے بھی تو کما رہی ہیں۔ اگر وہاں جا کر کام کر لیں گی تو کون سی برائی ہو جائے گی؟ ناعمہ کی امی بولیں۔بہن، آپ کی بات درست ہے، مگر میرے شوہر کو پسند نہیں کہ لڑکیاں باہر نکل کر کمائیں۔ جیسے تیسے خدا ہمارے گھر کو چلا رہا ہے اور آئندہ بھی چلائے گا۔ بخت آور نے کہا تو وہ تاسف بھری نظروں سے گھر کی حالت دیکھنے لگیں، جہاں بیٹھنے کے لیے ایک کرسی تک نہ تھی۔رقم ملتے ہی سکندر کے سعودی عرب جانے کا بندوبست ہو گیا۔ ساتھ ہی اس کی تمام تیاریاں مکمل ہو گئی تھیں۔ اس کے پاس گنتی میں چند سوٹ تھے، جو اس نے رکھ لیے تھے۔
جانے سے ایک دن قبل وہ پورا دن گھر پر بیوی بچوں کے ساتھ رہا تھا۔ گھر کے تمام افراد یہ سوچ کر دکھی تھے کہ وہ بہت دور جا رہا ہے۔ سکندر کو رخصت کرتے ہوئے سب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ بخت آور، جو شوہر کے کام سے دیر سے لوٹنے پر پریشان ہو کر فوراً دعائیں مانگنے لگتی تھی، اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے شوہر کو بیرون ملک بھیجنے کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کر چکی تھی۔سکندر نے سعودی عرب پہنچ کر اپنی خیریت سے آگاہ کیا، تو بخت آور پرسکون ہو گئی۔
☆☆☆
دن تیزی سے گزر رہے تھے۔ مہینے سالوں میں بدلنے لگے۔ رفتہ رفتہ ان کے گھر میں خوشحالی نظر آنے لگی تھی۔ اسنے گھر میں فرنیچر ڈلوا کر رنگ و روغن بھی کروا لیا تھا، جس سے گھر کا نقشہ ہی بدل گیا تھا۔ وقاص کو شہر میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے کئی برس گزر چکے تھے۔ اس نے بی ایڈ میں اپنے کالج میں پوزیشن حاصل کی تھی۔ اس کا شمار ہو نہار طالب علموں میں ہوتا رہا تھا۔ اب وہ نوکری کی تلاش میں تھا۔ اس نے سرکاری ملازمت کے لیے امتحان دیا تھا اور نتیجے کے انتظار میں تھا۔ اسی دوران معراج دین کی چھوٹی بیٹی عفیفہ کی شادی بھی طے ہو گئی تھی۔ایک دن عفیفہ کی ساس آئیں اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد بولیں کہ ثریا، تم نے عفیفہ کے لیے کوئی سیٹ وغیرہ بھی بنوایا ہے یا بیٹی کو یوں ہی رخصت کرو گی؟ثریا بی بی ان کے اس سوال پر پریشان ہو گئیں۔ باجی رشیدہ، سونے کی قیمتیں تو آسمان کو چھو رہی ہیں۔ ہم جیسے لوگ بیٹی کو سونے کا سیٹ کہاں سے دے سکتے ہیں؟ان کی ساس بولیں، ہمارے ہاں بہوئیں سونے کے زیورات کے بغیر نہیں آتیں۔ میری دونوں بہوؤں کو ان کے میکے والوں نے سونے کے سیٹ دیے تھے۔ اب ان کے سامنے عزت بنائے رکھنے کے لیے عفیفہ کے پاس بھی تو سونے کا زیور ہونا چاہیے۔ ویسے بھی والدین جو چیز جہیز میں دیتے ہیں، اس کا فائدہ ان کی بیٹی کو ہی ہوتا ہے۔عفیفہ کی ساس کہے جا رہی تھیں اور پریشان حال ثریا بی بی کا ذہن بھٹکنے لگا تھا۔ عفیفہ کی شادی کے اخراجات ہی کیا کم تھے کہ اوپر سے سونے کا سیٹ؟ وہ یکدم پریشان ہو گئیں۔
عفیفہ کی ساس کے رخصت ہوتے ہی، انہوں نے اپنی پریشانی شوہر اور بیٹے کو بتائی۔ معراج دین نے کہا کہ اب جب شادی کی تاریخ طے ہو گئی ہے، تو رشیدہ بی بی نے یہ ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ وہ کافی متفکر نظر آ رہا تھا۔وقاص بولا، میں تو کہتا ہوں، انہیں منع کر دیں۔ اب ایسے تو منع نہیں کر سکتے۔ ان کو بس دنیا دکھاوے کا شوق ہے۔ وہ کون سا اپنے لیے زیور مانگ رہی ہیں۔معراج دین نے کہا، پہلے ہی میری زمین ملک سرفراز نے ہتھیالی ہے۔ کچھ رقم جو اس نے دی تھی، وہ میں نے عفیفہ کی شادی کے لیے رکھ چھوڑی تھی۔ ان پیسوں میں سیٹ تو نہیں بن سکتا۔ اب میں ملک سرفراز کے پاس ادھار مانگنے جاؤں، تو میرے پاس ہے ہی کیا! شکر ہے کہ جیسے تیسے کر کے وقاص کی تعلیم پوری ہو گئی، ورنہ وہ بھی ادھوری رہ جاتی۔ثریا بی بی نے کہا، میرے پاس اس مسئلے کا حل ہے۔ ہمارے جاننے والوں میں صرف رفعت ہی ہیں جن کے حالات وقت کے ساتھ بدلے ہیں۔ میں ان سے بات کرتی ہوں۔ اگر وہ رقم ادھار دے دیں تو ہمارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ویسے بھی وقاص نے نوکری کے لیے درخواست دے رکھی ہے، نوکری ملنے کی دیر ہے، ہم ان کا قرض اتار دیں گے۔وقاص بولا، اماں، اتنی رقم بھلا کون ادھار دیتا ہے؟ دیکھ لینا، وہ منع کر دیں گی۔ثریا بی بی بولیں، کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ انہیں بڑی آس تھی۔ وہ دو روز بعد ہی اپنی خالہ زاد بہن رفعت آرا کے گھر میں موجود تھیں۔بھئی، میں نے تو اپنی کلثوم کے جہیز کی ایک ایک چیز رکھ چھوڑی ہے تاکہ جیسے ہی رشتہ آئے، فوراً ہی اسے رخصت کر دوں۔ ایک ہی تو میری بیٹی ہے، اس کی شادی پر تو میں اپنا ہر ارمان پورا کروں گی۔
رفعت آراء آدھے گھنٹے سے اپنی امارات کا رعب جھاڑ کر ثریا بی بی کو مرعوب کر رہی تھیں اور ثریا بی بی ان کی ہاں میں ہاں ملا رہی تھیں۔ثریا، ایک ہی بیٹا ہے تمہارا۔ اس کی پڑھائی پر تم نے اتنا پیسہ لگا دیا، تمہیں اسے کوئی آفیسر بنانا چاہیے تھا۔ میرے جہاں زیب کو دیکھ لو، انکم ٹیکس آفیسر ہے۔ تبھی تو اتنے اچھے گھر میں اس کی شادی ہوئی ہے۔ ٹرک بھر کر جہیز ملا ہے۔ اس کے سسر نے خود رشتہ پیش کیا تھا۔ثریا بی بی نے ان کے چپ ہونے پر بات کی۔آپا، میں آپ کے پاس ایک عرضی لے کر آئی تھی۔ عفیفہ کے سسرال والے شادی کی تاریخ رکھ گئے ہیں۔ اگلے مہینے اس کی شادی ہے۔بہت مبارک ہو تمہیں۔ تمہاری عفیفہ تو بہت خوبصورت ہے، تبھی تو اس کا رشتہ طے ہو گیا۔ میری کلثوم کے لیے بھی دعا کرتی رہا کرو۔ رنگت کی وجہ سے اس کا رشتہ طے نہیں ہوتا، ورنہ نین نقش تو بہت پیارے ہیں۔ رفعت آراء نے قطعِ کلامی کرتے ہوئے کہا۔ثریا بی بی نے نرمی سے کہا، ہاں، ضرور دعا کروں گی۔ فی الحال تو مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ عفیفہ کی شادی سر پر ہے، پیسے کم پڑ رہے ہیں۔ اوپر سے اس کی ہونے والی ساس باتوں میں سنا گئی ہیں کہ ان کی دونوں بہوؤں کو جہیز میں سونے کے زیورات ملے ہیں، اس لیے عفیفہ کو بھی ملنے چاہییں۔ پہلے تو میں انہیں بہت سیدھی سمجھ رہی تھی، مگر لوگ جو دکھائی دیتے ہیں، ویسے ہوتے نہیں۔ بیٹی کی سسرال میں عزت رہے، اس لیے سونا دینا ہو گا۔ آپا، میں آپ سے ادھار مانگنے آئی ہوں۔ مجھے عفیفہ کے لیے سیٹ بنانا ہے، پیسوں کی شدید ضرورت ہے۔ وقاص نے گورنمنٹ جاب کے لیے درخواست دے رکھی ہے، اس کی نوکری لگ جائے گی تو میں قرضہ اتار دوں گی۔ ثریا بی بی کا لہجہ ملتجی تھا۔
رفعت آراء نے ہامی بھر لی کہ وہ زیادہ رقم کا بندوبست تو نہیں کر سکتیں، مگر کچھ انتظام کر دیں گی۔اماں، ثریا خالہ بہت جلدی نہیں چلی گئیں؟ آپ نے روکا نہیں انہیں کھانے پر؟ ثریا کے جاتے ہی کلثوم نے کمرے میں داخل ہو کر پوچھا، تو رفعت آراء نے ان کے آنے کا مقصد بتا ڈالا، پھر مزید گویا ہوئیں۔میں ثریا کی جگہ ہوتی، تو رشتہ ختم کر دیتی۔اماں، ثریا خالہ ایسا نہیں کر سکتیں۔ عزت کا معاملہ ہے۔ عفیفہ کا رشتہ توڑ بھی دیں تو لوگ باتیں بنائیں گے۔ آخر کس کس کو وہ مطمئن کریں گی؟ اماں، آپ چاہیں تو ان کی مدد کر سکتی ہیں۔ آپ نے جو رقم میرا سونے کا سیٹ خریدنے کے لیے رکھی ہے، ان کو دے دیں۔ میری کون سی ابھی شادی ہو رہی ہے؟ کلثوم بولی اور رفعت آراء اسے یوں دیکھنے لگیں، گویا وہ اپنے ہوش و حواس میں نہ ہو۔کلثوم، تمہیں اپنی سہیلی عفیفہ سے کچھ زیادہ ہمدردی نہیں ہو رہی؟ دماغ چل گیا ہے تمہارا؟ پیسے درخت پر نہیں اگتے، بڑے محنت سے کمائے جاتے ہیں۔ تمہارے ابا دن رات محنت کرتے ہیں، تو میں کچھ بچت کر کے تمہارے لیے جمع کر پائی ہوں۔ اور تم کہہ رہی ہو کہ میں یہ رقم ثریا کو دے دوں؟ بے شک وہ مجھ سے ادھار مانگ رہی ہے، مگر اتنی جلدی تو نہ لوٹا پائے گی۔ اگر تمہاری کہیں شادی طے ہو گئی، تو پھر ہم کہاں مانگنے جائیں گے؟رفعت آراء قطعی لہجے میں بولیں۔کہیں مانگنے نہیں جائیں گے، خدا خود ہی بندوبست کرے گا۔ نیک عمل کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ مجید صاحب جو کمرے کے دروازے پر کھڑے ماں بیٹی کی گفتگو سن چکے تھے، اندر آتے ہوئے بولے۔دیکھ لیا آپ نے؟ اب تو ابا بھی میری سائیڈ لے رہے ہیں۔ اگر ہمارے طفیل کسی کو سکون مل جائے، کسی کے مسئلے حل ہو جائیں، تو اس نیکی کا اجر ہمیں دونوں جہاں میں ملے گا۔میری بیٹی درست کہہ رہی ہے، رفعت۔ اگر استطاعت ہوتے ہوئے ہم نے ہاتھ کھینچے رکھا تو دل میں ایک خلش ہی رہے گی کہ جو پیسہ ہم نے بیٹی کے لیے رکھا ہے، اگر عفیفہ کی شادی کی ضرورتوں کے لیے ادھار دے دیتے، تو ہو سکتا ہے کہ اس کے طفیل خدا ہماری بیٹی کے نصیب کھول دیتا۔ٹھیک ہے، تم باپ بیٹی جب ایک رائے ہو گئے ہو، تو کر لو نیکی اور اپنے دل کو دے لو سکون۔ رفعت آراء بولیں۔ وہ دونوں مسکرا دیے۔
☆☆☆
اس نے اور بختاور نے عاقب کے حوالے سے بے شمار خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ دونوں اسے اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے تھے بلکہ سکندر کی تو خواہش تھی کہ عاقب ڈاکٹر بنے۔ وہ جب گھر پر ہوتا تھا، تو عاقب کو ایک لمحے کے لیے اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتا تھا، مگر اس کے مشتقبل اور بیٹیوں کی شادی کے لیے وہ پردیس میں رہ رہا تھا۔ اسے یہاں آئے کئی برس ہو گئے تھے۔ اس دوران وہ دو بیٹیوں کی شادیاں کر چکا تھا۔ تیسری بیٹی کے فریضے کی ادائیگی کے بعد اس کا ارادہ تھا کہ اب وہ بیٹے کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے لیے بھی کچھ رقم جمع کرے گا تا کہ پاکستان جا کر کوئی کاروبار کر سکے۔ خواب تو اس نے بے شمار دیکھ رکھے تھے ، مگر ان کی تعبیر پانے کے لیے پیہ چاہیے تھا، جس کے لیے وہ دن رات مشقت کر رہا تھا۔
☆☆☆
وہ تو مجبوری تھی، ورنہ وقاص کے بابا تو کہتے ہیں کہ آج قرض لیا ہے، تو کل واپس بھی کرنا ہو گا، اس لیے اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ۔ ہم تو بس یہ چاہ رہے ہیں کہ بیٹی عزت سے رخصت ہو جائے۔ کل کلاں کو سسرال والے طعنہ نہ دیں…ان لوگوں نے تمہارے حالات دیکھ کر رشتہ کیا ہے، اس لیے فکر نہ کرو۔ تمہاری عفیفہ خوش رہے گی، وہ بھی میری بیٹی جیسی ہے۔ اور ہاں، رقم کی فکر نہ کرنا، جب تمہارے پاس پیسے ہوں، دے دینا۔ رفعت آراء بولیں۔ اور دعاؤں میں میری کلثوم کو یاد رکھنا، خدا اس کے نصیب اچھے کرے اور اس کا رشتہ اچھے لڑکے سے طے ہو جائے۔ہاں ہاں، ضرور۔ ثریا بی بی نے کہا۔ دعا تو میں وقاص کے لیے کر رہی ہوں کہ اسے جلد از جلد نوکری مل جائے، تاکہ ہمارے حالات بہتر ہوں۔ اس کی پڑھائی پر ہم نے اپنی اوقات سے زیادہ خرچ کیا ہے، بڑی مشکلوں سے اسے شہر بھیج کر پڑھایا ہے۔ثریا، خدا تمہیں اور معراج بھائی کو اچھے دن ضرور دکھائے گا۔ تم دونوں نے اپنے بچوں کے لیے اپنی اوقات سے زیادہ کیا ہے۔ اب مجھے ہی دیکھ لو، کیا کچھ نہیں کیا ہم نے اپنے بیٹے کے لیے، مگر وہ شہر میں شادی کر کے وہیں کا ہو گیا۔ ہم سے نام کا رشتہ رہ گیا ہے اس کا۔ رفعت آراء دُکھی لہجے میں بولیں، تو ثریا بی بی کو ان سے ہمدردی محسوس ہوئی۔وقاص کو اس کے اعلیٰ تعلیمی ریکارڈ کی بنیاد پر گورنمنٹ اسکول میں ملازمت مل گئی تھی۔ اس کی پوسٹنگ شہر کے اسکول میں ہوئی۔ وہیں اس نے ایک گھر کرائے پر لے لیا اور اپنے والدین کو بھی بلا لیا تھا۔میری تو بڑی خواہش تھی کہ تم گاؤں کے اسکول میں بچوں کو پڑھاتے۔ معراج دین نے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ابا، سرکاری اسکول میں پوسٹنگ اپنے بس کی بات نہیں ہوتی۔ وہ تو شکر ہے کہ مجھے گورنمنٹ جاب مل گئی، ورنہ مجھ سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ پرائیویٹ اداروں میں پڑھا رہے ہیں، جہاں محنت زیادہ ہے اور تنخواہ بہت کم۔ وقاص نے جواب دیا۔اب جب کہ تم اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے ہو، تو ایک ہی ذمے داری باقی رہ گئی ہے اور وہ تمہاری شادی کی ہے۔بابا، ابھی مجھے نوکری کرتے ہوئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں کہ شادی کی آپ کو فکر ہو گئی؟ ابھی کچھ سال مجھے اور کمانے دیں۔کماتے رہنا، ڈیڑھ برس تو ہو گیا تمہیں نوکری کرتے ہوئے۔ اب میں چاہتی ہوں کہ تمہاری شادی کا فریضہ ادا ہو جائے۔
عفیفہ کی شادی کے بعد بمشکل میں گھر کے کام کاج کر پاتی ہوں۔ بہو آئے گی، تو گھر کا انتظام سنبھال لے گی۔اب اماں، جب آپ نے میری شادی کا تذکرہ کیا ہے، تو میں بھی اپنی پسند بتا دیتا ہوں۔ مجھے رفعت خالہ کی کلثوم پسند ہے۔ وقاص بولا، تو وہ ہونق سی ہو کر اسے دیکھنے لگیں۔کلثوم تو نازوں پلی لڑکی ہے، حیثیت میں وہ لوگ ہمارے ہم پلہ نہیں ہیں۔ پھر وہ تم سے دو سال بڑی ہے، تعلیم بھی صرف میٹرک ہے۔ تم تو پڑھے لکھے ہو، بہتر ہو گا تم اپنی حیثیت کے گھرانے کی پڑھی لکھی لڑکی سے شادی کرو۔ یاد رکھو، تمہیں کلثوم کے ناز نخرے اٹھانے پڑیں گے۔ وہ غریب گھر کی لڑکی نہیں ہے جو روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کر لے گی۔ اور میری وہ کیا خدمت کرے گی؟اماں، تمہاری خدمت کے لیے میں ماسی رکھ دوں گا۔ ویسے بھی ساس سسر کی خدمت بہو پر فرض نہیں ہے۔ رہی بات اس کے کم تعلیم یافتہ ہونے کی، تو مجھے اس سے کون سی نوکری کروانی ہے؟ اب آگے تمہاری مرضی ہے۔ثریا بی بی سوچ میں ڈوب گئیں۔ کلثوم رشتے میں ان کی بھانجی لگتی تھی۔ انہیں وہ پسند بھی تھی، مگر وہ اسے بہو بنانے پر تیار نہ تھیں۔ تاہم وقاص کی خاطر انہوں نے اپنے دل کو آمادہ کر لیا تھا۔
☆☆☆
بہت مبارک ہو، عاقب نویں جماعت کے امتحانات میں بہت اچھے نمبروں سے کامیاب ہوا ہے۔ ہیڈ ماسٹر نے تمام اساتذہ کو ہدایت دی ہے کہ عاقب پر خاص توجہ دی جائے۔یہ خبر بخت آور نے بڑی وارفتگی اور فخر سے سکندر کو سنائی۔ آخری جملہ کہتے ہوئے جذبات کی شدت سے اُس کی آواز بھرا گئی تھی۔بخت آور، بس یوں سمجھو کہ خدا نے ہماری محنت کا صلہ دے دیا ہے۔ میں جو یہاں تنہائی کے دن کاٹ رہا ہوں، یوں لگتا ہے جیسے کسی قید میں ہوں، جو وطن سے دور یہاں پڑا ہوں۔یہ خوشخبری سن کر میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں اُڑ کر گھر پہنچ جاؤں اور اپنے بیٹے کا منہ چوم لوں۔تم پورے محلے میں مٹھائی تقسیم کرنا، اور اسکول میں بھی۔ ویسے، عاقب کہاں ہے؟سکندر کا دل بیٹے سے بات کرنے کے لیے مچل رہا تھا۔وہ تو ابھی کوچنگ میں ہے۔یہ سنتے ہی سکندر نے موبائل بند کر دیا۔
☆☆☆
رفعت آراء اور ان کے شوہر نے وقاص کا رشتہ کلثوم کے لئے قبول کر لیا تھا۔ وقاص میں ویسے بھی کوئی خامی نہیں تھی، سوائے اس کے کہ وہ حیثیت میں ان سے کمتر تھا، تاہم کلثوم معمولی شکل و صورت کی لڑکی تھی، جس کا رشتہ طے نہ ہونے کی وجہ سے وہ سب پریشان تھے۔ وقاص کی کلثوم سے شادی کیا ہوئی، وہ اسے خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنے لگا۔ وہ اس کی کسی خواہش کو رد نہیں کرتا تھا۔ کئی بار ثریا بی بی اُسے اکیلے میں سمجھا چکی تھیں کہ وہ پیسوں کی قدر کرنا سیکھے، مگر وقاص پر ان کی نصیحت کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اب تو اسے اکثر افسوس ہوتا کہ اس نے استاد بننے کا خواب کیوں دیکھا؟ اگر وہ بینکر، ڈاکٹر یا انجینئر بن جاتا تو اچھی تنخواہ کی بدولت زندگی زیادہ پُرسکون ہوتی۔ایک شام وہ کاپیاں چیک کرنے میں مصروف تھا۔ اس کی عادت تھی کہ جب وہ کام کر رہا ہوتا تو اردگرد سے بالکل لا تعلق ہو جاتا۔ کلثوم پاس بیٹھی آلو چھیل رہی تھی، مگر اس کی ساری توجہ اپنے شوہر پر تھی۔ جب وقاص نے جنرل چیک کرنے کے بعد بند کیا تو کلثوم بولی کہ اب بورڈ کے امتحانات میں پاس ہونا مشکل نہیں، بس پیسے کی ضرورت ہوتی ہے، سینٹر میں نقل کروائی جاتی ہے۔ بھابی کے جاننے والوں کے کئی بچے اسی طریقے سے پاس ہوئے ہیں۔ اس نے وقاص سے کہا کہ بھابی کا بھتیجا اس سال نویں جماعت کا امتحان دے گا، اس کے والدین کو اندازہ ہے کہ وہ پیپرز کلیئر نہیں کر پائے گا، لہٰذا وقاص سینٹر وہی رکھوا دے جہاں نقل ممکن ہو۔وقاص نے سخت لہجے میں جواب دیا کہ یہ کام اتنا آسان نہیں، اس کے لیے منہ مانگے پیسے دینے پڑتے ہیں۔
کلثوم نے کہا کہ پیسوں کی فکر نہ کریں، وہ لوگ امیر ہیں، بس کام ہو جانا چاہیے۔ وقاص نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ رشوت کے خلاف ہے اور اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ کلثوم نے نرمی سے کہا کہ زندگی میں رشتے نبھانے کے لیے اصولوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اگر آج وہ کسی کا کام کرے گا تو کل کو کوئی ان کا بھی کام کرے گا۔ اس کے اصرار پر آخرکار وقاص نے رضامندی ظاہر کر دی، اور پھر آہستہ آہستہ ایسے کام اس کے لیے معمول بن گئے۔ادھر عاقب میٹرک کے امتحانات دے رہا تھا۔ آج اس کا فزکس کا پرچہ تھا، جس کی اس نے خاصی تیاری کی تھی۔ رات گئے تک وہ پڑھتا رہا۔ اس کے جانے کے بعد بخت آور گھر کے کاموں میں لگ گئی، مگر آج اس کا دل کسی کام میں نہیں لگ رہا تھا۔ اسے گھبراہٹ اور بے چینی محسوس ہو رہی تھی۔ دوپہر کے قریب اطلاع ملی کہ عاقب کو کسی لڑکے نے چاقو مار دیا ہے اور اسے اسپتال لے جایا گیا ہے۔ وہ بدحواسی کے عالم میں اسپتال پہنچی، جہاں اُسے عاقب کی موت کی خبر ملی۔ وہیں وہ غش کھا کر گر پڑی۔عاقب کو ولید نامی لڑکے نے قتل کیا تھا۔ وہ ایک امیر باپ کی بگڑی ہوئی اولاد تھا، جو امتحان میں نقل کر رہا تھا۔ عاقب نے پہلے استاد سے شکایت کی، مگر انہوں نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ گیارہ بجے جب بورڈ کی ٹیم آئی تو عاقب نے ولید کی شکایت کر دی، جس پر اس کی تلاشی لی گئی اور نقل کا مواد برآمد ہوا۔ بورڈ نے اس کا پرچہ منسوخ کر دیا۔ امتحان ختم ہونے کے بعد جب عاقب باہر نکلا تو ولید نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اس پر حملہ کر دیا، جس میں عاقب شدید زخمی ہو کر جان کی بازی ہار گیا۔سکندر پر بیٹے کی اچانک موت کا گہرا اثر پڑا اور وہ دماغی توازن کھو بیٹھا۔ وہ اکثر گھر سے باہر رہنے لگا، جبکہ بخت آور بستر سے جا لگی۔ زارا کے لیے ماں کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ وہ خود بھی ابھی کم عمر تھی۔ یوں ایک ہنستا بستا گھر اجڑ کر رہ گیا۔
☆☆☆
وہ طالب علموں میں نہ صرف مقبول تھا بلکہ اپنے ساتھیوں اور دوستوں کے حلقے میں بھی پسند کیا جاتا تھا۔ سینٹر ٹیم میں ہونے کے باعث اسے کاپیاں جانچنے اور امتحانی مراکز کی نگرانی کے لیے منتخب کیا جانے لگا تھا، جس کی وجہ سے تنخواہ کے علاوہ کچھ اضافی آمدنی بھی ہو جاتی تھی۔ ایک رات وہ اپنے پرانے دوست سرمد کے ساتھ ایک ہوٹل میں باتوں میں مصروف تھا۔ وہ دونوں برسوں بعد ملے تھے اور پرانی یادیں تازہ کر رہے تھے۔ اسی دوران سرمد نے اچانک کہا کہ باتوں میں کہیں بھول نہ جائے، یہ اُس کے بیٹے اور اس کے دوستوں کے رول نمبر ہیں۔ امتحانی کاپیاں چیک کرتے وقت دھیان رکھنا کہ ان میں سے کوئی فیل نہ ہو۔ اوپر والا نمبر اس کے بیٹے کا ہے، اسے اے ون گریڈ کے مارکس ملنے چاہئیں۔ اس نے مزید کہا کہ تمہیں تو معلوم ہے، بچوں کا پڑھنے میں دل نہیں لگتا، ہر وقت موبائل میں لگے رہتے ہیں۔وقاص نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ درست کہا تم نے، علم کے حصول کا شوق تو بس نام کا رہ گیا ہے۔ آج کے طالب علم چاہتے ہیں کہ بغیر پڑھے ہی ڈگری مل جائے۔ میرے مضمون میں وہ طلبہ بھی پاس ہو جاتے ہیں جنہیں پریکٹیکل کرنا نہیں آتا۔ میں انہیں بھی کچھ نہ کچھ نمبر دے دیتا ہوں، اور جو بچے پڑھائی میں اچھے ہوتے ہیں، ان کی ڈویژن کا خیال رکھ کر کھلے دل سے نمبر دیتا ہوں تاکہ ان کا گریڈ خراب نہ ہو۔ پھر اچانک وقاص نے بات کا رخ بدلا اور کہا کہ یار، صارم کا کچھ پتا ہے؟ اس نے کینیڈا جا کر جس بیوہ سے شادی کی تھی، کیا اُس کے ساتھ اُس کی شادی چل رہی ہے یا نہیں؟سرمد صارم کے بارے میں بتانے لگا اور یوں رات گئے تک دونوں نے جی بھر کے باتیں کیں۔ ایک بجے کے بعد وہ ہوٹل سے نکلنے لگے تو سرمد نے ایک لفافہ زبردستی وقاص کے ہاتھ میں تھما دیا۔
نہ چاہتے ہوئے بھی وقاص نے وہ پھولا ہوا لفافہ جیب میں رکھ لیا۔ سرمد نے اسے اپنی کار میں بٹھایا۔ حالانکہ ان کے گھروں کے راستے بالکل جدا تھے، پھر بھی سرمد نے وقاص کو اس کے گھر کے اسٹاپ پر اتارا اور خود اپنے گھر روانہ ہو گیا۔ وقاص کا گھر اسٹاپ سے کافی فاصلے پر تھا۔ سرمد اُسے گھر تک چھوڑنا چاہتا تھا، مگر وقاص نے انکار کر دیا۔ اُسے واک کرنا اچھا لگتا تھا۔وقاص جب سڑک سے اپنی گلی میں مڑا تو اُسے اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ اس کی جیب میں قیمتی موبائل اور رقم موجود تھی، لہٰذا اُس نے خطرہ بھانپ کر تیز چلنا شروع کر دیا۔ مگر پیچھے آنے والے نے اُسے جا لیا اور نزدیک پہنچ کر ایک تیز نوکیلی چیز اس کی گردن پر رکھ دی۔ اس نے کہا کہ ذرا بھی بھاگنے کی کوشش کی تو یہ چاقو تمہاری گردن کے اندر ہوگا۔ خوف سے وقاص کا خون منجمد ہونے لگا۔ وہ بمشکل اتنا ہی بول سکا کہ تمہیں کیا چاہیے؟ میرے پاس زیادہ پیسے نہیں ہیں۔ پیسہ ! اس کے پیچھے تو دنیا میں ہر غلط کام ہو رہا ہے۔ وہ بولا اور چاقو کی نوک پر وقاص کو دھکیلا ۔ اسی لمحے وقاص نے بغور اس کا چہرہ دیکھا، جو چاند کی روشنی میں واضح دکھائی دے رہا تھا۔ سر کے سفید بال بڑھی ہوئی داڑھی، آنکھوں میں چھائی سرخی اور میلے کپڑے ، اس کے تنگدست اور ذہنی توازن خراب ہونے کا پتا دے رہے تھے۔ سیدھے چلتے جاؤ، جس طرف میں کہوں۔ وہ غرایا، تو وقاص کے قدم خود بخود اس کی ہدایات پر عمل کرنے لگے۔ موت کو اتنے قریب دیکھ کر اسے زندگی بہت عزیز محسوس ہونے لگی تھی۔ وہ پاگل شخص اسے ایک سنسان گراؤنڈ میں لے آیا، جہاں دور دور تک کسی ذی روح کا نام و نشان نہ تھا۔ صرف آوارہ کتے ادھر اُدھر گھومتے دکھائی دے رہے تھے۔اس نے بینچ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنی جیبیں یہاں خالی کرو۔ وقاص نے جیب میں موجود تمام اشیاء نکال کر بینچ پر رکھ دیں۔ ان میں وہ کاغذ کا ٹکڑا بھی تھا جو سرمد نے اسے دیا تھا۔ وہ شخص رقم اور موبائل کو نظر انداز کرتے ہوئے کاغذ اٹھا کر رک گیا اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ وقاص نے سچ سچ سب کچھ بتا دیا۔وہ شخص غصے سے لرزتی آواز میں بولا، شرم آنی چاہیے تمہیں ایسے کام کرتے ہوئے۔ تم اس پیشے سے اس لیے وابستہ ہوئے تھے کہ علم کا دیا جلاؤ، نہ کہ سوداگری کرو۔ تم جیسے لالچی لوگ محض چند کاغذ کے ٹکڑوں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور نااہل طالب علموں کو اچھے نمبروں سے پاس کر دیتے ہیں۔ یہ ان بچوں کے ساتھ کتنی بڑی زیادتی ہے جو دن رات ایک کر کے پڑھتے ہیں۔اس کی آواز ایک دم بھرا گئی اور آنکھوں سے آنسو جھلکنے لگے۔
اس نے رندھی آواز میں کہا، میرا بیٹا جو آج قبر میں سو رہا ہے، اُس کی موت کے ذمے دار تم جیسے استاد ہی ہیں۔ کیا قصور تھا میرے بچے کا؟ اس نے تو صرف اس لڑکے کی شکایت کی تھی، جو امیر باپ کی بگڑی ہوئی اولاد تھا اور امتحانی کمرے میں نقل میں مصروف تھا۔ میرے بیٹے کو اس ایمانداری کی بہت بڑی سزا ملی۔اسے امتحان گاہ سے باہر نکلتے ہی قتل کر دیا گیا، ایسے ہی چاقو سے جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہے۔ اتار دوں تمہاری گردن میں… تا کہ تم اس کیفیت کو محسوس کر سکو جس سے گزر کر میرا بیٹا موت کے منہ میں پہنچ گیا۔ دیکھو، تم جو کوئی بھی ہو مجھے تمہارے دکھ کا اندازہ ہے، مگر میں تمہارے بیٹے کا قاتل نہیں ہوں۔ مجھے جانے دو، چاہو تو یہ سب پیسے تم رکھ سکتے ہو۔ وقاص نے گھیاتے ہوئے کہا۔ فطر تا وہ ایک بزدل انسان تھا۔ یہ کاغذ کے نوٹ میرے کس کام کے…. اٹھاؤ لائٹر اور لگا دو انہیں آگ اس نے حکم دیا اور وقاص نے تعمیل کر دی، پھر اس شخص نے وہ کاغذ بھی جلتے نوٹوں میں ڈال دیا اور وحشت بھری نظروں سے اسے گھورنے لگا۔ سوداگری نہیں کرنا چاہتا تھا۔ بس ایک بار کلثوم کے کہنے پر ایسا کیا اور پھر بغیر سوچے سمجھے کرتا ہی گیا۔ اس کی نظروں کے سامنے اپنے مرحوم والدین کا چہرہ آگیا تھا، جنہوں نے نامساعد حالات میں بھی اسے پڑھا لکھا کر اس قابل بنایا تھا کہ وہ بچوں کا مستقبل سنوار سکے اور وہ اس عہدے پر پر فائز ہو کر ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہو گیا، جو کسی استاد ا، جو کسی استاد کو زیب نہیں دیتیں۔واقعی تم آئندہ ایسا کام نہیں کروگے، جس سے محنت کرنے والے بچوں کو نقصان نہیں پہنچے گا ؟ اس شخص کے لہجے میں بے یقینی تھی۔ ہاں، میں اپنے بیٹے کی قسم کہتا ہوں۔ تب وہ شخص ہذیانی انداز میں ہنسا اور بولا۔ جاؤ ماسٹر ! علم علم کی روشنی پھیلاؤ ، اندھیروں کو مٹاؤ اس نے یہ کہتے ہوئے وقاص کی گردن پر سے چاقو ہٹا دیا۔وقاص فوراً ہی وہاں سے بھاگ نکلا۔ اس نے مٹر کر بھی نہ دیکھا کہ سکندر نامی وہ دیوانہ شخص، بڑ بڑا تے ہوئے کہہ رہا تھا کہ علم کے اس سوداگر کو تو ہدایت مل گئی، مگر ابھی کئی لوگوں کو راستہ دکھانا باقی ہے۔