میں معذرت چاہتا ہوں، مس عمیرہ، آپ اس نوکری کے لیے نااہل ہیں۔ کاؤنٹر کے اُس پار کھڑے انگریز نے عمیرہ کی فائل واپس لوٹاتے ہوئے کہا تو اس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔ یہ تیسرا انٹرویو تھا جس کا اسے جواب ملا تھا۔ مگر کیوں سر؟ میں نے جو تازہ موٹیویشنل ٹریننگ کا ڈپلوما کیا ہے، اُس میں میرے سب سے اچھے مارکس آئے ہیں، اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ… اس نے قائل کرنے کی ناکام کوشش کی۔ دراصل، اسے اس وقت نوکری کی شدید ضرورت تھی۔ انگریز نے جواب دیا کہ ہم نے جس شخص کو نوکری پر رکھا ہے، اُس کا تقریباً سات سال کا تجربہ ہے۔عمیرہ کو اپنی پریشانی میں یہ دھیان ہی نہ رہا کہ ساتھ والے کاؤنٹر پر، اردگرد کے ماحول کو بغور دیکھتی ایک لڑکی پوری توجہ سے اس کی طرف متوجہ ہو چکی تھی۔ دیکھنے میں وہ مشرقی لگتی تھی۔
چہرے مہرے سے پاکستانی یا ہندوستانی۔ مگر لباس میں اُس نے جینز اور جرسی پہن رکھی تھی، جبکہ عمیرہ شلوار قمیض میں ملبوس تھی۔ وہ ٹوٹے دل کے ساتھ فائل اٹھا کر واپس مُڑی۔ سنو، سنو… لڑکی لپک کر اس کے پیچھے آئی۔ پہلے انگریزی میں آواز دی، پھر اردو میں پوچھا کہ پاکستانی؟ عمیرہ نے اُسے اجنبی نظروں سے دیکھا۔ ہائے، لڑکی نے اپنائیت سے مسکراتے ہوئے اس کی طرف گرم جوشی سے ہاتھ بڑھایا۔ مرینہ عباسی… میں بھی پاکستانی ہوں، وہ خوش دلی سے بولی۔ عمیرہ نے رسمی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس سے ہاتھ ملایا۔ دراصل، اس کا ذہن اس وقت بہت پریشان تھا، اور اِس اجنبی ملک میں وہ کسی ہم وطن سے سیاحتی انداز میں گپیں لڑانے کے موڈ میں ہرگز نہ تھی۔ تم… میرا مطلب ہے، آپ یہاں جاب کے لیے آئی تھیں؟ مرینہ نے اسے قدم بڑھاتے دیکھ کر فوراً مطلب کی بات پر آنا چاہا۔ ہاں… مگر نہیں ملی۔ وہ چلتے ہوئے مختصر بولی۔ دراصل میں بھی یہاں کسی موٹیویشنل اسپیکر کو ذاتی طور پر ہائر کرنے کے لیے آئی تھی۔
مرینہ اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے بولی۔ تم کہہ رہی تھیں کہ وہاں تم نے کورسز کیے ہیں؟جی، کیے تو ہیں کچھ شارٹ کورسز… نوکری سے جو باقی وقت بچ جاتا تھا، اس میں۔ یہ پہلا جواب تھا جو عمیرہ نے تفصیل سے دیا تھا۔ تو نوکری چلی گئی آپ کی؟ مرینہ نے سوال کیا۔عمیرہ نے کوئی جواب نہ دیا۔اچھا سنو… چلتے چلتے اب وہ دونوں مین گیٹ تک پہنچ چکی تھیں۔ مرینہ نے بات جاری رکھی۔ مجھے اپنے بھائی کے لیے کوئی ایسا شخص چاہیے جو اسے نفسیاتی طور پر زندگی کی طرف واپس لا سکے۔ وہ اس وقت بہت مایوس ہے، بلکہ دنیا سے ہی مایوس ہو چکا ہے۔ میں اُسے ایسے نہیں دیکھ سکتی اور یہ بھی نہیں چاہتی کہ اُسے یہ پتا چلے کہ میں نے اس کے لیے باقاعدہ کسی کو بھیجا ہے۔ بلکہ کوئی ایسا ہو جو یونہی اس کا دوست بن جائے اور اُسے زندگی کے مثبت پہلو دکھائے۔ اس کی آنکھوں کا آپریشن ہونے والا ہے، اور مجھے پورا یقین ہے کہ وہ پھر سے دنیا دیکھ سکے گا۔مرینہ سمجھ گئی تھی کہ عمیرہ زیادہ بات چیت کے موڈ میں نہیں، اس لیے اس نے جلدی جلدی سب کچھ بتانا شروع کر دیا اور ایک ہی سانس میں بولتی چلی گئی۔
عمیرہ بے یقینی سے اسے سنتی رہی۔ میں اس کے لیے اچھی رقم دینے کو تیار ہوں، بس میں اپنے بھائی کو پہلے کی طرح ہنستے بولتے دیکھنا چاہتی ہوں۔ اس کی منگیتر نے آپریشن سے پہلے ہی منگنی توڑ دی، اور پچھلے سال مما کے انتقال کے بعد وہ بہت ٹوٹ چکا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ آپریشن بھی نہ کروائے اور باقی زندگی یونہی گزار دے۔ مرینہ نے بیگ سے رقم کا لفافہ نکال کر عمیرہ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ کہنے لگی کہ یہ تم رکھ لو، اس میں میرا کارڈ وغیرہ سب کچھ ہے۔ میں جھوٹ نہیں بول رہی، اس میں میری کوئی چال نہیں۔ دل کرے تو میرے نمبر پر رابطہ کر لینا، ورنہ رقم لوٹانے کی ضرورت نہیں… بائے۔ وہ یہ کہہ کر تیزی سے اپنی کار کی طرف بڑھ گئی۔عمیرہ نے اسے روکنا چاہا، مگر بھیڑ کی وجہ سے موقع نہ ملا۔
***
اداس مت ہو، اِن شاء اللہ جلد تمہیں کوئی نہ کوئی اچھی نوکری مل جائے گی۔ اس کے ساتھ رہنے والی لڑکی ایمن بھی پاکستانی تھی، لاہور سے اس کا تعلق تھا۔ وہ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرچکی تھی۔ پاکستان میں اس کی شادی ہونی تھی، اس لیے کچھ ماہ بعد اسے واپس لوٹ جانا تھا۔ فلیٹ ایمن نے ہی کرایے پر لے رکھا تھا۔ عمیرہ کی کسی دوست کے کہنے پر ایمن نے اسے ڈیڑھ سال سے اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ عمیرہ کا تعلق کراچی کے متوسط طبقے سے تھا۔ ابو کے انتقال کے بعد وہ اور امی، ماموں کے گھر میں رہتے تھے۔ ممانی مشکل سے ہی ان کا وجود برداشت کرتی تھیں۔ اس نے بہت سی جگہوں پر نوکری کے لیے درخواست دی ہوئی تھی۔ قسمت سے اسے امریکہ کے شہر بروک ہیون میں دو سال کے کانٹریکٹ پر نوکری مل گئی۔ اسے تو یقین ہی نہ آیا، مگر وہ کہتے ہیں نا کہ جب قسمت میں کچھ ہونا طے ہو، تو کوئی رکاوٹ نہیں رہتی۔ اس کے باقی سارے مسئلے بھی حل ہوگئے اور رہائش کا انتظام ایک سہیلی کی مدد سے ایمن کے ساتھ ہوگیا تو وہ بروک ہیون آگئی۔ نوکری اچھی تھی، ڈیڑھ سال اس نے محنت سے کام کیا، امی کو بھی پیسے بھیجتی رہی، پھر کسی وجہ سے دفتر میں شدید اختلافات ہوگئے اور اس کی نوکری چلی گئی۔
اس دوران اس نے شام کی شفٹ میں کچھ کورسز بھی کیے۔ ایمن اسے ٹوکتا کرتی کہ اتنی محنت مت کیا کرو، لڑکی بیمار ہوجاؤ گی۔ عمیرہ کا ارادہ تھا کہ کانٹریکٹ مزید آگے بڑھے یا اسے کوئی اور اچھی نوکری مل جائے۔ دراصل ایمن کی ہاؤس جاب بھی مکمل ہونے والی تھی۔ اس کے پاکستان لوٹنے کے بعد عمیرہ کے لیے رہائش کے مسائل پیدا ہوجانے تھے۔ ایمن اسے چھیڑتی رہتی کہ آخر تمہیں بھی واپس جانا ہے، پھر میں تمہاری اور عدیل کی شادی میں بھی آؤں گی۔ عدیل، عمیرہ کے ماموں کا بیٹا تھا۔ ممانی کی خواہش تھی کہ وہ ان کی بہو بنے۔ امی اور وہ ان کے احسانات کی وجہ سے انکار کی پوزیشن میں نہ تھے، حالانکہ عمیرہ کو ذاتی طور پر عدیل پسند نہ تھا اور وہ یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ امی باقی کی زندگی محتاجی میں ماموں کے گھر گزاریں۔ وہ امی کو اپنا گھر دینا چاہتی تھی، اسی لیے دن رات کوششوں میں تھی، مگر اب نوکری جانے کے بعد، جیسے جیسے ایمن کے پاکستان لوٹنے کے دن قریب آ رہے تھے، اسے بھی اپنا مستقبل عدیل کے ساتھ ہی نظر آنے لگا تھا۔ ایمن نے چھوٹے سے کچن میں اپنے اور اس کے لیے چائے بنائی اور ایک کپ اسے پکڑاتے ہوئے پوچھا کہ تم نے آنٹی کو بتایا کہ تمہاری نوکری ختم ہو گئی ہے؟ عمیرہ نے مرینہ کے دیے ہوئے لفافے سے کھیلتے ہوئے اداسی سے نفی میں سر ہلایا۔ ایمن اس کے پاس بیٹھ گئی اور پوچھا یہ کیا ہے۔ عمیرہ نے کہا کہ یار، آج انسٹیٹیوٹ میں ایک عجیب لڑکی ملی۔ ایمن نے تجسس سے پوچھا، عجیب لڑکی؟ مطلب؟ جواباً عمیرہ نے سارا قصہ سنایا۔
ایمن نے لفافہ کھول کر رقم گنی اور حیرت سے اسے دیکھا۔ یار، یہ تو بہت زیادہ ہیں، تم نے لے لیے؟ عمیرہ نے اثبات میں سر ہلایا اور بتایا کہ وہ اپنی شاندار گاڑی خود ڈرائیو کر رہی تھی۔ ایمن نے اندازہ لگایا کہ واہ یار، یہیں کی ہوگی۔ پھر اسے دیکھا اور کہا تو پھر مسئلہ کیا ہے، کرلو اس بیچاری کا کام، کسی انسان کا بھلا ہو جائے گا۔ تم نے ٹریننگ بھی لے رکھی ہے۔ عمیرہ نے کہا کہ یار، مجھے کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔ ایمن نے برتن سمیٹتے ہوئے پوچھا کہ کیا عجیب؟ عمیرہ نے کہا کہ تم رکھ لو ناں، میں یہ کرتی ہوں۔ وہ مدد کرانے کچن میں آئی۔ ایمن نے کہا کہ میں کردیتی ہوں، ویسے بھی رات کا کھانا تم نے ہی بنانا ہے، میں تھکی ہوئی ہوں۔ تب تک تم اس لڑکی… ہاں، مرینہ… اس سے بات کرلو۔ میں تو سوچ رہی ہوں کہ اسے فون کرکے پوچھوں کہ یہ رقم واپس کہاں بھیجنی ہے؟ میں یہ کام نہیں کر سکتی۔ یار حد ہے ویسے۔ کیوں نہیں کر سکتیں؟ عجیب سا لگتا ہے۔ اب بھلا میں اس انجان لڑکے سے کیسے اور کیوں دوستی کرلوں؟ وہ جو اپنوں کی بات نہیں مان رہا، ایک اجنبی کی بات مان لے گا؟ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔ ایمن نے کہا کہ ہم کبھی کبھی اپنوں سے بہت دلبرداشتہ ہوچکے ہوتے ہیں اور تم اس کو نیکی سمجھ کے کیوں نہیں ایک کوشش کر لیتی؟ کیا پتا واقعی وہ شخص کسی ہمدرد کی مدد سے دوبارہ جی اٹھے۔ اور یہ تو طے ہے کہ دل کے دکھ وہ کم از کم اپنی بہن سے تو نہیں کہہ سکتا۔ مجھ سے کہہ لے گا؟ اس نے بے یقینی سے ایمن کو دیکھا۔ کوشش تو کرو۔ ایمن مسکرائی۔
***
پارک کے کونے والی بینچ پر وہ بڑی دیر سے خاموش بیٹھا کسی حسین مجسمے جیسا لگتا تھا۔ سائیڈ پہ اسٹک پڑی تھی۔ سینے پہ ہاتھ باندھے وہ سکون سے بیٹھا، بہت دیر تک چڑیوں کی چہکاریں، بچوں کے کھیلنے، ہنسنے بولنے اور لوگوں کی سرگوشیوں کو سنا کرتا تھا۔ بہت دنوں سے یہ اس کا شاید واحد پسندیدہ مشغلہ تھا۔ عمیرہ اس سے کافی فاصلے پہ بیٹھی اسے دیکھ رہی تھی۔ کچھ دیر وہ اپنے دل میں الفاظ ترتیب دیتی رہی، پھر اس کے پاس آئی۔ ہیلو، اس نے جبران کے پاس جاکر کہا۔ وہ یکدم چونکا۔ کیا میں یہاں آپ کی بینچ پہ کچھ دیر بیٹھ جاؤں؟ پلیز، دراصل اس وقت پارک میں کوئی بینچ خالی نہیں۔ اس نے صاف جھوٹ بولا۔ وہ ویسے ہی بیٹھا اس کی بات سن رہا تھا، تاہم آخر میں اس نے بڑی آہستگی سے سر ہلا کر اسے اجازت دی تھی۔ شکریہ، وہ خوش دلی سے کہتے ہوئے بینچ کے دوسرے کونے پہ ٹک گئی۔ ویسے آج پارک میں شور کم ہے، جبران نے سکون سے کہا۔ وہ کچھ شرمندہ ہوئی، کیونکہ ایک طرح سے اس نے یہ جتایا تھا کہ مجھے لگتا تو نہیں کہ کوئی بینچ خالی نہ ہوگی۔ کیونکہ میں تو بہت دنوں سے اس پارک میں آ رہا ہوں اور آج یہاں معمول سے بھی کم لوگ محسوس ہو رہے ہیں۔ ماشاء اللہ، آنکھیں نہیں ہیں مگر اس کی باقی ساری حسیں ٹھیک کام کر رہی ہیں۔ کھسیانی ہو کر اس نے صرف یہ سوچا، پھر گلا صاف کرکے بولی، دراصل کچھ بینچوں پہ لوگوں نے سامان بھی رکھا ہوا ہے اور آپ نے یہ کیسے جانا کہ میں اردو جانتا ہوں؟ جبران نے اس کی بات کاٹ دی۔ آ… آپ لگتے ہیں ناں پاکستانی یا پھر، وہ کچھ اٹک کے بولی۔ وہ سر ہلا کر خاموشی سے بیٹھا رہا تو عمیرہ بھی دوسری طرف دیکھنے لگی کہ اب اس سے اور کیا بات کرے۔ دس پندرہ منٹ اور اسی عالم میں گزر گئے، پھر جبران نے اسٹک اٹھائی اور اندازے سے پارک سے نکلنے کے راستے پہ چلا گیا۔ عمیرہ نے سوچا اسے خدا حافظ ہی بول دے مگر وہ بس اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔
***
کوئی بات نہیں، پہلی ملاقات کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ مرینہ چند لمحوں کی گفتگو سن کر مایوس ہوگی، مگر وہ سکون سے بولی تو عمیرہ کا منہ بن گیا۔ مجھے لگتا ہے میں پکڑی جاؤں گی کہ کسی کے کہنے پہ اس سے دوستی کر رہی ہوں، اس نے پریشانی سے کہا۔ کچھ نہیں ہوتا، تم بس روز پارک جاتی رہو، مرینہ نے سکون سے کہا اور فون بند کر دیا۔ حد ہے بھئی، اس نے بھی جھنجھلا کر موبائل پٹخا۔ تمہیں پرابلم کیا ہے؟ ایمن نے پوچھا۔ یار وہ بندہ پہلے ہی دنیا بھر سے تنگ آیا ہوا ہے۔ اسے پتہ چلا کہ میں بھی اس سے ایسے ہی دوستی نہیں کر رہی بلکہ پیسے دے کر مجھے اس کام کے لیے رکھا گیا ہے تو وہ مزید ٹوٹ جائے گا۔ وہ چڑ کر بولی۔ بڑی دور کی کوڑی لائی ہو۔ تمہیں اسے صرف آپریشن تک موٹیویٹ کرنا ہے، پھر وہ کہاں اور تم کہاں۔ تمہارا تو رابطہ بھی نہیں رہے گا اس سے۔ تم ٹینشن نہ لو۔ یہ بھی ہے، وہ بولی۔
***
دوسرے روز بھی اس نے خوش دلی سے پوچھا، کیا میں یہاں بیٹھ جاؤں؟ کیوں؟ اس نے فوراً سوال کیا۔ عمیرہ کھسیانی ہوگئی پھر کچھ سوچ کر کندھے اچکا کر بولی، اچھا نہیں بیٹھی۔ وہ خاموش بیٹھا رہا تو عمیرہ بینچ کے دوسرے کونے پہ ٹک گئی۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ گئی نہیں ہے بلکہ وہیں موجود ہے۔ کچھ دیر خاموشی رہی پھر وہ بولا، آپ گئی نہیں ہیں؟ آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ وہ بے اختیار چڑ سی گئی۔ یہ بینچ آپ کی ذاتی تو نہیں، میں نے اتنے دوستانہ انداز میں آپ سے بیٹھنے کی اجازت لی، حالانکہ بنا اجازت بھی بیٹھ ہی گئی ہوں ناں۔ وہ اس کی ڈانٹ خاموشی سے سنتا رہا، پھر بغیر کوئی جواب دیے اسی خاموشی سے اٹھا، اپنی اسٹک اٹھائی اور واپسی کے لیے روانہ ہوا۔ عمیرہ نے اپنا سر پیٹ لیا۔ شرمندگی سے اس کی حالت خراب ہوگئی۔ ایک تو وہ بندہ پہلے ہی دکھی تھا اور وہ اسے سنیں، سنیں تو، وہ پیچھے لپکی، مجھے معاف کر دیں، میں نے بڑی بدتمیزی کی۔ وہ نظر کا چشمہ چڑھائے خاموشی سے چلتا رہا۔ اس کے چہرے پہ ہمیشہ کی طرح کوئی تاثر نہ تھا۔ بڑا سپاٹ بندہ تھا یا پھر واقعی حالات نے ایسا کر دیا تھا۔
آپ بیٹھیں وہاں، میں قسم سے اب کبھی نظر نہ آؤں گی۔ ارے سنبھل کے، آگے بچے کھیل رہے ہیں۔ عمیرہ نے اسے ٹکرانے سے بچایا۔ وہ ناچار رکا۔ آپ، آپ بیٹھیں ناں، میں نے آپ کی روز کی سیر خراب کر دی۔ مجھے واپس جانا ہے، وہ بولا۔ اچھا تو پھر اس طرف سے چلیں، عمیرہ اسے ساتھ لے کر چلی۔ کیا یہ راستہ گیٹ نمبر چار کی طرف جاتا ہے؟ وہ چلتے چلتے پوچھ رہا تھا۔ میں خود چلا جاؤں گا، صاف لگ رہا تھا کہ وہ اس کی مدد لینا نہیں چاہتا۔ آپ لوگوں سے اتنا کتراتے کیوں ہیں؟ عمیرہ نے اس کے سوال نظر انداز کیے۔ اچھا اپنا نام تو بتا دیں۔ اس نے پھر اس کی خاموشی توڑنے کی کوشش کی۔ ویسے میرا نام عمیرہ ہے۔ جبران رکا اور جیب سے موبائل نکالتے ہوئے اس سے بولا، آپ جائیں میرا ملازم مجھے لینے آجائے گا۔ شکریہ تو بول دیتے، عمیرہ نے واپسی کو موڑتے ہوئے جل کر سوچا تھا۔
***
اگلے روز وہ کچھ کہے بنا، چپ چاپ اُس کی بینچ کے دوسرے کونے پر بیٹھ گئی تھی۔ آج اُس سے کلام کرنے کا موڈ ہی نہ تھا۔ یقیناً وہ ذلیل ہی کرتا… عمیرہ نے سوچ لیا تھا کہ چند دن اسی طرح گزار کر مرینہ کو جواب دے دے گی کہ اُس کی لاکھ کوششوں کے باوجود جبران نے اُس سے دوستی نہیں کی۔ مسلسل چار دن سے تم اُس کی بینچ پر جا کر بیٹھ جاتی ہو اور اُسے پتا بھی نہیں چلتا؟ وہ بیٹھا رہتا ہے، بیٹھا رہتا ہے، پھر خاموشی سے چلا جاتا ہے۔ فائدہ ایسے ملنے کا؟ تم نہ ہی جاؤ۔ ایمن کو بات سمجھ ہی نہیں آئی تھی۔ مرینہ نہیں مانتی نا… وہ چِڑ کر بولی۔ اتنی جلدی جواب دوں گی تو وہ سوچے گی کہ کوشش ہی نہیں کی میں نے۔ بس دو تین دن بعد جواب دے دوں گی۔اگلے روز بھی وہ دونوں بظاہر لا تعلق بیٹھے تھے، اپنی اپنی سوچوں میں گم۔ جبران نام ہے میرا۔ وہ ایک دم چونکی اور بے یقینی سے اُسے دیکھا۔ روز آ کر بیٹھ جاتی ہو اور بولتی بھی کچھ نہیں، ناراض ہو؟ وہ پوچھ رہا تھا اور وہ حیرت سے اُسے دیکھ رہی تھی۔ سوری… میں آپ کو “تم” کہہ رہا ہوں۔ لگتا ہے، مجھ سے چھوٹی ہوں گی، اس لیے… آج تو بڑا شائستہ انداز تھا۔آپ کو کیسے پتا کہ میں روز آتی ہوں؟وہ ذرا دیر چپ رہا، پھر کچھ مسکرا کر بولا۔ ایک تو آپ کی چوڑیاں بولتی ہیں، شاید چاندی کی ہیں۔ واہ جی… عمیرہ نے قائل ہوتی نظروں سے اپنی چوڑیوں کو دیکھا۔اور دوسرا…؟وہ کچھ نہ بولا، شاید سوچ رہا تھا… کچھ نہ ہی بولے ۔عمیرہ نے بات بدلتے ہوئے پوچھا کہ آپ پچھلی سائیڈ پہ چلیں گے؟ وہاں چیری کے درختوں پر بہت خوبصورت بہار آئی ہوئی ہے۔مجھے پتا ہے، وہ بولا، میں یہاں بچپن سے ہوں، قریب ہی ہمارا گھر ہے۔ مجھے بھی پتا ہے، وہ مزے سے بولی۔کیا؟ وہ حیرت سے پوچھنے ہی والا تھا کہ عمیرہ نے پھر بات بدل دی۔اچھا، کافی ہی پلا دیں۔ چلو، وہ راضی ہو گیا۔
***
تو تم لوگ ماموں کے گھر رہتے ہو… وہ آج پارک کے ایک ریسٹورنٹ سے چائے اور برگر لینے آئے تھے۔ ہاں، وہ بولی۔ کسی کے دل کے راز یا دکھ درد جاننے ہوں، تو پہلے آپ اسے اپنے دل کے کچھ راز بتائیں۔ اسی نظریے کے تحت عمیرہ نے مختصراً اسے اپنے بارے میں بتایا تھا۔ جبران نے کہا، ان شاء اللہ جلد ہی تمہارا اپنا گھر ہوگا۔ ویسے تم جہاں جاب کرتی ہو، اس بلڈنگ میں میرا کئی بار جانا ہوا ہے۔ عمیرہ نے اسے یہ نہ بتایا تھا کہ اب اس کی جاب نہیں رہی اور نوکری نہ ملنے کی صورت میں اسے جلد واپس جانا ہوگا۔ وہ شوخی سے ہنستے ہوئے بولی، ظاہر ہے، آپ تو پچیس سال سے یہاں ہیں، یہ تو آپ کا اپنا شہر ہے بھئی… حقیقت میں وہ بڑی سنجیدہ مزاج اور لیے دئیے رہنے والی لڑکی تھی، اور جس طرح کے اس کے حالات جا رہے تھے، اس کا مسکرانے کو بھی دل نہ کرتا، مگر جبران کے سامنے خوش اخلاق اور زندہ دل رہنا ضروری تھا۔
جبران چائے کا سپ لیتے ہوئے بولا، تمہیں اتنی دور نوکری پہ جانا ہوتا ہے، پھر صبح سویرے اس پارک میں واک پہ کیوں آتی ہو؟ تمہیں تو نارتھ ایریا والا پارک زیادہ قریب پڑتا ہوگا شاید۔ عمیرہ کچھ گڑبڑائی، پھر پرس سے پیسے نکالتے ہوئے بظاہر بے فکر انداز میں بولی، میں نے دیکھا ہی نہیں ہے کوئی اور پارک… یہ دیکھا تو اس طرف آ جاتی ہوں۔ جبران نے ٹوکا، تم کیا کر رہی ہو؟ عمیرہ نے جواب دیا، پیسے دے رہی ہوں۔ اُس نے نرمی سے عمیرہ کا ہاتھ پکڑا اور کہا، رہنے دو، مارک اپنا یار ہے۔ عمیرہ نے سوالیہ نظروں سے کاؤنٹر بوائے کو دیکھا، جو جبران کی بات پر مسکرا کر دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ اب یہ نہیں پتا کہ وہ مارک تھا یا نہیں، وہ چلتے ہوئے عمیرہ کو بتا رہا تھا کہ وہ کب سے یہاں آتا رہا ہے۔ جو بھی تھا، آج اس نے پہلی بار خود سے اس کا ہاتھ پکڑا تھا۔ یقیناً سہارے کے لیے پکڑا ہوگا، مگر عمیرہ کو پھر بھی تھوڑا عجیب لگ رہا تھا۔ وہ اس کا بازو بے اختیار پکڑتی تھی تو اس کی مدد کے لیے، جبکہ جبران کی اس حرکت سے اسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ اس کے لیے کچھ جذبات رکھنے لگا ہے۔ عمیرہ نے اچانک خیال آنے پر پوچھا، آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں پرس سے پیسے نکالنے والی ہوں؟ کیا آپ دیکھ سکتے ہو؟ دوسرا جملہ مذاق تھا۔ وہ مسکرا دیا، تمہاری چوڑیاں۔ اوہ… ہاں۔ وہ ہلکے پھلکے انداز میں سوچتے ہوئے بولا، تم دیکھنے میں کیسی ہوگی؟ عمیرہ بے ساختہ ہنسی، بہت بری۔ وہ پھر مسکرا دیا۔ رنگ سانولا سا ہے، بال بڑھتے نہیں، دانت بھی بڑے بڑے ہیں۔ وہ بس مسکراتے ہوئے چائے کے سپ لیتے ہوئے اسے سن رہا تھا۔ عمیرہ نے اسے قائل کرنا چاہا، ارے آپ مسکرا کیوں رہے ہیں؟ مان لیں، میں ایسی ہی ہوں۔ وہ بس اتنا بولا، اچھا…! مگر وہ “اچھا” بھی اس طرح بولا جیسے کہتا ہو، میں تو نہیں مانتا۔ جبران نے کہا، میں سرجری کے بعد تم سے ملنے آؤں گا۔ تم یہی ملو گی نا؟ وہ سکون سے بولی، ہاں، یہی ملوں گی۔ اور اس نے سر ہلا دیا۔ عمیرہ نے بس دل میں سوچا، میں تو نہیں ملوں گی تمہیں… یہ کہا نہیں تھا۔
شکر ہے، اس نے سرجری کی بات تو کی، ورنہ وہ پچھلے تین مہینے سے ٹال رہا ہے۔ مرینہ خوش تھی اور ایمن بھی میں الجھی ہوئی تھی۔ بس وہی اپنی نوکری اور دوسری الجھنوں میں۔ امی فون پر کہہ رہی تھیں، ایمن آتی ہے تو تم بھی آ جاؤ، نوکری یہاں بھی مل جائے گی۔ وہ گہری سانس بھر کے بولی، یہی کرنا پڑے گا۔ یہاں کام کی کمی نہیں، مگر زیادہ تر نوکریاں میرے مزاج کی بھی تو نہیں۔ اب جیسے زپ نے کل بھی مجھے دو بیئر بار میں ویکینسی بتائی ہیں، مگر وہاں تو نہیں جا سکتی۔ وہ امی کو ہفتے میں دو تین بار پورا حال احوال دیتی تھی۔ عدیل کا اس سال شادی کا کوئی ارادہ نہیں۔ اس کی پھر ایم بی اے میں سپلی آئی ہے شاید۔ بھائی صاحب چاہتے ہیں کہ شادی سے پہلے وہ کاروبار میں چھ ماہ، سال کا تجربہ تو کر لے۔ عمیرہ نے امی کو تسلی دی، امی آپ فکر نہ کریں۔ کراچی میں جو بھی نوکری ملی، میں پہلے کرائے پر فلیٹ لے کر آپ کو الگ کر لوں گی۔ اور ممانی کو بھی سمجھنا چاہیے کہ ہم اتنے عرصے ان کے ساتھ ضرور رہے ہیں، مگر وہ ہمیں کھلاتی پلاتی نہیں رہیں۔ ہم دونوں کے خرچ کے پیسے وہ برابر ہم سے لیتی رہی ہیں۔ وہاں بھی جو میں نوکری کرتی تھی، ان کو رقم ہر مہینے دیتی تھی۔ امی نے بس اتنا کہا، اللہ بہتر کرے گا… تم اپنا خیال رکھنا۔
***
وہ اپنے حادثے کے دن کا قصہ سنا رہا تھا۔ کار میں ڈرائیو کر رہا تھا اور عینی میرے ساتھ بیٹھی تھی۔ آج شام کے وقت وہ دونوں جبران کے گھر کے قریب ہی موجود ایک شاپ پر برگر اور کولڈ ڈرنک پینے آئے تھے۔ کب کے کھا پی چکے تھے، مگر ان کی باتیں جاری تھیں۔ جبران تلخ سی مسکراہٹ کے ساتھ کہہ رہا تھا کہ اسپتال میں وہ بہت ہفتے مجھ سے ملنے آئی ہی نہیں۔ میں بڑا پریشان تھا کہ اسے شدید چوٹیں تو نہیں آئیں؟ مگر وہ بالکل ٹھیک تھی، مطلب صرف معمولی خراش۔ عمیرہ نے اندازہ لگایا، ہوسکتا ہے، کار الٹنے سے شاید وہ باہر جا گری ہو۔ جبران نے ہلکے سے اثبات میں کہا، ایسا ہی تھا۔ عمیرہ نے گہری سانس لے کر کہا، بہرحال… دنیا میں وفادار لوگ آج بھی بہت کم ہیں۔ یہ بدقسمتی ہے کہ آپ کو وہ ملی… یا کچھ آپ کے دوست، مگر آپ پھر بھی قسمت والے ہیں کہ آپ کی فیملی آپ کے ساتھ ہے۔ آپ کو، کسی کو بھی اپنی زندگی، اپنی خوشی سے زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ اس سے ہوگا یہ کہ لوگ تو آتے جاتے رہتے ہیں سب کی زندگی میں، مگر اس سوچ سے آپ کی زندگی میں کسی کے آنے اور چلے جانے سے اتنا دکھ نہ ہوگا، جو ابھی ہے۔
اسے سمجھاتے ہوئے عمیرہ کو عام گفتگو کا انداز اپنانا پڑتا تھا، تاکہ اسے یہ احساس نہ ہو کہ وہ پروفیشنل ہے۔ طویل گفتگو کرتے کرتے، اسے مثبت سوچ کی طرف لاتے ہوئے عمیرہ اس طرح بات کرتی تھی کہ لگتا تھا وہ دل سے بول رہی ہو۔ جبران اکثر اسے سمجھدار اور سلجھی ہوئی سوچ کا مالک کہتا تھا۔ وہ آہستہ سے بولا، شاید تم ٹھیک کہتی ہو۔عمیرہ نے شیشے سے باہر سڑک پر نگاہ کی اور کہا، مجھے چلنا چاہیے، رات ہو رہی ہے اور سردی بھی بڑھ رہی ہے۔ اس نے وقت پوچھا تو عمیرہ نے بتایا، سات بج رہے ہیں۔ جبران کہنے لگا، یہاں کے چاکلیٹ موز بڑے مزیدار ہوتے ہیں، میں ابھی آرڈر کرنے والا تھا۔ عمیرہ اٹھتے ہوئے بولی، نہیں… پھر کبھی کھائیں گے۔ جبران نے کہا، مجھے گھر تک تو چھوڑ دو… اس کا گھر قریب ہی تھا۔ عمیرہ نے جواب دیا، ہاں ضرور۔ وہ دونوں باہر نکلے۔ جبران نے مسکراتے ہوئے کہا، اسی بہانے تم میرا گھر دیکھ لو گی اور میں تمہیں اپنے بابا اور مرینہ سے بھی ملوا دوں گا، وہ اس وقت تک کلاسز لے کر آ چکی ہوگی۔ عمیرہ کچھ گڑبڑا گئی، نہیں، میں… پھر کبھی مل لوں گی۔ جبران نے نرمی سے کہا، اچھا، کچھ دیر تو بیٹھ جانا جب تک تمہارے لیے کیب منگوا لوں۔ عمیرہ نے منع کیا، نہیں… آپ کا گھر مین سڑک سے زیادہ دور تو نہ ہوگا، میں بس یا سواری لے لوں گی، آپ فکر نہ کریں۔ جبران نے خاموشی سے کال کر کے ٹیکسی بلائی۔
سردی بڑھ رہی تھی۔ بروک بیون کی کھلی سڑکوں پر واک کرنا بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اب وہ گھر کے نزدیک پہنچ گئے تھے۔ جبران نے پوچھا، تو تم کل پارک نہیں آؤ گی؟ عمیرہ نے مسکرا کر جواب دیا، جی، میں نے آپ کو بتایا نا کہ آفس کا کچھ کام ہے… وہ کچھ لمحے چپ رہی اور پھر ہنس کر بولی، اور سنڈے کو آپ نہیں آتے… مطلب، ہم دو دن بعد ملیں گے۔ جبران سادگی سے بولا، سنڈے کو تم آتی ہو، تو میں بھی آ جاؤں گا۔ کیا تم آتی ہو؟جی… آتی ہوں۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ آپ نے جو سڑک بتائی تھی، ہم وہیں کھڑے ہیں۔ اب بتائیں، آپ کا گھر کون سا ہے؟ عمیرہ نے دیکھا، یہ علاقہ بڑا ہی خوبصورت اور پرسکون تھا۔ جبران نے چند نشانیاں بتائیں تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ گھر کے تقریباً سامنے ہی کھڑے تھے۔ نام یہیں ہوگا… ٹام! جبران نے اپنے چوکیدار کو آواز دی تو وہ بھاگا ہوا آیا۔بڑا خوبصورت گھر ہے آپ کا، عمیرہ نے دل سے کہا۔اندر چلتی ہو؟ جبران نے پوچھا۔نہیں، پھر کبھی… وہ مسکرائی۔
***
پہلی تاریخ آئی تو ایمن نے مالک مکان کو بتا دیا کہ اگلے مہینے کی پہلی تاریخ کو وہ یہ فلیٹ خالی کر دیں گے۔ عمیرہ پاکستان جانے کے لیے ٹکٹ وغیرہ کا بندوبست کر کے آئی تو ایمن کو خیال آیا۔ اور جبران کے قصے کا کیا ہوگا؟ کیا ہوگا…! عمیرہ نے ضروری چیزیں سمیٹتے ہوئے الٹا اس سے پوچھا۔ اس کی سرجری کی تاریخ آ چکی ہے۔ شاید نو دس دن بعد وہ ہسپتال ایڈمٹ ہو جائے گا اور…مطلب، تم مرینہ یا جبران میں سے کسی کو بتا کے نہیں جا رہیں؟ ایمن نے حیرت سے پوچھا۔ عمیرہ نے گہری سانس بھری اور گویا ہوئی، دیکھو! مرینہ نے مجھے جو لفافہ دیا تھا، بس وہی رقم میں نے اس سے لی ہے۔ دراصل تو میں یہ کام ایسے ہی کر رہی تھی۔ کون سا ہمارا کوئی آفیشل کانٹریکٹ تھا؟ وہ فون پر مجھے کہتی رہتی ہے کہ تم مجھ سے اتنے پیسے لے لو، سرجری کے لیے جبران چلا گیا تو اتنے اتنے دوں گی… مگر مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اس نے سر جھٹکا۔ ہاں، بس یہ خوشی ہے کہ وہ سرجری کے لیے مان گیا ہے۔ میں نے یہ کام ایک نیکی سمجھ کر ہی کیا ہے۔ اللہ کرے، اس کی آنکھیں ٹھیک ہو جائیں اور وہ پھر سے دیکھنے لگے۔ایمن کافی دیر چپ رہی، پھر بڑے گہرے لہجے میں بولی، وہ تمہیں ڈھونڈے گا… اس کا دل پھر ٹوٹے گا۔ عمیرہ نے ایک ٹوٹی ہوئی نگاہ اس پر ڈالی، مگر ایمن اس کے اندر کے جذبات سمجھنے میں شاید ناکام رہی۔
اگلے کئی دن بہت مصروف رہے۔ ایمن لاہور لوٹ گئی اور وہ کراچی آ گئی۔ اس نے امریکہ ہی سے چند کمپنیوں میں نوکری کے لیے اپلائی کر دیا تھا۔ یہاں آ کر بھاگ دوڑ کرکے اسے ایک بہت اچھی نوکری مل گئی تو اس نے مناسب کرائے پر امی کے لیے فلیٹ لے لیا۔ ممانی کو تو مرچیں لگ گئیں، کہنے لگیں، یہ کیا بات ہوئی بھئی! میں دسمبر میں عدیل کا سہرا سجانے کی تیاری کر رہی ہوں، اب ان میڈم کو یہ کیا الگ رہنے کی پڑ گئی؟ آج وہ امی کے ساتھ فلیٹ میں شفٹ ہو رہی تھی۔ اتنے برسوں میں آج ہی اس نے زبان کھولی تھی۔ وہ بولی، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ کو پسند تو میں شروع سے نہیں، میرا اور امی کا وجود بوجھ لگتا ہے، پھر میری شادی اپنے بیٹے سے کرانے کی ضد سمجھ سے باہر ہے۔ ممانی بھڑک کر بولیں، تو کون کرے گا تم سے شادی؟ اس نے بے باکی سے جواب دیا، کیوں! کیا میں لنگڑی یا بدصورت ہوں؟ اور کوئی کرے نہ کرے، مجھے اپنی ماں کو سکون کی زندگی دینی ہے۔ ممانی نے جل کر کہا، ہاں جاؤ جاؤ، رہ کر دیکھ لینا چار دن۔ وہ پرسکون لہجے میں بولی، آپ مہربانی کرکے ہمارا زیور جو امی نے آپ کے پاس رکھوایا ہوا ہے، وہ ہمیں دے دیں۔ ممانی روکھے لہجے میں بولیں، مجھے تو یاد نہیں… لاکر میں رکھوائے تھے، اب تمہارے ماموں آئیں گے تو نکلواؤں گی۔ انہیں پتا تھا، وہ زیور اتنی آسانی سے نہیں دیں گی، اس لیے زیادہ زیور امی نے ان کے پاس رکھوایا بھی نہ تھا۔ نئے فلیٹ میں امی اور اسے سکون تھا اور نوکری بھی اچھی جا رہی تھی۔ کبھی کبھار ایمن بھی بات کر لیتی، اور یوں ہی کئی مہینے گزر گئے۔
***
بہت اچھا کیا تم نے کہ پاکستان آ گئے۔ احمر، جبران کو لے کر سیدھا اپنے آفس کے کیبن میں آ گیا۔ یہاں تو انکل کا بزنس ہے ناں… کیا اسے جوائن کرنے کا ارادہ ہے؟ احمر نے بات کرتے ہوئے انٹرکام پر چائے کا کہا۔ جبران نے ٹیبل پر پڑا پیپرویٹ گھماتے ہوئے جواب دیا، ابھی تو سوچا نہیں، پاپا نے کہا تھا کہ دل کرے تو بزنس کی چیکنگ کرلوں، مگر ابھی مجھے آئے ہوئے دو دن ہی ہوئے ہیں۔ اسی دوران انٹرکام پھر بجا، سر! مس عمیرہ نے فائل تیار کر لی ہے، وہ آپ کو دکھانا چاہتی ہیں؟ احمر نے فوراً کہا، ہاں ہاں، بھیج دو۔ عمیرہ اندر آئی تو دونوں نے اس پر ایک نگاہ ڈالی۔ حقیقی معنوں میں سٹی گم ہونا کیا ہوتا ہے، یہ عمیرہ کو اس لمحے معلوم ہوا۔ جبران نے اس پر ایک سرسری نظر ڈال کر پھر سے پیپرویٹ گھمانا شروع کر دیا۔ احمر نے فائل مانگی تو عمیرہ نے جواب دیے بغیر سر ہلایا۔ وہ بڑی مشکل میں تھی، آواز نکالنا نہیں چاہتی تھی کہ وہ پہچان نہ لے، اس لیے صرف اشاروں سے بات کرنے کی کوشش کی۔
جبران نے پیپرویٹ گھمانا بند کر دیا اور اب وہ صرف دو آوازوں کو غور سے سن رہا تھا: ایک احمر کی، دوسری… عمیرہ کی چوڑیوں کی۔ احمر نے کہا، ٹھیک ہے، آپ جائیں۔ عمیرہ نے شکر کا سانس بھرا اور تقریباً دوڑتی ہوئی دروازے کی طرف چلی گئی۔ شکر تھا کہ اشاروں میں بات ٹل گئی اور اسے کچھ بولنا نہ پڑا، ورنہ وہ پہچان ہی لیتا۔ ساتھی ملازمہ نے مذاقاً کہا، کیا ہوا؟ تمہارے منہ پر بارہ تیرہ اور چودہ بج رہے ہیں، باس کو دیکھ لیا؟ عمیرہ نے سرگوشی میں جواب دیا، شاید… ہائے کتنی خوشی کی بات تھی، وہ ٹھیک ہو گیا تھا۔ ایمن سے ذکر ضرور کروں گی کہ وہ اب ٹھیک ہے، وہ بار بار پوچھتی رہتی تھی۔ عمیرہ دل سے خوش تھی اور یہ خوشی کسی سے بانٹنا چاہتی تھی۔چھٹی کے وقت جب وہ باہر نکلی تو دیکھا، وہ اپنی گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ اُس کی نظر عمیرہ پر پڑی تو بغور دیکھنے لگا۔ عمیرہ تھوڑی دیر کے لیے ٹھٹکی، پھر سر جھکائے خاموشی سے چلنے لگی، جیسے اسے نظر انداز کرنا چاہتی ہو، مگر وہ فوراً سامنے آ گیا۔ بنا بتائے تم بھی چلی آئیں؟ بے وفا… اس کے لہجے اور آنکھوں میں بہت درد تھا۔
عمیرہ سے سر نہ اٹھایا گیا، بات جبران نے کی تھی مگر لگی سیدھا دل پر۔ وہ بولا، بتا کے تو آتیں، میں روکتا تو نہیں۔ عمیرہ شرمندہ سی بولی، مجھے… مرینہ نے بھیجا تھا۔ جبران نے نرمی سے کہا، جانتا ہوں۔ پھر وہ گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام چکا تھا، بالکل ویسے ہی جیسے پہلے سہارے کے لیے پکڑتا تھا۔ عمیرہ نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ بولا، گھر تک تو چھوڑ دوں، عین سڑک کے بیچ کھڑے ہیں ہم لوگ۔ عمیرہ کو فوراً احساس ہوا اور وہ سائیڈ پر ہوئی، ناچار گاڑی میں بیٹھنا پڑا کہ چھٹی کا وقت تھا اور ٹریفک رک رہا تھا۔ وہ ڈرائیو کر رہا تھا، خاموشی سے، مگر محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ناراض ہے۔ عمیرہ نے ہمت کرکے پوچھا، مبارک ہو، آپ کا آپریشن کامیاب رہا۔ مرینہ نے کیا بتایا؟ جبران بولا، سب کچھ۔ ٹھیک ہونے کے بعد میں بڑا اُداس رہا، تمہیں تلاش کیا۔ مرینہ نے پوچھا کہ میں ٹھیک ہونے کے بعد بھی خوش کیوں نہیں ہوں، تو میں نے اسے تمہارے بارے میں بتایا۔ تب مرینہ نے معافی مانگی اور تمہارا آفس، نمبر وغیرہ سب دے دیا، مگر تم تو اسے بھی کچھ بتائے بغیر بھاگ آئیں۔ عمیرہ دھیرے سے بولی، میں شرمندہ تھی۔ جبران نے پوچھا، گھر کا ایڈریس بتاؤ گی؟ عمیرہ نے چونک کر راستہ بتایا، پھر باقی راستے خاموشی رہی۔
جب گاڑی رکی تو وہ اتری، جبران بھی اترا اور اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ اس نے کہا، مجھے صرف اتنا بتا دو… کیا اتنے مہینے میں ایک بار بھی تمہارا مجھ سے رابطہ کرنے کا دل نہیں کیا؟ عمیرہ جواب نہ دے سکی، بس دو آنسو ضبط کے باوجود ٹوٹ کر گر گئے۔ جبران نے کار کا دروازہ کھولا، ایک پیکٹ نکالا اور اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ بولا، یہ تمہارے لیے ہے۔ عمیرہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ جبران بولا، تمہارے لیے لی تھیں، سوچا تھا کبھی ملو، تو تمہیں دوں گا۔ عمیرہ نے پیکٹ کھولا، چاندی کی خوبصورت چوڑیاں جگمگا رہی تھیں۔ وہ بے اختیار مسکرا دی۔ جبران نے دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا، میں پہنا دوں؟ آفس میں انہی کی آواز سے تمہیں پہچانا… ورنہ تمہاری تو دہشت کے مارے آواز ہی بند تھی۔ جبران کے مذاق پر وہ بھی ہنس دی۔ اور بغیر کچھ کہے دروازے سے گھر میں داخل ہو گئی۔
دو دن گزر گئے جبران سے اس کا سامنہ نہ ہو سکا۔ عمیرہ کا دل چاہ رہا تھا کہ اس سے بات کرے لیکن ہمت نہیں ہو پا رہی تھی، اگلے دن جب گھر جانے کے لیے آفس سے نکلی تو جبران کو سامنے منتظر پایا، دونوں کی نظریں ملیں اور لبوں پر بیک وقت مسکراہٹ بکھر گئی۔ جبران بولا: کیا آپ میرے ساتھ ڈنر کریں گئی۔ جبران کے سوال کا جواب دینے سے پہلے عمیرہ نے شوخی سے کہا: ڈنر تو میں اور آپ کریں گے لیکن ہماری گھر امی بھی آپ سے مل کع خوش ہوں گی۔ جبران اس بات پر پھر مسکرا دیا اور اس کے لیے کار کا فرنٹ دوڑ کھول دیا۔ دونوں عمیرہ کے گھر پہنچے اور اس کی امی سے جبران کا تعارف ہوا وہ بھی بہے خوش ہوئیں۔
کھانا بہت مزے کا بنا تھا جبران تعریف کیے بنا رہ نہیں پایا۔ کچھ دیر تک رسمی گفتگو ہو ئی پھر جبران نہیں اجازت طلب نظروں سے عمیرہ کی طرف دیکھا تو عمیرہ اس کے ساتھ باہر تک آئی۔ جاتے جاتے جبران نے اپنے دل کی بات عمیرہ سے کر دی۔ میں چاہتا ہوں ہمیشہ تم میرا ہاتھ تھام کر چلو، تمہیں اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہتا ہوں۔ عمیرہ کا سر شرم سے جھک گیا اور اس نے جبران کا ہاتھ تھام لیا۔ جبران مسکرایا کیونکہ اسے عمیرہ کا جواب مل گیا تھا۔