پیار کا انجام

Sublimegate Urdu Stories

ہم تین بہن بھائی تھے۔ بھائی بیرون ملک میں ملازمت کرتا تھا اور بڑی بہن گھر بار کی ہو چکی تھی، میں سب سے چھوٹی تھی۔ والد صاحب ریٹائرڈ ٹیچر تھے۔ انہوں نے کتابوں کی دکان کھول رکھی تھی۔ ایف اے کرنے کے بعد مجھے گھر بٹھا دیا گیا۔ ہمارے ہاں لڑکیوں کو زیادہ پڑھانے کا رواج نہ تھا حالانکہ والد صاحب خود پڑھے لکھے تھے۔

والدین کو بیٹی کی فکر ہوتی ہے کہ جلد کہیں اچھا رشتہ ہو جائے۔ میرے ماں باپ کو بھی میری شادی کی فکر تھی۔ وہ جلد از جلد اس فرض سے تے تھے۔ میرے لئے سبکدوش ہو جانا چاہتے۔ بہت رشتے آرہے تھے ، لیکن والدین سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہتے تھے۔ میں گھر میں فارغ تھی، لہذا امی جان نے کہا کہ محلہ کی بچیوں کو قرآن شریف پڑھا دیا کرو۔ اس کا بہت ثواب ہوتا ہے۔ یوں محلے کی کئی بچیاں مجھ سے درس لینے آنے لگیں۔ ان کو پڑھا کر میراجی خوش ہوتا تھا اور وقت بھی اچھا گزر جاتا تھا۔ ان کی مائیں مجھے دعائیں دے کر جاتیں۔

ایک دن ایک لڑکی نے مجھے ایک لفافہ لا کر دیا اور کہنے لگی۔ باجی ! یہ لفافہ باہر پڑا ہوا تھا۔ خط کھول کر پڑھا تو حیرت ہوئی کہ اس میں براہ راست مجھ کو مخاطب کیا گیا تھا۔ نیچے اپنا نام شاہد درج کیا تھا۔ ذہن پر زور دیا تو یاد آگیا کہ ہمارے پڑوس میں نئے لوگ آئے ہیں، ان کے بیٹے کا نام شاہد ہے۔ میں حیران تھی۔ اس لڑکے کو کبھی دیکھا ، نہ اس نے مجھے دیکھا، پھر اس نے مجھے کیو نکر خط

لکھا اور نام بھی معلوم کر لیا۔ بظاہر محلے میں اس کی کوئی شکایت نہیں سنی گئی تھی۔ یہ خط محبت بھر اٹھتا اور جذباتی انداز میں لکھا گیا تھا۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ کیا کروں ؟ کچھ سمجھ نہ آیا، تب میں نے اس کو اس راستے سے باز آجانے کے بجائے، نرم الفاظ میں ایک خط لکھ دیا، جس کا جواب اگلے دن ہی مل گیا۔ یوں ہمارے در میان خطوط کا سلسلہ چل نکلا۔ اس لڑکی کے ذریعے ایک خط جاتا اور دوسرا آتا۔ میری راتوں کی نیند حرام اور دن کا حسین بھی جاتا رہا اور شاہد مکمل طور میرے دل و دماغ پر چھا گیا۔ گویا اس نے مجھ پر جادو کر دیا تھا۔ مجھے نہ تو اپنا خیال رہا اور نہ والدین کی عزت کا۔ ایک دن ہماری ملاقات ہوئی ، ادھوری باتیں پوری ہوئیں، ساتھ مرنے جینے کی قسمیں وعدے اور کسی بھی حالت میں ایک دوسرے کا ساتھ نہ چھوڑنے کا اظہار ہوا۔ اس نے اپنے رشتے داروں کے ذریعے میرے والدین سے رشتے کی بات کی، مگر میرے والدین نے ان لوگوں کو صاف انکار کر دیا۔ اس بات پر ہم دونوں کو دلی صدمہ ہو، پھر بھی بھی کوشش یہی تھی کہ ہماری کسی کا طرح شادی ہو جائے۔ صرف ذات پات فرق تھا۔ ہمارا مسلسل رابطہ قائم رہا۔ اسی اثنا میں میرے لئے اپنے عزیزوں میں سے واصف کارشتہ آگیا۔ امی ابو نے فوراً ہاں کر دی۔ واصف امیر نہ تھے۔ قریبی عزیز کے بیٹے تھے اور خوشحالی رخصت ہو گئی تھی، لیکن جب میں ان کے آنگن میں پہنچی، تو ایک فرحت بخش احساس ہوا۔ واصف بہت اچھا اور محبت کرنے

والا شوہر ثابت ہوا۔ اب پتا چلا کہ تصوراتی اور حقیقی محبت میں کیا فرق ہوتا ہے۔ واصف مجھ پر جان چھڑکنے لگے۔ وہ میری چھوٹی بڑی کوئی فرمائش، کوئی بات رد نہیں کرتے تھے۔ مجھے بھی خود بخود ان سے لگاؤ ہو گیا تھا اور اتنا کہ شاہد کی یاد آتی تو شر ماری محسوس ہوتی اور میں اپنے آپ کو لعنت ملامت کرنے لگتی۔ اب مجھے واصف اور شاہد میں زمین آسمان کا فرق نظر آنے لگا۔ دل میں شاہد سے محبت کرنے پر نادم تھی اور واصف تھا کہ اس کی زندگی کا سارا دارو مدار بس مجھ پر تھا۔ میری زندگی بہت خوش حال گزر رہی تھی والدین میری اس خوش نصیبی پر پھولے نہیں سماتے تھے۔ میں اکثر ان سے ملنے آجاتی تھی، تب تمام سہیلیاں ؟ سام سہیلیاں مجھ سے ملنے آتیں۔ شوہر کی طرف سے مجھ پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی، لہذا میں بھی کسی نہ کسی کے ہاں چلی جاتی تھی۔ ایک دفعہ اپنے میکے آئی ہوئی تھی کہ مجھے شاہد کا پیغام ملا کہ مجھ سے ملو۔ میں نے فور ارد کر دیا اور کہا کہ تمہاری اور میری شادی خدا کو منظور نہ تھی۔ اب میری شادی ہو گئی ہے اور میرا خاوند بہت اچھا ہے۔ میں اس کے اعتماد کو کسی حال میں دھوکا نہیں دے سکتی، لہذا مہر بانی ہو گی، آئندہ مجھ سے رابطہ نہ کرنا۔ مجھے بھول جاؤ۔ اس کار قعہ ملا۔ تمہارے خطوط میرے پاس امانت ہیں، آکر لے جاؤ ورنہ کسی اور کے ہاتھ لگ جائیں گے۔ یہ پڑھتے ہی میرے ہوش اڑ گئے۔

اس کی دھمکی کار گر ثابت ہوئی۔ سہیلی کے ہاں جانے کا بہانہ کر کے میں شاہد کے گھر چلی گئی۔ میں سوچ رہی تھی کہ میرے شادی سے اسے جو صدمہ ہوا ہے، اس کی حالت غیر ہو گی ، وہ افسردگی سے ملے گا، لیکن اس کی حالت ٹھیک ٹھاک تھی اور وہ خوش باش تھا۔ ذرا بھی گمان نہیں ہو رہا تھا کہ میری شادی سے اسے کوئی دلی صدمہ پہنچا ہے۔ وہ پہلے سے زیادہ خوش نظر آرہا تھا۔ جاتے ہی میں نے اس سے کہا۔ میرے خطوط لاؤ، مجھے جلدی واپس جانا ہے ۔ اس نے کہا۔ جلدی کیا ہے ، چلی جانا۔ کافی مدت بعد ملاقات ہوئی ہے۔ میں واقعی جلدی میں تھی، میں نے پھر خطوط کے لئے اصرار کیا تو اس نے کہا۔ خط واپس کرنے کی قیمت ہو گی، پھر اس نے جو قیمت مانگی، وہ عورت کی زندگی سے بھی زیادہ قیمتی تھی۔ اس کی فرمائش سن کر میں بھونچکا رہ گئی۔ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ اتنا گر ا ہوا انسان ثابت ہو گا۔ ایک شادی شدہ عورت، جس کی عزت اس کے شوہر کی امانت ہوتی ہے ، اسے داغ دار کرنے کی خواہش کرے گا۔ میں نے اسے بہت لعن طعن کیا اور بے عزتی کی، لیکن وہ اپنی بات پر اڑا رہا۔ تب ہی میں نے صاف کہہ دیا کہ چاہے جو ہو جائے، میں ایسی گندی حرکت نہیں کر سکتی۔ میں اپنی عزت بالکل حراب نہیں کروں گی۔ یوں میں بغیر خط لئے واپس آگئی۔ 
میرے ذہن میں طوفان برپاتھا کہ یہ ناگہانی مصیبت کہاں سے آگئی۔ گھر جا کر بالکل نڈھال ہو گئی۔ ماں نے پوچھا۔ کیا بات ہے؟ میں نے طبیعت خراب ہونے کا بہانہ بنا کر ٹال دیا۔ تیسرے روز واصف مجھے لینے آگیا۔ اس کا چہرہ اور حالت خاصی متغیر تھی۔ میرے دل میں کھٹکا لگا ہوا تھا کہ خدا نخواستہ، شاہد نے کوئی اوچھی حرکت نہ کی ہو۔ جب ہم اکیلے بیٹھے تو واصف نے وہ تمام خطوط نکال کر میرے رکھ دیئے ، جو میں نے شاہد کو لکھے تھے۔ میرے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ میں رنگے ہاتھوں پکڑی گئی تھی۔ میں نے روتے ہوئے اپنا سر واصف کے قدموں میں رکھ دیا اور التجا کی کہ خط کی حد تک میری غلطی تھی، لیکن میں بالکل پاک دامن ہوں۔ جتنا ہو سکا، میں نے بھر پور صفائی پیش کی، تو اس نے بڑے آرام سے کہنا شروع کیا کہ مجھے تم کو پا کر جتنی خوشی ہوئی ام سے تھی، اس کا اندازہ تم نہیں کر سکتیں اور اب جتنا دکھ ہوا ہے ، اس کا بھی تم اندازہ نہیں لگا سکتیں۔ لگتا تھا، جیسے میرا ہارٹ فیل ہو جائے گا یا پھر میری موت واقع ہو جائے۔ اگر کوئی مجھ سے تمہارے بارے میں ایسی بات کرتا تو میں کبھی اعتبار نہ کرتا، لیکن تمہارے ہاتھ سے لکھے ہوئے خطوط کے بعد اب کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں جذبات میں آکر کیا فیصلہ کر بیٹھوں، لیکن میں اپنی عاقبت خراب نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی ایسے حالات میں تمہارے ساتھ زندگی گزار سکتا ہوں۔ تم میری طرف سے آزاد ہو۔ یہ کہہ کر وہ مجھے روتا سسکتا ہوا چھوڑ کر چلے گئے۔

میرا رو رو کر برا حال تھا۔ چند دنوں کے بعد والد صاحب کے نام ایک رجسٹری موصول ہوئی، جس میں واصف نے طلاق کے کاغذات بھجوائے تھے ۔ میری وجہ سے محلے برادری، بلکہ ہر جگہ میرے والدین کی بے عزتی ہوئی۔ میں نے کئی بار خودکشی کی کوشش کی، مگر ناکام رہی۔ واصف کی یاد ایک روگ بن گئی۔ جو لوگ میرے رشتے کے لیے آتے ، جب ان کو پتا چلتا کہ میں مطلقہ ہوں تو ایسے بھاگتے کہ پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھتے۔ والدین بھی ہر وقت مجھے کوستے رہتے تھے۔ وہ بھی حق بجانب تھے۔ میں ان کے لئے وبال جان بن گئی تھی۔ آخر کار میری شادی ایک ادھیڑ عمر شخص سے کر دی گئی ، جو معمولی صورت کے ساتھ جلد غصے میں آنے والا انسان تھا۔ وہ ذرا ذراسی بات پر مجھے ڈانٹتے اور میری عزت نفس کو مجروح کر دیتے تھے۔ وہ ایک چھوٹے دل کے آدمی تھے اور میں نے واصف جیسے پیار کرنے والے انسان کو کھویا تھا۔
آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس سلوک پر میرا کیا حال ہوتا ہو گا۔ میں سارا دن خون کے آنسو روتی تھی، مگر مجھے آنسو بہانے کی اجازت نہ تھی۔ فوراً طعنہ ملتا تھا کہ کب تک پہلے خاوند کو یاد کر کے روتی رہو گی، چلی جاؤ نا اس کے پاس۔ یہاں کیا کر رہی ہو۔ میرا شوہر دکاندار ہے۔ اس کی پہلی بیوی سے پانچ بچے ہیں۔ نجانے اس کو دوسری شادی کی کیوں سو جبھی جب کہ اس کی بیوی اچھی بھلی ہے۔ ایک طرح سے اس کی زندگی مکمل تھی۔ میری زندگی اجڑی ہوئی اور ادھوری تھی، سوادھوری ہی رہی۔

آج میرا جو حال ہے ، اللہ کسی بیٹی کا نہ کرے۔ آج مجھے جو دکھ ہیں، خدا کسی لڑکی کو نہ دے۔ جو لڑکیاں بغیر سوچے سمجھے میری طرح کسی اجنبی کو پیار بھرے خطوط لکھتی ہیں، میرے انجام سے سبق لیں اور عبرت حاصل کریں۔ ایسا کام نہ کریں، جو ان کی زندگی اور والدین کے لئے بے عزتی کا باعث بنے۔ یہ وہ المیہ ہے جو ہمارے معاشرے میں ہر سو پھیلا ہوا ہے۔ میں ان لڑکوں کو بھی کہوں گی، جو شاہد کی طرح کسی لڑکی کو بلیک میل کرتے ہیں کہ ان کو اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔ کسی لڑکی کو اتنی بڑی سزا دینا اور اس کی زندگی برباد کرنا مردانگی نہیں، نہایت کمینگی اور بزدلی ہے۔