ہم سرحد کے ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ ایک عید پر ہماری خالہ زاد بہن نسرین ایک ہفتے کے لیے ہمارے گھر آئی۔ اس کے ساتھ میری کافی دوستی تھی اور امی ابو بھی اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ ہم اسے بہنوں کی طرح سمجھتے تھے، لیکن اس ایک ہفتے میں اس نے ہم سب کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ وہ صبح پانچ بجے اٹھتی، نماز پڑھتی، پھر کچن میں چلی جاتی۔ جب ہم اٹھتے تو ناشتہ تیار ہوتا اور برتن بھی دھلے ہوتے۔ وہ ہر کام سلیقے سے کرتی اور دوسروں کو زیادہ سے زیادہ آرام پہنچانے کی کوشش کرتی۔ اس میں وہ تمام خوبیاں تھیں جو اچھی لڑکیوں میں ہوتی ہیں، اور یہ اس کی والدہ کی بہترین تربیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔میں نے محسوس کیا کہ میرا بھائی ذیشان اس میں خصوصی دلچسپی لے رہا ہے۔
اس کی میٹھی چال میرے بھائی کے دل میں اتر گئی اور وہ نسرین کو پسند کرنے لگا۔ پھر وہ واپس چلی گئی، گھر کو سونا کر کے۔ اس نے ایک ہفتے میں گھر کے نظام کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اور اب اس کے بغیر جیسے سارے کاموں کو بریک سی لگ گئی تھی۔ امی سے کئی دن تک کام نہ ہو سکا، وہ نسرین کو یاد کر کے روتی رہیں، جس نے ان کو بیٹیوں جیسا سکھ دیا تھا۔ ایک ماہ تک ہم سب اداس رہے۔ ایک روز امی نے ذیشان سے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، تم خالہ کے گھر جا کر نسرین کو لے آؤ۔ میرے امتحان ہونے والے تھے لہٰذا میں کاموں میں امی کا ہاتھ نہیں بٹا سکتی تھی۔ ذیشان تو جیسے اسی دن کا انتظار کر رہا تھا، وہ فوراً جانے کو تیار ہو گیا۔ ساتھ چھوٹی بہن بھی تھی۔
خالہ نے نسرین کو ہمارے گھر آنے کی اجازت دے دی۔ راستے میں ذیشان اور نسرین باتیں کرتے آئے۔ وہ بھی خوش تھی۔ کہہ رہی تھی کہ میرا منصوبہ کامیاب رہا، میں اسی سوچ کے تحت تو آپ کے گھر آئی تھی، کیونکہ خالہ کا گھر مجھے اچھا لگتا ہے اور دل کرتا ہے کہ ہمیشہ آپ لوگوں کے پاس رہ جاؤں۔ اس دن پتا چلا کہ وہ کتنی سمجھدار ہے۔ ذیشان ان باتوں سے خوش تھا کیونکہ وہ اس کے دل میں اتر چکی تھی۔ اس بار وہ پندرہ دن ہمارے گھر رہی۔ ہمارے امتحان ختم ہو گئے اور امی کی طبیعت بھی سنبھل گئی، تو خالہ اسے لینے آ گئیں۔ ابھی آپس میں رشتے کی بات نہیں ہوئی تھی کہ انہی دنوں ہم ایک رشتہ دار کی شادی میں گئے۔ خالہ اور ان کے گھر والے بھی آئے ہوئے تھے۔ اس موقع پر جانے کیسے خالہ امی سے ناراض ہو گئیں اور یہ لڑائی جدائی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ دونوں بہنوں میں دو سال تک علیحدگی رہی، کوئی رابطہ نہ ہو سکا۔ جب بھی ذیشان یا میں امی سے اصرار کرتے کہ آپ خالہ کے گھر جائیں اور ان سے صلح کر لیں، تو وہ بگڑ جاتیں اور الٹا ہمیں ڈانٹنے لگتیں کہ تم لوگوں کے کہنے پر میں ان سے صلح نہیں کر سکتی۔
میں اپنی بہن کی فطرت خوب جانتی ہوں۔ میں اپنے بیٹے کے لیے نسرین سے اچھی لڑکی لاؤں گی۔ وہ نہ تو ہمیں لڑائی کی وجہ بتاتی تھیں اور نہ ان لوگوں سے رابطہ کرنے دیتی تھیں۔ دو سال بعد خدا کی کرنی کہ نسرین کے بھائی کو کسی نے گولی مار دی۔ یہ ایسا موقع تھا جب خدا نے میری ماں کے دل میں سگی بہن کے لیے ہمدردی اور ترس پیدا کیا۔ امی خالہ کے گھر گئیں۔ دونوں بہنیں گلے لگ گئیں۔ یوں ایک سوگوار سانحے کی وجہ سے ان میں صلح ہو گئی اور آنا جانا شروع ہو گیا۔ میں نے امی کو یاد دلایا کہ ذیشان کے بارے میں سوچیے، وہ نسرین کو پسند کرتا ہے۔ کہنے لگیں میں خود یہی چاہتی تھی، یہ تو تمہاری خالہ نے ایک ایسی بات کہہ دی تھی جس پر مجھے غصہ آ گیا، ورنہ میرا ارادہ یہی تھا کہ نسرین کو اپنی بہو بناؤں گی۔ تو پھر دیر کس بات کی ہے؟ اس سے پہلے کہ دوسری خالہ یا ممانی اس کا رشتہ مانگیں، آپ چلی جائیں۔
امی کہنے لگیں، ذرا طبیعت ٹھیک ہو جائے، پھر جاؤں گی۔ دراصل شوگر کی وجہ سے امی کی طبیعت اچانک خراب ہو جاتی تھی۔اس بات کو دو دن ہی گزرے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ ایک لڑکا ذیشان کو بلا رہا تھا۔ اس نے بھائی کو ایک لفافہ دیا کہ نسرین نے بھجوایا ہے۔ بھائی نے کمرے میں جا کر لفافہ کھولا۔ نسرین نے چند سطریں تحریر کی تھیں کہ ہمارے گھر لوگ میرے رشتے کے لیے آتے رہتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں، تو اپنی والدہ کو ہمارے گھر بھیج دیں۔ بھائی نے مجھ سے کہا اور میں نے امی سے بات کی۔ وہ بولیں، ذرا صبر سے کام لو، چلے جائیں گے۔ میں امی کو نسرین کے خط کے بارے میں نہ بتا سکی، ورنہ وہ بگڑ جاتیں کہ لڑکی خود کیوں سندیسہ بھجوا رہی ہے۔چند دن بعد اس کا دوسرا خط آیا۔ خط میں لکھا تھا کہ میری بات پکی ہونے والی ہے، جلدی کرو۔ میں نے دوبارہ امی سے کہا کہ امی جان، ذیشان بھائی کے رشتے کی خالہ سے بات کریں۔ آپ کب جائیں گی؟ امی نے کہا، اگلے ہفتے چلیں گے۔ ہفتہ گزر گیا، لیکن امی نہ جا سکیں۔وہ سمجھ رہی تھیں کہ جب بھی جاؤں گی، بہن انکار نہ کرے گی، رشتہ مجھے ہی ملے گا۔ کہ اچانک ہی اس کی شادی کا کارڈ آ گیا اور امی دم بخود رہ گئیں۔
ان کو توقع نہ تھی کہ ایسا ہو گا۔ بہن نے رشتہ کیا تو امی کو خبر تک نہ ہونے دی۔ نسرین کا رشتہ ایک امیر گھرانے میں ہوا تھا۔ اس کا منگیتر بیرونِ ملک تھا اور بہت کما رہا تھا۔ شاید اسی سبب خالہ نے ہمیں خبر نہ ہونے دی۔ تاہم اگر امی بروقت خالہ کے پاس چلی جاتیں تو ممکن تھا کہ یہ رشتہ ہمیں مل جاتا۔امی نے کہا، ہم شادی میں نہیں جائیں گے کیونکہ میری بہن نے بیٹی کی منگنی کر دی، شادی کی تاریخ بھی رکھ دی اور مجھے بتایا تک نہیں، نہ مشورہ کیا۔ جب کہ ہمارے ہاں رواج ہے کہ بچوں کی منگنی یا شادی کی تاریخ رکھنے سے پہلے بڑے آپس میں صلاح و مشورہ کرتے ہیں۔ ہم خود بھی کب جانا چاہتے تھے۔
ہم شادی میں نہ گئے اور وہ بیاہ کر اپنے گھر چلی گئی۔ ہمیں نسرین کی شادی کا حال ممانی سے ملا کہ بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی تھی اور لڑکے والے بھاری بری لائے تھے۔ خالہ خوشی سے پھولے نہ سماتی تھیں، مگر نسرین خوش نہ تھی۔ رخصتی کے وقت اس کا رو رو کر برا حال تھا۔ وہ ایک ایسا پھول لگ رہی تھی جو مرجھا گیا ہو۔ذیشان اس سال بی اے کے پرچے نہ دے سکا۔ میں اپنے بھائی کی حالت دیکھ کر کڑھتی تھی، میرا بس نہیں چلتا تھا کہ کسی طرح اس کا دکھ بانٹ لوں۔ امی بھی بیٹے کی کیفیت سمجھتی تھیں اور سخت افسوس کرتی تھیں، لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم نے صبر ہی کرنا تھا۔ ذیشان کے لیے امی نے کئی لڑکیاں دیکھیں، لیکن اس نے شادی کرنے سے انکار کر دیا۔
میں نے ماں کو سمجھایا کہ اس کے دل پر تازہ تازہ چوٹ لگی ہے، ابھی وہ شادی کی ہامی نہ بھرے گا۔ آپ اس کے زخم کو کچھ مندمل ہونے دیں۔ دو سال گزر گئے، میں نے ایف اے کر لیا تھا اور گھر بیٹھ گئی کیونکہ امی کو کام کرنے سے ڈاکٹر نے منع کر دیا تھا۔ اس تمام عرصے میں امی نے خالہ سے رابطہ نہ رکھا۔ وہ بھی ممانی کی زبانی سمجھ گئی تھیں کہ امی سخت ناراض ہیں، لہٰذا انہوں نے بھی ترکِ تعلق رکھا۔پھر اچانک ایک دن وہ آ گئیں اور کہنے لگیں کہ پرانی رنجش بھلا دو، نسرین کو طلاق ہو گئی ہے۔ تم کو اسے بہو بنانے کی خواہش تھی نا، تو اب اس کا رشتہ لے لو۔ اس کے بدلے میں تمہاری بیٹی صابرہ کا رشتہ اپنے بیٹے کے لیے لے لیتی ہوں۔ امی خالہ کی فرمائش سن کر دم بخود رہ گئیں۔
اس سے پہلے کہ وہ خالہ کو کچھ کہتیں، میں نے امی کو چپ رہنے کا اشارہ کیا اور خالہ سے پوچھا، خالہ جان، پہلے یہ بتائیے کہ نسرین کو طلاق کیوں ہوئی اور اب وہ کہاں ہے؟خالہ کہنے لگیں، بیٹی وہ غیر لوگ تھے، بظاہر اچھے تھے، باطن اچھے نہ نکلے۔ نسرین بھی وہاں خوش نہ تھی۔ لڑکا زیادہ تر بیرونِ ملک ہوتا ہے۔ اس کے ماں باپ نے میری بیٹی کو اتنے دکھ دیے کہ وہ بیمار پڑ گئی۔ جب اس کی حالت مرنے والی ہو گئی تو ہم اسے گھر لے آئے اور طلاق لے لی۔ اب نسرین میرے پاس ہے۔
اس کی بھی خواہش ہے کہ وہ آپ لوگوں کے گھر میں ہو۔میں نے کہا، آپ فکر نہ کریں، میں ذیشان سے بات کروں گی۔ اگر اب بھی اس کے دل میں نسرین کے لیے کوئی نرم گوشہ ہے، تو ہمیں اسے اپنانے میں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ امی کو میری باتیں اچھی نہ لگیں، تاہم وہ کچھ سوچ کر چپ رہیں۔خالہ کے جانے کے بعد امی نے کہا، بیٹی تم نے یہ کیا کہہ دیا؟ میں تو اسے کھری کھری سنانے والی تھی۔ امی جان، آپ ذرا مصلحت سے کام لیں۔ پہلے تو ہمیں نسرین کے حالات جاننے چاہییں اور پھر اگر ذیشان کے دل میں اب بھی اسے اپنانے کی خواہش ہے، تو اس کی خواہش پوری کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔ میری پیاری ماں، آپ پارکھ بنیں، انا پرست نہیں۔امی خاموش ہو گئیں۔
شام کو ذیشان آیا تو میں نے اس معاملے پر گفتگو کی۔ اس نے بتایا کہ اسے نسرین کے حالات معلوم ہیں اور نسرین نے پچھلے دنوں اس سے رابطہ بھی کیا تھا۔ وہ آج بھی اسے اپنانے کو تیار ہے، بلکہ یہی خواہش ہے کہ وہی اس کی بیوی بن کر یہاں آئے۔ بھائی کی باتیں سن کر میں خوش ہو گئی کیونکہ میری دلی خواہش بھی یہی تھی۔امی کو ہم نے سمجھا لیا۔ وہ راضی نہ ہوتی تھیں، پھر بیٹے کی خوشی کے لیے راضی ہو گئیں اور نسرین کو ہم بیاہ کر لے آئے۔ وہ بہت خوش تھی، خوشی اس کے چہرے سے پھوٹی پڑ رہی تھی۔ تب ممانی بولیں کہ پہلی مرتبہ جب یہ دلہن بنی تھی، اس کے چہرے پر مایوسی اور اذیت تھی، جیسے کوئی اسے پھانسی گھاٹ لے جایا جا رہا ہو۔ دل کے معاملات ہی ایسے ہوتے ہیں اور دل پر کسی کا اختیار نہیں۔آج میرا بھائی جتنا خوش تھا، الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔
نسرین کو پا کر جیسے اسے سارے جہاں کی خوشیاں مل گئی ہوں۔ نسرین کے آتے ہی ہمارے گھر میں بہار آ گئی۔ اس نے گھر کا تمام نظام سنبھال لیا۔ وہ خوب دل لگا کر کام کرتی، ہر ایک کا خیال رکھتی۔ ابو، امی کو کھانا ہاتھ میں دیتی، ان کے کپڑے دھو کر استری کرتی، بستر تک بچھا کر دیتی تھی۔ جتنی خدمت بیٹی نہیں کر سکتی وہ بہو ہو کر کرتی تھی۔وہ میری دوست ہے، اسی کے کہنے پر میں نے اس کی بھابھی بننا قبول کیا کیونکہ امی یہ رشتہ بھی نہ ہونے دینا چاہتی تھیں، لیکن ابو نے سمجھایا کہ اپنوں سے ملنا ہی ہے، تو پھر کھلے دل سے ملو۔ ایسے خفگی رکھنے سے کیا حاصل؟ میرا خالہ زاد، جس سے میری منگنی ہوئی، اچھا لڑکا تھا۔ صورت شکل بھی ٹھیک تھی اور ساتھ ہی وہ برسرِ روزگار بھی تھا۔ ابو کو پسند تھا، اس لیے میں نے اعتراض نہ کیا۔امی کافی دن روٹھی رہیں۔
میں نے سمجھایا کہ آپ نے سگی بہن کے ساتھ انا کا مسئلہ بنا لیا ہے، حالانکہ بہن تو پھر بہن ہوتی ہے۔ آپ ساری خفگی دل سے نکال دیجئے۔ ان کی بیٹی کو بہو بنا کر لے آئی ہیں، پھر بھی بہن سے سیدھے منہ بات نہیں کرتیں۔ میری شادی فخر سے ہو گئی۔ میں اپنے گھر خوش ہوں۔ میری خالہ مجھ سے پیار کرتی ہیں، خالو بھی میرا خیال کرتے ہیں اور فخر تو مجھے بہت چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، تمہاری وجہ سے ہم پھر سے آباد ہوئے ہیں۔ اگر تم فراست سے کام نہ لیتیں اور ذیشان سے نسرین کی شادی نہ کرواتیں، تو نہ صرف وہ دونوں، بلکہ ہم لوگ بھی برباد ہی رہتے۔آج امی اور خالہ شیر و شکر ہیں۔ آپس میں بہت خوش ہیں، بلا تکلف ایک دوسرے کے گھر آتی ہیں کیونکہ یہ ان کی بیٹیوں کے گھر ہیں ، جو اپنے خاوندوں کے ساتھ مثالی زندگی گزار رہی ہیں
(ختم شد)