لڑکپن کی بھول

Urdu Font stories 127

مجھے یہ بتانے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ میرے ابا ریلوے اسٹیشن پہ قلی کا کام کرتے تھے۔ وہ مسافروں کا بھاری سامان اٹھاتے تھے۔ لیکن جب بیماری سے کمزور ہو گئے اور بھاری سامان اٹھانے سے قاصر ہو گئے تو بے روزگار ہو کر گھر بیٹھ گئے۔ آخر والدہ نے اپنی سونے کی بالیاں دیں کہ ان کو بیچ کر قسطوں پر رکشہ خرید لیں۔ والد نے ایسا ہی کیا۔ بیوی کی بالیاں فروخت کر کے قسطوں پر رکشہ لے آئے۔ جو کافی ٹوٹا پھوٹا اور پرانا تھا۔ اب ہر ماہ قسط اتارنے کی فکر میں گھلنے لگے۔  دن کے علاوہ رات کو بھی دیر تک کبھی ریلوے اسٹیشن کبھی کسی سینما کے آگے جا کھڑے ہوتے کہ دیر کی سواریاں اٹھانے سے پیسے کچھ زیادہ مل جاتے تھے۔
 
 ادھر والدہ نے سلائی مشین سنبھال لی۔ جب گھر کے کاموں سے وقت بچتا۔ اجرت پر پاس پڑوس کی خواتین کے کپڑے سی دیا کرتے ہیں۔ غرض کہ دونوں میاں بیوی مل کر مفلسی کے دنوں میں زندگی کی گاڑی کو دھکا لگانے میں مصروف تھے۔ ان دنوں میں پانچ برس کی تھی کہ ایک روز یہ بری خبر ملی کہ ابا کے رکشے سے ایک ویگن ٹکرا گئی ہے اور وہ چکنا چور ہو گیا ہے۔ صرف رکشہ ہی حادثے کو پیارا نہیں ہوا تھا اماں بھی اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔

جب اس حادثے کی اطلاع گھر پر آئی۔ اماں دیوار سے جا لگی۔ انہوں نے سہاگ کی چوڑیاں دیوار پر مار کر توڑ دیں اور بین کرتے ہوئے سفید چادر میں خود کو لپیٹ لیا میں اتنی چھوٹی اور نہ سمجھ تھی کہ جب انہوں نے اپنا ہرا دوپٹہ اتار کر پھینکا اور سفید چادر کی بکل مار لی۔ میں نے دوڑ کر ان کا وہ دوپٹہ فرش سے اٹھا لیا۔ جس کا رنگ مجھے بہت پسند تھا۔ میں اس دوپٹے کو اوڑھ کر بیٹھ گئی اور خوش ہو گئی کہ اچھا ہوا ماں نے یہ دوپٹہ پھینک دیا۔ اب میں اس کو اوڑھوں گی۔ نانا زندہ تھے۔ ابا کے بعد وہی ہمارے لیے چھتر چھایا بن گئے۔ دو سال بعد جونہی ان کی آنکھیں بند ہوئیں ۔ سارے زمانے نے ہم سے آنکھیں پھیر لیں۔ اس کے بعد مجھے یاد نہیں کبھی ماں نے خوشی کا کوئی تہوار منایا ہو۔ عید برات پر بھی ہمارے یہاں چولہا ٹھنڈا اور پتیلی خالی ہی رہتی تھی۔ پاس پڑوس سے عید کی سوغات تشتریوں میں آ جاتی تو ہم خدا کا شکر ادا کر کے کھا لیتے تھے۔

اب میں کافی سیانی ہو گئی تھی۔ گھر کا کام کاج کرنے لگی تھی۔ تبھی اماں نے گزارے کا مستقل ذریعہ اپنی سلائی مشین کو ہی بنا لیا۔ ایک پڑوسن کا بھائی کسی فیکٹری میں کام کرتا تھا جہاں دیگر گارمنٹس کے علاوہ ٹوپیاں بھی بنتی تھیں۔ ان دنوں یہ ٹوپیاں ہاتھ کی سلائی مشین پر بنا کرتی تھی۔ پڑوسن نے بھائی سے کہہ کر اماں کو ان کی سلائی کا ٹھیکہ دلوا دیا۔ جب ماں سلائی مشین کی حتھی کو اپنے گورے گورے خوبصورت ہاتھوں سے گھماتی تو دیکھنے والوں کی آنکھوں میں ان کے مخروتی انگلیوں والے نرم و نازک ہاتھ دیکھ کر بجلی سی چمک جاتی۔ سچ کہتی ہوں کہ میری ماں بہت حسین تھی بیوہ ہونے کے بعد بھی نکاح ثانی کی امید میں کئی رشتہ داروں کی نگاہیں ان پر ٹکیں تھیں۔ مگر میری خاطر انہوں نے ایسا تیاگ لیا کہ اپنے کندن سے روپ پر غربت کا بھوت ہی مل کر بیٹھ رہی۔ کالے سیاہ ناگن جیسے بال سفید دوپٹے میں یوں ڈھک لیے کہ پھر آنچل نہیں سرکایا۔ یہاں تک کہ ان کے بال اوڑنے کے اندر ہی سیاہ سے سفید ہو گئے۔

ماں کو اپنے سیاہ سفید کی کب فکر تھی ان کی نظریں تو اب مجھ پر گڑی تھیں۔ میں جو امر بیل کی طرح بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ مجھے دیکھ یوں سمٹ جاتی جیسے یہ امر بیل ان کے سارے وجود پر چھا گئی ہو۔ سب ملنے والوں سے کہتی بہنوں دعا کرو عزت سے رحیلہ کو اپنے گھر کا کر دوں۔ ان دنوں میری عمر ایسی تھی کہ زمانے کی کوئی فکر نہ ستاتی تھی۔ بس ان خوابوں میں رہتی تھی کہ کوئی سجیلا آ جائے۔ میری اس کے ساتھ شادی ہو اور وہ مجھے اپنے سجے ہوئے گھوڑے پر بٹھا کر لے جائے۔ جب چھت پر جاتی ادھر ادھر دیکھتی شاید کوئی کڑیل میری خاطر گھوڑے کی باگیں تھامے کسی طرف سے آیا ہو۔ مگر کبھی کوئی نظر نہ آیا اور میں روز ہی مایوس ہو کر چھت سے انگنائی میں اتر آتی جہاں برامدے کی چھاؤں میں ماں بیٹھی رسان سے مشین چلا رہی ہوتی۔

ایک روز سامنے والے گھر سے بلاوا آیا۔ ان کے بیٹے کی شادی تھی میں بھی اماں کے ساتھ شادی میں گئی۔ جب ایک رسم کرائی جا رہی تھی میں نے جھک کرآئینے میں دیکھا وہاں ایک چہرہ اور بھی نظر آی۔ا صرف انکھیں دکھائی دیں۔ بڑی بڑی سیاہ اور چمکدار۔ وہ مجھ کو ہی آئینے میں گھور رہی تھی کہ میری شبی اس میں نظر آرہی تھی۔ بس پھر کیا تھا ان دو آنکھوں کو گھورتے دیکھ کر میں تو دل تھام کر پیچھے ہٹ گئی تھی۔ کیا خبر تھی کہ یہ دو گہری سیاہ آنکھیں عمر بھر میرا پیچھا کریں گی ورنہ میں دلہن کے اوپر سے آئینے میں نہ جھانکتی۔ جتنی دیر شادی والے گھر میں رہی وہ آنکھیں میرا تعاقب کرتی رہیں۔ گھر تک بھی انہوں نے میرا پیچھا نہ چھوڑا۔ دوسرے روز دروازہ بجا۔ اماں در پر گئیں۔ ایک صاحب ہاتھ میں ٹرے لیے کھڑے تھے۔ بولے امی جان نے ساجد بھائی کی شادی کا کھانا بھجوایا ہے۔ اماں نے کہا اندر آجاؤ بیٹے۔ وہ برامدے میں بڑی کرسی پر بیٹھ گئے۔ اماں نے ٹرے دے کر مجھ کو کہا کھانا نکال کر ان کے برتن دھو کر دے دو۔ میں نے خالی برتن ان کو پکڑائے تو انہوں نے زیر لب مسکراتے ہوئے میری انکھوں کو جو ایک شریر پیغام دیا وہ میں نے دل کے کانوں سے سن لیا۔

میں نے بھی اس خاموش پیغام کی لاج رکھی۔ اماں سے نئی دلہن دیکھنے کا بہانہ بنایا شادی والے گھر چلی گئی۔ آدمی جتن کرے تو کامیاب کیوں نہ ہو۔ نئی دلہن سے میں نے سو جتن کر کے دوستی لگا لی اور اب میرا ساجد بھائی کے گھر آنا جانا آسان ہو گیا۔ بعد میں ساجد کی نئی نویلی دلہن بھی اس کھیل میں ہماری شریک ہو گئی۔ عاقب ان کے دیور تھے۔ بھابھی نے دیور کی خوشنودی میں میرا ساتھ دیا۔ یوں میری اور عاقب کی محبت کے پودے کو پنپنے کا موقع مل گیا۔ بھابھی کے تعاون سے میں اور عاقب ان کے گھر دنیا والوں سے چھپ کر بات کر لیتے تھے۔
 
 اس طرح ایک روز عاقب نے مجھ سے شادی کرنے کا پکا وعدہ کر لیا۔ عاقب ایف ایس سی کرنے کے بعد مزید تعلیم کے سلسلے میں بڑے شہر چلا گیا۔ جہاں اس کو انجینئرنگ کالج میں داخلہ مل گیا اور میں اس کے وعدوں کے سہارے اپنے جہیز کے دوپٹوں پر ستارے ٹانگٹتی رہ گئی۔ اس نے مجھ سے خط لکھنے کا وعدہ کیا تھا اور میں نے اس وعدے کو بھی اس کی بھابھی کے ذریعے خوب نبھایا۔ وہ مجھے خطوط اپنی بھابی کے ذریعے بھیجتا اور میں بھی جواب لکھ کر اس کی بھابی کو دے آتی تھی۔ وہ مجھ کو کہتی تھی راحیلہ اداس نہ رہا کرو بس تھوڑے دن رہ گئے ہیں عاقب تعلیم مکمل کر لے گا تو ہم تمہیں دلہن بنا کر اپنے گھر لے آئیں گے۔

ان کی ان تسلیوں پر میں خوش تھی ۔مگر اماں مجھ سے ناراض ہو گئی کیونکہ وہ میری طرح نادان نہ تھی۔ وہ جانتی تھی کہ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند نہیں لگا کرتا۔ لہذا انہوں نے ایک اچھے گھرانے سے رشتہ آتے ہی میری بات پکی کر دی۔ اماں نے تو مجھ سے پوچھنے کی بھی زحمت گوارا نہ کی اور میں بس ان کا منہ ہی تکتی رہ گئی اب راہ راہ کر میرا دم گھٹتا کہ جب عاقب آئے گا اس کو کیا جواب دوں گی۔ وہ تو مجھ سے وعدہ لے کر گیا تھا کہ میرا انتظار کرنا۔ ہمت کر کے ماں سے کہہ ہی دیا کہ مجھے کسی اور سے شادی نہیں کرنی۔ عاقب میرے ساتھ شادی کا وعدہ کر کے گیا ہے۔ اماں میری بات سن کر ہکا بکا رہ گئیں کہ یہ کیا بک رہی ہے۔ میں ماں کو مجبور کرنے لگی کہ عاقب کے گھر جا کر اس کی ماں سے بات کر لیں۔
 تیرے جیسی تو ان کی نوکرانی ہیں۔ تو ایک بیوہ کی لڑکی ہے یہ پٹی آخر کس نے تجھ کو پڑھائی ہے ۔ یہ خواب و خیال چھوڑ دے اور عاقب کے وعدوں کو بھلا دے ان کے گھر جانے پر مجھے مجبور نہ کر۔ جانتی ہوں مجھ کو کیا جواب ملے گا۔ کوئی سیدھے منہ بند بھی نہ کرے گا۔ ماں یہ کہتے کہتے روحانسی ہو گئی۔ ان کی آنکھوں میں انسو آگئے۔ مجھ کو ان کی بے بسی پر ترس آیا۔ سوچا کہ وہ ٹھیک کہتی ہیں۔ اماں نے میری خاطر جوانی کو بیوگی کی قبر میں دفن رکھا اور کوئی حرف نہ آنے دیا تاکہ جب میں شادی کے لائق ہو جاؤں۔ لوگ مجھے نیک چلن بیوہ کی بیٹی ہی کہیں نہ کہ غلط عورت کی لڑکی سمجھیں۔ یہ ماں کی ریاضت کا ثمر تھا کہ میرے لیے ایک شریف اور خوشحال گھرانے کا رشتہ آگیا تھا۔ جب مجھے اپنا انجام صاف نظر آنے لگا۔ میں نے سوچا ماں کے بقول اچھے رشتے بار بار نہیں آتے۔ خیریت اسی میں جانی کہ ماں کو پریشان کرنے کی بجائے قسمت کی باگ دوڑ ان کے ہاتھ میں تھما دوں۔ جنہوں نے ہزار دکھ سہ کر مجھے پالا تھا۔ محبت کے ایسے جھوٹے کھیل سے خوشی کے پھول نہیں غم کے کانٹے ہی جھولی میں گرتے ہیں۔

جن دنوں میری منگنی ہوئی۔ عاقب انہی دنوں چھٹیوں پر گھر آگیا۔ اس کی بھابھی نے منگنی کا بتایا تو اس نے کہلوایا کہ رحیلہ مجھ سے بے وفائی نہیں کرنا۔ میں معاف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ میں نے جواب میں کہلوایا۔ ماں کی بیوگی دیکھ کر ان کی دکھ اور بڑھانے کا مجھ میں حوصلہ نہیں ہے۔ وہ بیمار رہتی ہیں۔ مجھ کو معاف کر دو عاقب۔ تمہارے والدین میرے رشتے کو ماننے والے نہیں ہیں۔ جب عاقب کو یہ سندیسہ ملا وہ غصے سے دہک اٹھا۔ اس نے اپنے بھابھی سے کچھ نہ کہا رات کو دیوار پھلانگ کر ہمارے گھر آگیا۔
 
 ماں دن بھر کی تھکی ہاری مشین چلاتے ہوئے گہری نیند سو رہی تھی۔ وہ سیدھا میری چارپائی کی طرف آیا۔ خدا کی قدرت میری آنکھ کھل گئی۔ اس کو سرہانے دیکھ کر دہل کر رہ گئی۔ اس نے سرگوشی میں کہا۔ چپ رہو میں عاقب ہوں۔ کوئی جن بھوت یا چور نہیں ہوں۔ تمہارے سندے سے کا جواب دینے آیا ہوں۔ تیار رہو۔ تمہارے خطوط میرے پاس ہیں۔ تم کسی سے شادی کر کے تو دکھاؤ۔ میں دیکھوں گا کہ کیسے تم کو کوئی ڈولی میں بٹھا کر لے جاتا ہے۔ میں نے اس وقت جان چھڑاتے ہوئے کہا اچھا جو مرضی کر لینا مگر اس وقت تم جاؤ اماں کی آنکھ کھل گئی تو وہ شور مچا کر محلے والوں کو جگا دیں گی ۔ عاقب چلا گیا۔
 اگلے روز کچھ چھپانے کی بجائے میں نے سب کچھ اماں کو بتا دیا وہ دلہن بھابی کے پاس گئیں ان کے کمرے میں اکیلے میں ان سے بات کی اور خدا کا واسطہ دیا کہ میری مجبوری سمجھو عاقب کو سمجھاؤ یا پھر اپنے ساس سسر کو تم راضی کر لو کہ آ کر میری راحیلہ کا رشتہ مانگ لیں۔ اور عزت سے اس کو بیا کر لے جائیں مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ اس بات میں اس کی منگنی توڑ دیتی ہوں۔ بھابی نے ساس سے بات کی تو وہ ایسے اگ بگولہ ہوئی کہ بہو کو بھاگ کر اپنے کمرے میں چھپنا پڑا۔ دلہن بھابھی کو اندازہ ہو گیا کہ یہ ناممکن ہے۔ اس کے ساس سسر کسی صورت مجھ کو بہو نہیں بنانے کے۔ اب وہ اپنی نادانی پر پچھتاتی۔ عاقب کو سمجھایا کہ ایک باعزت بیوہ کی عزت کو نیلام مت کرو۔ اس کا کیا قصور ہے؟ جبکہ تمہارے والدین کو ہی راحیلہ قبول نہیں ہے۔ 
 
غرض دلہن بھابھی نے اس قدر سمجھایا کہ بات عاقب کی سمجھ میں آگئی کیونکہ اس معاملے میں دلہن بھابی خود بھی لپیٹ میں آرہی تھی۔ ان کے کہنے پر عاقب اپنے ارادے سے باز رہا۔ والدین سے بغاوت کا بھی اس میں حوصلہ نہ تھا۔ بس یہی کہتا تھا کہ راحیلہ کو چاہیے پانچ سال میرا انتظار کر لے۔ تب میں تعلیم مکمل کر لوں گا خود مختیار ہو جاؤں گا تو اس کے ساتھ شادی کر لوں گا۔ جس طرح سے بھی کرنا پڑے لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ اتنی مدت کا انتظار میری ماں کے لیے سہانے روح تھا۔ پھر کیا ضمانت تھی کہ اس کے بعد بھی حالات ہمارے موافق رہتے۔ آخرعاقب دل گرفتار ہو کر کالج لوٹ گیا۔ وہ میرے سارے خطوط بھی بھابھی کو دے گیا کہ یہ رحیلہ کو دے دینا۔ اپنے ہاتھوں سے جلا دے گی۔ بھابھی نے خطوط مجھے دے دیے اور میں نے اپنے ہاتھوں سے جلتے چولہے پر رکھ دیے ۔اس طرح ایک بیوہ کی عزت سرعام رسوا ہو جانے سے بچی۔ پھر میں ماں کی دعاؤں کے سائے تلے رخصت ہو کر اپنے گھر آگئی۔
 نبیل میرے شوہر کا نام تھا۔ والدین کے اکلوتے تھے۔ دو بڑی بہنیں تھیں ۔جو شادی شدہ تھی بہت امیر گھروں میں بیاہی گئی تھیں۔ نبیل کے والدین بھی کھاتے پیتے لوگ تھے مگر شائستہ پڑھے لکھے اور شفیق سا سسر والے کہ کسی قسمت والی لڑکی کو ملتے ہوں گے۔ میرا خیال رکھتے تھے۔ نندیں مجھ کو چاہتی تھیں۔ جب آتی ایک سے بڑھ کر قیمتی تحفہ لے کر آتی۔ مجھ کو اپنے شوہر کے گھر سے عزت پیار عیش و آرام غرض سب کچھ ملا۔ پھر بچے بھی ہو گئے اور میں اپنی زندگی میں کھو گئی والدہ نے گھر فروخت کر دیا۔ نبیل ان کو بھی لے آئے وہ ہمارے ساتھ رہنے لگی انہوں نے محنت مشقت ترک کر دی کہ اب وہ مزید محنت کر بھی نہ سکتی تھی۔
 
 عاقب تعلیم مکمل کرنے کے بعد امریکہ چلا گیا اس نے وہاں ہی شادی کر لی۔ ابا کا مکان بکا پھر میں اس محلے میں نہ گئی۔ نہیں معلوم عاقب اور اس کے گھر والوں کے کیا احوال رہے۔ بھابھی سے بھی رابطہ نہ رکھا۔ اللہ نے ماں کی دعاؤں سے ہر خوشی مجھے دی اور میں نے عاقب کی محبت کو لڑکپن کی بھول سمجھ کر ہمیشہ کے لیے بھلا دیا۔