تنہائی کی تپش

Sublimegate Urdu Stories

یہ قصہ برصغیر کے بٹوارے سے چند برس قبل کا ہے۔ ان دنوں ہمارے دادا بمبئی سے کراچی آ کر آباد ہو چکے تھے۔ وہ ایک تاجر تھے اور تجارت کے سلسلے میں بمبئی سے یہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ بعد میں یہاں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ چندن کا تعلق بھی بمبئی کے ایک معزز گھرانے سے تھا اور یہ لوگ ہمارے ہم زبان تھے۔ گجراتی ان کی مادری زبان تھی۔ چندن کے دادا نے بھی کراچی شہر کا ہی انتخابِ غرضِ تجارت کیا تھا، لہٰذا ہمارے بزرگوں کا آپس میں گہرا دوستانہ تعلق تھا۔

جب انگریزوں کی حکومت تھی، وہ اس شہر کی تعمیر نو اور ترقی کے کئی منصوبوں پر پیہم مصروف کار رہے تھے اور کراچی کی توسیع میں انہوں نے اہم کام کیے تھے، جس کے بدولت اب یہاں پختہ سڑکیں اور دیگر سہولیات میسر تھیں۔ یہ نیا علاقہ پرانے شہر سے، جو فصیل کے اندر ہوا کرتا تھا اور جہاں قدیمی رہائش آباد تھی، بالکل الگ تھلک تھا۔ نئے علاقے کی تعمیر میں انگریزوں نے اپنے قیام کی خاطر خاص توجہ دی تھی۔ صاف پانی کی فراہمی، معیاری سڑکیں، سیوریج کی نکاسی اور بہترین ٹاؤن پلاننگ پر کام کیا جا چکا تھا اور صفائی ستھرائی کی صورت حال بھی بہترین ہو چکی تھی۔

انگریزوں نے پوری توجہ تجارتی سرگرمیوں پر مرکوز رکھی تھی اور بندرگاہ سے شہر تک رسائی کے راستے تعمیر کرا کے قلیل مدت میں شہر میں کامیاب تجارتی منڈی قائم کر دی تھی۔ تبھی بمبئی اور دیگر علاقوں سے آئے ہوئے تاجر یہاں رہائش اختیار کیے ہوئے تھے۔ میرے اور چندن کے بزرگوں نے بھی یقینا اسی سبب سے بمبئی سے یہاں مستقل سکونت اختیار کرنے کو سوچا ہو گا، کیونکہ یہاں انہیں مال رکھنے کے لیے گوداموں کی بہترین سہولت سستے داموں میسر آ گئی تھی۔ہمارے خاندانوں کو نقل مکانی ہوئے تھوڑا عرصہ گزرا کہ بنوارہ ہو گیا اور ہم جو پہلے ہندوستانی تھے، پاکستانی ہو گئے۔ تاہم ہمارے کچھ عزیز و اقارب واپس بمبئی چلے گئے مگر میرے والد نہ گئے۔ انہوں نے گارڈن کے علاقے میں بہت عمدہ گھر بنالیا تھا۔ چندن کے والد میرے والد کے تجارتی شراکت دار اور اچھے پڑوسی بھی تھے، لہٰذا انہوں نے بھی اصرار کیا کہ والد اپنا گھر بار اور کاروبار چھوڑ کر نہ جائیں۔ہم دو بہنیں تھیں، ہمارا کوئی بھائی نہ تھا۔

 والد صاحب اپنے پڑوسی کے بیٹے چندن سے بہت پیار کرتے تھے اور اسے اپنا بیٹا کہہ کر بلاتے تھے۔ بعد میں جب ہم بڑے ہو گئے تو انہوں نے چندن سے میرا رشتہ طے کر دیا۔ میں ان دنوں میٹرک میں تھی۔ جب ہماری بات طے پائی کہ جب میں اور چندن تعلیم مکمل کر لیں گے تو ہماری شادی کر دی جائے گی۔ میں تو چندن سے منگنی کے بندھن میں بندھ جانے سے خوش تھی مگر اس کے دل کا حال نہ جانتی تھی کیونکہ ان دنوں منگنی کے بعد لڑکے اور لڑکی کے آپس میں آزادانہ میل جول کا رواج نہیں تھا۔نہیں جانتی تھی کہ میری بدقسمتی کا آغاز اس دن سے ہو گیا تھا جب چندن ایک دن جماعت خانہ گیا تھا، وہاں اس نے ایک ایسی لڑکی کو دیکھا جس کو بے اختیار اپنانے کا دل چاہنے لگا۔ یوں جو بات پلکوں کے پل سے شروع ہوئی، ملاقاتوں کے باغ تک جا پہنچی۔ اس لڑکی کا نام مہ پارہ سمجھ لیں۔ پہلے پہل تو چندن اور مہ پارہ کسی سینما ہال میں ملا کرتے تھے، پھر یہ ملاقاتیں شاپنگ پر طویل ہونے لگیں۔ 

چندن اپنے والد کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کی جیب نوٹوں سے بھری رہتی تھی۔ وہ پارو پر پیسے بے حساب خرچ کرتا اور اپنے دل کی خوشیاں خریدتا رہا۔ جب پارو کی مہنگی فرمائشوں پر اخراجات حد سے بڑھ گئے تو والدین نے اس پر روک ٹوک شروع کر دی۔ اس پر تو عشق کا بھوت سوار تھا۔ اس نے بھی والدین سے لڑائی مول لے لی۔پارو ایک آزاد خیال اور ماڈرن لڑکی تھی۔ وہ چندن کے ساتھ ہر جگہ جانے پر تیار ہو جاتی۔ چندن کے والد ان دنوں فلیٹ کا کاروبار بھی کر رہے تھے تاکہ انہیں بعد میں اچھے داموں فروخت کر سکیں۔ ان فلیٹوں کا انتظام چندن کے ہاتھ میں تھا۔ ان میں سے ایک فلیٹ کو چندن نے اپنی رہائش گاہ بنا لیا تھا۔ اسے فرنیچر سے آراستہ بھی کر دیا تھا۔ یہ فلیٹ پارو کو بہت پسند آیا۔ اس نے کہا کہ چندن بجائے پبلک پلیس پر ملنے کے، کیوں نہ ہم اسی فلیٹ میں ملا کریں تاکہ بلا جھجک اور سکون سے ایک دوسرے سے بات چیت کر سکیں۔اب جب بھی ان کو ملنا ہوتا، فون کر کے وقت طے کر لیتے۔ مہ پارہ چندن کے فلیٹ پر آ جاتی اور یہ سکون بھری ملاقات کر لیتے۔

 اس شام پارو کی سہیلی کے گھر پارٹی تھی، وہ بھی وہاں مدعو تھی۔ وہ شام کو آئی۔ اس نے چندن کو فون کیا کہ فلیٹ پر آجاؤ، میں آ رہی ہوں۔ وہاں دونوں پہنچے، باتیں کرتے کرتے وقت کا احساس نہ ہوا اور رات ہو گئی۔ تب وہ گھبرا گئی اور کہنے لگی کہ رات کے گیارہ بج رہے ہیں۔ اچھا اب میں ایسا کرتی ہوں کہ اپنی سہیلی روپا کو فون کر دیتی ہوں کہ اگر میرے گھر سے فون آئے تو کہہ دے کہ میں اس کے گھر رات رک گئی تھی۔اس نے پہلے سہیلی کو فون کیا، پھر اپنی والدہ کو فون کر کے بتایا کہ اسے سہیلی کے گھر سے نکلنے میں دیر ہو گئی ہے کیونکہ پارٹی دیر سے ختم ہوئی ہے، تو وہ اب روپا کے گھر پر ہی رکے گی اور صبح گھر آجائے گی۔ روپا اور اس کے گھرانے کو پارو کی ماں اچھی طرح جانتی تھیں۔ انہوں نے بیٹی کی بات کا اعتبار کر لیا۔

 وہ اس رات چندن کے فلیٹ پر ہی اس کے پاس ٹھہر گئی۔اور پھر تنہائی کی تپش سے وہ جذبات میں بہہ گئے۔ بعد میں چندن کو ندامت ہوئی کہ وہ کیوں پارو کی سنہری زلفوں میں کھو گیا تھا، لیکن اب افسوس بیکار تھا۔ جب ایک بار لحاظ کی حد جاتی رہے تو پھر حجاب بھی جاتا رہتا ہے۔ اب یہ بے خوفی کی حدود پار کر کے فلیٹ پر ملتے تھے۔ چندن بری طرح پھنس چکا تھا۔ ایک طرف اس کی میرے ساتھ منگنی طے تھی تو دوسری جانب پارو مجبور کرتی تھی کہ مجھ سے ملو۔ اس کا ارادہ کسی کو بھی دھوکا دینے کا نہیں تھا، لیکن بات اس قدر بڑھ گئی کہ اب پارو کو تو کسی صورت تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا تھا اور نہ ہی اسے دھوکا دینا چاہتا تھا۔اس نے والدین سے کہہ دیا کہ وہ منگنی ختم کر دیں کیونکہ وہ اپنی منگیتر یعنی مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔
یہ پرانے وقتوں کی الگ باتیں تھیں۔ چندن کے والد اڑ گئے کہ دنیا ادھر کی اُدھر ہو جائے، اب زبان ہو چکی ہے اور منگنی نہیں توڑی جائے گی۔ چندن مجبور ہو کر ضمیر کی آواز کو دبانے پر مجبور ہو گیا۔ مگر پارو نے بھی انہی دنوں اسے ایسی خبر سنادی کہ وہ حواس باختہ ہو کر رہ گیا، کیونکہ ان کی خطا کی بہت بڑی سزا قدرت سے اسے ملنے والی تھی۔ پارو نے وہ خوش خبری سنادی جو لڑکی کے لیے شادی سے پہلے موت کی سزا جیسی بھیانک ہوتی ہے، مگر شادی کے بعد یہ خوش خبری مبارک باد کی نوید لاتی ہے۔ چندن نے پارو کو بتایا کہ اس کے والد کسی صورت اس کی شادی منگیتر کے علاوہ کسی سے کرنے پر راضی نہیں ہیں، حتیٰ کہ وہ خود کو یا پھر چندن کو ہی شوٹ کر دیں گے۔ تب پارو بولی، ٹھیک ہے، میں تمہاری مجبوری سمجھتی ہوں، تو پھر اس صورت حال سے نجات پانے کے لیے مجھے کافی رقم ادا کر کے اپنی خطا کی قیمت چکانی ہوگی، کیونکہ کوئی بھی راز داری کی قیمت کم لینے پر راضی نہیں ہوتا۔

چندن اپنی جگہ نادم تھا۔ گناہ چھپانے کی قیمت اس وقت وہ جتنی مانگتی، دینا ہی تھی۔ پارو رقم مانگتی رہی اور چندن ادا کرتا گیا۔ جب پارو کو یقین ہو گیا کہ اب یہ خالی جیب ہو چکا ہے تو ملنے سے کترانے لگی، جبکہ چندن اب بھی پارو کو دھوکا نہ دینا چاہتا تھا۔ وہ مجھ سے والدین کی لا علمی میں ملا اور استدعا کی کہ میں خود شادی سے منع کر دوں۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ میں بیمار ہوں اور شادی کے لائق نہیں ہوں۔ میں نے کہا، کوئی بات نہیں، بیمار ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں بیماریاں ہیں تو علاج بھی ہیں۔ میں تمہارے بیمار ہونے سے نہیں ڈرتی، میں تمہاری کسی بیماری سے نہیں ڈرتی۔ تم جیسے بھی ہو، مجھے قبول ہو، مگر میں والدین کو شادی سے انکار کر کے دکھ نہیں دے سکتی۔ سوچ لو شبھ تارا، اگر شادی کے بعد تم کو پچھتاوا ہوا تو مجھے نہیں ہوگا۔میں نے جواب دیا تھا۔ اس کے باوجود اس نے پارو کا ساتھ نہ چھوڑا، لیکن ایک دن قدرت نے خود فیصلہ کروادیا۔ وہ پارو سے ملنے اس کے گھر گیا، تو وہ کسی اور کی گاڑی میں بیٹھ کر جارہی تھی۔
 چندن نے منہ پھیر لیا۔ چندن نے وہ تمام دن کرب میں گزارے اور شام کو اسے فون کیا، پوچھا وہ کون تھا جس کے ساتھ تم جارہی تھیں؟پارو نے کہا، وہ میرا منگیتر تھا، چندن۔ خدا کے لیے اب کبھی اس کے سامنے بھی مت آنا۔ اس نے التجا کی کہ تم اپنی مجبوری سے سمجھوتا کر لو اور میں تمہاری جدائی کا کرب سہنے کے لیے کسی اور کا سہارا لے لوں، یہی حل ہے۔چندن نے کہا، ایسا ہرگز نہ کرنا۔ میں اپنی منگیتر کو چھوڑ رہا ہوں، والدین کو بھی چھوڑ دوں گا، مگر تم کو نہیں چھوڑ سکتا۔ اور اگر تم نے مجھے چھوڑا تو میں سارا قصہ تمہارے منگیتر کو کہہ دوں گا۔ روپا منع کرتی رہی، لیکن چندن نے اس شخص سے رابطہ کر ہی لیا، جس کے کندھے پر سر رکھ کر وہ چندن کو بھلانے کی باتیں کرتی تھی۔ چندن اس کی خاطر خاصا برباد ہو چکا تھا۔ لیکن جب اس نے پارو کے نئے دوست کو پارو سے خود کی لگاؤ سے آگاہ کر دیا، تو وہ غصے میں بپھر گئی۔ اس نے کہا کہ تم کو دوسری بار مجھے برباد کرنے کی اب بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ چندن نے اس دھمکی کی بھی پروا نہ کی۔ چند دن بعد وہ پھر سے چندن سے ملنے لگی، پہلے کی طرح پیار و محبت سے، وہی انداز، وہی عہد و پیمان۔ وہ اس کے فلیٹ پر آنے لگی، لیکن اس بار کچھ اور دل میں ٹھان کر آئی تھی۔ اس نے چندن کو بے وقوف بنایا اور ایک روز کھانے میں کوئی چیز ملا کر کھلا دی کہ وہ ایک ادھورا انسان ہو گیا۔ وہ واقعی بیمار پڑ گیا تھا۔

اس دوران پارو نے شادی کر لی اور ملک سے باہر چلی گئی۔ چندن کا علاج ہوتا رہا۔ وہ بظاہر ٹھیک ہو گیا لیکن وہ ادھورا ہی تھا۔ اس بات کو اس نے چھپالیا اور پھر والدین کے اصرار پر مجھ سے شادی کر لی۔ میں اسے پا کر بہت خوش تھی کیونکہ میری زندگی میں تو اس کے سوا کسی کا تصور نہ تھا۔ مجھ پر تو کسی اور کی پر چھائیں تک نہ پڑی تھی۔کچھ عرصہ خوش و خرم گزر گیا مگر میری خوشیوں بھری زندگی بھی ابھی تک ادھوری تھی۔ مجھے اولاد نہ ہوئی تھی، کافی علاج کرایا۔ ان دنوں اولاد نہ ہونے کا قصور وار عورت کو ٹھہرایا جاتا تھا۔ اسے بانجھ ہونے کے طعنے سہنے پڑتے تھے۔ میں بھی خود کو مجرم سمجھتی رہی کہ میں ہی بانجھ ہوں، میں ہی قصور وار ہوں۔ چندن سے کہتی تھی کہ تم اور شادی کر لو۔ اولاد کی خوشی اگر میری قسمت میں نہیں ہے تو تم کیوں محروم رہو؟ یہ خالق کی مرضی ہے۔۔۔ کسی کو یہ خوشی دے اور کسی کو نہ دے۔ ہمیں ہر حال میں اس کا شکر گزار رہنا چاہیے۔وہ ایسے جواب دیتا رہا اور میں خاموش ہو جاتی تھی۔
 میرے آنگن کی تنہائیاں میری قسمت بن گئیں۔ میں کسی بچے کی چہکار کو ترستی رہی۔ بالآخر میں نے اسے دوسری شادی پر مجبور کیا تو ایک روز اس نے مجھے بتا دیا کہ تم قصور وار نہیں بلکہ اس محرومی کا قصور وار وہ خود ہے۔ اس نے یہ کہہ کر اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کر دیا کہ دوران علاج ہی ڈاکٹر نے اسے آگاہ کر دیا تھا کہ وہ اب کبھی باپ بننے کی خوشی نہیں دیکھ سکے گا۔ایک سنیاسی کی دی ہوئی دوا جو مہ پارہ نے اسے کھلائی تھی، اس سے اس کے بدن پر جو آبلے پڑ گئے تھے وہ تو ٹھیک ہو گئے، مگر اس کی روح پر پڑے آبلے ٹھیک نہ ہو سکے تھے، اور پارو نے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ایسا کیا تھا۔ یہ چندن کی غلطی ہی تھی کہ وہ اسے اس کی مرضی کے خلاف کسی اور شخص سے شادی کرنے سے روکتا تھا۔ کاش وہ اسے مجبور نہ کرتا، عورت سمجھ کر اسے کمزور ہستی نہ جانتا، تو وہ بھی اس پر ایسا سنگین وار نہ کرتی جس کی وجہ سے وہ عمر بھر احساس جرم کا شکار رہا، اور میں خود کو بانجھ سمجھ کر خود کو کوستی اور دوستی ٹھہراتی رہی۔آج چندن اس دنیا میں نہیں ہیں، پھر بھی میرے دل سے ان کی محبت کم نہیں ہوتی۔ میں نے انہیں صدق دل سے معاف کر دیا ہے۔ انہیں مجھ سے محبت نہ سہی، مجھے تو ان سے محبت تھی اور اب بھی ہے کیونکہ سچی محبت میں طمع نہیں ہوتا اور نہ یہ مٹنے والی چیز ہوتی ہے۔ محبت کے تو کئی رنگ کئی روپ ہوتے ہیں، ایک روپ یہ بھی سہی کہ لوگ مجھے آج تک ایک بانجھ عورت ہی سمجھتے ہیں۔

(ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ