ہاشم نے دبی زبان میں کہا کہ عارف کی واپسی تک انتظار کر لینا چاہیے، لیکن یہ مشورہ مجھے غیر ضروری لگا۔ میں نے پوچھا، "کیا تم جانتے ہو عارف کہاں گیا؟" اس نے کہا، "نہیں، مجھے کچھ پتا نہیں۔" میں نے کہا، "تو پھر اس کی واپسی کا کیسے اندازہ لگاؤ گے؟ لاش کو پوسٹمارٹم کے لیے بھجوانا ضروری ہے، اور میں تاخیر برداشت نہیں کر سکتا۔ عارف جب آئے گا، اس سے نمٹ لیں گے۔ ویسے بھی، مجھے لگتا ہے وہ واپس نہیں آئے گا۔ ہمیں اس کی تلاش کے لیے لوگ لگانے پڑیں گے۔" میری بات سن کر ہاشم خاموش ہو گیا۔
ہاشم کی خاموشی کے بعد، میں نے وہاں موجود لوگوں کے بیانات لینے شروع کیے۔ سلیم نے منت کی کہ اس کا بیان پہلے لے لیا جائے کیونکہ اسے دوکان کھولنی تھی۔ میں نے اس سے پہلے ہی بہت کچھ پوچھ لیا تھا، اور اس نے زینب اور عارف کے بارے میں کافی معلومات دی تھیں۔ مزید کچھ پوچھنا باقی نہ تھا، سو میں نے اسے جانے کی اجازت دی اور کہا، "اگر ضرورت پڑی تو میں تمہاری دوکان پر آ کر پوچھ لوں گا۔" وہ سلام کر کے چلا گیا۔
میں نے تین چار لوگوں کے بیانات لیے، جن میں ہاشم اور صادق شامل تھے۔ صادق کے علاوہ سب نے عمومی باتیں بتائیں، جیسے کہ عارف اپنی بیوی سے بہت ڈرتا تھا، زینب کے سامنے اس کی ہمت جواب دے جاتی تھی، اور زینب ایک دبنگ عورت تھی جس نے عارف کو شروع سے دبا کر رکھا تھا۔ وہ زینب کے اشاروں پر ناچتا تھا، اور قصبے میں مشہور تھا کہ عارف زینب کی بیوی اور زینب اس کا شوہر ہے۔
میں نے زینب کی بے وفائی کے بارے میں بھی سوالات کیے، لیکن صادق کے سوا کوئی اس بارے میں کچھ نہ جانتا تھا۔ صادق کو پختہ شبہ تھا کہ زینب کسی غلط کام میں ملوث تھی۔ اس کی باتوں سے لگتا تھا کہ اس کا زینب اور عارف کے گھر آنا جانا تھا۔ میں اسے اس کی بیٹھک میں لے گیا، امید تھی کہ اس سے کوئی اہم بات معلوم ہوگی۔ اس سے پہلے، میں نے عارف کے گھر کو بند کر کے اس پر سرکاری تالہ لگا دیا اور پڑوسیوں کو ہدایت کی کہ اگر عارف نظر آئے تو اسے تھانے لے آئیں۔
صادق نے اپنی بیوی کلثوم کو کھانے پینے کا بندوبست کرنے کو کہا۔ بیٹھک میں بیٹھ کر میں نے سنجیدہ لہجے میں پوچھا، "صادق، میں نے عارف اور زینب کے بارے میں عجیب و غریب باتیں سنی ہیں۔ کیا عارف واقعی زینب کے سامنے غلام بن جاتا تھا؟ لوگ اسے زینب کی بیوی کیوں کہتے تھے؟ اس کے پیچھے کوئی راز تو ہوگا۔" صادق نے کہا، "تھانیدار صاحب، آپ سمجھدار ہیں۔ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیوں کی طرح ہوتے ہیں، لیکن ان دونوں میں توازن نہ تھا۔ عارف زینب کے سامنے گھریلو عورت لگتا تھا۔ میں نے زن مرید مرد دیکھے، لیکن ان کا معاملہ حد سے بڑھا ہوا تھا۔"
میں نے کہا، "یہی جاننا چاہتا ہوں کہ ایسی کیا بات تھی کہ زینب عارف سے شوہر جیسا سلوک کرتی تھی؟ یا عارف کی کوئی کمزوری تھی؟" صادق نے کہا، "جب کوئی شوہر بیوی کے سامنے چوہا بن جاتا ہے، تو اس کی ایک ہی وجہ ہوتی ہے۔" وہ خاموش ہو کر مجھے دیکھنے لگا۔ میں نے کہا، "ہوں، تو یہ بات تھی۔" صادق نے سنجیدگی سے کہا، "جناب، میں کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا، لیکن جب میاں بیوی کی عمر میں بڑا فرق ہو، تو بات اسی طرف جاتی ہے۔"
میں نے زینب کی عمر 25-26 سال لگائی تھی، اور شادی کے وقت وہ 21-22 کی ہوگی۔ عارف کو میں نے ابھی نہیں دیکھا تھا، سو میں نے پوچھا، "عارف کی عمر کیا ہوگی؟" صادق نے تلخی سے کہا، "کم از کم 55 سال!" اس نے مزید بتایا، "میری عمر 50 سال ہے، لیکن میں ٹھیک ٹھاک لگتا ہوں۔ عارف 55 کا ہے، لیکن اس کی صحت ایسی ہے کہ وہ 65-70 کا لگتا ہے۔ زینب کے مقابلے میں وہ باپ جیسا لگتا تھا۔"
میں نے کہا، "تم نے بتایا کہ زینب اور کلثوم کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا۔ عورتوں کی 95 فیصد باتیں دوسری عورتوں کے شوہروں کے بارے میں ہوتی ہیں۔" صادق نے ہنستے ہوئے کہا، "بالکل ٹھیک کہا، جناب!" میں نے کہا، "تو کلثوم نے زینب سے عارف کے بارے میں ضرور پوچھا ہوگا، اور زینب نے کچھ نہ کچھ بتایا ہوگا۔" صادق نے سر ہلایا اور کہا، "کبھی کبھار ایسی باتیں مجھ تک پہنچتی تھیں کہ زینب اپنے شوہر سے خوش نہیں تھی۔"
اسی دوران کھانے پینے کا سامان آ گیا، اور ہم کچھ دیر کے لیے اصل موضوع سے ہٹ کر کھانے کی باتوں میں مصروف ہو گئے۔ صادق ایک متوسط زمیندار تھا، اور اس کے گھر کا رہن سہن اس کی آسودگی ظاہر کرتا تھا۔
کھانے پینے کے مختصر وقفے کے بعد ہم دوبارہ زینب اور اس کے بیوی نما شوہر عارف کے بارے میں بات کرنے لگے۔ میں نے صادق سے کہا، "صادق، تم بتا رہے تھے کہ عارف کی عمر پچپن کے قریب ہے، اور مجھے پتا چلا ہے کہ زینب سے اس کی شادی صرف چار سال پہلے ہوئی تھی۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ عارف نے اتنی دیر سے شادی کیوں کی، اور وہ بھی اپنی آدھی عمر کی لڑکی سے؟"
صادق نے پختہ لہجے میں کہا، "سب معلوم ہے، جناب! ہم سالہا سال سے پڑوسی ہیں۔ آپ کے سوال کے دو حصے ہیں، میں ترتیب سے جواب دیتا ہوں۔ پہلے عارف کی شادی میں تاخیر کی وجہ بتاتا ہوں۔ جب عارف کی شادی کی عمر تھی، وہ اور اس کے والدین لڑکیوں کو مسترد کرتے رہے۔ اگر عارف کو کوئی لڑکی پسند آتی، تو اس کی ماں شازیہ اس میں کوئی نہ کوئی عیب نکال لیتی۔ اور اگر شازیہ کو کوئی لڑکی پسند آتی، تو عارف کسی بہانے سے اسے ناپسند کر دیتا۔ اسی طرح عارف کی عمر بڑھتی گئی، اور ان ماں بیٹے کا رویہ دیکھ کر لوگ محتاط ہو گئے۔ ایک وقت آیا کہ شازیہ جہاں بھی عارف کا رشتہ لے کر جاتی، پہلے ہی قدم پر انکار ہو جاتا۔ اس عمل سے گزرتے گزرتے عارف جوان سے ادھیڑ عمر میں داخل ہو گیا، اور پھر رشتے بالکل بند ہو گئے۔ پھر جب وہ پچاس، اکاون سال کا ہوا، تو گویا اس کی لاٹری نکل آئی۔ یہ لاٹری والی بات آپ کے سوال کے دوسرے حصے کا جواب ہے۔ ملتان میں عارف کی خالہ فاطمہ رہتی تھی، اور اس کی صرف ایک بیٹی تھی، زینب۔ جب فاطمہ کا آخری وقت قریب آیا، تو اس نے اپنی بہن شازیہ سے کہا کہ تمہارا بیٹا عارف ابھی تک کنوارا ہے، اور مجھے نہیں پتا کب میں اس دنیا سے چلی جاؤں۔ اگر میں مر گئی تو زینب اکیلی رہ جائے گی۔ کیوں نہ اس کی شادی عارف سے کر دی جائے؟ اس طرح میں سکون سے مر سکوں گی۔ یوں زینب کی شادی عارف سے ہو گئی۔"
صادق کے خاموش ہونے پر میں نے کہا، "ایک بات سمجھ نہیں آئی، صادق! اگر فاطمہ اپنے بھانجے عارف سے اتنی محبت کرتی تھی، تو اسے پہلے زینب کی شادی کا خیال کیوں نہ آیا؟" صادق نے سر ہلاتے ہوئے کہا، "جناب، اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو آپ جانتے ہیں کہ جب عارف اپنی جوانی کے عروج پر تھا، اس وقت زینب شاید پیدا ہی ہوئی ہو گی۔ اور جب زینب شادی کے قابل ہوئی، تو عارف کا بڑھاپا شروع ہو چکا تھا۔ یہ ایک وجہ ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ عارف کی شادی سے کچھ عرصہ پہلے تک فاطمہ اور شازیہ کے درمیان شدید اختلافات تھے۔ دونوں ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہ کرتی تھیں۔ شازیہ یہاں بخت پور میں عارف کے ساتھ رہتی تھی، جبکہ فاطمہ ملتان کے ایک نواحی گاؤں میں زینب کے ساتھ تھی۔ پھر جب فاطمہ شدید بیمار ہوئی اور اس کے بچنے کی امید ختم ہو گئی، تو اس نے اپنی بہن سے رنجش ختم کر دی۔ شازیہ نے بھی اسے معاف کر دیا، اور اسی وجہ سے عارف اور زینب کی شادی ہوئی۔"
میں نے حیرت سے کہا، "واقعی عارف کی لاٹری نکل آئی تھی!" صادق نے منہ بناتے ہوئے کہا، "لاٹری تو تھی، جناب! مگر اس لاٹری نے بعد میں عارف کا باجا بجا دیا۔ اسی باجے کی گونج میں وہ زینب کی بیوی مشہور ہو گیا۔"
میں نے کہا، "صادق! زینب کی لاش پوسٹمارٹم کے لیے ہسپتال بھجوا دی گئی ہے، اور عارف کا ابھی تک پتا نہیں کہ وہ کہاں غائب ہے۔ سلیم کے مطابق عارف کو آج کہیں جانا تھا۔ کہاں جانا تھا، یہ نہ سلیم کو پتا ہے اور نہ ہی کوئی اور جانتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ عارف نے سلیم سے جھوٹ بولا ہو اور اپنا منصوبہ مکمل کر کے فرار ہو گیا ہو؟"
صادق نے الجھن سے پوچھا، "کون سا منصوبہ؟" میں نے اسے وہ معلومات بتائیں جو سلیم نے مجھے دی تھیں۔ صادق نے پوری توجہ سے سنا اور کہا، "تھانیدار صاحب، یہ بات طے ہے کہ زینب کو بڑی بے دردی سے قتل کیا گیا۔ اگر سلیم نے عارف کے بیان کے بارے میں جھوٹ نہیں بولا، تو لگتا ہے عارف نے زینب کو قتل کر کے خاموشی سے کہیں بھاگ گیا۔ ہمیں اس کی واپسی کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔"
میں نے پرعزم لہجے میں کہا، "وہ واپس آئے یا نہ آئے، اگر اس نے زینب کو قتل کر کے فرار ہوا ہے تو میں اسے پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالوں گا۔ مگر اس سے پہلے ایک بات کا فیصلہ کرنا ضروری ہے۔" صادق نے چونک کر پوچھا، "کون سی بات، جناب؟" میں نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا، "یہی کہ کیا زینب واقعی بے وفائی کر رہی تھی یا نہیں؟ اگر ہم سلیم کی باتوں کو بنیاد بنائیں اور عارف کو قاتل مانیں، تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ زینب چپکے چپکے عارف کو دھوکہ دے رہی تھی۔ اگر ایسا تھا، تو اس نے اسے کس کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑا؟ یہ ایک سنگین سوال ہے، اور اس کے جواب تک پہنچنے کے لیے تم میری مدد کرو گے، صادق!"
میں نے مزید کہا، "تمہیں بھی زینب کے بارے میں کچھ ایسا ہی شک تھا، کیا میں غلط ہوں؟" صادق نے روانی سے کہا، "آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، جناب!" میں نے کہا، "تو پھر تم بتاؤ، حقیقت کیا ہے؟"
وہ چند لمحے خاموش رہا، پھر بولا، "تھانیدار صاحب، میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ میری عادت دوسروں سے مختلف ہے۔ میں اپنے کام سے کام رکھتا ہوں اور دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ میں عارف اور زینب کے بارے میں بہت کچھ سنتا رہا، لیکن اس پر توجہ نہ دی۔ میں نے ایک کان سے سنا اور دوسرے سے نکال دیا۔ مگر جو کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، اسے نظر انداز نہیں کر سکتا۔ بننا سنورنا عورت کا حق ہے، اور شادی شدہ عورت اپنے شوہر کے لیے سجتی ہے۔ لیکن عارف کے گھر میں اس کے برعکس ہوتا تھا۔ زینب عارف کو شوہر ہی نہیں سمجھتی تھی۔ اس کے لیے بننا سنورنا تو دور کی بات ہے۔ میں نے کئی بار دیکھا کہ جب عارف گھر پر نہیں ہوتا تھا، زینب خصوصی طور پر تیار ہوتی تھی۔ ویسے، قدرت نے اسے ایسی خوبصورتی دی تھی کہ اسے کسی اضافی سجاوٹ کی ضرورت ہی نہ تھی۔ آپ نے اس کی لاش دیکھی، اگر زندہ حالت میں دیکھتے تو میری بات سمجھ جاتے۔"
میں نے زینب کی خوبصورتی کو ایک نظر دیکھ کر ہی سمجھ لیا تھا، اس لیے تفصیل کی ضرورت نہ تھی۔ میں نے صادق کو اصل موضوع پر لاتے ہوئے کہا، "صادق، بات کہیں سے کہیں جا رہی ہے۔ تم تو زینب کی بے وفائی کے بارے میں کچھ بتانے والے تھے۔"
وہ سر ہلاتے ہوئے بولا، "میں اسی طرف آ رہا ہوں، جناب! میں نے محسوس کیا کہ زینب کا بننا سنورنا عارف کے لیے نہیں تھا۔ عارف کا کام دوپہر سے رات گئے تک چلتا تھا، اور شام کے بعد وہ سب سے زیادہ مصروف ہوتا تھا۔ انہی اوقات میں زینب کو بے وفائی کا موقع ملتا تھا۔"
میں نے کہا، "صادق، تم میرے سوال کے جواب میں بہت احتیاط سے کام لے رہے ہو۔ اگر تم نے زینب کی بے وفائی کا کوئی منظر دیکھا ہے تو بتاؤ، تاکہ میں اس قتل کی تفتیش آگے بڑھاؤں۔" وہ دو ٹوک انداز میں بولا، "جناب، میں نے اپنی آنکھوں سے تو کچھ نہیں دیکھا۔ لیکن عارف کی غیر موجودگی میں زینب کا بننا سنورنا اور غیر مردوں کا اس کے گھر آنا جانا بہت کچھ بتاتا تھا۔ کئی بار دو افراد کو وہاں آتے جاتے دیکھا۔ میں اس آمدورفت کو اچھا نہیں سمجھتا تھا۔ لیکن میں نے عارف کے گھریلو معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی۔ اگر یہ قتل نہ ہوتا اور آپ نہ پوچھتے، تو میں شاید اب بھی خاموش رہتا۔"
میں نے محسوس کیا کہ صادق ایک شریف آدمی تھا اور دوسروں کے معاملات میں بولتے ہوئے احتیاط کرتا تھا۔ میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا، "صادق، میں تمہارے جذبات سمجھتا ہوں۔ بتاؤ، وہ دو افراد کون تھے جو عارف کی غیر موجودگی میں زینب سے ملنے آتے تھے؟"
صادق نے بتایا، "ان میں سے ایک سلیم ہے، جو تھوڑی دیر پہلے آپ سے اجازت لے کر گیا۔ دوسرا شخص داود ہے۔" صادق ایک کے بعد ایک چونکا دینے والا انکشاف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا، "کیا تم سلیم کی بات کر رہے ہو؟" وہ بولا، "جی ہاں، سلیم ہی کی بات ہے۔ وہ عارف کا سوتیلا بھائی بھی ہے۔ اور داود کوئی اچھا انسان نہیں۔ آپ اسے آوارہ یا بدمعاش کہہ سکتے ہیں۔"
میں حیرت اور الجھن سے صادق کو دیکھنے لگا۔ سلیم نے مجھ سے کبھی نہیں بتایا کہ وہ عارف کا سوتیلا بھائی ہے۔ اس کی ساری گفتگو سے یہی لگتا تھا کہ وہ اور عارف اچھے دوست ہیں۔ رشتے داری کا تو ذکر ہی نہیں آیا۔ میں نے سنجیدگی سے پوچھا، "کیا واقعی سلیم اور عارف سوتیلے بھائی ہیں؟"
صادق نے شاکی نظروں سے کہا، "جناب، میں جھوٹ کیوں بولوں گا؟ اگر یقین نہ ہو تو سلیم سے پوچھ لیں!" میں نے کہا، "پوچھ تو لوں گا، لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ سلیم نے یہ کیوں نہیں بتایا۔" صادق نے کہا، "ہو سکتا ہے وہ اس ناخوشگوار موضوع کو چھونا نہ چاہتا ہو۔"
میں نے الجھن سے پوچھا، "ناخوشگوار موضوع؟ کیا مطلب؟" صادق نے وضاحت کی، "جناب، بات یہ ہے کہ ماضی میں عارف کے باپ قاسم نے اس کی ماں شازیہ کو طلاق دے دی تھی۔ اس وقت عارف دس بارہ سال کا تھا۔ شازیہ اور قاسم کے درمیان ایک بڑا جھگڑا ہوا، اور قاسم شازیہ کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے نکل گیا۔ کچھ عرصے بعد قاسم نے فریدہ سے شادی کی، اور سلیم اسی کا بیٹا ہے۔ پھر قاسم نے ایک تیسری عورت سے شادی کی، جس سے فریدہ اور قاسم کے درمیان جھگڑے شروع ہو گئے۔ یہ سلسلہ زیادہ نہ چلا، اور فریدہ سلیم کو لے کر قاسم سے الگ ہو گئی۔ قاسم نے فریدہ کو طلاق نہیں دی، اور نہ ہی فریدہ نے یہ مطالبہ کیا۔ ان سب کرداروں میں سے اب کوئی زندہ نہیں، سوائے عارف اور سلیم کے، جو اپنی زندگی کے آخری دور میں ہیں۔"
میں نے پوری توجہ سے سنا اور کہا، "خاصی دلچسپ اور سنسنی خیز کہانی ہے!" پھر میں نے پوچھا، "تو کیا قاسم کی تیسری بیوی سے کوئی اولاد ہوئی؟" صادق نے نفی میں سر ہلایا۔ میں نے دوسرے مشکوک شخص کے بارے میں پوچھا، "یہ داود کون ہے اور کیا کرتا ہے؟"
صادق نے بتایا، "داود اسی قصبے کا رہنے والا ہے۔ وہ ایک آوارہ شخص ہے، کوئی خاص کام نہیں کرتا۔ آپ اسے سڑک چھاپ غنڈا کہہ سکتے ہیں۔ کمزور لوگوں پر رعب جھاڑ کر ان سے پیسے وصول کرتا ہے۔ مار پیٹ اور چوری چکاری میں بھی ملوث ہے۔ ایک آدھ بار جیل بھی جا چکا ہے۔"
میں نے کہا، "صادق، سلیم کے لیے تو کچھ رعایت ہو سکتی ہے کہ وہ عارف کا سوتیلا بھائی ہے۔ اگر وہ عارف کی موجودگی میں گھر آتا تھا تو یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن داود جیسے غنڈے کی آمدورفت قابل غور ہے۔ ان حالات سے یہی لگتا ہے کہ سلیم نے عارف کے بارے میں جو کچھ بتایا، وہ سچ ہے۔ زینب کا قتل اور عارف کی روپوشی اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔"
صادق نے کہا، "آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، جناب! زینب کے طور طریقے خطرناک تھے۔ خاص طور پر عارف کی غیر موجودگی میں اس کا انداز بدل جاتا تھا۔ داود کا اس کے گھر آنا جانا انہی حالات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ لیکن میرے خیال میں سلیم کو بھی کوئی رعایت نہیں ملنی چاہیے۔ وہ بھی زینب کے لیے غیر تھا۔ عارف کی غیر موجودگی میں چپکے سے ملنے آنا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔"
میں نے کہا، "صادق، میں نے سلیم کو نظر انداز کرنے کی بات نہیں کی۔ اس سے تو میں کڑی پوچھ گچھ کروں گا۔" صادق نے سنجیدگی سے کہا، "تھانیدار صاحب، حالات یہی بتاتے ہیں کہ عارف نے زینب کو قتل کر کے فرار ہو گیا۔ آپ اسے کیسے ڈھونڈیں گے؟"
میں نے کہا، "سب سے پہلے میں جاننا چاہوں گا کہ عارف بخت پور سے باہر کہاں جا سکتا ہے۔ اس کے دوست یا رشتے دار کن علاقوں میں ہیں؟" صادق نے کہا، "میری معلومات کے مطابق عارف کی صرف ایک رشتے دار تھی، زینب، جو اب نہیں رہی۔ اس کے یار دوستوں کا بھی یہی حال ہے۔ میں نے اسے کہیں آتے جاتے نہیں دیکھا، نہ اس کے گھر مہمانوں کی آمدورفت ہوتی تھی۔ اس سلسلے میں میری کوئی مدد نہیں ہو سکتی۔ شاید سلیم کچھ بتا سکے۔"
میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا، "سلیم کو تو میں ضرور چیک کروں گا۔" پھر میں نے صادق سے پوچھا، "یہ بتاؤ، زینب کا وارث تو عارف ہی تھا، لیکن وہ تو منظر سے غائب ہو گیا ہے۔ کل پوسٹمارٹم کے بعد لاش واپس آ جائے گی۔ اگر شام تک عارف واپس آ جاتا ہے تو اچھا ہے، میں لاش اس کے حوالے کر دوں گا، بشرطیکہ وہ زینب کے قتل میں ملوث نہ پایا جائے۔ لیکن اگر وہ واپس نہ آیا تو ایک بڑا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔"
صادق نے روانی سے کہا، "جناب، اگر عارف نے زینب کو قتل کر کے فرار ہوا ہے تو اس کی واپسی کی امید نہ رکھیں۔ سمجھیں کہ وہ ہاتھ سے گیا!"
میں نے پختہ لہجے میں کہا، "وہ ہاتھ سے نہیں جا سکتا، صادق! کیا تمہیں معلوم ہے کہ ملتان میں زینب کے دیگر رشتہ دار بھی ہیں؟ اگر آج شام تک عارف نہ آیا تو کل صبح کسی کو بھیج کر زینب کے رشتہ داروں کو اس ہولناک واقعے کی خبر دینی ہوگی۔"
صادق نے مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے کہا، "نہیں جناب، میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا۔"میں نے خود کلامی کے انداز میں کہا، "یہ سوال بھی سلیم سے ہی پوچھنا پڑے گا۔" صادق خاموشی سے مجھے دیکھتا رہا۔ چند اور سوالات کے بعد میں اس کے گھر سے اٹھ آیا۔ واپسی کے سفر میں میں اکیلا تھانے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ حوالدار نصیر کو میں نے زینب کی لاش کے ساتھ ہسپتال بھجوا دیا تھا، اور سلیم مجھ سے اجازت لے کر جا چکا تھا۔ جب سلیم عارف کے گھر سے جا رہا تھا، تو میرا خیال تھا کہ اس سے مزید پوچھ گچھ کی ضرورت نہیں۔ لیکن اب حالات بدل چکے تھے، اور میرے خیال میں سلیم سے پوچھنے کے لیے بہت کچھ جمع ہو چکا تھا۔ ساتھ ہی مجھے داود کو بھی تھانے بلا کر اس سے سخت پوچھ گچھ کرنی تھی۔ یہی سوچتا ہوا میں تھانے پہنچ گیا۔
دوپہر کے بعد میں نے ایک کانسٹیبل کو بلایا اور اس سے داود کے بارے میں سوالات کیے۔ وہ کانسٹیبل بخت پور کا رہنے والا تھا اور اس نے صادق کی بتائی ہوئی داود کے بارے میں باتوں کی تصدیق کی۔ تاہم، اسے یہ نہیں پتا تھا کہ داود کا عارف کے گھر آنا جانا تھا یا نہیں۔ میں نے اسے خصوصی ہدایات دیں کہ داود کو سلیقے سے گھیر کر تھانے لے آئے، اور سلیم کو بھی پیغام دے کہ تھانیدار سے ملنے تھانے آئے۔ کانسٹیبل نے یقین دلایا اور کمرے سے چلا گیا۔
تھوڑی دیر بعد حوالدار نصیر ہسپتال سے واپس آیا۔ ہم نے تازہ حالات پر بات کی۔ میں نے نصیر کو صادق کی بتائی ہوئی باتوں سے آگاہ کیا۔ داود کے بارے میں نصیر کی رائے بھی اچھی نہ تھی۔ وہ اس کی بدمعاشیوں سے واقف تھا۔ میں نے نصیر سے کہا، "یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ تم سب داود کے کرتوت جانتے ہو، پھر بھی اس کے خلاف سخت کارروائی کیوں نہ ہوئی؟"
نصیر نے مضبوط لہجے میں کہا، "جناب، اس کے خلاف کارروائی ہوئی ہے۔ وہ ایک بار جیل بھی جا چکا ہے۔" میں نے بتایا کہ داود کو تھانے بلانے کے لیے کانسٹیبل کو بھیج دیا ہے۔ بات آگے بڑھی تو نصیر نے کہا، "جناب، اگر سلیم کا بیان درست نکلا تو ہمارے لیے بڑی مشکل ہو جائے گی۔"
میں نے پوچھا، "کیسی مشکل؟" وہ بولا، "اگر عارف کی سلیم سے کہی ہوئی بات سچ ہے کہ زینب بے وفائی کر رہی تھی، تو پھر عارف نے ہی اسے قتل کیا ہوگا۔ اس صورت میں اس کی واپسی مشکوک ہے۔ پھر زینب کی لاش کا کیا ہوگا؟ کس کے حوالے کریں گے؟"
میں نے کہا، "سلیم، صادق، اور تم سب کا یہی خیال ہے کہ اگر عارف نے زینب کو قتل کیا تو وہ بخت پور واپس نہیں آئے گا۔ حالات سے یہ امکان تو ہے کہ عارف نے زینب کی بے وفائی پر اسے قتل کیا۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہو۔ عارف کا قتل سے کوئی تعلق نہ ہو، اور وہ واقعی کسی کام سے کہیں گیا ہو۔ ہمیں اس امکان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔"
نصیر نے سنجیدگی سے کہا، "اللہ کرے ایسا ہی ہو۔"میں نے کہا، "زینب قتل ہو گئی، اور اس کا شوہر عارف غائب ہے۔ ان دونوں کے سوا گھر میں کوئی اور نہ تھا، اس لیے میں نے گھر پر سرکاری تالہ لگوا دیا ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں۔ جب تک اس کیس کا فیصلہ نہ ہو جائے، عارف کے گھر کی نگرانی ضروری ہے، خاص طور پر رات کے وقت۔ بند گھر چوروں کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔ کہیں کوئی چور اس موقع سے فائدہ نہ اٹھا لے۔ ایک چالاک اور ہوشیار کانسٹیبل کی ڈیوٹی وہاں لازمی ہے۔"
نصیر نے کہا، "میں ابھی بلاتا ہوں، جناب۔ ہمارے تھانے میں ایک کانسٹیبل ہے جو رات جاگنے میں ماہر ہے۔" میں نے کہا، "ٹھیک ہے، اسے عارف کے گھر کی نگرانی پر مامور کر دو۔"
اسی وقت وہ کانسٹیبل خالی ہاتھ واپس آیا جو داود اور سلیم کو لینے گیا تھا۔ اس نے بتایا، "جناب، میں آپ کی ہدایت کے مطابق مین بازار میں سلیم کے پاس گیا اور اسے آپ کا حکم سنا دیا۔"میں نے پوچھا، "تو سلیم نے کیا کہا؟" کانسٹیبل نے جواب دیا، "وہ کہہ رہا تھا کہ پانچ منٹ میں تھانے پہنچتا ہوں۔"میں نے سخت لہجے میں کہا، "اس کے یہ پانچ منٹ کتنے لمبے ہیں؟ اب تو پون گھنٹہ ہو گیا، اور وہ ابھی تک نہیں آیا!"
کانسٹیبل نے جوش سے کہا، "جناب، اگر آپ کہیں تو میں دوبارہ جاؤں اور اسے کان سے پکڑ کر لے آؤں!"میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا، "لگتا ہے اس کے ساتھ یہی سلوک کرنا پڑے گا۔ فی الحال بتاؤ، داود کی کیا رپورٹ ہے؟"
کانسٹیبل نے حتمی انداز میں کہا، "وہ اس وقت بخت پور میں نہیں ہے، جناب!"میں نے حیرت سے پوچھا، "اگر وہ بخت پور میں نہیں ہے تو کہاں گیا؟"کانسٹیبل نے وضاحت کی، "جناب، میں نے اس کے بارے میں کئی لوگوں اور اس کے گھر والوں سے بات کی۔ پتا چلا کہ وہ آج صبح چک سنتالیس گیا ہے، اور اس کی واپسی کل کسی وقت ہوگی۔"