غیرت مند شوہر - تیسرا حصہ

Sublimegate Urdu Stories

چک سنتالیس ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جو بخت پور سے تین میل دور تھا۔ میرے ذہن میں فوراً سوال اٹھا کہ کیا داود نے کوئی منصوبہ بنا کر بخت پور سے غائب ہونا پسند کیا؟ اس کا یوں غائب ہونا زینب کے قتل سے کسی تعلق کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ اب اس سے پوچھ گچھ کے لیے کل تک انتظار کرنا تھا یا فوراً چک سنتالیس جا کر اسے پکڑنا تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ پہلے سلیم سے بات کی جائے، پھر داود کی طرف رخ کیا جائے گا۔

میں نے کانسٹیبل سے کہا، "تم جاؤ اور سلیم کو کان سے پکڑ کر لے آؤ۔" کانسٹیبل "اچھا جناب" کہتا ہوا چلا گیا۔
کانسٹیبل کے جانے کے بعد نصیر نے کہا، "جناب، زینب کی لاش کو سلیم کے سپرد بھی کیا جا سکتا ہے۔ وہ عارف کا سوتیلا بھائی ہے، یعنی زینب کا رشتہ دار ہوا۔"
میں نے سنجیدگی سے کہا، "یہ بات میرے ذہن میں بھی آئی، لیکن پہلے میں سلیم کو اچھی طرح چھاننا چاہتا ہوں۔"
نصیر نے کہا، "آپ ضرور اس کی اچھی طرح صفائی کریں۔ تھوڑی دیر میں کانسٹیبل اسے لے کر آ رہا ہے۔" یہ کہہ کر نصیر کمرے سے نکل گیا۔

پندرہ بیس منٹ بعد کانسٹیبل سلیم کو لے کر میرے سامنے حاضر ہوا۔ میں نے کانسٹیبل کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ بولا، "جناب، یہ مجھے راستے میں مل گیا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ تھانے ہی آ رہا تھا، تو میں اسے کان سے پکڑے بغیر آپ کے پاس لے آیا۔"

میں نے کہا، "ٹھیک ہے، تم جاؤ۔" کانسٹیبل چلا گیا۔ میں نے سلیم کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے سخت لہجے میں کہا، "سلیم، تم تو پانچ منٹ میں آنے والے تھے، اور اب ایک گھنٹے سے زیادہ ہو گیا۔ کیا تمہارے پانچ منٹ اتنے لمبے ہوتے ہیں؟"

سلیم نے منت سے کہا، "جناب، نکلتے نکلتے دیر ہو گئی۔ معافی مانگتا ہوں۔"
میں نے کہا، "دیکھو سلیم، دیر سے آنے کی معافی تو مل جائے گی، لیکن جو حقیقت تم نے چھپائی، اس جرم کی معافی اتنی آسان نہیں!"

وہ الجھن سے بولا، "جناب، میں نے کون سی حقیقت چھپائی؟"
میں نے کہا، "کیا تم عارف کے سوتیلے بھائی نہیں ہو؟"
وہ گڑبڑا گیا اور لکنت سے بولا، "جی... جی ہاں... بالکل۔" اس کے چہرے سے لگتا تھا کہ اسے اس سوال کی توقع نہیں تھی۔

میں نے اس کی بوکھلاہٹ نظر انداز کرتے ہوئے کہا، "سلیم، تم نے یہ حقیقت مجھ سے کیوں چھپائی؟ تم جانتے ہو کہ اہم بات چھپانا کتنا بڑا جرم ہے؟"

وہ گھبراہٹ سے بولا، "جناب، مجھے کیا پتا تھا کہ آپ کو یہ معلوم نہیں! میں تو سمجھا کہ آپ تھانیدار ہیں، سب کچھ جانتے ہوں گے۔"

میں نے کہا، "سب کی تفصیل تو میں بعد میں جمع کروں گا۔ ابھی تو مجھے تمہارے بارے میں کچھ خطرناک خبریں ملی ہیں۔ پہلے ان کی چھان بین کر لوں۔"

اس کے چہرے پر خوف کے آثار نمودار ہوئے۔ کانپتی آواز میں اس نے پوچھا، "مگر میں نے کیا کیا، جناب؟"

میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، "تمہیں یاد ہے نہ کہ عارف نے چند روز پہلے زینب کے بارے میں تم سے کیا کہا تھا؟"

وہ سر ہلاتے ہوئے بولا، "جی ہاں، جناب۔ آپ زینب کی بے وفائی والی بات کر رہے ہیں نہ؟"
میں نے کہا، "ہاں، میرا اشارہ اسی طرف ہے۔ تم نے بتایا تھا کہ عارف نے کہا تھا کہ جیسے ہی وہ زینب کی چوری پکڑ لے گا، اسے قتل کر دے گا۔ اور پھر چند روز بعد زینب قتل ہو گئی۔ تم نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ شاید عارف نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہوگا، اسی لیے وہ اسے مار کر غائب ہو گیا۔ صبح جب میں نے تم سے پوچھا کہ وہ شخص کون ہو سکتا ہے جس نے زینب کے ساتھ بے وفائی کی، تو تم کوئی جواب نہ دے سکے۔ کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟"

سلیم تھوک نگلتے ہوئے بولا، "جی ہاں، جناب۔ میں واقعی اس بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ آپ کہیں تو میں قسم کھا سکتا ہوں۔"

میں نے کہا، "تمہیں کوئی قسم کھانے کی ضرورت نہیں۔ میں نے دو افراد کا سراغ لگا لیا ہے جو عارف کی غیر موجودگی میں چپکے چپکے زینب سے ملنے اس کے گھر جاتے تھے۔"

سلیم کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ وہ بولا، "اچھا جی! وہ دونوں کون ہیں؟"
میں نے کہا، "ایک کا نام داود ہے، اور دوسرا اس وقت میرے سامنے بیٹھا ہے۔"
وہ ہراس سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولا، "میں؟"
میں نے ڈرامائی انداز میں کہا، "ہاں، سلیم، تم! مجھے پتا چلا ہے کہ تم بھی عارف کی غیر موجودگی میں زینب سے ملنے جاتے تھے۔"

وہ احتجاجی لہجے میں بولا، "یہ بالکل غلط ہے، جناب! آپ کو ایسی اطلاع کس نے دی؟"
میں نے سخت رویہ اپناتے ہوئے کہا، "تم اطلاع دینے والے کی کھوج میں مت پڑو۔ بس یہ بتاؤ کہ تم عارف کی غیر موجودگی میں زینب سے ملنے جاتے تھے یا نہیں؟"

وہ سنبھلتے ہوئے بولا، "جناب، میں تو عارف کے کہنے پر ایک دو بار گیا ہوں۔ لیکن جس حوالے سے آپ بات کر رہے ہیں، وہ تو سوال ہی نہیں اٹھتا۔ عارف میرا سوتیلا بھائی ہونے کے ساتھ میرا گہرا دوست بھی ہے۔ میں اس کے گھر پر بری نظر کیسے ڈال سکتا ہوں؟ یقیناً کسی نے میرے بارے میں غلط بیانی کی ہے۔ آپ بتائیں کہ وہ شخص کون ہے؟"

میں نے اس کے سوال کو نظر انداز کیا اور پوچھا، "یہ بتاؤ، عارف نے تمہیں اس کی غیر موجودگی میں اپنے گھر کیوں بھیجا تھا؟"

سلیم نے بتایا، "جناب، بات یہ ہے کہ دو چار بار ایسا ہوا کہ مجھے کسی کام سے گھر جانا پڑا۔ جب میں دوکان عارف کے حوالے کر کے جانے لگا تو اس نے پوچھا کہ آج کیا نیا آئٹم بنایا ہے؟ میں اسے تازہ مٹھائی کا نام بتاتا، اور وہ کہتا کہ تم گھر جا ہی رہے ہو، تو زرا میرے گھر بھی ہو آؤ اور تازہ مٹھائی زینب کو دے آؤ، کیونکہ اسے مٹھائی بہت پسند ہے۔ میں اس کی فرمائش پوری کر دیتا۔ بس اتنی سی بات ہے، جناب۔ میں دو چار بار عارف کے کہنے پر مٹھائی دینے اس کے گھر گیا، لیکن زیادہ دیر نہ رکا اور واپس آ گیا۔ لیکن داود تو ایک لچا لفنگا ہے، اس سے تو کسی بھی برائی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ جس نے بھی مجھے اس معاملے میں ملوث کیا، وہ میری دشمنی کر رہا ہے۔ میں بیوی بچوں والا آدمی ہوں، ایسی نازیبا حرکت کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس شخص کا نام بتائیں جس نے مجھے بدنام کیا۔"

میں نے کہا، "سلیم، اگر تمہاری نیت صاف تھی، تم عارف کی بیوی کو عزت سے دیکھتے تھے اور کبھی غلط مقصد سے اس کے گھر نہیں گئے، تو تمہارے لیے یہ اعتماد کافی ہے۔ اس فکر میں خود کو دبلا نہ کرو کہ کس نے تمہارے بارے میں بتایا۔"

وہ اضطراب سے بولا، "پھر بھی جناب، پتا تو چلے کہ وہ میرا دشمن کون ہے؟"
میں نے تسلی سے کہا، "وقت آنے پر میں اس کا نام بھی ظاہر کر دوں گا۔"

پھر میں نے سلیم سے کہا، "تم سے ایک بڑی سنگین غلطی ہوئی ہے۔ اگر تم نے وہ غلطی نہ کی ہوتی تو مجھے یقین ہے کہ زینب یوں قتل نہ ہوتی۔ میں حالات کو بڑی خوبی سے کنٹرول کر سکتا تھا۔"

سلیم نے حیرانی سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا، "جناب، میں نے کون سی غلطی کی؟"
میں نے وضاحت کی، "جب عارف نے تم سے زینب کے بارے میں وہ خطرناک گفتگو کی تھی، تمہیں اسی وقت مجھے بتانا چاہیے تھا کہ عارف اپنی بیوی کے بارے میں ٹھیک ارادے نہیں رکھتا۔"

سلیم نے سنجیدگی سے کہا، "جناب، سچی بات یہ ہے کہ مجھے عارف کی بات پر بالکل یقین نہیں آیا تھا۔ میں نے سمجھا کہ وہ غصے میں کہہ رہا ہے۔ عارف کا زینب پر کتنا کنٹرول تھا، یہ پورا قصبہ جانتا تھا۔ اس سے ایسی کسی سنگین جرات کی توقع نہیں تھی۔ لیکن زینب کے قتل کے بعد لگتا ہے کہ اس نے زندگی میں ایک بار ہمت دکھا ہی دی۔ اب مجھے احساس ہو رہا ہے کہ مجھ سے واقعی بڑی غلطی ہوئی۔ میں نے عارف کے ارادوں کو غیر سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے تھا۔ اگر میں اس وقت آپ کو اس کے خطرناک ارادوں سے آگاہ کر دیتا تو آج یقیناً صورتحال مختلف ہوتی۔"

سلیم کی سنجیدگی اور جذباتیت سے میں نے اندازہ لگایا کہ اس واقعے میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ صادق نے صرف اسے زینب کے گھر آنے جانے پر داود کے برابر کھڑا کیا تھا۔

میں نے گفتگو کا رخ موڑتے ہوئے پوچھا، "سلیم، کل ہسپتال سے زینب کی لاش واپس آ جائے گی۔ اگر اس وقت تک عارف کا پتا نہ چلا تو لاش کس کے حوالے کی جائے؟ مجھے پتا چلا ہے کہ ان دونوں کا اس دنیا میں کوئی عزیز رشتہ دار باقی نہیں، سوائے تمہارے۔"

وہ سر ہلاتے ہوئے بولا، "آپ کو بالکل ٹھیک بتایا گیا، جناب۔ بہرحال، میں عارف کا سوتیلا بھائی ہی سہی، لیکن میں جو کچھ کر سکتا ہوں، ضرور کروں گا۔ آخر زینب میری بھابی تھی۔ میں اس کے کفن دفن کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ آپ کو اس سلسلے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔"

میں نے چند منٹ مزید سلیم سے بات کی اور اسے جانے کی اجازت دے دی۔ وہ شکریہ ادا کر کے تھانے سے رخصت ہو گیا۔

اگلی صبح، میں تیار ہو کر حسبِ معمول تھانے پہنچا۔ اپنے کمرے میں جاتے ہی میں نے حوالدار نصیر کو بلایا۔ گزشتہ روز جب تک میں تھانے میں رہا، عارف کی واپسی کی کوئی اطلاع نہیں ملی تھی۔ صادق سے ملنے والی معلومات کی بنا پر میں نے فیصلہ کیا کہ پہلے چک سنتالیس جا کر داود کو پکڑ کر لاؤں، جس کی زینب کے گھر مشکوک آمدورفت کی بات سامنے آئی تھی۔

میں خیالوں میں الجھا ہوا تھا کہ نصیر کمرے میں داخل ہوا۔ میں نے پوچھا، "کیا داود چک سنتالیس سے واپس آیا؟"
وہ بولا، "نہیں جناب، ابھی تک اس کی واپسی کی کوئی اطلاع نہیں۔"
میں نے کہا، "اور عارف کی کوئی خیر خبر؟"
نصیر نے نفی میں سر ہلایا اور کہا، "نہیں جناب، وہ بھی ابھی تک نظر نہیں آیا۔"
میں گہری سوچ میں ڈوب گیا اور پوچھا، "تمہارے نگرانی والے کانسٹیبل کی کیا رپورٹ ہے؟"
نصیر نے کہا، "وہ اپنی ڈیوٹی پر ڈٹا ہوا ہے۔ وہاں سے ابھی تک کوئی رپورٹ نہیں آئی۔"
میں نے کہا، "نصیر، تم ایک کام کرو!" وہ سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ میں نے کہا، "تم فوراً چک سنتالیس جاؤ اور داود کو پکڑ کر تھانے لے آؤ۔ ادھر جانے کا پروگرام میرا اپنا تھا، لیکن مجھے لگتا ہے کہ میرا تھانے میں رہنا ضروری ہے۔ پتا نہیں کب ہسپتال سے زینب کی لاش واپس آ جائے۔"

میری بات سن کر نصیر اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور بولا، "جو حکم، جناب! میں ابھی روانہ ہوتا ہوں۔" پھر وہ سلام کر کے کمرے سے نکل گیا۔

ابھی اسے گئے دس منٹ ہی ہوئے تھے کہ نصیر واپس آ گیا۔ میں نے تعجب سے پوچھا، "نصیر، تم اتنی جلدی واپس آ گئے؟ خیریت تو ہے؟"

وہ بولا، "جناب، تھانے سے نکلنے کے بعد مجھے ایک اہم بات یاد آئی، اس لیے چک سنتالیس جانے سے پہلے آپ کے پاس آیا ہوں۔"

میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ ٹٹولا اور اگلے ہی لمحے اس کے ہاتھ میں سگریٹ کا ایک پیکٹ نظر آیا۔ پیکٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے وہ بولا، "یہ دیکھیں، جناب!"

میں نے پیکٹ لے کر دیکھا۔ یہ ایک مشہور برانڈ کا سگریٹ پیکٹ تھا۔ اسے کھولا تو اس میں تین سگریٹ باقی تھے۔ یہ دس سگریٹ والا پیکٹ تھا، یعنی سات استعمال ہو چکے تھے۔

میں نے تیکھے انداز میں پوچھا، "نصیر، یہ سب کیا ہے؟ تم جانتے ہو کہ میں سگریٹ نہیں پیتا، تو پھر یہ کیا ہے؟"

وہ بولا، "جناب، سگریٹ تو میں بھی نہیں پیتا۔ اسی لیے یہ اہم بات سامنے آئی، ورنہ میں اس پیکٹ کو جیب میں رکھ کر بھول ہی جاتا۔ میری گھر والی نے جب میرے کان کھینچے تو سب یاد آ گیا۔"

اس کی بات میری سمجھ میں نہ آئی۔ نصیر جوش میں ٹھیک سے بتا بھی نہیں پا رہا تھا۔ میں نے کہا، "نصیر، سکون سے بتاؤ، سگریٹ کے اس پیکٹ کا قصہ کیا ہے؟"

وہ تھوک نگلتے ہوئے بولا، "جناب، بات یہ ہے کہ یہ پیکٹ مجھے کل جائے وقوعہ سے ملا تھا۔ میں نے اسے اٹھا کر جیب میں رکھ لیا کہ آپ کو دکھاؤں گا۔ آپ اس وقت لاش والے کمرے میں مصروف تھے۔ یہ پیکٹ مجھے ساتھ والے کمرے سے ملا تھا، لیکن پھر یہ میرے ذہن سے نکل گیا اور میرے ساتھ گھر چلا گیا۔ آج صبح جب میں نے یونیفارم دھونے کو دیا تو میری گھر والی نے جیبوں کی تلاشی لی۔ جب یہ پیکٹ برآمد ہوا تو وہ مجھ پر برس پڑی۔ جناب، میں تھانے کا حوالدار ہوں، لیکن گھر میں میری بیوی تھانیدار سے کم نہیں۔ اسے شک ہوا کہ میں سگریٹ پینا شروع کر دیا ہوں۔ بڑی مشکل سے میں نے اپنی پوزیشن صاف کی۔ اب آپ دیکھیں کہ اس پیکٹ کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے؟ شاید اس کی مدد سے ہم قاتل کا سراغ لگا سکیں۔"

مجھے یاد آیا کہ میں نے لاش والے کمرے میں استعمال شدہ سگریٹ کے چند ٹکڑے دیکھے تھے، لیکن یہ یاد نہیں تھا کہ وہ کس برانڈ کے تھے۔ یہ ایک اہم اشارہ تھا۔ اگر عارف سگریٹ نہ پیتا تھا یا کم از کم اس برانڈ کا سگریٹ نہ پیتا تھا، تو یہ سوچا جا سکتا تھا کہ گھر میں کوئی اور شخص آیا تھا جو اس برانڈ کا سگریٹ پیتا تھا اور اس نے وہاں کچھ وقت گزارا تھا۔

میں نے نصیر سے کہا، "ٹھیک ہے، میں اس پیکٹ پر تحقیق کرتا ہوں۔ تم فوراً چک سنتالیس جاؤ۔"

نصیر کے جانے کے بعد میں ایک گھنٹہ تھانے میں مختلف امور نمٹاتا رہا۔ پھر ایک ضروری سوچ کے تحت تھانے سے نکل کر عارف کے گھر چلا گیا۔ نگرانی والے کانسٹیبل کو میں نے دور سے دیکھ لیا۔ سرکاری تالہ کھول کر میں گھر میں داخل ہوا۔ کانسٹیبل میرے ساتھ آیا۔

میں نے پوچھا، "یہاں سب خیریت ہے نہ؟" وہ بولا، "جی جناب، ابھی تک سب ٹھیک ہے۔ کسی نے یہاں آنے یا غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی کوشش نہیں کی۔ عارف کی واپسی بھی نہیں ہوئی۔"

میں نے سراہتے ہوئے کہا، "شاباش! بس ایک آدھ دن کی ڈیوٹی اور ہے، پھر میں تمہیں تھانے واپس بلا لوں گا۔ مجھے امید ہے کہ اس کیس میں جلد پیش رفت ہوگی۔"

گھر کے پچھلے حصے کے دونوں کمروں کا جائزہ لیتے ہوئے میری توجہ لاش والے کمرے میں پڑے سگریٹ کے ٹکڑوں پر رہی۔ مجھے تقویت ملی کہ وہ سب اسی برانڈ کے تھے جو نصیر نے دیا تھا۔ ساتھ والے کمرے کا گزشتہ روز تفصیلی جائزہ نہ لے سکا تھا۔ وہ کمرہ اسٹور روم جیسا لگتا تھا۔ ایک دیوار کے ساتھ لکڑی کے تختے پر نیچے سے اوپر تک بستر رکھے تھے—نصف درجن افراد کے لیے لحاف، گدے، تکیے، اور چادریں۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ دو افراد کی اس چھوٹی فیملی کو اتنے بستروں کی کیا ضرورت تھی۔

دوسری دیوار کے ساتھ دو نیلے پلاسٹک کے ڈرم رکھے تھے، جو ٹیکسٹائل ملز میں کیمیکل لانے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ عام طور پر انہیں دھو کر گھریلو استعمال کے لیے اناج ذخیرہ کرنے میں لیا جاتا تھا۔ میں نے ایک ڈرم کا ڈھکن اٹھایا تو اس میں گندم نظر آئی۔ میں نے سمجھا کہ دوسرے میں چاول ہوں گے۔ دیگر چیزوں کی طرف متوجہ ہوا، لیکن وہاں کوئی ایسی چیز نہ ملی جو کیس میں مددگار ہو۔

میں نے دونوں کمروں کو دوبارہ تالا لگایا اور صحن میں آیا۔ کانسٹیبل میرے ساتھ رہا، لیکن اس نے کوئی سوال نہ کیا۔ میں نے اسے چند نئی ہدایات دیں اور تھانے واپس آ گیا۔

اس وقت میرے ذہن میں ایک ہی سوال تھا کہ کیا عارف سگریٹ پیتا تھا؟ اور اگر پیتا تھا تو کون سے برانڈ کا؟ اس کا تسلی بخش جواب یا تو زینب دے سکتی تھی یا سلیم۔ زینب تو اب سوال و جواب کے قابل نہ تھی، لہٰذا میں نے سلیم سے پوچھنے کا فیصلہ کیا اور اس کی دکان کی طرف چل پڑا۔

سلیم نے شاید ابھی دکان کھولی تھی۔ وہ شوکیس میں مٹھائی کے تھال سجا رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ استقبالیہ انداز میں آگے بڑھا اور بولا، "آئیں، تھانیدار صاحب، سو بسم اللہ!" اس نے جھاڑن نما کپڑے سے اسٹول صاف کر کے میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا، "تشریف رکھیں، جناب!"

میں نے کہا، "کوئی تکلف نہ کرو۔ میں یہاں بیٹھنے نہیں آیا۔ ادھر سے گزر رہا تھا، سوچا تمہاری دکان دیکھ لوں۔ کیا پتا کبھی مٹھائی لینے آ جاؤں۔"

وہ چور نظروں سے دکان کے اندر دیکھتے ہوئے بولا، "جناب، آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ آپ کو زحمت کی کیا ضرورت؟ اشارہ کریں، مٹھائی آپ کی میز پر پہنچ جائے گی۔ آج میں تازہ میسو بنانے والا ہوں۔ اگر حکم کریں تو سیر دو سیر بھجوا دوں۔"

میں نے نوٹ کیا کہ جب میں دکان پر پہنچا تو اس نے استقبال سے پہلے کن انکھیوں سے دکان کے اندر جھانکا تھا۔ اب دوبارہ اس نے وہی حرکت کی۔ میں کھٹک گیا اور بے ساختہ پوچھ بیٹھا، "یہ تم بار بار چور نظروں سے دکان کے اندر کیا دیکھ رہے ہو؟ کون ہے وہاں؟"

وہ شرمندہ سی ہنسی ہنستے ہوئے بولا...

اور میری طرف دیکھتے ہوئے بولا، "وہ جی، دراصل بات یہ ہے کہ آپ کے آنے سے پہلے میں دکان کے اندر بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ وہ کیا ہے نہ، جب تک میں ایک آدھ سگریٹ نہ پھونک لوں، دماغ ٹھیک سے کام ہی نہیں کرتا۔ آپ کو دیکھ کر میں نے ادھ جلا سگریٹ اندر رکھ دیا تھا، اور اب بار بار ادھر ہی دھیان جاتا ہے کہ کہیں کسی چیز کو آگ نہ لگ جائے۔"

میں نے کہا، "تم فوراً وہ سگریٹ اٹھا لاؤ، باقی باتیں بعد میں بھی ہو سکتی ہیں۔" اس نے پل جھپکتے میرے حکم کی تعمیل کی۔

وہ واپس آیا تو اس کی انگلیوں میں ادھ جلا سگریٹ دیکھ کر میں نے پوچھا، "تم کون سے برانڈ کا سگریٹ پیتے ہو؟" اس نے سگریٹ کا ٹکڑا زمین پر پھینکا، جوتے سے مسلتے ہوئے سادگی سے بولا، "کم خرچ، بالا نشین!"

میں نے حیرت سے پوچھا، "کیا یہ کوئی نیا برانڈ آیا ہے؟"
وہ بولا، "نہیں جناب، میں تو مشہور زمانہ برانڈ کے سگریٹ کی بات کر رہا ہوں۔" پھر اس نے وہی برانڈ بتایا جو حوالدار نصیر کو جائے وقوعہ سے ملا تھا۔

سلیم کے جواب نے میری سوچ پر ایک زوردار ضرب لگائی۔ میں نے پوچھا، "سلیم، تم کتنے عرصے سے سگریٹ پی رہے ہو؟"

وہ ٹٹولتی نظروں سے بولا، "اس چیز سے دوستی کو، جناب، آٹھ دس سال ہو گئے ہیں۔"
میں نے پوچھا، "اچھا، یہ بتاؤ، ایک دن میں کتنے سگریٹ پی لیتے ہو؟"
وہ بولا، "بس جی، زیادہ نہیں، ایک ڈبی ختم کر لیتا ہوں۔"

پھر میں نے اس کی دکان کے برابر واقع بند کباب کی دکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، "اور یہ تمہارا بھگوڑا سوتیلا بھائی کتنے سگریٹ پھونک لیتا ہے؟"

وہ فوراً میرا اشارہ سمجھ گیا کہ میں عارف کی بات کر رہا ہوں۔ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا، "او جناب، یہ عارف تو سگریٹ نوشی کے سخت خلاف ہے۔ ہر وقت مجھے نصیحتیں کرتا رہتا ہے کہ سگریٹ چھوڑ دوں، ورنہ مجھے ٹی بی ہو جائے گا۔ لیکن میں اس کی باتیں سن کر ہنستا رہتا ہوں۔ وہ سگریٹ سے شدید نفرت کرتا ہے، لیکن پھر بھی اس کی صحت، ماشاءاللہ، ویسی ہی ہے۔ وہ چہرے سے صدیوں کا بیمار لگتا ہے، اور مجھے دیکھ لیں، آپ کے سامنے ہوں، ہٹا کٹا اور صحت مند!"

میں نے سلیم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، "کیا واقعی عارف سگریٹ نہیں پیتا؟"
وہ چوکنا نظروں سے مجھے دیکھنے لگا اور بولا، "میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں، جناب!"
میں نے کہا، "اچھا، لیکن مجھے تو لگا تھا کہ عارف بھی سگریٹ پیتا ہوگا۔"
سلیم کا چوکنا پن تفتیش میں بدل گیا۔ اس نے پوچھا، "کیا آپ کو کسی نے کہا کہ عارف سگریٹ پیتا ہے؟"

میں نے کہا، "بتایا تو کسی نے نہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔" وہ تیز آواز میں بولا، "سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جناب! آپ نے کب اور کہاں عارف کو سگریٹ پیتے دیکھا؟"

میں نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا، "میں نے سگریٹ پیتے ہوئے تو نہیں دیکھا، بلکہ کل اس کے گھر میں سگریٹ کے چند ٹکڑے پڑے نظر آئے تھے۔ اگر عارف واقعی سگریٹ سے نفرت کرتا ہے تو پھر معلوم کرنا پڑے گا کہ اس کے گھر میں بیٹھ کر سگریٹ کس نے پیے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح میں زینب کے قاتل تک پہنچ جاؤں گا۔"

میں نے سلیم کے چہرے کی رنگت بدلتے دیکھی۔ اس کے تاثرات میں خوف اور تفتیش کا عنصر نمایاں تھا۔ یہ بات غور طلب تھی کہ عارف کے گھر میں پائے جانے والے سگریٹ کے ٹکڑوں نے سلیم کو اتنا بے چین کیوں کر دیا تھا۔ میری چھٹی حس نے اسی لمحے کسی بڑی گڑبڑ کی نشاندہی کی۔

سلیم نے پوچھا، "تھانیدار صاحب، آپ نے عارف کے گھر میں سگریٹ کے جو ٹکڑے دیکھے، وہ کس برانڈ کے تھے؟" یہ سوال اس کے اندر سے بہت گہرائی سے آیا تھا، جیسے سگریٹ کے برانڈ کا جاننا اس کے لیے زندگی موت کا معاملہ ہو۔

میں نے اس کی اس قدر دلچسپی دیکھی تو عام سے لہجے میں کہا، "لعنت بھیجو سگریٹ کے برانڈ پر! ہمیں اس سے کیا لینا دینا؟ یہ کوئی خاص بات نہیں۔ تمہاری سگریٹ نوشی سے عارف کا ذکر نکل آیا، تو میں نے ویسے ہی پوچھ لیا۔ اس کے گھر میں کوئی بھی سگریٹ پڑے ہوں، ہمیں کیا؟ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ عارف تمہارے سامنے سگریٹ کی برائی کرتا ہو اور گھر میں چھپ کر سگریٹ پیتا ہو۔ انسان کو سمجھنا بہت مشکل کام ہے۔"

سلیم سر ہلاتے ہوئے بولا، "جی ہاں، آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔" وہ ظاہری طور پر میری وضاحت سے مطمئن لگ رہا تھا، لیکن مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ اندر سے بری طرح بے چین ہے۔ اس کی بے چینی اور بے قراری مجھے سوچنے پر مجبور کر رہی تھی۔ اس صورتحال میں صادق کے الفاظ میری سماعت میں گونج رہے تھے: "تھانیدار صاحب، سلیم بھی تو زینب کے لیے غیر محرم ہے۔ عارف کی غیر موجودگی میں چھپ کر اس کی ملاقاتوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا!"

میں نے اسی لمحے فیصلہ کیا کہ سلیم کو چیک کرنے کے لیے نفسیاتی طریقہ کار اپناؤں گا۔ اگر وہ زینب کے معاملے میں ملوث ہے تو میرے نفسیاتی جال سے نہیں بچ سکے گا۔

میں نے اسے مطمئن رکھنے کے لیے سرسری انداز میں کہا، "سلیم، تمہیں عارف کی خفیہ سگریٹ نوشی سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں کل صبح تمہارے ساتھ اس کے گھر جاؤں گا، پھر تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا کہ عارف چھپ کر کون سے برانڈ کا سگریٹ پیتا تھا۔"

سلیم نے تجویز دیتے ہوئے کہا، "میں اس وقت فارغ ہوں۔ اگر آپ کہیں تو ہم ابھی عارف کے گھر جا کر دیکھ لیتے ہیں۔" اس کی حد سے بڑھتی دلچسپی میرے شک کو یقین میں بدل رہی تھی۔

میں نے کہا، "تم اس وقت فارغ ہو گے، لیکن میں ہرگز فارغ نہیں ہوں۔"
اس نے پوچھا، "تھانیدار صاحب، ویسے زینب کی لاش ہسپتال سے کب تک آ جائے گی؟ کیونکہ عارف کا ابھی تک پتا نہیں۔ زینب کے کفن دفن کا بندوبست بھی کرنا ہے۔"

میں نے اسے بے خبر رکھنے کے لیے دانستہ جھوٹ بولا، "میرے خیال میں زینب کی لاش آج نہیں، کل واپس آئے گی۔ اس کے بعد تمہاری مرضی کہ کفن دفن کا انتظام اس کے گھر پر کرتے ہو یا اپنے گھر پر۔"

وہ سوچتے ہوئے بولا، "لاش ہسپتال سے آ جائے تو پھر کوئی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔"
میں نے کہا، "لاش کے فیصلے سے پہلے تمہیں اپنی دکان بند کرنے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ عارف سوتیلا ہی سہی، تمہارا بھائی تو ہے، اور مرنے والی تمہاری بھابی تھی۔ کم از کم سوئم تک تو دکان نہیں کھولنی چاہیے۔" وہ شرمندہ ہوا اور بولا، "ٹھیک ہے، جناب۔ میں بنی ہوئی مٹھائیوں کو ٹھکانے لگا کر دکان کو تالہ لگاتا ہوں۔"