میں اس کی دکان سے نکل کر تھانے کی طرف چل پڑا۔ شام سے کچھ پہلے نصیر واپس آیا اور بتایا، "جناب، داود چک سنتالیس میں الیاس نامی شخص سے ملنے گیا تھا، لیکن جب میں وہاں پہنچا تو وہ دونوں وہاں سے نکل چکے تھے۔"
میں نے پوچھا، "وہ دونوں کہاں گئے؟"
نصیر نے کہا، "مجھے پتا چلا کہ وہ بدری وال گئے ہیں۔"
میں نے کہا، "فی الحال اپنے دماغ سے بدری وال، چک سنتالیس، داود، الیاس سب کچھ نکال دو۔ تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ یہاں بخت پورہ میں ہی ایک دلچسپ اور سنسنی خیز ڈرامہ ہونے والا ہے۔"
نصیر حیرت اور الجھن کے ملے جلے تاثرات سے مجھے دیکھنے لگا۔
میں نے اسے سلیم کے رویے اور اپنے عزائم کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا۔ میری بات سننے کے بعد اس نے کہا، "جناب، اس کام کے لیے رات کا انتظار کیوں؟ میں ابھی اسے پکڑ کر لے آتا ہوں۔ تھوڑی چھترول ہوگی تو سب کچھ بک دے گا۔"
میں نے کہا، "یہ خیال میرے ذہن میں بھی آیا تھا، لیکن رنگے ہاتھوں پکڑنے کا مزہ ہی الگ ہے۔"
نصیر نے اعتراض اٹھایا، "جناب، کیا یہ ضروری ہے کہ وہ رات کو ہی عارف کے گھر جائے گا؟ اگر سگریٹ کے ٹکڑے اس کی جان کا عذاب بنے ہیں تو وہ دن میں بھی جا سکتا ہے۔"
میں نے پراعتماد لہجے میں کہا، "میں نے سلیم کو اچھی طرح یقین دلا دیا ہے کہ میں کل صبح سے پہلے عارف کے گھر نہیں جاؤں گا۔ لہٰذا وہ رات کی تاریکی میں ہی کوئی کارروائی کرے گا، اور ہم پہلے سے گھر کے اندر موجود ہوں گے۔ وہ رنگے ہاتھوں پکڑا جائے گا۔ اگر وہ دن دھاڑے حماقت کرتا ہے تو نگرانی والا کانسٹیبل اسے دیکھ لے گا۔"
نصیر نے کہا، "ٹھیک ہے، جناب، جیسا آپ مناسب سمجھیں۔ ویسے ایک بات بتانا بھول گیا۔ چک سنتالیس سے واپسی پر میں ہسپتال سے ہو کر آیا ہوں۔ وہاں سے پکی اطلاع ہے کہ زینب کی لاش کل صبح پوسٹمارٹم رپورٹ کے ساتھ تھانے پہنچے گی۔"
میں نے کہا، "اس کا مطلب ہے کہ آج کی رات ہم بے فکری سے سلیم کو اپنے جال میں پھانس سکتے ہیں۔ تم کسی بھی طریقے سے سلیم تک یہ خبر پہنچا دو کہ لاش کل صبح آئے گی، تاکہ وہ اطمینان سے رات کو ہمارے جال میں قدم رکھ دے۔"
نصیر نے پراعتماد انداز میں کہا، "ٹھیک ہے، جناب، میں یہ خبر سلیم تک پہنچا دوں گا۔" پھر وہ کمرے سے نکل گیا۔
دن کا باقی حصہ سلیم کو گرفت میں لینے کی پلاننگ میں گزرا۔ رات کو ہم پوری تیاری کے ساتھ عارف کے گھر پہنچ گئے۔ نگرانی والے کانسٹیبل کو میں نے واپس تھانے بھیج دیا، کیونکہ گھر کے اندر ہماری موجودگی کے بعد بیرونی نگرانی کی ضرورت نہ رہی۔
منصوبے کے مطابق، میں اس کمرے میں چھپ کر بیٹھ گیا جہاں سے زینب کی لاش اٹھی تھی۔ نصیر کو دوسرے کمرے میں چھپا دیا۔ موسم کی خنکی کی وجہ سے کمروں میں چھپنا مشکل نہ تھا۔
رات دس بجے کے قریب گھر کے صحن میں کسی کے کودنے کی آواز سنی۔ میرے اندازوں کی تصدیق ہو گئی—سلیم نے عارف کے گھر میں انٹری ڈال دی تھی۔ اگلے ہی لمحے دروازہ دھیرے سے کھلا۔ میں ایسی جگہ بیٹھا تھا کہ باہر سے آنے والا مجھے نہ دیکھ سکتا، جبکہ میں اس کا جائزہ لے سکتا تھا۔ اندھیرے میں بھی سلیم کی جسامت اور قد سے میں نے اسے فوراً پہچان لیا۔
وہ محتاط قدموں سے کمرے میں داخل ہوا، جیب سے موم بتی نکال کر جلا لی، اور اس کی روشنی میں فرش پر کچھ تلاش کرنے لگا۔ میں اوٹ میں چھپ کر اس کی کارروائی دیکھتا رہا۔ اس نے سگریٹ کے ٹکڑے جمع کیے، انہیں گن کر جیب میں رکھا، اور دوسری جیب سے مختلف برانڈ کے سگریٹ کے ٹکڑے نکال کر ادھر ادھر بکھیر دیے۔ میں سمجھ گیا کہ اس نے اپنے برانڈ کے ٹکڑوں کو ہٹا کر دوسرے برانڈ کے ٹکڑے پھیلائے ہیں۔
پھر وہ جلتی موم بتی تھامے کمرے سے نکل گیا۔ اچھا ہوا کہ اس نے دروازے کو باہر سے کنڈی نہیں لگائی۔ اس کا رخ اب اسٹور روم کی طرف تھا۔ میں نے ٹارچ ہاتھ میں لی اور باہر نکلا۔ جب برآمدے میں پہنچا تو وہ اسٹور روم میں داخل ہو چکا تھا۔
میں تیزی سے اس کے پیچھے گیا۔ اسی لمحے اسٹور روم سے آوازیں آئیں، جیسے دو افراد کی مڈبھیڑ ہو گئی ہو۔ مجھے سمجھتے دیر نہ لگی کہ سلیم کا نصیر سے ٹکراؤ ہو گیا تھا۔
میں فوراً دروازے پر پہنچا اور ٹارچ روشن کر کے روشنی اندر ڈالی۔ روشنی کے دائرے میں دونوں آپس میں گتھم گتھا نظر آئے۔ نصیر نے مجھے پکارتے ہوئے کہا، "جناب، یہ کیس حل ہو گیا! میں نے عارف کی لاش دریافت کر لی ہے!"
میں نے حیرت سے کہا، "عارف کی لاش؟ مگر وہ تو..."
اسی لمحے نصیر کی آواز آئی، "جناب، میں نے اس موٹے سانڈ کو قابو کر لیا ہے۔ پہلے اسے ہتھکڑی لگائیں، پھر میں عارف کی لاش کے بارے میں بتاتا ہوں۔"
نصیر کے اس انکشاف نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ میرے ہاتھ پاؤں تیز رفتار مشین کی طرح حرکت میں آ گئے۔ نصیر نے سلیم کو قابو کرنے کا دعویٰ تو کیا تھا، لیکن وہ پوری طرح اس کی گرفت میں نہیں تھا۔
میں نے آگے بڑھ کر سلیم کو ٹھوکروں پر رکھ لیا۔ میرے زوردار تھپڑوں اور ٹھڈوں نے دو منٹ میں سلیم کو سیدھا کر دیا۔ نصیر نے میرے اشارے پر اسے ہتھکڑی لگائی۔ میں نے کہا، "اس بدبخت کا انٹرویو اب تھانے جا کر کریں گے۔ تم عارف کی لاش کے بارے میں بتاؤ۔"
نصیر نے دیوار کے ساتھ رکھے ڈرموں کی طرف اشارہ کیا اور بولا، "جناب، عارف کی لاش اس ڈرم میں پڑی ہے۔"
یہ وہی نیلے پلاسٹک کے ڈرم تھے جو میں نے دیکھے تھے۔ میں نے ایک کا ڈھکن اٹھا کر گندم دیکھی تھی اور دوسرے کو چھوڑ دیا تھا، یہ سمجھ کر کہ اس میں چاول ہوں گے۔
میں تیزی سے ڈرم کی طرف بڑھا۔ نصیر نے پیچھے سے اپنی کارکردگی کی رپورٹ دی۔ اس نے بتایا کہ اسٹور روم میں چھپ کر بیٹھتے وقت اس نے سوچا کہ ٹارچ جلا کر کمرے کا جائزہ لے۔ سلیم کے آنے سے پہلے جو وقت تھا، اسے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ جب اناج والے ڈرموں کے پاس پہنچا تو اس نے اندر جھانک کر دیکھا۔ ایک ڈرم میں عارف کی لاش دیکھ کر وہ ششدر رہ گیا۔ وہ مجھے بتانے ہی والا تھا کہ سلیم سے ٹکرا گیا۔
میں نے نصیر کے بتائے ڈرم کا ڈھکن اٹھایا اور عارف کی لاش دیکھ لی۔ میں اسے پہلے نہیں دیکھا تھا، لیکن نصیر کی گواہی کافی تھی کہ یہ عارف ہی تھا۔
شور کی وجہ سے آس پاس کے لوگ جاگ گئے۔ نصف درجن افراد جمع ہو گئے، جن میں صادق اور سرور حسین پیش پیش تھے۔ جب انہیں صورتحال سے آگاہ کیا تو وہ نفرت سے ہتھکڑی لگے سلیم کو گھورنے لگے۔
میں نے ٹارچوں کی روشنی میں موقع کی کارروائی مکمل کی اور عارف کی لاش کو ڈرم سمیت ہسپتال بھجوا دیا۔ سلیم کو تفتیش کے لیے تھانے لے آیا۔
تھانے پہنچ کر میں نے سلیم سے کہا، "میں تمہیں دس منٹ سوچنے کے لیے دیتا ہوں۔ اس کے بعد تمہارا بیان قلم بند کروں گا۔ یہ آخری موقع ہے سچ بولنے کا۔ اگر تم نے چکر بازی کی تو تفتیش کے کڑے مراحل سے گزرو گے، جہاں تمہارا جسم سچ بولنے پر مجبور ہو جائے گا۔"
سلیم نے ٹھہرے لہجے میں کہا، "جناب، آپ دس منٹ نہ دیں۔ میں بغیر سوچے بیان دینے کو تیار ہوں، کیونکہ سچ بولنے کے لیے سوچنا نہیں پڑتا۔"
اس کے اعتماد نے مجھے متاثر کیا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا، "ٹھیک ہے، شروع کرو اور جو سچ ہے، وہ بتاؤ۔"
سلیم نے بولنا شروع کیا، "تھانیدار صاحب، میں نے شروع میں آپ سے تھوڑا جھوٹ بولا تھا، اس خوف سے کہ کہیں آپ مجھے اس کیس میں ملوث نہ کر دیں۔ اب جب کہ ایسا ہو چکا ہے تو میں ذرا سی بھی غلط بیانی نہیں کروں گا۔ واقعہ کے روز صبح جب میں عارف کے گھر اپنی رقم لینے گیا تو دروازہ اس نے خود کھولا۔ وہ مجھے اسٹور روم میں لے گیا اور کہا کہ وہ میرا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے کہا، ‘تم نے بلایا تو مجھے آنا ہی تھا۔’
عارف نے کہا، ‘تم سمجھ رہے ہوگے کہ میں نے رقم دینے کے لیے بلایا، لیکن رقم کو فی الحال بھول جاؤ اور میری بات غور سے سنو۔’
میں حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ وہ بولا، ‘یونس، میں نے تم سے کہا تھا کہ میں اس شخص کا سراغ لگا لوں گا جو زینب کے ساتھ بے وفائی کر رہا ہے۔ اب میں نے سراغ لگا لیا ہے، اور وہ ایک نہیں، دو افراد ہیں جو مختلف اوقات میں زینب سے ملنے آتے ہیں۔’
میں نے سادگی سے کہا، ‘عارف، اگر اپنی مرغی اچھی ہو تو وہ پرائے گھر میں انڈا نہیں دیتی۔’
عارف نے نفرت سے مجھے گھورا اور بولا، ‘مرغی کو تو میں نے ذبح کر دیا ہے۔ اب وہ اپنے گھر میں بھی انڈا دینے کے قابل نہیں رہی۔ اب ان دو مرغوں کی باری ہے جو اس بے وفائی کے کھیل میں زینب کا ساتھ دے رہے تھے۔’
میں نے ڈرتے ہوئے پوچھا، ‘وہ دونوں کون ہیں؟’
عارف نے کہا، ‘ایک کا نام داود ہے۔ اس کی باری آخر میں آئے گی۔ زینب کے بعد اب دوسرے شخص کو حلال ہونا ہے، اور وہ تم ہو، سلیم!’
میں نے گھبرا کر کہا، ‘عارف، تمہیں کوئی شدید غلط فہمی ہوئی ہے۔’
اس نے جواب دینے کی بجائے ڈرم پر رکھی بڑی چھری اٹھا لی اور وحشیانہ انداز میں مجھ پر حملہ کر دیا۔ اگر میں پھرتی نہ دکھاتا تو شاید آج بیان دینے کے لیے زندہ نہ ہوتا۔ میں نے اس کا وار خالی کیا اور اسے زوردار دھکا مارا۔ عارف دیوار سے جا ٹکرایا اور اگلے ہی لمحے مردہ چھپکلی کی طرح زمین پر گر گیا۔ کئی منٹ گزرنے کے بعد بھی اس میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔ قریب جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ مر چکا تھا۔ شاید اس کا سر دیوار سے اتنی شدت سے ٹکرایا کہ اس کی موت ہو گئی۔
جب میری سمجھ میں کچھ نہ آیا تو میں نے اسے اٹھا کر خالی ڈرم میں ٹھونس دیا اور ڈھکن بند کر دیا۔"
سلیم اتنا بتا کر خاموش ہو گیا۔ میں نے پوچھا، "یہ تو سمجھ آتا ہے کہ عارف کو ڈرم میں ٹھونستے وقت تمہاری جیب سے سگریٹ کی ڈبی گر گئی ہوگی۔ لیکن لاش والے کمرے میں پائے جانے والے سگریٹ کے ٹکڑوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تم نے وہاں کچھ وقت گزارا تھا۔ تم اس سے انکار نہیں کر سکتے، کیونکہ ابھی تم نے سگریٹ کے ٹکڑے چن کر جیب میں ڈالے تھے تاکہ تمہاری موجودگی کے آثار نہ رہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ صبح ہماری سگریٹ نوشی پر گفتگو اسی کا نتیجہ تھی۔"
وہ سر ہلاتے ہوئے بولا، "آپ کا اندازہ درست ہے۔ آپ کی باتیں سن کر میں گھبرا گیا تھا۔ عارف کے جسم کو ڈرم میں ٹھونسنے کے بعد میں ساتھ والے کمرے میں گیا، جہاں زینب کی گردن کٹی لاش بستر پر پڑی تھی۔ عارف نے سچ کہا تھا، اس نے زینب کو مرغی کی طرح ذبح کر دیا تھا۔ سارا بستر خون آلود تھا۔ میں اضطراب میں سگریٹ پھونکتا رہا اور سوچتا رہا کہ اب کیا کروں۔ تھوڑی دیر بعد مجھے ایک کہانی سوجھی، وہی جو میں نے آپ کو شروع میں سنائی۔
میں نے آلہ قتل، یعنی وہ بڑی چھری، باورچی خانے میں برتنوں کے پیچھے چھپائی تاکہ تلاشی میں آپ کو مل جائے، اور ایسا ہی ہوا۔ شروع میں سب کچھ میرے حق میں تھا۔ عارف کی لاش ڈرم میں چھپائی، اور یہ سمجھا گیا کہ وہ زینب کو قتل کر کے فرار ہو گیا۔ میں نے سوچا تھا کہ زینب کے کفن دفن کے بعد، جب معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے گا، عارف کی لاش کو خاموشی سے ٹھکانے لگا دوں گا۔ یہ آسان تھا، کیونکہ ان دونوں کا قریب ترین رشتہ دار میں ہی تھا، اور ان کا گھر میرے قبضے میں آنا تھا۔ لیکن جب آپ نے دکان پر سگریٹ کے ٹکڑوں کا ذکر کیا تو میں پریشان ہو گیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ رات کو یہ کام نمٹا لوں۔ مجھے کیا پتا تھا کہ آپ گھات لگائے بیٹھے ہیں۔"
وہ اپنا بیان دے کر خاموش ہو گیا۔
سلیم خاموش ہوا تو میں نے کہا، "سلیم، تمہارا بیان پوسٹمارٹم رپورٹس سے تصدیق کے بعد ہی درست ثابت ہوگا۔"
وہ بولا، "جناب، عارف کی موت میں میرا کوئی ہاتھ نہیں۔ میں نے اپنی جان بچانے کے لیے اسے دھکا دیا تھا۔ مجھے کیا پتا تھا کہ وہ دیوار سے اتنی شدت سے ٹکرائے گا کہ مر جائے گا۔"
میں نے کہا، "عارف کی پوسٹمارٹم رپورٹ سب کچھ کھول دے گی۔ اگر تم نے واقعی اپنی جان بچانے کے لیے دھکا دیا اور اس سے اس کی موت ہوئی تو یہ بات چھپے گی نہیں۔ اس صورت میں تم بے قصور قرار پا سکتے ہو۔ لیکن اس سے پہلے یہ فیصلہ ہونا ہے کہ عارف کا تم پر شک درست تھا یا غلط۔ سمجھ رہے ہو نہ؟"
وہ سر ہلاتے ہوئے بولا، "جی، میں اچھی طرح سمجھ رہا ہوں۔ لیکن ایسی کوئی بات نہیں تھی، جناب۔ میں دو چار بار عارف کے کہنے پر ہی اس کے گھر گیا تھا، یا پھر آخری چند دنوں میں زینب کو سمجھانے کے لیے گیا کہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آ جائے۔ میں نے اسے عارف کے خطرناک ارادوں سے بھی آگاہ کیا تھا، لیکن افسوس کہ وہ نہ سمجھی۔"
میں نے پوچھا، "کیا زینب نے داود کے حوالے سے اپنی غلطی کا اقرار کیا تھا؟"
وہ بولا، "نہیں جناب، وہ تو سرے سے انکاری تھی۔ اسی لیے میری نصیحت کا کوئی اثر نہ ہوا۔ لیکن عارف کا مجھ پر شک غلط فہمی تھی۔ میں ایسا بندہ نہیں ہوں، جناب!"
میں نے حتمی لہجے میں کہا، "ٹھیک ہے، سلیم۔ داود کی باتیں داود سے پوچھ لوں گا۔ جب تک دونوں کی پوسٹمارٹم رپورٹس نہیں آتیں، تم سرکاری مہمان نوازی کا لطف اٹھاؤ گے۔"
میں نے عارف کی لاش ہسپتال بھجواتے وقت ہدایت دی تھی کہ اس کا پوسٹمارٹم زینب کی رپورٹ کے ساتھ بھیجا جائے۔ اگلے روز دوپہر کے بعد دونوں کی پوسٹمارٹم شدہ لاشیں ابتدائی رپورٹس کے ساتھ آ گئیں۔
میں نے رپورٹس کا باریک بینی سے مطالعہ کیا۔ زینب کی رپورٹ کے مطابق اس کی موت 10 اکتوبر کی صبح 4 سے 5 بجے کے درمیان ہوئی تھی۔ اسے نیند کی حالت میں شہ رگ کاٹ کر قتل کیا گیا تھا۔ عارف کی رپورٹ میں موت کا وقت صبح 7 سے 8 بجے کے درمیان تھا، اور سبب کنپٹی اور سر کی شدید چوٹیں تھیں، جو جان لیوا ثابت ہوئیں۔
رپورٹس کی روشنی میں سلیم کا بیان درست لگتا تھا۔ لہٰذا، میں نے اسے چھوڑ دیا اور سمجھانے والے انداز میں کہا، "عارف اور زینب کے رشتہ داروں میں تم ہی باقی ہو۔ ان کے کفن دفن کا بندوبست تمہیں کرنا ہے۔ لیکن یاد رکھنا، کیس کی تفتیش ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ جب تک داود میرے ہاتھ نہیں لگتا، تم بخت پورہ سے باہر نہیں جاؤ گے۔ اگر جانا ضروری ہو تو پہلے مجھے اطلاع دو گے۔"
اس نے فرماں برداری سے کہا، "ٹھیک ہے، جناب۔ میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا۔"
عارف اور زینب کی تدفین کے تین روز بعد میں نے داود کو پکڑ لیا۔ وہ چک سنتالیس سے بدری وال اور پھر الیاس کے ساتھ نور چمن چلا گیا تھا۔ میں نے اسے نور چمن سے گرفتار کیا۔
تفتیش کے دوران داود نے زینب کے ساتھ اپنے تعلقات کا اقرار کر لیا۔ جب میں نے کہا کہ اس کی حرکتوں کی وجہ سے ایک گھر اجڑ گیا تو وہ طنزیہ لہجے میں بولا، "تھانیدار صاحب، جو لوگ اپنے گھر اور گھر والوں کی جائز ضروریات کا خیال نہیں رکھتے، ان کا انجام یہی ہوتا ہے۔ عارف ایک بے غیرت شخص تھا۔"
میں نے داود کے منہ پر زوردار تھپڑ رسید کیا اور غصے سے کہا، "عارف ایک حادثے میں مر گیا، ورنہ زینب کے بعد تمہارا نمبر تھا۔ وہ تمہیں کسی قیمت پر چھوڑنے والا نہیں تھا۔ یہ کہ وہ بے غیرت تھا یا غیرت مند، اس کا فیصلہ بعد میں ہوگا۔ فی الحال میں تمہارا منہ بند کرنے کا بندوبست کرتا ہوں۔"
یہ واضح ہو گیا کہ داود کا دونوں کی موت سے براہ راست تعلق نہیں تھا، لیکن عارف کے سنگین قدم کی وجہ وہ ہی تھا۔ عارف کو زینب کی بے وفائی کے حوالے سے داود اور سلیم پر شک تھا۔ صادق نے بھی اسی قسم کے شکوک کا اظہار کیا تھا۔ سلیم نے اپنی صفائی پیش کر دی تھی، لیکن داود کے اقبال جرم نے اس کے خلاف قانونی کارروائی کا موقع دیا۔
داود علاقے کا بدنام غنڈہ تھا۔ تفتیش میں اس نے اپنے کئی کارناموں کا اعتراف کیا۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لہٰذا، لوگوں کے سکون کے لیے میں نے اسے کچھ عرصے کے لیے جیل بھیج دیا۔
عارف غیرت مند تھا یا بے غیرت، یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں۔ لیکن داود کے الفاظ اہم ہیں کہ جو اپنے گھر والوں کی جائز ضروریات کا خیال نہیں رکھتے، ان کا انجام یہی ہوتا ہے۔ عارف زینب کی ضروریات پوری کرنے میں ناکام تھا، اور زینب کی بے راہ روی میں اس محرومی نے اہم کردار ادا کیا۔
(ختم شد)