ہمارے خاندان میں رواج تھا کہ لڑکی کے پیدا ہوتے ہی بزرگ اس کا رشتہ اپنے کسی قریبی عزیز کے بیٹے سے طے کر دیتے تھے۔ دادی نے میرا رشتہ پھوپھی کے بیٹے کاشف سے طے کر دیا۔ بچپن بے فکری میں گزر گیا۔ میٹرک پاس کیا تو گھر میں میرے مستقبل سے متعلق باتیں ہونے لگیں، تب مجھے معلوم ہوا کہ دادی نے میری بات بچپن ہی میں طے کر دی تھی لیکن المیہ یہ تھا کہ آج تک میں نے اپنے ہونے والے منگیتر کو دیکھا نہیں تھا۔ پھوبھی کراچی کی رہنے والی تھیں۔ جب وہ ہمارے گھر آتیں، اپنے بیٹے کا شیف کی تعریفیں کرتیں لیکن مجھے ان کا تعریفیں کرنا ذرا بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔
میں پھوپھی کے گھر نہیں جایا کرتی تھی۔ ایف اے کا امتحان دیا تو اچانک ابو کے ساتھ ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ ابو مجھے ان کے پاس چھوڑ کر واپس لاہور چلے گئے۔ وہ صرف چار روز رہے کہ ان کی چھٹی زیادہ نہ تھی۔ پھوپھی نے اصرار کیا کہ شازیہ کو کچھ دنوں کے لیے یہاں رہنے دو۔ میں بھی وہاں اس لیے رہ گئی۔ جاننا چاہتی تھی آخر کاشف کیسا لڑکا ہے جس کو میں نے دیکھا بھی نہیں تھا اور اس سے میری شادی ہونے والی تھی۔ کم از کم اس کی عادات و اطوار تو دیکھ لوں۔ یہی سوچ کر رہ گئی۔ کئی دنوں تک اس سے بات نہ کی کیونکہ حجاب مانع تھا۔ اس نے بھی کلام نہ کیا۔ اس کی طرف دیکھتی نہ تھی کلام تو ایک طرف رہا۔ ایک دن مجھے بخار آ گیا، تب عیادت کے بہانے کاشف نے بات کی اور پوچھا کہ کیسی طبیعت ہے شازیہ ۔ دوا لی یا نہیں ؟ اس کے منہ سے مجھ کو اپنا نام لینا اچھا لگا۔ آہستہ آہستہ ہم دونوں باتیں کرنے لگے۔
یوں ایک ماہ بیت گیا اور میری چھٹیاں ختم ہو گئیں۔ میں واپسی کی تیاری کرنے لگی کیونکہ بھائی مجھے لینے آئے تھے۔ اگر چہ دل اداس تھا مگر مجبوری تھی۔ میرا یہاں سے جانے کو بالکل بھی دل نہیں چاہ رہا تھا۔ کاشف سے تنہائی میں بات کرنے کا موقع بھی نہیں مل رہا تھا۔ دو منٹ کو میں کمرے میں اکیلی ہوئی۔ کاشف اسی موقع کا منتظر تھا۔ وہ فوراً اندر آیا اور بولا۔ شازیہ ، بتائو اب کب آئو گی ؟ اب میں نہیں، تم ہمارے گھر آئو گے۔ میں نے جواب دیا۔ بس اتنی بات وقت رخصت ہو پائی۔ تب ہی پھوپھی کمرے میں آ گئیں اور وہ باہر نکل گیا۔ گھر آئی تو سب کچھ بدلا بدلا سا لگتا تھا۔ میرا دل تو وہاں ہی رہ گیا تھا۔ اپنے گھر میں جی نہ لگا۔ اسی کیفیت میں وقت گزرنے لگا۔ کاشف کی یاد ایک سرمایہ تھی اس کے سہارے سال گزر گیا۔
یوں ایک ماہ بیت گیا اور میری چھٹیاں ختم ہو گئیں۔ میں واپسی کی تیاری کرنے لگی کیونکہ بھائی مجھے لینے آئے تھے۔ اگر چہ دل اداس تھا مگر مجبوری تھی۔ میرا یہاں سے جانے کو بالکل بھی دل نہیں چاہ رہا تھا۔ کاشف سے تنہائی میں بات کرنے کا موقع بھی نہیں مل رہا تھا۔ دو منٹ کو میں کمرے میں اکیلی ہوئی۔ کاشف اسی موقع کا منتظر تھا۔ وہ فوراً اندر آیا اور بولا۔ شازیہ ، بتائو اب کب آئو گی ؟ اب میں نہیں، تم ہمارے گھر آئو گے۔ میں نے جواب دیا۔ بس اتنی بات وقت رخصت ہو پائی۔ تب ہی پھوپھی کمرے میں آ گئیں اور وہ باہر نکل گیا۔ گھر آئی تو سب کچھ بدلا بدلا سا لگتا تھا۔ میرا دل تو وہاں ہی رہ گیا تھا۔ اپنے گھر میں جی نہ لگا۔ اسی کیفیت میں وقت گزرنے لگا۔ کاشف کی یاد ایک سرمایہ تھی اس کے سہارے سال گزر گیا۔
سوچتی تھی، جانے وہ گھڑی کب آئے گی جب کاشف ہمارے گھر آئے گا۔ اللہ نے سن لی کہ ایک شام جب میں اسی کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ میں در کھولنے کو گئی ، گمان بھی نہ تھا وہ ہو گا۔ گیٹ کھولا تو سامنے کا شف تھا۔ مجھے اپنی نگاہوں پر یقین نہ آیا تھا کہ واقعی کاشف میرے سامنے ہے۔ میں نے اسے اندر آنے کو کہا۔ وہ گھر والوں سے ملا۔ اس نے میرے دونوں بھائیوں کے بارے میں پوچھا، تب ہی امی نے کہا کہ شازیہ جائو ، کچھ کھانے پینے کا بندوبست کرو۔ جب وہ چائے پینے لگا تو بولا۔ ممانی جی۔ چائے بہت اچھی ہے ، کس نے بنائی ہے ؟ امی بولیں۔ شازیہ نے بنائی ہے۔ تب اس نے ستائش بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور میں شرم سے گلابی ہو گئی۔ کاشف زیادہ وقت میرے چھوٹے بھائی کے ساتھ گزارتا تھا کیونکہ عامر میٹرک کا امتحان دے کر فارغ ہو چکا تھا اور ابو کاروبار کے سلسلے میں باہر رہتے تھے۔ بڑے بھائی ڈاکٹر تھے۔ وہ صبح اسپتال چلے جاتے اور رات کو لوٹتے۔ ان کے پاس تو وقت ہی نہیں ہوتا تھا۔
ایک دن امی شاپنگ کرنے بازار گئی ہوئی تھیں۔ عامر بھیا اور کاشف کسی دوست سے ملنے چلے گئے۔ گھر میں ملازمہ اور میں رہ گئے۔ تھوڑی دیر بعد بھائی اور کا شف آ گئے۔ عامر نہانے چلا گیا۔ یہی وہ لمحات تھے جب ہم کو باتیں کرنے کا موقع مل گیا۔ میں نے ملازمہ کو کچن میں بھیج دیا۔ اس نے پوچھا۔ شازیہ تم نے میرے بغیر اتنے دن کیسے گزارے ؟ میں نے کہا جیسے خوشبو کے بغیر پھول۔ پھر اس کے بعد کاشف کی واپسی کی تیاری شروع ہو گئی لیکن میرا دل نہ چاہتا تھا کہ وہ جائے۔ میں نے اصرار کیا کہ ابھی مت جائو۔ جانے دو تا کہ امی اور ابو کو تمہارا رشتہ لینے بھیج سکوں۔ اس نے جواب دیا۔ پھر اس کے جانے کے ڈیڑھ ماہ بعد ہی پھو پھی رشتہ لے کر آ گئیں۔ امی ابو تو راضی تھے ہی، فوراً ہماری منگنی کر دی گئی۔ منگنی اس قدر دھوم دھام سے ہوئی جیسے شادی ہو رہی ہو ۔ ہم نے ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنائی۔ اس کا کوئی بھائی نہ تھا، بس تین بہنیں تھیں جو منگنی پر بہت خوش نظر آرہی تھیں۔ خاصے کھاتے پیتے لوگ تھے۔
ایک دن امی شاپنگ کرنے بازار گئی ہوئی تھیں۔ عامر بھیا اور کاشف کسی دوست سے ملنے چلے گئے۔ گھر میں ملازمہ اور میں رہ گئے۔ تھوڑی دیر بعد بھائی اور کا شف آ گئے۔ عامر نہانے چلا گیا۔ یہی وہ لمحات تھے جب ہم کو باتیں کرنے کا موقع مل گیا۔ میں نے ملازمہ کو کچن میں بھیج دیا۔ اس نے پوچھا۔ شازیہ تم نے میرے بغیر اتنے دن کیسے گزارے ؟ میں نے کہا جیسے خوشبو کے بغیر پھول۔ پھر اس کے بعد کاشف کی واپسی کی تیاری شروع ہو گئی لیکن میرا دل نہ چاہتا تھا کہ وہ جائے۔ میں نے اصرار کیا کہ ابھی مت جائو۔ جانے دو تا کہ امی اور ابو کو تمہارا رشتہ لینے بھیج سکوں۔ اس نے جواب دیا۔ پھر اس کے جانے کے ڈیڑھ ماہ بعد ہی پھو پھی رشتہ لے کر آ گئیں۔ امی ابو تو راضی تھے ہی، فوراً ہماری منگنی کر دی گئی۔ منگنی اس قدر دھوم دھام سے ہوئی جیسے شادی ہو رہی ہو ۔ ہم نے ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنائی۔ اس کا کوئی بھائی نہ تھا، بس تین بہنیں تھیں جو منگنی پر بہت خوش نظر آرہی تھیں۔ خاصے کھاتے پیتے لوگ تھے۔
ان کی اپنی فیکٹری تھی جہاں کپڑا بنتا تھا۔ منگنی کے بعد کاشف سے میرا رابطہ فون پر رہنے لگا۔ ہم گھنٹوں باتیں کرتے ، وہ ہمیشہ جتلاتا تھا کہ کبھی مجھ سے بے وفائی نہ کرے گا، کبھی دوسری شادی نہ کرے گا۔ کہتا کہ تم ہی میری کل کائنات ہو، میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہو۔ وہ دن بھی آ گیا جب میں رخصت ہو کر ان کے گھر آ گئی۔ شادی کی پہلی رات ہم نے وہ تمام محبت کی چھوٹی چھوٹی باتیں یاد کیں۔ دو سال ہنسی خوشی پلک جھپکتے گزر گئے۔ پھر خدا نے مجھے چاند سا بیٹا دے دیا۔
اس لحاظ سے خوش قسمت تھی کہ ساس سسر بھی مجھے چاہتے تھے۔ وہ اپنے پوتے پر جان نثار کرتے تھے۔ ایک دن وہ بیٹی کے گھر ملنے راولپنڈی جارہے تھے۔ راستے میں ایک ٹرک سے ان کی گاڑی کی ٹکر ہو گئی اور وہ موقع پر ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ یہ خبر بہت اندوہناک تھی۔ میرے پائوں تلے سے زمین نکل گئی اور میں بے ہوش ہو گئی۔ وقت کے ساتھ ہر غم کا زخم مندمل ہو جاتا ہے۔ میں بھی رفتہ رفتہ سنبھلنے لگی۔ اس غم سے نکلنے لگی۔ کاشف مگر ابھی تک بہت زیادہ دل گرفتہ تھے۔ ماں اور باپ دونوں کا شفیق سایہ ایک ساتھ ان کے سر سے اٹھ گیا تھا۔ ان کا دکھ بہت گہر ا تھا۔ دل بہلانے کو وہ کچھ دنوں کے لیے اپنے دوست کے پاس دبئی چلے گئے۔ کاشف پہلے بہت خوش گفتار اور ہنس مکھ ہوا کرتے تھے ، اب سنجیدہ ہو گئے ، بدلے بدلے سے لگتے۔ گھر بھی دیر سے آتے، کسی دن تو غائب ہو جاتے اور دو تین روز تک نہ لوٹتے۔ میں کافی پریشان ہوتی تھی۔ پوچھتی تو کہتے کہ کاروبار کی مصروفیات رہتی ہیں۔ پہلے تو ابو سب سنبھالتے تھے ، اب تمام ذمہ داریاں مجھ اکیلے پر آ پڑی ہیں۔ وقت دینا پڑے گا ورنہ فیکٹری کے امور کیسے چلا پائوں گا۔ یہ ٹھوس دلائل تھے۔ میں خاموش ہو جاتی تھی۔ رفتہ رفتہ وہ گھر سے کٹنے لگے۔
اس لحاظ سے خوش قسمت تھی کہ ساس سسر بھی مجھے چاہتے تھے۔ وہ اپنے پوتے پر جان نثار کرتے تھے۔ ایک دن وہ بیٹی کے گھر ملنے راولپنڈی جارہے تھے۔ راستے میں ایک ٹرک سے ان کی گاڑی کی ٹکر ہو گئی اور وہ موقع پر ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ یہ خبر بہت اندوہناک تھی۔ میرے پائوں تلے سے زمین نکل گئی اور میں بے ہوش ہو گئی۔ وقت کے ساتھ ہر غم کا زخم مندمل ہو جاتا ہے۔ میں بھی رفتہ رفتہ سنبھلنے لگی۔ اس غم سے نکلنے لگی۔ کاشف مگر ابھی تک بہت زیادہ دل گرفتہ تھے۔ ماں اور باپ دونوں کا شفیق سایہ ایک ساتھ ان کے سر سے اٹھ گیا تھا۔ ان کا دکھ بہت گہر ا تھا۔ دل بہلانے کو وہ کچھ دنوں کے لیے اپنے دوست کے پاس دبئی چلے گئے۔ کاشف پہلے بہت خوش گفتار اور ہنس مکھ ہوا کرتے تھے ، اب سنجیدہ ہو گئے ، بدلے بدلے سے لگتے۔ گھر بھی دیر سے آتے، کسی دن تو غائب ہو جاتے اور دو تین روز تک نہ لوٹتے۔ میں کافی پریشان ہوتی تھی۔ پوچھتی تو کہتے کہ کاروبار کی مصروفیات رہتی ہیں۔ پہلے تو ابو سب سنبھالتے تھے ، اب تمام ذمہ داریاں مجھ اکیلے پر آ پڑی ہیں۔ وقت دینا پڑے گا ورنہ فیکٹری کے امور کیسے چلا پائوں گا۔ یہ ٹھوس دلائل تھے۔ میں خاموش ہو جاتی تھی۔ رفتہ رفتہ وہ گھر سے کٹنے لگے۔
مجھ سے دوری بڑھ گئی۔ ایک بیٹی ہو گئی۔ دو بچوں کی مصروفیات نے مجھے خوب گھیر لیا۔ اب وہ کئی دن تک نہ آتے، مجھے پروانہ ہوتی۔ میں اپنے بچوں میں مگن تھی۔ خبر نہ تھی کہ فیکٹری کے بہانے وہ اپنا نیا گھر بسائے ہوئے ہیں اور میری زندگی میں بھونچال آنے والا ہے۔ ایسا تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کاشف مجھ پر جان نچھاور کرتے تھے۔ میرے ساتھ بے وفائی بھی کر سکتے تھے۔ ہوا یوں کہ جن دنوں میں ایف اے کر رہی تھی ہماری کلاس میں ایک لڑکی نے داخلہ لیا جس کا نام زرگل تھا۔ یہ نہایت حسین لڑکی تھی اور شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کی سرخ و سفید رنگت اور مثالی قد و کاٹھ ، سنہرے بال اور خوبصورت ستاروں جیسی دمکتی آنکھیں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں۔ جو اسے دیکھتا، دیکھتا رہ جاتا تھا۔ وہ پڑھائی میں کمزور تھی جب کہ میں شروع سے لائق طالبات میں شمار ہوتی تھی لہٰذا کلاس کی پاپولر لڑکی تھی۔ ہماری لیکچرار پڑھائی میں کمزور کسی بھی لڑکی کو میرے پاس بٹھا دیتیں اور کہتیں۔ شازیہ اس کی مدد کرو۔ ایسا ہی اب بھی ہوا۔ ٹیچر نے زرگل کو میرے پاس بٹھا دیا۔ چونکہ وہ فطرتاً اچھی لڑکی تھی، میری اس کے ساتھ دوستی ہو گئی۔ پڑھائی کے علاوہ ہم گھنٹوں باتیں کرتے ، ساتھ کھاتے پیتے اور ہنسی مذاق کرتے۔
ایک دن وہ کالج آئی تو بہت پریشان تھی۔ پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میرے رشتے کے لیے دو عور تیں روز آ رہی ہیں اور وہ انکار نہیں سننا چاہتیں۔ یہ کون لوگ ہیں ؟ میں نے پوچھا۔ یہ تو خبر نہیں لیکن بہت امیر ہیں۔ جہیز بھی نہیں مانگ رہے۔ ان کی باتوں سے لگتا ہے کہ جیسے وہ مجھ پر بہت مہربان ہیں۔ تم کو خوشی ہے۔ اس سوال پر وہ بولی۔ پتا نہیں۔ تب ہی میں نے جانا کہ زرگل بھی خوشی محسوس کر رہی ہے۔ آخر کو وہ لڑکی تھی اور ہر لڑکی کے دل میں کسی اچھے گھر کی بہو بننے کی آرزو ہوتی ہے۔ والدین نے اس کی مرضی پوچھی تو اس نے سر جھکا لیا۔ یوں اس کی منگنی ہو گئی۔ ایک دن آیا کہ ہم دونوں میں رابطہ منقطع ہو گیا۔ میں اس کی شادی پر بھی نہ جا سکی۔ کالج کے ایک مباحثہ میں شرکت کرنا تھی لہٰذا اس کی تیاری میں اپنی بہترین دوست کی شادی میں نہ گئی۔
ایک دن وہ کالج آئی تو بہت پریشان تھی۔ پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میرے رشتے کے لیے دو عور تیں روز آ رہی ہیں اور وہ انکار نہیں سننا چاہتیں۔ یہ کون لوگ ہیں ؟ میں نے پوچھا۔ یہ تو خبر نہیں لیکن بہت امیر ہیں۔ جہیز بھی نہیں مانگ رہے۔ ان کی باتوں سے لگتا ہے کہ جیسے وہ مجھ پر بہت مہربان ہیں۔ تم کو خوشی ہے۔ اس سوال پر وہ بولی۔ پتا نہیں۔ تب ہی میں نے جانا کہ زرگل بھی خوشی محسوس کر رہی ہے۔ آخر کو وہ لڑکی تھی اور ہر لڑکی کے دل میں کسی اچھے گھر کی بہو بننے کی آرزو ہوتی ہے۔ والدین نے اس کی مرضی پوچھی تو اس نے سر جھکا لیا۔ یوں اس کی منگنی ہو گئی۔ ایک دن آیا کہ ہم دونوں میں رابطہ منقطع ہو گیا۔ میں اس کی شادی پر بھی نہ جا سکی۔ کالج کے ایک مباحثہ میں شرکت کرنا تھی لہٰذا اس کی تیاری میں اپنی بہترین دوست کی شادی میں نہ گئی۔
اس کے بعد میری کاشف کے ساتھ شادی ہو گئی۔ اپنی گھرداری میں اتنی مصروف ہوئی کہ یہ سوچنے کا بھی موقع نہ ملا کہ زرگل کہاں گئی۔ شادی کے چار سال بعد مجھے اپنی نند کی بچی کو اسکول میں داخل کرانا تھا۔ میں نبیلہ کے ہمراہ ایک پرائیویٹ اسکول گئی، وہاں برآمدے سے گزرتے ہوئے ایک کمرے میں بیٹھی ٹیچر پر نظر گئی۔ دیکھا کہ کرسی پر زرگل سے ملتی جلتی لڑکی بیٹھی ہے۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ میں کلاس روم میں چلی گئی اور اس سے بات کی۔ وہ واقعی زرگل تھی۔ بے اختیار میرے گلے لگ گئی اور رونے لگی۔ ہم کلاس روم سے باہر آ گئیں اور میں نے اس سے حال دریافت کیا۔ وہ مجھے اسٹاف روم لے آئی جو اس وقت خالی تھا۔ میری نند معلومات کے لیے ہیڈ مسٹریس کے آفس چلی گئی اور زرگل بتانے لگی کہ جن امیر لوگوں کے یہاں اس کا رشتہ ہوا وہ دراصل شکاری لوگ تھے جو خوبصورت کمسن لڑکیوں کو ڈھونڈتے اور رشتہ کر کے بیاہ لیتے اور پھر دبئی وغیرہ لے جا کر ان سے غلط کام کراتے تھے۔ انہوں نے میرے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔ اس نے بتایا کہ میری ساس اور نندیں بھی اس بازار کی تھیں جو پاکستان آ کر شرافت کا لبادہ اوڑھ لیتے تھے۔ یہ پورا خاندان ہی اس قسم کے کاموں میں ملوث تھا۔ ان کا دھندا دوسرے ملکوں تک پھیلا ہوا تھا۔ ان کو کچھ بڑے لوگوں کا رسوخ حاصل تھا جس کی وجہ سے یہ کامیابی سے بردہ فروشی کرتے تھے۔
ایک دن وہی ہوا جو ہونا تھا۔ انہوں نے مجھے بھی اس راہ پر لگانا چاہا۔ جب میں نے انکار کیا تو سخت تشدد کیا۔ جس مرد نے مجھ سے نکاح کیا، وہ اسی طرح عور تیں لاتا اور پھر ان کی خرید و فروخت کی جاتی تھی۔ میری خوش قسمتی کہ ایک دن کسی دوست کے ساتھ ایک شخص آیا جو شریف آدمی تھا اور اس میں غیرت تھی۔ اس نے مجھے پسند کیا اور جب تنہائی میسر آئی، میں رونے لگی۔ اس نے ہمدردی سے میرا حال دریافت کیا۔ میں نے رو رو کر بپتا سنائی۔ تب اس کو مجھ پر رحم آ گیا اور جانے کن مشکلات کے بعد اس نے مجھے ان ظالموں کے چنگل سے نکالا ، مجھ سے نکاح کیا اور دبئی سے پاکستان لے آیا۔ وہ شادی شدہ ہے اور دو بچوں کا باپ ہے۔ زیادہ تر اپنی پہلی بیوی اور بچوں کے پاس رہتا ہے۔ میرے پاس ایک دو دن کے لیے آتا ہے۔ اس کا وسیع کاروبار ہے۔ اس کو اپنے کام کو بھی وقت دینا ہوتا ہے۔
ایک دن وہی ہوا جو ہونا تھا۔ انہوں نے مجھے بھی اس راہ پر لگانا چاہا۔ جب میں نے انکار کیا تو سخت تشدد کیا۔ جس مرد نے مجھ سے نکاح کیا، وہ اسی طرح عور تیں لاتا اور پھر ان کی خرید و فروخت کی جاتی تھی۔ میری خوش قسمتی کہ ایک دن کسی دوست کے ساتھ ایک شخص آیا جو شریف آدمی تھا اور اس میں غیرت تھی۔ اس نے مجھے پسند کیا اور جب تنہائی میسر آئی، میں رونے لگی۔ اس نے ہمدردی سے میرا حال دریافت کیا۔ میں نے رو رو کر بپتا سنائی۔ تب اس کو مجھ پر رحم آ گیا اور جانے کن مشکلات کے بعد اس نے مجھے ان ظالموں کے چنگل سے نکالا ، مجھ سے نکاح کیا اور دبئی سے پاکستان لے آیا۔ وہ شادی شدہ ہے اور دو بچوں کا باپ ہے۔ زیادہ تر اپنی پہلی بیوی اور بچوں کے پاس رہتا ہے۔ میرے پاس ایک دو دن کے لیے آتا ہے۔ اس کا وسیع کاروبار ہے۔ اس کو اپنے کام کو بھی وقت دینا ہوتا ہے۔
میں تنہائی کی وجہ سے اداس ہو جاتی تھی تو میرے شوہر نے مجھے مشورہ دیا کہ تم اسکول میں ملازمت کر لو۔ یوں تمہارا دل بہل جائے گا۔ تب ہی میں اسکول میں پڑھانے آ جاتی ہوں کیونکہ میرے خاوند نے اسکول کے نزدیک ہی گھر لے دیا جہاں میں ایک بوڑھی ملازمہ کے ساتھ رہتی ہوں۔ دن میں وہ اسی اسکول میں چپڑاسن ہوتی ہے ، اسکول کی چھٹی کے بعد میرے ساتھ گھر آجاتی ہے ، رات کو بھی ساتھ رہتی ہے۔ تمہارے شوہر کا کیا نام ہے اور وہ کام کیا کرتے ہیں؟ میں نے سوال کیا تو وہ بولی۔ ان کا نام کاشف ہے اور وہ کپڑے کی فیکٹری کے مالک ہیں۔ یہ سن کر میں پریشان ہو گئی۔ تاہم سوچا کہ ہو سکتا ہے کسی دوسرے شخص کا یہ نام ہو اور اس کی بھی فیکٹری ہو کیونکہ کاشف تو ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ میں مر تو سکتی تھی لیکن یہ یقین نہیں کر سکتی کہ کاشف دوسری شادی کر سکتے ہیں۔ اس وقت اسکول کی چھٹی ہو گئی۔ میں نے نند سے کہا کہ تم گھر چلی جائو ، میں ذرا زرگل کے گھر سے ہو کر آتی ہوں۔ یہ میری گہری سہیلی ہے اور مدت بعد ملی ہے ، اس کا گھر نزدیک ہی ہے۔ نند میرے گھر چلی گئی اور میں زرگل کے ساتھ اس کے گھر پہنچ گئی۔
اس کے مکان میں داخل ہوتے ہی پہلا تیر جو میرے دل پر لگا، وہ دیوار پر لگی ہوئی تصویر تھی۔ یہ زرگل اور کاشف کی اکٹھی فوٹو تھی جس میں زرگل دلہن بنی ہوئی تھی اور کا شف اس کے ساتھ دولہا کے طور پر موجود تھے۔ تصویر دیکھ کر اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ میں نے پوچھا۔ زرگل کیا یہی تمہارے شوہر ہیں ؟ ہاں وہ بولی۔ خدا ان کو سلامت رکھے ، بہت اچھے انسان ہیں۔ مجھے شرافت کی زندگی دی ہے ورنہ آج میں کہاں ہوتی، گندگی کی دلدل میں اور میرا کیا حال ہوتا۔ اس نیک انسان نے میری زندگی بچائی ہے ، ایسے لوگ دنیا میں کم ہوتے ہیں۔ واقعی۔ میں نے سوچا۔ ایسے لوگ دنیا میں کم ہوتے ہیں تاہم مجھے بے حد صدمہ ہوا اور میں گرتے گرتے بچی۔ خود کو بڑی مشکل سے سنبھالا اور زرگل سے کہا۔ واقعی تم خوش قسمت ہو کہ تم کو کاشف جیسا شوہر اور مجھ جیسی رحمدل سوکن ملی ہے ورنہ آج نہ جانے کیا ہو جاتا۔ اگر تم میری سہیلی نہ ہوتیں اور تمہارے حالات ایسے نہ ہوتے۔ گھر آکر میں نے کاشف سے کافی جھگڑا کیا کیونکہ میرا دل اور ذہن سوکن کو قبول کرنے پر تیار نہ تھے تاہم مرتا کیا نہ کرتا۔ جب شوہر نے واسطے دیئے اور یقین دلایا کہ زرگل کو برائی سے بچانے اور شرافت کی زندگی دینے کے لیے انہوں نے نہ چاہتے ہوئے یہ کڑوا گھونٹ پیا ہے تو میں رو دھو کر خاموش ہو گئی۔
کیا کرتی اگر زرگل کو نکلوا دیتی، تب بھی ضمیر ملامت کرتا اور میں خدا کے سامنے گناہ گار ہو جاتی کیونکہ اس کا اب کوئی اور نہ تھا۔ ماں باپ اس کی جدائی کے صدمے سے چل بسے تھے۔ بھری دنیا میں وہ اکیلی رہ گئی تھی۔ کچھ دن کاشف نے ہمیں علیحدہ گھروں میں رکھا لیکن جب اس کے ہاں بیٹی پیدا ہو گئی تو ان کو میرے گھر لے آئے کہ اکٹھے رہنے میں آسانی تھی۔ تب سے آج تک ہم اکٹھے رہتے ہیں۔ زرگل مجھے بڑی بہن کا درجہ دیتی ہے اور میرے قدم چومتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ مجھے راحت اور آرام پہنچائے۔ میرے بچوں کے کام محبت سے کرتی ہے۔ میں بھی اس کے بچوں کا خیال رکھنے کی کوشش کرتی ہوں لیکن جب کاشف اس کے ساتھ بات کرتے ہیں یا اس کے کمرے میں ہوتے ہیں، مجھ پر قیامت سی گزر جاتی ہے۔ اس کو برداشت کرنا بہت مشکل ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ مرد جتنا بھی پارسا ہو اس پر بھروسا کرنا حماقت ہے۔
اس کے مکان میں داخل ہوتے ہی پہلا تیر جو میرے دل پر لگا، وہ دیوار پر لگی ہوئی تصویر تھی۔ یہ زرگل اور کاشف کی اکٹھی فوٹو تھی جس میں زرگل دلہن بنی ہوئی تھی اور کا شف اس کے ساتھ دولہا کے طور پر موجود تھے۔ تصویر دیکھ کر اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ میں نے پوچھا۔ زرگل کیا یہی تمہارے شوہر ہیں ؟ ہاں وہ بولی۔ خدا ان کو سلامت رکھے ، بہت اچھے انسان ہیں۔ مجھے شرافت کی زندگی دی ہے ورنہ آج میں کہاں ہوتی، گندگی کی دلدل میں اور میرا کیا حال ہوتا۔ اس نیک انسان نے میری زندگی بچائی ہے ، ایسے لوگ دنیا میں کم ہوتے ہیں۔ واقعی۔ میں نے سوچا۔ ایسے لوگ دنیا میں کم ہوتے ہیں تاہم مجھے بے حد صدمہ ہوا اور میں گرتے گرتے بچی۔ خود کو بڑی مشکل سے سنبھالا اور زرگل سے کہا۔ واقعی تم خوش قسمت ہو کہ تم کو کاشف جیسا شوہر اور مجھ جیسی رحمدل سوکن ملی ہے ورنہ آج نہ جانے کیا ہو جاتا۔ اگر تم میری سہیلی نہ ہوتیں اور تمہارے حالات ایسے نہ ہوتے۔ گھر آکر میں نے کاشف سے کافی جھگڑا کیا کیونکہ میرا دل اور ذہن سوکن کو قبول کرنے پر تیار نہ تھے تاہم مرتا کیا نہ کرتا۔ جب شوہر نے واسطے دیئے اور یقین دلایا کہ زرگل کو برائی سے بچانے اور شرافت کی زندگی دینے کے لیے انہوں نے نہ چاہتے ہوئے یہ کڑوا گھونٹ پیا ہے تو میں رو دھو کر خاموش ہو گئی۔
کیا کرتی اگر زرگل کو نکلوا دیتی، تب بھی ضمیر ملامت کرتا اور میں خدا کے سامنے گناہ گار ہو جاتی کیونکہ اس کا اب کوئی اور نہ تھا۔ ماں باپ اس کی جدائی کے صدمے سے چل بسے تھے۔ بھری دنیا میں وہ اکیلی رہ گئی تھی۔ کچھ دن کاشف نے ہمیں علیحدہ گھروں میں رکھا لیکن جب اس کے ہاں بیٹی پیدا ہو گئی تو ان کو میرے گھر لے آئے کہ اکٹھے رہنے میں آسانی تھی۔ تب سے آج تک ہم اکٹھے رہتے ہیں۔ زرگل مجھے بڑی بہن کا درجہ دیتی ہے اور میرے قدم چومتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ مجھے راحت اور آرام پہنچائے۔ میرے بچوں کے کام محبت سے کرتی ہے۔ میں بھی اس کے بچوں کا خیال رکھنے کی کوشش کرتی ہوں لیکن جب کاشف اس کے ساتھ بات کرتے ہیں یا اس کے کمرے میں ہوتے ہیں، مجھ پر قیامت سی گزر جاتی ہے۔ اس کو برداشت کرنا بہت مشکل ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ مرد جتنا بھی پارسا ہو اس پر بھروسا کرنا حماقت ہے۔
Urdu
stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu
Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu
stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu
horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text,
Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories,
Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories,
Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories,
Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in
urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral
Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
0 تبصرے