Sublimegate Urdu Stories
خوشیوں کی قیمت - سبق آموز کہانی
قسط وار کہانیاں |
ساجد کی ماں پروین ہمارے گھر کام کرتی تھی۔ ان دنوں میں تیسری جماعت میں پڑھتی تھی، جب والدہ کے کہنے پر پروین نے اپنے بیٹے کو اسکول میں داخل کرایا۔ گنتی سیکھنے وہ میرے تایا کے پاس جاتا۔ اس طرح اس کو دوسری کلاس میں داخلہ مل گیا۔ ساجد ذہین لڑکا تھا۔ اس نے تایا سے چھ ماہ پڑھا تو دوسری جماعت پاس کر لی۔ اب وہ تیسری اور میں چوتھی جماعت میں تھی۔ اُس کو پڑھنے کا شوق تھا، تیسری کلاس بهی اس نے چھ ماہ میں کور کرلی یوں چوتھی میں وہ میرا ہم جماعت ہو گیا۔ ساجد مجھ سے عمر میں چار سال بڑا تھا۔ اسکول میں مجھ کو اس کے ساتھ تحفظ محسوس ہوتا تھا۔ اس کے والدین ہمارے سرونٹ کوارٹر میں رہتے تھے، تبھی ہم اکٹھے اسکول جاتے۔ شام کو وہ کتابیں لے آتا۔ اس کی ماں ہمارے گھر کا کام کرتی رہتی اور ہم مل کر سبق یاد کرتے۔ عمر میں بڑا ہونے کی وجہ سے اُس کو سبق کی جلد سمجھ آ جاتی تھی۔ ان دنوں ہم دونوں بھیا سے پڑھتے تھے۔ شاباش اُسی کو ملتی تب امی کہتیں۔ ساجد تم، سارہ کو سبق یاد کروا دیا کرو۔ بھائی نے میٹرک پاس کر لیا تو وہ مزید آگے پڑھنے کی خاطر شہر چلے گئے مگر اب بھی میں اور ساجد ان کے کمرے میں بیٹھ کر پڑھتے تھے۔
ان دنوں میری عمر نو سال کے قریب ہوگی اتنی معصوم تھی کہ دنیا کی باتوں کا کوئی علم نہ رکھتی تھی۔ ساجد تیره چوده برس کا تھا چونکہ وہ ہمارے گھر کے بچوں کے ساتھ کھیل کود کر بڑا ہوا تھا تبھی میری والدہ اس کو اپنے بچوں جیسا سمجھتی تھیں اور اس سے کہتی تھیں۔ ساجد اسکول میں تم ساره کا خیال رکھا کرو۔ یہ چھوٹی ہے۔ اس کو دوسرے بچے تنگ کرتے ہیں۔ اُن دنوں ہمارے گائوں میں دو ہی اسکول تھے۔ ایک پرائمری اور دوسرا سیکنڈری دونوں میں لڑکے اور لڑکیاں ساتھ پڑھتے تھے۔ جب ہم نے پانچویں پاس کر لی تو سیکنڈری اسکول بھی ساتھ جانے لگے۔ وقت تیزی سے گزرتا گیا، ساتویں میں ہم سیانے ہوگئے تھے۔ اب جب ہم تنہا ہوتے ساجد مجھ سے کچھ دوسری طرح کی باتیں کرتا، ان باتوں کی وجہ سے میں پریشان ہو جاتی تاہم ان باتوں کا ذکر کسی سے نہ کرتی چونکہ وہ کہتا تھا کہ کسی سے مت کہنا، ورنہ تمہاری امی تمہیں اسکول سے اُٹھا لیں گی، میرا کیا ہے میں تو اپنے چچا کے گائوں بھاگ جائوں گا۔ یہ دوسری قسم کی باتیں پیار و محبت اور شادی سے متعلق ہوتی تھیں۔ میں ساجد کے ہمراہ تحفظ محسوس کرتی تھی اور اس کو ایک پناہ گاہ سمجھتی تھی۔ نہیں چاہتی تھی کہ وہ مجھ کو چھوڑ کر کہیں چلا جائے۔ اس لئے اُس کی اوٹ پٹانگ باتوں کو برداشت کرلیا کرتی تھی۔ آپا کے بیٹے کی پیدائش پر وہ ہمارے یہاں آ گئی تھیں، ننھے کے جنم کی خوشی میں رت جگا ہوا تو امی نے ساجد کو روک لیا۔ کیونکہ مہمانوں کی آمد سے کام بڑھ گیا تھا۔ اُس کو کام میں ہاتھ بٹانے کو امی نے بلایا تھا۔ یہ محفل رات دیر تک جاری رہی۔ پھر سبھی تھک گئے۔ امی نے اُس کو کہا کہ تم یہیں مہمانوں کے ساتھ والے خالی کمرے میں سو جائو۔ یہ بھیا کا کمرہ تھا جو خالی پڑا تھا۔
اس رات میں اور ساجد جاگتے رہے۔ ہم نے بھیا کے کمرے میں بیٹھ کر خوب ساری باتیں کیں کیونکہ میری نیند اُچٹ گئی تھی اور اُس کو بھی نیند نہیں آ رہی تھی۔ ان دنوں مجھ کو کبھی بھی یہ احساس نہ ہوتا کہ یہ ہماری ملازمہ کا لڑکا ہے، میرا اُس کا کوئی میل نہیں ہے حالانکہ ہمارا زمیندار گھرانہ تھا اور ملازموں سے بہت فاصلہ رکھا جاتا تھا لیکن ساجد کی بات الگ تھی۔ جب اس کا جنم ہوا ان دنوں بھی اس کی ماں ہمارے سرونٹ کوارٹر میں مقیم تھی اور یہ ہمارے جدی پشتی خدمت گار تھے۔ ابھی میری پیدائش نہ ہوئی تھی اور وہ دودھ پیتا بچہ تھا، تب اُس کی ماں اُس کو ساتھ لائی اور ہمارے گھر کپڑے کے جھولے میں لٹا دیتی۔ ہمارے گھر پلا بڑھا تھا۔ والدہ اس سے پیار کرتی تھیں اور اپنے بچوں کے جیسا جانتی تھیں۔ رت جگے والی شب جب ہم دونوں نے بھیا کے کمرے میں رات بتائی تو اس شب پہلی بار کم عمری کے باوجود میں محبت کے جذبے سے آشنا ہوئی اور اس نے مجھ سے وہ باتیں کہیں جو زندگی میں یادگار بن جاتی ہیں۔ پو پھٹنے تک ہم جاگتے رہے تھے ، پھر میں وہاں سے اُٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔ انہی دنوں مجھ کو اپنی خوبصورتی و دلکشی کا شدت سے احساس ہوا۔ ساجد بری طرح میری محبت میں گرفتار ہو گیا۔ میں ساجد سے دلچسپی ضرور رکھتی تھی مگر محبت مجھ کو اُس سے نہ تھی۔ جب ذرا غور کرتی وہ برابر کا نہ لگتا تاہم اس کا ساتھ میرے لئے راحت کا باعث تھا کیونکہ اس کے بغیر خود کو ادھورا خیال کرتی تھی دراصل میں ساجد کو نہیں اس کی باتوں کو پسند کرتی تھی۔ وہ اکثر میری تعریف کرتا اور میں خوشی محسوس کرتی۔ ہمارا تعلق روحانی نہیں بلکہ جذباتی تھا۔ ایسی جذباتیت جو تغیر پذیر ہوتی ہے پائیدار نہیں۔ ساتھ والے گائوں میں کسی کا انتقال ہو گیا۔ یہ ہمارے رشتہ دار تھے۔ گھر والے وہاں چلے گئے۔ مجھ کو بخار تھا لہٰذا امی ساجد کی ماں پروین کو میرے پاس چھوڑ گئیں۔ رات کو پروین تو سو گئی لیکن ساجد کو نیند نہ آئی۔ وہ میرے پلنگ کی پٹی سے لگا بیٹھا تھا۔ رات کے بارہ بجے تھے۔ مجھے تیز بخار تھا اور ساجد میرے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھ رہا تھا، اس نے میرا سر اپنی گود میں رکھا ہوا تھا۔ نہیں معلوم کہ دولہا بھائی کب اور کیسے گھر میں آ گئے، وہ یہ نظارہ دیکھ کر آگ بگولہ ہوگئے۔ انہوں نے ساجد کو جوتے لگائے، پروین کو اُٹھایا، اس کو بھی خوب برا بھلا کہا۔ ساجد تو اُسی وقت سرونٹ کوارٹر چلا گیا۔
صبح نجانے کیا آپا کے شوہر نے پروین سے کہا کہ اس نے ساجد کو اس کے چچا کے گائوں بھجوا دیا۔ حیرت کی بات یہ کہ اس واقعہ کا ذکر نہ تو پروین نے امی جان سے کیا اور نہ ہی دولہا بھائی نے … مگر پروین کو یہ دھمکی ضرور دی کہ اگر اب میں نے تمہارے لڑکے کو ادھر دیکھ لیا تو اس کی گردن کٹوا دوں گا۔ اپنی غفلت کے سبب وہ بچاری تو ایک گراں بوجھ تلے دبی سسکتی رہی لیکن اس نے امی کے سامنے زبان نہ کھولی۔ میرا خیال تھا کہ دولہا بھائی اس واقعہ کا ذکر ضرور میرے والدین یا آپا سے کریں گے۔ اور مجھے بھی مار پڑے گی، اسی خوف کو دل میں دبا کر میں آدھ موئی ہوئی جاتی تھی۔ کافی دن گزر گئے میرے بہنوئی نے کسی سے اس بارے کچھ نہ کہا تو میں سوچنے لگی کہ میرے بہنوئی یا تو بہت عظیم انسان ہیں کہ مجھ کو والدین کی نظروں سے نہیں گرانا چاہتے یا پھر انہوں نے پروین پر احسان کیا ہے، کیونکہ وہ ہماری جدی پشتی ملازمین کے خاندان سے تھی شاید کہ وہ اس کی بے توقیری نہیں چاہتے تھے۔ میرا خیال غلط نکلا۔ انہیں نہ تو پروین سے ہمدردی تھی اور نہ مجھ سے بلکہ انہوں نے مجھ کو میرے اس ناکردہ جرم کی سزا خود دینے کی ٹھان لی تھی، ایسی سزا کہ اُس کے بدلے اگر مجھے موت اپنی آغوش میں لے لیتی تو اچھا تھا۔ ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں ہی رکھتے دیکھا تھا آپ نے؟ ایسی ویسی کوئی دوسری حرکت تو ہم سے سرزد نہ ہوئی تھی کہ آپ ہم کو گناہ گار ٹھہرائیں؟ مگر ان کے آگے میری زبان گنگ ہو جاتی، ٹھنڈے پسینے آنے لگتے اور آنکھوں کی پتلیاں خوف سے پھیل جاتیں۔ میں سہم جاتی، اندر بی اندر گهٹتی رہتی اور یہ ایسی بات تھی کہ کسی سے کہہ بھی نہ سکتی تھی۔ مجھ پر ان کا ایسا رعب اور خوف تھا کہ جیسے وہ عزرائیل ہوں۔
وہ ایک لحیم شحیم قوی قامت آدمی تھے کہ تنہائی میں ان کو دیکھنے سے میری روح فنا ہو نے لگتی تھی۔ دل سے چاہتی تھی کہ اس عذاب سے جان چھوٹ جائے۔ سوچتی رہتی اب جب موقع ملتا۔ اس راز کو آڑ بنا کر مجھ سے نزدیک آجاتے۔ دھمکی دیتے کہ سارے زمانے میں رسوا کر دوں گا، تمہاری زندگی برباد کر دوں گا، خوف سے مجھ پر لرزا طاری ہو جاتا۔ اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ ان سے پوچھتی آخر میں نے کیا خطا کی ہے۔ میں تو بخار میں بے سُدھ پڑی تھی۔ کیسے امی سے کہوں یا باجی کو بتائوں؟ یہ سوچتے سوچتے صبح ہو جاتی مگر کسی کو نہ بتا سکتی۔ اس وقت کم سنی کے سبب خوف زیادہ تھا اور عقل کم حوصلہ ہوتا تھا اور نہ اخلاقی جرأت تھی مجھ میں … پھر میں نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا اور بتھیار ڈال دیئے تاکہ وہ مجھ کو خوفزدہ کرنا بند کر دیں۔ وہ جو کہتے مان لیتی۔ یعنی وہ جس قدر بھی ستاتے میں آنسو پونچھ کر سہہ لیتی۔ مصیبت تو یہ تھی کہ وہ ہمارے ہم دیوار تھے، آپا کا گھر ہمارے برابر تھا، لہٰذا ان کا ہمارے گھر أنا جانا لگا ہی رہتا تھا۔ آپا اپنے ننھے منوں کی پیدائش پر ہر دفعہ مجھے زبردستی بانہہ سے پکڑ کر اپنے گھر لے جاتیں اور وہاں جب موقع ملتا تنہائی میں ان کے شوہر میری بانہیں پکڑ لیتے۔ تب دل سے یہی بددعا نکلتی یا الله … میرے بہنوئی کو موت آ جائے یا میں ہی مر جائوں تاکہ اس عذاب سے تو نجات ملے۔ جب بھی آپا اسپتال ہوتیں اور اماں ان کے پاس میں ہی ان کے بچوں کو سنبھالتی اور دولہا بھائی مجھے …. ہر مرحلہ پر بھی قسمت نے ان ہی کا ساتھ دیا۔ اس سے پہلے میں بدنامی کی ہولناک گہرائی میں گر جاتی، انہوں نے مسئلے کا حل نکال لیا، میرے والدین کی منت سماجت کر کے میرا رشتہ اپنے چھوٹے بھائی کے لئے مانگ لیا اور جھٹ پٹ میری شادی کی تاریخ بھی رکھ لی، یوں بندر کی بلا طویلے کے سر ہوئی۔ میرے لئے تو اس شادی پر راضی ہو جانے کے سوا کوئی چارہ تھا ہی نہیں کہ ان دنوں اتنی پریشان تھی کہ مجھ پر میری ایک ایک سانس صدیوں جیسی بھاری ہو گئی تھی۔ شادی ہوگئی، لمحے بھر کو سکھ کا سانس لیا کہ یہ شادی نہ ہوتی تو ماں، باپ، بہن اور زمانے کو کیا منہ دکھاتی، تاہم ضمیر کی تیز چھری سے ہر وقت کلیجہ کٹتا رہتا تھا۔
ایک ماہ کے اندر اندر دولہا بھائی نے مجھے اور میرے شوہر ماجد کو دبئی بھجوا دیا۔ جہاں ماجد کو بہت اچھی ملازمت مل گئی کیونکہ وہ انجینئر تھے۔ تنخواه بهی بہت اچھی تھی اور رہائش کمپنی کی طرف سے ملی تھی۔ یہ بھی میرے بہنوئی کی سوچی سمجھی اسکیم ہی تھی کہ ساری قیامتیں انہوں نے اپنے اور میرے سر سے ٹال کر اپنے چھوٹے بھائی کے سر ڈال دی تھیں جس کو اپنے چھوٹے بھائی کا بھی پاس نہیں ہے۔ کس قدر گرا ہوا انسان ہے۔ اب مجھے بہنوئی سے شدید نفرت محسوس ہوتی۔ سوچتی یہ کیسا بے ضمیر ہے یہ کہ اپنے ہی بھائی کو قربانی کا بکرا بنا ڈالا۔ ایک روز ماجد نے کہا۔ سارہ مجھ کو کمپنی کی طرف سے امریکہ جانے کا موقع مل رہا ہے تم کیا کہتی ہو۔ جیسے آپ کو ٹھیک لگے، میں تو آپ کے ساتھ ہوں۔ میں نے جواب دیا۔ اللہ تعالیٰ نے مدد کی اور ہم امریکہ آ گئے، اس کے بعد میں نے واپس جانے کا خیال چھوڑ دیا۔ ماں باپ بہن بھائی سبھی یاد آتے۔ فون پر بات کر لیتی لیکن جب بھی ماجد کہتے کہ پاکستان چلو، میں انکار کر دیتی تھی۔ وہ کہتے تمہارا دل کتنا سخت ہے۔ مجھے تو بڑے بھائی بہت یاد آتے ہیں۔ وہ میرے لئے باپ کی جگہ ہیں۔ آپ خود مل آیئے، میں نہ جائوں گی۔ ان کو کیا بتاتی کہ جس انسان کو تم اپنے والد کی جگہ سمجھتے ہو وہ انسان کہلانے لائق ہی نہیں ہے۔ ماجد وطن نہ جانے کی وجہ پوچھتے۔ جی چاہتا کہ اپنے جیون ساتھی کو سب کچھ سچ سچ بتا کر ضمیر کا بوجھ اُتار پھینکوں، گھر اُجڑتا ہے تو اُجڑ جائے مگر میرے سچے ساتھی پر اپنے پیارے بھائی کا بھرم تو کھل جائے گا کہ جس کے آگے وہ سجدہ کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ مگر پھر خود کو روک لیتی۔ اس وجہ سے کہ وہ پرسکون ہیں مجھ سے خوش ہیں، بچوں سے پیار کرتے ہیں۔
0 تبصرے