یہ واقعہ چھ سال پرانا ہے۔ ان دنوں میں اور میری سہیلی حسنہ میٹرک میں تھیں۔ ہم ایک ہی محلے میں رہتی تھیں، اس لیے ساتھ اسکول آتی جاتی تھیں۔ حسنہ نہایت خوبصورت اور بہت اچھی لڑکی تھی۔ وہ میرا بہت خیال رکھتی تھی۔ اس میں کافی خوبیاں تھیں، تاہم اُس کی شخصیت میں ایک کمی بھی تھی، اور وہ یہ کہ وہ کچھ جلد باز واقع ہوئی تھی۔ زندگی کی رنگینیوں پر فریفتہ تھی اور جنسِ مخالف کے بارے میں دل کھول کر باتیں کیا کرتی تھی۔ اس کی یہی عادت مجھے کھٹکتی تھی۔ محلے بھر کے لڑکوں کے نام، ان کی سرگرمیاں اور ان کے رومان اُسے ازبر تھے۔ جب وہ کسی لڑکے اور اس کی محبوبہ کے بارے میں بات شروع کرتی، میں اُسے ٹوک دیتی۔ میں کہتی کہ دنیا میں اور بھی بہت سی اہم باتیں اور موضوعات ہیں، آخر تم ایک ہی بات کیوں سوچتی ہو کہ فلاں لڑکا اچھا ہے اور فلاں برا۔ بھئی ہمیں کیا؟ ہمیں تو بس اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ اسی بات پر کبھی کبھار ہماری ان بن ہو جاتی تھی۔
مجھے معلوم نہیں تھا کہ آگے چل کر وہ زندگی کے ساتھ کیسی آنکھ مچولی کھیلنے والی ہے۔ اگر اندازہ ہوتا، تو میں اُسے اپنی جان کی قسم دے کر روک لیتی۔ حسنہ کا گھرانہ شرافت کا نمونہ تھا۔ اُس کی بیوہ ماں نے نہایت نامساعد حالات میں محنت مشقت کر کے بچوں کو پالا تھا۔ اُس کا ایک ہی بڑا بھائی تھا، جو سیدھا سادا اور کم گو انسان تھا۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔ محلے کے لوگ اُس نوجوان پر اعتبار کرتے تھے، اُس کی عزت کرتے تھے، کیونکہ اُس نے کبھی کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔ اُس کا نام اشرف تھا اور وہ واقعی اپنے نام کی لاج رکھتا تھا۔ حسنہ کی ماں اُسے ہمیشہ نصیحت کیا کرتی تھیں کہ اپنے بڑے بھائی کی عزت بنائے رکھنا، اور وہ جواب دیتی کہ ماں تم کیسی باتیں کرتی ہو؟ کیا میں اسکول کوئی غلط کام کرنے جاتی ہوں، جو تم کو ہول اٹھتے ہیں؟ اُس کی شوخیوں سے ماں ڈرتی تھی اور چپ ہو جاتی تھی۔
ہمارا دیہاتی گھرانہ تھا، جس کی وجہ سے ہمیں گھومنے پھرنے اور کھل کر بات کرنے کی زیادہ آزادی نہ تھی۔ ہمارے علاقے کا یہی رواج ہے؛ یہاں کوئی عورت اپنی مرضی سے کام نہیں کر سکتی، اور نہ ہی مرد عورتوں کو اتنی آزادی دیتے ہیں کہ وہ اِدھر اُدھر گھوم سکیں۔ اس وجہ سے میرے دل میں اپنے والد اور بھائیوں کا ایک انجانا سا خوف بیٹھا رہتا، لیکن حسنہ کسی سے نہیں ڈرتی تھی، بلکہ مجھے کہتی تھی کہ مرد ذات سے بالکل نہیں ڈرنا چاہیے۔ میں اُس کی باتوں پر حیران ہو جاتی تھی کہ آخر اُسے کس نے اتنا نڈر بنا دیا؟ شاید اس لیے کہ اُس کے والد حیات نہ تھے، بھائی انتہائی شریف تھا اور ماں نرم دل۔ وہ جب چاہتی، کسی سہیلی کے گھر یا کبھی کہیں اور چلی جاتی۔
ایک دن حسنہ بولی کہ شازیہ، مرد ذات تو بہت باوفا ہوتی ہے۔ یہ ہم عورتیں ہی بے وقوف ہیں، جو مرد کی اس خوبی سے فائدہ نہیں اٹھاتیں۔ میں نے کہا کہ لگتا ہے تمہارے ساتھ بھی کسی نے وفا کی ہے؟بولی کہ ابھی تو نہیں، مگر جو بھی میرا ہوگا، وہ مجھ سے وفا ضرور کرے گا، دیکھ لینا۔ایک دن ہم اسکول سے واپس آ رہی تھیں۔ ہم باتوں میں اتنی گم تھیں کہ اردگرد کا ہوش نہ رہا۔ میں برقعہ پہنتی تھی اور چہرے پر نقاب ہوتا تھا، جبکہ حسنہ صرف چادر اوڑھتی تھی اور اس کا چہرہ کھلا ہوتا تھا۔ جب ہم ایک دکان کے سامنے سے گزریں، تو ایک نوجوان ہمارے سامنے آ گیا اور اُس نے حسنہ کے کندھے پر زور سے دھپ ماری، جس کی وجہ سے وہ زمین پر گر گئی اور اس کی کتابیں اِدھر اُدھر بکھر گئیں۔اُسے بہت غصہ آیا۔ اُس نے غصے سے کہا کہ اگر مرد ہو تو کل اسی جگہ آنا، میں تمہیں تمہارے عمل کا جواب دوں گی۔حسنہ نے اپنے ماموں کے بیٹوں کو جا کر شکایت کر دی تھی اور جگہ اور وقت بھی بتا دیا تھا۔ دوسرے دن وہ نوجوان وہیں کھڑا تھا، تبھی چار لڑکے وہاں آ گئے اور اُس منچلے کی خوب پٹائی کی۔
میں نے اُس سے کہا، تجھے مرد کی ذات بہت اچھی لگتی تھی، اب کیا ہوا؟وہ کہنے لگی، جس کو میں چاہتی ہوں وہ ایسا اوباش نہیں ہے۔میں نے پوچھا، اچھا تو وہ کون ہے جس کو تو چاہتی ہے؟بولی، وہ میرے سپنوں کا شہزادہ ہے۔ ابھی نہیں بتاؤں گی، جب موقع آئے گا تب بتا دوں گی۔یہ پہلی بار تھا کہ اُس نے اقرار کیا تھا کہ وہ کسی کو چاہتی ہے۔ اب وہ مجھ سے پوچھتی، کیا تجھے بھی کوئی چاہتا ہے؟میں جواب دیتی، اگر کوئی چاہتا ہو تو چاہتا رہے، مجھے کیا۔ مجھے تو اپنے والدین کی عزت کا پاس رکھنا ہے۔تب وہ میرا خوب مذاق اُڑاتی اور کہتی، تم ہو ہی بد ذوق، خاندان کی عزت کی پاسبان۔عرض یہ کہ وہ میرا خوب مذاق بناتی۔ کہتی، یہ زندگی چار دن کی ہے، اسے اپنی مرضی سے گزارنے کا حق ہر انسان کو ہے۔وہ بڑی زندہ دل لڑکی تھی اور ہمیشہ ہنستی رہتی تھی۔ایک دن میں نے پوچھا کہ اس خوش نصیب کا نام کیا ہے، جو تیرے سپنوں کا شہزادہ ہے؟اس نے بتایا، اُس کا نام سلیم ہے، میرا دور کا کزن ہے۔ لاہور میں رہتا ہے اور کبھی کبھار یہاں آتا ہے، کیونکہ یہاں اُس کی بہن کا گھر ہے۔سلیم سے میری ملاقات اُس کی بہن کی شادی پر ہوئی تھی۔
ایک دن وہ ہمارے گھر آئی، بہت گھبرائی ہوئی تھی۔امی نے پوچھا، کیا ہوا؟بولی، خالہ، مجھے بچا لو، خالہ، مجھے بچا لو۔امی نے کہا، کچھ بتاؤ تو سہی؟بولی، ماں میرا رشتہ ایک امیر شخص سے طے کر رہی ہے۔ وہ ہمارا دور کا رشتے دار ہے۔ اُس کی بیوی مر چکی ہے، اور اُس کا ایک چھوٹا بچہ بھی ہے، جسے اُس کی پھوپھی پال رہی ہیں۔لیکن میں اُس سے شادی نہیں کروں گی۔اس کی حالت دیکھ کر امی بھی پریشان ہو گئیں۔ انہوں نے اُسے تسلی دی کہ فکر نہ کرو،آرام سے گھر جاؤ، میں تمہاری ماں کو سمجھاؤں گی کہ وہ ایسا نہ کرے۔
پھر اسکول کی چھٹیاں ہو گئیں۔ بہت دنوں تک حسنہ ہمارے گھر نہ آئی۔امی نے کہا، شازیہ، بہت دنوں سے حسنہ نہیں آئی، ذرا اُس کی خیر خیریت تو معلوم کرو۔میں بھی خوش ہو گئی کہ پہلی بار سہیلی کے گھر جانے کی اجازت ملی تھی۔میں چھوٹے بھائی کو لے کر اُس کے گھر چلی گئی۔اُس کے گھر کچھ مہمان آئے ہوئے تھے۔ وہ ان کے لیے چائے بنا رہی تھی اور بہت خوش نظر آ رہی تھی۔میں سلام کرنے کے لیے خالہ کی طرف گئی، تو وہاں ایک عورت، ایک لڑکی اور ایک لڑکا خالہ سے باتیں کر رہے تھے۔میں خالہ کو سلام کر کے واپس باورچی خانے میں آ گئی اور حسنہ سے پوچھا، کیا یہی سلیم ہے؟ یہ تو بہت خوبصورت ہے۔وہ بولی، ہاں یہی ہے۔ دیکھا، کتنا ہینڈسم ہے۔ یہ لوگ رشتہ لینے آئے ہیں۔خدا کرے امی مان جائیں، وہ تو بس اسی امیر شخص کو اپنا داماد دیکھنا چاہتی ہیں۔
اچانک ڈرائنگ روم سے اونچی آوازیں آنے لگیں، تو حسنہ پریشان ہو گئی۔جب وہ لوگ جانے لگے تو سلیم نے کہا، خالہ، آپ نے ہماری بے عزتی کی ہے، میں اس کا حساب لوں گا۔ آپ آج کا دن ضرور یاد رکھیں گی۔خالہ نے کہا، اچھا بیٹا، ضرور یاد رکھوں گی، مگر اب تم جاؤ۔ میں تم کو رشتہ نہیں دے سکتی، مجبور ہوں۔ ہمیں معاف کرنا۔اُن کے جانے کے بعد خالہ بہت پریشان تھیں۔انہوں نے حسنہ سے کہا، تو ہماری عزت کی دشمن ہے۔ یہ لڑکا بے لحاظ ہے اور رشتے کے لائق نہیں۔جبکہ امجد رنڈوا سہی، مگر شریف آدمی ہے۔ عمر بھی زیادہ نہیں ہے۔ اُس کی شادی کو دو سال ہوئے تھے کہ بیوی رضائے الٰہی سے فوت ہو گئی۔اب اس میں اُس کا کیا قصور؟مگر حسنہ کہاں ماننے والی تھی۔ ماں بیٹی کے درمیان رشتے کی بات پر سخت کشمکش چھڑ چکی تھی۔
ایک دن وہ ہمارے گھر آئی اور کہنے لگی: ماں تو سلیم کے لیے کسی طرح مانتی نہیں۔ اسے تو امجد کی دولت ہی بھلی لگتی ہے۔ بھلا میں کیوں بنوں قربانی کا بکرا؟ کل امجد کے گھر والے منگنی کے لیے آ رہے ہیں۔ میں نے سلیم کو فون کر دیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ تم تیار رہنا، میں تمہیں لینے آ رہا ہوں۔میں نے پوچھا: تو کیا تم اُس کے ساتھ چلی جاؤ گی؟کہنے لگی: ہاں، تو اور کیا کروں؟ اچھا تو شازیہ، خداحافظ! خدا جانے ہم زندگی میں دوبارہ مل بھی سکیں یا نہیں۔میں سمجھی کہ یہ ایسے ہی کہہ رہی ہے، جائے گی کہاں؟ تاہم اس دن بھی میں نے بہت سمجھایا، مگر وہ نہ مانی اور اگلے دن اپنے بھائی اور ماں سے چھپ کر سلیم کے ساتھ لاہور چلی گئی۔میں بہت حیران ہوئی کہ یہ کیسیلڑکی ہے جس کو ماں اور بھائی کی عزت کا ذرا بھی خیال نہیں۔حسنہ کے گھر والے محلے میں بہت بے عزت ہوئے، تو وہ یہ شہر چھوڑ کر چلے گئے۔اس کے بعد نہ ان کا کچھ پتا چلا، نہ ہی حسنہ نے کسی سے کوئی رابطہ کیا۔ہم بہنوں کی تعلیم مکمل ہو گئی تھی۔ ابو ریٹائر ہو گئے، تو ہم اپنے گاؤں چلے گئے۔
گاؤں میں ہمارے سب رشتہ دار رہتے تھے۔ میری منگنی اپنے چچا زاد سے ہو گئی، جو ڈاکٹر تھے اور لاہور میں ملازمت کرتے تھے۔ یوں ہم لاہور آ گئے۔مجھے نرسنگ کا شوق تھا۔ شوہر نے میرے شوق کا احترام کرتے ہوئے مجھے کبھی کبھار اسپتال آنے کی اجازت دے دی۔ایک دن میرے شوہر کی ڈیوٹی ایمرجنسی میں لگی ہوئی تھی۔ اس دن میں بھی یوں ہی اسپتال چلی گئی تھی کہ ایک عورت بری طرح جلی ہوئی لائی گئی۔میں نے وارڈ بوائے سے پوچھا کہ اس کا کوئی والی وارث نہیں؟اس نے بتایا کہ جی، اس کے شوہر نے ہی اسے جلایا ہے۔میں نے پوچھا: اسے اسپتال کون لایا تھا؟اس نے بتایا: ایک مرد اور ایک عورت، جو خود کو اس کے پڑوسی بتاتے ہیں۔میرے شوہر نے مجھے وہاں دیکھا تو کہا: تم اس عورت کو دیکھ لو، کیونکہ اس کے پاس کوئی اپنا نہیں ہے۔میں اس کے قریب گئی۔ وہ ہوش میں تھی اور تکلیف سے کراہ رہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی پہچان گئی۔بولی: تم شازیہ ہو نا؟اس کی آواز سنتے ہی میں یکدم ماضی میں چلی گئیمجھے یاد آ گیا، یہ آواز تو میری سہیلی حسنہ کی ہے۔میں نے پوچھا: تو حسنہ ہے؟کہنے لگی: ہاں شازیہ! مجھے اس عذاب سے بچا لو۔ میں ہی تیری بدنصیب سہیلی ہوں۔
میں نے فوراً اپنے شوہر کو بلایا اور کہا کہ اس کی تکلیف کم کرنے کے لیے دوا دیں۔انہوں نے پہلے ہی اسے انجکشن دے دیے تھے، پھر بھی خصوصی توجہ دی۔میں تمام رات اس کے پاس رہی۔ اگلے دن بھی وہ بولنے کے قابل نہ تھی۔اس کے پڑوسی حال دیکھنے آئے۔ کچھ پولیس کی کارروائی بھی ہوئی۔جب حسنہ بات کرنے کے قابل ہوئی تو اس نے بتایا:سلیم سے شادی میں نے اپنی مرضی سے کی تھی، لہٰذا نہ میکے والے مجھے پوچھتے تھے، نہ سسرال والےاسی وجہ سے یہ آدمی شیر ہو گیا۔یہ اتنا ظالم نکلا کہ اس نے میری زندگی عذاب بنا دی۔اگر سالن میں نمک تھوڑا تیز ہو جاتا تو یہ مجھے ادھیڑ کر رکھ دیتا۔تین دن پہلے، ذرا سی بات پر یہ آپے سے باہر ہو گیا اور مجھے جلتے ہوئے چولہے پر دھکا دے دیا۔جب میرے کپڑوں میں آگ لگ گئی اور میں چیخنے چلانے لگی، تو بجائے مجھے اسپتال لے جانے کے، یہ گھر سےبھاگ گیا۔یہ تو خدا بھلا کرے پڑوسیوں کا، جو بروقت میری چیخ و پکار سن کر آئے اور مجھے اپنی گاڑی میں ڈال کر فوراً اسپتال لے آئے، ورنہ شاید میں مر چکی ہوتی۔
حسنہ دو ماہ اسپتال میں رہی، مگر ایک بار بھی اس کا شوہر اسے دیکھنے نہیں آیا۔بلکہ وہ گھر کو تالا لگا کر کہیں روپوش ہو گیا۔اس بیچاری کی طرف سے تو ایف آئی آر درج کروانے والا بھی کوئی نہ تھا۔پڑوسی جو چشم دید گواہ تھے، انہوں نے بس اتنا کہا کہ ہم سے جو ہو سکا، ہم نے کر دیا، اس سے زیادہ ہم کسی کےمعاملات میں نہیں پڑتے۔حسنہ کہتی تھی: مجھے دارالامان میں داخل کرا دو۔مگر اُس کی حالت کے پیش نظر میں اُسے اپنے گھر لے آئی۔اب وہ مجھ سے کہتی ہے:شازیہ! تم صحیح کہتی تھیں کہ اپنے بھائی کی عزت کی پاسبان بنو۔اور میں تمہارا مذاق اُڑاتی تھی۔
آج میں، نصیبوں جلی، ساری کی ساری جل کر بھسم ہو گئی ہوں۔مجھے سلیم نے اپنی جھوٹی محبت کا زہر پلایا تھا، جس سے میں مدہوش ہو گئی تھی۔مجھے اُس وقت کچھ بھی سمجھ نہ آتی تھی۔
آج بس نہیں چلتا کہ ہر لڑکی سے کہوں:کسی کی محبت کا زہر نہ پینا، ورنہ مدہوش ہو کر میری طرح جل جاؤ گی۔
(ختم شد)