کم عمر شوہر

Sublimegate Urdu Stories 7

فہیم میرے ماموں کا بیٹا اور رابعہ خالہ زاد تھی۔ ان دونوں کی منگنی بچپن میں ہو چکی تھی۔ ہم سب کے گھر قریب قریب تھے۔ فہیم اور رابعہ کا پیار ایک قدرتی بات تھی۔ وہ ایک دوسرے کو بہت چاہتے تھے۔کہتے ہیں کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں، اور یہ سچ ہی ہے۔ میرے تو کبھی وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میری شادی فہیم سے ہو جائے گی، جبکہ خاندان کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ اس کی شادی رابعہ سے ہی ہو گی۔ تاہم، ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے دونوں کے والدین میں ناراضی ہو گئی۔ یہ کوئی کاروباری معاملہ تھا۔ دونوں خاندانوں میں رنجش اتنی بڑھی کہ وہ ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہو گئے۔ نتیجتاً، ان کی منگنی ٹوٹ گئی۔ خدا ہی جانتا ہے کہ فہیم کے دل پر کیا بیتی، مگر رابعہ کا حال سب جانتے تھے۔

وہ شدید بیمار پڑ گئی اور کافی عرصہ بستر پر رہی۔ان دنوں، میری امی جان میرے رشتے کے لیے بہت فکرمند تھیں اور میری شادی کسی غیر خاندان میں کرنا نہیں چاہتی تھیں، جبکہ اپنوں میں کوئی مناسب رشتہ موجود نہ تھا۔ جب رابعہ اور فہیم کی منگنی ختم ہو گئی تو امی جان کو خیال آیا کہ کیوں نہ اپنی بیٹی کا رشتہ اپنے بھتیجے فہیم کو دے دوں؟ اس طرح بھائی سے رشتہ مضبوط ہو جائے گا۔ وہ کسی غیر لڑکی کو فہیم کی دلہن بنا کر نہیں لائیں گے اور گھر کی دولت بھی گھر میں رہے گی۔ اس معاملے میں امی نے خالہ، یعنی رابعہ کی ماں، کا بھی خیال نہ کیا۔امی نے ماموں سے بات کی۔ 

انہوں نے چند دن سوچنے کے بعد اس رشتے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ میں عمر میں فہیم سے سات برس بڑی تھی۔ اگرچہ دبلی پتلی ہونے کی وجہ سے اس کی ہم عمر لگتی تھی، تاہم حقیقت یہی تھی کہ وہ مجھ سے کافی چھوٹا تھا۔ بےچارہ فہیم یوں تو خاندانی معاملات میں بولنے کی طاقت نہ رکھتا تھا، مگر اس معاملے میں ماں کے آگے بول پڑا کہ لڑکی عمر میں سات برس بڑی ہے۔ اس پر ممانی برہم ہو کر گویا ہوئیں کہ نادان لڑکے، لڑکی بڑی ہے تو کیا ہوا؟ سگھڑ ہے، اپنے خاندان سے ہے، دیکھی بھالی ہے۔ غیروں میں رشتہ کریں گے تو نجانے وہ کیسے لوگ ہوں، کیسے رنگ دکھائیں؟ ہم مشکل میں پڑ جائیں گے۔

ماں نے فہیم کو سمجھا بجھا کر چپ کرا دیا۔ میں جانتی تھی کہ فہیم بادل نخواستہ یہ شادی کر رہا ہے، مگر میں کیا کر سکتی تھی؟ میں بھی تو مجبور تھی۔ کچھ بول نہیں سکتی تھی اور نہ ہی میری اس معاملے میں کوئی چلتی تھی۔ میں فہیم اور رابعہ کی گہری محبت سے بھی واقف تھی، مگر اس رشتے کے ٹوٹنے میں میرا کوئی دوش نہیں تھا۔بہرحال، میری شادی فہیم سے ہو گئی اور میں بیاہ کر ماموں کے گھر آ گئی۔ فہیم کا رویہ میرے ساتھ سرد مہری والا تھا۔ میری ساس ہر وقت اسے سمجھاتی رہتی تھیں، اور وہ مجبوراً میرے ساتھ میاں بیوی کا رشتہ نبھا رہا تھا، ورنہ اس کا دل گھر میں نہیں لگتا تھا۔ وہ کسی چیز میں بھی دلچسپی نہیں لیتا تھا۔ میں نے اسے خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی، کیونکہ اس کے دکھ سے واقف تھی۔ وہ مجھ سے بے رخی برتتا تو بھی میں اف نہ کرتی، کوئی شکوہ زبان پر نہ لاتی۔

میں جانتی تھی کہ وہ ایک مجبور انسان ہے۔مجھے اپنے ماموں کے گھر کھانے پینے یا روپے پیسے کی کوئی تکلیف نہ تھی، سوائے اس کے کہ فہیم کی سرد مہری کبھی کبھار دل آزاری کر دیتی تھی۔ تاہم، میں یہی سمجھتی تھی کہ کبھی نہ کبھی وہ رابعہ کی یاد کو دل سے بھلا ہی دے گا، کیونکہ اب وہ اس کی ہو نہیں سکتی تھی۔ میری ساس کا خیال تھا کہ جب بچے ہوں گے تو فہیم کے دل میں میرے لیے محبت پیدا ہو جائے گی۔سال بعد اللہ نے ہمیں ایک بیٹا دیا۔ سب گھر والے خوش تھے، میرے میکے والے بھی اور سسرال والے بھی۔ فہیم بھی بظاہر خوش نظر آتا تھا، مگر اس کے مزاج میں جو بیزاری زہر کی طرح رچ بس گئی تھی، وہ اب بھی باقی تھی۔

کچھ عرصے بعد میرے ماموں اور خالہ میں شکر رنجی دور ہو گئی اور فہیم نے رابعہ کے ہاں آنا جانا شروع کر دیا۔ اگرچہ یہ بات مجھے اور میری ساس کو پسند نہ تھی، پھر بھی ہم فہیم کی غصیلی طبیعت کی وجہ سے اسے روک نہ سکے۔جب وہ رابعہ کے گھر جا کر بیٹھنے لگا تو میرے ماموں اور میرے میکے والوں نے بھی اس بات کو محسوس کیا۔ انہوں نے فہیم  کو روکا تو وہ سب سے الجھ پڑا اور گھر چھوڑنے کی دھمکی دے دی۔ اس ڈر سے کہ بات طول نہ پکڑ جائے، سب چپ ہو گئے۔ رابعہ کے گھر والے بھی خوب جانتے تھے کہ فہیم صرف رابعہ کی خاطر آتا ہے، مگر انہوں نے اسے نہ روکا۔ الٹا، رابعہ کی امی اس کی زیادہ آؤ بھگت کرنے لگیں۔ میری امی جانتی تھیں کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہیں، کیونکہ امی نے میرا رشتہ فہیم کو دیا تھا۔ اب وہ انتقاماً اسے اپنے گھر بٹھائے رکھتی تھیں، کیونکہ اس بات سے مجھے تکلیف ہوتی تھی۔ بھلا کون سی بیوی چاہے گی کہ اس کا شوہر اپنی سابقہ منگیتر اور محبوبہ کے گھر بیٹھا رہے؟اب فہیم کا رویہ مجھ سے مزید خراب ہو چکا تھا۔ وہ مجھ سے کلام تک کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔ 

میں اندر ہی اندر گھلتی جا رہی تھی۔ وہ آفس سے آ کر کھانے کے بعد آرام کرنے کے بجائے رابعہ کے گھر چلا جاتا اور رات گئے اس وقت واپس آتا، جب سب سو چکے ہوتے۔ سبھی کو خبر ہو گئی تھی کہ رابعہ اور فہیم کا رومانس دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔امی نے جا کر خالہ جان سے احتجاج کیا، یہاں تک کہ میں نے خود رابعہ کے والد سے فریاد کی، مگر انہوں نے ہماری کسی بات کو کوئی اہمیت نہ دی۔ ایسا لگتا تھا کہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہو رہا ہے۔ جب میں نے فہیم سے کھل کر احتجاج کیا، تو اس نے مجھ پر ہاتھ اٹھا لیا۔ بات بڑھ گئی اور امی مجھے آ کر اپنے گھر لے گئیں۔
جب معاملہ حد سے بڑھنے لگا تو میرے سر صاحب کو مداخلت کرنا پڑی۔ انہوں نے میرے خالو سے کہا کہ یہ معاملہ اب یہیں ختم ہونا چاہیے۔ فہیم کی شادی ہو چکی ہے اور قسمت کا یہی فیصلہ تھا۔ ہم اس فیصلے کو بدل نہیں سکتے، لہٰذا آپ رابعہ اور فہیم کو روکیں۔ اس پر خالو جان نے جواب دیا کہ آپ اپنے بیٹے کو خود روک لیجیے، ہم اسے اپنے گھر آنے سے کیسے منع کر سکتے ہیں؟ ظاہر ہے، فہیم کسی کی سننے والا نہ تھا۔ ہم اسے روکتے بھی تو وہ نہ رکتا، اور یہ بات بڑے خالو جانتے تھے۔ گویا وہ اب ہماری بے بسی کا تماشا دیکھنا چاہتے تھے۔جب خاندان والوں نے حالات کو حد سے زیادہ بگڑتے دیکھا، تو کچھ بزرگوں نے مداخلت کی۔ اس پر خالو جان نے فیصلہ کیا کہ وہ نقل مکانی کر جائیں گے، لہٰذا وہ پشاور چلے گئے۔ نہ پڑوس میں گھر ہو گا، نہ یہ مسئلہ کھڑا ہو گا۔

 وہ گھر تو کیا، پورا شہر ہی چھوڑ گئے۔ ہم سب نے شکر ادا کیا کہ خالو جان نے ہم سب کی خاطر نقل مکانی کر کے بہت بڑی قربانی دی، ورنہ فہیم باز آنے والوں میں سے نہ تھا۔رابعہ کے گھر والوں کے پشاور منتقل ہونے کے بعد کچھ عرصے تک تو میرا شوہر سخت مضطرب اور پریشان رہا، پھر اچانک ایک دن وہ گھر سے غائب ہو گیا۔ ایسا غائب ہوا کہ پورے پندرہ دن کوئی خبر نہ ملی کہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔سب کا یہی خیال تھا کہ ہو نہ ہو، وہ پشاور گیا ہو گا۔ میرے سر صاحب پشاور گئے تو رابعہ کے والد نے کہا کہ فہیم یہاں نہیں آیا۔ اگر وہ آیا تو میں خود اسے ساتھ لے کر آپ کے گھر آ جاؤں گا۔
ایک ہفتے بعد خالو جان یعنی رابعہ کے والد فہیم کو لے کر آئے اور اسے ہمارے گھر چھوڑ کر واپس چلے گئے، مگر فہیم نے اپنے والدین سے کوئی بات کی اور نہ ہی مجھ سے کلام کیا۔ جب میں نے اسے مجبور کیا تو اس نے صاف کہہ دیا کہ میں رابعہ سے دوسری شادی کر لوں گا۔ وہ میری منگیتر تھی۔ والدین نے اپنے جھگڑوں میں مجھے کس بات کی سزا دی تھی، جو میری محبت کو مجھ سے چھین لیا؟ مجھے اب کسی کی پروا نہیں۔ اگر تم میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتیں، تو اپنے والدین کے ہاں جا سکتی ہو۔اس کے بعد وہ چند دن بمشکل خود پر جبر کر سکا، پھر اطلاع دیے بغیر گھر سے چلا گیا۔ 

اس بار تو سر صاحب نے بھی کہہ دیا کہ اب جو مرضی آئے، وہ کرے، میں کب تک اس کے پیچھے بھاگ سکتا ہوں؟فہیم  کے دل میں جو تھا، اس نے وہی کیا۔ اس نے رابعہ سے شادی کر لی۔ رابعہ کے والدین نے بھی میرا کوئی خیال نہ کیا اور بخوشی اپنی بیٹی سوتن بنا کر بیاہ دی۔ انہیں اپنی بیٹی کی خوشی میری خوشیوں سے زیادہ عزیز تھی، اور بھلا کیوں نہ ہوتی؟ جب میری ماں نے سگی خالہ ہو کر اپنی بھانجی کا کوئی خیال نہ کیا تو وہ کیوں کرتے؟اگر ہم بھی چند دن صبر کر لیتے تو ان کی صلح ہو ہی جاتی۔ امی نے بھی تو میرا نصیب جگانے میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ایسی جلد بازی کہ نصیب کے در کھلنے کے بجائے بند ہو گئے۔
 فہیم نے دوسری شادی کے چھ ماہ بعد مجھے طلاق بھجوا دی تاکہ میں اپنی نئی زندگی شروع کرنے کے لیے آزاد ہو جاؤں، مگر میں آزاد ہو کر بھی آزاد نہ ہو سکی اور دوسری شادی نہ کر سکی۔ اپنے بیٹے کی خاطر میں نے بارہ برس گزار دیے۔ فہیم ، رابعہ کے ساتھ بہت خوش اور مطمئن زندگی گزار رہا ہے۔ اجڑی تو میں، جو نہ اِدھر کی رہی، نہ اُدھر کی۔شاید اس کی وجہ رابعہ سے فہیم کی محبت کے علاوہ یہ بھی تھی کہ میں اپنے خاوند سے سات برس بڑی تھی اور لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ بے جوڑ شادی تھی۔