میں اور میرا بھائی ندیم ایک ساتھ پشاور یونیورسٹی میں پڑھتے تھے اور اپنی خالہ کے گھر پشاور میں ہی قیام پذیر تھے۔ انہی دنوں جبکہ موسم سرما کی چھٹیاں قریب تھیں، ندیم کے ایک دوست فخر کی شادی کا دعوت نامہ ملا۔ ان دنوں ہم ایسے دعوت ناموں کے منتظر رہا کرتے تھے کہ گھر سے دور رہنے کے باعث طبیعت اس قسم کی رونقوں کو ترستی تھی۔
فخر، ندیم بھائی کا بچپن کا دوست تھا، لہٰذا بھائی نے کہا کہ تم بھی میرے ساتھ چلنا چاہو تو اس کی شادی میں چلو، یہاں بور ہوتی رہو گی۔خوشی خوشی ہم نے تیاری باندھ لی اور روانہ ہو گئے۔ بس اسٹینڈ پر خالو ہم کو چھوڑنے آئے۔ ابھی ہم بس میں بیٹھے ہی تھے کہ خالہ کا فون آ گیا۔ وہ غسل خانے میں گر گئی تھیں اور کولہے کی ہڈی پر سخت چوٹ آئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر بس روانہ نہیں ہوئی تو انعم کو واپس لے آئو، مجھے اس کی ضرورت ہے۔ خالہ اکیلی تھیں۔ خالو نے جب مجھے اور ندیم کو اس معاملے سے آگاہ کیا تو میں نے مناسب یہی جانا کہ ندیم بھائی کے ساتھ شادی میں جانے کی بجائے خالو کے ساتھ واپس ان کے گھر چلی جائوں۔ شادی میں جانے سے زیادہ خالہ کی دیکھ بھال ضروری تھی۔ سو میں بس سے اتر گئی اور ندیم اکیلے ہی چلے گئے۔اس دن تھوڑی دیر کے لئے بس میں بیٹھی تھی تو میں نے دیکھا تھا کہ میرے برابر والی سیٹ پر ایک شادی شدہ جوڑے کے ساتھ ایک نوجوان لڑکی بھی بیٹھی ہوئی تھی جو کچھ افسردہ لگتی تھی، تب میں نے بھائی سے کہا تھا۔مجھے لگتا ہے یہ لڑکی کسی مصیبت میں ہے اور ان میاں بیوی کے ساتھ نہیں ہے جن کے برابر میں بیٹھی ہے۔ کیونکہ بار بار ادهر ادهر گهبرائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ تبھی ندیم نے کہا تھا۔ تم اس کی طرف مت دیکھو اور اپنے کام سے کام رکھو، اس کے بارے میں سوچنے کی ہم کو ضرورت نہیں ہے۔
ندیم بھائی سفر پر جا چکے تھے اور ان کو گئے دو روز بیت گئے تھے۔ میں تو سمجھ رہی تھی کہ وہ دوست کی شادی کو خوب انجوائے کر رہے ہیں لیکن جب چار روز گزر گئے اور ندیم بھائی نہیں لوٹے، نہ ہی ان کا فون آیا تو فکر ہوئی۔ خالو سے کہا ذرا گھر فون تو کریں کہیں بھائی امی سے ملنے تو نہیں چلے گئے۔ فون کیا۔ ندیم بھائی نے ہی اٹھایا۔ بولے میں شادی اٹینڈ ہی نہ کرسکا اور ادھر چلا آیا۔ کچھ معاملہ ایسا بن گیا تھا۔ آئوں گا تو بتاؤں گا۔ جب دو روز بعد پشاور پہنچے تو یہ حال دیا کہ انعم تم نے صحیح کہا تھا۔
وہ لڑکی جس کو تم نے مصیبت زدہ کہا تھا واقعی مصیبت میں تھی۔ میرے لئے وہ مصیبت بن گئی دوست کی شادی میں بھی نہ پہنچ پایا اور تھانے پہنچ گیا۔ کیسے بھیا یہ ذرا تفصیل سے بتائیے نا۔ میں نے تشویش زده بوکر پوچها جب بس چلنے لگی۔ میں نے اخبار کی ورق گردانی شروع کردی۔ کافی دیر بعد ایک گائوں کے اسٹاپ پر بس رکی تو وہ نیا شادی شدہ جوڑا وہاں اتر گیا۔ میں اخبار کا مطالعہ ختم کرکے گرد و پیش پر نظر دوڑائی تو وہ لڑکی بے چین نظر آئی۔ اپنے ساتھ بیٹھے مسافروں کے اتر جانے سے کافی بے آرامی محسوس کررہی تھی جیسے اس نے لاشعوری طور پر اس جوڑے کی پناہ لی ہوئی تھی اور ان کے اتر جانے سے غیر محفوظ ہوگئی تھی۔ ندیم بھائی نے مزید بتایا تھا کہ جونہی بس دوباره چلی، وہ لڑکی فوراً ہی اٹھی اور ان کے پہلو میں خالی سیٹ پر آکر بیٹھ گئی کہ جہاں میں پہلے تھوڑی دیر کو بیٹھ کر اتر گئی تھی۔ اس لڑکی نے اپنے اور میرے بھائی کے درمیان سیٹ پر اپنا چھوٹا سا بیگ رکھ لیا۔ یوں فاصلے کی ایک حد قائم کرکے اس نے میرے بھائی پر بھروسے کا خاموش اعلان کر ڈالا تھا۔
تمام مسافروں کا ایک نظر جائزہ لینے کے بعد اس کو بھی غالباً میرا بھائی بی ایک ایسا اجنبی نظر آیا کہ جس پر وہ دوران سفر بهروسا کرسکتی تھی سوچ رہی تھی کہ میرا بھائی تو يقيناً حیران رہ گیا ہوگا کہ اس لڑکی کو جگہ بدلنے اور اس کے برابر والی سیٹ پر آبیٹھنے کی کیا ضرورت پیش آگئی تهی بهلا وه ساده لوح دیہاتی لڑکا اس دم اکیلی سفر کرنے والی لڑکی کے اندرونی احساسات کو کیا سمجھ پاتا۔ شاید وہ گھر کے حالات سے تنگ آکر نکل بھاگی ہو اور اب اس بھری دنیا میں خود کو خطرات میں گھرا ہوا محسوس کررہی ہو۔
میرا بھائی بے شک ایک رحم دل انسان ہے تاہم اس نے اپنے پہلو میں پناہ کی متلاشی کی جانب حیرت سے ضرور دیکھا تھا۔ وہ ایک سترہ برس کی قبول صورت لڑکی تھی۔ ندیم کو اپنی جانب متوجہ پاکر از خود اس سے مخاطب ہوگئی۔ بولی کہ آپ کہاں جائیں گے؟ میں پنڈی جارہا ہوں۔ بھائی کا جواب سن کر وہ بجھ سی گئی۔ اس کی پریشانی کو بھانپ کر بھائی نے بھی سوال کردیا۔ آپ کہاں جارہی ہیں۔ اس نے بتایا کہ وہ لاہور اپنے ماموں کے گھر جارہی ہے۔ کیا تمہارے ساتھ کوئی نہیں ہے؟ ندیم کے اس سوال پر لڑکی نے نظریں جھکا لیں اور اس کو چپ سی لگ گئی۔ تبھی ندیم کو شک گزرا کہ کہیں یہ لڑکی گھر سے بھاگ کر تو نہیں آئی ہے۔ ابھی وہ اسی سوچ و بچار میں تھا کہ لڑکی نے ہاتھ جوڑ دئیے۔
وہ سمجھ گیا کہ یہ مجھ سے رحم مانگ رہی ہے اور مدد چاہ رہی ہے۔ بس مسافروں سے بھری ہوئی تھی لہذا وہ زبان سے اپنی مجبوری بیان کرنے سے قاصر تھی اور نہ حالات بتا سکتی تھی۔ ندیم کو اس کی اس حرکت سے پسینہ آگیا۔ وہ سوچ میں گم ہوگیا۔ تبھی ذہن کے دریچے ایک ایک کرکے کھلنے لگے، جو ہمدردی کے جذبات چند لمحوں پہلے ابھرے تھے وہ صابن کی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ ندیم بھائی نے سوچ لیا کہ میں اس لڑکی کے معاملے میں ہرگز نہ پڑوں گا، پرائی آگ میں کیوں جلوں؟ لیکن جب لڑکی کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے تو اپنی بہنوں کی صورتیں ندیم کی نظروں میں پھرنے لگیں۔ تب انہوں نے دوبارہ لڑکی کے چہرے پر ایک رحم بهری نگاہ ڈالی۔ دل میں ضمیر کی روشنی جل اٹھی۔ یہ ایسی روشنی تھی کہ جس میں نیکی اور بدی کے رستے صاف نظر آنے لگتے تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ انسانوں سے بھری بس میں اچھے اور برے سبھی طرح کے لوگ تھے لیکن اپنا کوئی نہ تھا۔
بس چلتی رہی کچھ دیر تک ندیم اور لڑکی دونوں ہی ایک اذیت بهری خاموشی کے سمندر میں غوطہ زن رہے۔
لڑکی تو نہ جانے کیا سوچ رہی تھی لیکن ندیم بھائی کو اس قسم کے سوالات تنگ کر رہے تھے کہ اگر یہ لڑکی غلط ہاتھوں میں پہنچ گئی تو اس کا کیا حشر ہوگا؟ آخر یہ اکیلی گھر سے نکلی ہی کیوں؟ کیا یہ سچ مچ ماموں کے گھر لاہور جارہی ہے یا جھوٹ بولا ہے اس نے۔ ابھی وہ انہی سوچوں میں گم تھا کہ لڑکی نے خوفزدہ اور مدہم آواز میں کہا۔ بهائی جان… کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ میرے ساتھ لاہور چلیں اور مجھے میرے ماموں کے گھر پہنچا دیں۔ مجھ کو اکیلے جانے سے ڈر لگ رہا ہے۔ اگر آپ پنڈی میں اتر گئے تو میں اکیلی رہ جائوں گی۔ لڑکی کی التجا میں کچھ ایسی تاثیر تھی کہ ندیم نے فیصلہ کرلیا کہ وہ دوست کی شادی میں جانے کی بجائے اس لڑکی کو لاہور اس کے ماموں کے گھر پہنچائے گا، جس نے اسے بھائی جان کہہ کر اس کی حمیت کو پکارا تھا۔ ہاں۔ میں چلوں گا تمہارے ساتھ اور تم کو بحفاظت تمہارے ماموں کے گھر پہنچا دوں گا۔ ڈرو نہیں، مطمئن اور پرسکون ہوجائو۔ بھائی نے پنڈی تک کا ٹکٹ لیا تھا۔ جب بس پنڈی اسٹاپ پر رکی، ندیم اثر کر تکث کائونٹر پر چلا گیا اور آگے لاہور تک کے ٹکٹ کی توسیع کی درخواست کی۔ کائونٹر پر اچھا آدمی بیٹھا تھا، اس نے اسی بس کا آگے لاہور کا ٹکٹ بنادیا۔
ٹکٹ بنوا کر ندیم دوباره اپنی سیٹ پر آبیٹھا اور مشروب اور کھانے کی کچھ اشیاء جو ریپر میں پیک تھیں، لڑکی کو لاکر دے دیں۔ میرے بھائی کو علم نہ تھا کہ بس میں موجود دو افراد گہری نظروں سے اس لڑکی اور ندیم کا مشاہدہ کرتے آرہے ہیں اور ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں حضرات ڈرائیور اور بس کنڈیکٹر تھے۔ پنڈی سے دوبارہ لاہور کا ٹکٹ کرانے پر انہوں نے نوٹ کرلیا تھا کہ اس مسافر نے اکیلی لڑکی سے کچھ گفتگو کے بعد اپنے سفر کو طول دیا ہے۔ تبھی وہ معنی خیز نظروں سے آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے۔
میرے بھائی کا دل مطمئن اور ضمیر صاف تھا۔ اس کو ان سے کوئی خوف محسوس نہ ہوا بلکہ ندیم نے ان کی جانب توجہ ہی نہ دی۔ وہ تو یہی سوچتا رہا کہ اچھا ہوا جو اس نے اس اکیلی لڑکی کا ساتھ دیا ہے ورنہ بس رات کو لاہور پہنچتی تو یہ کس قدر پریشان ہوتی۔ یہ کیسے ماموں کے گھر پہنچتی جو بس اڈے سے کافی دور تھا۔ بس کچھ لیٹ ہوگئی اور رات کے تقریباً ایک بجے یہ لاہور پہنچے۔ لاری اڈے تک آتے آتے مسافر رستے میں اترتے گئے۔ بس اب تقریباً خالی ہوچکی تھی۔ ڈرائیور نے اس کو لاری اڈے سے باہر ہی روک دیا اور ندیم بھائی کے پاس آکر کہنے لگا۔ او، مسٹر اب تم بهی اتر جائو … خالی بس کو ہم یہاں سے ہی گیراج لے جائیں گے۔ ندیم کو غصہ تو بہت آیا کیونکہ اڈے پر تو سواری مل جاتی ہے۔ بیچ رستے ، کسی رکشہ ٹیکسی کا اس وقت آسانی سے ملنا بھی مشکل تھا۔
گھاگ کنڈیکٹر بھانپ گیا۔ کہنے لگا۔ اڈا زیادہ دور نہیں ہے، پیدل چلے جائو گے آگے سواری مل جائے گی۔ تب ندیم نے لڑکی سے کہا۔ چلو اترو بہن۔ تم بھی اتر جائو۔ تب ڈرائیور اور کنڈیکٹر دونوں بولے۔ اس کو اترنے کا کیوں کہہ رہے ہو… یہ کیا لگتی ہے تمہاری؟ کیا یہ تمہارے ساتھ ہے؟ ہاں میرے ساتھ ہے۔ یہ تمہارے ساتھ نہیں ہے، ہم کو معلوم ہے۔ ہم نے اس کو مفت بس میں سفر کرایا ہے۔ اس کے پاس تو ٹکٹ کے بھی پیسے نہیں تھے۔ تم کیوں جھوٹ بول رہے ہو۔ جبکہ تم تو بعد میں بس پر چڑھے تھے۔ کیوں نہیں اترے گی یہ …؟ ندیم نے سوال کیا۔ تم کیوں روک رہے ہو اس کو ؟ میری تو یہ بہن جیسی ہے۔ تم بتائو کہ تمہاری کیا لگتی ہے؟ یہ سنتے ہی کنڈیکٹر نے بھائی کے گریبان میں ہاتھ ڈال دیا اور غنڈہ گردی کے انداز میں قریب آگیا۔ اس لئے نہیں جائے گی تیرے ساتھ بیرو، کہ اس پر پہلا حق ہمارا ہے۔ ہم اس کو یہاں تک بغیر ٹکٹ لائے ہیں۔ یہ لڑکی گھر سے بھاگ کر لاہور تک ہماری حفاظت میں آئی ہے۔ ہم نے تمام رستہ مفت میں تو اس کی نگرانی نہیں کی۔ اب تم اپنا رستہ ناپو، یہ ہمارا مال ہے۔ بھائی ندیم مجھے جب یہ سب بتا رہا تھا تو اس کا چہرہ غصے و غیرت سے سرخ ہوگیا تھا۔ مجھے لگا جیسے کہ میرے بھائی کا دماغ ہی نہیں، سارا وجود جل رہا ہے اور اب آگے اس قصے کو دہرانے کی اس میں ہمت نہیں ہے… تم نے پھر کیا کیا ندیم بھیا؟ میں نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا۔
کیا کرتا اکیلا تھا اور ایک غیر لڑکی ساتھ تھی۔ بس ہمت سے کام لیا اور کنڈیکٹر کا گریبان پکڑ کر پوری قوت سے کھینچ کر اس کو بس سے اتار لیا۔ میرے بھائی کی خوش قسمتی کہ اسی وقت چند مسافر اڈے سے اس طرف پیدل آنکلی۔ ان کو دیکھ کر ندیم کی ہمت ہوگئی اور اس نے اونچی آواز میں کنڈیکٹر اور ڈرائیور کو برا بھلا کہنا شروع کردیا تاکہ قریب آتے مسافر جو تعداد میں پانچ چھ کے قریب تھے۔ اس کی آواز پر متوجہ ہوکر اس جانب آجائیں اور ان کی مدد سے وہ اس بے بس لڑکی کو بس سے نیچے اتار لے جس کو انہوں نے ابھی تک اترنے ہی نہ دیا تھا۔ ڈر یہ بھی تھا کہ کہیں ڈرائیور بس چلاکر بھگالے جائے اور اس میں محبوس لڑکی اغوا ہوجائے۔ جونہی ندیم اور کنڈیکٹر کی ہاتھا پائی شروع ہوگئی، ڈرائیور بس سے نیچے اتر آیا کیونکہ ندیم طاقتور جبکہ کنڈیکٹر دبلا پتلا اور کم طاقتور تھا۔ڈرائیور نے لڑائی میں مداخلت کی اور کہا کہ او چھوکرے، آپے میں رہو… آخر تم لگتے کیا ہو اس لڑکی کے؟ جو تم کو اس کی اتنی فکر پڑ گئی ہے۔ میں جانتا ہوں تم اس کو اکیلی پاکر اس کے لئے پنڈی سے لاہور تک آگئے ہو۔ اب اگر اپنی خیر چاہتے ہو، خود کی راہ لو ورنہ بس چڑھا دوں گا تم پر … صبح تیری لاش کچلی ہوئی ملے گی۔
ندیم نے اس کی دھمکیوں کی پروا نہ کی اور چیخ چیخ کر مدد کے لئے پکارنے لگا۔ کچھ دوری پر گزرتے مسافروں کی توجہ بالآخر اس طرف مبذول ہوگئی اور وہ لوگ ان کی طرف دوڑ کر آپہنچے۔ وہ پوچھنے لگے کیا ہوا ہے۔ کیا ہوگیا ہے؟ یہ تم لوگ کیوں آدھی رات کو چلا رہے ہو۔ ان کے آجانے سے ندیم اور لڑکی دونوں کو ڈھارس ملی، تبھی لڑکی بس کے اندر سے چلائی بھائیو! بچالو مجھے بس سے باہر نکالو۔لوگ جب لڑکی کی طرف متوجہ ہوئے اس نے ہمت کی۔ وہ جو دیر سے سیٹ پر خوفزده سی بیٹھی ہوئی تھی، جلدی سے نیچے اتر آئی اور بھیڑ کو چیرتی ہوئی میرے بھائی کے پہلو میں آکر کھڑی ہوگئی جیسے واقعی وہ اس کی رشتہ دار ہو. پانچ چھ افراد کو مجمع پاکر ڈرائیور نے خود پینترا بدل لیا اور لوگوں کو بھائی ہی کے خلاف بھڑکانا شروع کردیا کہ یہ لڑکا اس لڑکی کو بھگا کر لے جارہا تھا۔ ہم نے اس کو شرم دلائی تو ہم ہی سے الجھ گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ لوگ ندیم کے خلاف بوکر اس کو مارنا پیٹنا شروع کردیتے۔ لڑکی نے کہا۔ بھائیوں یہ ڈرائیور اور کنڈیکٹر مجھے بس میں سے اترنے نہ دیتے تھے اور یہ مجھے اغوا کرنا چاہتے تھے۔ اس لڑکے نے مجھے بچانا چاہا ہے تب یہ اس کو مارنے پر آگئے ہیں۔ اگر آپ اس وقت نہ آتے تو نہ جانے کیا ہوتا۔
میرے بھائی کا ضمیر صاف تھا۔ کہا کہ قسم کھاتا ہوں کہ یہ لڑکی مجھ کو سگی بہنوں کی طرح ہے۔ بس لیٹ ہوجانے سے اکیلی گھر جانے سے خوفزدہ تھی۔ مجھ سے کہا کہ آپ مجھ کو گھر پہنچا دو۔ سواری یہاں نہیں مل سکتی تهى لہٰذا میں نے ہامی بھر لی۔ بس یہی سچ ہے آپ یقین کریں یا نہ کریں۔ میں نے سچ بتایا ہے جھوٹ کا سہارا نہیں لیا۔ چاہیں تو آپ لوگ بھی ساتھ چلیں۔ ہم اس لڑکی کو جہاں یہ کہتی ہے، ابھی پہنچا کر آجاتے ہیں۔ان لوگوں میں سے ایک نے کہا کہ اگر تم سچ ہو تو اپنا شناختی کارڈ ہم کو دکھا دو۔ بھائی نے شناختی کارڈ ان کو دکھایا۔ وہ مطمئن ہوگئے۔ ندیم نے مزید کہا کہ میرے پاس کالج کارڈ بھی ہے۔ آپ رکھ لیں۔ میں ایک ذمہ دار گھرانے کا فرد ہوں۔ ایسی ویسی حرکت نہیں کرسکتا۔
ہمارا کام تو لوگوں کی مدد کرنا ہے جو کچھ کر رہا ہوں ایک مسلمان کی حیثیت سے کر رہا ہوں۔ گھر میں اس لڑکی جیسی میری بھی بہنیں ہیں۔یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اب ڈر کی وجہ سے غلط بیانی کر رہا ہے۔ بھائی نے لوگوں کو سمجھایا مگر ان میں ایک دو ابھی تک گومگو میں تھے۔ ایک نے کہا کہ پولیس کے سپرد معاملہ کردیں، وہ خود دیکھ لیں گے کہ جھوٹ کیا ہے اور سچ کیا ہے۔ ندیم بھائی سے اور کچھ نہ بن پڑا تو کہا کہ ہاں بے شک لے چلیں مجھے اور اس لڑکی کو پولیس اسٹیشن لیکن میں ہرگز اس کو ان غنڈوں کے حوالے نہ کروں گا۔مجمع میں سے ایک شخص آگے بڑھا۔ اس بزرگ نے کہا کہ بیٹا۔ تمہارے لہجے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تمہارے ارادے نیک ہیں لیکن لڑکی کو اس وقت پولیس تھانے لے جانا درست بات نہیں۔
بالآخر یہ کسی گھرانے کی عزت ہے۔ بھیا کب یہ چاہتے تھے کہ لڑکی پولیس والوں کے ہتھے چڑھ جائے۔ کہا۔ ٹھیک ہے تو پھر یہ بس ڈرائیور ، کنڈیکٹر اور آپ میں سے دو ایک ساتھ چلئے… ہم سب مل کر چلتے ہیں اور لڑکی کو اس کے ماموں کے گھر پہنچا آتے ہیں جہاں کا پتا یہ بتا رہی ہے۔لوگ ندیم کی اس تجویز پر دور ہٹ گئے۔ کہنے لگے ہم کو اور بھی کام ہیں، ہم زیادہ اس معاملے میں نہیں الجھنا چاہتے ، کنڈیکٹر کو ساتھ لے جائیں تاکہ شک ان کا دور ہوجائے۔ ہم یہاں ڈرائیور کے ساتھ رکتے ہیں اور کنڈیکٹر کی واپسی کا انتظار کرتے ہیں۔ انہی لوگوں نے ایک ٹیکسی پکڑی، مجھے لڑکی اور کنڈیکٹر کو اس میں سوار کرا دیا اور ضمانت کے طور پر بس ڈرائیور کا شناختی کارڈ اپنے پاس رکھ لیا۔
ہم کو لڑکی کے بتائے پتے پر روانہ کردیا۔غرض یہ کہ اس روز جبکہ آدھی رات گزر چکی تهی ساری دنیا سو رہی تھی اور ندیم بھائی ایک نیکی کی خاطر زندگی دائو پر لگا کر لڑکی کے بتائے پتے پر جارہے تھے۔ جیسے ہی وہ اس پتے پر پہنچے ، لڑکی نے گھر پہچان لیا۔ کال بیل دی۔ کچھ دیر بعد ایک ادھیڑ عمر شخص نے در کھولا … اپنی بھانجی کو دو اجنبی مردوں کے ساتھ آدھی رات کے وقت دیکھا تو اس کا پسینہ بہہ نکلا۔ لڑکی تو چھپاک سے گھر کے اندر چلی گئی اور ماموں حال جاننے کے لئے وہاں ہی دروازے پر ٹھہر گیا۔ندیم بھائی نے ان بس والوں کے برے ارادوں پر پانی پھیر دیا تھا تبھی کنڈیکٹر اندر ہی اندر کھول رہا تھا۔ اس نے جھٹ پھر سے لڑکی کے ماموں کے سامنے غلطی بیانی شروع کردی اور ماموں موصوف بھی بغیر ساری حقیقت جانے ندیم بھائی پر غرانے لگے۔ کہا کہ اگر یہ شریف بس کنڈیکٹر میری لڑکی کی مدد نہ کرتا تو تم نہ جائے اس کو یہاں لانے کی بجائے کہاں لے جاتے ؟ ندیم بھائی بے چارے خجل، ان کا دل خون ہوگیا کہ نیکی کرکے پھنس گئے تھے کیونکہ اس نے ڈرائیور اور کنڈیکٹر کے دال نہ گلنے دی تھی۔
بہرحال اتنا تو ان کو معلوم ہوگیا کہ لڑکی سوتیلی ماں کے سلوک سے دلبرداشتہ ہوکر بھاگی تھی اور اس کے ماموں کو بھی اس امر کا علم تھا کہ اس کی ماں کا سلوک بچی سے بہت برا ہے۔ وہ پہلے بھی ایک بار گھر چھوڑ کر پڑوس میں جا چھپی تھی اور ان لوگوں نے اطلاع فون پر اس کے ماموں کو دی تھی۔ جب اس افسردہ لڑکی کا قصہ ندیم بھائی سے مجھ کو معلوم ہوا تو بہت دکھ ہوا تھا کہ والدین خاص طور پر ان بچوں کا خیال کیوں نہ کرتے جن کی مائیں وفات پاجاتی ہیں۔ تب اگر سوتیلی ماں کے سخت سلوک سے دلبرداشتہ لڑکی گھر چھوڑ دے اور لوگ اس کو بدکردار بدچلن یا گھر سے بھاگی ہوئی سمجھ لیں اور کوئی اس کی مدد نہ کرے تو اس سفاک دنیا میں ایسی نادان کا کیا حشرہوتا ہوگا۔
(ختم شد)