شوہر کا انتظار


شادی کے تین سال اس طرح گزرے کہ پتا بھی نہ چلا اور میں دو بچوں کی ماں بن گئی۔ اب اماں کو ماہم کی فکر ہوئی۔ میرے بڑے بھائی بینک میں ملازمت کرتے تھے۔ اسی بینک میں ہمارے ایک دور کے کزن ہمایوں کا تبادلہ ہوا۔ یوں اس سے بھائی کی دوستی ہو گئی۔ انہوں نے ذکر کیا کہ ان کا چھوٹا بھائی ملازمت کی تلاش میں ہے۔ بھائی منیر احمد چونکہ بینک میں اچھے عہدے پر تھے ، انہوں نے ہمایوں کے چھوٹے بھائی منیب کو اسٹور کیپر لگوا دیا کیونکہ اس کی تعلیم واجبی سی تھی۔ ہمایوں نے منیب کے بارے میں بتایا یہ بیمار رہا تھا، اس لئے ایف اے سے آگے نہ پڑھ سکا۔ اب پرائیویٹ گریجویشن کرلے گا تو اچھی نوکری پر لگ جائے گا۔

 ایک دن ان کی والدہ نے منیب کے لئے ماہم کارشتہ مانگ لیا۔ ہمارے والد حیات نہ تھے، گھر کے سربراہ بڑے بھائی تھے ، لہذا انہوں نے بہن بھائیوں سے مشورہ کیا، پھر ماہم سے بھی پوچھا۔ اس نے رشتے پر رضامندی ظاہر کر دی کیونکہ منیب ایک خوبصورت نوجوان تھا اور قد کاٹھ بھی کھلاڑیوں جیسا تھا۔ وہ ایک متاثر کرنے والی شخصیت کا مالک تھا۔ اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آرہی تھی ، سوائے اس کے کہ کم تعلیم یافتہ تھا۔ سوچا کہ جب گریجویشن کر لے گا تو بھائی اسے بینک میں اچھی پوسٹ پر لگوا دیں گے۔ 

جب میں نے اپنے شوہر کو اس معاملے سے آگاہ کیا، تو انہوں نے بر ملا ناراضی کا اظہار کیا اور بولے۔ مناہل ! یہ کیا پاگل پن ہے ؟ کہاں ماہم کہاں منیب ؟ ایک تو لڑکے کی تعلیم کم، پھر وہ لڑکی سے بارہ برس بڑے ہیں۔

 ماہم کی شادی، منیب سے ہو گئی۔ ماہم بھی میری طرح صابر اور خدمت گزار لڑکی تھی۔ والدہ نے ہمیں یہی تربیت دی تھی کہ سسرال میں صبر و اخلاق سے گھل مل کر رہنا اور شوہر کی عزت کرنا، اپنے رفیق حیات کا ہر طرح سے خیال رکھنا، کیونکہ گھر بنائے رکھنے کے لئے کچھ نہ کچھ قربانی دینی پڑتی ہے۔ ان نصیحتوں کو گرہ میں باندھ کر ماہم سسرال گئی اور وہاں رچ بس گئی۔ منیب نے شادی کے لئے چند دن کی چھٹیاں لی تھیں ۔ دلہن کو گھمایا پھرایا۔ چونکہ شادی کے اخراجات کے لئے کچھ رقم ادھار لی تھی، لہذا جلد ہی دوبارہ ڈیوٹی جوائن کر لی اور ماہم گھر داری میں لگ گئی۔ایک دن میں جب میکے پہنچی، تو پتا چلا کہ منیب نے بینک کی نوکری چھوڑ دی ہے۔ اب وہ کسی دوست کے ساتھ کا کاروبار کر رہے ہیں۔

 ماہم سے فون پر بات ہوئی تو کی تو اس نے بھی تصدیق کر دی۔ کچھ ہی دنوں بعد یہ منحوس خبر ملی کہ ماہم کے گھر ڈاکہ پڑ گیا ہے۔ میں نے یہ بری خبر اپنے میاں کو سنائی تو وہ فوراً اس کے گھر چلنے کو تیار ہو گئے ، تا کہ حقیقت کا پتا لگائیں۔ معلوم ہوا، دس بجے منیب گھر سے شوروم گئے۔ ان کے بڑے بھائی ، ہمایوں پہلے ہی بینک جا چکے تھے۔ منیب کے جانے کے آدھ گھنٹے بعد بیل بجی تو ان کی والدہ نے دروازہ کھولا۔ تبھی چار افراد نقاب چڑھائے اندر گھسے اور ہتھیار نکال کر خواتین کو واش روم میں دھکیل کر باہر سے کنڈی لگا دی اور دهمکی دی کہ اگر چلائیں تو شوٹ کر دیں گے۔ لٹیروں نے گھر کا تمام قیمتی سامان، زیورات ، نقدی، حتی که صوفہ سیٹ تک اٹھا لیا اور سب کچھ لوٹ کر لے گئے۔

 کافی دیر بعد محلے والوں نے دیکھا کہ گیٹ پورا کھلا ہوا ہے اور کوئی نظر نہیں آرہا، تو چند لوگ اندر آ گئے اور واش روم سے آوازیں سن کر گھر کی خواتین کو آزاد کیا۔ بقول محلے والوں کے ، وہ یہ سمجھے تھے کہ شاید گھر تبدیل کیا جا رہا ہے، اسی لئے ٹرک میں سامان لادا جا رہا ہے ، بہر حال جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ واردات کے تھوڑی دیر بعد منیب آ پہنچے۔ اُدھر ان کے بڑے بھائی کو اطلاع مل چکی تھی۔ وہ بھی آ گئے۔ بہت واویلا مچا، مگر منیب نے پولیس میں رپورٹ نہیں کروائی کہ کون پولیس کے چکروں میں پڑ کر خوار ہو ، لہذا انہوں نے بات ہائے افسوس پر ختم کر دی حالانکہ ڈاکو اتنا قیمتی سامان لے گئے تھے۔ 

چند دنوں بعد ہمایوں بھائی اپنے بیوی بچوں اور والدہ کو لے کر الگ گھر میں رہائش پذیر ہو گئے اور منیب نے علیحدہ فلیٹ گھر کرایے پر لے لیا۔ بہت دن گزر گئے، کسی کو کسی کی خبر نہ تھی۔ لے دے کر ایک ٹیلی فون کا سہارا تھا ، جس پر کبھی کبھار گفتگو ہو جاتی تھی۔ ایک دن اطلاع ملی کہ منیب کی پارٹنر شپ ختم ہو گئی ہے اور جو پیسہ ملا اس سے انہوں نے کراچی سے آگے کسی مقام پر زمین خرید لی ہے اور اب زمینوں کے لین دین کا کاروبار کر رہے ہیں۔ اب ہفتوں گھر سے غائب رہنا وطیرہ بن گیا تھا پھر ہفتے مہینوں میں تبدیل ہونے لگے اور منیب میاں گھر سے غائب رہنے لگے ۔ معصوم بچے باپ کی شکل کو ترس گئے۔

وہ دن مجھے آج تک یاد ہے ، جب میں اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ ماہم سے ملنے اس کے گھر گئی میں نے منیب کے بارے میں پوچھا تو بولی۔ وہ آٹھ ، دس دن بعد آتے ہیں اور ایک دن رک کر چلے جاتے ہیں، پھر مہینہ بھر کو غائب ہو جاتے ہیں۔ جب آتے ہیں خالی جیب ہوتے ہیں۔ خرچے کو دینے کے لئے ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے۔ کل سے میری بچی بھوکی ہے ، دودھ کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ وہ افسردگی سے بولی۔ تم ان سے کہتی نہیں ہو کہ کچھ تو بچوں کا خیال کریں؟ کہتی ہوں، مگر جواب میں بس تسلیاں دیتے ہیں کہ گھبراؤ نہیں ، بہت جلد پیسے ملنے والے ہیں۔ بس چند دن اور صبر کر لو ، وقت بدلنے والا ہے۔ مگر صبرسے بچوں کا پیٹ تو نہیں بھر تا ! میں کہتی ہوں۔ آپ تو گھر سے غائب رہتے ہیں میں اکیلی عورت ذات کیا کروں۔ یہ سب میں تمہارے اور بچوں ہی کے لئے تو کر رہا ہوں۔

 بہن کو روتے دیکھ مجھے بہت دکھ ہوا۔ فوراً بچی کے لئے دودھ منگوایا اور میرے شوہر نے کچھ رقم دی کہ بہن کو دے دو، چند دن تو خرچ کر لے گی، باقی بعد میں دیکھیں گے۔ خرچے کی رقم دے کر میں وہاں سے دکھ کا ایک طوفان لے کر واپس چلی آئی۔ چند دنوں بعد کسی نہ کسی طرح یہ بات میرے بھائیوں کو بھی پتا چل گئی کہ ہماری بہن فاقے جھیل رہی ہے۔ وہ بیچارے خود بیوی بچوں والے تھے ، مگر بہن کا معاملہ تھا، لہذا کبھی چوری چھپے اور کبھی کھلم کھلا امداد کرتے رہتے جب کہ منیب کو غائب ہوئے چار ماہ ہو چکے تھے۔ مالک مکان بھی کب تک چپ رہتا۔ اس نے کرایہ مانگنا شروع کر دیا۔
 اسی دوران ڈھونڈتے ڈھانڈ تے دو افراد فلیٹ پر آ دھمکے اور منیب احمد کے بارے میں پوچھا۔ مالک مکان سے کہا کہ اس نے ہمارے پانچ لاکھ اور اس پر سود بھی ادا کرنا ہے۔ بے چارے مالک مکان نے سمجھا بجھا کر کسی طرح ان کو چلتا کیا کہ منیب گھر میں موجود نہیں۔ اس کے بیوی بچے ہیں۔ تم فون نمبر دے جاؤ، جو نہی وہ آئے گا میں تم کو اطلاع کر دوں گا۔ دو روز گزرے تھے کہ دو پڑھے لکھے شریف آدمی آ گئے۔ کہا کہ منیب نے ہم سے گاڑیوں کا سودا کیا تھتا ، نہ گاڑیاں دیں اور نہ رقم لوٹائی۔ وہ دروازے پر کھڑے احتجاج کر رہے تھے۔ عجب صورت حال تھی۔ ماہم بے چاری نے گھبرا کر بھائیوں کو فون کیا۔ بھائی فوراً ماہم کے گھر روانہ ہو گئے۔ ان کے پہنچتے ہی تین بندے اور آ گئے ، وہ بھی پانچ لاکھ کا تقاضہ کر رہے تھے جو منیب نے ان سے قرض لئے تھے۔ چونکہ مالک مکان نیچے رہتا تھا، لہذا وہ بھی باہر آ گیا۔ اس نے کہا۔ بھائیوں میں اس مکان کا مالک ہوں اور اوپر کا پورشن میں نے منیب کو کرایے پر دیا ہوا ہے۔ اس نے مجھے بھی پانچ ماہ کا کرایہ ابھی تک نہیں دیا ہے-

جو ایڈوانس دیا تھا، وہ کرایے میں کٹ گیا ہے۔ میں بھی اس کے آنے کا انتظار کر رہا ہوں۔ اس کی بیوی اور چھوٹے بچے گھر میں ہیں ، اُن سے کیسے گھر خالی کرواؤں، جب تک وہ خود نہیں آجاتا۔ اب ہر ایک کے سامنے بھائی پیش ہوئے۔ میرے بھائیوں کی جو بے عزتی اور رسوائی ہوئی ، اس باعث ماہم اور زیادہ پریشان ہو گئی۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ خود کشی کرے اور اس ذلت بھری زندگی سے محبات پالے، مگر بچوں کا ساتھ تھا۔ منیب سے شادی اس نے گھر سے بھاگ کر نہ کی تھی، بھائیوں نے خود کروائی تھی، تو اب دکھ سکھ کے بھی وہی ذمہ دار تھے۔ فوری طور پر گھر کا تمام اثاثہ نیلام کر کے، کچھ کو گارنٹی، کچھ کو نقد رقم دے کر بھائیوں نے جان چھڑائی اور ماہم کو بچوں سمیت گھر لے آئے

میرے بھائیوں نے اس کے جیٹھ ہمایوں سے رابطہ کیا، اُن کی والدہ سے بھی بات کی۔ ہمایوں بولے ۔ ہمارے لئے تو منیب میاں اسی دن مر گئے تھے ، جس دن وہ بینک کا قرضہ لے کر نوکری سے بھاگے تھے۔ نجانے کس کس طرح سے میں نے وہ قرضہ ادا کر کے اپنی نوکری بچائی ہے۔ 
دن پر دن گزرتے گئے ، میری بہن کی آنکھیں دھندلا گئیں۔ اس کی اتری ہوئی صورت اور بچوں کی بھوک پیاس کا درد محسوس کرتے ہوئے ہم نے اندرون سندھ اور جہاں جہاں ان کا تعلق تھا، ہر جگہ پتا کیا مگر منیب کا کہیں سے سراغ نہ ملا۔ اسی طرح ماہم کو شوہر کا انتظار کرتے بارہ برس بیت گئے۔ بچے سیانے ہو گئے ۔ گاہے بگاہے تینوں اپنے باپ کے بارے ماں خالہ ، ماموؤں ، ممانیوں سے سوال کرتے ، سب دکھی ہو جاتے۔ ماہم تو خون کے آنسو روتی کہ مرنے والے کا صبر آ جاتا ہے، مگر لاپتا کا صبر نہیں آتا۔ وہ اسی آس میں جیتی تھی کہ شاید کبھی اس کے بچوں کا باپ لوٹ کر آجائے۔ وقت اچھا ہو یا برا، گزرتا رہتا ہے۔ ماہم کا خرچ بھائیوں نے اٹھایا۔ بچے بھی جوں توں پل کر جوان ہو گئے۔ 

بڑا بیٹا جنید ہو نہار نکلا۔ اس نے ٹاپ کیا اور اسکالر شپ پر برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے چلا گیا۔ میرے بھائی خوشحال تھے، ماہم کا ساتھ دیتے رہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جنید کو برطانیہ میں ہی اچھی جاب مل گئی۔ چھ سال بعد وہ اس قابل ہو گیا کہ اپنی ماں کو وزٹ ویزے پر بلوا سکے۔ اس طرح ماہم بیٹے سے ملنے لندن چلی گئی۔ 

ایک روز وہ جنید کے ساتھ کسی شاپنگ مال میں گئی اور وہاں منیب کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ وہ اپنے دو بچوں اور انگریز بیوی کے ساتھ شاپنگ کر رہا تھا۔ منیب نے بھی اسے دیکھا اور نظریں چرا لیں۔ میری بہن کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس نے بھی شوہر سے منہ پھیر لیا، تبھی جنید کی نظر ماں کی بھیگی پلکوں پر پڑی، پوچھا۔ کیوں رورہی ہیں ؟ تب اس نے کوئی بہانہ بنا دیا۔ گھر آ کر وہ بہت دنوں تک ڈسٹرب رہی، مگر اس نے جنید کو نہیں بتایا کہ تمہارے باپ کو تیس سال بعد دیکھا تو آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔ جنید کو باپ سے ملا کر کرتی بھی کیا ؟ وہ پہچاننے سے انکار کر دیتا تو ؟ ایک اور دکھ اس کے دل پر آ گرتا، البتہ یہ اچھا ہوا کہ اُسے دیکھ لیا۔ برسوں کی آس تو ٹوٹی، آس تھی تو سانس لینا محال تھا۔ اب ایک بار ماتم کر کے صبر تو آ گیا۔ بچوں کو نہیں بتایا کہ تمہارا باپ زندہ ہے اور اپنی زندگی جی رہا ہے کیونکہ منیب کی زندگی میں ان بچوں کی جگہ تھی ہی نہیں۔
اس کی بقیہ زندگی بھی گزر ہی گئی۔ بچوں کی شادیاں ہو گئیں تو وہ ان کے بچوں میں کھو گئی۔ ہمارے ملک میں ایسی ہزاروں خواتین ہوں گی، جو ماہم کی طرح پردیس گئے شوہروں کے انتظار میں عمریں گزارتی رہتی ہیں۔ وہ خوش نصیب جن کے شوہر اپنے بچوں کا مستقبل بنانے پردیس کاٹ کر لوٹ آتے ہیں اور وہ بد نصیب جن کے شوہر منیب جیسے ہوں، جب چلے جاتے ہیں تو بیوی بچوں کو فراموش کر دیتے ہیں۔ بے شک والد پر اولاد کے حقوق اور اولاد پر والدین کے حقوق ہوتے ہیں دونوں میں سے کوئی ایک بھی اگر یہ حقوق پورے نہ کر سکے تو معاشرہ ہل جاتا ہے۔