میں اپنے شفیق استاد ظاہر صاحب کو روحانی باپ کا درجہ دیتی تھی، انہیں عظیم سمجھتی تھی۔ دل سے احترام کرتی تھی کہ وہ مجھے فری ٹیوشن پڑھاتے رہے تھے لیکن پھر ان کی شخصیت کا ایک ایسا پہلو سامنے آگیا کہ ان کی عظمت کا بھرم باقی نہ رہا۔
یقین کی شکست کا صدمہ مجھے تار تار کر گیا اور حالات ایسے موڑ پر لے آئے کہ جہاں آگے ذلت کے سوا کچھ نہ تھا۔ سنا تھا کہ اساتذہ ماں، باپ کی جگہ ہوتے ہیں، آج زمانہ بدل گیا ہے ۔ ہر کسی پر بھروسہ کرنا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔ میرا خیال یہی ہے کہ استاد، شاگرد پر میلی نظر ڈال سکتے ہیں۔ کسی وجہ سے مجھے کالج کو عارضی طور پر خیر باد کہنا پڑا تو بہتر مستقبل کی خاطر ایک انسٹی ٹیوٹ میں آئی کہ کسی صورت مستقبل سنوارنا ہے اور والدین کا سہارا بننا ہے۔ مذکورہ ادارے کی بہت شہرت تھی۔ مہنگائی کے اس دور میں گھر سے دور روزانہ کا سفر طے کر کے تعلیم حاصل کرنا اور ہر ماہ بھاری ٹیوشن فیس کی ادائیگی ہم جیسے سفید پوش لوگوں کیلئے ایک امتحان ہی تو تھا لیکن اس کے سوا چارہ نہ تھا۔
والدین کے پاس مجھے اعلیٰ اداروں میں تعلیم دلوانے کو بھاری رقم نہ تھی۔ انہوں نے بڑے پاپڑ بیل کر داخلہ فیس کا بندوبست کیا اور انہی واقف کار پروفیسر صاحب کی سفارش سے بہت دقتوں کے بعد اچھے ادارے میں داخلہ مل گیا۔ میں خود کو ایک خوش قسمت ترین لڑکی سمجھنے لگی جو غربت کی ظلمت سے نکل کر کامیابی کے زینے کی پہلی سیڑھی طے کرنے جارہی تھی۔ میری کلاس کے جو استاد تھے ،ان کے بھی نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ یہ تھے سر ظاہر صاحب اور میڈم مہناز۔
یہ محترمہ چالیس بیالیس کے سن کی تھیں جبکہ موصوف خود پچاس برس کے قریب ہوں گے۔ خوشحالی کے باعث دونوں اپنی عمروں سے کم نظر آتے تھے۔ جلد ہی بزرگوار ظاہر صاحب اور میڈم مہناز کی دوستی منگنی کے رشتے میں بدل گئی۔ مجبوری کے سبب ان کی شادی میں ایک سال کی تاخیر ہو گئی۔ پروفیسر ظاہر صاحب کی ایک عزیزہ میری کلاس فیلو تھی۔ میری اس سے دوستی تھی، وہی ان کے بارے خبریں دیا کرتی تھی۔ اس لڑکی کا نام رمشا تھا۔ ایک بار اس نے بتایا کہ سر ظاہر تم کو بہت پسند کرتے ہیں۔ وہ ہمارے گھر آتے ہیں تو تمہارا بہت ذکر کرتے ہیں۔ مجھ سے بھی تمہارے بارے میں پوچھتے ہیں۔ لگتا ہے تم سے عشق ہو گیا ہے۔ میرا امیج جو اپنے محترم استاد کے بارے تھا، متزلزل ہوتا گیا۔
سر ظاہر صاحب سے میں نے کلاس میں سوال پوچھنا اور بولنا چھوڑ دیا۔ گم صم بیٹھی رہتی، شاید ظاہر صاحب نے محسوس کر لیا کہ میں کسی ذہنی الجھن میں ہوں۔ وہ میری جانب توجہ کرنے لگے کیونکہ پہلے کلاس میں سب سے زیادہ سوال میں ہی کرتی تھی۔ انہوں نے مجھے آفس میں بلایا اور وجہ دریافت کی۔ میں نے بتادیا کہ آپ مصروف ہوتے ہیں اور کچھ سوال مجھے سمجھ نہیں آرہے۔
گھر میں بھی پڑھائی میں مدد دینے والا کوئی نہیں، ٹیوشن نہیں رکھ سکتی۔ کیا کروں اچھے نمبر لا نمبر لانا چاہتی ہوں۔ بولے ، آپ کو جب پڑھائی میں کو کوئی پرابلم ہو ، آفس آکر سمجھ جایا کریں، میں توجہ دوں گا۔ اب آپ کو شکایت نہ ہو گی۔ اس کے بعد وہ میری جانب خصوصی توجہ کرنے لگے ۔ ایک روزان کی عزیزہ رمشا نے بتایا کہ مہناز اور سر ظاہر کے درمیان جھگڑا رہنے لگا ہے اور اس کی وجہ تم ہو۔ میں وجہ ہوں ؟ حیران رہ گئی۔ کیسے ؟ یہ تو نہیں بتا سکتی مگر ان کی منگنی ٹوٹنے کا خطرہ ہے۔ اس عمر میں منگنی ہونا ہی ایک معجزہ تھا اور پھر اس کا ٹوٹ جانا بہت افسوسناک بات تھی لیکن وہی ہوا جور مشا نے بتایا تھا۔
خبر اڑ گئی کہ پروفیسر ظاہر صاحب اور میڈم مہناز کی منگنی ٹوٹ گئی ہے۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ اتنی گہری لگاوٹ کہ یہ گھنٹوں منگیتر سے باتیں کرتے تھے اور اب منگنی ٹوٹ گئی ہے۔ ایک روزر مشا سے پوچھا۔ تم کو قسم ہے سچ بتادو کہ منگنی کیوں ٹوٹی ہے ؟ وہ بولی۔ جب سے تم کو پسند کرنے لگے ہیں، ان کو مہناز میں کشش نظر نہ آتی تھی۔ اس کا اظہار بھی انہوں نے میڈم سے کر دیا کہ وہ تم کو پسند کرنے لگے ہیں اور ان کے ساتھ شادی سے معذرت خواہ ہیں۔
یہ بات تو میں نے محسوس کر لی تھی کہ وہ مجھ میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان کے انداز سے ، ڈھکے چھپکے الفاظ اور ذو معنی جملوں سے۔ میں کوئی چھوٹی بچی نہ تھی کہ اشاروں کی زبان نہ سمجھ پاتی۔ انقلاب اس وقت آیا جب میڈم مہناز نے منفی رویہ دکھانا شروع کر دیا۔ اب وہ مجھ سے ٹھیک طرح بات نہ کرتیں۔ رمشا کے سامنے بھی انہوں نے میری بے عزتی شروع کر دی کہ گلاب کی وجہ سے میری منگنی ٹوٹی ہے۔
یہ بات تو میں نے محسوس کر لی تھی کہ وہ مجھ میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان کے انداز سے ، ڈھکے چھپکے الفاظ اور ذو معنی جملوں سے۔ میں کوئی چھوٹی بچی نہ تھی کہ اشاروں کی زبان نہ سمجھ پاتی۔ انقلاب اس وقت آیا جب میڈم مہناز نے منفی رویہ دکھانا شروع کر دیا۔ اب وہ مجھ سے ٹھیک طرح بات نہ کرتیں۔ رمشا کے سامنے بھی انہوں نے میری بے عزتی شروع کر دی کہ گلاب کی وجہ سے میری منگنی ٹوٹی ہے۔
اس سارے معاملے کا مجھ کو علم ہی نہ تھا کہ کب سر ظاہر اور مہناز میڈم کا جھگڑا ہوا اور وجہ میں بنی … کب انہوں نے ایک دوسرے سے کنارہ کر لیا، شاید کہ خود سر نے ہی اپنی منگیتر کو یہ باور کرایا تھا کہ وہ ان کی بجائے مجھ سے شادی کے خواہاں ہیں حالانکہ میری اور ان کی عمر میں بہت فرق تھا اور ہمارے درمیان ایسی کوئی انڈراسٹینڈنگ بھی نہ ہوئی تھی۔ مجھے گمان ہوا کہ سر نے اپنی منگیتر کے دل میں اپنی اہمیت زیادہ کرنے کو یہ شوشا چھوڑا ہے کیونکہ اکثر مردوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ منگیتر یا بیوی سے کہتے ہیں کہ فلاں مجھ پر مرتی ہے۔
مزید پڑھیں |
وہ تو فرشتہ صفت مشہور تھیں مگر اندر ہی اندر کون سا احساس محرومی تھا جس کی وجہ سے اب وہ مجھ سے بد ترین سلوک کرنے لگی تھیں۔ ان کے اس رویئے سے میرے دل و ذہن زخمی رہنے لگے اور پڑھائی پر اثر پڑا۔ یہ میری سالگرہ کا دن تھا، ہم جماعتوں کے اصرار پر بڑا سا کیک لائی تھی۔ جب میڈم کی طرف کیک لے کر گئی، انہوں نے مجھے پرے دھکیل دیا اور میرا ہا تھ جھٹک دیا۔ وہاں اسٹوڈنٹس موجود تھے۔ میرے دل کو دھچکا لگا۔
ساری کلاس کے سامنے مجھ سے اپنی سبکی نہ سہی گئی مگر آنا کا بھرم رکھنے کو یہ تکلیف نگل گئی، آنسوپی لئے۔ سر ظاہر کی طرف دیکھا مگر وہ خاموش رہے۔ ظاہر ہے ان کو اپنی عزت اور محبت مجھ سے زیادہ عزیز تھی۔ انہوں نے اسٹوڈنٹس کے جانے کے بعد اکیلے میں بھی میڈم مہناز کو ان کی اس بد تمیزی پر سر زنش نہ کی۔ ایک لفظ نہ کہا۔ میر ادل ٹوٹ گیا، رونے لگی۔ دونوں نے مجھے چپ نہ کرایا اور کلاس روم میں روتا چھوڑ کر ایک ساتھ اٹھ کر باہر چلے گئے۔ کافی دیر تک اکیلی ہی گم صم بیٹھی رہی۔
اس واقعہ کے کچھ دنوں بعد پروفیسر صاحب نے مجھے بلا کر کہا۔ گلناب، میں اس ادارے کو تمہاری وجہ سے چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ بہتر ہے کہ تم بھی چھوڑ دو۔ میں تمہارا داخلہ کسی اچھے اور ادارے میں کرادوں گا۔ استاد کے وعدے پر بھروسہ کر کے میں نے ادارے کو خیر باد ر باد کہہ دیا۔ وہ بھی کچھ دن نہ گئے لیکن پھر انہوں نے دوبارہ جانا شروع کر دیا۔ مجھے رمشا نے فون کر کے بتایا تو حیران رہ گئی کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ سر کو فون کیا۔ انہوں نے صاف بات نہیں کہی، ٹال مٹول سے کام لیا۔ مجھے یہ حقیقت بعد میں معلوم ہوئی کہ مہناز نے شرط رکھی تھی کہ گلناب اس ادارے کو چھوڑ دے، تبھی وہ پروفیسر صاحب سے صلح کرے گی ورنہ پروفیسر ظاہر کو بھی یہاں کی ملازمت چھوڑنی ہوگی۔
اپنی ملازمت اور محبت دونوں کو بچانے کیلئے سر نے میری قربانی دی اور میرا مستقبل تاریک کر دیا۔ سالانہ امتحان میں صرف چھ ماہ باقی تھے کہ میں بے منزل ہو گئی۔ سچ ہے عورت کتنی بھی پڑھ لکھ جائے، وہ حسد کی آگ سے اپنے دل کا دامن نہیں بچا سکتی۔ شک و شبہ تو ویسے بھی محبت کے تاج محل کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔ مجھے گمان بھی نہ تھا کہ سر ظاہر جھوٹ بول کر مجھے دھوکا دے رہے ہیں۔ وہ اس وجہ سے مجھ سے انسٹی ٹیوٹ چھڑوانا چاہتے ہیں کہ ان کی منگیتر میرا ان کی نظروں کے سامنے ہونا برداشت نہیں کر سکتی۔ کچھ دن صدمے میں رہنے کے بعد ایک روز موصوف سے رابطہ کیا کیونکہ پڑھائی کا حرج ہو رہا تھا۔ انہوں نے کوئی واضح بات نہ کی۔ ان کا وعدہ یاد دلایا، خاموش رہے۔
مزید پڑھیں |
میں نے غصے کا اظہار کیا تب بھی ڈانٹا اور نہ معاملے کی وضاحت کر کے سکون دلانے کی کوشش کی، فون رکھ دیا۔ سمجھ گئی کہ میرے دونوں استادوں نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے۔ پروفیسر صاحب نے جھوٹی تسلی دے کر اور میڈم نے ادارے سے نکلوا کر میری تعلیم اور صلاحیتوں کا نقصان کیا۔ دونوں نے ہی بے رخی اختیار کر لی اور میں احساس کمتری کے گڑھے میں گرتی چلی گئی۔ بہت زیادہ دکھی تھی۔ میرا کیریئر اور قیمتی سال بر باد ہو چکا تھا۔
میرے بابا جان کے ایک دوست ان کی عیادت کو آئے کیونکہ والد کافی بیمار تھے ، بستر پر پڑے تھے۔ ان مہربان دوست نے ہمارا حال دیکھ کر میری تعلیم کے بارے میں پوچھا۔ میں نے ” من و عن سب کچھ ان کو بتا دیا۔ انہوں نے ہماری مدد کی۔ مجھے داخلہ دلوایا، داخلہ فیس بھری، سال کا تعلیمی خرچادیا اور میں نے اپنی لگن سے تعلیم کو پورا کیا۔ رزلٹ آیا۔ میں نے ٹاپ کیا تھا۔ مجھے فوراً بہت اچھی ملازمت مل گئی۔ دیکھتے دیکھتے ترقی کر کے میں اعلیٰ افسران کی فہرست میں آگئی اور پھر خدا نے ایک دن اس قابل کر دیا کہ میں نے اپنا انسٹی ٹیوٹ کھول لیا۔ آج میرا تعلیمی ادارہ ٹاپ پر جارہا ہے، ساکھ ہے ، عزت ہے
میں آج بھی سوچتی ہوں تو پریشان ہو جاتی ہوں کہ کیا اساتذہ ایسے ہوتے ہیں جیسے کہ سر ظاہر اور میڈم مہناز تھے۔ یقینا سب برے نہیں ہوتے لیکن کچھ اب بھی انہی کی طرح ہیں جو بناوٹ کا نقاب اوڑھے خود کو عظیم کہلواتے ہیں۔ سر ظاہر کو تو ان کا کھویا ہوا سبھی کچھ مل گیا تھا لیکن کیا دلی سکون بھی ملا ؟ اب مجھے کسی پر بھروسہ نہیں آتا، سوائے اس عظیم طاقت کے کہ جو واقعی عظیم ہے اور وہ میرا رب کریم ہے۔ آج میں اپنی آپ بیتی سے ہر لڑکے اور لڑکی کو یہ ذہن نشین کرانا چاہتی ہوں کہ مردوں اور لڑکوں کی ذات عجیب ہوتی ہے۔ وہ ہر بازی دماغ سے کھیلتے ہیں اور دماغ سے کھیلا ہوا شطرنج ہمیشہ فتح یاب ہوتا ہے۔ وہ جیت جاتے ہیں اور ساری زندگی اسی خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ جیت ہمیشہ ان کی ہی ہو گی۔
مزید پڑھیں |
(ختم شد)