سرفراز ایک محنتی اور خواب دیکھنے والا نوجوان تھا، جس نے اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے دن رات ایک کر رکھا تھا۔ وہ ایک معروف کنسٹرکشن کمپنی میں کام کرتا تھا اور اپنی ذمہ داریوں کو ہمیشہ سنجیدگی سے لیتا تھا۔ اپنی محنت اور ایمانداری کی بدولت اس نے بہت جلد کمپنی میں اپنی جگہ بنائی اور اپنے سینئرز کا اعتماد حاصل کیا۔
سرفراز کی زندگی میں سب سے خاص لمحہ وہ تھا جب اس نے اپنی پسند کی لڑکی، نمرہ، سے شادی کی۔ نمرہ نہ صرف خوبصورت بلکہ ایک دلیر اور باشعور لڑکی تھی۔ اس کی تربیت بہت اچھے ماحول میں ہوئی تھی، جہاں احترام، محبت اور خدمت کو زندگی کا اصول سمجھا جاتا تھا۔
شادی کا دن کسی خواب کی تعبیر جیسا تھا۔ نمرہ کے ہاتھوں کی مہندی کی خوشبو ابھی بھی فضا میں بسی ہوئی تھی اور اس کے دل میں خوشیوں کے ہزاروں رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ سرفراز کے ساتھ زندگی گزارنے کے سپنے اس کی آنکھوں میں جھلک رہے تھے۔ سرفراز نے اسے بہت محبت سے اپنے دل کی ملکہ بنایا اور گھر لے آیا۔
سرفراز کا گھر سادہ مگر محبت بھرا تھا۔ گھر میں صرف تین افراد تھے: سرفراز، اس کی بیمار اور بوڑھی ماں، اور اب نمرہ۔ سرفراز کی ماں بہت خوش تھی کہ آخرکار اس کے بیٹے کو زندگی کا سہارا مل گیا ہے۔ نمرہ نے دل ہی دل میں عہد کر لیا تھا کہ وہ نہ صرف سرفراز کی اچھی بیوی بنے گی بلکہ اس کی ماں کا بھی اپنی ماں کی طرح خیال رکھے گی۔
شادی کو ابھی ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ سرفراز کو کام کے سلسلے میں دوسرے شہر جانا پڑ گیا۔ کمپنی نے اسے ایک اہم پروجیکٹ کے لیے تین دن کے لیے بھیجا۔ نمرہ کے دل کو یہ بات بالکل گوارا نہیں تھی کہ سرفراز اسے اتنی جلدی چھوڑ کر چلا جائے، لیکن وہ جانتی تھی کہ یہ اس کے شوہر کا فرض ہے۔
سرفراز نے جانے سے پہلے نمرہ کو پیار سے سمجھایا:
"نمرہ، میری غیر موجودگی میں تم میری ماں کا خوب خیال رکھنا۔ وہ میرے لیے سب کچھ ہیں۔ اور ہاں، اپنا بھی خیال رکھنا۔ میں جلد واپس آ جاؤں گا، یہ تین دن پلک جھپکتے گزر جائیں گے۔"
نمرہ نے مسکراتے ہوئے کہا:
"آپ بے فکر ہو کر جائیں، میں آپ کی ماں کا اپنی ماں کی طرح خیال رکھوں گی۔ بس آپ جلدی واپس آئیں۔"
لیکن اس کے دل میں ایک عجیب سا خلاء تھا، ایک انجانی بےچینی، جسے وہ الفاظ میں بیان نہ کر سکی۔ آخر سرفراز نے نمرہ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور رات کوماں کی دعا کیساتھ رخصت ہو گیا۔
سرفراز کی روانگی کے بعد، نمرہ نے خود کو اپنی ذمہ داریوں میں مصروف کر لیا۔ اس نے اپنے ساس کی خدمت کو اپنی اولین ترجیح بنایا۔ بوڑھی ماں کو دوائیں دینا، وقت پر کھانا کھلانا اور ان کی دعائیں لینا، یہ سب اس نے پورے دل سے کیا۔
رات کے وقت، جب وہ اپنے کمرے میں اکیلی تھی، تو سرفراز کی یادوں نے اسے گھیر لیا۔ اس کی باتیں، مسکراہٹ، اور وہ پیار جو ان دونوں کے درمیان تھا، اسے بار بار یاد آتا۔ وہ سوچتی کہ جب سرفراز واپس آئے گا، تو وہ اپنی خوشیوں کو ایک بار پھر مکمل محسوس کرے گی۔
٭٭٭٭
سرفراز کی زندگی میں سب سے خاص لمحہ وہ تھا جب اس نے اپنی پسند کی لڑکی، نمرہ، سے شادی کی۔ نمرہ نہ صرف خوبصورت بلکہ ایک دلیر اور باشعور لڑکی تھی۔ اس کی تربیت بہت اچھے ماحول میں ہوئی تھی، جہاں احترام، محبت اور خدمت کو زندگی کا اصول سمجھا جاتا تھا۔
شادی کا دن کسی خواب کی تعبیر جیسا تھا۔ نمرہ کے ہاتھوں کی مہندی کی خوشبو ابھی بھی فضا میں بسی ہوئی تھی اور اس کے دل میں خوشیوں کے ہزاروں رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ سرفراز کے ساتھ زندگی گزارنے کے سپنے اس کی آنکھوں میں جھلک رہے تھے۔ سرفراز نے اسے بہت محبت سے اپنے دل کی ملکہ بنایا اور گھر لے آیا۔
سرفراز کا گھر سادہ مگر محبت بھرا تھا۔ گھر میں صرف تین افراد تھے: سرفراز، اس کی بیمار اور بوڑھی ماں، اور اب نمرہ۔ سرفراز کی ماں بہت خوش تھی کہ آخرکار اس کے بیٹے کو زندگی کا سہارا مل گیا ہے۔ نمرہ نے دل ہی دل میں عہد کر لیا تھا کہ وہ نہ صرف سرفراز کی اچھی بیوی بنے گی بلکہ اس کی ماں کا بھی اپنی ماں کی طرح خیال رکھے گی۔
شادی کو ابھی ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ سرفراز کو کام کے سلسلے میں دوسرے شہر جانا پڑ گیا۔ کمپنی نے اسے ایک اہم پروجیکٹ کے لیے تین دن کے لیے بھیجا۔ نمرہ کے دل کو یہ بات بالکل گوارا نہیں تھی کہ سرفراز اسے اتنی جلدی چھوڑ کر چلا جائے، لیکن وہ جانتی تھی کہ یہ اس کے شوہر کا فرض ہے۔
سرفراز نے جانے سے پہلے نمرہ کو پیار سے سمجھایا:
"نمرہ، میری غیر موجودگی میں تم میری ماں کا خوب خیال رکھنا۔ وہ میرے لیے سب کچھ ہیں۔ اور ہاں، اپنا بھی خیال رکھنا۔ میں جلد واپس آ جاؤں گا، یہ تین دن پلک جھپکتے گزر جائیں گے۔"
نمرہ نے مسکراتے ہوئے کہا:
"آپ بے فکر ہو کر جائیں، میں آپ کی ماں کا اپنی ماں کی طرح خیال رکھوں گی۔ بس آپ جلدی واپس آئیں۔"
لیکن اس کے دل میں ایک عجیب سا خلاء تھا، ایک انجانی بےچینی، جسے وہ الفاظ میں بیان نہ کر سکی۔ آخر سرفراز نے نمرہ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور رات کوماں کی دعا کیساتھ رخصت ہو گیا۔
سرفراز کی روانگی کے بعد، نمرہ نے خود کو اپنی ذمہ داریوں میں مصروف کر لیا۔ اس نے اپنے ساس کی خدمت کو اپنی اولین ترجیح بنایا۔ بوڑھی ماں کو دوائیں دینا، وقت پر کھانا کھلانا اور ان کی دعائیں لینا، یہ سب اس نے پورے دل سے کیا۔
رات کے وقت، جب وہ اپنے کمرے میں اکیلی تھی، تو سرفراز کی یادوں نے اسے گھیر لیا۔ اس کی باتیں، مسکراہٹ، اور وہ پیار جو ان دونوں کے درمیان تھا، اسے بار بار یاد آتا۔ وہ سوچتی کہ جب سرفراز واپس آئے گا، تو وہ اپنی خوشیوں کو ایک بار پھر مکمل محسوس کرے گی۔
٭٭٭٭
اگلی صبح، نمرہ نے سوچا کہ آج کچھ ضروری خریداری کر لینی چاہیے۔ سرفراز کے بغیر گھر کا ماحول خالی خالی سا لگ رہا تھا، مگر نمرہ نے خود کو مصروف رکھنے کا فیصلہ کیا۔ سرفراز کی بیمار ماں کو سوپ بہت پسند تھا، اس لیے نمرہ نے چادر اوڑھی، پرس سنبھالا اور مارکیٹ کا رخ کیا۔
مارکیٹ میں رش تھا، دکانیں خریداروں سے بھری ہوئی تھیں۔ نمرہ نے چکن خریدنے کے لیے ایک گوشت کی دکان پر رکنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنے اردگرد کے حالات سے بےخبر، دکان دار سے بات کر رہی تھی۔ جیسے ہی اس نے اپنی چادر سے ہاتھ باہر نکالا اور ہزار روپے کا نوٹ دکان دار کو تھمایا، اس کے سونے کے کنگن چمکنے لگے۔
اسی دوران، ایک قریبی ہوٹل کے باہر دو آدمی، سلمان اور اکرم، بیچ پر بیٹھے سگریٹ اور چائے سے شغل لگا رہے تھے۔ سلمان حال ہی میں جیل سے رہا ہوا تھا اور علاقے کا مشہور بدمعاش تھا، جبکہ اکرم اس کا ہمراز اور جرم میں شریک تھا۔ ان دونوں کا کام ہی یہی تھا کہ کمزور لوگوں کو لوٹنا اور ڈر و دھمکی سے اپنی دھاک بٹھانا۔
سلمان کی نظریں بازار میں ہر طرف گھوم رہی تھیں، جیسے شکار کی تلاش میں ہو۔ اچانک اس کی نظریں نمرہ پر پڑیں۔ اس کی خوبصورت اور نازک کلائی پر سونے کے کنگن دیکھ کر سلمان کے دل میں لالچ پیدا ہوا۔ اس نے نمرہ کی حرکات و سکنات کو بغور دیکھا۔ وہ سوچنے لگا:
"یہ کوئی امیر زادی لگتی ہے، اکیلی خریداری کر رہی ہے، یقینا شوہر گھر پر نہیں ہوگا۔"
سلمان نے اکرم کو آنکھوں کے اشارے سے نمرہ کی طرف متوجہ کیا۔ اکرم بھی فوراً بات سمجھ گیا۔
"یہ کام ہمارے لیے بہت آسان ہوگا،" سلمان نے سرگوشی کی۔
نمرہ نے اپنی خریداری مکمل کی اور باقی سامان کے ساتھ چکن کا شاپر اٹھا لیا۔ وہ خوش تھی کہ گھر جاکر سرفراز کی ماں کے لیے سوپ بنائے گی اور اپنا وقت اچھے سے گزارے گی۔ وہ بالکل لاعلم تھی کہ دو بدنگاہ آدمی اس کا پیچھا کرنے لگے ہیں۔
سلمان اور اکرم محتاط تھے۔ وہ فاصلے سے نمرہ کا پیچھا کر رہے تھے، تاکہ اسے شک نہ ہو۔ نمرہ اطمینان سے اپنے گھر کے قریب پہنچی اور گیٹ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔ جیسے ہی وہ گھر کے اندر گئی، سلمان اور اکرم نے موقع کا جائزہ لیا۔
"یہ تو بالکل اکیلی ہے،" سلمان نے کہا۔
"گھر بھی خاموش ہے، لگتا ہے کوئی مرد نہیں ہے۔ یہ کام آج رات ہی کرتے ہیں،" اکرم نے سلمان کی ہاں میں ہاں ملائی۔
سلمان نے اکرم کو تاکید کی کہ وہ رات تک انتظار کرے۔ دونوں نے گھر کے دروازے اور اطراف کا جائزہ لیا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ گھر میں کتنے لوگ رہتے ہیں۔ ان کی نیت ٹھیک نہیں تھی۔ سلمان کے دماغ میں پہلے ہی ایک منصوبہ بن چکا تھا۔
"ہم آج رات آئیں گے اور اس گھر کی سب چیزیں لوٹ لیں گے۔ لڑکی خوبصورت ہے، اسے بھی آسانی سے قابو کر لیں گے۔" سلمان کی باتوں سے اس کے ارادے ظاہر ہو رہے تھے۔
نمرہ کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ دو خطرناک لوگ اس کے خلاف منصوبہ بنا رہے ہیں۔ وہ گھر میں داخل ہوئی، سرفراز کی ماں سے محبت سے ملی اور ان کا حال چال پوچھا۔ پھر وہ کچن میں چلی گئی تاکہ ان کے لیے سوپ تیار کر سکے۔
نمرہ کو سرفراز کی کمی بہت محسوس ہو رہی تھی، مگر اس نے دل میں عزم کر لیا تھا کہ وہ کسی بھی مشکل کا سامنا کرے گی۔ نمرہ کو اندازہ نہیں تھا کہ آج کی رات اس کی ہمت اور بہادری کا امتحان لیا جائے گا۔
یہ گرمیوں کی رات تھی، اور اندھیری رات کا سکوت کسی انجانے خطرے کا پیش خیمہ لگ رہا تھا۔ سرفراز کا گھر پرسکون علاقے میں واقع تھا، جہاں پچھلی طرف ایک نالہ بہتا تھا۔ نالے کے پانی کا ہلکا شور اور رات کی خاموشی ماحول کو مزید پراسرار بنا رہے تھے۔ نمرہ نے اپنی ساس کو کھانا کھلایا، دوا دی، اور انہیں آرام دہ بستر پر لٹایا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ گہری نیند سو گئیں، لیکن نمرہ کا دل بے چین تھا۔
نمرہ اپنی ساس کے کمرے میں ہی سونے کی عادی تھی تاکہ انہیں کسی بھی وقت کوئی ضرورت ہو تو وہ موجود ہو۔ لیکن آج رات، اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اوپر والے کمرے میں جا کر تھوڑی دیر سکون کرے۔ اوپر والے کمرے کی کھڑکی باہر نالے کی طرف کھلتی تھی، جہاں سے ٹھنڈی ہوا آتی تھی۔
اوپر کمرے میں پہنچ کر، نمرہ نے کھڑکی کھولی تو ہوا کے ایک ہلکے جھونکے نے اسے سکون دیا۔ اس نے چارپائی پر دراز ہو کر کچھ وقت سرفراز کی یادوں میں گم گزارا۔ گرمی کے باعث اس کے ماتھے پر پسینہ آ گیا، جسے پونچھنے کے لیے اس نے اپنا دوپٹہ اتار کر پہلو میں رکھ دیا۔ وہ اپنی سوچوں میں اتنی محو تھی کہ کب اس کی آنکھ لگ گئی، اسے اندازہ ہی نہ ہوا۔
دوسری طرف، سلمان اور اکرم اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار تھے۔ اندھیری گلی ان کے لیے بہترین چھپنے کی جگہ تھی۔ وہ دونوں گھڑی کی سوئیوں کی طرح اپنے وقت کے منتظر تھے۔ جب انہیں یقین ہو گیا کہ سارا محلہ سو چکا ہے، سلمان نے چپکے سے سرفراز کے گھر کی دیوار پھلانگی۔
دیوار کے دوسری طرف پہنچ کر سلمان نے آس پاس کا جائزہ لیا۔ گھر خاموش تھا اور کسی قسم کی ہلچل کے آثار نہ تھے۔ اس نے اشارے سے اکرم کو اندر آنے کا اذن دیا، اور اکرم بھی دیوار پھلانگ کر اندر آ گیا۔ دونوں نے پہلے گھر کے باہر کے حصے میں چھپ کر کچھ وقت گزارا تاکہ کوئی غیر متوقع خطرہ نہ ہو۔
سلمان اور اکرم نے گھر کے مرکزی دروازے اور کھڑکیوں کا جائزہ لیا۔ وہ نہایت احتیاط سے چل رہے تھے تاکہ کسی کو ان کی موجودگی کا علم نہ ہو۔ گھر میں مکمل خاموشی تھی، جو ان کے ارادوں کو مزید مضبوط کر رہی تھی۔
سلمان نے دھیمی آواز میں اکرم سے کہا، "یہ کام آسان ہوگا۔ بس ذرا صبر سے چلنا ہوگا۔"
اکرم نے سر ہلایا اور بولا، "ہاں، بس شور نہ ہو، پھر سب کچھ ہمارا ہے۔"
اوپر کے کمرے میں نمرہ گہری نیند سو رہی تھی۔ کھڑکی سے آتی ہوا اور نالے کا شور ایک عجیب سکون دے رہا تھا، لیکن اسے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ دو خطرناک لوگ نیچے موجود ہیں۔ سلمان اور اکرم نے پہلے گھر کے نچلے حصے کا جائزہ لیا۔ وہ نمرہ کی ساس کے کمرے کے قریب پہنچے اور دروازے سے کان لگا کر سننے لگے۔ اندر سے کسی کی سانس لینے کی آواز آ رہی تھی۔ سلمان نے اشارہ کیا کہ وہ اوپر جائیں۔
دونوں چور آہستہ آہستہ سیڑھیوں کی طرف بڑھے۔ سیڑھیاں لکڑی کی تھیں اور ذرا سا وزن ڈالنے پر چرچرانے لگیں۔ سلمان نے اکرم کو اشارہ کیا کہ احتیاط برتنی ہوگی۔ وہ دھیرے دھیرے اوپر پہنچے۔ جیسے ہی وہ کمرے کے دروازے کے قریب پہنچے، سلمان نے نمرہ کو کھڑکی کے قریب چارپائی پر لیٹے دیکھا۔ نمرہ کے چہرے پر سکون تھا، لیکن اس کی لاپرواہی نے سلمان کو موقع دے دیا تھا۔
رات کے سناٹے میں، نالے سے پانی کے بہنے کی مدھم آواز آ رہی تھی۔ سلمان اور اکرم گھر کے اندر داخل ہو چکے تھے۔ تاریکی ان دونوں کے لیے ایک سہولت فراہم کر رہی تھی۔ سلمان نے اکرم کو ہدایت دی تاکہ نمرہ پر نظر رکھے، اور خود نیچے کی طرف بڑھ گیا۔
میں نیچے دیکھتا ہوں۔ کچھ قیمتی چیزیں بھی ہوں گی، انہیں لے کر چلتے ہیں۔ سلمان نے سرگوشی میں کہا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔
نمرہ بے خبر سو رہی تھی۔ اکرم کمرے کے دروازے پر رکا اور کچھ دیر کے لیے حیرت میں پڑ گیا۔ وہ نمرہ کی خوبصورتی دیکھ کر خود پر قابو نہیں رکھ پا رہا تھا۔
"ایسی حسین لڑکی تو کبھی دیکھی ہی نہیں۔" اس نے خود سے کہا۔
اکرم آہستہ آہستہ چارپائی کے قریب آیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک تیز دھار خنجر تھا جو وہ احتیاط سے تھامے ہوئے تھا۔ اس نے ایک لمحے کے لیے رکا اور پھر چارپائی پر نمرہ کے قریب بیٹھ گیا۔ نمرہ بے خبر گہری نیند میں تھی۔
اکرم نے غیر ارادی طور پر اپنا ہاتھ نمرہ کی کلائی کی طرف بڑھایا۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ لیکن جیسے ہی اس کا ہاتھ نمرہ کے جسم کو چھونے کے قریب ہوا، اچانک نمرہ کی آنکھ کھل گئی۔
نمرہ ایک لمحے کے لیے کچھ سمجھ نہیں پائی۔ تاریکی میں اسے ایک اجنبی کا سایہ نظر آیا جو اس کے قریب تھا۔ اس کا دل خوف سے دھڑکنے لگا۔ نمرہ نے چیخنے کی کوشش کی، لیکن اکرم نے فوراً اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔
"خاموش رہو، ورنہ یہ خنجر تمہارے گلے کے پار ہوگا!" اکرم نے دھمکی دی۔
نمرہ کی سانس رک سی گئی۔ وہ خوفزدہ تھی لیکن حالات کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ خنجر کی دھار اس کے گلے کے قریب تھی، اور وہ حرکت کرنے سے قاصر تھی۔
اکرم نے جیسے ہی خنجر کو ایک طرف رکھا، اس کی نیت صاف ظاہر ہو چکی تھی۔ وہ نمرہ کو کمزور سمجھتے ہوئے یہ سوچ رہا تھا کہ اس پر قابو پانا آسان ہوگا۔ اس کی آنکھوں میں ہوس کا نشہ اور بدنیتی صاف جھلک رہی تھی۔
نمرہ نے اپنے خوف کو قابو میں رکھتے ہوئے حالات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ وہ جانتی تھی کہ اس وقت اسے اپنی عزت اور جان بچانے کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔ اس نے ظاہری طور پر مزاحمت نہیں کی اور خود کو پرسکون ظاہر کیا۔ اکرم کو لگا کہ وہ قابو میں آ گئی ہے، اور اس کا غرور اور بڑھ گیا۔ اکرم نے اپنے ہاتھ نمرہ کی طرف بڑھائے، لیکن اسے خبر نہیں تھی کہ نمرہ اس لمحے اپنی جان بچانے کی تیاری کر رہی ہے۔
جب اکرم اپنی خواہش میں ڈوبا ہوا تھا، نمرہ نے اپنے ہاتھ آہستہ آہستہ خنجر کی طرف بڑھائے، جو اکرم نے ایک طرف رکھا تھا۔ جیسے ہی اس کے ہاتھ خنجر پر پہنچے، اس نے پوری قوت اور حوصلے کے ساتھ خنجر کو اٹھایا۔
اکرم نے کچھ سمجھنے کی کوشش کی، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کوئی ردعمل دے پاتا، نمرہ نے خنجر کو اس کے سینے میں پوری قوت سے گھونپ دیا۔
خنجر کے سینے میں لگتے ہی اکرم کا جسم جھٹکا کھا کر پیچھے ہٹا، اور اس کے منہ سے خون نکلنے لگا۔ اس کی آنکھیں خوف اور حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔ خون کا فوارہ اس کے سینے سے بہنے لگا، اور وہ چارپائی سے نیچے لڑھک گیا۔ اکرم نے کوئی آواز نہیں نکالی اور چند لمحوں کے اندر ہی ساکت ہو گیا۔
نمرہ کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اس کا پورا جسم تھرتھرا رہا تھا، اور خنجر سے ٹپکنے والا خون اس کے ہاتھوں کو رنگین کر چکا تھا۔ وہ اک لمحے کے لیے ساکت ہو گئی اور پھر خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ اس کے سامنے اکرم کی بے جان لاش پڑی تھی، اور وہ سوچ رہی تھی کہ اب کیا کرے۔
نمرہ کے دل میں خوف کے ساتھ ایک عجیب سکون بھی تھا کہ اس نے اپنی عزت اور جان بچانے کے لیے حوصلے کے ساتھ یہ قدم اٹھایا تھا۔ اس نے خنجر کو مضبوطی سے پکڑے رکھا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ خطرہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ ہو سکتا ہے اس کا کوئی ساتھی بھی ہو اور وہ کسی بھی وقت اوپر آ سکتا تھا۔
دوسری طرف سلمان نیچے کے کمروں میں قیمتی سامان تلاش کر رہا تھا۔ اس نے ہر کمرے کا جائزہ لیا لیکن ابھی تک کچھ خاص نہیں ملا۔ سلمان کے دماغ ،یں وہ قیمتی کنگن گھوم رہے تھے۔ لیکن ساتھ ہی اس کا دماغ بار بار اوپر کی طرف جا رہا تھا جہاں اکرم نمرہ کے پاس تھا۔ سلمان جلدی سے اپنا کام ختم کرنے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ اکرم کے پاس جا سکے۔
نمرہ ابھی اکرم کی موت کے صدمے سے نکلی بھی نہ تھی کہ اسے دروازے پر آہٹ محسوس ہوئی۔ کسی کے قدموں کی چاپ اور آہستہ آہستہ کھلتا دروازہ نمرہ کے دل کی دھڑکن تیز کر گیا۔ وہ جلدی سے دروازے کے پیچھے چھپ گئی۔ سلمان، جو نیچے ساری صورتحال کا جائزہ لے چکا تھا، اوپر آیا اور جیسے ہی اس کی نظر اکرم کی بے جان لاش پر پڑی، اس کے ہوش اڑ گئے۔
سلمان نے فوراً صورتحال کو بھانپ لیا۔ اس کے ہاتھ میں پستول تھا، اور وہ محتاط قدموں سے کمرے کا جائزہ لینے لگا۔ نمرہ دروازے کے پیچھے کھڑی ساری صورتحال دیکھ رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اب ایک لمحے کی غلطی اس کی جان لے سکتی ہے۔
سلمان جیسے ہی آگے بڑھا، نمرہ نے پوری قوت سے خنجر کا وار اس کی گردن پر کر دیا۔ خنجر سلمان کی گردن کے آر پار ہو گیا، اور اس کے ہاتھ سے پستول دور جا گرا۔ سلمان کی آنکھیں حیرت اور درد سے پھیل گئیں، لیکن وہ کسی بھی ردعمل دینے سے پہلے ہی زمین پر ڈھیر ہو گیا۔
نمرہ کا سانس تیز ہو رہا تھا۔ وہ بہادر ضرور تھی لیکن اس کے باوجود آج کے واقعات سے مکمل طور پر ہل چکی تھی۔ لیکن اس نے خود کو سنبھالا، کیونکہ جانتی تھی کہ اب جذبات کو قابو میں رکھنا ضروری ہے۔ رات کے چار بج رہے تھے، اور نمرہ نے فیصلہ کیا کہ اسے کسی طرح ان لاشوں کو ٹھکانے لگانا ہوگا۔
اس نے دونوں لاشوں کو کھڑکی کے پاس گھسیٹا اور نالے میں پھینک دیا، جو گھر کے پچھلے حصے میں بہہ رہا تھا۔ سلمان اور اکرم کے جسم نالے کے پانی میں بہتے ہوئے اندھیرے میں گم ہو گئے۔ نمرہ نے پورے کمرے کی صفائی کی، تمام خون کے دھبے صاف کیے اور اپنے کپڑے بدل لیے۔
اگلی صبح محلے میں افواہ پھیل گئی کہ نالے سے دو لاشیں ملی ہیں۔ جلد ہی یہ خبر پولیس تک پہنچی، اور انسپکٹر سہیل کو کیس کی تفتیش کے لیے بھیجا گیا۔ انسپکٹر سہیل نہایت شاطر اور تجربہ کار افسر تھا۔ لاشوں کی شناخت سلمان اور اکرم کے نام سے ہو گئی، جو علاقے کے بدنام زمانہ بدمعاش تھے۔
نمرہ کو بھی یہ خبر مل گئی کہ لاشیں مل چکی ہیں اور پولیس تفتیش کر رہی ہے۔ وہ جانتی تھی کہ اب اسے کوئی کمزوری نہیں دکھانی ہوگی۔ اس نے گھر کے تمام شواہد ختم کر دیے تھے اور خود کو نارمل ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
جب سرفراز تین دن کے بعد واپس آیا، تو نمرہ نے اسے خوش دلی سے خوش آمدید کہا اور اپنی زندگی کو معمول پر رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ نمرہ کے دل میں خوف تو تھا، لیکن اس نے جان لیا تھا کہ اپنے حق کے لیے لڑنا ضروری تھا۔
پولیس کی تفتیش جاری رہی، لیکن سلمان اور اکرم کے ماضی کے جرائم اور بدنامی کی وجہ سے کیس زیادہ طول نہ پکڑ سکا۔ نمرہ اور سرفراز نے اپنی زندگی دوبارہ شروع کی، اور نمرہ نے اس خوفناک رات کو اپنے دل کی گہرائیوں میں دفن کر دیا۔
نالے سے دو لاشیں ملنے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ سلمان اور اکرم جیسے بدنام زمانہ بدمعاشوں کی موت کو پولیس نے کوئی عام واقعہ نہیں سمجھا۔ انسپکٹر سہیل، جو اپنی ذہانت اور شاطر دماغ کے لیے مشہور تھا، اس کیس کی گتھیاں سلجھانے میں جُٹ گیا۔
لاشوں کے جسم پر خنجر کے زخم تھے، اور سہیل نے فوراً اندازہ لگا لیا کہ یہ قتل کسی ماہر ہاتھ نے کیا ہے۔ مگر سوال یہ تھا کہ کون؟ اور کیوں؟
نمرہ بظاہر نارمل زندگی گزار رہی تھی، لیکن دل ہی دل میں وہ خوفزدہ تھی۔ ہر دستک پر اس کا دل لرز جاتا کہ کہیں پولیس اسے پکڑنے نہ آ جائے۔ سرفراز کو شک نہ ہو، اس لیے وہ اپنی روزمرہ کی ذمہ داریوں میں مصروف رہتی۔ مگر ہر رات وہ اسی خوف کے ساتھ سوتی کہ انسپکٹر سہیل کہیں اس کے راز تک نہ پہنچ جائے۔
تفتیش کے دوران سہیل کو معلوم ہوا کہ سلمان اور اکرم کو آخری بار اسی علاقے میں دیکھا گیا تھا جہاں نمرہ رہتی تھی۔ اس نے علاقے کے لوگوں سے پوچھ گچھ شروع کی۔ نمرہ کے پڑوسیوں میں سے کسی نے بھی کچھ غیر معمولی چیز نوٹ نہیں کی، لیکن ایک بزرگ نے سہیل کو بتایا کہ اس رات سلمان اور اکرم کو گلی میں چکر لگاتے دیکھا گیا تھا۔
یہ معلومات سہیل کے شک کو مزید گہرا کر گئیں۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ علاقے کے ہر گھر کا جائزہ لے گا، اور نمرہ کے گھر بھی پہنچ گیا۔
انسپکٹر سہیل نے نمرہ کے گھر دستک دی۔ نمرہ کے چہرے پر سکون تھا، لیکن اندر سے وہ پسینے میں شرابور ہو رہی تھی۔ سہیل نے نمرہ سے کچھ عمومی سوالات کیے:
"آپ نے ان دونوں کو کبھی دیکھا تھا؟ وہ آپ کی گلی میں کیا کر رہے تھے؟"
نمرہ نے اعتماد سے جواب دیا، "نہیں، میں انہیں نہیں جانتی۔ میں تو اپنی ساس کے ساتھ گھر میں مصروف تھی۔"
لیکن سہیل کی تیز نظریں نمرہ کے ہر عمل کو نوٹ کر رہی تھیں۔ اسے نمرہ کی آنکھوں میں ایک عجیب سی گھبراہٹ نظر آئی، مگر وہ کچھ ثابت نہیں کر سکتا تھا۔
سہیل نے نمرہ کو چھوڑ دیا، لیکن اس کے دل میں شک کا بیج بو دیا گیا تھا۔ وہ اپنی تحقیقات جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ دوسری طرف، نمرہ جانتی تھی کہ انسپکٹر سہیل اتنا آسانی سے یہ کیس بند نہیں کرے گا۔
کیا سہیل نمرہ کے راز تک پہنچ جائے گا؟ کیا نمرہ اپنی ہوشیاری سے انسپکٹر کو چکمہ دے سکے گی؟ یا پھر حقیقت کا پردہ چاک ہو جائے گا؟ جاننے کے لیے آخری حصہ پڑھیں
مارکیٹ میں رش تھا، دکانیں خریداروں سے بھری ہوئی تھیں۔ نمرہ نے چکن خریدنے کے لیے ایک گوشت کی دکان پر رکنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنے اردگرد کے حالات سے بےخبر، دکان دار سے بات کر رہی تھی۔ جیسے ہی اس نے اپنی چادر سے ہاتھ باہر نکالا اور ہزار روپے کا نوٹ دکان دار کو تھمایا، اس کے سونے کے کنگن چمکنے لگے۔
اسی دوران، ایک قریبی ہوٹل کے باہر دو آدمی، سلمان اور اکرم، بیچ پر بیٹھے سگریٹ اور چائے سے شغل لگا رہے تھے۔ سلمان حال ہی میں جیل سے رہا ہوا تھا اور علاقے کا مشہور بدمعاش تھا، جبکہ اکرم اس کا ہمراز اور جرم میں شریک تھا۔ ان دونوں کا کام ہی یہی تھا کہ کمزور لوگوں کو لوٹنا اور ڈر و دھمکی سے اپنی دھاک بٹھانا۔
سلمان کی نظریں بازار میں ہر طرف گھوم رہی تھیں، جیسے شکار کی تلاش میں ہو۔ اچانک اس کی نظریں نمرہ پر پڑیں۔ اس کی خوبصورت اور نازک کلائی پر سونے کے کنگن دیکھ کر سلمان کے دل میں لالچ پیدا ہوا۔ اس نے نمرہ کی حرکات و سکنات کو بغور دیکھا۔ وہ سوچنے لگا:
"یہ کوئی امیر زادی لگتی ہے، اکیلی خریداری کر رہی ہے، یقینا شوہر گھر پر نہیں ہوگا۔"
سلمان نے اکرم کو آنکھوں کے اشارے سے نمرہ کی طرف متوجہ کیا۔ اکرم بھی فوراً بات سمجھ گیا۔
"یہ کام ہمارے لیے بہت آسان ہوگا،" سلمان نے سرگوشی کی۔
نمرہ نے اپنی خریداری مکمل کی اور باقی سامان کے ساتھ چکن کا شاپر اٹھا لیا۔ وہ خوش تھی کہ گھر جاکر سرفراز کی ماں کے لیے سوپ بنائے گی اور اپنا وقت اچھے سے گزارے گی۔ وہ بالکل لاعلم تھی کہ دو بدنگاہ آدمی اس کا پیچھا کرنے لگے ہیں۔
سلمان اور اکرم محتاط تھے۔ وہ فاصلے سے نمرہ کا پیچھا کر رہے تھے، تاکہ اسے شک نہ ہو۔ نمرہ اطمینان سے اپنے گھر کے قریب پہنچی اور گیٹ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔ جیسے ہی وہ گھر کے اندر گئی، سلمان اور اکرم نے موقع کا جائزہ لیا۔
"یہ تو بالکل اکیلی ہے،" سلمان نے کہا۔
"گھر بھی خاموش ہے، لگتا ہے کوئی مرد نہیں ہے۔ یہ کام آج رات ہی کرتے ہیں،" اکرم نے سلمان کی ہاں میں ہاں ملائی۔
سلمان نے اکرم کو تاکید کی کہ وہ رات تک انتظار کرے۔ دونوں نے گھر کے دروازے اور اطراف کا جائزہ لیا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ گھر میں کتنے لوگ رہتے ہیں۔ ان کی نیت ٹھیک نہیں تھی۔ سلمان کے دماغ میں پہلے ہی ایک منصوبہ بن چکا تھا۔
"ہم آج رات آئیں گے اور اس گھر کی سب چیزیں لوٹ لیں گے۔ لڑکی خوبصورت ہے، اسے بھی آسانی سے قابو کر لیں گے۔" سلمان کی باتوں سے اس کے ارادے ظاہر ہو رہے تھے۔
نمرہ کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ دو خطرناک لوگ اس کے خلاف منصوبہ بنا رہے ہیں۔ وہ گھر میں داخل ہوئی، سرفراز کی ماں سے محبت سے ملی اور ان کا حال چال پوچھا۔ پھر وہ کچن میں چلی گئی تاکہ ان کے لیے سوپ تیار کر سکے۔
نمرہ کو سرفراز کی کمی بہت محسوس ہو رہی تھی، مگر اس نے دل میں عزم کر لیا تھا کہ وہ کسی بھی مشکل کا سامنا کرے گی۔ نمرہ کو اندازہ نہیں تھا کہ آج کی رات اس کی ہمت اور بہادری کا امتحان لیا جائے گا۔
یہ گرمیوں کی رات تھی، اور اندھیری رات کا سکوت کسی انجانے خطرے کا پیش خیمہ لگ رہا تھا۔ سرفراز کا گھر پرسکون علاقے میں واقع تھا، جہاں پچھلی طرف ایک نالہ بہتا تھا۔ نالے کے پانی کا ہلکا شور اور رات کی خاموشی ماحول کو مزید پراسرار بنا رہے تھے۔ نمرہ نے اپنی ساس کو کھانا کھلایا، دوا دی، اور انہیں آرام دہ بستر پر لٹایا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ گہری نیند سو گئیں، لیکن نمرہ کا دل بے چین تھا۔
نمرہ اپنی ساس کے کمرے میں ہی سونے کی عادی تھی تاکہ انہیں کسی بھی وقت کوئی ضرورت ہو تو وہ موجود ہو۔ لیکن آج رات، اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اوپر والے کمرے میں جا کر تھوڑی دیر سکون کرے۔ اوپر والے کمرے کی کھڑکی باہر نالے کی طرف کھلتی تھی، جہاں سے ٹھنڈی ہوا آتی تھی۔
اوپر کمرے میں پہنچ کر، نمرہ نے کھڑکی کھولی تو ہوا کے ایک ہلکے جھونکے نے اسے سکون دیا۔ اس نے چارپائی پر دراز ہو کر کچھ وقت سرفراز کی یادوں میں گم گزارا۔ گرمی کے باعث اس کے ماتھے پر پسینہ آ گیا، جسے پونچھنے کے لیے اس نے اپنا دوپٹہ اتار کر پہلو میں رکھ دیا۔ وہ اپنی سوچوں میں اتنی محو تھی کہ کب اس کی آنکھ لگ گئی، اسے اندازہ ہی نہ ہوا۔
دوسری طرف، سلمان اور اکرم اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار تھے۔ اندھیری گلی ان کے لیے بہترین چھپنے کی جگہ تھی۔ وہ دونوں گھڑی کی سوئیوں کی طرح اپنے وقت کے منتظر تھے۔ جب انہیں یقین ہو گیا کہ سارا محلہ سو چکا ہے، سلمان نے چپکے سے سرفراز کے گھر کی دیوار پھلانگی۔
دیوار کے دوسری طرف پہنچ کر سلمان نے آس پاس کا جائزہ لیا۔ گھر خاموش تھا اور کسی قسم کی ہلچل کے آثار نہ تھے۔ اس نے اشارے سے اکرم کو اندر آنے کا اذن دیا، اور اکرم بھی دیوار پھلانگ کر اندر آ گیا۔ دونوں نے پہلے گھر کے باہر کے حصے میں چھپ کر کچھ وقت گزارا تاکہ کوئی غیر متوقع خطرہ نہ ہو۔
سلمان اور اکرم نے گھر کے مرکزی دروازے اور کھڑکیوں کا جائزہ لیا۔ وہ نہایت احتیاط سے چل رہے تھے تاکہ کسی کو ان کی موجودگی کا علم نہ ہو۔ گھر میں مکمل خاموشی تھی، جو ان کے ارادوں کو مزید مضبوط کر رہی تھی۔
سلمان نے دھیمی آواز میں اکرم سے کہا، "یہ کام آسان ہوگا۔ بس ذرا صبر سے چلنا ہوگا۔"
اکرم نے سر ہلایا اور بولا، "ہاں، بس شور نہ ہو، پھر سب کچھ ہمارا ہے۔"
اوپر کے کمرے میں نمرہ گہری نیند سو رہی تھی۔ کھڑکی سے آتی ہوا اور نالے کا شور ایک عجیب سکون دے رہا تھا، لیکن اسے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ دو خطرناک لوگ نیچے موجود ہیں۔ سلمان اور اکرم نے پہلے گھر کے نچلے حصے کا جائزہ لیا۔ وہ نمرہ کی ساس کے کمرے کے قریب پہنچے اور دروازے سے کان لگا کر سننے لگے۔ اندر سے کسی کی سانس لینے کی آواز آ رہی تھی۔ سلمان نے اشارہ کیا کہ وہ اوپر جائیں۔
دونوں چور آہستہ آہستہ سیڑھیوں کی طرف بڑھے۔ سیڑھیاں لکڑی کی تھیں اور ذرا سا وزن ڈالنے پر چرچرانے لگیں۔ سلمان نے اکرم کو اشارہ کیا کہ احتیاط برتنی ہوگی۔ وہ دھیرے دھیرے اوپر پہنچے۔ جیسے ہی وہ کمرے کے دروازے کے قریب پہنچے، سلمان نے نمرہ کو کھڑکی کے قریب چارپائی پر لیٹے دیکھا۔ نمرہ کے چہرے پر سکون تھا، لیکن اس کی لاپرواہی نے سلمان کو موقع دے دیا تھا۔
رات کے سناٹے میں، نالے سے پانی کے بہنے کی مدھم آواز آ رہی تھی۔ سلمان اور اکرم گھر کے اندر داخل ہو چکے تھے۔ تاریکی ان دونوں کے لیے ایک سہولت فراہم کر رہی تھی۔ سلمان نے اکرم کو ہدایت دی تاکہ نمرہ پر نظر رکھے، اور خود نیچے کی طرف بڑھ گیا۔
میں نیچے دیکھتا ہوں۔ کچھ قیمتی چیزیں بھی ہوں گی، انہیں لے کر چلتے ہیں۔ سلمان نے سرگوشی میں کہا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔
نمرہ بے خبر سو رہی تھی۔ اکرم کمرے کے دروازے پر رکا اور کچھ دیر کے لیے حیرت میں پڑ گیا۔ وہ نمرہ کی خوبصورتی دیکھ کر خود پر قابو نہیں رکھ پا رہا تھا۔
"ایسی حسین لڑکی تو کبھی دیکھی ہی نہیں۔" اس نے خود سے کہا۔
اکرم آہستہ آہستہ چارپائی کے قریب آیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک تیز دھار خنجر تھا جو وہ احتیاط سے تھامے ہوئے تھا۔ اس نے ایک لمحے کے لیے رکا اور پھر چارپائی پر نمرہ کے قریب بیٹھ گیا۔ نمرہ بے خبر گہری نیند میں تھی۔
اکرم نے غیر ارادی طور پر اپنا ہاتھ نمرہ کی کلائی کی طرف بڑھایا۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ لیکن جیسے ہی اس کا ہاتھ نمرہ کے جسم کو چھونے کے قریب ہوا، اچانک نمرہ کی آنکھ کھل گئی۔
نمرہ ایک لمحے کے لیے کچھ سمجھ نہیں پائی۔ تاریکی میں اسے ایک اجنبی کا سایہ نظر آیا جو اس کے قریب تھا۔ اس کا دل خوف سے دھڑکنے لگا۔ نمرہ نے چیخنے کی کوشش کی، لیکن اکرم نے فوراً اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔
"خاموش رہو، ورنہ یہ خنجر تمہارے گلے کے پار ہوگا!" اکرم نے دھمکی دی۔
نمرہ کی سانس رک سی گئی۔ وہ خوفزدہ تھی لیکن حالات کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ خنجر کی دھار اس کے گلے کے قریب تھی، اور وہ حرکت کرنے سے قاصر تھی۔
اکرم نے جیسے ہی خنجر کو ایک طرف رکھا، اس کی نیت صاف ظاہر ہو چکی تھی۔ وہ نمرہ کو کمزور سمجھتے ہوئے یہ سوچ رہا تھا کہ اس پر قابو پانا آسان ہوگا۔ اس کی آنکھوں میں ہوس کا نشہ اور بدنیتی صاف جھلک رہی تھی۔
نمرہ نے اپنے خوف کو قابو میں رکھتے ہوئے حالات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ وہ جانتی تھی کہ اس وقت اسے اپنی عزت اور جان بچانے کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔ اس نے ظاہری طور پر مزاحمت نہیں کی اور خود کو پرسکون ظاہر کیا۔ اکرم کو لگا کہ وہ قابو میں آ گئی ہے، اور اس کا غرور اور بڑھ گیا۔ اکرم نے اپنے ہاتھ نمرہ کی طرف بڑھائے، لیکن اسے خبر نہیں تھی کہ نمرہ اس لمحے اپنی جان بچانے کی تیاری کر رہی ہے۔
جب اکرم اپنی خواہش میں ڈوبا ہوا تھا، نمرہ نے اپنے ہاتھ آہستہ آہستہ خنجر کی طرف بڑھائے، جو اکرم نے ایک طرف رکھا تھا۔ جیسے ہی اس کے ہاتھ خنجر پر پہنچے، اس نے پوری قوت اور حوصلے کے ساتھ خنجر کو اٹھایا۔
اکرم نے کچھ سمجھنے کی کوشش کی، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کوئی ردعمل دے پاتا، نمرہ نے خنجر کو اس کے سینے میں پوری قوت سے گھونپ دیا۔
خنجر کے سینے میں لگتے ہی اکرم کا جسم جھٹکا کھا کر پیچھے ہٹا، اور اس کے منہ سے خون نکلنے لگا۔ اس کی آنکھیں خوف اور حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔ خون کا فوارہ اس کے سینے سے بہنے لگا، اور وہ چارپائی سے نیچے لڑھک گیا۔ اکرم نے کوئی آواز نہیں نکالی اور چند لمحوں کے اندر ہی ساکت ہو گیا۔
نمرہ کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اس کا پورا جسم تھرتھرا رہا تھا، اور خنجر سے ٹپکنے والا خون اس کے ہاتھوں کو رنگین کر چکا تھا۔ وہ اک لمحے کے لیے ساکت ہو گئی اور پھر خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ اس کے سامنے اکرم کی بے جان لاش پڑی تھی، اور وہ سوچ رہی تھی کہ اب کیا کرے۔
نمرہ کے دل میں خوف کے ساتھ ایک عجیب سکون بھی تھا کہ اس نے اپنی عزت اور جان بچانے کے لیے حوصلے کے ساتھ یہ قدم اٹھایا تھا۔ اس نے خنجر کو مضبوطی سے پکڑے رکھا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ خطرہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ ہو سکتا ہے اس کا کوئی ساتھی بھی ہو اور وہ کسی بھی وقت اوپر آ سکتا تھا۔
دوسری طرف سلمان نیچے کے کمروں میں قیمتی سامان تلاش کر رہا تھا۔ اس نے ہر کمرے کا جائزہ لیا لیکن ابھی تک کچھ خاص نہیں ملا۔ سلمان کے دماغ ،یں وہ قیمتی کنگن گھوم رہے تھے۔ لیکن ساتھ ہی اس کا دماغ بار بار اوپر کی طرف جا رہا تھا جہاں اکرم نمرہ کے پاس تھا۔ سلمان جلدی سے اپنا کام ختم کرنے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ اکرم کے پاس جا سکے۔
نمرہ ابھی اکرم کی موت کے صدمے سے نکلی بھی نہ تھی کہ اسے دروازے پر آہٹ محسوس ہوئی۔ کسی کے قدموں کی چاپ اور آہستہ آہستہ کھلتا دروازہ نمرہ کے دل کی دھڑکن تیز کر گیا۔ وہ جلدی سے دروازے کے پیچھے چھپ گئی۔ سلمان، جو نیچے ساری صورتحال کا جائزہ لے چکا تھا، اوپر آیا اور جیسے ہی اس کی نظر اکرم کی بے جان لاش پر پڑی، اس کے ہوش اڑ گئے۔
سلمان نے فوراً صورتحال کو بھانپ لیا۔ اس کے ہاتھ میں پستول تھا، اور وہ محتاط قدموں سے کمرے کا جائزہ لینے لگا۔ نمرہ دروازے کے پیچھے کھڑی ساری صورتحال دیکھ رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اب ایک لمحے کی غلطی اس کی جان لے سکتی ہے۔
سلمان جیسے ہی آگے بڑھا، نمرہ نے پوری قوت سے خنجر کا وار اس کی گردن پر کر دیا۔ خنجر سلمان کی گردن کے آر پار ہو گیا، اور اس کے ہاتھ سے پستول دور جا گرا۔ سلمان کی آنکھیں حیرت اور درد سے پھیل گئیں، لیکن وہ کسی بھی ردعمل دینے سے پہلے ہی زمین پر ڈھیر ہو گیا۔
نمرہ کا سانس تیز ہو رہا تھا۔ وہ بہادر ضرور تھی لیکن اس کے باوجود آج کے واقعات سے مکمل طور پر ہل چکی تھی۔ لیکن اس نے خود کو سنبھالا، کیونکہ جانتی تھی کہ اب جذبات کو قابو میں رکھنا ضروری ہے۔ رات کے چار بج رہے تھے، اور نمرہ نے فیصلہ کیا کہ اسے کسی طرح ان لاشوں کو ٹھکانے لگانا ہوگا۔
مزید پڑھیں |
اگلی صبح محلے میں افواہ پھیل گئی کہ نالے سے دو لاشیں ملی ہیں۔ جلد ہی یہ خبر پولیس تک پہنچی، اور انسپکٹر سہیل کو کیس کی تفتیش کے لیے بھیجا گیا۔ انسپکٹر سہیل نہایت شاطر اور تجربہ کار افسر تھا۔ لاشوں کی شناخت سلمان اور اکرم کے نام سے ہو گئی، جو علاقے کے بدنام زمانہ بدمعاش تھے۔
نمرہ کو بھی یہ خبر مل گئی کہ لاشیں مل چکی ہیں اور پولیس تفتیش کر رہی ہے۔ وہ جانتی تھی کہ اب اسے کوئی کمزوری نہیں دکھانی ہوگی۔ اس نے گھر کے تمام شواہد ختم کر دیے تھے اور خود کو نارمل ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
جب سرفراز تین دن کے بعد واپس آیا، تو نمرہ نے اسے خوش دلی سے خوش آمدید کہا اور اپنی زندگی کو معمول پر رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ نمرہ کے دل میں خوف تو تھا، لیکن اس نے جان لیا تھا کہ اپنے حق کے لیے لڑنا ضروری تھا۔
پولیس کی تفتیش جاری رہی، لیکن سلمان اور اکرم کے ماضی کے جرائم اور بدنامی کی وجہ سے کیس زیادہ طول نہ پکڑ سکا۔ نمرہ اور سرفراز نے اپنی زندگی دوبارہ شروع کی، اور نمرہ نے اس خوفناک رات کو اپنے دل کی گہرائیوں میں دفن کر دیا۔
نالے سے دو لاشیں ملنے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ سلمان اور اکرم جیسے بدنام زمانہ بدمعاشوں کی موت کو پولیس نے کوئی عام واقعہ نہیں سمجھا۔ انسپکٹر سہیل، جو اپنی ذہانت اور شاطر دماغ کے لیے مشہور تھا، اس کیس کی گتھیاں سلجھانے میں جُٹ گیا۔
مزید پڑھیں |
نمرہ بظاہر نارمل زندگی گزار رہی تھی، لیکن دل ہی دل میں وہ خوفزدہ تھی۔ ہر دستک پر اس کا دل لرز جاتا کہ کہیں پولیس اسے پکڑنے نہ آ جائے۔ سرفراز کو شک نہ ہو، اس لیے وہ اپنی روزمرہ کی ذمہ داریوں میں مصروف رہتی۔ مگر ہر رات وہ اسی خوف کے ساتھ سوتی کہ انسپکٹر سہیل کہیں اس کے راز تک نہ پہنچ جائے۔
تفتیش کے دوران سہیل کو معلوم ہوا کہ سلمان اور اکرم کو آخری بار اسی علاقے میں دیکھا گیا تھا جہاں نمرہ رہتی تھی۔ اس نے علاقے کے لوگوں سے پوچھ گچھ شروع کی۔ نمرہ کے پڑوسیوں میں سے کسی نے بھی کچھ غیر معمولی چیز نوٹ نہیں کی، لیکن ایک بزرگ نے سہیل کو بتایا کہ اس رات سلمان اور اکرم کو گلی میں چکر لگاتے دیکھا گیا تھا۔
یہ معلومات سہیل کے شک کو مزید گہرا کر گئیں۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ علاقے کے ہر گھر کا جائزہ لے گا، اور نمرہ کے گھر بھی پہنچ گیا۔
انسپکٹر سہیل نے نمرہ کے گھر دستک دی۔ نمرہ کے چہرے پر سکون تھا، لیکن اندر سے وہ پسینے میں شرابور ہو رہی تھی۔ سہیل نے نمرہ سے کچھ عمومی سوالات کیے:
"آپ نے ان دونوں کو کبھی دیکھا تھا؟ وہ آپ کی گلی میں کیا کر رہے تھے؟"
نمرہ نے اعتماد سے جواب دیا، "نہیں، میں انہیں نہیں جانتی۔ میں تو اپنی ساس کے ساتھ گھر میں مصروف تھی۔"
مزید پڑھیں |
سہیل نے نمرہ کو چھوڑ دیا، لیکن اس کے دل میں شک کا بیج بو دیا گیا تھا۔ وہ اپنی تحقیقات جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ دوسری طرف، نمرہ جانتی تھی کہ انسپکٹر سہیل اتنا آسانی سے یہ کیس بند نہیں کرے گا۔
کیا سہیل نمرہ کے راز تک پہنچ جائے گا؟ کیا نمرہ اپنی ہوشیاری سے انسپکٹر کو چکمہ دے سکے گی؟ یا پھر حقیقت کا پردہ چاک ہو جائے گا؟ جاننے کے لیے آخری حصہ پڑھیں
👇👇