عزت کے دشمن - آخری حصہ

urdu font stories online 81

انسپکٹر سہیل اپنی زندگی میں کئی بار ٹرانسفر ہو چکا تھا۔ اس کی عیاری، بدعنوانی، اور عورتوں کے معاملے میں اس کی بدنامی نے اسے کبھی کسی ایک جگہ ٹکنے نہیں دیا۔ وہ جہاں بھی جاتا، اس کے کارنامے لوگوں کی زبانوں پر ہوتے۔ رشوت لینا، جرم چھپانا، اور عورتوں پر بری نظر رکھنا اس کی عادت بن چکی تھی۔

اب اسے ایک ایسے علاقے کا انچارج بنایا گیا تھا جہاں کے لوگ اس کی شہرت سے پہلے ہی واقف تھے۔ سہیل اپنی کرسی پر بیٹھ کر سگریٹ کے کش لگا رہا تھا اور اپنی اگلی چالوں کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ ایک کانسٹیبل بھاگتا ہوا اس کے کمرے میں آیا:
"سر! نالے سے دو لاشیں ملی ہیں۔ لگتا ہے قتل ہوا ہے۔"

سہیل نے فوراً اپنی سگریٹ بجھائی اور مسکراتے ہوئے بولا، "چلو دیکھتے ہیں، شاید کچھ کمانے کا موقع نکل آئے۔" وہ اپنی جیپ میں بیٹھ کر جائے وقوعہ کی طرف روانہ ہوا۔

نالے کے قریب لوگوں کا ہجوم جمع تھا۔ سہیل وہاں پہنچا تو ماتحتوں نے لاشوں کو نالے سے نکال لیا تھا۔ یہ سلمان اور اکرم کی لاشیں تھیں۔ دونوں کی جیبوں سے چند چوری کا سامان اور رقم برآمد ہوئی۔ سہیل نے لاشوں کا معائنہ کرتے ہوئے کہا:
"یہ کام کوئی اتفاقی حادثہ نہیں۔ کسی نے یہ سب بڑی مہارت سے کیا ہے۔ قاتل ہمارے علاقے میں ہی ہے۔"

اسی وقت سہیل کی نظر ایک نوجوان عورت پر پڑی، جو نالے کے قریب کھڑی خوفزدہ لگ رہی تھی۔ سہیل نے فوراً اپنی عیاری بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا، "اسے تھانے لے جاؤ، پوچھ گچھ کرنی ہوگی۔" لیکن کانسٹیبل نے بتایا کہ وہ محض ایک راہگیر تھی جو منظر دیکھنے آئی تھی۔ سہیل نے مایوسی سے سر جھٹکا اور لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا۔

سہیل کی عورتوں پر بری نظر مشہور تھی۔ ایک بار اس نے ایک بےگناہ خاتون کو چوری کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ وہ اس پر دباؤ ڈال کر رشوت مانگ رہا تھا اور ساتھ ہی نازیبا باتیں کر رہا تھا۔ وہ خاتون سہیل کی عیاری کو سمجھ گئی اور اس نے بہادری دکھاتے ہوئے اپنے شوہر کو فون کیا۔ خاتون کے شوہر نے مقامی میڈیا کو بلا لیا، اور معاملہ اعلیٰ حکام تک پہنچ گیا۔ سہیل کو اس وقت تو ڈانٹ پڑی، لیکن وہ اپنے رویے سے باز نہیں آیا۔

اگلی صبح، سہیل نے اپنی ٹیم کے ساتھ نمرہ کے محلے کا دورہ کیا۔ وہ گھر گھر جا کر سوالات کر رہا تھا کہ کیا کسی نے سلمان اور اکرم کو آخری بار دیکھا تھا؟ جب وہ نمرہ کے گھر پہنچا، تو اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ نمرہ کا شوہر گھر پے موجود نہیں تھا۔ نمرہ نے دروازہ کھولا تو سہیل نے اسے دیکھا اور ایک لمحے کے لیے ٹھٹک گیا۔ نمرہ کی خوبصورتی نے اسے حیران کر دیا، اور اس کی آنکھوں میں عیاری کی چمک آ گئی۔

"بی بی جی، ہم یہاں دو قتلوں کی تحقیقات کے لیے آئے ہیں۔ آپ کے محلے میں نالے سے دو لاشیں ملی ہیں۔ رات کو آپ نے کوئی غیر معمولی بات دیکھی یا سنی؟"

نمرہ نے اپنی گھبراہٹ چھپاتے ہوئے کہا، "نہیں، انسپکٹر صاحب، رات کو سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ میں تو سو رہی تھی۔"

سہیل نے نمرہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا، "ٹھیک ہے، لیکن اگر کچھ یاد آئے تو ہمیں ضرور بتائیے گا۔"

نمرہ نے اپنے دل کو قابو میں رکھنے کی پوری کوشش کی، لیکن سہیل کی نظروں کی گہرائی نے اسے بےچین کر دیا۔ سہیل نے جاتے جاتے اپنے ماتحتوں سے سرگوشی میں کہا، "یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے۔ اس کی آنکھوں میں خوف صاف نظر آ رہا ہے۔"

اب سہیل نے نمرہ کے آس پاس کے لوگوں سے سوالات شروع کر دیے۔ اس نے نمرہ پر نظر رکھنے کا فیصلہ کیا، لیکن اس کا اصل مقصد تحقیقات سے زیادہ نمرہ کی طرف بڑھنا تھا۔
 ٭٭٭
نمرہ کے دل کی دھڑکن بے قابو تھی۔ دن بھر پولیس کا اس علاقے میں لوگوں سے سوالات کرنا اور انسپکٹر سہیل کی بھوکی نظریں اس کے کانوں میں گونجتی رہیں۔ وہ کمرے میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ اگر حقیقت سامنے آ گئی تو کیا ہوگا۔ اس نے وہ سب کچھ اپنے شوہر سے چھپایا تھا، جو اس رات ہوا تھا۔ وہ اس سے کچھ کہنا چاہتی تھی، لیکن الفاظ اس کے گلے میں اٹک جاتے تھے۔

چوروں کو مارنے کے بعد نمرہ کے دل سے خوف جیسے نکل گیا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس نے اپنی عزت اور زندگی بچانے کے لیے صحیح قدم اٹھایا تھا۔ لیکن ہر بار جب وہ انسپکٹر سہیل کے چہرے کو یاد کرتی، تو اس کی آنکھوں کی عیاری اور شک بھری مسکراہٹ اس کے دل کو دہلا دیتی۔ وہ سہیل کی نظروں میں خود کو مجرم کی طرح دیکھتی تھی۔

رات کی تاریکی میں نمرہ نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکا۔ گلی میں خاموشی تھی، لیکن اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہو۔ سہیل کے الفاظ اس کے ذہن میں گونجنے لگے:
"بی بی جی، کچھ یاد آئے تو ہمیں بتائیے گا۔"

نمرہ کو سب سے زیادہ ڈر اپنے شوہر کی بدنامی کا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی، اگر وہ اسے سب کچھ بتا دے تو کیا ہوگا؟ کیا وہ اسے سمجھ پائے گا؟ یا پھر وہ اسے قصوروار ٹھہرائے گا؟ اس کے شوہر کی عزت اس کے لیے سب کچھ تھی، لیکن اب وہ خود کو ایک دلدل میں پھنسا ہوا محسوس کر رہی تھی۔

اس رات جو کچھ ہوا تھا، وہ ایک خواب کی طرح اس کے ذہن میں دوڑ رہا تھا۔ جب سلمان اور اکرم اس کے گھر گھس آئے تھے، وہ لمحہ اس کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ لیکن جیسے ہی اس نے خود پر قابو پایا اور چوروں کو مار دیا، اس نے اپنی عزت اور زندگی تو بچا لی، مگر یہ راز اس کے دل پر ایک بوجھ کی طرح سوار ہو گیا۔ اب نمرہ کو لگ رہا تھا کہ اس کے لیے زندگی ختم ہو چکی ہے۔ پولیس والے تو بال کی کھال اتار لیتے ہیں، اور سہیل جیسا عیار انسپکٹر تو کسی نہ کسی طرح حقیقت تک پہنچ ہی جائے گا۔

"اگر یہ سب سامنے آ گیا، تو میرے شوہر کا کیا ہوگا؟ لوگ کیا کہیں گے؟" یہ سوالات نمرہ کے ذہن کو جھنجھوڑ رہے تھے

نمرہ کو معلوم تھا کہ سہیل ایک خطرناک آدمی ہے۔ وہ نہ صرف عیار تھا بلکہ اپنی مطلب پرستی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا تھا۔ سہیل کی نظریں اور اس کے سوالات نمرہ کے اعصاب پر حاوی ہو رہے تھے۔

نمرہ کو لگنے لگا تھا کہ وہ مزید یہ بوجھ برداشت نہیں کر پائے گی۔ وہ اپنے شوہر کو سب کچھ بتانے کے لیے بار بار ہمت جمع کرتی، لیکن پھر سہیل کا چہرہ اور اس کے شک بھرے سوالات اس کے دل میں خوف پیدا کر دیتے۔

رات کے اندھیرے میں، نمرہ نے اپنے دل کی بات اپنے رب سے کہی۔
"یا اللہ، میرے لیے کوئی راستہ نکال۔ مجھے اس آزمائش سے نکال دے۔ میں نے اپنی عزت بچانے کے لیے جو کیا، وہ غلط نہیں تھا۔ لیکن اب میرا دل سکون نہیں پا رہا۔"

نمرہ نے فیصلہ کیا کہ وہ حالات کا مقابلہ کرے گی۔ لیکن اس کے دل میں ایک طوفان اٹھ رہا تھا، اور وہ نہیں جانتی تھی کہ اگلا دن کیا نئی مصیبت لائے گا۔
 ٭٭٭

انسپکٹر سہیل اپنے دفتر میں بیٹھا نمرہ کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس کی خوبصورتی اور معصومیت سہیل کے دل میں شیطانی خیالات کو ہوا دے رہی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ نمرہ کے دل میں خوف ہے، اور اسی خوف کو وہ اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ سہیل نے ایک منصوبہ بنایا۔ وہ تحقیقات کے بہانے نمرہ کے گھر جائے گا، اسے دباؤ میں لے گا، اور اپنی ہوس پوری کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے ذہن میں صرف ایک ہی بات تھی: نمرہ کو کسی بھی قیمت پر حاصل کرنا، چاہے اس کے لیے اسے کوئی بھی حد پار کرنی پڑے۔

رات کی تاریکی نے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، اور خاموشی ایسی کہ قدموں کی چاپ بھی گونجنے لگے۔ انسپکٹر سہیل اپنے ماتحت کے ساتھ نمرہ کے گھر کی گلی میں داخل ہوا۔ گلی سنسان تھی، اور ہوا کے ہلکے جھونکے کسی انجان خطرے کی خبر دے رہے تھے۔ سہیل کی نظریں نمرہ کے گھر کی طرف تھیں، جہاں اوپر والے کمرے کی ایک کھڑکی سے ہلکی روشنی چھن رہی تھی۔

دن بھر کی معلومات سہیل کے ذہن میں تازہ تھیں۔ اسے معلوم ہو چکا تھا کہ نمرہ کا شوہر اس وقت گھر پر موجود ہے، اور اس کے منصوبے کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ بھی وہی تھا۔ سہیل نے گھر کے اوپر والے پورشن کا جائزہ لیا، جہاں ایک کھڑکی نالے کی طرف کھلتی تھی۔ اس کے ذہن میں شیطانی منصوبہ تیزی سے پروان چڑھنے لگا۔

"اگر کچھ بھی اوپر سے گرایا جائے، تو سیدھا نالے میں جا گرے گا۔" یہ سوچ سہیل کے اندر کے شیطان کو مزید تقویت دے رہی تھی۔ وہ نمرہ کے شوہر کو راستے سے ہٹانے کا کوئی بہانہ ڈھونڈ رہا تھا۔

سہیل آہستہ قدموں سے نمرہ کے دروازے کی طرف بڑھا۔ اس کے ماتحت نے پیچھے سے اس کا ساتھ دیا، لیکن اس کی بےچینی سہیل کی شیطانی مسکراہٹ میں چھپی ہوئی تھی۔ دروازے پر پہنچ کر اس نے بیل بجا دی، اور تاریکی میں انتظار کرنے لگا، جیسے شکاری اپنے شکار کے نکلنے کا انتظار کرتا ہے۔

نمرہ کے شوہر نے دروازہ کھولا تو باہر دو پولیس والوں کو دیکھ کر اس کے چہرے پر پریشانی واضح ہو گئی۔ انسپکٹر سہیل نے رسمی لہجے میں کہا، "ہم کیس کے سلسلے میں کچھ سوالات کرنے آئے ہیں، کیا ہم اندر آ سکتے ہیں؟" نمرہ کے شوہر نے جھجکتے ہوئے دروازہ کھولا اور انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی۔

گفتگو کے دوران سہیل نے بڑی چالاکی سے نمرہ کے شوہر کو یقین دلایا کہ یہ تحقیقات ان کے خاندان کے حق میں ہیں۔ پھر باتوں ہی باتوں میں اس نے کہا، "اوپر والے پورشن کا بھی ایک نظر جائزہ لے لیتے ہیں، ہوسکتا ہے کوئی سراغ وہیں چھپا ہو۔" نمرہ کا شوہر ناچاہتے ہوئے بھی انسپکٹر کو اوپر لے جانے پر راضی ہو گیا۔

اوپر پہنچتے ہی سہیل کی نظریں نمرہ کو دیکھ کر ٹھہر گئیں، جو کمرے میں موجود تھی۔ اسے دیکھ کر نمرہ کے اوسان خطا ہو گئے، لیکن اس نے فوراً اپنے جذبات کو قابو میں رکھا۔ دل ہی دل میں وہ سہیل کی نظروں کی گندگی کو محسوس کر رہی تھی۔ وہ اپنے دوپٹے کو درست کرتی ہوئی خاموشی سے نیچے اپنی ساس کے کمرے میں چلی گئی۔ سہیل کی آنکھوں میں شیطانی چمک واضح تھی، لیکن نمرہ کی موجودگی نے اسے لمحہ بھر کے لیے روک دیا۔

نیچے جاتے ہوئے نمرہ کے دل میں وسوسے اٹھ رہے تھے۔ اسے لگ رہا تھا کہ خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے، اور اس رات جو کچھ ہوا تھا، اس کی حقیقت زیادہ دیر تک چھپی نہیں رہے گی۔

انسپکٹر سہیل کھڑکی سے باہر جھانک کر پانی کے نالے کی طرف دیکھ رہا تھا، جہاں پانی بہ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی، جیسے کوئی راز دریافت کر لیا ہو۔ وہ اندر ہی اندر خوش تھا کہ اس نے سراغ لگا لیا تھا۔ "اچھا تو یہ وہ جگہ ہے جہاں سے لاشیں نیچے پھینکی گئی ہیں۔" سہیل نے خود ہی اندازہ لگایا۔

اس کے بعد وہ سرفراز کی طرف متوجہ ہوا، جو پریشانی کے عالم میں اس کے قریب آیا تھا۔ سرفراز نے خوف کے عالم میں استفسار کیا، "میں کچھ سمجھا نہیں، آپ کیا کہہ رہے ہیں؟"

انسپکٹر سہیل نے ہنستے ہوئے کہا، "دہرے قتل کا کیس ہے۔ ہو سکتا ہے ان کی لاشیں یہاں سے پھینکی گئی ہوں۔"

یہ سن کر سرفراز کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اس کی آنکھوں میں خوف کی جھلک تھی۔اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔

سہیل کا مقصد واضح تھا، وہ سرفراز کو کسی بھی قیمت پر اپنے جال میں پھانسنا چاہتا تھا۔ اس نے جان بوجھ کر نمرہ کا ذکر نہیں کیا، کیونکہ اس کا ارادہ سرفراز کو شک کی بنیاد پر تھانے لے جانا تھا، تاکہ اسے کسی طرح بلیک میل کرکے بعد میں اپنے لیے میدان صاف کر سکے۔

سرفراز کی پریشانی اور الجھن کو دیکھ کر سہیل نے چہرے پر مسکراہٹ رکھی اور کہا، "چیزیں زیادہ پیچیدہ نہیں ہیں، بس تھوڑی سی باتوں کی وضاحت درکار ہے۔ آپ کو تھانے لے جایا جائے گا، تاکہ ہم معاملہ صاف کر سکیں۔"

سرفراز کا دل دھڑک رہا تھا، وہ پوری طرح نہیں سمجھ سکا تھا کہ سہیل کی یہ باتیں کس طرف جا رہی ہیں، لیکن وہ یہ محسوس کر رہا تھا کہ کچھ نہ کچھ غلط ہو رہا ہے۔ سہیل نے اس کے ذہن میں مزید شکوک پیدا کیے، اور سرفراز اس وقت تک کچھ نہ کہہ سکا جب تک وہ تھانے نہیں پہنچا۔

سہیل کا ذہن مکمل طور پر نمرہ کے بارے میں نہیں تھا، بلکہ اس کا کھیل سرفراز کے ساتھ چل رہا تھا، اور وہ جانتا تھا کہ اس کے بعد کی کارروائیاں اس کی منصوبہ بندی کے مطابق ہوں گی۔

سرفراز کو تھانے میں بند کر دیا گیا، اور انسپکٹر سہیل نے اپنی گھناؤنی کارروائی شروع کر دی۔ سرفراز بے گناہ تھا، لیکن سہیل کا مقصد اسے جھوٹے الزامات میں پھنسا کر اپنے منصوبے کو آگے بڑھانا تھا۔ رات بھر سہیل نے سرفراز پر تشدد کیا، جسمانی اور ذہنی اذیت دے کر اس سے جھوٹے اعترافات لینے کی کوشش کی۔ سرفراز کی حالت بدتر ہوتی جا رہی تھی، وہ کچھ نہیں جانتا تھا، پھر بھی سہیل کے ظلم کا شکار ہو رہا تھا۔

گھر میں نمرہ پریشانی کے عالم میں بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کا دل تڑپ رہا تھا، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کی وجہ سے سرفراز کی زندگی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ وہ بے بس تھی، کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ یہ سوچ کر غمگین ہو رہی تھی کہ اگر سرفراز کو کچھ ہو گیا، تو اس کا شوہر پھانسی کے تختے تک پہنچ سکتا تھا، اور نمرہ کے لیے یہ کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں تھا۔ اس کی ذہن میں صرف ایک ہی خیال تھا: کسی بھی قیمت پر سرفراز کو بچانا۔ لیکن اس کے لیے کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا، اور اس کا دل مسلسل خوف اور اضطراب میں ڈوبا ہوا تھا۔

نمرہ گھر میں اکیلی بیٹھی تھی، پریشانی اور بے سکونی کی لہر اسے پوری طرح گھیرے ہوئے تھی۔ وہ اس علاقے میں نئی تھی اور یہاں کوئی ایسا نہیں تھا جس سے وہ مدد لے سکے۔ اس کے دل میں خوف کا سامنا تھا اور وہ یہ سوچ رہی تھی کہ اس کے شوہر کی زندگی کی حالت کس قدر نازک ہے۔ اس نے اپنی بیمار ساس کو تسلی دینے کی کوشش کی اور پھر اوپر والے کمرے میں چلی گئی تاکہ تھوڑی دیر اکیلے میں وقت گزار سکے۔ لیکن اس کی ذہنی سکونت کہیں بھی نہیں تھی، فکر نے اسے بے چین کر دیا تھا۔

اچانک اس کا دھیان اس خنجر کی طرف گیا جو اس نے چند دن پہلے چھپایا تھا۔ وہ آلہ قتل تھا جس نے اس کے ہاتھ میں طاقت رکھی تھی، لیکن وہ جانتی تھی کہ یہ طاقت اسے کہیں نہ کہیں موت کے قریب بھی لے جا سکتی تھی۔ نمرہ نے سوچا، "اگر خنجر نالے میں پھینک دیا جائے، تو سب کچھ ختم ہو جائے گا۔" لیکن یہ خیال بھی اسے کچھ سکون نہیں دے سکا۔

اسی لمحے دروازے پر بیل کی آواز آئی۔ نمرہ نے فوراً خنجر کو چارپائی کے نیچے چھپایا اور نیچے جانے کی تیاری کی۔ دل کی دھڑکن تیز ہو چکی تھی، اور اس کے اندر ایک خوف کا طوفان اٹھ رہا تھا کہ باہر کون آ سکتا ہے، اور کیا وہ اسے مزید مشکلات میں ڈالنے آیا ہے۔
٭٭٭
انسپکٹر سہیل رات کی تاریکی میں سادہ لباس میں نمرہ کے گھر کے باہر موجود تھا۔ اس کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا، اور دل میں ایک عجیب سی لذت تھی۔ آج وہ اکیلا تھا، اور کسی کو خبر نہیں تھی کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔ نمرہ کی خوبصورتی، جو وہ کئی دنوں سے اپنی نظروں میں بسانے کا ارادہ کر چکا تھا، آج اسے حاصل کرنے کا وقت آ چکا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ لمحہ اس کے لیے ایک فتح کی مانند ہوگا۔

نمرہ کو ایک جھٹکا لگا جب اس نے دروازہ کھولا اور سامنے انسپکٹر سہیل کو دیکھا۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا، اور خوف نے اسے اپنے گرفت میں لے لیا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس شخص کو اپنے دروازے پر دیکھ رہی تھی جس کے بارے میں اس نے پہلے ہی کئی بدلے ہوئے ارادے سنے تھے۔ اس کا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا، اور دماغ میں ایک ہی سوال گھوم رہا تھا: "اب کیا ہو گا؟"

سہیل کی نظریں نمرہ پر مرکوز ہو چکی تھیں، اور اس کے چہرے پر وہ شیطانی مسکراہٹ تھی جو اس نے اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے چھپائی تھی۔ نمرہ کا دل خوف اور اضطراب سے پگھل رہا تھا، اور وہ جانتی تھی کہ اس لمحے کے بعد اس کی زندگی میں کچھ بھی معمولی نہیں رہنے والا۔
یہ حصے کی صورت میں ایک سنگین اور سیاہ داستان ہے، جس میں نمرہ نے اپنے شوہر کو بچانے کے لیے ایک انتہائی مشکل فیصلہ کیا۔ سہیل نے نمرہ کو دھمکایا کہ وہ اس کے شوہر کو پھانسی چڑھا دے گا، اور نمرہ کے لیے یہ صورتحال بے حد تکلیف دہ تھی۔ وہ غصہ میں تھی، مگر اس نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے سہیل کی بات ماننے کا فیصلہ کیا تاکہ اپنے شوہر کی جان بچا سکے۔

کمرے میں، سہیل نے اپنی شیطانی خواہشوں کو پورا کرنے کی کوشش کی، اور نمرہ نے ہر خطرہ مول لیتے ہوئے اپنی رضا مندی ظاہر کی۔ سہیل اس وقت بے قابو ہو گیا، اور اس رات کا منظر بھیانک ہو گیا، جب نمرہ کو اپنی زندگی کا ایک ایسا پل گزارنا پڑا جسے وہ کبھی نہ چاہتی۔

اگلی صبح، شہر میں سنسنی پھیل گئی کہ نالے سے ایک لاش ملی ہے، اور یہ واردات اس ہفتے کی تیسری واردات تھی۔ اس دفعہ شکار خود انسپکٹر سہیل تھا۔ اس کی لاش اتنی بے دردی سے مارا گیا تھی کہ دیکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ سہیل کی اپنی شیطانیت نے اسے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا، اور نمرہ کا وہ کڑوا فیصلہ، 
جو اس نے اپنے شوہر کو بچانے کے لیے کیا تھا، اس کے نتائج میں بھیانک ثابت ہوا۔

بڑے افسران کی مداخلت کے بعد کیس کی تفتیش مزید گہرائی میں کی گئی، اور سہیل کے قتل کی تحقیقات کے دوران یہ واضح ہوا کہ نمرہ کے شوہر سرفراز کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔ سہیل کی بدعنوانیوں کے شواہد اور اس کے ذاتی منصوبوں نے یہ ثابت کر دیا کہ سرفراز کو صرف پھنسانے کی کوشش کی گئی تھی۔ چونکہ سرفراز قتل کی رات جیل میں قید تھا، اس لیے اس کا قاتل ہونا ممکن نہیں تھا۔ ان حقائق کے پیش نظر، افسران نے سرفراز کو بے گناہ قرار دے کر رہا کر دیا۔