لوگ اسے میرن میاں کے نام سے بلاتے تھے۔ وہ ہمارے محلے میں رہتا تھا۔ ان دنوں میرن کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ وہ یوں خوش تھا جیسے دو جہاں کی دولت مل گئی ہو۔ بیوی خوبصورت ملی۔ اندھیرے کمرے میں بیٹھی ہوتی تو اس کے چہرے کی دمک سے کمرے میں روشنی ہو جاتی۔ رنگت چاندنی سی اجلی اور اس میں رنگ گلاب کی آمیزش تھی۔ وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ نصیب میں حسن کی ایسی دولت لکھی گئی ہے۔ وہ اب اس دولت کا بلا شرکت غیرمالک تھا کہ ثوبیہ اس کی منکوحہ تھی۔ہوتا یہ ہے کہ چمکتی دمکتی صورت کی ایک جھلک دیکھ کر ہی بہت سے دل بے چین ہو جاتے ہیں۔
بیوی اگر خوبصورت اور وفادار بھی ہو تو دوسروں کی نظروں میں اس قدر قابل ستائش ہوتی ہے کہ آخر حسن مغرور ہو جاتا ہے۔ ثوبیہ مغرور تو نہ ہوئی لیکن محلے بھر کی عورتوں کے منہ سے اپنے حسن کے قصیدے سن کر شوہر کے سامنے اترائی سی پھرنے لگی۔ یہ اس کا الہڑ پن اور معصومیت تھی کہ ہر کسی کے اپنے بارے میں تعریفی کلمات سن کر شوہر کے گوش گزار کر دیا کرتی تھی۔ تب اس کا شوہر کچھ بھونچکا رہنے لگا۔ اس کو اپنی اس بلا شرکت غیر دولت کے لٹ جانے کا دھڑ کا سالگ گیا۔ سوچتا یہ کہیں میری بھول تو نہیں کہ میں اس کو اپنی ملکیت سمجھ بیٹھا ہوں۔ ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو ، اس دھڑ کے نے اس کو وہمی بنادیا۔ لیکن کہاں تک گھر میں بیٹھتا اور اس دولت کی حفاظت کرتا، صبح نوکری پر جاتا تو رات گئے گھر لوٹ پاتا تھا۔
ایک روز جبکہ یہ چھٹی کا دن تھا، دو پہر کا کھانا کھا کر بستر پر دراز ہو گیا۔ بیوی کپڑے دھونے کے بعد انہیں چھت پر ڈالنے گئی تھی ، کافی دیر اس کے تصور میں آنکھیں بند کئے پڑا رہا۔ وہ نہ لوٹی تو بے چینی سے کروٹیں لیتے لیتے اٹھ بیٹھا، آخر چھت پر جا پہنچا۔میرن نے دیکھا کہ بیوی رسی پر آخری کپڑا ڈال رہی ہے اور سامنے کے گھر سے ایک نوجوان اپنے کمرے کی کھڑکی سے ایک ٹک اسے دیکھے جاتا ہے۔ وہ ثوبیہ کو دیکھنے میں اس قدر محو تھا کہ اسے میرن کی آمد کا احساس بھی نہ ہوا۔ثوبیہ کے بال کھلے تھے ، وہ تھوڑ دیر پہلے نہائی تھی اور بڑی حسین لگ رہی تھی۔ بیوی پر ایک نظر ڈالتے ہی اس پر بے اختیار پیار آگیا ، مگر اگلے ہی لمحے وہ غصے سے ببھک اٹھا۔ کیونکہ اس نوجوان ہمسایہ نے اس کو دیکھنے کے فوراً بعد جھٹ سے کھٹر کی بند کر دی۔
بیوی نے میرن کو پلٹ کر دیکھا تو خجل سی ہو گئی، حالانکہ اس سارے سین میں اس کا کردار ایک غافل کا تھا، پھر بھی اس کو لگا جیسے وہ مجرم ہو ، بس اتنی سی بات تھی جس نے میرن میاں کا سکون درہم برہم کر کے رکھ دیا۔ وہ تلملا یا ہوا نیچے آیا۔ بیوی سے پوچھا۔ کیا بات تھی کہ تم اتنی دیر سے چھت پر تھیں اور نیچے نہیں آرہی تھیں۔آپ نے دیکھا نہیں کہ میں الگنی پر کپڑے ڈال رہی تھی۔ وہ معصومیت سے بولی۔ اتنی دیر تک تم رسی پر کپڑے ڈالتی رہیں۔ مجھے بے وقوف بنارہی ہو ؟ اتنی دیر میں آدمی دنیا کا چکر لگا کر واپس آجاتا ہے۔ اس مبالغے پر وہ ہنس دی، مگر شوہر کا غصہ فرو نہ ہوا۔ ثوبیہ کو بری طرح جھڑک دیا۔ تمام رات اس کے ساتھ کلام نہ کیا۔ بظاہر اس نے کوئی ایسی ویسی بات نہ دیکھی تھی مگر دل میں شک و شبہ کی بھٹی سلگ اٹھی۔
دنوں میں میرن کی حالت عجیب ہوتی گئی۔ دفتر میں سارا دن اس کی طرف دھیان بھٹکتا۔ سوچتا وہ ضرور چھت پر گئی ہو گئی۔ اس نوجوان میں دلچسپی لیتی ہو گی۔ دونوں نے کچھ اشارے کئے ہوں کیا خبر یہ دونوں میرے ہی گھر میں ملتے ہوں یا میری بیوی اس نوجوان کے گھر چلی جاتی ہو ، یہ سوچ کر اس کا سر گھومنے لگتا، کام نہ ہوتا اور طبیعت کی خرابی کا بہانہ بنا کر وہ سیدھا گھر کی طرف بھاگتا۔
اس طرح شوہر کی اچانک آمد سے ثوبیہ حیران رہ جاتی، حالانکہ ہمیشہ وہ گھر پر موجود ملتی مگر وہ سوچتا کہ شوخ کپڑے پہنے بیٹھی ہے، لگتا ہے ابھی ابھی کہیں سے آئی ہے۔ یقیناً یہ سامنے والے گھر میں اس لڑکے سے مل کر آئی ہو گی۔ اپنے گیٹ سے نکل کر چھپاک سے سامنے والے گیٹ میں جاگھنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ تب وہ اس کو کریدتا، ڈھکے چھپے الفاظ میں پوچھتا کہ تم کہاں گئی تھیں۔ کیا جلد لوٹ آئی ہو ؟ وہ یہی جواب دیتی کہ میں تو کہیں گئی ہی نہیں تھی۔ کسی کو وہ بتا بھی نہیں سکتا تھا کہ ان دنوں اس کی کیا حالت ہو گئی ہے۔ وہ تو اب جیتا تھا اور نہ مرتا تھا۔اتنے وسائل نہ تھے کہ وہ گھر چھوڑ دیتا اور کوئی دوسرامکان کرائے پر لے لیتا۔ گرچہ یہ مکان چھوٹا سا تھا اور وراثت میں ملا تھا۔ یہ بھی ممکن نہ تھا کہ اس نوجوان ہمسائے کو ہی اس کا گھر چھوڑنے پر مجبور کرتا۔ وہ لوگ برسوں سے وہاں رہ رہے تھے۔ یہ ان کا ذاتی وراثتی گھر تھا۔
کلیم کے بڑے بھائی کا تبادلہ ہونے کے باعث سارا کنبہ سیالکوٹ چلا گیا تھا اور یہ نوجوان تعلیم کی خاطر یہاں رکا ہوا تھا۔ چھپ چھپ کر جاسوسی کرنے کی کوشش میں ہر طریقے سے چاہا کوئی ثبوت ملے اور شک و شبہ کی ٹھنڈی آگ میں جھلسنے سے بچ جائے۔خود کو یہاں تک ذہنی طور پر تیار کر لیا کہ اگر بیوی کو اس نوجوان کے سامنے مسکراتے بھی دیکھ لیتا تو فور اطلاق دے دیتا، مگر معلوم تھا کہ اس سے اچھی بیوی پھر نہ ملے گی۔ اس اذیت ناک ذہنی کیفیت کے ہاتھوں جیتے جی موت کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ ہر صورت نجات پانا چاہتا تھا۔
کبھی کبھی اپنے دفتر میں بیٹھا ہوتا، یوں سوچتا جیسے اس کی بیوی نے کلیم کو گھر بلا لیا ہو گا۔ اور اب وہ اس کے ساتھ پیار کی باتیں کر رہی ہو گی، اس کے گلے میں بانہیں حمائل کر رہی ہو گی۔ تبھی دفتر سے اٹھ کر گھر کو چل نکلتا، راستہ بھر دعائیں کرتا جاتا یا اللہ آج تو میری مشقت کو ٹھکانے لگا۔ میری بیوی کو آج رنگے ہاتھوں پکڑ وادے۔ عین موقع پر اس نوجوان کے ساتھ دیکھوں تو شک شبہ کی دوزخ ٹھنڈی ہو، پھر تو ان کو ایسا مزہ چکھائوں گا کہ عمر بھر یاد کریں گے۔ ان کو موت کے گھاٹ ہی اتار دوں گا تو بھی افسوس نہ ہو گا۔
پھانسی پاکر کم از کم اس عذاب سے تو نجات مل جائے گی۔ ہر بار مگر اس مرد نادان کو مایوسی ہوتی۔ بیوی اس کی منتظر ہنس کر اس کا استقبال کرتی۔ کبھی کھانا پکار ہی ہوتی تو کبھی کپڑے استری کر رہی ہوتی، کبھی اور کام کاج ، وہ سارے گھر میں جھانکتا ، تلاشی لیتا، الماریوں میں ، ریلنگ کے نیچے ، چھت پر سیڑھیوں میں ، کونا کو نا چھان مارتا، جیسے یہ نوجوان آدمی نہ ہو مکھی مچھر ہو یا چوہا، کہ اس کے آتے ہی بل میں گھس گیا ہو۔
اب اکثر میرن میاں سے بیوی کی لڑائی رہنے لگی۔ کیونکہ وہ بات بات پر اس سے الجھ پڑتا تھا، اس کا کہیں آنا جانا بند کر رکھا تھا۔ وہ بیچاری کسی سے نہ مل سکتی تھی، کوئی گھر میں نہ آسکتا تھا، نوبت یہاں تک آپہنچی کہ گھر کو باہر سے تالا لگا کر جانے لگا۔ سیڑھیوں کے دروازے کو بھی تالا لگادیا تا کہ ثوبیہ اس کی غیر موجودگی میں چھت پر بھی نہ جاسکے۔ مسئلہ یہ تھا کہ اس کے کمرے کی کھڑکیاں کلیم کے گھر کی کھڑکیوں کے سامنے کھلتی تھیں، جب میرن نے کھڑکیوں کو کیلیں ٹھونک کر بند کرنا چاہا تو تو بیہ نے سخت احتجاج کیا کہ اس طرح کمروں میں ہوا اور روشنی بند ہو جائے گی ، اس کا دم گھٹے گا۔
اس نے مشورہ دیا کہ کھڑکیاں ٹھونک کر بند کرنے کی بجائے اسے چاہئے کہ وہ کسی ماہر نفسیات ڈاکٹر سے اپنا علاج کروائے کیونکہ اس کو وہم کی بیماری ہو گئی ہے۔اس بات پر وہ غصے سے پاگل ہو گیا۔ بیوی پر الزام لگایا کہ وہ اس نوجوان سے ، ان ہی کھڑکیوں کے ذریعہ بات چیت کرتی ہو گی لہٰذا ان کو بند کرنے پر واویلا کر رہی ہے۔ ثوبیہ میاں جی کی ان حرکتوں سے تنگ آچکی تھی۔ اس نے جواب دیا۔ بے شک یونہی سہی۔ اس ایک جملے کا سننا تھا کہ میاں جی کے تو سارے شکوک یقین میں بدل گئے اور اس نے ثوبیہ سے کہا۔ ٹھیک ہے اگر تم یہ اقرار کرتی ہو تو میں تم کو طلاق دیتا ہوں۔ تم جا کر اس سامنے والے ہمسائے نوجوان کلیم سے شادی کر لو۔
انہی دنوں کلیم امتحان پاس کر کے سیالکوٹ چلا گیا اور میرن کی بے چینی میں کمی آگئی۔ لیکن بد نصیبی جب پیچھے لگ جائے تو تعاقب اس وقت تک نہیں چھوڑتی جب تک کہ بر باد نہ کر دے۔ کیا واقعی میری بیوی بے عیب ہے۔ اب سوتے ، جاگتے، اٹھتے بیٹھتے یہی غم دل کو کھانے لگا کہ کیا خبر یہ اولاد کس کی ہو۔ مگر مجھے اب عمر بھر اس کو اپنا لخت جگر سمجھ کر پروان چڑھانا پڑے گا۔ کچھ ذہنی مریض مرد ایسے بھی ہوتے ہیں جو بیویوں پر شک کرتے ہیں تو اپنی اولاد ہی ان کی سزا کی زد میں آجاتی ہے۔ ایسے قصے تو ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔آه ! یہ کتنی بڑی زیادتی ہو گی۔ میرن سوچتا اس سے تو بہتر تھا کہ میں بے اولاد ہی رہتا۔ ایک بار تو شک و شبہ کے اظہار پر بیوی نے قرآن پاک بھی اٹھا لیا۔ مگر میرن کا دل صاف نہ ہوا۔ چند دن ٹھیک رہتا، پھر خیالوں کے بھوت پریت چمٹ جاتے۔
اللہ تعالی نے بیٹی سے نوازا۔ شفقت پدری سے دل پھٹنے لگا۔ بے اختیار ہو کر اس کو کلیجے سے لگالیا۔ بہر حال بچی کے جنم لینے سے کشیدگی ختم ہو گئی۔ دل میں جو کدورتیں بھر گئی تھیں ، کم ہو گئیں۔ اس کی غوں غاں میرن کا دل کھینچنے لگی۔ثوبیہ بھی بچی میں ایسی مشغول ہو گئی کہ پچھلی ساری تلخیاں بھلا کر بیٹی کی پرورش میں کھو گئی۔ اس نے اس کا نام ناز بی بی رکھا۔ اب بھی مگر کبھی کبھی اس کا دل گھبراتا تھا، بیٹھے بیٹھے ہول اٹھتے۔
ایک خلش سی جی کو پریشان کرنے لگتی۔ پرانے شکوک سر اٹھاتے اور وہ زبردستی دل میں ہی ان کا گلا گھونٹ دیتا۔ سوچتا اگر واقعی یہ میری بیٹی ہے تو ان شکوک کی وجہ سے میری اپنی اولاد تکلیف اور پریشانی میں مبتلا ر ہے گی۔ بہتر یہ ہے کہ ان سوچوں کی طرف دھیان نہ دیا جائے۔پالنے سے نکل کر ناز و گھٹنوں چلنے لگی۔ پھر پائوں پائوں ، یوں اس کی ہر ہر ادا پر میاں بیوی جی جان نچھاور کرتے رہے، گھر میں اس کے لئے کھلونوں کے ڈھیر لگا دیئے۔ سوتی جاگتی گڑیا، ناچنے والا بندر اور ڈرم بجانے والا بھالو ، ناز و میرن کی آنکھوں کا تارا اور دل کا سہار ا بن گئی۔اب تو لگتا تھا واقعی پچھلا وہم بھلا چکا ہے۔ اکلوتی بچی تھی، انہیں دنوں میرن کی سوئی ہوئی بد بختی ایک بار پھر جاگ پڑی۔ سامنے والا گھر جس میں وہ نوجوان ہمسایہ رہتا تھا، دوبارہ آباد ہو گیا۔ اسے ملازمت بھی اسی شہر میں مل گئی۔ اور وہ واپس اسی محلے میں ، اسی گھر میں لوٹ کر آگیا۔ گویا اب اس کو کہیں جانا ہی نہیں تھا۔
شومئی قسمت وہ میرن کے محکمے میں افسر آ لگا۔ اس کی موجود گی پھر سے سوہان روح ہو گئی تھی۔ اس پر ستم یہ کہ جب بھی ناز و بیٹی کھیلنے کو گلی میں نکلتی، کلیم باہر ہوتا تو وہ از خود دوڑ کر اس کی طرف چلی جاتی۔ بچے کس کو پیارے نہیں لگتے۔ وہ اپنی طرف ہمکتی معصوم بچی کو گود میں اٹھا لیتا۔ چاکلیٹ، کبھی بسکٹ دے دیتا۔ اور میرن سے کہتا۔ میاں جی، آپ کی بیٹی بہت پیاری ہے۔ میرن کے چہرے پر مصنوعی خوشی کے آثار ابھرتے مگر دل میں دھماکے سے ہونے لگتے۔ سوچتا شاید یہ اپنے ماضی کے اس کارنامے کو کلیجے سے لگائے خوش ہو رہا ہے اور مجھ کو احمق جان کر ہنس رہا ہے۔
میری بے وقوفی پر دل میں تو قہقہے لگارہا ہو گا کہ دیکھو کیسا الو بنا یا یہ میری اولاد کو پال پوس رہا ہے اور اس کو کچھ خبر ہی نہیں ہے۔میرن کا مرض و ہم پھر سے عود کر آیا۔ وہ اس صورتحال کو برداشت نہ کر پایا۔ ایک روز اس کے نوکر نے بتایا کہ کلیم صاحب آپ کی بچی سے بے حد پیار کرتے ہیں۔ یہ گلی میں کھیل رہی ہوتی ہے تو کہتے ہیں، اسے میرے پاس اٹھا کر لائو ، اس کی تو تلی زبان سے پیاری پیاری باتیں سنو، تو بوریت ختم ہو جاتی ہے۔میرن کی بچی دیر تک اس کے ساتھ کھیلتی رہتی، پھر وہ اس کو بسکٹ کا ڈبا بھی اور کوئی شے دے کر نوکر کے ہاتھ میرن کے گھر بھجوادیتا۔ میرن یہ بسکٹ کے ڈبے، ٹافیاں اٹھا کر کوڑے کے ڈبے میں پھینک دیتا اور بچی کے گالوں پر چانٹے مار تا تا کہ وہ پھر وہاں نہ جائے۔ یہ دیکھ کر بیوی بلک اٹھتی ، وہ چیخنے چلانے لگتی، تو جنونی اس پر برس پڑتا۔ ناحق ان کی اچھی بھلی زندگی پھر سے اجیرن ہو جاتی۔ اپنا افسر ہونے کے ناتے وہ کلیم کو کچھ کہہ نہ سکتا تھا۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس کو گولی مار دے یا خود سارے کنبے کے ساتھ زہر کھالے۔
ایک دن بیوی بیمار ہو گئی، تو اپنی خالہ کے ہمراہ ڈاکٹر سے دوا لینے چلی گئی، اس روز میرن نے آفس سے چھٹی لے لی۔ بچی پلنگ پر سورہی تھی۔ ذہن میں عجیب سا خیال کو ندا۔ اکثر اخبارات میں ایسی خبریں پڑھی تھیں کہ کسی نوجوان نے بیٹی کی پیدائش پر ناراض ہو کر اس معصوم کو پھینک دیا یا گزند پہنچانے کی سعی کی کہ بیٹی کیوں پیدا ہو گئی۔ میرن کو اس کے ساتھ ہی عجیب سا خیال آگیا کہ جس شخص نے برسوں سے میرے دل و ذہن کی دنیا میں تباہی مچارکھی ہے ، میں اس پر ایسا الزام لگا کر اپنے رقیب روسیا یعنی کلیم سے انتظام کیوں نہ لوں ؟
سچ ہے انتقام کی آگ بری ہوتی ہے۔ اس نے گھڑی دیکھی ، ہمسایے کے دفتر سے لوٹنے کا وقت ہو رہا تھا اور وہ اکیلا رہتا تھا۔ اس کا بوڑھا ملازم سودا سلف لینے اس وقت بازار گیا ہوا تھا، وہ نزدیک ہی گیا تھا لہٰذا تالا لگانے کی بجائے گیٹ کے باہر سے کنڈی لگا کر گیا تھا، یہ اچھا موقع تھا، پاس پڑوس میں سبھی جانتے تھے کہ کلیم ، میرن کی بچی سے پیار کرتا ہے اور کبھی کبھی وہ اس کے گھر میں بھی چلی جاتی ہے۔میرن کی بیوی گھر میں نہ تھی۔ سوتی ہوئی بچی کو اٹھا کر میرن تیزی سے کلیم کے گھر گیا اور اس کو بستر پر لٹا کر بلیڈ سے شدید زخمی کر دیا۔ بچی صدمے سے بے ہوش ہو گئی۔ ایسا کرتے وقت وہم کا اس پر غلبہ تھا اور اس نے انتقام میں اندھا ہو کر یہ بھی نہ سوچا کہ یہ تو میری اپنی بچی ہے۔ وہ تو اس کو ہمسایے کے گناہ کا بوجھ تصور کر کے زخمی کر چکا تھا۔
وہ تیزی سے واپس گھر آگیا، یہ گمان کر کے مجھے تو کسی نے بھی نہیں دیکھا ہے۔ چند منٹ بعد ہی دفتر سے کلیم آگیا۔ اس کے گھر میں داخل ہوتے ہی میرن ایک ہمسایہ لڑکے کے ہمراہ بچی کو ڈھونڈنے کے لئے نکلا۔ اس بہانے کلیم کے گھر میں دوبارہ چلا گیا۔ اس وقت بوڑھا ملازم بھی سودا لے کر آ گیا۔ان تینوں کے سامنے وہ چلانے لگا۔ پھر گلی میں نکل کر شور مچادیا۔ لوگ جمع ہو گئے اور پوچھنے لگے کہ کیا ہوا۔ کیوں شور ہے ہو ۔ کچھ بتائو تو سہی۔ اس نے کلیم کے گھر کی طرف اشارہ کیا۔ وہ گھر میں داخل ہو گئے جہاں بستر پر بچی زخمی حالت میں بے ہوش تھی اور اس کی دونوں کلائیاں بھی زخمی تھیں۔ کوئی بھی اس صورتحال کو سمجھ نہ پایا کہ نہ پایا لوگوں نے پولیس کو فون کر دیا۔
پولیس آ گئی، تفتیش ہوئی، بچی کو اسپتال لے گئے۔ قانون اندھا ہوتا ہے لیکن اس کے ہاتھ مضبوط ہوتے ہیں۔ جرم کرنے والا سمجھتا ہے کہ وہ ساری دنیا کو بے وقوف بنالے گا۔ مگر ساری دنیا کو تو کیا وہ صرف قانون کو بھی جل نہیں دےسکتا۔ بشرط یہ کہ قانون کے محافظ با ضمیر ہوں اور بکنے والے نہ ہوں۔ آخر کار مجرم پکڑا ہی جاتا ہے۔ اسی بنا پر بچی کے قتل کی کوشش کرنے کے الزام میں میرن بھی پکڑا گیا۔ شہادتوں سے کلیم بے گناہ ثابت ہو گیا۔
میران کو بالآخر اپنے جرم کا اقرار کر نا پڑا۔ سزا ہوئی۔ پھر قانونی سزا تو ختم ہو گئی مگر ضمیر کی سزا بھی تک ختم نہیں ہوئی۔ عمر بھر بھی ختم نہ ہو گی کہ ضمیر تمام عمر میرن کو سزا دیتارہے گا۔ بیوی چھوڑ کر چلی گئی ، وہ اس کی صورت دیکھنے کی بھی روادار نہ رہی اور بیٹی بھی جس کا وہ سامنا نہیں کر سکتا، اس سے نفرت کرتی ہے۔ اسے نفرت کرنا بھی چاہئے کہ وہ اس معصوم کا بھی تو مجرم ہے کہ جس کا اس سارے واقعہ میں کوئی قصور نہ تھا۔
خدا نے اس کی زندگی رکھنی تھی ورنہ اس شخص نے تو انتقام کی آگ میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ سچ ہے کہ ذہنی مریض بظاہر دیکھنے میں ٹھیک ٹھاک معلوم ہوتے ہیں لیکن وہ دراصل ٹھیک نہیں ہوتے۔ جب ایسے لوگ شدید و ہم میں مبتلا ہوں یا عجیب و غریب حرکتیں کریں تو ان کا علاج کرانا ضروری ہوتا ہے۔
(ختم شد)