حرامی شوہر

urdu stories 155

جس دن میں نے ایک متوسط گھرانے میں جنم لیا، دادی جان بہت روئی تھیں۔ امی بھی افسردہ تھیں، تبھی لیڈی ڈاکٹر نے کہا۔ آپ لوگ کیوں رورہی ہیں ؟ کیوں افسردہ ہیں بیٹی کی پیدائش پر ، جبکہ یہ چار بھائیوں کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ آپ کو تو خوش ہونا چاہئے، کیا بیٹی خدا کی رحمت نہیں ہوتی ؟ ہوتی ہے۔ دادی جان نے کہا۔ لیکن اس کی قسمت سے ڈر لگتا ہے۔ کیونکہ بیٹیاں بہت پیاری ہوتی ہیں اور ان کا دکھ دیکھا نہیں 
جاتا۔ جب میں بڑی ہو گئی تو ایک روز یہ ساری باتیں میری پھوپھی نے مجھے بتائی تھیں جو میرے رشتے کی تلاش میں پریشان تھیں۔ ان کا اپنا کوئی بیٹا، بیٹی نہ تھے۔ بے اولاد تھیں بیچاری۔

 وہ میرا کالج کا آخری دن تھا۔ تیز دھوپ میں بس اسٹاپ سے گھر کی طرف آتے ہوئے بدن پسینے سے نہا گیا اور چہرہ انگارے کی طرح سرخ ہورہا تھا۔ آتے ہی میں نے کتابیں میز پر رکھیں اور پانی پینے کو کولر کی طرف گئی تھی کہ گول کمرے سے باتیں کرنے کی آواز سنائی دی۔ قدم ٹھٹھک گئے، نامانوس آواز تھی۔ شاید کوئی مہمان تھے، تبھی امی آگئیں۔ بیٹی میں تیرا ہی انتظار کر رہی تھی، جلدی سے ہاتھ منہ دھو اور کپڑے بدل کر آجائو۔ امی کے حکم کی فوراً تعمیل کی اور جب کمرے میں پھپھو کے ساتھ دوا جنبی عورتوں کو بیٹھے دیکھا تو ماتھا ٹھٹک گیا۔ ایک عورت نے مجھے غور سے دیکھا، پھر پاس بلا کر پیار کیا۔ 

میں سمجھ گئی کہ یہ میرا رشتہ دیکھنے آئی ہیں۔ کچھ دیر وہاں بیٹھ کر میں اپنے کمرے میں چلی آئی، مگر اجنبی خاتون کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ ہم کو گھر بار نہیں دیکھنا ہے، ہمیں تو بس لڑکی پسند آگئی ہے۔ بہت خوبصورت ہے۔ کمرے میں آکر میں پلنگ پر دراز ہو گئی۔  آج پھپھو کی خوشی دیدنی تھی۔ ان کی یہ آرزو پوری ہوتی نظر آرہی تھی کہ ہماری بیٹی رانی امیر گھر کی بہو بنے اور راج کرے۔ جس روز یہ خبر سنی کہ شادی کا دن طے ہو گیا ہے ، دل ذرا سا پریشان ہوا۔ یہ سوچ کر کہ جن گھر والوں کے ساتھ عمر کا طویل حصہ ہنستے کھیلتے گزرا، ان سے دور چلی جائوں گی۔ اپنے پرائے بن جائیں گے ۔ وہ دن بھی آگیا جب والد صاحب نے سادہ طریقے سے میری شادی کر دی۔

 سکھیوں کے سنگ چند قدم چل کر ڈولی میں بیٹھی اور پیاسنگ ان کے گھر آگئی۔ زیور نہ جہیز ۔ یہی طے ہوا تھا۔ جب والد نے سر پر ہاتھ رکھ کر وداع کیا اور ماں نے بھیگی آنکھوں سے دیکھا تو اس لمحے جی بھر آیا۔ میں ایک حقیقت پسند لڑکی تھی اور فضول قسم کے رسم ورواج سے حجت نہ تھی لیکن یہ تو میر احق تھا کہ دولہا میرا استقبال کرے۔ وہ سہاگ رات بھی مطلق نہ بولے ۔ میکے سے واپسی پر اگلی راتوں کا بھی یہی سردرویہ دیکھ کر میں اداس ہو گئی۔ کیا میں زبردستی ان کے پہلے باندھ دی گئی ہوں ؟ جو یہ مجھے مصیبت سمجھ بیٹھے ہیں اور بادل ناخواستہ جھیل رہے ہیں۔ سوچ سوچ کر پریشان تھی۔ طبیعت پریشان رہنے کی وجہ سے صحت پر اثر پڑنے لگا حتی کہ بخار ہو گیا۔ بخار کیا ہوا کہ لوگ مجھ سے بدک گئے۔ کوئی میرے قریب نہ آیا۔ نندوں، بھاوجوں کا تو بڑا ساتھ ہوتا ہے لیکن میری نندوں نے میری طرف دیکھنا بھی گوارا نا کیا، تیمار داری تو کیا کرتیں۔ میرے کھانے پینے کی کسی کو فکر اور نہ کوئی پاس بیٹھا، کسی نے پانی کو بھی نہ پوچھا۔ بخار میں خود اٹھ کر پانی پیتی تھی۔ ان کا ایسا اخلاق دیکھ کر حیران رہ گئی۔ رواں رواں رو پڑا۔

 صائمہ تو کن پتھر دل لوگوں میں آگئی۔ یہ تیرے کچھ نہیں لگتے پر تو تو ان کی کچھ لگتی ہے، اس گھر کی بہو بن کر آئی ہے کسی سے برائی کی ہے اور نہ جھگڑا ہوا ہے۔ ابھی کل ہی تو آئی ہے، شکل بھی بری نہیں۔ آخر یہ سب کیا ہے؟ ہفتہ بھر بستر پر پڑی رہی تو طعنے ملنے لگے ۔ کھانے کو سب تیار لیکن کام سے بیمار بنے ہیں۔ میں نے دعا کی۔ یا اللہ مجھے صحت دے دے تا کہ اٹھ کر کام کروں اور ان سب پتھر دلوں کو خدمت سے موہ لوں۔ دواتو کجا کسی نے دعا بھی نہ دی۔ خود ہی کچھ روز بعد ٹھیک ہو گئی۔ نوکر چاکر تھے لیکن مجھ کو کام کرتے دیکھ کر ہی ان کو سکون ملتا تھا۔ میں کچن میں جت گئی تو ان کو سکون ہوا۔ ایک رات میں نے حاکم سے ان کے گھر والوں کا شکوہ کیا کہ کسی نے دوا دا و بھی نہ لا کر دی اور بیماری میں قریب نہ آئے تو جواب ملا۔ تم غریب لوگ نجانے اتنے حساس کیوں ہوتے ہو ؟ ارے بھئی بیمار سے دور رہنا چاہئے تاکہ دوسرے بیمار نہ پڑ جائیں۔ پڑھی لکھی ہو، جہالت پھر بھی نہیں گئی۔

 اگلے روز طعنہ دیا۔ ہلکا بخار ہی تو تھا، کام کاج کیوں چھوڑ دیا تھا۔ ان کے منہ سے یہ الفاظ سن کر دل کرچی کرچی ہو گیا۔  دن عجیب سے گزرنے لگے ۔ دن بھر کچن میں نت نئے کھانے بناتی لیکن کوئی مجھ سے خوش نہ تھا، الٹا طعنے ملتے۔ کچھ ؟ یہ کیوں نہ کیا؟ دیسی کھانے کون کھاتا ہے یہاں۔ ڈھنگ کا پکانا آتا ہے ؟ یہ کیوں کیا چاروں نندیں میرے نقص پکڑنے میں لگی رہتیں۔ کوئی عورت دلہن کو دیکھنے آتی، یہ شروع ہو جاتیں۔ کچھ ڈھنگ نہیں ہے۔ ماں نے تمیز نہیں سکھائی۔ ادب آداب سے تو بالکل ہی واقف نہیں ہے۔
 میں چپ چاپ ان کا منہ تکتی رہ جاتی۔ جب خود شریک زندگی میرے ساتھ نہ تھا تو کسی سے کیا شکوہ؟ دوماہ میں ہی غم سے آدھی رہ گئی۔ میرے لئے اس سے بڑا غم کوئی نہ تھا کہ کام چور تھی اور نہ بے ایمان اور بد تمیز تھی۔ آوارہ مزاج بھی نہ تھی پھر یہ لوگ کیوں مجھ سے بد ظن تھے۔ میکے گئی تو سبھی انگشت بدنداں تھے۔ ہر ایک نے کئی طرح کے سوال کئے۔ کوئی جواب بھی نہ دے سکی۔  حاکم بھی آدھی رات کو گھر لوٹتے، مجھے نیند نہ آتی۔ شادی سے پہلے تک کی زندگی بڑے سکون سے گزری تھی۔ دعویٰ تھا کہ ہر قسم کے حالات میں صبر سے گزار سکتی ہوں مگر یہاں آکر ضبط و تحمل کی تاب ختم ہو گئی۔ اکثر چپکے چپکے روتی اداس رہتی۔ یہ اداسی بھی میرے لئے عیب بن گئی، اس نے تو گھر میں نحوست پھیلا رکھی ہے۔

 ایک روز جبکہ شام گہری ہو رہی تھی۔ حاکم باہر سے آئے اور بغیر کھانا کھائے لیٹ گئے۔ میں ان کے پاس گئی اور پوچھا آپ کی طبیعت ٹھیک ہے ؟ جواب نہ دیا تو ان کے پاس بیٹھ گئی اور سر دبانے لگی تبھی یک لخت دھکا دے دیا کہ میں پیٹھ کے بل گر پڑی۔ بولے۔ کیا کنیز خرید کر لایا تھا؟ اسی لمحے پگھلتا ہوا سیسہ کانوں میں چلا گیا۔  اٹھ کر بیٹھ گئے، بولے ۔ ہماری سوسائٹی میں تمہاری جیسی بیوی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ 

میرا کیا قصور ہے ؟تم کو شوہر کو خوش رکھنا آتا ہی نہیں ہے بلکہ کسی کو بھی … سب کو خوش رکھنا چاہتی ہوں لیکن آپ کے گھر میں کوئی بھی مجھ سے راضی نہیں۔ آخر میں کیا کروں؟ کچھ مت کرو، بس تم ہماری جان چھوڑو اور میکے چلی جائو۔  ایک دن جبکہ ساس اپنی عادت کے مطابق مجھ پر بڑ بڑارہی تھیں ، امی آگئیں۔ ساس میرے نقائص گنوانے لگیں۔ اس گھڑی کو کوس رہی ہوں جب صائمہ کا رشتہ لیا تھا۔ ساتھ ہی امی کو بھی برابھلا بول گئیں۔ والدہ رنجیدہ ہو گئیں۔ میں ان کو اپنے کمرے میں لے آئی۔ 
وہ مجھے فوراً ساتھ چلنے کو کہنے لگیں۔ اس پر بات بڑھ گئی۔ انہوں نے امی کو برابھلا کہا اور امی مجھے مجبور کرنے لگیں کہ ساتھ چلو اور اب مزید یہاں میری بے عزتی نہ کرائو۔ ہماری ساس نے کہا۔ چلو چلو دونوں ہی اس گھر سے نکلو۔ تب میں برداشت نہ کر سکی اور والدہ کا ہاتھ پکڑ کر چلی آئی۔ اب بات چھپی نہ رہی۔ والد اور بھائیوں کو پتہ چلا وہ غصہ میں آگئے اور ان لوگوں پر تلملانے لگے ۔ والدہ کی اتنی تو ہین کون برداشت کرتا لیکن میں نے کسی طرح کے جھگڑے سے روکے رکھا۔ امید تھی حاکم مجھے کسی روز لینے آجائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ انہوں نے خط بھیجا کہ تم میرے گھر سے رقم اور زیور چوری کر کے لے گئی ہو۔ خط پڑھ کر والد آگ بگولا ہو گئے۔ بھائی تو تصادم پر آمادہ تھے لیکن میں نے ہاتھ جوڑ کر ان کو روک دیا۔

اب ہم دونوں گھروں میں مقدمے بازی ہو گئی۔ اپنے والدین کی پریشانی دیکھ کر مر مر جاتی۔ اف میرے خدا میں کا ہے کو پیدا ہو گئی، ان کی زندگیوں کو روگ لگا دیا۔ کاش پیدا نہ ہوتی، میری جگہ پانچواں بھی بھائی پیدا ہوتا۔ مقدمہ کافی عرصہ چلتا رہا، نتیجہ یہ کہ گھر پر غریبی اور اداسی چھا گئی۔ شریف لوگوں نے اس مقدمہ میں والد صاحب کی مدد کی اور الزام غلط ثابت ہو گیا۔ الٹا حاکم پر حرجانہ ہوا اور عدالت کے ذریعہ مقدمے کا خرچہ بھی اسی کو دینا پڑا۔

 والد صاحب نے تنسیخ کا دعویٰ کر دیا۔ میرا اب وہاں جانا ممکن نہ تھا، حاکم نے انتقاما مجھے لٹکایا ہوا تھا۔ مالی حالات اور کمزور ہو گئے تو میں نے ملازمت کی ٹھان لی۔ اس دور میں ملازمت بڑی ٹیڑھی کھیر تھی۔ کئی جگہ درخواستیں دیں۔ انٹرویو دینے جاتی تو لگتا کہ کچھ کی نگاہیں تو میرے سراپے کا ایکسرے کر رہی ہیں۔ گھبرا کر چلی آتی ۔ گھر سے باہر نکلی کب تھی۔ باہر کی دنیا کو فیس کرنے کی عادت ہی نہ تھی۔ قدم پھونک پھونک کر رکھتی، بالآخر ایک اچھی ملازمت حاصل ہو گئی۔ گھر میں غریبی نے جو ڈیرے ڈال رکھے تھے بالآخر اس کے نشان مٹنے لگے اور ہم آرام و سکون کی زندگی بسر کرنے لگے ۔

 سوچتی تھی اللہ تعالی نے حاکم جیسے شخص کا دست نگر نہیں رکھا تو بہتر ہی ہوا۔اس روز میں اپنے دفتری اوقات میں کام میں مشغول تھی وہ وہاں آ گیا۔ شر مندہ و نجل کھڑا تھا۔صائمہ ، ملازمت چھوڑ دو۔ لوگ میرا مذاق بناتے ہیں۔ میری بے عزتی مت کرائو پلیز۔ وہ لجاجت سے بولا۔ اس روز دنیا کا خیال نہ آیا جب مجھے عدالت میں کھینچا تھا۔ مجھ پر چوری کا الزام لگایا تھا۔ مجھے زمانے میں تماشا بنا کر رکھ دیا۔ اس روز تم کو لحاظ نہ آیا جب میرے خلاف اپنی والدہ اور بہنوں سے گواہیاں لیں۔ میں کوئی بھیک نہیں مانگ رہی۔
 میں تو ایک باعزت ملازمت کر رہی ہوں۔ سر بازار ناچ تو نہیں رہی۔ آج تم کسی تعلق سے حق لینے آگئے ہو۔ میں خود تو تمہارے گھر سے نہیں نکلی۔ مجھے اور میری ماں کو نکالا گیا ہے اور تم مجھے لینے بھی نہیں آئے بلکہ عدالت میں میری طلبی کرائی۔ مجھے معاف کر دو صائمہ ۔ حالات ابھی اتنے قابو سے باہر نہیں ہوئے۔ تنسیخ کا مقدمہ والد سے کہو واپس لے لیں۔ حاکم نے گڑ گڑا کر کہا۔میں یہی چاہتی تھی کہ وہ اپنے مقام کو پہچان لے۔ اسے اپنے سامنے گڑ گڑاتے دیکھ کر میرا دل ٹھنڈا ہو گیا۔ سکون کا سانس آیا۔ میرے انتقام کی بس اتنی سی ہی طلب تھی۔سب لوگ اب تم کو یاد کرتے ہیں۔ میں تباہ ہو کر رہ گیا ہوں۔ کیا تم ہمیں معاف نہیں کر سکتیں۔نہیں حاکم۔ اب تو عدالت ہی فیصلہ کرے گی۔ میں نے سختی سے جواب دیا۔ بالآخر وہ چلا گیا۔ عدالت نے میرے حق میں فیصلہ دیا تو یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ والدین نے سکھ کا سانس لیا۔ میں بظاہر بڑی کامیاب اور مطمئن زندگی گزار رہی ہوں۔ سکون و قرار پھر بھی نہیں ہے، نجانے سکون و قرار کہاں ملے گا، کب ملے گا؟
 آج پتہ چلا ہے کہ دادی کیوں میری پیدائش پر روئی تھیں اور امی کیوں افسردہ ہوئی تھیں، مگر پھپھو سے ایک ہی سوال ہے۔ اپنے سے اونچے لوگوں میں میری شادی کرا کر کیا خوشی اور سکون مل گیا۔ کیا یہ اچھا نہ تھا کہ اپنے برابر کے لوگوں میں رشتہ ہو جاتا لیکن خوشی اور سکون مل جاتا۔ یہی ایک سوال میرے جی کو پریشان رکھتا ہے جس کی وجہ سے میں خود ایک سوال بن گئی ہوں