Sublimegate Urdu Stories
فریبی عاشق - سبق آموز کہانی
قسط وار کہانیاں |
یہ لوگ ہمارے محلے میں نئے نئے آئے تھے، جن کے لڑکے تصوف سے میرے بھائی کی دوستی ہو گئی ، جو جلد دانت کاٹی روٹی والی سنگت میں بدل گئی لیکن ایک دن پھر دوستی دشمنی میں بدل گئی ۔ اس دشمنی کا سبب کوئی نہ جان پایا مگر وقیع بھائی نے تصوف سے قطع تعلق کر لیا۔ تصوف کے دل میں ایسی رنجش تھی کہ پر خاش نہ گئی۔ ہم تو نے تو اس بات کو ایک معمولی واقعہ سمجھ کر بھلا بھی دیا لیکن ایک روز جب پولیس ہمارے دروازے پر آئی تو ہم بھونچکا رہ گئے کیونکہ پولیس میرے بھائی وقیع کو اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ اس پر یہ الزام تھا کہ اس نے تصوف کی بہن سنبل نامی لڑکی کو اغوا کیا ہے۔
یہ رپورٹ تھانے میں تصوف نے درج کرائی تھی، جبکہ وقیع بھائی سنبل کو جانتے تک نہ تھے۔ ہم سب گھر والے بہت پریشان تھے۔ بھائی حوالات میں تھا اور اس کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ بڑا بھائی روزی کمانے کی خاطر سعودی عرب گیا ہوا تھا ۔ والد صاحب فوت ہو چکے تھے ۔ گھر میں ہم عورتیں بھلا تھانے کچہریوں کے چکرکو کیا جانتی تھیں۔
امی روتی ہوئی دو چار رشتہ داروں کے گھر گئیں۔ رشتہ داروں کو کیا مصیبت پڑی تھی کہ ہماری خاطر تھانے پولیس کی اوکھلی میں سر دیتے۔ آخرامی ایک وکیل کے پاس گئیں وہ میرے بھائی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ ان کو احوال بتایا، انہوں نے کافی فیس بتائی کہ ضمانت کروا دیں گے، پھر بھی کیس تو چلتا رہے گا۔ امی نے نے بڑی مشکل سے فیس کا بھی انتظام کر دیا اور یوں بھائی کی خاطر کوئی شخص حوالات تک گیا۔ ابھی یہ معاملہ آگے نہیں چلا تھا کہ پتا چلا اصل ملزم گرفتار ہو گیا ہے۔ سنبل بھی پولیس کے سامنے آ چکی تھی ۔ دونوں کو پولیس نے کوٹ مومن سے کچھ دور ایک گاؤں سے گرفتار کیا تھا۔ اس لڑکی کے بیان کی روشنی میں میرا بھائی تو رہائی پا گیا لیکن اس نادان لڑکی کا انجام برا ہوا ۔
امی روتی ہوئی دو چار رشتہ داروں کے گھر گئیں۔ رشتہ داروں کو کیا مصیبت پڑی تھی کہ ہماری خاطر تھانے پولیس کی اوکھلی میں سر دیتے۔ آخرامی ایک وکیل کے پاس گئیں وہ میرے بھائی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ ان کو احوال بتایا، انہوں نے کافی فیس بتائی کہ ضمانت کروا دیں گے، پھر بھی کیس تو چلتا رہے گا۔ امی نے نے بڑی مشکل سے فیس کا بھی انتظام کر دیا اور یوں بھائی کی خاطر کوئی شخص حوالات تک گیا۔ ابھی یہ معاملہ آگے نہیں چلا تھا کہ پتا چلا اصل ملزم گرفتار ہو گیا ہے۔ سنبل بھی پولیس کے سامنے آ چکی تھی ۔ دونوں کو پولیس نے کوٹ مومن سے کچھ دور ایک گاؤں سے گرفتار کیا تھا۔ اس لڑکی کے بیان کی روشنی میں میرا بھائی تو رہائی پا گیا لیکن اس نادان لڑکی کا انجام برا ہوا ۔
سنبل دراصل ایک دوسرے شخص خالد کے ساتھ چلی گئی تھی، جو ایک بڑھئی تھا اور تصوف کا مکان بنارہا تھا۔ خالد روز کام کی غرض سے تصوف کے گھر جاتا تھا۔ تصوف تو دفتر چلا جاتا ، ماں کام میں لگ جاتی سنبل کو اس سے بات چیت کا موقع مل جاتا تھا۔ یوں نجانے کب ان دونوں کی جان پہچان بڑھی کہ وہ بعد میں بھی سنبل سے ملتا رہا۔ ایک دن ایسا آیا کہ سنبل خاموشی سے گھر سے چلی گئی۔ وہ کہاں تھی اور کس کے ساتھ تھی ؟ گھر والوں کو کچھ خبر نہ تھی۔ گھر والے پریشان ہو گئے۔ جب انسان پر مصیبت آتی ہے تو چاہئے کہ وہ خدا تعالیٰ سے معافی مانگے لیکن تصوف اس بری گھڑی میں بھی برائی سے باز نہ آیا اور اس نے میرے بھائی کا نام محض شک کی بنا پر رپورٹ میں درج کروا دیا حالانکہ وہ جانتا تھا کہ وقیع بھائی کی اس کی بہن سے کوئی جان پہچان نہ تھی۔ میرے میرے بھائی نے تو سنبل کو دیکھا تک نہ تھا۔ یہ تو شکر ہوا کہ سنبل پولیس کو مل گئی ورنہ پتا نہیں میرے بھائی کا کیا حشر ہوتا۔
سنبل کی کہانی یوں پتا چلی کہ جب وہ شہر سے نکل کر بھاگے تو ان کو کوئی جائے پناہ نظر نہ آئی تھی خالد نے اس سے کہا کہ میں تم کو میں اپنے رشتہ داروں کے یہاں لئے چلتا ہوں وہ وہاں کے قریبی گاؤں میں رہتے ہیں۔ اگر ہم یہاں رہے تو مخبری ہو جائے گی اور ہم دونوں پکڑے جائیں گے۔ ہمیں نکاح سے پہلے پولیس کے ہاتھ نہیں آنا چاہئے۔ رشتہ داروں کے یہاں جا کر ہم نکاح کر لیں گے، پھر کسی بات کا ڈر نہ رہے گا۔ سنبل کیا جواب دیتی، اس کی اپنی عقل تو اس وقت ماری جا چکی تھی۔ وہ کلی طور پر خالد کے رحم و کرم پر تھی ۔خالد اس کو اپنے رشتہ داروں کے گاؤں لے آیا۔ یہ گھر اس کے ماموں زاد بھائیوں کا تھا۔
سنبل کی کہانی یوں پتا چلی کہ جب وہ شہر سے نکل کر بھاگے تو ان کو کوئی جائے پناہ نظر نہ آئی تھی خالد نے اس سے کہا کہ میں تم کو میں اپنے رشتہ داروں کے یہاں لئے چلتا ہوں وہ وہاں کے قریبی گاؤں میں رہتے ہیں۔ اگر ہم یہاں رہے تو مخبری ہو جائے گی اور ہم دونوں پکڑے جائیں گے۔ ہمیں نکاح سے پہلے پولیس کے ہاتھ نہیں آنا چاہئے۔ رشتہ داروں کے یہاں جا کر ہم نکاح کر لیں گے، پھر کسی بات کا ڈر نہ رہے گا۔ سنبل کیا جواب دیتی، اس کی اپنی عقل تو اس وقت ماری جا چکی تھی۔ وہ کلی طور پر خالد کے رحم و کرم پر تھی ۔خالد اس کو اپنے رشتہ داروں کے گاؤں لے آیا۔ یہ گھر اس کے ماموں زاد بھائیوں کا تھا۔
جب اس نے ان کو ساری بات بتائی تو انہوں نے اسے تسلی دی۔ کہا کہ تم فکر نہ کرو اور بے خوف ہو کر رہو۔ ہم ابھی تمہارے نکاح کا بندوبست کرتے ہیں۔ خالد اور سنبل مطمئن ہو گئے کہ اب محفوظ جگہ پر پہنچ گئے ہیں اور کل تک وہ میاں بیوی کے رشتے میں بندھ جائیں گے پھر ان کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ ادھر خالد کے ماموں زاد بھائی مولوی صاحب کو لانے کے بجائے سیدھے تھانے چلے گئے اور تھانے دار کو بتایا کہ ان کا رشتہ دار کسی کی بہن بیٹی کو اغوا کر کے لے آیا ہے۔ فوراً ہمارے ساتھ چل کر ضروری کارروائی کیجئے تا کہ کل ہم پر کوئی الزام نہ آئے ۔ ہم بے قصور ہیں اور اس کیس میں ملوث ہونا نہیں چاہتے ۔ یہ لوگ اس قدر خوف زدہ تھے کہ تھانے دار کے بغیر گھر جانا ہی نہیں چاہتے تھے ، مبادا ان کو بھی سنبل کے اغوا کے کیس میں ملوث جان کر گرفتار کر لیا جائے گا کیونکہ وہ ان کے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔
ادھر خالد اور سنبل بے خبر بیٹھے تھے پولیس پہنچ گئی اور دونوں کو گرفتار کر کے تھانے لے آئی۔ اب سنبل زار و قطار رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ وہ خالد کے ساتھ اپنی مرضی سے آئی ہے، وہ اس کو زبردستی نہیں لایا، کیونکہ وہ دونوں شرعی طریقے سے نکاح کر کے ایک ہونا چاہتے ہیں۔ انہیں یقین تھا کہ گھر والے اس امر پر کسی صورت راضی نہ ہوں گے، اس لئے انہوں نے یہ قدم اٹھا لیا تھا۔ پولیس والوں نے سنبل کے بھائی تصوف کو بلوا لیا۔ اس کو دیکھ کر سنبل کی حالت غیر ہو گئی۔ وہ ہاتھ جوڑ کر تھانیدار سے بولی۔ تھانے دار صاحب ! خدا کے لئے مجھے گولی مار دیجئے، لیکن اب گھر واپس نہ بھیجئے۔ میں اب گھر نہیں جاؤں گی، ورنہ گھر والے مجھ کو جان سے مار دیں گے۔ یہ مجھ پر گھر سے بھاگ جانے کے باعث قہر ڈھا دیں گے۔ مجھے ان کے حوالے نہ کرنا۔ اس نے تصوف کی طرف اشارہ کر کے کہا ، جس کی غصہ کے مارے بری حالت تھی کہ اس کی جوان بہن ، اس کی نظروں کے سامنے حوالات میں تھی ۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ اسی لمحے بہن کا گلا گھونٹ دے یا خود زمین میں سما جائے ۔
مقدمہ شروع ہوا۔ عدالت میں بھی لڑکی نے خالد کے حق میں بیان دیا ، لیکن جب خالد کی باری آئی، وہ اپنے بیان سے منحرف ہو گیا۔ اس نے سنبل کو پہچانے سے صاف انکار کر دیا۔ اب سنبل کی یہ حالت کہ جیتے جی مر گئی ہو۔ جس کی خاطر گھر ماں باپ اور اپنا شہر چھوڑا، رسوائی مول لی ، تھانے کچہری تک پہنچی، اس نے اپنانے سے انکار کر دیا۔ تاہم خالد تو سزا سے بچ گیا لیکن سنبل کو عورت ہونے کی وجہ سے معاشرے سے سزا ملنا لازم تھا۔ اس پر چہار جانب سے پھٹکار اور نفرت پڑی۔ ہر پناہ کا دروازہ اس پر بند ہو گیا حتی کہ اس کے بھائی نے بھی اس کو گھر لے جانے سے انکار کر دیا تھا۔خالد پہلے سے شادی شدہ تھا۔ وہ سنبل سے خفیہ شادی کرنے چلا تھا لیکن جب بات کھل گئی تو وہ پیچھے ہٹ گیا۔
ادھر خالد اور سنبل بے خبر بیٹھے تھے پولیس پہنچ گئی اور دونوں کو گرفتار کر کے تھانے لے آئی۔ اب سنبل زار و قطار رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ وہ خالد کے ساتھ اپنی مرضی سے آئی ہے، وہ اس کو زبردستی نہیں لایا، کیونکہ وہ دونوں شرعی طریقے سے نکاح کر کے ایک ہونا چاہتے ہیں۔ انہیں یقین تھا کہ گھر والے اس امر پر کسی صورت راضی نہ ہوں گے، اس لئے انہوں نے یہ قدم اٹھا لیا تھا۔ پولیس والوں نے سنبل کے بھائی تصوف کو بلوا لیا۔ اس کو دیکھ کر سنبل کی حالت غیر ہو گئی۔ وہ ہاتھ جوڑ کر تھانیدار سے بولی۔ تھانے دار صاحب ! خدا کے لئے مجھے گولی مار دیجئے، لیکن اب گھر واپس نہ بھیجئے۔ میں اب گھر نہیں جاؤں گی، ورنہ گھر والے مجھ کو جان سے مار دیں گے۔ یہ مجھ پر گھر سے بھاگ جانے کے باعث قہر ڈھا دیں گے۔ مجھے ان کے حوالے نہ کرنا۔ اس نے تصوف کی طرف اشارہ کر کے کہا ، جس کی غصہ کے مارے بری حالت تھی کہ اس کی جوان بہن ، اس کی نظروں کے سامنے حوالات میں تھی ۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ اسی لمحے بہن کا گلا گھونٹ دے یا خود زمین میں سما جائے ۔
مقدمہ شروع ہوا۔ عدالت میں بھی لڑکی نے خالد کے حق میں بیان دیا ، لیکن جب خالد کی باری آئی، وہ اپنے بیان سے منحرف ہو گیا۔ اس نے سنبل کو پہچانے سے صاف انکار کر دیا۔ اب سنبل کی یہ حالت کہ جیتے جی مر گئی ہو۔ جس کی خاطر گھر ماں باپ اور اپنا شہر چھوڑا، رسوائی مول لی ، تھانے کچہری تک پہنچی، اس نے اپنانے سے انکار کر دیا۔ تاہم خالد تو سزا سے بچ گیا لیکن سنبل کو عورت ہونے کی وجہ سے معاشرے سے سزا ملنا لازم تھا۔ اس پر چہار جانب سے پھٹکار اور نفرت پڑی۔ ہر پناہ کا دروازہ اس پر بند ہو گیا حتی کہ اس کے بھائی نے بھی اس کو گھر لے جانے سے انکار کر دیا تھا۔خالد پہلے سے شادی شدہ تھا۔ وہ سنبل سے خفیہ شادی کرنے چلا تھا لیکن جب بات کھل گئی تو وہ پیچھے ہٹ گیا۔
اب سنبل کے لئے کوئی راہ نہ تھی ۔ وہ کہاں جاتی؟ بالآخر اس کو دار الامان بھیج دیا گیا۔ وہ بہت دنوں دار الامان میں روتی رہی ۔ وہ اپنے گھر جانا چاہتی تھی ، گھر والوں سے معافی مانگنا چاہتی تھی مگر اس کو قبول کرنے کو کوئی تیار نہ تھا۔ خالد تو اب بھی اچھی زندگی بسر کر رہا ہے لیکن بد نصیب سنبل نجانے کس حال میں ہوگی ، یہ کون جانے؟ خواتین کے حقوق جو دین و قانون میں مقرر ہیں، ان کا احترام لازم ہے، لیکن معاشرے کو بھی ایک بار کی غلطی کو معاف کر دینا چاہئے تاکہ برائی جہاں سے شروع ہو، وہیں تھم جائے۔ بھول کو معاف کرنے میں ہی بہتری ہے، ورنہ برائی اور بڑھ جاتی ہے۔
Urdu
stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu
Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu
stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu
horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text,
Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories,
Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories,
Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories,
Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in
urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral
Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
0 تبصرے