محبت تباہی کا راستہ

sublimegate urdu stories

Sublimegate Urdu Stories

 محبت تباہی کا راستہ - اخلاقی کہانی

 تمام قسط وار کہانیاں پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
قسط وار کہانیاں

وہاڑی کے قریب ایک چھوٹے سے دیہات میں ہم رہا کرتے تھے۔ ہر طرف لہلہاتے کھیت تھے جو علاقے کی خوشحالی کے ضامن تھے۔ والد صاحب کی بھی 16 ایکڑ اراضی تھی، یہ زرعی زمین ہمارے گھر سے چند فرلانگ کے فاصلے پر تھی۔ والد صاحب اور چچا اجمل دو ہی بھائی تھے ، مل جل کر کاشت کرتے اور ان کے اتفاق کی گائوں والے مثال دیا کرتے تھے۔ یہ ایک دوسرے کا احترام کرتے اور دکھ سکھ کے سانجھی تھے۔

میرے تین بھائی تھے، دو مجھ سے بڑے اور ایک بہن چھوٹی تھی۔ اب ہمارے گائوں میں بھی تعلیم دلوانے کارجحان بڑھ رہا تھا لیکن والد صاحب کا دھیان اولاد کو تعلیم دلوانے کی طرف نہیں تھا۔ والدہ نے کہہ سن کر دونوں بیٹوں کو اسکول میں داخل کرایا لیکن ہم کو نہیں کیونکہ بابا جان کہتے تھے ، یہ لڑکیاں ہیں، بس قرآن مجید پڑھائو، اسکول بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک بار جبکہ ہمارے رشتہ داروں کے یہاں کسی کی شادی تھی، کچھ مہمان شہر سے بھی آئے تھے۔ وہ جب آئے سب ہی ان کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ وہ ایک کار میں خاصی شان و شوکت سے آئے تھے۔ ان کا لباس، بات چیت کا انداز ، رہن سہن اور طور طریقے سب سے الگ تھے ۔ ہم نے بابا جان سے پوچھا ہمارے یہ رشتہ دار کیسے ہوئے، یہ تو سب گائوں والوں سے مختلف ہیں اور شہر کے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا، پہلے یہ اسی گائوں میں رہتے تھے۔
 
 ان کے لڑکوں نے شہر جا کر پڑھنے کی ضد کی تو میرے چچازاد اکرم نے اپنے بچوں کی پڑھائی کیلئے شہر جانے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ یہاں ہائی اسکول نہیں تھا۔ انہوں نے اراضی فروخت کر کے شہر میں گھر خرید لیا، وہاں کچھ دکانیں بھی بنوا کر کرائے پر اٹھا دیں اور جوں توں کر کے لڑکوں کو کالج میں پڑھایا۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دونوں بڑے بیٹے ملازمت کرنے لگے ۔ ایک کو بینک میں نوکری ملی اور دوسرا فوج میں چلا گیا، تب ہی ان پر روزگار کے دروازے کھل گئے اور تعلیم سے رہن سہن بدل گیا۔ اب یہ دیہاتی نہیں رہے بلکہ شہری ہو گئے ہیں۔ والد صاحب کی باتیں سن کر ہم حیران رہ گئے ، گویا مان رہے تھے کہ علم سے زندگی سدھرتی ہے اور ترقی ہوتی ہے۔ 
 
اس کے باوجود تعلیم کو اولاد کیلئے ضروری نہیں سمجھتے تھے ، یہ کتنی عجیب بات تھی۔ اگر ہماری والدہ ہمت نہ کرتیں تو میرے دونوں بھائی اسکول نہ جا پاتے جبکہ سب سے بڑے بھائی انور کو تو بابا نے اپنے ساتھ کاشت کاری کے کاموں میں لگایا ہوا تھا۔ والد صاحب اپنی اراضی سے محبت کرتے تھے جیسے کہ اولاد سے کرتے تھے۔ انور کو وہ اپنا بازو کہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ لڑکے پڑھیں گے تو اراضی کون سنبھالے گا۔ یہ زمین ہی نہ فروخت کر دیں جو کہ ان کے باپ، دادا کی نشانی تھی۔ جس کی وجہ سے گائوں میں ان کو رزق میسر آتا تھا۔ شادی کی تقریب ختم ہو گئی تو شہری چچا اکرم کو والد صاحب نے اصرار کر کے چند روز ٹھہرا لیا تا کہ ان کے بچے گائوں کے ماحول کا لطف لے سکیں۔ وہ روز ان کو لے کر اراضی پر جاتے اور ان کے بچے کھیتوں میں گھومتے، ندی پر نہاتے اور بہت خوش ہوتے۔ 
 
عام دستور ہے کہ شہر والوں کو چند روز گائوں میں اور گائوں والوں کو شہر میں رہنا اچھا لگتا ہے۔ پس اکرم چچا کے چھوٹے بچے عرفانہ، شبانہ اور محسن بھی خوش تھے۔ بتاتی چلوں کہ اکرم چچا سے والد صاحب کا دہرا رشتہ تھا، وہ ان کے چچازاد بھی تھے اور خالہ زاد بھی، تب ہی آپس میں اپنائیت اور پیار اتنا تھا۔ ایک روز اکرم چچا نے بابا جان سے پوچھا، آپ کی بچیاں اسکول کیوں نہیں جاتیں؟ میرے بھائی لڑکیوں کا پڑھانا ضروری نہیں ہوتا، اسی لئے داخل نہیں کرایا۔ چھوٹے بھیا، یہ تم کیا غلطی کر رہے ہو ؟ تعلیم کے بغیر تو زندگی ادھوری ہے۔ ان پڑھ اور پڑھے لکھے انسان میں اندھے اور آنکھوں والے جتنا فرق ہے، ان کو پڑھنے دو۔ اکرم چچا نے سمجھایا۔ ان کے قائل کرنے پر والد نے ہم کو بھی اسکول میں داخل کرادیا۔ ان دنوں میری عمر آٹھ سال تھی اور چھوٹی بہن عابد 6 برس کی تھی۔ ہم اسکول جانے لگیں۔
 
 وقت گزرتا رہا اور میں پانچویں میں آگئی۔ جب میں نے سالانہ امتحان دیا اول پوزیشن لی تب ہی اسکول میں دھوم مچ گئی۔ لڑکیاں مجھ سے دوستی کی خواہاں ہو گئیں اور سب استانیاں پیار کرنے لگیں تو میں نے جانا کہ تعلیم ہی وہ چیز ہے جس سے انسان کی قدر ہوتی ہے اور عزت ملتی ہے۔ میں نے پوزیشن لی تو بے حد خوش تھی اور کچھ بننے کا خواب دیکھ رہی تھی۔ جن دنوں چھٹیاں تھیں چچا اجمل آئے اور والد سے کہا کہ زاہدہ کی منگنی منگنی میرے بیٹے حفیظ سے کر دو۔ منگنی بھی کر لیں گے ، ابھی یہ پڑھ رہی ہے ، مڈل پاس کرلے۔ پڑھتی رہے ، میں نے کب کہا ہے کہ نہ پڑھے ۔ ہم منگنی کر لیں گے تو اطمینان ہو جائے گا۔ بہرحال ان کے اصرار پر بابا جان نے میرا رشتہ حفیظ سے پکا کر دیا اور منگنی کی رسم ہو گئی۔

آٹھویں میں بھی میری اول پوزیشن آگئی لیکن آگے پڑھنے کا خواب دھرا رہ گیا۔ ہمارا اسکول ہی مڈل تک تھا۔ اتفاق کہ ان ہی دنوں ہمارے شہر والے چچا اکرم والد سے ملنے گائوں آئے۔ بھائی ساجد نے بھی میٹرک کر لیا تھا، انہوں نے والد سے کہا، چھوٹے بھائی ! اپنے دونوں بچوں کو میرے پاس شہر کیوں نہیں بھیج دیتے ، یہ لائق ہیں اور اول پوزیشن لیتے ہیں، ان کو آگے نہ پڑھانا بڑی زیادتی ہو گی۔ شہر جانے کے خیال سے ہم بہت خوش تھے، کبھی شہر دیکھا نہ تھا، چچا اکرم ہم کو ساتھ لے آئے۔ ان کا گھر دیکھ کر آنکھیں کھل گئیں۔ بہت شاندار بنگلہ تھا اور ٹھاٹھ سے رہتے تھے۔ دو بڑے بیٹے افسر تھے اور تین چھوٹے بچے بھی پڑھ رہے تھے۔ 
 
ہم بھی ان کے ہمراہ اسکول جانے لگے ۔ اکٹھے پڑھتے ، ہوم ورک کرتے، کھانا بھی ساتھ کھاتے۔ چچا کے بچوں سے ہماری دوستی ہو گئی۔ میں اور محسن ایک کلاس میں تھے جبکہ ساجد بھائی اور عرفانہ ہم جماعت تھے۔ والد صاحب ہر ماہ ہماری تعلیم کے اخراجات بھجوادیا کرتے تھے ، یوں وقت گزرنے لگا اور ہم تعلیم کی منازل طے کرنے لگے۔ میں اب کالج جاتی تھی اور 17 برس کی ہو چکی تھی، انگریزی میں کچھ دشواری ہوتی تو محسن سے مدد لے لیتی۔ رفتہ رفتہ ہم میں پیار بڑھنے لگا لیکن اپنے جذبات ظاہر نہ کرتے تھے۔ ایک روز میں نے دیکھا کہ بھائی ساجد لان میں عرفانہ سے عمر بھر ساتھ نباہنے کے عہد و پیمان کر رہا ہے تو یہ منظر دیکھ کر گھبراگئی۔ سوچا، اگر چچا اکرم کو اس بات کا شک ہو گیا یا محسن کو ہی پتہ چل گیا کہ ساجد اس کی بہن سے محبت کا چکر چلا رہا ہے تو میرے بھائی کا جینا محال اور ہمارا اس گھر میں رہنا ناممکن ہو جائے گا۔ پہلے تو خود کو سنبھالا اور محسن سے بات چیت میں اور محتاط ہوگئی پھر بھائی کو سمجھایا کہ عرفانہ سے فاصلہ قائم رکھو کیونکہ محسن اس معاملے میں بہت حساس ہے مگر میرے خدشے کو ساجد بھائی نے کچھ اہمیت نہ دی۔ 
 
کسی نے سچ کہا ہے کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے۔ ایک روز جبکہ چچا اکرم کہیں سے لوٹ رہے تھے ان کا گزر بازار سے ہوا۔ انہوں نے دیکھا کہ عرفانہ اور ساجد ساتھ رکشے میں جارہے ہیں جبکہ گھر میں گاڑی موجود تھی اور یہ کالج کا رستہ بھی نہ تھا۔ ان کو شک ہو گیا، کار رکشے کے پیچھے لگالی، کچھ آگے جا کر رکشا ایک ہوٹل کے سامنے رکا اور یہ دونوں اتر کر اندر چلے گئے۔ چچانے گاڑی ایک طرف کھڑی کر دی اور ان کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگے۔ کھانا کھا کر جب دونوں باہر آئے ، انہوں نے چچا اکرم اور ان کی گاڑی کو نہیں دیکھا، وہ تو اپنی دھن میں تھے۔ چچانے کار میں ان کا تعاقب کیا۔ یہ قریبی پارک میں جا کر بیٹھ گئے اور باتوں میں مگن ہو گئے۔ چچا اکرم کو بہت غصہ آیا کہ ایک گھر کہ میں اکٹھے رہ کر یہاں آبیٹھنے کی کیا ضرورت ہے، کیا گھر میں باتیں نہیں کر سکتے ، ظاہر ہے معاملہ صاف نہیں تھا۔ یہ تو محسن کے خوف سے گھر میں زیادہ بات چیت سے گریز کرتے تھے اور باہر آزادی سے باتیں کر سکتے تھے۔ بہر حال گھر آئے تو چچا منتظر تھے۔ کیا تم لوگ کالج سے آرہے ہو ؟
جی ابو ، عرفانہ نے فوراً جواب دیا۔ اس جھوٹ پر چچا کا رنگ بدل گیا لیکن اسی وقت محسن بھی آگیا تو وہ کچھ سوچ کر خاموش ہو گئے اور بات کو پردے میں رہنے دیا۔ بیٹے کے غصے سے واقف تھے اور مزاج سے بھی … سوچا ہو گا کہ بعد میں ان کو سمجھائوں گا کہ تعلیم کی طرف ہی دھیان رکھو۔ بعد میں انہوں نے اکیلے میں سمجھایا بھی کہ ساجد ! تم گائوں سے پڑھنے آئے ہو، ایک لائق طالبعلم ہو، لہٰذا اپنی تعلیم پر توجہ رکھو اور تعلیم کو ہی مقصد زندگی بنائو۔ اگر کہیں سیر و تفریح کو جانا بھی ہو تو مجھ سے کہو۔ میں گاڑی اور ڈرائیور دے دیا کروں گا، رکشوں میں یا پیدل کہیں آنے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ عرفانہ کو بھی اکیلے میں بلا کر ضروری جو بات سمجھانی تھی کہی۔ دونوں نے وعدہ کر لیا کہ پڑھائی پر توجہ مرکوز رکھیں گے اور تعلیم ہی کو مقصد زندگی سمجھیں گے لیکن یہ لفظی وعدہ تھا، یہ اسی طرح کالج جانے کا کہہ کر کلاس سے غیر حاضر ہو جاتے اور باہر ملتے ۔ ان کا جذبہ محبت ایک ہی چھت تلے پروان چڑھتارہا اور کسی کو پتہ نہ چلا، سوائے میرے اور چچا جان کے جنہوں نے راز کو فاش نہ کیا۔ 
 
چاہتے تھے گائوں کے یہ بچے جب اتنی دور پڑھنے آئے ہیں تو پڑھ ہی جائیں، اگر ان کو واپس بھیجا تو ان کا مقصد زندگی ضائع ہو جائے گا۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ ساجد بھائی اور عرفانہ کس حد تک باہر ملتے ہیں لیکن وہ دنیا ومافیہا سے بے خبر ایک دوسرے کو چاہنے لگے، یہ بات تو مجھے شدت سے محسوس ہو رہی تھی۔ اس وجہ سے میں خطرے کی بو سونگھ رہی تھی۔ میں اور محسن حالانکہ ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے لیکن ہم نے خود کو سنبھال لیا کیونکہ میری منگنی حفیظ سے ہو چکی تھی اور محسن جانتا تھا کہ اب میرا اس کے ساتھ رشتہ ہونا محال ہے تو اس نے صبر سے کام لیا، کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکالی جس سے میرا ذہن مزید منتشر ہو جاتا، البتہ وہ یہ ضرور کہتا تھا کہ زاہدہ ایسے مواقع بار بار نہیں ملتے جب کسی کو اپنی زندگی بنانے کا چانس قدرت اس طرح عطا کر دیتی ہے کہ جیسے تم کو ملا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اپنے والد کا اعتماد قائم رکھو اور اپنی تعلیم مکمل کر کے بہ خیر وعافیت گھر جائو۔
 
 مستقبل میں کیا ہو گا یہ بعد میں ہی دیکھا جائے گا۔ محسن کی ایسی باتوں سے میں دل ہی دل میں اس کے اچھے کردار کی معترف ہو جاتی کیونکہ وہ خود بھی وقت ضائع کرنے کی بجائے سنجیدگی سے تعلیم مکمل کر کے کچھ بننا چاہتا تھا جیسے کہ اس کے دونوں بڑے بھائیوں نے اعلیٰ ملازمتیں حاصل کر کے اپنے کنبے کو سدھار لیا تھا۔ سالانہ امتحان نزدیک تھے، بڑی جانفشانی سے ہم پرچوں کی تیاری میں لگے تھے، امتحان ختم ہو گئے تو والد صاحب کا پیغام ملا کہ اب تیاری کرو اور گھر آ جائو۔ اس روز میں اور ساجد گھر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ میرا بھائی نہانے کیلئے باتھ روم جانے لگا تو اس نے جیب سے بٹوا نکال کر میز کی دراز میں رکھ دیا۔ وہ ابھی باتھ روم میں ہی تھا کہ محسن اس کے کمرے میں گیا اور آواز دی… ساجد بھائی … موٹر سائیکل کی چابی کہاں ہے ؟ میز کے اوپر ہی رکھی ہے، انہوں نے غسل خانے سے جواب دیا، بس دو منٹ ٹھہرو، میں ابھی آکر دیتا ہوں۔
 محسن کو جانے کی جلدی تھی، چچا جان نے بابا جان کو مٹھائی بھیجوانی تھی، لہٰذا وہ اسی سلسلے میں موٹر سائیکل پر بازار جارہا تھا۔ اس نے ٹھیک سے سنا نہیں کہ ساجد نے کیا کہا ہے، وہ میز کی دراز کو کھول کر وہاں چابی تلاش کرنے لگا۔ ہمارے جانے کا وقت ہو رہا تھا۔ محسن نے سمجھا کہ شاید چابی بٹوے میں ہے۔ اس نے میرے بھائی کا بٹوا اٹھا لیا اور اس کو کھول کر دیکھا، اس میں چابی تو نہ ملی لیکن ایک تصویر مل گئی جو کہ عرفانہ نے ساجد کے ساتھ بنوائی تھی اور ایک اس کا لاکٹ بھی تھا۔

بہن کی یہ تصویر دیکھ کر محسن کا دماغ گھوم گیا، اس نے یہ چیزیں بٹوے سے نکال کر جیب میں ڈال لیں اور اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔ اتنے میں نہا کر اور کپڑے بدل کر ساجد باہر آ گیا۔اسے کچھ خبر نہ تھی، وہ کنگھے سے اپنے بال سنوار نے لگا کہ محسن اس کے کمرے میں ہاتھ میں ریوالور لئے داخل ہوا اور بغیر کچھ کہے اس پر فائر کر دیئے۔ سماجد، میرا بھائی… اس اچانک حملے سے شدید زخمی ہو گیا، وہ فرش پر گر کر تڑپنے لگا۔ فائر کی آواز پر سب ہی اس کمرے کو دوڑے جہاں ساجد خون میں لت پت فرش پر پڑا تھا۔ اسے فوراً اسپتال لے جانے لگے لیکن اس نے پہلے ہی دم توڑ دیا۔
 
 گھر میں کہرام مچ گیا کہ یہ کیا ہو گیا ؟ محسن ابھی تک وہیں کھڑا تھا، وہ اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں اور نہ بھاگنے کی کوشش کی، اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ اکرم چچانے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے ریوالور لے لیا اور دھکیل کر کمرے میں بند کر دیا۔ دس منٹ بعد پولیس کو خبر ہو گئی اور وہ موقع پر پہنچ گئی۔ انہوں نے موقع دیکھا اور لاش کو پوسٹ مارٹم کیلئے بھجوا دیا۔ محسن کو حراست میں لے لیا گیا اور قتل کا مقدمہ درج ہو گیا۔ جب گائوں اطلاع پہنچی تو وہاں لوگ سکتے میں آگئے۔ فوراً تیس کے قریب مرد و زن روانہ ہو گئے۔ یہ دیکھنے کو کہ کیا ہو گیا اور کیسے ہو گیا؟ امی اور بھائیوں کی حالت غیر تھی۔ بابا جان چچا اجمل کے ہمراہ فوراً آگئے۔ ٹرک پر لاش جب گائوں پہنچی تو وہاں بھی کہرام برپا تھا۔ سارا گائوں ہی سوگوار تھا۔ امی بیچاری تو بن جل مچھلی کی مانند تڑپ رہی تھیں۔ مقدمہ چلا تو چچا اکرم دوبارہ گائوں آئے اور والد صاحب سے معافی طلب کی۔
اپنی بیٹی عرفانہ کا رشتہ دینے کی پیشکش کی اور کہا کہ رشتے کے بدلے خون معاف کر دیں۔ بابا جان نے غصے سے جواب دیا کہ کیا محسن کو اپنے بیٹے کا خون معاف کر دوں ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ اکرم چچانے گائوں کے چند معزز آدمیوں کو اکٹھا کیا، دوبارہ آکر معافی طلب کی کہ میرے بیٹے سے طیش میں غلطی ہو گئی ہے ، آپ خدا کے واسطے اس کو معاف کر دیں اور ہم پر احسان کریں۔ گائوں والوں نے بھی کہا کہ یہ آپ کا عزیز ہے اور معافی کا خواست گار ہے۔ جو اس جہاں سے چلا گیا وہ تو واپس نہیں آ سکتا، اب دشمنی سے کوئی فائدہ نہیں۔ آپ احسان کریں کیونکہ صلح میں عافیت ہے۔ جب گائوں والوں نے والد صاحب پر بہت زور دیا تو وہ مان گئے مگر عرفانہ کا رشتہ لینے سے منع کر دیا۔ لوگوں نے کہا کہ اکرم خوشی سے بیٹی کارشتہ آپ کے بیٹے انور کو دینا چاہتا ہے ، دشمنی اسی طرح ختم ہو سکے گی جب آپ اس کی بیٹی کو اپنی بہو بنالیں گے ورنہ دل میں خندق رہ جاتی ہے اور دشمنی ختم نہیں ہوتی۔

جب میرے بھائی انور سے والد صاحب نے پوچھا تو اس نے عرفانہ کے ساتھ شادی سے صاف انکار کر دیا۔ اس نے کہا بابا جان سوچو تو سہی لوگ کیا کہیں گے کہ بھائی کو قتل کرنے والے کی بہن سے شادی رچالی۔ میں ہر گز عرفانہ سے شادی نہیں کروں گا ورنہ عورتوں میں چپقلش رہے گی اور سکون برباد رہے گا کیونکہ عورتیں چھوٹے دل کی مالک ہوتی ہیں، وہ ساجد کے قتل کو نہیں بھلا سکتیں۔ عرفانہ کو گھر میں موجود پاکر والدہ اور بہنوں کے دل سے ساجد کا دکھ کم نہ ہو گا۔ آپ ویسے ہی ان لوگوں کو اپنے بیٹے کا خون معاف کر دیں لیکن ان سے عرفانہ کار شتہ مت لیں۔ والد بھی چاہتے تو یہی تھے لیکن گائوں کے معززین کے دبائو میں آچکے تھے۔ بیٹے کو ہی سمجھانے لگے کہ انور بیٹا، رسم یہی ہے۔ 
 
میں نے تو اس لئے معاف کر دیا ہے کہ اللہ راضی ہو لیکن تم بھائی کا خون ایسے معاف کرو گے تب بھی گائوں والے تم کو بے غیرت کہیں گے۔ بہتر ہے کہ ہم عرفانہ کا رشتہ قبول کر لیں۔ اکرم کو تسلی ہو جائے گی کہ ہم نے دشمنی کو ختم کر دیا ہے کیونکہ اس کی بیٹی ہماری بہو بن چکی ہے۔ انور بھائی نے والد صاحب کے کہنے پر عرفانہ سے شادی کر تو لی اور وہ بہو بن کر ہمارے گھر آ بھی گئی لیکن ہمارے دل میں اب اس کیلئے محبت کے جذبات کا جنم لینا ممکن نہ تھا۔
امی صابر تھیں چپ رہتی تھیں مگر ہم بہنیں چپ نہ رہ سکیں۔ خاص طور پر میری ہر وقت عرفانہ سے تکرار اور ان بن رہنے لگی۔ جب موقع ملتا بات بے بات اس سے الجھتی اور اس کو ساجد بھائی کی موت کی وجہ قرار دے کر قاتل کی بہن ہونے کا طعنہ دیتی تھی۔ وہ بھی آخر انسان تھی وہ بھی مجھ سے نفرت کرنے لگی اور جھگڑے کا جواب جھگڑے سے دینے لگی۔ اس روز روز کی تکرار پر انور بھائی پریشان رہنے لگے۔ اس نے کئی بار ہم کو روکا کہ اب جھگڑا نہیں کرنا، جو ہوا سو ہوا مگر میرا دل صاف نہ ہو سکا۔ ایک روز میں بھابی عرفانہ پر طعنہ زنی کر رہی تھی کہ ہمارا جھگڑا شروع ہو گیا۔ اتفاق سے اس وقت بھائی انور گھر میں داخل ہوا، اس کے ہاتھ میں کلہاڑی تھی۔
 
 اس نے ہم کو جھگڑنے سے منع کیا اور چپ رہنے کی تلقین کی لیکن ہم دونوں ہی چپ نہ ہوئیں اور زیادہ بلند آواز سے جھگڑنے لگیں۔ باہر سے بھائی نہ جانے کسی پریشانی میں گھر آیا تھا کہ اس نے ہم پر کلہاڑی سے حملہ کر دیا۔ پہلا وار بیوی پر کیا، کلہاڑی اس کے سر میں لگی اور خون بہنے لگا، دوسر اوار مجھ پر کر دیا۔ میں مڑی لیکن میرا باز و کلہاڑی کے وار کی زد میں آگیا اور زخمی ہو گیا۔ ہم دونوں کو اسپتال لے گئے۔ میں تو زندہ بچ گئی لیک عرفانہ اللہ کو پیاری ہوگئی۔ انور بھائی کو پولیس لے گئی اور اسے جیل ہو گئی۔ اس واقعے کو سہنے کی تاب ہمارے والدین میں کب تھی، وہ تو پہلے ہی ساجد کے قتل سے ادھ موئے ہو چکے تھے۔ ماں صدمے سے چل بسی اور باپ کو دل کا دورہ پڑ گیا۔ ہمار اہنستا بستا گھر تباہ ہو گیا۔

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے