یہ کہانی جسم فروشوں، منشیات فروشوں اور ظالم درندوں کے خلاف ایک نوجوان کی جنگ کی ہے۔ایک دلچسپ، رومانوی اور ایکشن سے بھرپور کہانی جو آپ کے دل پر راج کرے گی۔اس خطرناک سفر میں ایک حسین دوشیزہ کا ساتھ اس نوجوان کے لیے کامیابی کے دروازی کھول دیتا ہے۔وہ حسین قاتلہ جس کا نام سن کر بڑے بڑے غنڈوں پر لرزہ طاری ہو جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔
وہ سردیوں کی ایک رات تھی، دو بجے کا وقت ہو رہا تھا، پولیس نے ایک حویلی کو گھیرے میں لے رکھا تھا، وہ حویلی آدھی جلی ہوئی تھی، اور آسیب زدہ سمجھی جاتی تھی، کیونکہ ایک سال پہلے اس حویلی میں چوہدری برکت اللہ کے دشمنوں نے آگ لگا کر پورے خاندان کے بائیس افراد کو زندہ جلا دیا تھا۔
اس حویلی میں کچھ پر اسرار سر گرمیاں دیکھائی دی تھیں، جس کی اطلاع پولیس کو دی گئی تو بھاری نفری کیساتھ پولیس نے اس حویلی کو گھیرے میں لے لیا،پولیس والوں کی تعداد چالیس سے کم کسی طرح بھی نہیں تھی، پولیس کی اس پارٹی کی قیادت ایک ڈی۔ایس۔پی کر رہا تھا، جب کہ دو انسپکٹر بھی تھے،پولیس والے درختوں کی آڑ لیے رائفلیں سنبھالے کھڑے تھے۔
ڈی ایس پی نےمختلف سمتوں میں کھڑے دونوں انسپکٹروں کو مخصوس سگنل دیا تو چاروں طرف سے پولیس کے نوجوان آگے بڑھنے لگے اور حویلی سے چند قدم کے فاصلے پر رک گئے، ڈی۔ایس۔پی نے ایک میگا فون کا بٹن دبایا اور اور ہونٹوں سے لگاتے ہوئے بولا: یہ حویلی چاروں طرف سے پولیس کے گھیرے میں ہے، اندر جو بھی لوگ موجود ہیں وہ ہاتھ اٹھا کر باہر آ جائیں، یہ پہلی اور آخری وارننگ ہے، میں پانچ تک گنوں گا، اگر تم لوگ باہر نہیں آئے تو حویلی پر دھاوا بول دیا جائے گا۔
اس کے ساتھ ہی گنتی شروع ہو گئی، پانچ کہنے کے بعد بھی خاموشی رہی، ڈی۔ایس۔پی نے چند سیکنڈ اانتظار کیا پھر اپنے ماتحتوں کو سگنل دے دیا، پولیس والے اپنی اپنی کمین کاہوں سے نکل کر حویلی کی جانب دوڑ پڑے، لیکن وہاں کچھ نہیں تھا۔پولیس والوں نے طاقتور ٹارچوں سے حویلی کا کونا کونا چھان مارا لیکن وہاں کسی انسان کا وجود نہیں تھا۔
ڈی۔ایس۔پی نے اپنے قریب کھڑے انسپکٹر کی طر ف دیکھتے ہوئے کہا: حیرت ہے، سب کہاں غائب ہو گئے ہیں، حالانکہ اطلاع دینے والے نے حلفیہ طور پر کہا تھا کہ اسمگلر اس حویلی میں موجود ہیں، لیکن یہاں تو کسی کا نام نشان بھی نہیں ہے۔ انسپکٹر نے جواب دیا: ہو سکتا ہے یہ اطلاع ہمیں کسی نے گمراہ کرنے کے لیے دی ہو؟ مطلب ہمیں ادھر الجھا کر اسمگلروں کی پارٹی کسی اور طرف سے نکل گئی ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے وہ لوگ ہمارے آنے سے پہلے ہی نکل گئے ہوں؟
ڈی۔ایس۔پی نے تمام نوجوانوں کو واپسی کا حکم دے دیا، تمام نفری دو ٹرکوں میں اور انسپکٹر اپنی اپنی جیپوں میں شہر کی جانب روانہ ہو گئے،
تھوڑی دیر بعد اس ادھ جلی حویلی کے اندر زندگی کے آثار نظر آنے لگے۔
حویلی کا ایک کمرہ جس کی آدھی چھت گر چکی تھی، کسی کی موجودگی کا پتہ دے رہا تھا، اس کمرے کے ایک کونے میں فرش کا ایک حصہ چاک ہونے لگا، اس میں ایک تاریک خلا پیدا ہو گیااس خلا سے پہلے ایک انسانی سر برآمد ہوا، پھر ایک آدمی باہر نکل آیا۔پھر تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا حویلی کے آس پاس دور دور تک دیکھنے لگا، یہ اطمینان کر لینے کے بعد کہ قرب و جوار میں کوئی موجود نہیں ہے، وہ واپس اسی کمرے میں آیا اور سیڑھیاں اترتا ہوا ایک تہ خانے میں چلا گیا۔
اس تہ خانے کا علم کسی کو نہیں تھا، اس کا راز یہ تو اس حویلی کا مالک برکت اللہ جانتا تھا، جو اس حویلی میں ایک سال پہلے جل کر خاک ہو گیا تھا ، یا پھر اس کا دوست ماجھا گجر جانتا تھا جو اکثر حویلی آیا کرتا تھا۔اس تہ خانے میں پانچ آدمی موجود تھے، ان میں سے ایک پینٹ شرٹ پہنے ایک نوجوان آدمی تھا جس کی عمر لگ بھگ اٹھائیس سال ہو گی۔اس کا نام شارق تھا۔
باقی چاروں آدمی چہروں سے دیہاتی، اجڈ اور چھٹے ہوئے بدمعاش لگتے تھے۔ان چاروں میں ایک کا نام ماجھا گجر تھا، وہ حیران ہو رہا تھا کہ پولیس کو اطلاع کس نے دی؟ماجھا گجر کو یہ دھندا کرتے کئی سال گزر گئے تھے لیکن کسی میں ہمت نہیں تھی کہ کوئی اس کی مخبری کرتا، ان چاروں نے اس شہری بابو پر شک کا اظہار کیا۔
لیکن شارق نے اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا: اگر میں مخبری کرتا تو خود کبھی بھی یہاں نہ آتا،لیکن ان سب کا خیال یہی تھا کہ مخبری شارق نے کی ہے، جب شارق نے دیکھا کہ وہ بری طرح پھنس رہا ہے، اور یقیناً یہ لوگ اسے مار کر اس تہ خانے میں ڈ ال دیں گے تو اس نے ایک فیصلہ کیا اور اچانک ہی د ائیں طرف کھڑے ایک آدمی پر جھپٹا۔
دوسرے ہی لمحے اس آدمی کے ہاتھوں میں پکڑی کاشنکوف شارق کے ہاتھوں میں تھی۔شارق نے ماجھے گجر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ہاں میں نے ہی پولیس کو مخبری کی تھی لیکن مجھے اس تہ خانے کا علم نہیں تھا، اگر معلوم ہوتا تو اس وقت تم سب پولیس کی حراست میں ہوتے۔
ماجھا گجر غصے سے چلایا: اوئے مقصود ۔۔ تاج ۔۔ پکڑو اس کو، ان لوگوں نے اپنی اپنی رائفلیں سیدھی کرنے کی کوشش کی لیکن شارق نے بڑی پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے پیروں کے قریب برسٹ مار دیا۔تہ خانہ گولیوں کی آواز سے گونج اٹھا۔پھر شارق الٹے پاؤں تہ خانے کی سیڑھیاں چڑھنے لگا، اور پھر اوپر کمرے میں چھلانگ لگا دی اور دروازے کے طرف دوڑا۔
ما جھا گجر او ر اس کے ساتھی بھی تہ خانے کی سیڑھیوں پر دوڑتے ہوئے کمرے میں پہنچے، لیکن شارق تیزی سے ایک ٹوٹی دیوار کی جانب دوڑنے لگا اور پھر چھلانگ لگا کر ا س پر چڑھ گیا۔ماجھا گجر نے شارق کو دیوار پھلانگتے دیکھ لیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا: وہ رہا اس طرف گولی مار دواسے۔ اس کیساتھ ہی فضا ایک بار پھر گولیوں کی آواز سے گونج اٹھی، کئی گولیاں شارق کی قریب سے گزر گئیں۔ایک گولی شارق کے ہاتھ میں پکڑی رائفل پر لگی اور رائفل اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی، رائفل دیوار کے اند کی طرف گری تھی اور شارق دوسری طرف چھلانگ لگا چکا تھا، اس نے سنبھل کر درختوں کے جانب دوڑ لگا دی۔
ٹبے سے اتر کر وہ کھیتوں میں پگڈنڈی پر دوڑنے لگا، ایک بار فضا فائرنگ کی آواز سے گونج اٹھی، لیکن اب شارق کافی دور نکل آ یا تھا۔وہ دوڑتا ہوا نصف میل دور کچی سڑک پر نکل آیا، اس نے مڑ کر دیکھا، تاریکی میں کچھ دور دو سائے دوڑتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔وہ بے تہاشہ دوڑتا رہا، اس کا سانس بری طرح پھول چکا تھا، قدم لڑکھڑا رہے تھےلیکن وہ رکنا نہیں چاہتا تھا۔رکنے کا مطلب اذیت ناک موت کے سوا کچھ نہ ہوتا۔وہ کئی میل تک دوڑتا رہا آخر ایک نہر نے اس کا رستہ روک لیا۔
نہر تقریباً بیس فٹ چوڑی تھی اور کافی گہری تھی، شارق نے ایک بار پھر مڑ کر دیکھا، وہ دونوں سائے ابھی تک دوڑتے ہوئے آرہے تھے، شارق کسی حد تک اپنے تنفس پر قابو پا چکا تھا لیکن وہ بیس فٹ چوڑی نہر کو عبور نہیں کر سکتا تھا، موت کے فرشتے سر پر پہنچ رہے تھے۔ اس کے سامنے اب ایک ہی راستہ تھا، وہ نہر میں اتر گیا، نہر کا پانی برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔وہ کانپ کر رہ گیا لیکن ان موت کے فرشتوں کے مقابلے میں یہ ٹھنڈا پانی قابل برداشت تھا۔
پانی اس کے سینے تک آ گیا، وہ آہستہ آہستہ دوسرے کنارے کی جانب بڑھتا رہا، دوسرا کنارہ اس سے صرف پانچ فٹ دور رہ گیا ، اچانک اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا، موت کے وہ فرشتے اس کے سر پر پہنچ گئے تھے۔شارق تیزی سے آگے بڑھنے لگا، نہر کے دوسرے کنارے پر جھاڑیاں تھیں، وہ نہر سے باہر نکلنا چاہتا تھا کہ اسے خیال آیا : اگر وہ پانی سے باہر نکلا تو موت کے فرشتے اسے گولیوں سے چھلنی کر دیں گے۔
شارق ادھر ادھر دیکھنے لگا، دائیں طرف نہر میں ایک کٹاؤ سا نظر آ یا، وہ تیزی سے اس میں گھس گیا، یہاں پانی اس کی گردن تک تھا، وہ کنارے کیساتھ لگ کر جھاڑیوں میں چھپ گیا، کچھ ہی دیر بعد اسے دوسرے کنارے پر دو سائے نظر آئے، ان دونوں کے پاس رائفلیں تھیں اور وہ بری طرح ہانپ رہے تھے، ان میں سے ایک بولا: یہاں تک تو میں نے اسے دیکھا تھا لیکن وہ آگے کہاں جا سکتا ہے؟ دوسرے نے کہا: ہو سکتا ہے وہ نہر پار کر کے دوسری طرف چلا گیا ہو؟ اگر وہ زیادہ دور نکل گیا تو شہر پہنچ جائے گا پھر اسے پکڑنا مشکل ہو جائے گا۔
وہ دونوں بھی نہر میں اتر گئے، انہیں نے اپنی اپنی رائفلیں سر سے اوپر کر لیں، کچھ ہی دیر میں وہ دوسرے کنارے پر آ گئے، پہلا آدمی بولا: یہاں تو ایسے کچھ آثار دیکھائی نہیں دے رہےجن سے یہ اندازہ ہو کہ وہ اس جگہ نہر سے باہر نکلا ہو گا۔یہ بھی ہو سکتا ہے وہ کچھ آگے جا کر باہر نکلا ہو۔شارق سانس روکے پانی میں دبکا ان کی باتیں سن رہا تھا، وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر تیز سانس لی یا پھر ذرا سی بھی حرکت کی تو جھاڑیوں کی سر سراہٹ سے وہ دونوں اس کی طرف متوجہ ہو جائیں گے۔پھر اس کی زندگی کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی تھی۔
وہ دونوں نہر کے کنارے کنارے چلنے لگے، ان کے جوتوں میں پانی بھرا ہوا تھا، جس سے آواز پیدا ہو رہی تھی، جب آواز آنا بند ہو گئی تو شارق بڑی احتیاط سے جھاڑیوں کو ہٹا تا ہوا نہر سے باہر نکل آیا۔اس نے جوتوں سے پانی نکالا اور تیزی سے کچھ دور نظر آنے والی روشنیوں کی جانب چل پڑا، چلنے سے جسم میں حرارت محسوس ہو رہی تھی۔تقریباً ایک گھنٹے بعد وہ ایک پکی سڑک پر پہنچ گیا، سڑک سنسان اور تاریک تھی، شارق دائیں بائیں دیکھنے لگا، وہ ان دونوں کی مخالف سمت جانا چاہتا تھا تا کہ ان سے سامنا نہ ہوسکے۔
وہ راوی پل کے قریب سبز منڈی پہنچ جاتا تو اسے کوئی سواری مل سکتی تھی، پھر شہر پہنچ کر ان موت کے فرشتوں سے دور نکل جاتا،لیکن سبز منڈی کئی میل دور تھی اور پیدل چل کر جانے کی سکت نہیں تھی، اس کے جوتے اور کپڑے کیچڑ میں لت پت تھے۔
وہ کچھ دیر ایک ٹاہلی کے درخت کہ آڑ میں کھڑا رہا پھر سڑک پر آنے کی بجائے کھیتوں میں دائیں طرف چلنے لگا، ابھی وہ چند گز ہی دور چلا تھا کہ سڑک پر دو آمیوں کو دیکھ کرچونک گیا، وہ دونوں نشیب سے نکل کر اچانک ہی سامنے آئے تھے، تاریکی ہونے کے باوجود ان کے ہاتھوں میں کلا شنکوف رائفلیں صاف نظر آ رہی تھیں۔
شارق ایک دم پودوں میں دبک گیا، وہ دونوں ایک کچے راستے پر آ کر رک گئے، ان میں سے ایک بولا: وہ کہیں بھی نظر نہیں آیا ہم نے ادھر بھی سارا علاقہ چھان مارا ہے اور اس طرف بھی اس کی کوئی خبر نہیں ہے، وہ کہاں غائب ہو گیا ہے، اگر وہ زندہ بچ گیا تو ماجھا گجر ہمیں موت کے گھاٹ اتار دے گا۔ابھی وہ باتیں کر رہے تھے کہ اچانک ایک طرف سے ایک ٹریکٹر ٹرالی کی آواز سن کو چونک گئے۔
اس ٹرالی پر پٹھے یا سبزی ہو سکتی تھی جو سبز منڈی لے کر جا رہے تھے، ان دونوں نے رائفلیں نکال لیں اور ٹریکٹر کو رکنے کا اشارہ کیا، جب ٹریکٹر رک گیا تو ایک نے پوچھا : تمہارے ساتھ اور کون ہے؟ دیہاتی ڈرائیور نے جواب دیا: میرا چھوٹا بھائی ہے وہ ٹرالی پر لدے پٹھوں کے اوپر سو رہا ہے۔پہلے آدمی نے دوسرے کوا شارہ کیا کہ تم ذرا اوپر جا کر دیکھو۔
شارق پودوں میں دبکا بیٹھا تھا، ٹرالی سے اس کا فاصلہ دس پندرہ فٹ سے زیادہ نہیں تھا، ان کی باتیں اسے صاف سنائی دے رہی تھیں، جب وہ آدمی ٹرالی پر چڑھ کر اچھی طرح تسلی کرکے آ گیا کہ شارق اس ٹرالی پر بھی نہیں تھا۔اس آدمی نے کہا: مجھے لگتا ہے وہ سبز منڈی کی طرف گیا ہو گا، ہمیں بھی اس ٹرالی میں سبز منڈی جانا چاہیئے، ہو سکتا ہے وہاں اس سے سامنہ ہو جائے۔وہ دونوں اس ٹریکٹر ٹرالی پر سوار ہو گئے۔
ٹریکٹر ٹرالی کھیتوں والے کچے راستے سے نکل کر پکی سڑک پر پہنچ چکی تھی، جب ٹرالی کافی دور نکل گئی تو شارق پودوں سے باہر نکل آیا اور سڑک پر آ گیا، سڑک ایک بار پھر ویران ہو چکی تھی، اچانک دور سے ایک اور ٹریکٹر کی آواز سن کر وہ درخت کی آڑ میں ہو گیا، اس ٹریکٹر ٹرالی پر بھی پٹھے لدے ہوئے تھے، شارق نے اطمینان کر لیا کہ اس ٹریکٹر ٹرالی پر ڈرائیور کے علاوہ کوئی بھی نہیں ہے، اس نے ٹریکٹر کو رکنے کا اشارہ کیا۔ ڈرائیور سے اسے گھورتے ہوئے کہا: کیا بات ہے بھئی کون ہو تم؟
شارق نے جواب دیا : میں گاؤں سے آ رہا تھا کہ ڈ اکو میری موٹر سائیکل چھین کرلے گئے ہیں، وہ مجھے بھی قتل کردیتے مگر میں نے بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی ہے۔اگر تم مجھے سبزی منڈی تک پہنچا دو تو بڑی مہربانی ہو گئی۔ڈ رائیور نے شارق کو ٹرالی میں بیٹھ جانے کا کہا۔
رات کی تاریکی ہلکے اجالے میں تبدیل ہونے لگی، دس منٹ کے بعد وہ منڈی پہنچ گئے، منڈی میں اچھی خاصی چہل پہل تھی۔اب کاروبا شروع ہو چکا تھا، شارق نے ٹرالی والے کا شکریہ ادا کیا اور ٹرالی سے چھلانگ لگا دی اور سبز منڈی میں داخل ہو گیا۔شارق ہجوم میں راستہ بناتا ہوا ایک طرف جانے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ کوئی سواری مل جائے تو شہر جا سکے، وہ ایک طرف مڑا ہی تھا کہ دو آدمیوں نے اچانک اس کا راستہ روک لیا، ان دونوں نے اپنے جسموں پر چادریں اوڑھ رکھی تھیں، ان کی شکلیں دیکھ کر شارق کانپ اٹھا، وہ وہی موت کے دو فرشتے تھے جن سے وہ ساری رات بھاگتا رہا تھا۔
شارق سمجھ گیا کہ ان دونوں نے چادروں میں رائفلیں چھپا رکھی ہیں، ان میں سے ایک نے کہا:شارق باؤ خاموشی سے ہمارے ساتھ چلو ، اگر بھاگنے کی کوشش کی تو ہم فائر کھول دیں گے، ہمیں اس بات کہ پرواہ نہیں کہ کتنے لوگ گولیوں کا نشانہ بنیں گے، لیکن تم زندہ نہیں بچ سکو گے۔شارق کی منہ سے بے اختیار گہرا سانس نکل گیا، پھر اچانک وہ ایک طاقت ور سپرنگ کی طرح اچھلا، وہ مارشل آرٹس کا ماہر تھا دونوں کے چہرے پر پڑنے والی ٹھوکروں نے ان دونوں کو کراہنے پر مجبور کر دیا۔وہ نیچے جا گرے۔
شارق بھی گرا لیکن فوراً سنبھل کر ایک طرف دوڑ لگا دی، ایک آدمی نے جلد ی سے اٹھ کر رائفل سنبھالی اور فائر کر دیا، شارق اس گولی سے محفوظ رہا لیکن وہ گولی ایک مزدور کے سینے میں اتر گئی، وہ چیختا ہوا ڈھیر ہو گیا، پوری منڈی میں بھگدڑ مچ گئی، لوگ بد ہواس ہو کر ادھر ادھر دوڑنے لگے، شارق لوگوں کو دھکے دیتا ہوا ایک طرف بھاگ رہا تھا، آخر وہ منڈی میں کافی دور نکل گیا، اس کا حلیہ مزدوروں جیسا تھا، اچانک ایک شخص نے اسے اپنے پاس آنے کے لیے آواز دی، وہ اسے مزدور سمجھ بیٹھا تھا۔
اس نے شارق کو کیلوں والا ٹوکرا اٹھانے کا کہا جو کافی وزنی تھا، شارق نے ٹوکرا اٹھا لیا اور اس آدمی کے ساتھ دوڑنا شروع کر دیا، تقریباً پچاس گز کے فاصلے پر ایک سوزوکی پک اپ کھڑی تھی، شارق نے کیلوں والا ٹوکرا اس پک اپ میں رکھ دیا، اس شخص نے پانچ کا ایک نوٹ نکال کر اس کر طرف بڑھایا تو شارق نے کہا: منڈی میں گولیاں چل رہی ہیں، آ پ مجھے بھی شہر ساتھ لے جائیں، اب یہاں کام کرنا ممکن نہیں ہے۔
اس شخص نے شارق کی ساتھ بٹھا لیا اور تیزی سے سوزوکی پک اپ کو ایک جھٹکے سے آگے بڑھا دیا۔سوزوکی مختلف راستوں سے گزرتی ہوئی چوبرجی پہنی کر رک گئی، شارق شکریہ ادا کرتا ہوا نیچے اتر آ یا، اور پیدل چلتا ہوا ایک طرف جانے لگا۔وہ کچھ دور بازار میں چلتا رہا پھر ایک گلی میں مڑ گیا، اور ایک بنگلہ نما رہائشی مکان کے سامنے رک گیا، اس وقت سورج طلوع ہو چکا تھا اور سورج کی کرنیں بہت بھلی لگ رہی تھیں۔
گیٹ کو باہر سے تالا لگا ہوا نہیں تھا ۔اس نے گیٹ کی ایک شیٹ میں ہاتھ ڈ ال کر اندر سے لگا ہوا کنڈا ہٹا دیا اور گیٹ کھول کر اندر د اخل ہو گیا اور گیٹ بند کر دیا، وہ یہی رہتا تھا اور محلے والے اسے ایک شریف انسان سمجھتے تھے۔شارق نے جیسے ہی کمرے میں داخل ہوکر بلب آن کیا اچانک ایک آدمی دروازے کی آڑ سے نکل کر سامنے آ گیا، اس کے پاس پستول تھا۔
وہ آدمی شیطانی مسکراہٹ کیساتھ بولا: تم کیا سمجھتے ہو شارق باؤ، ہمیں دھوکہ دے کر ہم سے بچ نکلو گے۔ماجھا گجر جس آدمی کیساتھ بھی کاروبار کرتا ہے اس کے بارے میں مکمل معلومات رکھتا ہے، تمہارا یہ ٹھکانہ چند روز پہلے ہی ہماری نظروں میں آیا تھا، اور ہمیں یقین تھا تم بھاگ کر یہی آؤ گے۔میں ماجھا گجر کا ایک ملازم ہوں، تم پاتال میں بھی چھپ جاؤ تب بھی ہم تمہیں ڈھونڈ نکالیں گے۔
شارق ایک گہرا سانس لے کر رہ گیا، اس کے ماتھے پر پسینہ آ گیا، موت اس کے
سامنے کھڑی تھی، اور وہ بے بس ہکا بکا اس موت کے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔
قسط نمبر 2 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
------------------------
Urdu Stories, Urdu Kahani, Hindi Stories, Stories in Urdu
0 تبصرے