خونی عشق - قسط نمبر1

خونی عشق - قسط  نمبر1

خونی عشق - قسط  نمبر1 

"چاچی ۔۔
چاچی پلیز دروازہ کھولیں خدا کا واسطہ ہے آپ کو ۔۔
چاچی اتنی رات ہے ۔۔
مجھے ڈر لگ رہا ہے چاچی پلیز ۔۔
چاچی مجھے مار لیں پیٹ لیں لیکن اس طرح مت کریں چاچی رحم کریں خدا کے واسطے ۔۔"
اس کی چیخ و پکار بیکار تھی کیونکہ چاچی کب کا اسے گھر سے نکال کر اپنے کمرے میں سونے جا چکی تھیں ۔۔
اس کی صدائیں گلی میں گونجتی رہ گئیں ۔۔
وہ وہیں دروازے سے پشت لگا کر دہلیز پر بیٹھ کر گھٹنوں میں منہ دے کر سسکنے لگی ۔۔

"میائوں ۔۔"
اس نے چونک کر اپنا سر گھٹنوں سے اٹھایا ۔۔
"یہ تو کسی بلی کی آواز ہے"
بلی کی آواز بہت کمزور تھی شائد بلی بھوکی یا زخمی تھی ۔۔
بلی کو سوچتے ہوئے وہ اپنا غم بھول گئی ۔۔
تھوڑا بہت ڈھونڈنے کے بعد اسے ایک بڑا سا سیاہ بلا ایک درخت کے قریب بیٹھی نظر آئی ۔۔

بلا اتنا بڑا تھا اوپر سے بلکل سیاہ بھی ۔۔
مدد کا خیال بھول کر وہ ڈر کر پیچھے ہوگئی لیکن اچانک اس کی کالی آنکھیں بلے کی چمکیلی آنکھوں سے ملیں تو وہ کچھ چونک گئی ۔۔
اسے یوں لگا جیسے بلا اس سے مدد چاہتا ہو ۔۔
وہ خود بھی تو تکلیفیں جھیلتی رہی تھی ۔۔
کسی بے زبان کی تکلیف کا احساس کیسے نہ کرتی ۔۔
دھک دھک کرتے دل کے ساتھ اس نے بلے کے قریب جا کر جائزہ لیا ۔۔
بلے کی پچھلی ٹانگ میں لکڑی کا چھوٹا سا ٹکڑا گھسا ہوا تھا ۔۔
اس کے منہ سے سسکاری سی نکلی ۔۔
"یا اللہ یہ تو بہت تکلیف میں ہوگا ۔۔
میں کیا کروں ؟

گھر کے اندر میں نہیں جا سکتی اسے کیسے لے جائوں ؟
خالی ہاتھ کیسے مدد کروں بیچارے کی ؟"
بڑبڑاتے ہوئے وہ دل مضبوط کرتی بلے کے پاس بیٹھ گئی ۔۔
ایک عجیب سا خوف اس کے رگ و پے میں سرائیت کر رہا تھا ۔۔
جیسے کوئی اسے گھور رہا ہو ۔۔
تنبیہہ کر رہا ہو ۔۔
اس نے اپنا ہاتھ جیسے ہی "میائوں میائوں" کرتے بلے کی طرف بڑھایا درخت کی شاخیں زور سے ہلیں ۔۔
ہوا تو بلکل بھی نہیں تھی حبس ہی حبس تھا پھر کیوں اور کیسے ؟
وہ جلدی سے اٹھ کر درخت کے نیچے سے نکل گئی اور گھر کی طرف فل اسپیڈ سے دوڑ پڑی ۔۔

پھر سے اس نے منت سماجت شروع کردی مگر بیکار ہی جاتی نظر آرہی تھی ۔۔
لیکن اس بار اس نے ہار نہیں مانی اور مستقل دستک دیتی رہی ساتھ ہی خوفزدہ نظروں سے اس درخت کو بھی دیکھ لیتی ۔۔
اس گلی میں ان کے گھر سمیت صرف تین چار مخدوش حال گھر بنے تھے ۔۔
باقی ہر طرف درخت ہی درخت تھے خشک بھی اور ہرے بھرے بھی ۔۔
یہاں ہر وقت ہو کا عالم رہتا لیکن رات کے اس پہر دہشت بے حساب تھی ۔۔
اس کی مستقل دستک اور پکاروں میں اچانک بلے کی میائوں میائوں بھی شامل ہوگئی تو اس کی ٹانگیں لرزنے لگیں ۔۔
دل اچھل کر حلق میں پھنس گیا ۔۔
ڈرتے ڈرتے درخت کی طرف دیکھا تو درخت کے نیچے سے کالا بلا لنگڑاتا ہوا اسی کی طرف چلا آ رہا تھا ۔۔
اس کی سٹی گم ہوگئی ۔۔

اسے جانے کیوں ایسا لگا تھا کہ بلا سخت غصے میں ہے ۔۔
اس کی آواز ویسی ہی کمزور تھی لیکن میائوں میائوں مستقل تھی ۔۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ غصے میں اس سے مدد کی التجا کر رہا ہو ۔۔
اس کی جان آدھی ہونے لگی جب اچانک گھر کا دروازہ کھول دیا گیا ۔۔
سامنے گیارہ سالہ ناصر نیند سے لال آنکھیں لیئے کھڑا تھا ۔۔
وہ کچھ بھی کہے بغیر بجلی کی تیزی سے گھر کے اندر داخل ہوئی اور دروازے کی کنڈی لگادی ۔۔

ناصر کے حیرت سے دیکھنے پر "کچھ نہیں" کا تاثر دے کر اسے ساتھ ساتھ لیئے صحن جلدی سے عبور کر کے کمرے میں گھس گئی ۔۔
"آپی کیا ہوا ؟"
ناصر سچ مچ پریشان ہوگیا ۔۔
"کک کچھ نہیں ۔۔
چاچی نے اجازت دی دروازہ کھولنے کی ؟"
"جی امی نے ہی اجازت دی ۔۔
ورنہ میں کہاں خود کھول سکتا تھا ؟
اس بار آپ نے کوئی بڑی مسٹیک کی ہوگی تب ہی امی نے سزا بھی بڑی دی ۔۔"
ناصر کے اچانک کہنے ہر وہ افسردگی سے ہنس پڑی ۔۔
"مجھے آج تک اندازہ نہیں ہوا کہ چاچی مجھ سے کب کس بات پر خفا ہوتی ہیں ؟
سارے دن کی روٹین ذہن میں دوڑائی ہے لیکن ابھی تک غلطی کیا ہوئی ہے سمجھ نہیں آیا ۔۔"

اس کے ہونٹ لٹکا کر کہنے پر ناصر ہنس پڑا ۔۔
"اچھا اب تم دانتوں کی نمائش بند کرو اور اپنے کمرے میں جا کر سو جائو ۔۔
ورنہ ممکن ہے چاچی اس بات پر بھی ناراض ہوجائیں ۔۔
اس کی ہدایت پر ناصر اسے گڈ نائٹ کہتا اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔
اس کا ڈر بھی ناصر سے بات کر کے تھوڑا ختم ہوا ۔۔
لائٹ آف کر کے سونے کی ہمت اس سے آج نہیں ہو سکی سو ایسے ہی بستر پر لیٹ گئی جب پھر سے میائوں میائوں کی آوازیں اس کے اعصاب چٹخانے لگیں ۔۔
اس کا دل بیٹھنے لگا ۔۔
یہ آواز اس کے کمرے کی کھڑکی سے آ رہی تھی ۔۔
اس کے کمرے کی کھڑکی تک پہنچنے کے لیئے باہر سے گھوم کر دوسری طرف جانا پڑتا تھا تو کیا یہ بلا بھی زخمی ٹانگ کے ساتھ اتنا لمبا سفر کر کے اس کی کھڑکی تک پہنچا تھا ۔۔

ترس اور خوف نے ایک ساتھ اسے ڈرایا تھا ۔۔
وہ اٹھ کر کھڑکی تک گئی اور جب پردہ ہٹایا تو سامنے ہی وہ بلا اپنی سرخ چمکتی ہوئی آنکھیں کھڑکی پر گاڑے کھڑا تھا ۔۔
دہشت زدہ ہو کر اس نے پھر سے کھڑکی بند کرنی چاہی لیکن جب اس بلے نے بہت آس سے ہلکا سا "میائوں" کیا تو وہ لاچارگی سے اس بلے کی طرف دیکھنے لگی ۔۔
ایک بے زبان جانور مستقل اس سے مدد کی درخواست کر رہا تھا وہ کیسے ترس نہ کھاتی ۔۔

جالی میں سے ہاتھ نکال کر اس نے بمشکل اس بھاری بھرکم بلے کو کمرے کے اندر کھینچا ۔۔
اس کے ہاتھوں کے جوڑ تکلیف کرنے لگے ۔۔
اتنا بھاری بلا ۔۔
"کیا سارے ہی بلے اتنے بھاری ہوتے ہیں ۔۔"
اس نے حیرت سے اس بلے کو دیکھتے ہوئے سوچا پھر ساری سوچیں جھٹک کر اس کی ٹانگ کا معائنہ کرنے لگی ۔۔
نہ جانے کیوں اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے بلے کی ٹانگ میں وہ لکڑی کا ٹکڑا کسی نے پھنسایا تھا ۔۔
خود سے ہلکا سا لکڑی کا ٹکڑا اس طرح آر پار نہیں ہو سکتا ۔۔
اور حیرت انگیز طور پر بلے کا خون بھی نہیں نکل رہا تھا ۔۔
ایک بار پھر اس کے دل میں خوف نے انگڑائی لی لیکن وہ پھر بھی وہ لکڑی کا ٹکڑا نکالنے کے لیئے جھک گئی ۔۔
اس کا خود پر کوئی زور نہیں تھا جیسے اس وقت ۔۔
لکڑی کا ٹکڑا کھینچنے پر اتنے آرام سے نکل گیا جیسے سوئی میں سے دھاگا ۔۔
ایک بار پھر وہ ٹھٹھکی اور ایک بار پھر جیسے کسی نے اس کی سوچوں پر بند باندھ دیا ۔۔

لکڑی کا ٹکڑا کھڑکی سے باہر پھینک کر وہ بلے کی طرف پلٹی ۔۔
"تمہیں بھوک لگی ہے ۔۔؟"
اس کی آواز سرگوشی سے زیادہ نہ تھی ۔۔
بلے نے جواب میں کوئی آواز بھی نہ نکالی اور سر اٹھائے یک ٹک اس کی آنکھوں میں گھورتا رہا ۔۔
بے ساختہ جھرجھری لے کر وہ پیچھے ہوئی پھر آہستہ آواز میں بولی ۔۔
"پلیز آواز مت نکالنا ۔۔
میری چاچی تمہارے ساتھ ساتھ میرا بھی قیمہ بنا دیں گی ۔۔
میں دیکھتی ہوں کچن میں شائد کچھ پڑا ہو کھانے یا پینے کے لیئے ۔۔
امید تو نہیں ہے ویسے ۔۔"
وہ بلے سے یوں بات کر رہی تھی جیسے وہ اس کی باتیں سمجھ رہا ہو ۔۔
تنہا رہنے والوں کو اکثر خود سے یا بے زبانوں سے بات کرنے کا شوق ہو جاتا ہے ۔۔
اسے بھی یہ شوق لاحق تھا ۔۔

کچن میں جا کر اس نے دیکھا فریج اور کنبٹ وغیرہ پر تالا لگا تھا ۔۔
خوش قسمتی سے آج کھانے میں چکن قورمہ بنا تھا ۔۔
چچڑی ہوئی ہڈیاں پلیٹ میں پڑی تھیں ۔۔
وہ کچھ اور نہ پا کر وہی ساری ہڈیاں ایک پلیٹ میں لیئے کمرے میں چلی آئی ۔۔
بلا سکون سے اس کے بستر پر پھیل کر بیٹھا تھا ۔۔
بلے کے شاہانہ انداز پر بھنویں اچکاتی وہ زمین پر بیٹھ گئی اور ہڈیاں بھی فرش پر ڈال دیں ۔۔
"شش بلے ۔۔
یہ کھالو ۔۔
اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔۔
اسی پر صبر شکر کر لو ۔۔
مجھے دیکھو میں نے رات کا کھانا کھایا ہی نہیں ۔۔
مجھ سے زیادہ بہتر حالات ہیں تمہارے ۔۔
نضرے نہیں کرو ۔۔
کھالو کالو ۔۔

ابے کھالے نا موٹو ۔۔"
بلے نے صرف ایک نظر ہڈیوں پر ڈالی اور پھر سے اسے گھورنے لگا ۔۔
اس کا سہی والا دماغ خراب ہوا اور وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔
"شہزادے ہو کہیں کے ۔۔
نخرے تو دیکھو جیسے آسمان سے اترا پرا ہو ۔۔
اترو میرے پلنگ سے ۔۔
کھانا ہے تو یہ کھائو نہیں تو جائو ۔۔
مجھے سونے دو ۔۔"
اسے جانے ایسا کیوں لگا جیسے بلا مسکرایا ہو ۔۔
سر جھٹک کر اس نے خود بلے کو نیچے اتارنا چاہا لیکن بلا پہلے سے دوگنا بھاری ہو رہا تھا ۔۔
وہ اپنی کمر پر ہاتھ ٹکا کر خوف اور حیرت سے اسے دیکھنے لگی ۔۔
اسے یقین سا ہوگیا یہ کوئی عام بلّا نہیں بلکہ کوئی بلا ہے ۔۔
وہ کمرے سے باہر بھاگنے کے لیئے مڑی ہی تھی جب بلا ایک ہی چھلانگ میں اس کی گردن پر حملہ آور ہوا ۔۔
بلے کے بوجھ سے وہ پورے قد سے دھڑام کی زوردار آواز کے ساتھ زمین بوس ہوگئی ۔۔

گرتے ہوئے سر ٹیبل کے کونے سے ٹکرایا جس کی وجہ سے خون بھل بھل نکلنے لگا اور کچھ ہی دیر بعد اس نے ہوش گنوا دیئے ۔۔
جو آخری منظر اس کی آنکھوں نے دیکھا تھا وہ یہ تھا کہ بلا اپنی نوکیلی زبان سے اس کی پیشانی سے خون چاٹ رہا تھا ۔۔
جب اس کی آنکھ کھلی تب پورے کمرے میں دن کا اجالا پھیلا ہوا تھا جبکہ وہ وہیں زمین پر پڑی تھی ۔۔
تھوڑی دیر تک وہ غائب دماغ سی اپنا سر دباتی رہی ۔۔
پھر دھیرے دھیرے اس کے ذہن میں کل رات والا سارا منظر چلنے لگا ۔۔
وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی ۔۔
اس کی دہشت سے پھٹی آنکھیں پورے کمرے میں چکراتی پھر رہی تھیں ۔۔
سر کی چوٹ تکلیف دے رہی تھی جبکہ پورا جسم خون ضائع ہونے کی وجہ سے بے جان ہو رہا تھا ۔۔
اس کی نظر گھڑی پر پڑی جہاں گھڑی آٹھ بجا رہی تھی ۔۔
یقیناً صبح کے آٹھ ۔۔
لیکن ۔۔
اس کا دل بیٹھنے لگا ۔۔
چاچی جتنی بھی ظالم سہی ۔۔
لیکن نمازی پانچ وقت کی تھیں ۔۔
فجر کے وقت ہی ان کا شور شروع ہوجاتا ۔۔
کیونکہ وہ اپنے بچوں پر بھی نماز کے لیئے سختی کرتی تھیں ۔۔
ان کی تیز آواز کا فائدہ اسے بھی ہوتا اور وہ بھی فجر کے لیئے اٹھ جاتی لیکن آج ۔۔
ایک تو رات کا دہشت ناک واقعہ ۔۔
اس پر صبح کی یہ بوجھل خاموشی ۔۔
وہ تیزی سے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھے جب اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتی چاچی کے کمرے میں پہنچی تو وہاں کا منظر اسے ساکت کر گیا ۔۔
تیز رفتاری سے دھڑکتا دل رک سا گیا ۔۔
آنکھیں بڑی اور پتلیاں چھوٹی ہوگئیں ۔۔
دل پر پڑا ہاتھ پہلو میں جا گرا ۔۔
کچھ دیر تک وہ خالی دماغ سی کمرے میں بکھرا خون اور چاچی ۔۔ ناصر ۔۔ نازش اور نوید کے خون سے لت پت سفید بے جان وجودوں کو دیکھتی رہی پھر اس کی چیخیں بلند ہوئیں ۔۔
اور پھر بلند تر ہونے لگیں ۔۔
وہ ایک ایک کے مردہ وجود کے پاس جا کر اسے جھنجوڑتی ۔۔
اسے پکارتی ۔۔
پھر کوئی جواب نہ پا کر اچھل کر پیچھے ہوجاتی ۔۔
پھر دوسری لاش کے قریب جاتی اور یہی عمل دوہراتی ۔۔
بہت دیر تک وہ دیوانگی کی حالت میں یہی عمل کرتی رہی ۔۔
پھر اسے جب یقین آنے لگا اس منظر کی سچائی پر تو وہ دوڑ کر کمرے سے نکلی اور صحن میں جا کر گہری گہری سانسیں لیتے ہوئے برمہ چلانے لگی ۔۔
خود کو گیلا کرتی اور پھر برمہ چلاتی ۔۔
پانی آنے پر پھر پانی میں بھیگنے لگتی ۔۔
اس کی چیخیں اور آنسو مسلسل جاری تھے ۔۔
وہ کبھی خود کو کوستی تو کبھی اس بلے کو بددعائیں دیتی ۔۔
اس کی تو ساری دنیا اجڑ گئی تھی ۔۔
ماں باپ کے مرنے کے بعد چاچا نے اسے سنبھالا تھا ۔۔
پھر چاچا کے دنیا چھوڑ جانے کے بعد بھی چاچی اسے بچپن سے جیسے تیسے سہی پال پوس رہی تھی کیا یہ کم احسان تھا آج کے دور میں ۔۔
وہ ان کی ساری سختیاں بھلائے اپنا سینہ پیٹ رہی تھی ۔۔
اچانک وہ اٹھی اور دروازہ کھول کر باہر بھاگی ۔۔
اس طرح سنسان راستے پر صبح کے وقت بھیگی بھیگی دوپٹے سے بے نیاز بھاگتی ہوئی وہ کہیں سے بھی نارمل نہیں لگ رہی تھی ۔۔
وہ دوڑتی ہوئی فیروزہ خالہ کے گھر کے باہر رکی جن سے چاچی کے اچھے تعلقات تھے ۔۔
دھڑ دھڑ دروازہ بجائے ہوئے وہ جیسے توڑ دینے کے در پر تھی ۔۔
اندر سے فیروزہ خالہ کی غصہ کرنے کی آواز آرہی تھی لیکن وہ ایک پل کو نہیں رکی اور جنونی کیفیت میں دروازہ بجاتی رہی ۔۔
کمرے کا منظر اس کی نظروں سے ہٹ نہیں رہا تھا ۔۔
دروازہ فیروزہ خالہ کے بیٹے نے کھولا وہ انہیں دیکھ کر ایک پل کو ساکت ہوئی جبکہ فروز بھائی اس کے حلیے پر نظریں دوڑاتے ہوئے حق دق کھڑے رہ گئے ۔۔
وہ انہیں نظر انداز کر کے ان کے پیچھے کھڑی فیروزہ خالہ کے سینے سے لگی اور شدت سے رونے لگی ۔۔
فیروزہ خالہ کے گھر کے سب فرد صحن میں آگئے اور حیرت سے اسے دیکھنے لگے ۔۔
فیروزہ خالہ نے اسے الگ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ تو ان سے گویا چمٹ گئی تھی ۔۔
"ائے کچھ بتا تو سہی لڑکی ۔۔
دل بیٹھ رہا ہے میرا ۔۔
گھر میں سب ٹھیک ہے ۔۔"
فیروزہ خالہ نے اس کی پشت سہلاتے ہوئے کوئی بیسویں دفع پوچھا جبکہ فروز بھائی اور ان کے والد اس کے گھر کی طرف نکل پڑے تھے کہ خدا جانے کیا قیامت ٹوٹی تھی صبح ہی صبح اس پر ۔۔
وہ فیروزہ سے الگ ہو کر کچھ بتانے کی کوشش کرنے لگی لیکن اچانک اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور وہ سب کو حواس باختہ چھوڑتی پھر حواس چھوڑ بیٹھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیروزہ خالہ نے یاسین شریف پڑھ رکھی پھر اس کی تپتی پیشانی کو چھوا اور ساتھ ہی پھونک بھی اس کے پورے وجود پر ماری ۔۔
وہ چار دنوں سے ہوش سے بیگانہ تھی ۔۔
ذرا سی آنکھیں کھولتی گھر والوں میں کسی کو پکارتی اور پھر بے ہوش ۔۔
لیکن بے ہوشی میں بھی اس کی آنکھوں کے کناروں سے آنسو گرے چلے جا رہے تھے ۔۔
فیروزہ بیگم خود بھی کمرے کا ہیبت ناک منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی تھیں ۔۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ظاہر تھا یہ کسی جانور کا کام تھا لیکن آج کل کے دور میں اس رپورٹ پر یقین کرنا مشکل ہی تھا ۔۔
پولیس والوں کا شک اس کی طرف ہی تھا جو ہوش میں آ کر نہیں دے رہی تھی ۔۔
فیروزہ خالہ کہ زبانی پولیس اس کے اور چاچی کے تعلقات سے واقف ہو چکی تھی ۔۔
پولیس کا خیال تھا مار پیٹ سے تنگ آ کر اس نے جذبات میں آ کر یہ حرکت کر ڈالی ہوگی اور قتل کر دینے کے بعد اسے صدمہ لگ گیا ہوگا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جو سچ ہے میں آپ کو بتا چکی ہوں ۔۔
آپ مجھے تھپڑ نہ ماریں بلکہ گولی ماریں میں تب بھی یہی بولوں گی کیونکہ یہی سچ ہے ۔۔
لیکن اپنی وردی کے غرور میں آپ کو کسی پر جھوٹا الزام لگانا ہے تو لگا لیں مجھ پر ۔۔
لیکن کوشش کیجیئے گا پھانسی سے کم پھر سزا نہ ہو ۔۔"
لیڈی کانسٹیبل کے پانچویں تھپڑ پر سن گال کے ساتھ اس نے اٹک اٹک کر کہا ۔۔
اس دوران کتنے ہی آنسو اس کی آنکھوں سے گرے تھے کسی نے توجہ نہیں دی تھی ۔۔
"اے چل زیادہ ڈائلاگ مت مار ۔۔"
لیڈی کانسٹیبل کا ہاتھ ایک بار پھر ہوا میں بلند ہوا تھا لیکن ایک بلند گرجدار آواز پر لیڈی کانسٹیبل کا ہاتھ ہوا میں ہی معلق رہ گیا ۔۔
اس نے بھی چونک کر سامنے دیکھا ۔۔
سفید اجلی داڑھی اور لمبے پونی میں جکڑے سفید چٹے بال ۔۔
جھریوں کے ساتھ بھرپوت صحت اور سرخ و سفید رنگت والا وہ سیاہ وردی میں ملبوس شخص نہ جانے کیوں اسے فرشتہ سا لگا تھا ۔۔
"میں نے کتنی بار سمجھایا ہے آپ لوگوں کو ۔۔
صرف شک کی بنا پر کسی پر جسمانی تشدد مت کیا کریں ۔۔"
اس شخص نے دھیمی لیکن بارعب آواز میں کہا تو لیڈی کانسٹبل اور حوالدار گڑبڑا گئے ۔۔
"سر جسمانی تشدد نہ کریں تو یہ سچ بھی نہیں بتاتے نا ۔۔"
حوالدار کے منمنانے پر انہوں نے اسے گھورا پھر دونوں کو وہاں سے جانے کا اشارہ دیا ۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر شانے اچکاتے ہوئے چلے گئے ۔۔
"میں نے ابھی آپ کا بیان سنا ہے ۔۔
کیا آپ پھر سے دہرانا پسند کریں گی ۔۔ "
ان کا انداز شائستگی اور رعب سے بھرپور تھا ۔۔
دھندلی نظروں سے ان کا چہرہ دیکھ کر اس نے پھر اس ہیبت ناک رات کی کہانی دہرا دی ۔۔
تیمور آفندی چہرے پڑھنے کے فن سے آشنا تھے اور اس لڑکی کے چہرے پر انہیں سوائے سچائی اور دکھ کے اور کچھ نظر نہیں آیا تھا ۔۔
وہ تھوڑی دیر تک ایک ٹک اس کا آنسئوں سے تر چہرہ دیکھتے رہے پھر بولے ۔۔
"ایسے بیان پر آج کل کون یقین کر سکتا ہے ۔۔ "
جواب میں اس نے کچھ نہیں کہا تب وہ مزید بولے ۔۔
"لیکن مجھے پورا یقین ہے ۔۔
کیونکہ تقریباً ایسے ہی حالات کا سامنا میں بھی کر چکا ہوں ۔۔"
ان کے انکشاف پر اس نے سرخ سوجی آنکھیں اٹھا کر کچھ حیرت سے انہیں دیکھا تو تیمور آفندی نے سر اثبات میں ہلا دیا ۔۔
"میں ہی کیا میرا پورا خاندان ان حالات سے گزر چکا ہے ۔۔
بلکہ اب بھی گزر رہا ہے شہلا ۔۔
لوگ منہ پر کچھ نہیں کہتے لیکن مجھے پتہ ہے لوگ ہمارے خاندان کو پیٹھ پیچھے سائکو خاندان کہتے ہیں ۔۔
ہماری حویلی پاگلوں کا ادارہ کہلائی جاتی ہے ۔۔"
ان کی مسکراہٹ زخمی تھی ۔۔
"میں نو سال کا تھا جب میں نے ایک بہت بڑے بلے کو میرے چاچا کو بے دردی سے مارتے دیکھا ۔۔"
بلے کے ذکر پر شہلا کی آنکھوں میں خوف غم اور غصہ ساتھ لہرائے ۔۔
جیسا تم بتا رہی ہو بلکل ویسا ہی بلا ۔۔
پولیس نے میرے بیان کو صدمہ کا اثر قرار دیا پھر آگے کیا ہوا میں نہیں جانتا لیکن ہماری حویلی میں عجیب و غریب واقعات ہوتے ہیں ۔۔
رات کو بلیوں کے رونے کی کریہہ آواز اکثر آتی ہے ۔۔
میرے بھانجے کو بھی تمہاری فیملی والے طریقے سے ہی قتل کردیا گیا ۔۔
میری بھتیجی نے سارا منظر چھپ کر دیکھ لیا اور دماغی توازن کھو بیٹھی ۔۔
اس وقت اگر وہ سکتے میں جانے کی جگہ چیخ پڑتی تو ممکن تھا وہ بھی ۔۔
خیر اللہ کا کرم ہوا ۔۔
ہمارے پانچ وفادار ملازم ایک کے اوپر ایک ایسے ہی ختم ہوتے گئے ۔۔
اب ہماری حویلی میں کوئی کام کرنے کو تیار نہیں ۔۔
یہ تھی میری اور میرے خاندان کی کہانی ۔۔
اس لیئے میں تم پر یقین کرتا ہوں اور تمہیں بچانے کی کوشش کرتا ہوں ۔۔
کوئی ثبوت تمہارے خلاف نہیں ہے سو یہ اتنا مشکل بھی نہیں ۔۔"
شہلا جو ایک ٹک انہیں دیکھے جا رہی تھی اچانک نفی میں سر ہلانے لگی ۔۔
"میرے لیئے باہر کی دنیا میں رکھا ہی کیا ہے سر ۔۔
سب کچھ تو ختم ہوگیا میرا ۔۔
میں آزاد ہو کر کیا کروں گی ۔۔
رہنے دیں مجھے جیل میں اور ختم ہوجانے دیں ۔۔
آپ کا بھی ویسی ہی بلا سے پالا پڑا ہے ۔۔
آپ نے میری باتوں کا یقین کیا ۔۔
یہ کافی ہے ۔۔
ورنہ مجھے خود پر شک ہونے لگا تھا کہ واقعی میں نے ہی ۔۔
ممم میں نے ہی ۔۔
اپنی ۔۔
اپنی پوری فیملی ۔۔
اپ اپنی پوری دنیا کو ۔۔
ختم کرلیا ۔۔
ختم کرلیا ۔۔
ختم ہوگیا میرا سب ختم ہوگیا ۔۔
سب چھین لیا مجھ سے اس بلا نے ۔۔
کیا کروں گی میں جی کر ۔۔
کہاں جائوں ۔۔
کیا کروں ۔۔
مرنے دیں سر مجھے یہیں مرنے دیں ۔۔"
وہ بولتے بولتے اچانک ہذیانی کیفیت میں چیخنے لگی ۔۔
تیمور آفندی ہمدردی سے اسے دیکھنے لگے پھر اس کا سر تھپکتے ہوئے بولے ۔۔
"بیٹا اللہ کی ذات پر یقین رکھو ۔۔
کیا پتہ وہ رب تم سے بہتر لے کر بہترین سے نوازنے کا ارادہ رکھتا ہو ۔۔"
"فیملی سے بڑھ کر بھی کچھ ہو سکتا ہے سر ۔۔"
شہلا نے افسردگی سے سوچا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہلا کے خلاف کیس بہت کمزور تھا ۔۔
اسے آرام سے آزادی کا پروانہ مل گیا تھا ۔۔
کوئی نزدیکی رشتہ نہیں تھا ۔۔
جو دور کے تھے وہ پولیس قتل وغیرہ کے معاملے کے بعد اور بھی دور ہوگئے ۔۔
ایسے میں تیمور آفندی اس کی لاکھ نہ نہ کے باوجود اسے لیئے حویلی چلے آئے ۔۔
جب تیمور آفندی نے سب کو لائونج میں جمع کر کے شہلا کی تمام کہانی سنائی تو سب کو سانپ سونگھ گیا ۔۔
تو گویا اس دنیا میں کوئی اور بھی تھا جس نے اس بلا کو دیکھا تھا اور اس کا ستم جھیلا بھی تھا ۔۔
لیکن ایک بات جو سب کو چونکا رہی تھی وہ یہ تھی کہ اس بلے نما بلا نے شہلا کی جان کیسے چھوڑ دی ۔۔
سب کے دلوں میں پنپتے سوال کو حمزہ نے زبان دی تو شہلا خود بھی سوچ میں ڈوب گئی ۔۔
ہاں واقعی ۔۔
وہ کیسے زندہ تھی اور کیوں ۔۔
"اس بارے میں بعد میں سوچا جائے گا ۔۔
ہانیہ بیٹا تم بہن کو گیسٹ روم میں لے جائو ۔۔"
"جی چاچو ۔۔"
ہانیہ اٹھی تو اسے بھی نہ چار اٹھنا پڑا ۔۔
پیچھے پیچھے حمزہ بھی چل پڑا ۔۔
"ہانی مجھے تو لگتا ہے اسی نے قتل کیا ہے ۔۔
کسی سے ہماری "خاندانی بلا کہانی" سن لی ہوگی ۔۔
اب اس کہانی کا سہارا لے کر چاچو کو ماموں بنا کر یہاں آگئی ۔۔"
حمزہ نے آواز دھیمی رکھی تھی لیکن ان سے دو قدم پیچھے چلتی شہلا نے سب سنا اور ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی ۔۔
"او بھیا ۔۔
تیمور چاچو کوئی دودھ پیتے بچے نہیں ہیں جنہیں کوئی بھی آرام سے بے وقوف بنا دے ۔۔
خاندان کے ذہین ترین لوگوں میں سے ایک ہیں ۔۔
اپنے ادارے کا فخر ہیں وہ ۔۔
اور ہماری "بلا کہانی" دیپیکا اور رنبیر کپور کی بریک اپ سٹوری نہیں ہے جس کے ہر طرف چرچے ہوں ۔۔
صرف قریب قریب کے دوست احباب واقف ہیں ۔۔
شہلا یہ آپ کا کمرہ ہے ۔۔"
ہانیہ خود سے چار سال بڑے بھائی کو ڈپٹ کر اچانک مڑ کر شہلا سے بولی ۔۔
شہلا جو ان کی ساری باتیں سن کر ان سنی کر رہی تھی پھیکا سا مسکرا کر کمرے میں داخل ہوئی ۔۔
حمزہ کینہ پرور نظروں سے اس کو گھورتا رہا یہاں تک کہ ہانیہ شہلا کو کچھ ہدائتیں دے کر حمزہ کا بازو پکڑ کر کھینچتے ہوئے ساتھ لیجانے لگی ۔۔
شہلا دروازہ بند کرنے لگی تھی کہ اس کی نظر حمزہ پر پڑی ۔۔
حمزہ نے دو انگلیوں سے اپنی آنکھوں کی طرف پھر اس کی طرف اشارہ کر کے "دیکھ لوں گا" کا اشارہ دیا ۔۔
شہلا کے سارے احساسات مرے ہوئے تھے سو اس نے خاموشی سے سر جھٹک کر دروازہ بند کردیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دبے قدموں آگے بڑھ رہا تھا ۔۔
اس کے ایک پیر میں ہلکی سی لڑکھڑاہٹ تھی جسے وہ ظاہر نہیں کر رہا تھا ۔۔
رات ۔۔ اندھیرے ۔۔ ویرانی اسے بہت بھاتی تھیں ۔۔
وہ عموماً گہری رات میں چہل قدمی کے لیئے نکلتا تھا ۔۔
کئی دنوں تک پہاڑی علاقوں کی ویرانیاں خود میں اتارنے کے بعد وہ حویلی لوٹا تھا ۔۔
اس کے چہرے پر مدھم سی مسکان تھی جو ہمیشہ ہر حال میں قائم رہتی تھی ۔۔
وہ کتنا ہی ڈپریس ہو یا کتنی ہی اذیت میں ہو ۔۔
یہ مسکان اس کے لبوں سے جدا نہیں ہوتی تھی ۔۔
اس وقت بھی وہ مسکان اس کے لبوں پر تھی ۔۔
لیکن آنکھیں ہر جذبے سے عاری ستاروں سے بھرے آسمان کو دیکھ رہی تھیں ۔۔
اچانک اس کی تیز نظریں گیسٹ روم کی اس بڑی سی گیلری پر پڑیں اور ساکت رہ گئیں ۔۔
سیاہ پتلیاں ڈرا دینے کی حد تک چھوٹی ہوگئیں ۔۔
یوں کہ ہر طرف سفیدی تھی صرف درمیان میں ایک ننھا سا سیاہ نقطہ تھا بس ۔۔
"یہ ۔۔
یہ یہاں کیا کر رہی ہے ۔۔
یہ یہاں کیسے ۔۔
کیسے آخر ۔۔
کیا میں نے اسے زندہ چھوڑ کر غلطی کی ۔۔
کہیں یہ میرا راز تو نہیں جان گئی ۔۔"

خونی عشق (قسط نمبر 2)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے