بھابھی کا عشق

Sublimegate Urdu Stories

یہ کہانی ایک ایسی عورت کی ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف میرا گھر جلا، بلکہ وہ گھر بھی اجڑ گیا جو اُس کا اپنا تھا۔ اس نادان عورت نے آگ خود اپنے ہاتھوں سے لگائی، گھر کو جلا کر تماشہ دیکھتی رہی، اور خود بھی تماشہ بن گئی۔ زاہدہ میری نند تھی اور بدقسمتی سے میری بھابھی بھی بن گئی۔ ہمیں اسکول کے زمانے سے خبر تھی کہ وہ محلے کے ایک لڑکے کو پسند کرتی تھی۔ مگر اس نے یہ بات کسی سے نہ کہی، اگر کہتی تو شاید گھر والے اس کا ساتھ دیتے، یا شاید نہیں۔ اسی خوف سے اُس نے دل کی بات دل ہی میں رکھ لی۔ 

انہی دنوں اُس کے رشتے کی بات چل نکلی، اور والدین نے اس کی شادی میرے بڑے بھائی سے طے کر دی۔ وہ چپ چاپ روتی رہی مگر کسی کو کچھ نہ بتایا کہ وہ کیوں رو رہی ہے۔ سب یہی سمجھتے رہے کہ لڑکیاں رخصتی کے وقت روتی ہیں، یہی دستور ہے۔ اس کی شادی میرے بھائی سے ہو گئی۔ زاہدہ نے شادی کے بعد بھی کبھی یہ اعتراف نہ کیا کہ وہ کسی اور کو پسند کرتی ہے۔ بس یہی کہتی رہی کہ وہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔ مگر بھلا کسی لڑکی کی بات کون سنتا ہے؟ جب لڑکیاں شادی کے قابل ہو جائیں تو والدین یہی سمجھتے ہیں کہ ان کے ہاتھ پیلے کر کے ایک بڑے فرض سے سبکدوش ہونا ہے۔ یوں وہ میری نند سے میری بھابھی بن گئی۔ دل میں محبت کی چنگاری دبائے، وہ ایک طویل عمر تک اسی آگ میں سلگتی رہی۔ دل پر جبر کیے، میرے بھائی کے ساتھ گزارا کرتی رہی اور سولہ سترہ سال گزار دیے۔ اس دوران اُس کے کئی بچے بھی ہو گئے۔

 میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ باقی سب شادی شدہ تھے۔ میری شادی بھی گھر والوں نے زاہدہ کے چھوٹے بھائی سے کر دی۔ وہ میری سسرال سے تھی اور میں اُس کی سسرال سے۔ یعنی وہ میری بھابھی اور میں اس کی بھابھی بن گئی۔ میرے شوہر ریاض اور دیور احسان، دونوں کویت میں ملازمت کرتے تھے۔ زاہدہ کو اس بات پر بڑا فخر تھا کہ اس کے دو بھائی بیرونِ ملک کماتے ہیں۔ ایک دن میرے بھائی نے اپنی بیٹی ساحہ کا رشتہ زاہدہ کے بھائی فیضان کے لیے بھیجا، مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ اس انکار پر زاہدہ نے میرے بھائی کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ کہنے لگی، تمہارے بھائی نے میرے بھائی کے رشتے سے انکار کیوں کیا؟ اب میں بھی تمہارے گھر نہیں رہوں گی اور تمہاری بہن ماجده کو طلاق دلواؤں گی۔ زاہدہ چار بچوں کی ماں ہوتے ہوئے بھی بات کو زمین آسمان تک لے جاتی تھیں۔

 ایک دن کسی بات پر میرے بھائی سے جھگڑا ہوا اور وہ میکے چلی گئیں۔ وہاں بھی سکون سے نہ رہیں، الٹا مجھ پر دباؤ ڈالنے لگیں کہ میں اپنے بھائی بہنوں سے تعلق ختم کر لوں۔آخرکار، میرے بھائی بڑی منت سماجت کے بعد انہیں واپس لے آئے۔ دراصل یہ میری بھابھی کی غلطی تھی کہ انہوں نے اپنے دل میں زبردستی کا گٹھا باندھ رکھا تھا۔ وہ سمجھ گئی تھیں کہ جب وہ روتی ہیں تو شوہر پریشان ہو جاتا ہے، منت سماجت کرتا ہے، تو وہ اس جذباتی بلیک میلنگ کو ایک ہتھیار بنا چکی تھیں۔ ایک دن صاف کہہ دیا کہ میں اب مزید برداشت نہیں کر سکتی۔ بچے بڑے ہو چکے ہیں، اب میں علیحدگی چاہتی ہوں۔ تم طلاق دے دو۔ میرے بھائی نے کہا کہ اگر تم خلع لوگی تو میری بہن کا کیا ہوگا جس کی تم نے شادی اپنے بھائی سے کرائی؟ کیا اسے بھی طلاق دلواؤ گی؟ زاہدہ نے کہا کہ ہاں، دلواؤں گی۔ تم فکر نہ کرو، وہ خود واپس آجائے گی۔ بھائی نے کہا کہ خدا کا خوف کرو زاہدہ، ہماری شادی کو سترہ سال ہو چکے ہیں۔ تم کوئی اداکارہ نہیں ہو جو بڑھاپے میں بھی طلاق لے کر دوسری شادی کر کے ویلیو بناتی پھرو۔ ہم نے تمہیں عزت دی ہے، ہر بات مانی ہے، کبھی تمہیں ذہنی اذیت نہیں دی، کبھی جبر نہیں کیا۔ زاہدہ نے کہا، مجھے کسی کے فلسفے کی ضرورت نہیں، مجھے بس طلاق چاہیے۔

 میرے بھائی نے آخری بار پوچھا، طلاق کی وجہ کیا ہے؟ زاہدہ بولی، میرے دل نے اس گھر اور تم سے کبھی رشتہ نہیں جوڑا۔ میں اسیر کی طرح یہاں رہتی آئی ہوں۔ اب میں آزاد ہونا چاہتی ہوں۔ جب بھائی نے مزید بات کی تو زاہدہ چیخنے لگیں کہ اب اگر تم نے مجھ سے اور بات کی تو میں اپنا سر پھوڑ لوں گی۔ میں اپنی اذیت کسی کو سمجھا نہیں سکتی۔ سترہ سال بغیر مرضی کے جینا، یہ کوئی کھیل نہیں۔ یہ بات تو سمجھ آتی تھی کہ انسان جبر سے زندگی نہیں گزار سکتا، مگر یہ سمجھنا مشکل تھا کہ بڑھاپے میں اچانک عشق کا مرض کیسے جاگ اٹھتا ہے؟ وہ عورت، جو چار بچوں کی ماں تھی، اتنی شدت سے دیوانگی کا شکار ہو سکتی ہے؟ یہ پہلو کسی پر واضح نہیں تھا، ورنہ شاید ہم اُسے وقت پر سمجھ جاتے۔

زاہدہ نے اپنے شوہر سے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ تم مجھے اتنا بے قیمت نہ سمجھو، میرے سنبھالنے والے اور میری قدر کرنے والے اب بھی موجود ہیں۔ رشتہ دار لاکھوں ہوتے ہیں، مگر جس طرح شوہر بڑھاپے میں بیوی پر سایہ فگن رہتا ہے، ویسا کوئی نہیں سنبھال سکتا۔ شوہر کی بات کرتے ہو، تو میں دوسرا شوہر بھی کر کے دکھا دوں گی تم کو۔ بھائی نے زاہدہ کی ان باتوں کو مذاق سمجھا، مگر اس نے اپنی ضد پر قائم رہی۔ جب طلاق کا مطلب پورا نہ ہو سکا، تو ایک دن اس نے خاوند کو مٹھائی میں زہر ملا کر کھلا دیا، جس کے باعث ان کے ہاتھ پاؤں سن ہوگئے۔ وہ کام کرنا چھوڑ گئے اور بالآخر چارپائی پر پڑ گئے۔ اب زاہدہ ہر وقت شوہر کو طعنہ دیتی کہ تم تو لولے لنگڑے بوڑھے اور بیکار انسان ہو، جب کہ میں ابھی جوان ہوں، مجھ میں دم خم ہے اور مجھے سنبھالنے والے بھی ہیں۔ مگر اگر میں تمہیں چھوڑ کر چلی گئی تو تمہیں اس حالت میں کون رشتہ دے گا؟ اب میرے بھائی لاچار چارپائی پر پڑے تھے۔ بیوی کی زبان درازی کو سوائے نظر انداز کرنے کے ان کے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا۔ تاہم ان کو یہ بھی یقین نہ تھا کہ کوئی عورت چار بچے چھوڑ کر اس عمر میں دوسری شادی کر سکتی ہے، جب کہ ان کی بیٹی اب سترہ برس کی ہو چکی تھی۔

 لیکن عشق اندھا ہوتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ منیر سے ان کا رابطہ پھر بحال ہوا تھا اور ان کے دل میں سچ مچ عشق کی چنگاری الاؤ کا روپ دھار چکی تھی۔ یہ واقعی ایک انوکھا واقعہ تھا کہ زاہدہ نے جو کہا، بیچ کر کر دکھا دیا۔وہ بھائی سے لڑ جھگڑ کر ایک روز میکے آگئی۔ یہاں شور مچایا کہ خاوند کی خدمت کر کر تھک جاتی ہوں، ساس ڈنڈا اٹھا لیتی ہیں، میں ہرگز کچن نہیں سنبھال سکتی۔ بچے بھوکے رہتے ہیں تو خود کھلائیں، مگر ساس کہتی ہیں کہ ان کو پڑھنے دو۔ تم کہتی ہو کہ ان کو پڑھنے دو، تم گھر سنبھالو۔ کل انہوں نے اس بات پر کفگیر اٹھا لیا اور مجھے پیٹا۔ بہرحال گھر میں یہی بتایا کہ سالن پکانے پر ساس نے بازو سے پکڑ کر گھر سے نکال دیا، اسی لیے واپس آ گئی ہوں۔ میری ساس اور دیور نے کہا کہ آج تک تو تمہارے سسرال والوں نے تم کو انگلی تک نہیں لگائی، پھر آج آخر ایسی کیا بات ہو گئی کہ انہوں نے یہ سلوک کیا؟ جب کہ ان کا بیٹا چارپائی پر پڑا ہے اور تمہاری دیکھ بھال کا محتاج ہے۔

 زاہدہ کی باتوں میں یقین نہ تھا، ضرور کوئی اور بات ہے مگر اس اللہ کی بندی نے جھوٹی قسمیں اٹھا لیں۔ بہرحال ہر کوئی سمجھ چکا تھا کہ یہ جو ارادہ کر چکی ہیں، اس سے انہیں باز رکھنا آسان نہیں ہے۔ سب خاموش ہو گئے کہ چند دن خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔ خود وقت گزرنے پر سدھ بدھ لوٹ آئے گی۔ زاہدہ نے زیور، نقدی اور قیمتی ملبوسات آہستہ آہستہ اپنی ماں کے گھر منتقل کر دیے تھے۔ چند دنوں بعد بغیر میکے کی رضا کے انہوں نے خود جبراً وکیل کیا اور میرے بھائی پر کیس کر دیا کہ شوہر نے مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا ہے اور بچے چھین لیے ہیں۔ بچوں نے بیان دیا کہ والد کا کوئی قصور نہیں، بلکہ والدہ ناحق جھگڑ کر میکے چلی گئی ہیں۔ ان کی عمر ایسی نہیں کہ ہم سے جدا ہوں یا ہم ان سے۔ بھابھی کا کیس کمزور ہو گیا تو میرے بھائی نے ان پر کیس کر دیا کہ یہ میرا گھر آباد کریں، بچوں کے ساتھ رہیں، جتنا خرچ ہو یا جائیداد چپ ہے اسے لکھنے پر تیار ہوں۔ میری جواں سال بچیوں کو اس وقت ماں کی اشد ضرورت ہے اور میں بھی زیر علاج ہوں۔

 ڈاکٹروں کی رپورٹس کے مطابق ان شاء اللہ جلد صحت مند ہو جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ نے ساتھ دیا اور فیصلہ میرے بھائی کے حق میں ہو گیا۔ میرے بھائی نے بھابھی پر گھر آباد کرنے کا دعوی کیا تھا، وہ حق پر تھے تو ان کے حق میں کیس جیت گیا۔ اب وہ آنے سے انکار کر گئیں۔ پھر بھائی نے برداری کے بزرگوں کو زاہدہ بھابھی کے والد اور بھائیوں کے پاس بھیجا کہ آپ لوگ میری بیوی کو لائیں اور یہ لوگ میری بہن کو آباد رکھیں، ورنہ دونوں کے گھر اجڑیں گے اور دونوں کے بچے مائوں سے جدا رہ کر پریشان ہوں گے۔ بزرگوں نے زاہدہ کو بہت سمجھایا، مگر اس نے طلاق کی رٹ لگا دی تھی۔ وہ بھی بے بس ہو گئے۔ ساس نے کہا کہ اب ہمیں ماہرہ کو طلاق دینی ہوگی۔ زاہدہ نہیں جاتی تو وہ بھی اپنی بیٹی کی طلاق کرا کر لے جائیں گے، لیکن میرے شوہر نے نجی بات ماننے سے انکار کر دیا اور مجھے طلاق نہیں دی۔
 میرے خاوند کی دانش مندی سے میرا گھر بچ گیا، تاہم زاہدہ نے اتنی ذی کی کہ میرے بھائی کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا مطالبہ ماننا پڑا۔ انہوں نے بیوی کو طلاق دے دی البتہ یہ شرط رکھی کہ ماہرہ کا خاوند اسے زاہدہ کے ساتھ نہیں رکھے گا بلکہ میری بہن کو علیحدہ گھر لے کر دے گا۔ میرے شوہر نے یہ شرط قبول کر لی۔ وہ ہر صورت اپنے گھر کو بچانا چاہتے تھے کیونکہ میں بے قصور تھی۔

زاہدہ طلاق لے کر خوش تھی۔ اس نے منیر سے رابطہ کیا کہ تمہارے کہنے سے میں نے اکیلے ہی جھگڑے کا سمندر تیر کر پار کیا ہے۔ تیری خاطر گھر بار اور بچے بھی چھوڑے ہیں۔ اب نکاح کرنے کو ہم آزاد ہیں تاکہ بقیہ زندگی ایک ساتھ گزار سکیں۔ وہ شخص جو ہمیشہ اس کو طلاق لینے پر اکساتا تھا، خود کو اس کے بغیر زندہ لاش کہتا تھا۔ شادی کر کے زاہدہ کو اپنانے کے لئے تڑپتا رہتا تھا۔ کہتا تھا کہ ایک بار طلاق لے لو، میں تم کو ساری دنیا کی سیر کرائوں گا، تمام جہان کی خوشیاں تیری جھولی میں ڈالوں گا۔ جب بے وقوف زاہدہ نے زمانے سے ٹکر لے کر اسے یہ خوش خبری سنائی کہ لواب میں آزاد ہوں، آؤ اپنی وہ جنت بنائیں جس کے تم آرزو مند تھے، تو خود بھی تڑپتے تھے، مجھے بھی تڑپاتے تھے، لیکن وہ جھوٹا عاشق نامراد پیچھے ہٹ گیا۔ اب اسے اپنی بیوی اور جوان بچے نظر آنے لگے۔ اس کی بیوی کو بھی پتا چل گیا کہ منیر اپنی پرانی محبوبہ زاہدہ سے نکاح ثانی کرنے چلا ہے۔ اس نے بھائیوں کو اکٹھا کیا اور منیر کو رسیوں سے باندھ کر گھر میں بٹھا لیا۔ 

 لڑکوں نے باپ پر لعن طعن کی اور ایک خط زاہدہ کے نام لکھوایا کہ میں تم سے شادی سے مجبور ہوں۔ میرے بچے جو ان ہیں، وہ آڑے آگئے ہیں۔ اس عمر میں جب کہ ہم پچاس برس کے ہو چکے ہیں اور بڑھاپا سر پر ہے، ہم خوشیوں کی نئی دنیا آباد نہیں کر سکتے۔ ہو سکے تو تم واپس اپنے بچوں کی طرف لوٹ جاؤ اور مجھے معاف کر دو۔ میں بہت مجبور ہوں۔ جب یہ خط زاہدہ کو ملا تو جیسے اس پر برف کا طوفان گرا ہو۔ وہ جہاں بیٹھی تھی، وہیں بیٹھی رہ گئی۔ خط اس کے ہاتھ سے گر گیا۔ میں نے دوڑ کر خط اٹھایا کیونکہ وہ حواس کھو چکی تھی۔ اسے کمرے میں لے جاکر نیند کی گولی زبردستی کھلا دی تاکہ یہ سو جائے اور اس کا دماغ خراب نہ ہو۔
 ایک دن اور ایک رات وہ سوتی رہی، مگر کب تک؟ آخر اسے نیند سے جاگنا تھا۔ جب جاگی تو چودہ طبق روشن تھے۔ اب ادھر کی رہی نہ ادھر کی۔ جس یقین پر اس نے اتنی بڑی جنگ لڑی تھی، وہ یقین منیر کے خط ملتے ہی ختم ہو گیا تھا۔ برسوں سے طلاق لینے پر اکسانے والا، عین منجلہ پر چھوڑ گیا۔ وہ یہ سوچ بھی نہ سکتی تھی، مگر اس کی مراد پوری نہ ہو سکی اور وہ درمیان میں لٹک گئی۔اس وقت اگر میں اسے سہارا نہ دیتی تو یقیناً یا تو وہ خود کشی کر لیتی یا اس کا دل فیل ہو جاتا، لیکن وہ میرے بھائی کے بچوں کی ماں تھی۔ میں اسے بے سہارا چھوڑ سکتی تھی؟ میں نے اس کے راز کو راز رکھا اور اس پر ہمیشہ کے لیے اپنی خاموشی کا پردہ ڈال دیا۔ اپنے شوہر اور اپنے بھائی دونوں کی عزت کو سنبھالا۔ بھابھی کے راز کو اچھالنا نہیں چاہتی تھی بلکہ انہیں رسوائی سے بچانا چاہتی تھی۔ 

مجھے اپنے بوڑھے سسر کے بڑھاپے کا بھی پاس تھا اور اپنے بھائی کے چار بچوں کا بھی خیال تھا۔ جس نند کی خاطر میں بوڑھے سسر سے الگ ہوئی تھی، اس کی خاطر پھر سے اپنے سسرال میں واپس آ گئی کیونکہ مجھے زاہدہ کی لڑکیوں کی شادی میں بھی بھائی کی مدد کرنی تھی۔ وہ اب جزوی طور پر ٹھیک ہو چکے تھے اگرچہ پوری طرح اب بھی ٹھیک نہ ہوئے تھے۔ ان کے گردے بری طرح متاثر ہو چکے تھے۔ میں نے کوشش کر کے زاہدہ کی بڑی بیٹی شمع کو رشتہ داروں میں اچھی جگہ شادی کروادی۔ دوسری بیٹی کی منگنی اس کے چچا زاد سے ہو گئی۔ دونوں بیٹے بھی باشعور ہو چکے تھے، مگر وہ ماں سے سخت بدظن تھے۔ یہ آخری دولت یعنی بچوں کی محبت بھی ایک بے وفا مرد کی محبت کے قریب ہونے کی وجہ سے میری بھابھی کے دامن سے نکل گئی۔ آج بچے ماں سے نفرت کرتے ہیں۔ ہم ان کو کہتے ہیں کہ ماں ماں ہوتی ہے۔ تم لوگوں کا ماں سے کوئی جھگڑا نہیں، تم ان سے ملا کرو، مگر وہ انکار کر دیتے ہیں۔

  (ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ