حویلی کی رکھیل

Sublimegate Urdu Stories

گاؤں کے سردار شیر دل، جو اپنے حاکمانہ فیصلوں کے لیے جانا جاتا تھا، کی اکلوتی بیٹی عابی کی لاش بڑی نہر کے کنارے ملی۔ وہ لاش برہنہ تھی اور اس پر زیادتی کے نشانات واضح تھے۔ یہ خبر سن کر پورا گاؤں سوگ میں ڈوب گیا۔ سردار شیر دل جب اپنی بیٹی کی لاش دیکھنے پہنچے تو ان کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا۔ وہ چیختے ہوئے بولے، "یہ کون سی وحشی قوم ہے جو ایک معصوم لڑکی کی عزت لوٹ کر اسے موت کے گھاٹ اتار دے!" گاؤں والے بھی ان کے غم میں شریک تھے، مگر یہ سانحہ صرف ایک موت نہیں تھا، بلکہ ایک  خاندانی انتقام کی بنیاد بھی بن گیا۔ ایک دیہی علاقے میں، جہاں قدیم روایات اور خاندانی غیرت کی زنجیریں لوگوں کی زندگیوں کو جکڑے ہوئے تھیں، ایک دلخراش سانحہ پیش آیا جو نہ صرف ایک خاندان کو تباہ کر گیا بلکہ کئی معصوم زندگیوں کو بھی اذیت کی بھٹی میں جھونک دیا۔ 

تفتیش شروع ہوئی۔ گاؤں کے کچھ لوگوں نے بتایا کہ عابی کو خاور نامی نوجوان کے ساتھ دیکھا گیا تھا، جو گاؤں کا ہی رہائشی تھا۔ خاور کی گمشدگی نے اسے مجرم ثابت کر دیا۔ وہ اس واقعے کے بعد ایسا غائب ہوا کہ کوئی سراغ نہ ملا۔ سردار شیر دل نے بیٹی کو دفنانے کے بعد چوتھے دن پنچائیت بلائی۔ پنچائیت میں فیصلہ ہوا کہ خون کے بدلے خون، زمین، مال یا عورت دی جائے گی۔ روایات کے مطابق، سردار شیر دل نے عورت کا مطالبہ کیا، جو خاور کے تایا رشید کی بھتیجی حُرہ تھی۔ خاور اکلوتا بیٹا تھا، اس لیے حُرہ کی ذمہ داری تایا پر تھی۔ پنچائیت نے حکم دیا کہ حُرہ کا نکاح سردار شیر دل کے بیٹے عباس سے ہو گا۔ یہ خبر گاؤں میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ حُرہ اور اس کی ماں راحت بی بی، جو یہ جانتی تھیں کہ خون بہا میں دی جانے والی لڑکی کو انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے، شدید غم اور خوف میں مبتلا ہوئیں۔ راحت بی بی نے روتے ہوئے کہا، "بیٹی، یہ حویلی تمہارے لیے قبرستان سے کم نہیں ہوگی۔ وہاں تمہیں ہر پل اذیت دی جائے گی۔"

عباس، جو شہر میں وکیل تھا اور بہن کی موت کی خبر سن کر گاؤں آیا تھا، خاور کو ڈھونڈ رہا تھا۔ وہ پنچائیت کے فیصلے پر بے یقینی کا شکار تھا۔ وہ اپنے باپ سے بحث کرتا، "بابا، مجھے صرف بہن کا قاتل چاہیے، کوئی لڑکی نہیں۔ میری نسبت نورے سے طے ہے۔" مگر سردار شیر دل نے اسے اسلام کے اصولوں کا حوالہ دیا، "چار شادیاں جائز ہیں، یہ نکاح محض انتقام ہے۔ نورے سے شادی دھوم دھام سے کروں گا۔" عباس مجبوراً راضی ہو گیا، مگر اس کا دل اس بات کو قبول نہ کر رہا تھا۔ نکاح کے وقت حُرہ نے انکار کی کوشش کی، "میں یہ نکاح نہیں کروں گی۔" مگر ناہید نے اسے زور دار طمانچہ مارا اور دھمکی دی، "انکار کیا تو حویلی کی رکھیل بن جائے گی۔" درد اور خوف سے بلکتی حُرہ نے خاموشی سے نکاح قبول کر لیا۔ وہ سوچتی، "چاہے زندگی کتنی مشکل ہو، مگر رکھیل نہیں بن سکتی۔"

نکاح کی رسمیں ختم ہوتے ہی، جو محض ایک کاغذی کارروائی سے زیادہ کچھ نہ تھیں، حُرہ کو اس کی کالی چادر میں لپٹا کر ایک پرانی گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔ وہ گاڑی جو اسے اس کی مایوسی کی آخری منزل کی طرف لے جا رہی تھی۔ حُرہ کی آنکھیں نم تھیں، دل میں ایک عجیب سا خوف اور بے بسی کا طوفان تھا۔ اس نے اپنی ماں کے چہرے کو یاد کیا، جو آخری بار روتے ہوئے اسے الوداع کہتی رہی تھیں۔ گاڑی کی کھڑکی سے باہر کا منظر دھندلا رہا تھا، کیونکہ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔ وہ سوچ رہی تھی، "یہ کون سی قسمت ہے جو مجھے ایک ایسے گھر کی طرف دھکیل رہی ہے جہاں میں محض ایک انتقامی نشانہ ہوں؟" گاڑی حویلی کی حدود میں داخل ہوئی، اور حُرہ کو گھسیٹ کر اندر لایا گیا۔ اس کا جسم درد سے کراہ رہا تھا، کیونکہ راستے بھر اسے ناہید کی دھمکیاں اور تشدد یاد آ رہے تھے۔

حویلی میں قدم رکھتے ہی، سردار بی بی نے اسے دیکھتے ہی اپنی کرخت آنکھوں سے گھورا۔ "آئی ہے تو، ہمارے خاندان کی تباہی کی بنیاد!" کہتے ہوئے انہوں نے حُرہ کو زور دار ٹھوکر ماری۔ حُرہ کا نازک جسم زمین پر گرا، اس کی چادر کاندھوں سے سرک گئی، اور اس کے لمبے بال بکھر گئے۔ درد کی شدت سے وہ بلک اٹھی، مگر اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتی، سردار بی بی نے اس کے رخسار پر طمانچوں کی بوچھاڑ کر دی۔ ہر طمانچہ جیسے اس کی روح کو چیر رہا تھا۔ "تو ہمارا انتقام ہے، لڑکی! جس طرح ظالموں نے میری عابی کو مارا ہے، اس سے بدتر حال کرے گا میرا عباس تیرا۔ تیری نسوانیت تباہ کر دیں گے ہم!" سردار بی بی کی آواز میں نفرت کی آگ تھی، اور حُرہ روتی بلکتی رہی۔ اس کی چیخیں حویلی کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس آ رہی تھیں، مگر کوئی نہ آیا بچانے کو۔ ملازمائیں دور کھڑی دیکھ رہی تھیں، مگر سردار بی بی کا خوف انہیں خاموش رکھے ہوئے تھا۔ حُرہ کا جسم زخموں سے بھر گیا، اس کی آنکھیں سوج گئیں، مگر وہ صرف یہ سوچ رہی تھی، "یا اللہ، یہ کیسی آزمائش ہے؟ میں نے کس کا کیا بگاڑا تھا؟"

اس اذیت کے درمیان، نورے کمرے میں آئی۔ وہ خوبصورت لڑکی، جو گہرے رنگ کے جوڑے میں ملبوس تھی، حُرہ کے زخمی وجود کو دیکھ رہی تھی۔ "یقیناً تمہاری حالت قابل رحم ہے، مگر میرے دل میں تمہارے لیے کبھی ہمدردی نہیں آ سکتی۔ تم ہمارے سے پہلے سردار کے نکاح میں آئی ہو۔ بچپن سے دل میں بستے ہیں وہ، اور تم نے آج انجانے میں ہی سہی، مگر میرا عباس حاصل کر لیا۔" نورے کی آواز میں حسرت اور غصہ تھا، اور وہ چیخی، "عباس کبھی تم سے محبت نہیں کریں گے، تم سے نفرت کریں گے!" حُرہ خوف سے آنکھیں میچ گئیں، اس کی چیخیں اس کے دل کو چھلنی کر رہی تھیں۔ نورے کی آنکھوں میں بے چینی دیکھ کر حُرہ کا دل کانپ اٹھا۔ اس کے بعد ناعمہ ہمدانی آئیں اور نورے کو سینے سے لگایا۔ "بیٹا، خون بہا میں آئی لڑکیاں بیویاں نہیں ہوتیں، وہ صرف ونی ہوتی ہیں۔ تمہاری شادی عباس سے ضرور ہوگی۔" انہوں نے حقارت بھری نگاہ حُرہ پر ڈالی اور کہا، "اس کی اوقات کچھ نہیں تمہارے آگے۔" یہ الفاظ حُرہ کے دل پر نشتر کی مانند لگے، مگر وہ خاموش رہی۔

سردار بی بی کے جانے کے بعد، حُرہ کو ایک سٹور جیسے کمرے میں پھینک دیا گیا، جہاں پرانا سامان پڑا تھا اور صرف ایک پرانی چٹائی تھی۔ وہ زمین پر گر کر شدت درد سے کراہ اٹھی، اس کی کمر اور بازوؤں میں ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ کمرے کی نیم تاریکی میں وہ اپنی ماں اور بابا کو یاد کر کے روئی۔ "ماں، بابا، یہ کیا جگہ ہے؟ یہاں تو روشنی بھی نہیں، کوئی تکیہ نہیں، کوئی چادر نہیں۔ سردی کی خنکی میرے وجود کو کاٹ رہی ہے۔" وہ روتی رہی، اس کی آوازیں کمرے کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس آ رہی تھیں۔ زندگی پہلے بھی مشکل تھی، مگر اب تو جہنم بن گئی تھی۔ ہر پل ایک نئی اذیت، ہر لمحہ ایک نئی ذلت۔ وہ سوچتی، "میں نے کس کا کیا بگاڑا تھا کہ یہ سب میرے حصے میں آیا؟"

حُرہ کی زندگی نوکروں سے بھی بدتر تھی۔ صبح پانچ بجے اٹھ کر تمام کام کرنا پڑتا، باورچی خانے سے لے کر صفائی تک۔ ناہید اسے حکم دیتی، "جلدی کرو، مہارانی! اگر کام میں دیر ہوئی تو تھپڑ ماروں گی۔" حُرہ کا دبلا پتلا جسم مشقت سے چور ہو جاتا، مگر وہ خاموشی سے کام کرتی۔ سردار بی بی اور ناہید اسے مارتیں، تذلیل کرتیں۔ ایک دن سردار بی بی نے اسے پاؤں دبانے کو بلایا، مگر جب حُرہ نے ماں سے ملنے کی التجا کی، تو انہوں نے ٹھوکر ماری اور کہا، "ہاں تو مر جائے تیری ماں۔ رحم نہیں ہمارے پاس تیرے لیے۔" حُرہ نے ہاتھ جوڑے، مگر مزید تشدد کا سامنا کیا۔ وہ روتی بلکتی رہی، مگر حویلی کی دیواریں اونچی تھیں، اور لوگوں کے دل چھوٹے۔ نوکر بھی اسے حقیر سمجھتے، "یہ تو خون بہا کی لڑکی ہے، کوئی اوقات نہیں۔" حُرہ صبر کرتی، جواب نہ دیتی، مگر اندر سے ٹوٹ رہی تھی۔ وہ سوچتی، "یہ صبر نہیں، بے حسی ہے۔ میں زندہ لاش بن گئی ہوں۔"

ایک دن حُرہ کو ماں کی موت کی خبر ملی، جو ناہید نے سردار بی بی سے منع ہونے کے باوجود چھپا رکھی تھی۔ حُرہ نے باورچی خانے میں سن کر سکتے میں آگئی۔ وہ زمین پر بیٹھ گئی، آنکھیں خشک ہو گئیں، مگر جب حواس بحال ہوئے تو بلند آواز میں چیخی، "ماں! مجھے اپنے پاس بلالو!" ایک ملازمہ نے اسے سنبھالا اور تسلی دی، مگر حُرہ شدت غم سے بلکتی رہی۔ "ظالموں کو رحم نہیں آیا، ایک بار ماں سے ملا دیتے تو کیا تھا؟" وہ روتی رہی، اس کی چیخیں حویلی میں گونجتی رہیں، مگر کوئی نہ آیا۔ اس کی ماں، جو اس کی واحد سہارا تھی، اب نہیں رہی تھی۔ حُرہ کا دل چیر گیا، وہ رات بھر روتی رہی، "بابا، تایا کی زیادتیاں، اب ماں کا بچھڑنا—سب کچھ برداشت کر لیا، مگر اب کیسے جیو گی یہ زندگی؟"

عباس اپنی بہن کے قاتلوں کی تلاش میں تھا۔ اس نے ایک قاتل کو پکڑا، شدید مارا، مگر جیل میں وہ مر گیا۔ عباس کی پریشانی بڑھ گئی۔ وہ نماز میں روتا، "میرے مالک، یہ کیسی آزمائش ہے؟ میری بہن کی عزت لوٹی گئی، میں اسے بچا نہ سکا۔ سکون دے مجھے۔" ایک دن وہ غصے میں حویلی آیا۔ حُرہ نے اس کی آمد پر خوف محسوس کیا، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ نکاح انتقام کا ہے۔ عباس نے اسے بلایا اور بات کی۔ اس کی معصومیت دیکھ کر وہ متاثر ہوا۔ رات کو اس نے تعلق قائم کیا۔ حُرہ روئی، مگر مزاحمت نہ کی، "یہ میری قسمت ہے۔" وہ سوچتی، "یہ محض دل بہلانا ہے، بیوی تو نورے بنے گی۔" اگلے دن عباس نے اسے پاکٹ منی دی، کمرے میں شفٹ کیا۔ نورے پریشان ہوئی، "یہ میری جگہ کیسے لے سکتی ہے؟" سردار بی بی نے یہ دیکھ کر غصہ کیا، "یہ لڑکی ہمارے بیٹے کو بہکا رہی ہے۔" ناہید نے بھڑکایا، "بی بی، یہ چالاک ہے۔"

ایک دن کنگن چوری کا الزام لگا، جو ناہید کی سازش تھی۔ سردار بی بی نے کمرے میں بلایا اور پوچھا، "میرے کنگن کہاں ہیں؟" حُرہ نے انکار کیا، تو انہوں نے بال پکڑے اور طمانچے مارے۔ "تو چور ہے، گھٹیا خاندان کی!" حُرہ کا چہرہ سوج گیا، جسم زخموں سے بھر گیا۔ کمرے کی تلاشی میں کنگن چادر سے ملے، جو ناہید نے رکھے تھے۔ سردار بی بی نے شدید مارا، "تیری عزت نوچوں گی!" حُرہ شدت درد سے نڈھال ہو گئی۔ نورے نے یہ دیکھا تو روئی، مگر ماں نے روکا۔ حُرہ روتی رہی، "میں چور نہیں، یہ سب جھوٹ ہے۔" سزا میں کھانا بند کر دیا گیا۔ حُرہ بیمار ہوئی، حکمیہ نے بتایا وہ حاملہ ہے۔ حُرہ پریشان، "بیٹا ہو تو قبول، بیٹی ہو تو اذیت۔" وہ سوچتی، "یہ خوشی یا دکھ؟ سردار بی بی مجھے مار دیں گی۔"

عباس نے ناہید کی بدتمیزی دیکھ کر غصہ کیا۔ شہزاد نے اس پر ہونے والے تمام ظلم کی داستان عباس کہ کہ سنائی۔ عباس نے سب کے سامنے حُرہ کو بیوی کا درجہ دیا، "یہ میری بیوی ہے، کسی نے بد تمیزی کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔"

عباس کے اس اعلان کے بعد کہ حُرہ اس کی بیوی ہے، حویلی میں ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی۔ سردار بی بی، جو دل کا دورہ پڑنے کے بعد ہسپتال میں داخل تھیں، اپنی حالت پر غصے اور بے بسی کا شکار تھیں۔ وہ حُرہ کو کبھی دل سے قبول نہ کرنا چاہتی تھیں، مگر عباس کے فیصلے نے ان کے روایتی اقتدار کو چیلنج کیا تھا۔ ہسپتال سے واپسی پر وہ کمزور تھیں، لیکن ان کا غصہ ابھی ٹھنڈا نہ ہوا تھا۔ انہوں نے عباس سے کہا، "تم نے ہماری غیرت کو داؤ پر لگایا۔ یہ لڑکی ہمارے خاندان کی دشمن ہے۔" عباس نے نرمی سے جواب دیا، "ماں جی، غیرت عزت دینے سے قائم ہوتی ہے، ظلم سے نہیں۔ حُرہ معصوم ہے، اور اسے ہمارے گھر کی عزت بنانا میری ذمہ داری ہے۔"
حُرہ، جو اب ایک بہتر کمرے میں منتقل ہو چکی تھی، اپنی نئی زندگی سے خوفزدہ تھی۔ وہ جانتی تھی کہ سردار بی بی اور ناہید اسے کبھی قبول نہیں کریں گی۔ اس کی حمل کی خبر نے اس کے خوف کو مزید بڑھا دیا تھا۔ وہ راتوں کو دعائیں مانگتی، "اے اللہ، اگر بیٹا ہو تو اسے اپنے باپ کی طرح انصاف پسند بنانا، اور اگر بیٹی ہو تو اسے میری طرح صبر عطا کرنا۔" اس کی بیماری بڑھتی جا رہی تھی، اور حکمیہ نے خبردار کیا کہ تناؤ اس کی صحت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ عباس نے حُرہ کی دیکھ بھال کے لیے ایک قابل اعتماد نوکرانی، زینب، کو تعینات کیا۔ زینب نے حُرہ سے ماں کی طرح شفقت کی اور اسے تسلی دی، "بی بی، صبر کرو، اللہ سب ٹھیک کرے گا۔"

دریں اثنا، نورے کا دل بھی ٹوٹ چکا تھا۔ وہ عباس سے محبت کرتی تھی، مگر اسے لگتا تھا کہ حُرہ نے اس کی جگہ لے لی۔ وہ ناعمہ سے ملنے گئی اور اپنا دکھ شیئر کیا۔ ناعمہ نے اسے سمجھایا، "نورے، محبت زبردستی نہیں ہوتی۔ عباس نے حُرہ کو بیوی کا درجہ دیا، مگر اس کا دل ابھی تمہارے ساتھ ہے۔ صبر کرو، وقت سب کچھ سکھا دے گا۔" نورے نے فیصلہ کیا کہ وہ گاؤں چھوڑ کر شہر جائے گی، جہاں وہ اپنی تعلیم مکمل کر سکتی تھی۔ اس نے عباس سے ملاقات کی اور کہا، "میں تمہارے فیصلے کی عزت کرتی ہوں، مگر میں اپنی زندگی خود بناؤں گی۔" عباس نے اس کی ہمت کی داد دی اور دعا دی کہ وہ کامیاب ہو۔

ایک دن گاؤں میں افواہ پھیلی کہ خاور زندہ ہے اور اسے ایک قریبی شہر میں دیکھا گیا۔ عباس نے فوراً پولیس سے رابطہ کیا۔ تفتیش سے پتہ چلا کہ خاور واقعی ایک چھوٹے سے شہر میں چھپا ہوا تھا۔ پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔ خاور نے اعتراف کیا کہ اس نے عابی کے ساتھ بدتمیزی کی تھی، مگر قتل اس کے دو دوستوں نے کیا تھا، جو پہلے ہی جیل میں مر چکے تھے۔ یہ خبر سن کر عباس کا دل مزید ٹوٹ گیا، مگر اسے سکون بھی ملا کہ قاتل کو سزا ملے گی۔ خاور کو عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی۔

حُرہ کی زندگی اب کچھ بہتر ہو رہی تھی۔ عباس اس کی دیکھ بھال کرتا، اور زینب اس کی ہر ممکن مدد کرتی۔ ایک دن حُرہ نے عباس سے کہا، "میں جانتی ہوں کہ آپ نے مجھے روایات کی وجہ سے قبول کیا، مگر آپ کا احترام میرے لیے سب کچھ ہے۔" عباس نے مسکرا کر کہا، "حُرہ، تم نے صبر سے میرا دل جیت لیا۔ اب تم اس گھر کی عزت ہو۔"
کچھ ماہ بعد، حُرہ نے ایک خوبصورت بیٹی کو جنم دیا، جس کا نام انہوں نے عابی رکھا، اپنی بہن کی یاد میں۔ سردار بی بی، جو اب صحت یاب ہو چکی تھیں، پہلے تو ناراض رہیں، مگر جب انہوں نے معصوم عابی کو دیکھا، ان کا دل پگھل گیا۔ وہ حُرہ سے ملنے آئیں اور معافی مانگی، "بیٹا، میں نے تم پر ظلم کیا۔ میرا دل غصے سے اندھا تھا۔" حُرہ نے ان کے ہاتھ چومے اور کہا، "ماں جی، معافی اللہ کی صفت ہے، اور میں آپ کو دل سے معاف کرتی ہوں۔"

گاؤں کی پنچائیت نے بھی اس واقعے سے سبق سیکھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ونی جیسی ظالمانہ رسومات کو ختم کیا جائے گا۔ عباس نے گاؤں میں ایک اسکول کھولا، جہاں لڑکیوں کو تعلیم دی جاتی تھی۔ حُرہ اس اسکول کی سربراہ بنی اور اپنی بیٹی عابی کو عزت اور آزادی کی زندگی دینے کا عزم کیا۔

یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ روایات اگر ظلم پر مبنی ہوں تو انہیں بدلنا ضروری ہے۔ عورت کا احترام ہر مرد کی ذمہ داری ہے۔ انتقام سے معافی اور انصاف بہتر ہے۔ صبر اور ایمان سے ہر مشکل حل ہوتی ہے، اور محبت ہر زخم کو مندمل کر سکتی ہے۔ اللہ کی عدالت میں سب برابر ہیں، اس لیے دوسروں کے حقوق کی حفاظت کریں۔

  (ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ