وہ دن بھی کتنے اچھے تھے جب میں چوتھی جماعت میں تھی اور ہم کراچی جیسے دلکش اور پرامن شہر میں خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ والد صاحب کی یہاں بہت اچھی ملازمت تھی، تنخواہ بھی معقول تھی۔ میں سب سے بڑی تھی اور باقی چار بہن، بھائی مجھ سے چھوٹے تھے۔
بنیادی طور پر والد صاحب کا تعلق ایک گائوں سے تھا جہاں ان کی کچھ وراثتی اراضی بھی تھی جس کو چچا جان نے اپنی تحویل میں لیا ہوا تھا، وہی کاشت کرتے تھے اور پیداوار کی آمدنی بھی سنبھال لیتے تھے۔ والد نے کبھی ان سے اس مالی آمدنی میں حصّے داری کا تقاضا نہ کیا۔
ایک بار ابا جان ہماری دادی سے ملنے گائوں گئے، واپس آئے تو رٹ لگا دی کہ ہم اب کراچی شہر کی سکونت ترک کر دیں گے اور اپنے گائوں جا کر رہیں گے۔
ان دنوں کراچی کے حالات پرامن تھے اور گائوں جا کر رہنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ ہم یہاں اچھے اسکولوں میں پڑھ رہے تھے جبکہ وہاں کوئی ڈھنگ کا اسکول بھی نہ تھا تب ہی امی جان راضی نہ تھیں کہ والد صاحب کی نوکری اچھی تھی، گھر بھی کمپنی کی طرف سے ملا ہوا تھا، وہ شوہر کو سمجھاتی رہیں، ابو نہ مانے جیسے کسی نے ان پر سحر پھونک دیا ہو کہ بس اب شہر کو چھوڑ کر گائوں جانا ہے اور وہاں رہائش اختیار کرنی ہے۔
کچھ رشتہ داروں نے غالباً ان کو باور کرا دیا کہ تمہارے حصّے کی جائداد کا مالک تمہارا چھوٹا بھائی بن گیا ہے۔ تم یہاں آ کر رہو اور اپنی اراضی کی پیداوار سے مالی منفعت حاصل کرو۔ ایسا نہ ہو کہ ہمیشہ کیلئے اپنی وراثت سے ہاتھ دھو بیٹھو۔ بہرحال انہوں نے اپنی سی کر لی اور نوکری سے استعفیٰ دے کر وہ ہم کو گائوں لے آئے جبکہ امی منع کرتی رہ گئیں کہ میرے بچوں کی زندگی خراب نہ کرو وہاں کوئی اچھا اسکول نہیں ہے۔ ان کو یہاں پڑھنے دو۔ ان پر والدہ کسی کی التجا کا بھی اثر نہ ہوا۔ ایک دن زبردستی گھر کا سامان بھی اٹھا کر فروخت کر دیا، مجبوراً امی کو ان کے ساتھ گائوں جانا پڑا۔
دادی جان کچے گھر میں رہتی تھیں جس میں غسل خانہ بھی ڈھنگ کا نہ تھا۔ باورچی خانے کا تو یہاں تصوّر ہی نہ تھا۔ وہ برآمدے میں چولہا رکھ کر کھانا بناتی تھیں۔ جب والدہ نے اس طرح کے رہن سہن پر اعتراض کیا تو ابو نے پکا مکان بنوا دیا اور ہم اس میں رہائش پذیر ہو گئے۔
اب ذریعہ معاش کی فکر نے ستایا جو جمع پونجی ساتھ لائے تھے وہ خرچ ہو گئی۔ انہوں نے اپنی زمین چچا سے لے لی اور خود کاشت کرنے کی سعی کی لیکن ان کو فصل اگانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ وہ بہت جلد مالی پریشانی کے چنگل میں پھنس گئے۔ جن رشتہ داروں نے شہر چھوڑنے پر اکسایا تھا انہوں نے برے دنوں میں آنکھیں پھیر لیں۔
رفتہ رفتہ حالات کنٹرول سے باہر ہوتے گئے۔ وہ ذہنی صدمے سے دوچار ہوئے تو چڑچڑے اور بیمار رہنے لگے، پچھتانے لگے کہ کیوں رشتہ داروں کی باتوں پر کان دھرے، اچھے بھلے شہر میں رہ رہے تھے، ملازمت بہتر، کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ لیکن اب پچھتاوے کیا ہووت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
دو برس تک پریشانیوں کا مقابلہ کر سکے پھر ان کا ذہنی توازن ٹھیک نہ رہا۔ حالات سنبھلنے کی بجائے مزید خراب ہو گئے اور ہم پر برا وقت آ گیا۔ امی نے ابو کا علاج کرانے کی کوشش کی مگر گائوں میں ذہنی امراض کے ڈاکٹر نہ تھے اور بار بار کسی بڑے شہر لے جانا بھی ممکن نہ رہا۔ ایک رشتہ دار نے ترس کھایا، وہ میرے والد کو لاہور لے گئے جہاں ذہنی امراض کے اسپتال میں ان کو بجلی کے شاک بھی لگے لیکن حالت نہ سدھری بلکہ وقفے وقفے سے دورے پڑنے لگے۔ اب وہ ذرا ذرا سی بات پر آپے سے باہر ہو جاتے۔ غصّے میں جو شے سامنے پڑی ہوتی، مار دیتے، اشیاء توڑتے اور چیختے چلاتے کہ پڑوسی آ جاتے۔
امی ان حالات سے افسردہ اور آزردہ رہنے لگیں۔ وہ شہر کی رہنے والی تھیں، یہاں ان کا کوئی نہ تھا جو تسلّی کے دو بول کہتا۔ جب تک دادی تھیں وہ کسی طور ہمارے اخراجات اور کھانے، پینے کا بندوبست کرتی تھیں۔ ان ہی دنوں جبکہ میں چھٹی کلاس میں تھی ان کا انتقال ہو گیا۔ ہم لوگوں کا یہ سہارا بھی جاتا رہا۔
والد صاحب کی حالت دن بہ دن بگڑتی جاتی تھی۔ پہلے وہ صرف چیختے چلاتے اور چیزیں توڑتے تھے، اب جب دورہ پڑتا مارنے کو دوڑتے۔ انہوں نے امی کے ساتھ ساتھ ہم بچوںکو بھی مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ ایک روز نہ جانے کس بات پر اس قدر غصّہ کیا کہ کلہاڑی سے امی کو زخمی کر ڈالا۔
اس واقعے نے ہمیں بے حد خوفزدہ کر دیا۔ والدہ میرے چچا کے گھر گئیں اور ان سے کہا کہ آپ کے بھائی کی ایسی حالت ہے، خدارا میرے بچّوں کو اپنے پاس رکھ لیں کہ عمیر کا کوئی بھروسا نہیں ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اور دورہ پڑ جائے اور بچّوں کو مار دے۔
یہ سن کر چچا غصّے میں آپے سے باہر ہو گئے۔ انہوں نے کہا تم کیسی بیوی ہو اپنے شوہر کو پاگل ظاہر کرتی ہو، چلی جائو یہاں سے۔ انہوں نے لاٹھی اٹھا لی اور امی جان کو مارنے کیلئے دوڑے تو وہ بے چاری ڈر کر واپس آ گئیں کہ یہ دونوں ہی بھائی انتہا پر ہیں، یک نہ شد دو شد۔
ہم تو بچے تھے جب والد کو ایسا دورہ پڑتا اور غصّے میں چیختے چلاتے، ہم ڈر کر گھر سے باہر نکل جاتے اور یوں کئی پہر گلیوں میں بسر کرتے مگر ہمارے رشتہ دار ہم کو اپنے گھر پناہ نہ دیتے بلکہ ہمارا تماشا دیکھتے۔
ایک دن اچانک ابو کو دورہ پڑا۔ انہوں نے چھری اٹھا لی اور مارنے کو دوڑے تو والدہ نے کسی طرح خود کو اور ہم کو بچایا، ہم تو گھر سے باہر نکل گئے۔ امی نے مکان کے بیرونی دروازے کو باہر سے کنڈی لگا دی تاکہ ابو باہر نہ آ سکیں۔
ان حالات میں ہمارا باپ کے ساتھ رہنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ امی ہم کو لے کر اپنے والد کے گھر چلی آئیں، انہوں نے نانا سے حالات بیان کئے کہ میرے بچّوں کو اپنے پاس رکھ لیں ورنہ یہ پاگل باپ کے ہاتھوں کسی دن جان سے جائیں گے۔
نانا تو ہم کو اپنے گھر رکھنے پر راضی ہو گئے لیکن ممانی نے شور مچا دیا کہ ہم فائزہ کو تو رکھ سکتے ہیں اس کے پانچ بچوں کو نہیں رکھتے۔ امی بولیں، ان ہی بچوں کی خاطر تو میں یہاں آئی ہوں۔ میں تو وہاں رہ لوں گی مگر نہیں چاہتی کہ پاگل باپ ان کو کوئی نقصان پہنچائے۔
کیا ان کا خرچہ تم خود اٹھائو گی؟ ممانی نے سوال کیا۔ والدہ نے جواب دیا، نہیں اٹھا سکتی۔ تب وہ کہنے لگیں، تو پھر کل صبح ان کو واپس گائوں پہنچا دینا، ہم تمہارے بچوں کی اس فوج کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے، ماموں خاموش رہے۔ انہوں نے بیوی کو کچھ نہ کہا کہ میری بہن کو کیوں نکال رہی ہو؟ وہ آس لے کر آئی ہے، آخر اس بے سروسامانی میں کہاں جائے گی؟
رات ہم نے ماموں کے گھر کاٹی اور صبح امی ہم کو مجبوراً ساتھ لے کر نانا کے گھر سے نکلیں۔ اب وہ محلے کے چوک پر کھڑی ادھر ادھر دیکھ رہی تھیں کہ کہاں جائیں، اتنے میں محلے کے ایک شخص کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس کا نام حفیظ تھا، امی سے پوچھا…فائزہ بہن صبح صبح بچوں کو لے کر کہاں جا رہی ہو؟ کیا جواب دیتیں، آنسو بھل بھل آنکھوں سے بہنے لگے۔ حفیظ نے سمجھ لیا کہ اس عورت پر مصیبت کا وقت ہے۔ بولا…رویئے نہیں۔ آیئے میرے ساتھ، گھر چل کر بات کرتے ہیں۔
حفیظ کی والدہ امی جان کو بچپن سے جانتی تھیں۔ انہوں نے تسلّی دی تو امی نے احوال بتا دیا تب وہ شفیق اور مہربان عورت کہنے لگی… فائزہ تم میری بیٹی کی طرح ہو اور میں تمہاری بھاوج کو بھی خوب جانتی ہوں۔ کہیں جانے کی ضرورت نہیں، اب تم یہیں رہو۔
ہم کچھ ماہ ان کے گھر رہے۔ حفیظ کی امی نے بہت اچھا رویہ رکھا اور بیٹے سے کہا کہ ان کا خرچہ اٹھائو، ان کو کسی طرح کی تکلیف نہیں ہونی چاہئے۔ حفیظ نے ہمارے اخراجات اٹھائے۔
ایک محلے کی بات تھی، لوگ نانا اور ماموں سے جا کر باتیں لگانے لگے کہ آپ کے ہوتے ہوئے آپ کی بیٹی اور نواسے، نواسیاں کسی غیر کے گھر پڑے ہیں، یہ بہت نامناسب بات ہے، آخر آپ لوگ کیوں ان کو نہیں رکھتے۔ ان کیلئے تو یہ شرمندگی کی بات تھی مگر ممانی کی وجہ سے مجبور تھے۔ انہوں نے گھر میں بتایا تب ممانی کمر کس کر آ پہنچیں اور حفیظ کے خوب لتّے لئے کہ تم نے کس طمع پر ان لوگوں کو گھر رکھا ہے یوں ہی تو کوئی کسی کے اخراجات نہیں اٹھاتا، ضرور تم کو رشتے کا لالچ دیا ہو گا۔
جب ایسی باتیں ممانی کے ذریعے چاروں طرف عام ہو گئیں تو حفیظ صاحب بھی کچھ سوچنے پر مجبور ہوئے۔ تب ہی ایک روز انہوں نے امی سے کہا کہ فائزہ بی بی اگر آپ یوں ہی کچھ عرصہ اور میرے گھر قیام پذیر رہیں تو محلے والے اور خود آپ کے بھائی، بھاوج میرا جینا دوبھر کر دیں گے، بہتر ہے کہ اس انسانیت کے رشتے کو رشتہ داری میں بدل لیں، اس طرح لوگوں کی زبانیں بند ہو جائیں گی اور آپ کے یہاں قیام کا حق واضح ہو جائے گا۔ میں آپ کے بچوں کا خرچہ اٹھاتا رہوں گا اور آپ آرام و سکون سے رہتی رہیے گا۔
حفیظ کی بیوی وفات پا چکی تھی، گھر میں صرف ایک بوڑھی ماں تھی جبکہ وہ صاحب جائداد تھا اور اللہ کا دیا سب ہی کچھ تھا۔ رشتہ برا نہ تھا، اگر حفیظ مجھ سے دو، چار برس بڑے ہوتے لیکن میں تیرہ، چودہ برس کی تھی اور وہ 45؍سال کا ادھیڑ عمر تھا۔ یہ رشتہ عمروں کے لحاظ سے بے جوڑ تھا تب ہی امی نے جواب دیا۔
حفیظ میں آپ کو بھائی کہتی ہوں، کاش بیٹا کہہ سکتی تو یہ رشتہ برا نہ تھا۔ میں آپ کی مہربانی اور احسان کا بدلہ نہیں اتار سکتی مگر بے جوڑ شادی اکثر کامیاب نہیں رہتی۔ تاہم وہ بہ ضد ہو گئے کہ بعد میں سب درست ہو جائے گا مگر آپ کو میرا رشتہ عمیرہ سے کرنا ہو گا ورنہ آپ مزید میرے گھر نہیں رہ سکتیں۔
ایسے برے وقت میں صرف ایک حفیظ کا سہارا ملا تھا وہ بھی کھو جاتا تو امی کہاں جاتیں؟ انہوں نے بہت مجبور ہو کر ہامی بھری۔ جب میں نے سنا، رونے لگی تب انہوں نے مجھے سمجھایا کہ عمیرہ اگر تم نے یہ قربانی نہ دی تو تمہارے بہن، بھائی در بدر ہو جائیں گے۔ وہ گلیوں میں پھریں گے اور چوکوں میں سونا پڑے گا۔ ایسے میں تمہاری چھوٹی بہنوں کو چھت کہاں سے میسّر آئے گی؟ باپ کے گھر جائیں گی، وہ کسی دن دورے کی حالت میں ان کو مار ڈالے گا۔ غرض ماں کی مجبوری جب آنسوئوں کی صورت میں ان کی آنکھوں سے ٹپکنے لگی تو میں نے قربانی دینے کی ٹھان لی۔ اگرچہ بچی تھی مگر وقت نے سیانا بنا دیا تھا۔
جی تو چاہتا تھا کہ حفیظ کی دلہن بننے سے پہلے دریا میں چھلانگ لگا دوں کہ اس کالے اور بھدے آدمی کو دیکھ کر مجھ پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا لیکن کیا کرتی، دوسرا کوئی چارہ نہ تھا۔
سچ ہے بھوک میں بھوکا مردار بھی کھا جاتا ہے، میں نے بھی زہر کا پیالہ پی لیا اور حفیظ سے نکاح قبول کر کے ماں اور اس کے چار بچوں کو بھوکا مرنے سے بچا لیا۔
حفیظ مجھے پا کر بہت خوش تھا۔ بے شک وہ کالا، بھدا آدمی تھا مگر دل کا خوبصورت انسان تھا۔ اس نے نہ صرف ہم کو سہارا دیا بلکہ میرے بہن، بھائیوں کو اسکول میں داخل کرایا تاکہ وہ پڑھ لکھ کر اپنے پائوں پر کھڑے ہو جائیں۔
اب لوگوں کی زبانیں بند ہو گئیں کیونکہ امی کا وہ داماد تھا اور اس رشتے سے وہ اپنے بچوں کے ساتھ ہمارے گھر رہ سکتی تھیں۔ دعائیں دیتی تھیں حفیظ کی نیک سیرت ماں کو جس نے پہلے دن سے میری امی کو پیار سے گلے لگایا تو آخری دن تک نباہ کیا۔
امی اس دوران تین، چار بار گائوں گئیں۔ چچا نے ہمارے مکان کو تالا لگا دیا تھا اور ابو کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ ان کو وہ اپنے گھر کے ایک کمرے میں مقفل رکھتے تھے۔ ایک نوکر ابو کی دیکھ بھال پر مقرر تھا جو کمرے کی صفائی کرتا، ابو کو نہلاتا اور کھانا کھلاتا تھا لیکن وہ لوگ ان کو کمرے سے باہر نکلنے نہ دیتے۔ یوں ایک کمرے کی قید میں ہی میرے والد کا دو سال بعد انتقال ہو گیا تو ہمارے گھر پر مکمل چچا کا قبضہ ہو گیا۔ زمین تو پہلے ہی ان ہی کے قبضے میں تھی۔
والدہ تو یوں بھی گائوں میں رہنا خسارے کا سودا سمجھتی تھیں، انہوں نے مکان کو حاصل کرنے کا کوئی تردد نہ کیا۔ نہیں چاہتی تھیں کہ جہاں ان کی بربادی کے دن شروع ہوئے تھے وہاں جا کر رہیں۔ ہم یہاں اچھے اسکولوں میں زیر تعلیم تھے اور وہ ہم کو زیور تعلیم سے آراستہ دیکھنا چاہتی تھیں۔
میں نے آٹھویں تک پڑھا اور شادی ہو گئی لیکن میرے چاروں بہن، بھائیوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اس نیکی اور اچھائی کا سہرا حفیظ کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے امی جان سے کیا ہوا وعدہ وفا کیا، اگر نہ کرتے تو نہ جانے میری بہنوں اور بھائیوں کا زمانہ کیا حشر کرتا۔
آج ایک بہن اسکول کی ہیڈ مسٹریس ہے اور دوسری ڈاکٹر ہے جبکہ دونوں بھائیوں نے انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی ہے اور اب دبئی اور سعودی عرب میں جاب کر رہے ہیں۔ چاروں نے اپنی اپنی منزل پا لی ہے۔
امی جان بچوں کی خوشیاں دیکھ کر اپنے خالق کے پاس چلی گئیں۔ مجھے اس امر کی خوشی ہے کہ انہوں نے برے دن دیکھے تو اچھے دن بھی ان کو دیکھنے نصیب ہوئے۔ بے شک تھوڑے عرصے کیلئے خوشیاں دیکھ پائیں مگر کوئی حسرت لے کر اس جہاں سے رخصت نہیں ہوئیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہم کو اولاد کی نعمت سے نہیں نوازا۔ آج بھی حفیظ کہتے ہیں کہ تمہارے بہن، بھائی ہی میرے لئے اولاد کی طرح ہیں۔ مجھے اولاد نہ ہونے کا کوئی غم نہیں ہے۔ اب مجھے اپنی قسمت سے گلہ نہیں کہ حفیظ ساتھ نہ دیتے توآج میرے بھائی خوشحال نہ ہوتے بلکہ گلیوں میں بھیک مانگ رہے ہوتے اور بہنیں جانے کس برے مقام پر جی رہی ہوتیں۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
0 تبصرے