والد صاحب کی تھوڑی سی زمین تھی، جس کی پیداوار سے وہ گھر اور بچوں کے اخراجات پورے نہ کر سکتے تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے ملازمت کی خاطر شہر جانے کا سوچا، مگر وہاں سب سے بڑا مسئلہ رہائش کا تھا۔ گاؤں میں تو اپنا گھر تھا، جبکہ کراچی میں کرائے کے مکان میں رہنا پڑتا۔ انہوں نے میرے کزن عبد الرحمن سے بات کی، جس نے ہمت بندھائی کہ آپ یہاں آجائیں۔ رہائش اور ملازمت کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔
میری نانی بھی کراچی میں رہتی تھیں۔ انہوں نے بھی کہا کہ تم آجاؤ، جب تک رہائش اور ملازمت کا مسئلہ حل نہ ہو جائے، ہمارے پاس قیام کر لینا۔ یوں میرے والد معہ فیملی کراچی آگئے اور نانی کی ہدایت کے مطابق ماموں کے گھر گئے۔ انہوں نے اپنا آدھا مکان رہنے کے لئے ہمیں دے دیا اور میرے کزن نے حسب وعدہ ملازمت لگوا دی۔ اب تنخواہ اتنی مل جاتی تھی کہ گزارا اچھی طرح ہو جاتا تھا۔ ہم نے ماموں کے مکان میں مستقل رہائش اختیار کر لی۔ ان کا ایک مکان اور بھی تھا، وہ وہاں شفٹ ہو گئے اور پورا گھر ہمیں رہنے کے لئے دے دیا اور بابا جان کو تاکید کر دی کہ کچھ رقم جوڑو تاکہ کوئی پلاٹ خرید سکو۔
کب تک کرائے کے گھر میں بھٹکتے رہو گے؟ لیکن والد نے کرائے کا گھر لینے کا خیال ہی دل سے نکال دیا اور ماموں کے مکان کو مستقل اپنا ٹھکانہ بنا لیا، یہاں تک کہ بچے بڑے ہو گئے۔ ایک روز والد صاحب کا ماموں سے جھگڑا ہو گیا، جس پر انہوں نے ہمیں اپنے مکان سے نکال دیا۔ جب عبد الرحمن بھائی کو علم ہوا، تو انہوں نے اپنا مکان ہمیں رہنے کے لئے دے دیا۔ والد صاحب کی نوکری ایسی تھی کہ ہر سال معاہدہ ہوتا تھا اور تنخواہ میں ترقی بھی نہیں ہوتی تھی، اس لئے وہ کرائے پر مکان نہیں لیتے تھے۔ جنید، عبدالرحمٰن کا چھوٹا بھائی تھا۔ وہ پہلے کبھی کبھار اور اب اکثر ہمارے گھر آنے لگا۔ یہ چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور ابھی اس کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ چند سال بڑے ہونے کے سبب میں انہیں شروع میں جنید بھائی کہتی تھی۔ وہ بہت مخلص انسان تھے، ہنس مکھ اور اچھی شخصیت کے مالک تھے۔
اگرچہ زیادہ خوبصورت نہیں تھے لیکن ان کی شوخ طبیعت اور اخلاق کی وجہ سے ہر کوئی ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ کوئی لڑکی ان سے ملاقات کر لیتی تو ان سے متاثر ہو جاتی، لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنی شخصیت سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا تھا۔ وہ شوخ ضرور تھے لیکن دل پھینک نہیں، بلکہ اپنے والدین کے فرماں بردار بیٹے تھے۔ ان کے والد نے طالب علمی کے زمانے سے ان کا رشتہ اپنے خاندان میں طے کر دیا تھا اور انہوں نے باپ کی مرضی کے آگے چوں تک نہ کی تھی۔ جب وہ ایم اے کے طالب علم تھے، تب ان کی ملاقات یونیورسٹی میں ایک لڑکی سے ہوئی، جو ان کو پسند آگئی اور ان کی ملاقاتیں محبت میں تبدیل ہو گئیں۔ ایک دن جنید کی ماں نے ان کی شادی کی بات چھیڑی تو انہوں نے کہا، امی، مجھے یونیورسٹی میں ایک لڑکی پسند آگئی ہے۔ میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ آپ فرح سے میرا رشتہ ختم کر دیں۔
نہیں بیٹا، یہ نہیں ہو سکتا، ماں نے جواب دیا۔ تمہارے والد اپنے بڑے بھائی کو رشتہ توڑنے کا نہیں کہہ سکتے۔ فرح تمہارے تایا کی بیٹی ہے، جن کے ہم پر بڑے احسان ہیں۔ وہ خاموش ہو گئے اور جس لڑکی کو پسند کرتے تھے، اس سے کہہ دیا کہ والدین راضی نہیں ہیں، لہٰذا وہ اس سے شادی نہیں کر سکتے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کو بڑے بھائی کے توسط سے گورنمنٹ جاب مل گئی اور وہ مستقل کراچی رہنے لگے۔ دو چار ماہ بعد اپنے والدین سے ملنے گاؤں جایا کرتے تھے۔ پھر یہ ہوا کہ کسی خاندانی رنجش کے سبب تایا نے خود ہی رشتہ ختم کر کے فرح کی شادی دوسری جگہ کر دی۔
کچھ دنوں بعد جب جنید گاؤں گئے تو ان کی والدہ نے پوچھا، بیٹا، وہ کون لڑکی ہے جس کو تم پسند کرتے ہو؟ میں چاہتی ہوں اب اس سے تمہاری شادی کرادیں۔ امی جان، اس لڑکی کی بھی شادی ہو گئی ہے۔ اب میری کوئی پسند نہیں ہے، آپ جس کے ساتھ چاہیں، میری شادی کر دیں۔ ان دنوں میری عمر چودہ برس تھی اور میں جنید کو پسند کرنے لگی تھی۔ اچھے قد کاٹھ کی وجہ سے میں اپنی عمر سے بڑی لگتی تھی۔ کبھی کبھی مجھے احساس ہوتا کہ جنید مجھے کن انکھیوں سے دیکھتے ہیں۔ شاید وہ مجھے پسند کرتے ہوں، مگر کبھی مجھ سے کچھ کہا نہیں، کیونکہ میں ان سے جھینپتی بھی بہت تھی۔ انہی دنوں عبدالرحمن بھائی کو پیسوں کی اشد ضرورت پڑ گئی اور انہوں نے ہمیں اپنا مکان خالی کرنے کو کہہ دیا تاکہ وہ اسے بیچ سکیں۔ مگر پھر بابا جان کی مجبوری دیکھتے ہوئے، انہوں نے ہمیں ایک دوسرے گھر میں شفٹ کر دیا۔
یہ بھی انہی کی ملکیت تھا اور رقبے میں پہلے مکان سے کچھ بڑا تھا۔ بیچ میں دیوار اٹھا کر ایک حصہ ہمیں دے دیا اور دوسرے حصے میں کرایے دار رہنے لگے۔ مکان کی تبدیلی کے دوران میں ساتویں کا امتحان دے چکی تھی۔ دو سال گھر پر رہی اور اب دوبارہ اسکول میں داخلہ لینا چاہتی تھی۔ نزدیک کے اسکول میں داخلہ نہ ملا تو امی نے جنید سے ذکر کیا۔ انہوں نے بھی کوشش کی، مگر کامیابی نہ ہوئی۔ حمید نامی ایک دور کے رشتہ دار عبد الرحمن بھائی کے پاس آتے جاتے تھے اور اپنی وین میں اسکول کے بچے اٹھاتے تھے۔ پرنسپل سے اس کی جان پہچان تھی، اس نے میرا داخلہ کروا دیا، جبکہ جنید کہتے تھے کہ تم گھر میں پڑھتی رہو، میں کوئی جان پہچان والا ڈھونڈ رہا ہوں، ضرور قریبی اسکول میں تمہارا داخلہ کروا دوں گا۔ مگر میں نے اس ڈر سے کہ سال ضائع نہ ہو جائے، حمید نے جس اسکول میں داخلہ کروایا، وہاں جانا شروع کر دیا۔ حمید نے امی کو اطمینان دلایا کہ میں سلطانہ کو گھر لانے لے جانے کا ذمہ لے لیتا ہوں۔
کچھ دنوں بعد جنید گاؤں سے آگئے اور جب پتا چلا کہ میں نے حمید کے ذریعے کسی دور کے اسکول میں داخلہ لے لیا ہے، تو انہیں اچھا نہیں لگا، مگر وہ خاموش ہو گئے۔ ایک روز عبدالرحمن بھائی کی بیٹی کی شادی تھی۔ ڈھولکی کی تقریب کے لئے جنید مجھے لینے آئے۔ تب انہوں نے مجھ سے کہا، سلطانہ، تم مجھے اچھی لگتی ہو۔ کیا مجھ سے شادی کرنا پسند کرو گی؟ میں نے جواب دیا، میں ابھی میٹرک کرنا چاہتی ہوں۔ آپ کو دو تین سال انتظار کرنا پڑے گا۔ وہ بولے، میں تین چار سال تک تمہارا انتظار کر سکتا ہوں۔ میں نے اپنی کزن صفورا سے اس بات کا ذکر کیا۔ وہ کہنے لگی، جنید کو کیا ہو گیا ہے؟ ادھر مجھ سے شادی کا وعدہ کیا ہے اور ادھر تم کو بیوقوف بنا رہا ہے۔ مجھے اس پر اعتبار تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہی، تبھی جنید پر بہت غصہ آیا اور میں پریشان بھی ہو گئی۔ خیر، ان سے تو کچھ نہ کہہ سکی، لیکن جب انہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی بات دہرائی، تب میں نے کہہ دیا کہ مجھ سے یہ امید نہ رکھیں، میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی۔
انہیں جھٹکا سا لگا اور چہرہ اتر گیا، وہ خاموش ہو گئے۔ اس دن کے بعد سے ان کی شوخی ختم ہو گئی۔ اب وہ زیادہ تر سنجیدہ اور خاموش رہنے لگے۔ کچھ دنوں بعد ان کی والدہ نے ان کی منگنی کر دی۔ یہ منگنی صفورا سے نہیں بلکہ کسی اور لڑکی سے ہوئی تھی۔ میں حیران تھی کہ اگر انہوں نے صفورا سے شادی کا وعدہ کیا تھا، تو پھر کیونکر کسی اور لڑکی سے منگنی کرالی؟ میں نے صفورا سے پوچھا، تو وہ کہنے لگی، بے وقوف، میں تو مذاق کر رہی تھی اور تم نے سچ سمجھ لیا۔ یہ سن کر مجھ پر قیامت گزر گئی۔ اب مجھے دکھ ہوا اور میں ہمہ وقت بے چین رہنے لگی۔ مجھے لگا کہ مجھے جنید سے محبت ہو گئی ہے اور میں کسی انجانی آگ میں جلنے لگی ہوں۔ اس اضطراب سے چھٹکارا پانے کی راہ تلاش کرنے لگی۔
انہی دنوں آنے جانے کے دوران محسوس ہوا کہ حمید کا جھکاؤ میری جانب بڑھ رہا ہے۔ وہ اب مجھے سب سے پہلے لینے آتا اور واپسی میں سب سے آخر میں گھر پہنچاتا۔ اس طرح اسے اکیلے میں بات کرنے کا موقع مل جاتا تھا۔ وہ کہتا کہ اگر کوئی مسئلہ ہو تو مجھے بتانے سے جھجکنا نہیں، میں تمہارے سارے مسئلے حل کر دوں گا۔ جب بار بار اس نے اس طرح کی باتیں کیں، تو میں بھی توجہ سے اس کی باتوں پر کان دھرنے لگی کیونکہ میرا دل ان دنوں بہت پریشان رہتا تھا۔ جنید کی منگنی کے بعد سے، پڑھائی میں دل نہیں لگ رہا تھا اور میری تعلیمی کارکردگی پر بہت برا اثر پڑ رہا تھا۔ ایک دن میں نے اسے بتایا کہ مجھے مضامین میں دقت آرہی ہے، ٹیوشن پڑھنا چاہتی ہوں، مگر کسی ٹیچر کو نہیں جانتی جو گھر آکر پڑھا دے۔ یہ کوئی ایسا بڑا مسئلہ نہیں ہے، میں کئی ٹیچرز کو جانتا ہوں۔ جب کہو گی، انتظام ہو جائے گا اور فیس کی تم بالکل بھی فکر مت کرو۔ حمید نے تسلی دی۔
آہستہ آہستہ اس نے مجھے تحفے دینے شروع کر دیے۔ میں یہ نہیں لے سکتی، گھر والے برا منائیں گے، میں نے عذر پیش کیا۔ ان کو بتانا ہی نہیں، کہہ دینا کہ تمہاری کسی سہیلی نے دیے ہیں۔ وہ امی سے وین کی فیس بھی بہت کم بلکہ برائے نام لیتا تھا۔ کہتا تھا کہ آپ لوگ میرے رشتہ دار ہیں۔ اسی طرح دو چار بار جب اسکول کی جلدی چھٹی ہوئی تو وہ مجھے لانگ ڈرائیو پر بھی لے گیا، مگر تمام راستہ خاموشی میں کٹا۔ ایک دن اس نے مجھ سے کہا، سلطانہ، اگر تم برا نہ مانو، میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ ہاں یا نہیں کہو گی تو بھی برا نہیں مانوں گا۔ میں کچھ نہ کہہ سکی۔ ایک طرف جنید کی محبت میں بٹی ہوئی تھی، دوسری طرف اس کی مہربانیاں بڑھ رہی تھیں۔ میں نے سوچا کہ جنید کی منگنی ہو چکی ہے، اب کچھ ہو نہیں سکتا۔
اس کی زندگی میں میری گنجائش بالکل نہیں ہے۔ جنید کا ہمارے گھر میں آنا جانا ویسے ہی تھا۔ وہ اکثر مجھے دبے لفظوں میں سمجھایا کرتے تھے کہ حمید اچھا آدمی نہیں ہے۔ اس کی لگائی ہوئی ٹیوشن بھی چھوڑ دو۔ کوئی بھی ٹیچر گھر پڑھانے یوں ہی نہیں آتا، وہ بھی بغیر فیس کے۔ یقیناً حمید تم سے کوئی مطلب نکالنا چاہتا ہوگا۔ مجھے ٹیوشن تو ہر حال میں پڑھنا تھی، کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔ جنید نے یہ بھی کہا کہ میں تم کو گھر پر ٹیوشن پڑھا دیا کروں گا، لیکن دل اب اس سے دوری اختیار کرنے لگا تھا۔ میں نے اس کی باتیں سنی ان سنی کر دیں۔ ایک روز ٹیچر کہنے لگیں، اب میں تم کو گھر پر پڑھانے نہیں آسکتی، میری منگنی ہو گئی ہے۔ سسرال والوں کو میرا دوسروں کے گھروں میں آنا جانا پسند نہیں ہے۔ اگر تم مجھ سے ہی پڑھنا چاہتی ہو تو میرے گھر آ کر پڑھ سکتی ہو۔ وہ ٹیچر بہت توجہ سے پڑھاتی تھی۔ اس نے امی کو بھی قائل کر لیا، یوں مجھے ٹیچر کے گھر جا کر پڑھنے کی اجازت مل گئی۔ حمید نے ہی مجھے اس کے گھر لانے لے جانے کا بیڑا اٹھا لیا۔ اب اکثر واپسی میں وہ مجھے کسی ریسٹورنٹ بھی لے جاتا۔ میں اعتراض نہ کرتی۔
اس نے مجھے اپنی چرب زبانی اور شرافت کا ظاہری رخ دکھا کر مرعوب کر لیا تھا اور میں اس کی جھوٹی محبت میں دھنستی جا رہی تھی۔ ایک دن وہ مجھے جلدی لینے آ گیا اور کہا، آج مجھے ایک ضروری کام تھا، سوچا پہلے تم کو گھر پہنچا دوں۔ کچھ دور ہی گئے تھے کہ اس نے کہا، دراصل میں نے تم سے ضروری بات کرنی تھی، پھر وہ مجھے میرے گھر چھوڑنے کے بجائے اپنے دوست کے گھر لے آیا۔ میں نے کہا بھی کہ وین میں بیٹھ کر بات کر لیتے ہیں، مگر وہ اصرار کرنے لگا کہ یہ مناسب نہیں ہے۔ یوں اس کے اصرار پر میں مکان کے اندر چلی گئی۔ وہاں مجھے کوئی نظر نہیں آیا۔ اس نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور بولا، میری بات غور سے سنو! میں گریجوایٹ ہوں اور وین شوق کی وجہ سے چلاتا ہوں۔ میری دو وینز اور بھی ہیں اور یہ بزنس اچھا چل رہا ہے۔ میں خوش حال ہوں۔ یہ باتیں اس لئے بتا رہا ہوں کیونکہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں، لیکن پہلے میری بہن کی شادی ہو گی، اس کے بعد میری۔ تب تک تم اپنی تعلیم مکمل کر لو گی۔ میں آپ کو سوچ کر جواب دوں گی، میں نے کہا۔ پھر اس نے مجھے گھر ڈراپ کر دیا۔ اب وہ کبھی مجھے ریسٹورنٹ لے جاتا اور کبھی کھانا پیک کروا کر دوست کے گھر لے آتا۔ جس روز وہ مجھے وہاں لے جاتا، اس کا دوست گھر سے چلا جاتا تھا۔ مجھے اب اس کے ساتھ تنہائی میں خوف نہیں آتا تھا کیونکہ وہ مجھ سے صاف ستھری باتیں کرتا تھا۔ یوں میں اس پر بھروسہ کرنے لگی اور جنید کو بھلانے لگی۔
میٹرک میں تھی کہ میرا رشتہ آ گیا۔ والدین کو یہ رشتہ پسند آیا۔ خالہ مجھے اپنی بہو بنانا چاہتی تھیں۔ ان کا بیٹا اچھی ملازمت پر تھا، گھر بھی اپنا تھا، لیکن میں حمید سے وعدہ کر چکی تھی، تبھی میں نے امی کو سختی سے انکار کر دیا کہ آپ خالہ کو منع کر دیں، میں ان کے بیٹے سے شادی نہیں کروں گی۔ ماں نے بہت سمجھایا، اور ابا بھی سمجھاتے رہے، مگر میں نے ضد پکڑ لی۔ ماں باپ اولاد کے آگے ہار مان لیتے ہیں، تاہم مجھے انہوں نے کہیں تو بیاہنا تھا، تو وہ دوسرا رشتہ ڈھونڈنے میں لگ گئے۔ تبھی میں نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے حمید سے کہا کہ جلد میرے گھر رشتے کا پیغام بھیجو اور شادی کر لو۔ والدین کا ارادہ مجھے میٹرک کے بعد آگے پڑھانے کا نہیں ہے۔ وہ یہ سن کر گھبرا گیا اور بولا، جب تک بہن کی شادی نہیں ہو جاتی، میں شادی نہیں کر سکتا۔ تم کو صبر کرنا ہوگا۔ ایک دن اس نے بتایا کہ وہ مجھ سے شادی نہیں کر سکتا، کیونکہ والدین راضی نہیں ہو رہے۔ میں بہت روئی، منت سماجت کی، لیکن اگلے دن اس نے میری ماں سے کہا کہ آپ کسی اور وین کا انتظام کر لیں، میں ملک سے باہر جا رہا ہوں۔ میں بہت پچھتائی، مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔
ایک دن خبر سنی کہ جنید کی منگنی ختم ہو گئی ہے۔ اب وہ زیادہ ہمارے گھر آنے لگے۔ حمید کے جانے پر بھی وہ خوش تھے، مگر وہ یہ نہ جانتے تھے کہ ہمارے درمیان کسی طرح کا سلسلہ رہ چکا ہے۔ میٹرک کا رزلٹ آیا، میں پاس ہو گئی تھی، تبھی ایک بار پھر سے جنید نے مجھ سے شادی کی خواہش ظاہر کی اور اپنی امی سے میرا نام لیا۔ وہ خوش ہو گئیں اور ایک دن ہمارے گھر رشتہ لے آئیں۔ ہم پر عبدالرحمن کے بہت احسانات تھے۔ ابھی تک ہم ان کے دیے ہوئے گھر میں رہ رہے تھے۔ جنید نے یہ بھی کہلوایا تھا کہ وہ میرے نام یہ مکان لکھ دیں گے، مگر آپ رشتے سے انکار نہ کرنا۔ دراصل جس مکان میں ہم مقیم تھے، وہ جنید کے نام ہی تھا۔ یوں میرا رشتہ ان سے ہو گیا اور وہ خواب حقیقت بن گیا جو میں نے کبھی اوائل عمری میں دیکھا تھا۔ نہیں جانتی تھی کہ یہ خواب کبھی حقیقت بن جائے گا اور نہ عجلت میں اپنے لئے ایک غلط آدمی کا انتخاب نہ کرتی، جو مجھے دھوکہ دے گیا۔ اب پچھتائی کہ خدا پر بھروسہ کیوں نہ کیا۔
اگر جنید کی منگنی ہو گئی تھی تو مجھ کو صبر کے ساتھ اپنے رب سے اچھی امید رکھنی چاہیے تھی۔ یہ خوف بھی دل کے کسی گوشے میں چنگاریاں لیتا تھا کہ کبھی ان کو شک ہو گیا کہ میں حمید سے محبت کا دم بھرتی رہی ہوں، تو وہ کیا سوچیں گے۔ سال بھر منگنی رہی اور یہ دن میں نے اس خوف کے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے گزار دیے۔ پھر ایک دن وہ مجھے اپنی دلہن بنا کر لے گئے۔ اگرچہ میں اس مہربانی کی مستحق نہ تھی، مگر خدا مجھ پر مہربان ہو گیا تھا۔ جنید نے میرا گھونگٹ اٹھایا اور پیار سے کہا، آنکھیں کھولو اور میری طرف دیکھو۔ کتنے برس میں تمہیں پانے کی چاہ میں سلگتا رہا، تمہیں حاصل کرنے کے لیے دن رات دعائیں مانگتا رہا ہوں۔ آج تم میرے سامنے ہو اور میرے من کا پھول کھلا ہوا ہے۔ اس خوش قسمتی پر میرا دل رو دیا۔ جنید تو آج بھی بہت خوش ہیں مگر میں نے اس خوشی کا چہرہ نہ دیکھا، جس کی مجھے چاہ تھی۔ ضمیر کا تازیانہ بہت دردناک ہوتا ہے، جس کو عمر بھر سہنا ہوتا ہے۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
0 تبصرے