خوفناک سر پرائز

Sublimegate Urdu Stories

خوش قسمت ہوں کہ ایسے گھر میں جنم لیا، جہاں دولت کی ریل پیل تھی۔ کبھی برے دنوں کا منہ نہیں دیکھا۔ جو بات سوچتی، اس کی حقیقت پالیتی اور جو زبان سے آرزو کی، وہ پوری ہو گئی۔ ابا جان ایک بڑے بزنس مین تھے۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی، اس وجہ سے کافی لاڈلی بھی تھی۔ ابو مجھے ہمیشہ اپنے تینوں بیٹوں پر ترجیح دیتے تھے۔ وقت گزرتا رہا۔ 

میں اسکول سے کالج اور پھر یو نیور سٹی پہنچ گئی۔ یونیورسٹی میں میری کسی سے بات چیت نہیں تھی۔ کچھ دولت کا نخرہ بھتا اور کچھ اپنے حسن کا خیال ۔ میں بہت کم کسی سے دوستی کرتی تھی، بلکہ یہ کہنا چا ہے کہ کسی کو منہ نہیں لگاتی تھی۔ سال بھر تک اکیلی یوسف کارواں کی مانند پھرتی رہی پھر ایک لڑکا مجھے ملا۔ اس کا نام عاصم تھا۔ وہ مردانہ حسن کا شاہ کار بھتا اور خوبروئی میں اپنی مثال آپ تھتا کہ انسان اس کو دیکھ کر ایک لمحے کے لئے کھو سا جاتا تھا۔ وہ ایک خوشحال خاندان کا چشم و چراغ تھے۔ وہ اکثر میری طرف دیکھت است، لیکن میں توجہ نہ دیتی حالانکہ میرا دل چاہتا تھا کہ وہ مجھ سے بات کرے مگر میں یہ بات ظاہر نہیں ہونے دیتی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ مجھ سے مخاطب ہو مگر ڈر کی وجہ سے بات نہیں کرتا تھا۔ 

جب بھی میں عاصم کی طرف دیکھتی، پتا نہیں کیوں ، میرا دل بے چین سا ہو جاتا تھا۔ اس میں اتنی کشش تھی کہ ہ اچانک دل دل سے یہ دعا نکلتی تھی کہ یہ میرا ہو جائے۔ ایک دن یونیورسٹی ٹائم کے بعد گاڑی کا انتظار کر رہی تھی، لیکن گاڑی نہ آئی۔ بالا آخر کافی دیر انتظار کے بعد مجھے گاڑی کا ہارن سنائی دیا۔ دیکھا تو عاصم آنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں؟ کہ میرے قدم از خود اس کی جانب اٹھنے لگے اور میں اس کی گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی۔ راستے میں اس نے پوچھا۔ گھر جانا ہے یا پہلے کافی پی لیں ؟ میں نے تقریبا ناراض ہوتے ہوئے کہا۔ مجھے اپنے گھر جانا ہے اور کہیں نہیں۔ تب اس نے مجھے گھر کے سامنے اتار کر کہا۔ اچھا بھئی ارم گل خدا حافظ۔ اب میں حیران و پریشان کھڑی تھی کہ اس کو میرے نام اور اور گھر گھر کا کا علم علم کیسے کے ہوا ؟ پوچھنا چپ یا مگر اس نے موقع ہی نہ دیا اور کار واپس موڑ لی۔ اگلے دن میں نے پوچھا۔ آپ کو میرے نام کا کیسے علم ہوا؟ تو اس نے کہا۔ جس سے دلچسپی ہو ، اس کا نام اور گھر معلوم کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ 

اس نے اتنے آسان لفظوں میں اظہارِ الفت کر دیا کہ میں خاموش بیٹھی رہ گئی۔ تبھی اس نے قدرے سنجیدہ ہو کے پوچھا۔ کیا آپ مجھ سے شادی کرنا پسند کریں گی؟ اتنی بڑی بات اور اس قدر سادگی سے کہہ دی کہ میں حیران رہ گئی، تاہم مجھے خوشی تھی کہ جو اس کے دل میں تھا، اس نے اس کا اظہار کر دیا تھا۔ یہ بات آج تک میری سمجھ میں نہیں آئی کہ میں نے اس دن اس کے سیدھے سادے سوال کا جواب کیوں نہیں دیا ؟ پھر اس نے مجھ سے درخواست کی۔ آؤ کینٹین چلیں اور میں چپ چاپ اس کے پیچھے چل دی۔ اس کی حکم عدولی کی کوشش نہیں کی اور ہم کینٹین چلے تھے۔ ایک میز کے گرد بیٹھ کر ہم نے خاموشی سے چائے پی، بغیر بات کئے، بغیر ایک لفظ بھی ادا کئے پھر یہ روز ہونے لگا۔

ہم روز جا کر کینٹین میں چائے پیتے، اسی خاموشی کے پردے میں آہستہ آہستہ ہماری محبت پروان چڑھتی گئی۔ وہ مجھے گفٹ دینے لگا۔ میں بھی اس کے لئے پھول، خوشبو اور گفٹ لانے لگی۔ عاصم عجیب شخص تھا۔ وہ باتیں کم کرتا تھا اور میں بھی عجیب تھی کہ بن کہی باتیں سنتی اور سمجھتی تھی۔ ہماری گفت گو الفاظ کی محتاج نہیں تھی۔ خاموشی ہی ہماری زبان تھی۔ ایک دن عاصم کے گھر والے میرا رشتہ لے کر آگئے۔ اتفاق وہ میرے ابو کے جاننے والے نکلے۔ کافی دیر ادھر اُدھر کی باتیں ہوئیں۔ پہلے تو میں دروازے کے پاس کھڑی سنتی رہی، لیکن پھر آکر لیٹ گئی۔ تھکن کی وجہ سے جلد نیند آگئی اور میں اصل بات نہ سن سکی۔ یہ نہیں جان سکی کہ میرے رشتے کے لئے ان کے درمیان کیا باتیں ہوئیں، لیکن مجھے پورا یقین تھا کہ ابو انکار نہیں کریں گے، میرا دل نہیں توڑیں گے ، کیونکہ میں ان کی اکلوتی بیٹی تھی اور عاصم کے ابو میرے ابو کے واقف کار نکل آئے تھے ، یہی سوچ کر بے منکر ہو کر سو گئی تھی۔ جب میں اُٹھی، تو سب کا موڈ خراب تھا۔ امی بازار گئی ہوئی تھیں اور دادی جو ہمارے ساتھ رہتی تھیں ، اُونگھ رہی تھیں۔

 میں نے دادی کو بلا کر پوچھا۔ دادی! ابو نے کیا کہ ان لوگوں سے ؟ وہ افسردہ لہجے میں بولیں۔ بیٹی ، تیرے باپ نے ان لوگوں کو انکار کر دیا ہے۔ مجھ پر ایک دم جیسے بجلی گر پڑی۔ لیکن کیوں دادی؟ عاصم میں کیا کمی ہے ؟ ابو نے میرے ساتھ یہ ظلم کیوں کیا؟ مجھے تو عاصم ہی سے شادی کرنی ہے۔ وہ مجھے پسند ہے دادی ! ابھی میں یہ کہہ رہی تھی کہ ابو آگئے اور مجھے ڈانٹنا شروع کر دیا کہ میں نے تمہیں اس لئے لاڈ پیار دیا تھا کہ تم میرے واقف کاروں میں میری پوزیشن خراب کر دو۔ تم نے میرا سر جھکا دیا ہے۔ کیا سو چتے ہوں گے وہ کہ اس کی بیٹی کتنی آزاد خیال ہے ؟ خود اپنے لئے شوہر کو پسند کرتی پھرتی ہے۔ آئندہ سے تمہارا یونیورسٹی جانا بند، میں نے تمہارے ماموں زاد سے تمہاری بات طے کر دی ہے۔ میں حیران تھی۔ مجھے یقین نہ آتا تھا کہ یہ سب کچھ ابو کہہ رہے ہیں ؟ وہ جو مجھ سے اس قدر پیار کرتے تھے ، وہ جو اتنے روشن خیال تھے ، اپنے بچوں پر اعتماد کرتے تھے اور مجھے اپنا چوتھا بیٹا کہنے والے، آج میر ا سب سے بڑا حق غصب کر رہے تھے ، اپنی مرضی اور اپنی پسند سے شادی کرنے کا حق۔ میں سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ میری ہر خواہش پوری کرنے والا باپ اس اہم ترین موڑ پر آکر ایسا ہو جائے گا ایک پل میں یہ سب کچھ کیسے ہو گیا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔ میں نے رونا شروع کر دیا اور اتنا روئی کہ آنسوؤں کا دریا بہہ گیا، پھر امی آگئیں۔ وہ میری شادی کے لئے خریداری کر کے آئی تھیں لیکن مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ میں ساری رات روتی رہی، کھانا بھی نہ کھایا گیا لیکن نہ میں نے پھر پوچھا اور نہ ہی انہوں نے آنے والوں کے بارے میں کچھ بتایا۔
صبح میں روتی دھوتی یو نیور سٹی جا پہنچی، جہاں عاصم میری حالت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ میں بھی اُسے دیکھ کر حیران تھی۔ میرا خیال تھا کہ وہ صدمے سے مجھ سے بھی بڑے حال میں ہو گا، لیکن وہ تو بالکل ٹھیک اور فریش تھا۔ مجھ سے پوچھنے لگا کہ کیا ہوا ہے ؟ کیوں اس طرح منہ انکار کھا ہے، خیریت تو ہے؟ میں نے سوچا کہ اس کو کیا ہو گیا؟ میری دنیا لٹ گئی ہے اور یہ پوچھ رہا ہے کہ کیا ہوا ہے ؟ میں نے رونی صورت سے بتا دیا کہ ابو میری شادی میرے ماموں زاد سے کر رہے ہیں اور تم لوگوں کو انکار ہو گیا ہے۔ تو شادی مبارک ہو۔ اُس نے خوش ہو کر کہا۔ میں نے کہا۔ یہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟ کیا تمہیں ذرا بھی افسوس نہیں ہے؟ تم تو کہتے تھے کہ میں تمہارے بغیر جی نہیں سکتا اور اب تم اتنی جلدی بدل گئے ہو۔ شادی کا کیا ہے، وہ تو کرنی ہی ہے۔ اب میں فلمی ہیرو تو بن نہیں سکتا۔ میری بھی شادی ہو رہی ہے اور میں اپنے خوابوں کی شہزادی کو پانے جارہا ہوں۔ تمہارے خوابوں کی شہزادی کوئی اور ہے ؟ میں نے پوچھا تو وہ بولا ۔ 

جس طرح خواب بے شمار ہوتے ہیں، اسی طرح خوابوں کی شہزادیاں بھی بے شمار ہوتی ہیں۔ مجھے معلوم تھا۔ میں تو پہلے ہی کہتی تھی کہ مرد بے وفا ہوتے ہیں، یہ صرف وقت گزارتے ہیں۔ لعنت ہو میری عقل پر کہ میں نے تمہارا اعتبار کیا اور تم سے دکھ بانٹنے آگئی۔ تم اس قدر بدل جاؤ گے، میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی اور ہاں ، اب میں اپنے ماموں زاد سے ہی شادی کروں گی اور وہ بھی خوشی خوشی۔ وہ مسلسل ہنس رہا تھتا اور میں آنکھوں میں آنسو بھر کے جھنجھلا کے وہاں سے چلی آئی۔ ابو کی ڈانٹ سے اتناد کھ نہیں ہوا تھا، جتنا عاصم کے رویے سے ہوا۔ میں گھر آگئی۔ ابو کو پتا چلا کہ میں یونیورسٹی گئی تھی تب انہوں نے اور بھی ڈانٹا کہ جب منع کیا بھت پھر کیوں گئی تھی ؟ اب گھر میں میری شادی کی تیاری ہو رہی تھیں ۔ یہ وقت کتنا مشکل اور کٹھن تھا، بت بھی نہیں سکتی۔ میری شادی ہو گئی اور میں پھولوں سے سجی سیج پر بیٹھ گئی۔ میں گھونگھٹ کاڑھے بیٹھی تھی ، رات ہو گئی تھی، کھڑکی سے چاند کی ہلکی ہلکی روشنی آرہی تھی۔ کمرہ بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا، لیکن مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ جی چاہتا تھا کہ زہر کھا لوں ، لیکن عاصم کو جلانے کے لئے میں نے ایسا کیا تھا، کیونکہ میرے ماموں زاد کا نام بھی اتفاق سے عاصم ہی تھا۔ سوچا جب اس کو پتا چلے گا کہ میں عاصم ہی کی ہو گئی ہوں تو وہ جل مرے گا۔
ایک بات بتادوں کہ ماموں عرصہ دراز سے دبئی میں رہتے تھے۔ وہ اُس وقت وہاں گئے تھے ، جب ان کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے وہیں شادی کی تھی۔ ہم نے ممانی کو بھی نہیں دیکھا تھا، پھر ممانی کا انتقال ہو گیا۔ ان کے بچوں کو بھی ہم نے نہیں دیکھا تھا۔ بس ماموں، امی ابو سے خط و کتابت اور کبھی کبھی فون پر رابطہ کر لیتے تھے۔ ایک دوبار ابو اُن سے ملنے دبئی گئے بھی تھے ، مگر وہ ہمارے ہوش سنبھالنے کے بعد پاکستان نہیں آئے۔ میں اپنے خیالوں میں گم تھی۔ جس نے شادی سے پہلے اپنے دولہا کی شکل بھی نہ دیکھی ہو، صرف نام سنا ہو ، اس دلہن کا کیا حال ہو گا؟ انجانے خوف میں ڈوبی ہوئی، میں بھی ویسی ہی انجان دلہن تھی۔ دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو میں نے نظریں جھکالیں اور سمٹ کر بیٹھ گئی۔ وہ میرے قریب آکر بیٹھا اور اب میری تھوڑی پکڑ کر میرا چہر ہے اوپر کر رہا تھا۔ میں سر سے پاؤں تک کانپ گئی۔ مجھے پسینہ آگیا اس وقت مجھے عاصم بے حد یاد آرہا تھا۔ 

میں نے ڈرتے ڈرتے نظر یں اوپر کیں اور حیرت سے ساکت رہ گئی۔ میں نے دیکھا کہ سامنے وہی تھا، میر اوالا عاصم، جس کو میں چاہتی تھی، جو مجھ کو یونیورسٹی میں ملاتا۔ حیران تھی کہ یہ سب کیسے ہوا؟ ت اس نے بتایا کہ میں ایک سال پہلے دینی سے آگیا تھا۔ ابو مجھے کہتے تھے کہ پھونچھی کے گھر جاتا اور ان لوگوں سے ضرور ملن، لیکن میں نے ایسا تر دو نہیں کیا کیونکہ مجھے تم مل گئی تھیں۔ جب ابو دبئی سے آئے اور میں ان کو تمہارے گھر رشتے کے لئے لایا تو پتا چلا کہ میں تو اپنی پھوپھی کے گھر بیٹھا ہوں۔ ہم سب بہت خوش تھے مگر تمہیں کسی نے نہیں بتایا کہ تمہارے ماموں کا بیٹا اور یونیورسٹی والا عاصم ایک ہی ہے، پھر تمہارا ہم سے پردہ کر دیا گیا ، تب میں نے سوچا کہ کیوں نہ تم کو سرپرائز دیا جائے ؟ میں نے بھی دانستہ تمہیں یونیورسٹی میں نہیں بتایا اور اس کے بعد تم نے آنا ہی چھوڑ دیا کیونکہ ہماری شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ اب بتاؤ! کیسا لگا؟
 پھوپھی کو میں نے قسم دے دی تھی کہ اپنی لاڈلی کو مت بتانا، میں اسے سر پرائز دینا چاہتا ہوں۔ میں اپنے والد کے رویئے پر حیران تھی کہ انہوں نے بھی امی کا ساتھ دے کر مجھے صدمہ پہنچایا ہے۔ میں روتے روتے کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اب میں اپنی قسمت پر نازاں تھی کہ میری پسند اور ماموں زاد عاصم ایک ہی تھے ، ورنہ نجانے کیا ہوتا۔ رشتہ آنے کے صرف دس دن بعد ہی میری عاصم سے شادی ہو گئی تھی۔ آج ہمارے دو پیارے پیارے بچے ہیں اور ہم کامیاب زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عاصم آج بھی کہتے ہیں کہ میں اگر وہی عاصم نہ ہوتا، تو کیا ہوتا؟ لیکن تم خود کو دیکھو کہ تم نے مجھ کو محض جلانے کی خاطر، تیاگ لینے کی بجائے کیسے جھٹ پٹ اپنے ماموں زاد سے شادی کرلی، پھر بے وفا کون میں یا تم ؟ ان کی یہ بات سن کر بجائے شرمندہ ہونے کے، میں اپنی قسمت پر نازاں اترانے لگتی ہوں کہ ماشاء اللہ قسمت کی دھنی جو ہوں۔