ہم پانچ بہنیں اور ایک بھائی تھا جو ہم سب سے چھوٹا تھا۔ والدین بہت شفیق تھے جن کے زیر سایہ ہم بے فکری سے ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے تھے۔ میری دو بہنیں بیاہی جا چکی تھیں ۔ شبانہ باجی فیکٹری میں ملازمت کر رہی تھیں ۔امی نے ان کے رشتے کے لئے رضیہ خالہ کو کہہ رکھا تھا کہ مناسب رشتہ ہوتو بتانا ۔
ہم دونوں بہنیں چھوٹی تھیں اور ابھی پڑھ رہی تھیں مگر شبانہ باجی جوان تھیں ۔ بیٹی کا معاملہ ہو تو والدین کو فکر ہوتی ہے کہ جلد شادی ہو جاۓ ۔عمر بیت گئی تو پھر کون رشتہ لینے آۓ گا۔صبا، شبانہ باجی سے چھوٹی مگر مجھ سے بڑی تھی ۔
ایک دن رضیہ خالہ گھر آ گئیں اور امی کو کمرے میں لے گیں ۔اکیلے میں بتایا کہ شبانہ کے لئے ایک بہت اچھا رشتہ ڈھونڈا ہے۔تم لڑکے والوں کے گھر چل کے دیکھ لو کہ وہ کیسے لوگ ہیں۔ ویسے میرے بتانے پر وہ لوگ راضی ہو گئے ہیں ۔اب آگے جیسے تمہاری مرضی۔
امی نے پوچھا لڑ کا کیا کرتا ہے؟ اور اس کے ماں باپ کون ہیں؟ خالہ نے جواب دیا کہ ابھی تو لڑکا کچھ نہیں کرتا ….. ویسے کام وغیرہ ڈھونڈ رہا ہے۔ ماں باپ مر چکے ہیں۔ اپنی بہن کے گھر رہتا ہے۔ مجھے تو شریف لوگ لگتے ہیں، کہو تو تمہاری طرف سے بھی ہاں کر کے آجاؤں ۔
امی نے کہا کہ نہیں پہلے میں ان سے ایک دفعہ خودل لوں پھر دیکھیں گے۔ جب امی ان کے گھر گئیں تو انہوں نے امی کی بہت خاطر تواضع کی ۔ وہ لوگ واقعی بہت اچھے تھے۔ تب ہی امی نے مناسب سمجھ کر منگنی کی تاریخ طے کر دی۔
صبا اور میں بہت خوش تھے۔ فورا تیاریوں میں لگ گئے۔ آخر منگنی کا دن بھی آ گیا اور دھوم دھام سے منگنی کر دی گئی۔
ادھر صبا نے ایف اے پاس کر لیا تو نوکری کی تلاش میں لگ گئی مگر نوکری اتنی آسانی سے تو نہیں ملتی ۔ تقریبا ڈیڑھ سال تک نوکری نہ ملی ۔ شادی کی تیاریوں میں یہ ڈیڑھ سال کا عرصہ بہت کم تھا۔ ہمارا کوئی بڑا بھائی نہ تھا۔ تب ہی امی نے لڑکے والوں سے شرط منوائی تھی کہ شادی کے بعد لڑ کا گھر داماد بن کر رہے گا۔ انہوں نے یہ شرط منظور کر لی اور پھر مقررہ تاریخ پر شادی ہوئی ۔
احمد بھائی بہت اچھے تھے ۔ بزنس کرتے تھے۔ باجی کی ہر خواہش پوری کرتے ۔ لگتا تھا کہ شبانہ باجی نی شادی کے بعد ہمارے گھر میں بہت رونقیں آ گئی ہیں ۔ انہی رونقوں میں زندگی گزرنے لگی اور تین سال پلک جھپکتے بیت گئے۔
اچانک خوشیوں کی روشنیاں غم ناک اندھیروں میں بدل گئیں اور سکھ کے دن دکھوں میں ڈھل گئے جس داماد پر اتنا اعتماد کیا گیا، اتنا بھروسہ کیا گیا، وہ غلط آدمی نکلا۔ ہمیں یہ بات اچانک معلوم ہوئی کہ وہ شراب بیچتا ہے اور جوا کھیلتا ہے اور دوسرے بڑے کام بھی کرتا ہے۔ جب سیلم ہوا تو باجی پریشان ہوگئیں۔
ان کی توقسمت ہی پھوٹ گئی تھی ۔ اب امی دن رات روتی تھیں کہ میں نے یہ کیا کر دیا۔ اس بے ایمان پر بھروسہ کر کے لڑکی دے دی لیکن اس نے ہماری مہربانی کا یہ صلہ دیا کہ ہم سے یہ بات چھپاۓ رکھی کہ وہ جرائم کی دنیا کا آدمی ہے۔
اب احمد بھائی رات کو شراب پی کر گھر آنے لگے۔ محلے دار تنگ آ چکے تھے۔ سب کہتے تھے اپنے اس داماد کو باہر نکالئے ورنہ ہم اسے زندہ نہ چھوڑیں گے۔ ہم بہوبیٹیوں والے ہیں ، ہم سے یہ غل غپاڑہ برداشت نہیں ہوتا۔
امی ان کو ہر بار ہاتھ جوڑ کر مناتیں کہ آئندہ آپ کو شکایت کا موقع نہ ملے گا ، لیکن ان میں کوئی تبدیلی نہ آئی بلکہ وہ پہلے سے مزید برے ہوتے گئے۔
خالہ نے کئی مرتبہ صبا کا رشتہ اپنے بڑے بیٹے منصور کے لئے مانگا تھا لیکن اسی ہر بار یہی کہتی تھیں کہ ابھی وہ پڑھ رہی ہے بعد میں سوچیں گے …..
اصل بات یہ تھی کہ احمد بھائی نے ہمارے دلوں پر ایسی ٹھوکر لگائی تھی کہ امی کا اعتقاداب سب سے اٹھ گیا تھا۔ تاہم خالہ کے سمجھانے بجانے پرامی کے دل میں ان کی باتیں اتر گئیں۔خالہ نے کہا کہ میں تمہاری اکلوتی بہن ہوں مجھ کورشتہ نہ دوگی تو پھر کسے دوگی….کیا ساری بیٹیاں غیروں کے گھر بیاہ دوگی۔ آخر میرے بیٹے میں کیا کمی ہے۔ ابھی پڑھ رہا ہے انشاء اللہ پڑھ لکھ کر بڑا آدی بنے گا۔ اس طرح سمجھانے پرامی نے صبا کا رشتہ خالہ کو دے دیا کیونکہ خالہ اچھی تھیں ، بس ذرا کنجوس تھیں ۔ ابھی صبا کے رشتے کی باتیں چل رہی تھیں کہ احمد بھائی گھر سے غائب ہوگئے-
اب ہماری پریشانی انتہا پر پہنچ گئی۔ ان کو غائب ہوۓ تین ہفتے ہو گئے تھے۔ سب گھر والے پریشان تھے کہ نجانے وہ کہاں گم ہو گئے ہیں۔ چوتھے ہفتے وہ گھر تشریف لے آۓ۔ بہت پوچھا کہ آپ کہاں چلے گئے تھے اور ہمیں بتا کر کیوں نہ گئے۔ آخر اتنے دن کہاں رہے؟ مگر احمد بھائی نے کوئی جواب نہ دیا۔ تاہم اس راز کو کھلنے میں زیادہ دن نہ لگے، کیونکہ دوسرے دن ہی پولیس نے ہمارے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ وہ احمد بھائی کو گرفتار کرنے آئے تھے، تب ہمیں پتہ چلا کہ وہ کسی آدمی کاقتل کر کے آۓ ہیں ۔اس الزام میں پولیس والے ان کو ساتھ لے گئے۔
دنیا والوں کی باتیں سن سن کر ہمارے کان پک چکے تھے۔ ہم نے لاکھ چاہا کہ ان کی ضمانت ہو جاۓ ،مگر نہ ہوسکی، کیس چلتا رہا اور آخر کار ان کو عدالت نے سزائے موت سنا دی۔ اس فیصلے نے باجی کا برا حال کر دیا۔ ہم ان کو لاکھ تسلیاں دیتے تھے مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ سب کہتے تھے کہ بڑے کام کر نے والے کو ایک دن اس کے کئے کی سزا ضرور ملتی ہے تو اب غم کیا، مگر کچھ باتیں اپنے اختیار میں نہیں ہوتیں ۔
باجی کو شاید اپنے شوہر سے محبت تھی ، لہذا وہ کہتی تھیں کہ کچھ بھی سہی، وہ میرا شوہر ہے، وہ اتنا برا نہیں تھا۔ جانے کیسے اس سے یہ سارے گناہ سرزد ہوۓ ہیں ۔
ایک روز باجی احمد بھائی سے ملنے جیل گئیں، انہوں نے احمد بھائی کو قسم دی کہ مجھ کو سچ سچ بتاؤ تم نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟ اور اگر تم اتنے ہی برے تھے تو تم نے مجھ سے شادی کیوں کی تھی۔ تب احمد بھائی نے باجی کو بتایا کہ جن دنوں میں میٹرک میں تھا، میری زندگی میں رملا نامی ایک لڑکی آئی ، جس نے مجھ سے وفا کے پیمان باندھے، مگر پھر اس نے مجھ سے بے وفائی کی ، مجھ کو اس بات کا بے حد صدمہ ہوا کہ اس نے محبت مجھ سے کی ، شادی کسی اور سے رچالی اور مجھ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلی گئی۔
میں اس کی بے وفائی پر تو بہت رویا، اس کی جدائی نے میرے دل کو اتنا تڑپایا کہ مجھے پتھر کا بنا دیا۔ ایک وقت آیا جب میرے تمام احساسات اور جذبات سرد ہو گئے اور مجھ کو ہر عورت سے نفرت ہوگئی۔ میری تمام خواہشات نے کفن اوڑھ لیا اور میں نے شراب کا سہارا لیا کیونکہ درد اس قدر تھا کہ نشے کے بغیر میرے لئے سانس لینا مشکل تھا۔
میں اپنے ہر دوست کو یہی نصیحت کرتا بھی کسی عورت پر اعتبار نہ کرنا۔ میں چاہتا تو رملا کی شادی نہ ہونے دیتا اس کے گھر والوں کو بلیک میل کرتا، مگر میرے دل نے اس بات کی اجازت نہ دی اور میں خاموشی سے یہ زہر پی گیا اور پھر شراب کے سہارے جینے لگا۔
رملا کوکھوکر میں نے دکھ پایا اور ساتھ ہی جینے اور کچھ کرنے کا حوصلہ بھی ۔ میں نے دولت کمانے کے بارے میں سوچا کیونکہ اس نے مجھ کو اس وجہ سے چھوڑا تھا کہ اس کو دولت مند آدمی سے شادی کرنی تھی۔ دولت جائز طریقے سے کمانا مشکل ہوتا ہے جب کہ ناجائز طریقے سے جلدی کمائی جاسکتی ہے یہ اور بات ہے کہ اس میں سرا سر نقصان ہوتا ہے اور اس بات کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب سب کچھ تباہ ہو جاتا ہے۔ بہرحال اس وقت تو مجھ کو یہی لگتا تھا دولت ہے تو سب کچھ ہے۔ آرام، سکون، عیش اور عزت ہے۔ یوں میں نے جھوٹی عزت کمالی۔ دولت کی وجہ سے سب مجھ کو جھک جھک کر سلام کرتے۔
محبت کھو کر میں نے عزت پائی۔ میں مطمئن تھا۔اب تو رملا کے گھر والے بھی میری عزت کرنے لگے تھے جنہوں نے غربت کی وجہ سے مجھے جھٹک دیا تھا۔ اب دولت مند ہونے کے بعد بہت سی عورتیں میری زندگی میں آئیں مگر کوئی میرا دل نہ جیت سکی اور نرملا کی جگہ لے سکی۔ شاید میں نے ہی اپنے دل کے گرد دیواریں کھڑی کر دی تھیں کہ کہیں کوئی اور اندر نہ آ جاۓ۔
کئی لڑکیوں نے مجھ سے شادی کا خواب دیکھا اور مجھ کو اپنی وفا کا یقین دلانے کی خاطر خودکشی کی کوشش کی مگر میرے دل سے جواب نہ ملا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ یہ سب میرے لئے نہیں بلکہ میری دولت کے لئے ہے۔ لاکھ چاہنے کے باوجود مجھ کوکسی لڑکی کی بات کا اعتبار نہ آیا۔ سوچا شادی کروں گا تو کسی شریف گھرانے میں اور ایسے لوگوں میں جو دولت کےلالچی نہ ہوں گے۔
میرے جذبے مر چکے تھے لہذا میں خوفزدہ تھا۔ اپنے دل کے دروازے بند کر کے ان کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا۔ ایسے بے اعتبار موسم میں ایک آواز آئی جو دل میں اترتی چلی گئی۔ نجانے کیوں اس لڑکی کے خلوص پر یقین آنے لگا۔ وہ میری مسیحا بن کر آ گئی۔ پھر میری دوست بنی اور تمام رکاوٹوں کو توڑتی ہوئی سب دیواریں ڈھا کردل کے اس مقام پر جا پہنچی جہاں رملا کی یادیں دفن تھیں۔ ندا مجھ سے کہتی تھی کہ میں آسمان سے تمہارے لئے آئی ہوں ۔خدا نے مجھے تمہارے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے بھیجا ہے۔اس خدا کی بندی نے معجزہ کر دکھایا ، میں رملا کو بھول کر پھر سے جینے لگا۔ وہ ایک نئی بہار بن کر میری زندگی میں آ گئی اور میری بے رنگ زندگی میں رنگ بکھر گئے ۔
میں اتنا خوش کبھی نہ تھا۔ اس نے میری زندگی سنوار دی۔ میں پھر سے جینے لگا۔ مجھے خبر نہیں کہ مجھ میں اتنی ہمت کہاں سے آگئی، مجھ میں اتنی طاقت آ گئی کہ میں نے نشہ چھوڑ دیا۔ میں اس کی پرستش کرنے لگا جس نے مجھے نئی زندگی عطا کی تھی ۔ میں خوشی سے دیوانہ ہو گیا تھا۔ اسی دیوانگی کے عالم میں مجھے سے خطا ہوئی کہ میں نے ایک دوست کو ہمراز بنا لیا اور پھر ہم جدا ہو گئے ۔
وہ لڑکی جو میرے ایک آنسو پر تڑپ اٹھتی تھی اس نے ذرا سی بات پر مجھے چھوڑ دیا۔ میرے دوست نے اس کو بہکا دیا کہ میں بھی جس لڑکی سے پیار کرتا تھا، ابھی تک اس سے رسم وراہ ہے ۔ رملا تو اس کا پتہ تھا مگر رسم و راہ کا نہیں جبکہ یہ غلط تھا، جب سے رملا کی شادی ہوئی میں پھر بھی اس سے نہیں ملا تھا۔
یوں وہ مجھ سے دور ہو گئی۔ میں ایک بار پھر اعتبار کی مار کھا کر بے اعتباری کی کھائی میں گر پڑا۔اب اس دردکو سہنے کا مجھ میں حوصلہ نہ تھا، پھر بھی سہنا پڑا۔ ہمارے درمیان غلط فہمیوں کا اندھا شیشہ دیوار بن گیا۔ میں نے بہت چاہا ندا واپس لوٹ آۓ مگر وہ نہ لوٹی ۔ وہ واحد عورت تھی جس کی میں عزت کرتا تھا۔ میں نے اس کے ساتھ پا کیز تعلق رکھا تھا، کیونکہ میں اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتا تھا۔ اب میرے پاس کچھ بھی نہ تھا، میں ایک گٹی پتنگ تھا۔ ندا کی وجہ سے وہ عزت بھی نیلام ہوگئی جو رملا کوکھوکر پائی تھی ۔ محبت کے بغیر تو جی لیا تھا، اب عزت کے بغیر جینا مشکل تھا۔
پھر میں نے شراب اور چرس کی خرید وفروخت کا کام شروع کر دیا۔ دوبارہ دولت کمانے لگا اور جب کسی قابل ہوا تو خالہ رضیہ نے میری شادی تم سے کرادی۔ تم ایک اچھی بیوی تھیں اور تمہارے گھر والے اچھے لوگ تھے۔ مجھ کو تم لوگوں کی وجہ سے نیک نامی ملی ۔ میں خوش تھا مگر دولت تو کمانی تھی سومیں غلط طریقے سے کمانے میں لگا رہا۔
یہاں تک بھی ٹھیک تھا پھر دوستوں نے دوبارہ شراب کی راہ پر لگا دیا اور ندا کی باتیں کر کے مجھے اس بازار کا شیدائی بنانے لگے تا کہ میری دولت سے وہ بھی کچھ عیش کر لیں ۔ ایک دن میں اس بازار گیا تو وہاں ندا ملی ، تب مجھ کو اس کی اصلی حقیقت کا علم ہوا۔
اس دن جب وہ میرے سامنے کسی اور سے بے تکلف ہوئی، میں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا، میں نے فائر کر دیا اور اس کا ساتھی موقع پر ہی ہلاک ہو گیا چونکہ یہ واقعہ بازار میں ہوا تھا جہاں لوگ مجھے جانتے تھے، اس لئے میں گھر نہ آیا اور روپوش ہو گیا، مگر مجھے تمہاری بڑی فکر تھی ، اس لئے میں گھر لوٹا تھا مگر پولیس کوعلم ہو گیا اور وہ مجھ کو تلاش کرتی گھر تک آگئی۔
میں نے اس لئے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا کہ وہ تم لوگوں کو تنگ نہ کریں۔ یہ ہے میری بر بادی کی مختصر داستان ۔اس لئے تم کو بتا دی ہے کہ شبانہ اصل محبت میری تم ہی ہو۔ تم جو میری بیوی ہو، میرے لئے قابل پرستش ہو۔
میں چاہتا ہوں کہ تم مجھ کوبرا انسان نہ سمجھو، میں برا آدمی نہیں تھا، مگر حالات نے برا بنا دیا۔ مجھے معاف کر دینا۔ یہ باتیں کر کے احمد بھائی رونے گئے اوران کے ساتھ ہی شبانہ باجی بھی زار و قطار رورہی تھیں ۔
یہ شوہر سے باجی شبانہ کی آخری ملاقات تھی اور اس کے اگلے روز احمد بھائی کو ندا نامی عورت کو زخمی کرنے اور اس کے ساتھی کوقتل کرنے کے جرم میں پھانسی دے دی گئی۔ احمد بھائی کولوگ برا کہتے ہیں، مگر میری باجی ان کو برا نہیں کہتیں ۔ وہ آج بھی ان کو یاد کر کے روتی ہیں اور کہتی ہیں کہ وہ ایک اچھے آدمی تھے۔ احمد بھائی کی یاد میں باجی نے عمر گزار دی اور دوسری شادی نہیں کی۔ میں سوچتی ہوں کہ کسی نے سچی محبت کی یا نہیں مگر میری بہن نے اپنے شوہر سے ضرور پی محبت کی تھی۔
(ختم شد)