Urdu Font Stories (مزے دار کہانیاں)
کامل ایمان - اردو کہانی
تمہارے دلہا بھائی کا بس چلے تو ہر وقت رعب ہی چلاتے رہیں مجھ پر یہ کرو، وہ کرو یہ نہ کرو ہونہہ ۔ پندرہ سالہ مریم کے ہاتھ جو نوٹ بک پہ تیزی سے کچھ لکھنے میں مگن تھے بڑی بہن کے تلخ لہجے میں کی گئی شکایت یا پھر بھڑاس پہ تھم گئے۔ جبکہ بڑی بہن صاحبہ اپنی کہہ کر گنگناتی ہوئی نائٹ کریم سے پیروں سے مساج کرنے میں مگن ہوئیں۔ کمرے کے باہر سے گزرتی صفیہ بیگم کے کانوں میں واضح طور پر رمشا کے الفاظ پڑے تھے۔ جب ہی وہ تیزی سے کمرے میں داخل ہوئیں۔ مریم تمہارا کام ہو گیا کیا جو گپیں لڑا رہی ہو اور رمشا تم ۔
رمشا کو قہر برسانی نگاہوں کی زد میں لیا۔ ذرا میرے ساتھ آؤ مجھے تم سے بات کرنی ہے۔ کہہ کر وہ تیزی سے چلی گئیں جبکہ رمشا کا مساج کرتا ہاتھ رک گیا۔ مجھ سے کیا کام بھلا ابھی تو ڈیڑھ گھنٹا بیٹھ کر آرہی ہوں۔ بڑبڑاتے ہوئے سلیپرز میں پاؤں گھسائے اور انہیں ڈھونڈتی ہوئی باہر لان میں چلی آئی۔ صفیہ بیگم کرسی پہ بیٹھی ہوئی تھیں اور سر جھکائے کسی گہری سوچ میں گم لگ رہی تھیں۔ اسے دیکھ کر ماتھے پہ شکنیں دوبارہ سے لوٹ آئیں۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک جھٹکے سے اپنے برابر بٹھایا، ایسے کہ رمشا کی چیخ نکل کر رہ گئی۔ آہ امی! کیا ہو گیا آپ کو فورا سے آنکھیں ٹپ ٹپ برسنے کے لیے تیار ہو گئیں مگر صفیہ بیگم نے جھپٹ کر اس کا بازو دبوچ لیا۔ دیکھو رمشا ایک بات کان کھول کر سن لو اگریہاں آنا ہے تو اپنی زبان کو لگام دو ابھی ڈیڑھ گھنٹا تم میرے پاس سسرال کی چغلیاں کر کے گئی ہو اب مریم کا دماغ مت خراب کرو کہیں وہ بھی میری طرح، انہوں نے کہتے کہتے بات ادھوری چھوڑی پھر تیزی سے بات بدل ڈالی۔
خیر آئندہ ایسا ہوا تو سمجھو تمہارا اس گھر میں داخلہ بند ۔ رہنا اسی گھر میں جن کا حلال کھا پی کر ان کے پیٹھ پیچھے غیبت سے حرام کر رہی ہو۔ درشت لہجے میں کہہ کر ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ چھوڑا اور اندر کی طرف بڑھنے لگیں کہ رمشا نے اپنے دکھتے بازو کو چھوڑ کر ان کا ہاتھ تھام لیا۔ امی بات تو سنیے ہوا کیا ہے ایسے کیوں کہہ رہی ہیں۔ آج سے پہلے تو میری باتوں پہ کچھ نہیں کہا آپ نے۔ آج ہی احساس ہوا ہے۔ افسوس، بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا ۔ صفیہ بیگم نے پلٹے بغیر دھیمی آواز میں کہا۔ جبکہ رمشا بے چین ہوگئی۔ ٹھیک ہے میں آئندہ ایسی کوئی بات نہیں کروں گی لیکن اس سے آگے تو بتایے کہ میری طرح کیا؟ رمشا کے اصرار پہ صفیہ بیگم کرسی پہ ڈھے سی گئیں ۔ انداز ہارا ہوا تھا آج ان کا دل بھر آیا، ہمراز ملتے ہی سارے پچھتاوے پھر سے جاگ اٹھے تھے۔ تمہارے ابو میرے منجھلے چچا کے بیٹے ہیں، ندیم چچا کے۔ جب ہمارا رشتہ ہوا تو پورے خاندان میں ان کی خوش مزاجی کے دور دور تک چرچے تھے۔ صفیہ بیگم بتاتے گویا اسی منظر میں کھوئی گئیں۔
ہائے صفیہ! تیری قسمت کتنی اچھی ہے نا، کتنے ہینڈ سم دلہا بھائی ملے ہیں نا ۔ خالہ زاد بینش نے اس کے ماتھے کی بندیا ٹھیک کرتے ہوئے کہا تو اس کی پلکیں فطری شرم سے جھک گئیں۔ رخساروں پہ لالی ابھر آئی تھی۔ کاش مجھے بھی اتنا خوش اخلاق نرم گفتار ہم سفر ملتا۔ میری قسمت میں وہ پان چباتا لال لال آنکھوں والا عامر ہی رہ گیا تھا ۔ ماموں زاد ہانیہ کے لہجے میں ، دل میں کہیں چھپا حسد عیاں ہو رہا تھا مگر صفیہ اپنی دھڑکتی دھڑکنوں کے شور میں سب سے بے نیاز اپنے خوبرو ہم سفر کامل کے خیالوں میں گم تھی اس لیے اس کا حسد زدہ لہجہ محسوس نہیں کر پائی۔ ویسے تو ہانیہ اس کے نکاح سے پہلے عامر کے ساتھ منگنی پر اترائی پھرتی تھی لیکن جب سے صفیہ کے لیے کامل کا رشتہ آیا تھا اسے عامر سے اللہ واسطے کا بیر ہو گیا تھا۔ عامر کی خوبیاں بھی خامیاں لگتی جو تھیں اور گنی چنی خامیوں میں سے سب سے بڑی خامی اس کا پان کھانا اسے بہت چھبنے لگا تھا- مگراسی ہانیہ کے خیالات صفیہ کے نکاح پہلے کچھ اور تھے۔
عامر ایسے پان کھاتے کسی فلم کے ہیرو لگتے ہیں اللہ ۔ ساتھ ہی ساتھ دوپٹے کا کونا شرم سے دانت تلے دبایا جاتا اورساری کزنز رشک و جلن کے مارے اسے تکتی رہ جاتی تھیں۔ سب اپنی اپنی جگہ صفیہ کی خوش قسمتی کے متعلق سوچوں میں گم تھیں کہ اچانک دھاڑ سے دروازہ کھلا۔ ساری خالہ زاد ماموں زاد شادی شدہ کزنز سیلاب کے ریلے کی طرح اندر ٹھس آئی تھیں ۔ صفیہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ کوئی بھائی بہن نہ ہونے کی وجہ سے سب اس سے اور وہ سب سے بہت پیار کرتی تھی۔ چلو بھی لڑکیوں اس سے پہلے بارات آئے تم لوگ نو دو گیارہ ہو جاؤ، ہمیں صفیہ سے تھوڑی پرسنل باتیں کرنی ہیں ۔ سب سے بڑی نرمین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے معنی خیز انداز میں آنکھ مارتے ہوئے لڑکیوں کو کھسکنے کا اشارہ کیا جس پر وہ برے برے منہ بناتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ ان سب کے جاتے ہی شزا نے دروازے کو لاک کیا۔ دروازہ لاک ہوتے ہی سب اس کے قریب گھیرا ڈال کر کھڑی ہو گئی تھیں ۔ اللہ ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں آپ سب مجھے ۔ صفیہ نے پریشان ہو کر کہا آنکھوں میں نمی بھی کہیں سے نمودار ہونے لگی تھی ، اس کی یہ حالت دیکھ کر ان پانچوں نے اپنے سر ہاتھوں پہ گرا لیے۔ میری معصوم شہزادی اگر یہی انداز تم اپنے سرال لے کر گئی نا تو سمجھو اگلے دن تمہارا جنازہ ہی نکلے گا وہاں سے۔ نرمین کی بات پہ صفیہ کا رنگ لٹھے کی طرح سفید ہو گیا۔ اس کی روتی آواز پہ وہ پانچوں ایک دوسرے کے ہاتھ پہ ہاتھ مار کر ہنسنے لگیں۔ سچ جنازہ وہ کیوں نرمین آپی! نرمین کا مطلب تھوڑی ہوشیاری لاؤ اپنے چہرے پر اور یہ بات بات پے رونا تمہیں کمزور کر رہا ہے، مضبوط بنو۔ شزا کی بات پر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
افوہ شزا آپی! میں کون سا جنگ پر جا رہی ہوں، کیا ہو گیا عقیلہ آپی آپ کو ۔ چاچا چاچی مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں اور عائزہ اور سجل تو مجھ سے بالکل بڑی بہنوں والے لاڈ کرتی ہیں کامل کی تعریف میں تو ویسے ہی ہر کوئی رطب اللسان رہتا ہے- انگلیاں مروڑتے ہوئے اس نے اپنی سسرال کا دفاع کیا تو وہ پانچوں اپنے سر پیٹ کر رہ گئیں۔ بیٹا یہ تو تمہیں سسرال جا کر ہی پتا چلے گا اور ہاں ذرا میاں صاحب سے نرم آواز میں بات نہ کرنا اور نہ ہی نندوں کو منہ لگانے کی ضرورت ہے ساس کو پہلے دن تیور دکھاؤ گی تو ہی سب تم سے دب کر رہیں گے ۔ عقیلہ نے اس کے رخسار پہ بلش آن مزید گہرا کرتے ہوئے ایک نئی پٹی پڑھائی تو وہ ہکا بکا رہ گئی۔ بھئی یہ جو مرد ہوتے ہیں نا پورے زمانے کے لیے خوش مزاج ہو سکتے ہیں لیکن بیوی کے لیے صرف خشک مزاج ہی ثابت ہوتے ہیں اگر ہم ان کے رعب دکھانے سے پہلے اپنا رعب دکھا دیں تو ان کی خشک مزاجیاں ہوا ہو جاتی ہیں آئی سمجھ ۔ رخسار نے اس کے سر پہ ہلکی سی چپت لگائی تو وہ جھینپ گئی۔ لیکن مجھے کیا کرنا ہو گا جس سے کامل میرے رعب میں آجائیں۔ تھوک نگلتے ہوئے پوچھا تو پانچوں خوشی کے مارے اچھل ہی تو پڑیں شکر اتنا سمجھانے کا کچھ تو اثر ہوا۔ پانچوں اپنے اپنے تجربات کی روشنی میں اسے سمجھانے لگیں جسے وہ تیزی سے ذہن نشین کرتی جا رہی تھی۔
السلام علیکم بہت پیاری لگ رہی ہیں۔ کامل نے سلام کے ساتھ چھوٹتے ہی اس کی تعریف کی۔ اس کے لبوں پہ من مومہنی مسکراہٹ ابھر آئی نگاہ اٹھا کر دیکھا ابھی تعریف کرنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ اس کے ذہن میں اپنی پانچوں کزنز کی باتیں گردش کرنے لگیں ۔ شکریہ تعریف کے لیے لیکن آپ کے سوٹ کا کلر بالکل پیارا نہیں۔ کہتے کہتے نگاہ کامل کے مضبوط ہاتھوں پہ جا رکی ۔ اور گھڑی کی چوائس تو بالکل ہی بے کار ہے۔ کہ کر ایک نخوت بھری نگاہ اس کی طرف دوڑائی اور سر جھکائے اپنی چوڑیوں سے کھیلنے لگی۔ کامل اس کی پہلی بات پر حیران تھا کہ دوسری بات پہ تو بھونچکا ہی رہ گیا۔ جہاں تک اس کی معلومات تھیں صفیہ اتنی معصوم ہے کہ معصومیت لفظ کی مثال کے طور پر اسے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان کے خاندان میں شرعی پردہ کیا جاتا تھا اس لیے صفیہ کے متعلق ساری معلومات اسے اپنی ماں بہنوں سے حاصل ہوئی تھیں جو اس کی تعریف ہی کرتے نہ تھکتی تھیں۔ یا اللہ یہ زوجہ محترمہ کو کیا ہو گیا ۔ وہ دل ہی دل میں سوچتا قمیض کی سائیڈ پاکٹ سے ڈبی نکالنے لگا۔ آپ کا تحفہ جھجکتے ہوئے ڈبی آگے کی تو وہ اپنی پسندیدہ پازیب دیکھ کر خوشی سے اچھل ہی تو پڑی پھر ایک دم لب بھینچے پھر قدرے لاپروائی سے ڈبیا سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔ اچھی ہے لیکن وائٹ گولڈ کی ہوتی تو زیادہ اچھا تھا ۔ کامل اس کی بات پر اب حیران سے زیادہ پریشان نظر آرہا تھا۔ آریو او کے ۔ نرمی سے پوچھا تو صفیہ گڑ بڑا گئی۔ پھر لاپروائی سے کندھے اچکا دیے۔ نہیں میں اس لیے پوچھ رہا تھا کیونکہ یہ پازیب وائٹ گولڈ کی ہی ہے۔ کامل نے شرارت سے نچلا لب دباتے ہوئے کہا تو صفیہ کی بے نیازی پر گھڑوں پانی پر گیا تھا۔ اچھی ہے۔ کافی دیر بعد حلق سے بمشکل آواز برآمد ہوئی۔ کامل کچھ کچھ سمجھ گیا تھا کہ اس کی زوجہ کے ساتھ اصل میں مسئلہ کیا ہے کیونکہ یہی مسئلہ اسے بھی دوستوں نے کزنز نے رات سے تین گھنٹے پہلے سمجھانا شروع کر دیا تھا۔
ہائے اللہ امی کتنی رومانٹک اسٹوری ہے۔ آگے کا بتائیں نا پھر کیا ہوا ۔ صفیہ بیگم سانس لینے کے لیے رکیں تو رمشا کا سارا مزا کرکرا ہو گیا جبکہ صفیہ بیگم تو لفظ رومانٹک پر ہی جھینپ گئی تھیں۔ بتاؤ ابھی یہ میں بتاؤں پھر آگے کیا ہوا، جب عقب میں فوراً کامل صاحب کی شرارتی آواز پہ وہ دونوں پلٹیں۔ صفیه بیگم شرمندگی سے اور رمشا جوش سے پلٹیں بیٹا کیا ہونا تھا۔ کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے کن اکھیوں سے صفیہ بیگم کے شرمندہ چہرے پر نگاہ دوڑائی۔ ولیمے والے دن صبح ناشتے میں اماں نے تمہاری ماں سے پوچھے بنا ہی ناشتا بنوالیا کیونکہ ان کو اپنی بچی کی پسند نا پسند کا پوری طرح علم تھا لیکن تمہاری ماں نے فرائی انڈہ اور پر اٹھا دیکھتے ہی نخوت سے پلیٹ سائڈ پہ کی اور کہا میں تو حلوہ پوری کھاؤں گی۔ آہ۔ میری جنتی ماں ہکا بکا رہ گئیں۔ مصنوعی سرد آہ بھری تو صفیہ بیگم انہیں گھور کر رہ گئیں۔ تو بس پھر روز یہی ہونے لگا کہیں گھومنے پھرنے کی بات ہوئی تو انہوں نے کہا میں تو سڈنی جاؤں گی۔ ہم نے خواب میں آج تک سڈنی نہ دیکھا اور یہ زبردستی کے دیکھے خواب کی تعبیر نکالنے بیٹھ گئی تھیں۔
خیر بڑا سمجھا بجھا کر کشمیر گئے وہاں بھی انہوں نے اپنی چلائی دس دن کا پروگرام لے کر چلے تھے یہ اڑ گئیں کہ میں تو پورے بیس دن رہوں گی بس پھر ماننی پڑی۔ ان کے بے چارگی بھرے انداز پر رمشہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ پھر کیا اب تک امی ایسے ہی کرتی ہیں۔ رمشہ نے صفیہ بیگم کی طرف حیرانی سے دیکھتے ہوئے پوچھا کیونکہ اس نے اپنی ماں کو ہمیشہ شوہر کی خدمت کرتے اور ہر خواہش کے آگے سر جھکاتے ہی دیکھا تھا۔ تم بیچ میں بولو گی تو کہانی کیسے مکمل ہوگی- کامل صاحب ہلکا سا جھنجلا گئے۔
رمشا فورا لبوں پہ انگلی رکھ کر بیٹھ گئی۔ صفیہ بیگم اس کی بے چینی پہ کھل کر مسکرا اُٹھیں ۔ کتنا شوق ہوتا ہے نا بچوں کو اپنے والدین کی پچھلی زندگی کے بارے میں جاننے کا۔ خیر جب سیر کر کے واپس آئے اور یہ اپنے میکے رہنے گیں اور جب واپس آئیں تو بس نہ پوچھو پھر کیا ہوا ۔ کامل صاحب اپنے دونوں کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے تو بہ توبہ کرنے لگے جس پر صفیہ بیگم نے انہیں زبردست طریقے سے گھور کر دیکھا۔ جبکہ رمشا کا دل چاہا اس کے ماں باپ کی زندگی کی کہانی کسی ڈی وی ڈی میں موجود ہوتی اور وہ سکون سے لگا کر دیکھ لیتی ۔ کم از کم اس میں یہ وقفے کے اشتہار تو نہ آتے۔ بابا اتنا سسپنس کیوں ڈال رہے ہیں کہانی میں۔ میرا سانس پھول رہا ہے جس کے مارے ۔ اس کے روٹھے انداز پر کامل صاحب ہلکا سا قہقہہ لگا کر ہنس پڑے محترمہ بھی آپ پر گئی ہیں اور تجسس کے مارے سانس پھول رہا واہ ۔ کامل صاحب نے شرارتی انداز میں ہاتھ ہوا میں لہرا کر کہا تو رمشا جھینپ سی گئی جبکہ صفیہ بیگم نے کانوں کو ہاتھ لگا ڈالے۔ بھئی ہوا یوں جب یہ اپنے میکے سے واپس آئیں تو تیور پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ۔ بات کرو تو کاٹ کھانے کو دوڑتیں۔ میری معصوم ماں پوچھتی بیٹا تھک تو نہیں گئیں آرام کر لو یہ آگے سے کہتیں تھکیں میرے دشمن، میں کوئی بیمار ہوں اللہ معاف کرے۔
یعنی ہر بات کو الٹ کر کے یہ ہمیں الٹائے دے رہی تھیں۔ دل تو کر رہا تھا ان کی کزنز کو پکڑ کر سبق سکھا ئیں کہ وہ ساری زندگی یا د رکھیں خود تو روتی بسورتی زندگی گزار ہی رہی ہیں ہماری زوجہ کو بھی اپنا جیسا بنالیا۔ پھر ہم نے سوچا کزنز کو چھوڑو ہم اپنی بیوی کے ہوش تو ٹھکانے لگا ہی سکتے ہیں۔ بس پھر ہم نے اماں کے ساتھ ذرا سی پلاننگ کی اور شروع ہو گئے۔ کہہ کر دلچسپی سے سنتی رمشا کو دیکھا پھر شرارت سے صفیہ بیگم کو آنکھ ماری ۔ گویا کہہ رہے ہوں بتا دوں۔ صفیہ بیگم نے بھی بے نیازی سے منہ پھیر لیا۔ ہونہہ ، اتنا کچھ تو آپ بتا ہی چکے ہیں۔
صفیہ صفیہ میری بلو والی قمیص کہاں ہے۔ کامل زور سے دھاڑا تو کچن میں برتن دھوتی صفیہ کے ہاتھ سے کانچ کا گلاس ڈر کے مارے گر کر چکنا چور ہو گیا ۔ وہ گلاس چھوڑ کر فوراً کمرے کی جانب لپکی۔ پتا نہیں ۔ میں نے تو یہیں رکھی تھی ۔ پھولی سانس کے ساتھ ہکلاتے ہوئے کہا تو کامل نے الماری کا دروازہ دھاڑ سے بند کیا۔ کیا مطلب یہیں رکھی تھی ڈھونڈ کر دو مجھے دو منٹ کے اندر اندر غصے سے اسے دیکھ کر وہ واپس واش روم کی طرف بڑھ گیا۔ دھاڑ سے دروازہ بند ہوا تو بوکھلاہٹ میں صفیہ کا ہاتھ لرز گیا اور سارے کپڑوں کی ترتیب، بے ترتیب ہو کر نیچے اس کے قدموں میں ڈھیر ہوئی۔ یا اللہ اب کیا ہوگا ان کو پہلے ہی غصہ آیا ہوا ہے۔ صفیہ لب کاٹتے ہوئے جھک کر کپڑے اٹھانے لگی، اسی اثنا میں دروازہ کھلا نیازی بیگم کی صورت نظر آئی جنہیں دیکھ کر اس کی رہی سہی ہمت بھی ڈھیر ہونے لگی۔ کیا ہوا کامل کیوں اتنے زور سے بول رہا ہے؟ کڑے تیور ۔ پیشانی پہ پڑی ان گنت تیوریاں غصہ سے بھرا انداز و لہجہ یا اللہ وہ بری طرح ڈرئی۔
امی وہ ان کی بلو شرٹ نہیں مل رہی ۔ روز اس کی کوئی نہ کوئی چیز نہیں مل رہی ہوتی ہے تم کرتی کیا رہتی ہو، ادھر چکن میں الگ تم نے گلاس توڑ دیا معلوم ہے کتنا قیمتی تھا ۔ کہہ کر نیازی بیگم غصے سے پلٹ گئیں۔ صفیہ کی آنکھیں اشکوں سے بھر گئیں پہلے تو پھپھو فورا پوچھتی تھیں۔ بیٹا گلاس کو چھوڑو نیا آجائے گا تمہیں تو نہیں لگی۔ اس نے پاؤں میں کانچ سے لگے زخم کو سہلاتے ہوئے دکھ سے سوچا۔ تم ابھی تک اتنے مزے سے بیٹھی ہوئی ہو۔ دماغ تو درست ہے نا تمہارا کب واش روم کا دروازہ کھلا اسے پتا ہی نہیں چلا ۔ تب پتا چلا جب کامل اس کے سر پہ آکر زور سے چلایا۔ اس کے اس قدر جارحانہ انداز پر آنسوؤں نے بے وفائی کی اور پلکوں سے ٹوٹ کر اس کے رخسار کو بھگونے لگے ۔ رو کیوں رہی ہو ہو نہہ۔ یہ اس وقت یاد نہیں آیا تھا جب اپنی عزیز جان سہیلیوں، آپیوں، آپاؤں کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے ہم سے بد تمیزی کر رہی تھیں ۔ کامل نے تولیہ ایک طرف اچھالتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا تو اس کی ہچکیوں میں اضافہ ہو گیا۔ اف کتنا رلایا آپ نے میری ماں کو اور تو اور کسی نے زخم کا بھی نہیں پوچھا ۔ رمشاء کامل صاحب کی بات کاٹ کر فوراً صفیہ بیگم کے ساتھ جا بیٹھی۔ اور وہ جو ہمیں تنگ کیا، وہ نظر نہیں آرہا تمہیں۔ میں تو نہیں سنا رہا کوئی کہانی شہانی کتنا رلایا میری ماں کو کامل صاحب اس کی نقل اتارتے ہوئے جل کر بولے اور اندر چلے گئے۔ پیچھے وہ دونوں ان کے روکھے انداز پہ کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔
کامل صاحب کے جاتے ہی صفیہ بیگم نے رمشا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ رمشا ہر کوئی تمہارے بابا اور تمہاری دادی جیسا اچھا نہیں ہوتا بیٹا۔ انہوں نے صرف مجھے احساس دلانے کے لیے وہ سب کیا یعنی غصے سے بات کرنا ڈانٹنا وغیرہ بعد میں جب مجھے احساس ہوا اور میں نے معافی مانگی تو پھپھو جان رو پڑیں کہ میری بچی تو مجھے معاف کردے میں نے کیسے تجھ سے برا سلوک کیا اور مرتے دم تک ان کو جب جب وہ بات یاد آتی مجھ سے ضرور پوچھتیں۔ صفیہ تو خفا تو نہیں ناہم سے حالانکہ سارا قصور میرا تھا ۔۔۔ اس لیے بیٹا جب لڑکی رخصت ہو کر انجان گھر جاتی ہے تو کوئی بہت ذمہ دار تجربہ کار چند نصیحتیں پلو سے باندھ کر رخصت کر دیتا ہے تو ہی ٹھیک رہتا ہے۔ کیونکہ جو لاابالی کزنز دوستیں سمجھاتی ہیں وہ ان کے اپنے ماحول کی کہانی ہوتی ہے۔
وہ کہانی جس میں حد سے زیادہ جذباتیت ہوتی ہے اور ان کے اپنے خراب رویوں کے بدلے ، خراب مزاج کی کہانیاں ہوتی ہیں۔ نہ تو ہر لڑکی کو سسرال ایک جیسا ملتا ہے نہ ہی قسمت ایک سی ہوتی ہے۔ اس لیے لڑکی کو خود ہی سمجھ داری ہے سسرالی تقاضوں کو سمجھنا چاہیے اور ان کے دلوں میں گھر کر لینا چاہیے۔ صفیہ بیگم نے آخر میں مسکراتے ہوئے رمشا کے گال سہلائے تو وہ بھی ہلکا سا مسکرادی۔ شکریہ امی! آئندہ آپ کو شکایت نہیں ملے گی۔ میں مریم کے کچے ذہن میں اپنے تلخ تجربات کا زہر نہیں گھولوں گی ۔ رمشا کا شرمندہ شرمندہ وعدہ انہیں اتنا پسند آیا کہ انہوں نے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی چومتے ہوئے سینے سے لگا لیا۔ کامل صاحب جو باہر کسی کام سے جارہے تھے انہیں دیکھ کر پیار سے مسکرا دیے پھر شرارت بھری ہانک لگائی۔ کیوں بھئی کسی کی حماقتوں کی کہانی نہیں سننی۔ جی نہیں حماقتوں بھری نہیں معصومیت بھری۔ اتنی معصوم ماں ہیں میری اور میں دیکھ رہی ہوں آپ میری ممی کو بہت تنگ کرنے لگے ہیں ۔ رمشا نے کہا تو وہ منہ بناتے ہوئے باہر چل دیے۔ ان کے جاتے ہی صفیہ بیگم اور رمشا بھی مسکراتی ہوئی اندر کی طرف بڑھ گئیں ۔ سورج بھی ان کی پیاری پیاری اداؤں پہ مسکراتا ہوا ڈوبنے کے لیے لالی میں ڈھلنے لگا۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,
0 تبصرے