عارف پھوپھی جان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ جن دنوں میں آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی، میری منگنی عارف سے ہو گئی۔ وہ پڑھائی میں کافی ہوشیار تھا۔ جب اس نے ایف ایس سی کر لیا تو اسے بیرون ملک جانے کا شوق ہوا، لیکن پھوپھی جان کے مالی حالات ایسے نہ تھے کہ وہ اس خواہش کو پورا کر پاتیں۔ اس کے والد کا انتقال ہو چکا تھا اور بیوہ ماں کے لیے بیٹے کی خواہش پوری کرنا آسان نہ تھا۔ انہوں نے کچھ کوشش کی، مگر وہ رقم کا انتظام نہ کر سکیں۔
جب مجھے پتا چلا کہ عارف تعلیم چھوڑ کر نوکری کرنا چاہتا ہے، اور وہ بھی بیرون ملک جا کر، تو میں پریشان ہو گئی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ محض پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی خواہش پوری نہ کر سکے۔ پوری رات جاگتی رہی، یہی سوچتی کہ اب کیا کیا جائے؟ پیسے کہاں سے آئیں؟ میں عارف کی کیسے مدد کروں؟ تب میں نے اپنی سہیلی سے مشورہ کیا۔ وہ بولی کہ میرے ماموں زاد بھائی ارشد بہت دولت مند ہے، کروڑ پتی باپ کا بیٹا ہے۔ تم کہو تو میں اس سے تمہارے لیے مدد مانگ لوں؟ لیکن تمہیں بھی میرے ساتھ چلنا ہوگا تاکہ اسے یقین آجائے کہ میں تمہارے لیے مدد مانگ رہی ہوں۔ اور ہاں، تم عارف کو اپنا منگیتر نہ بتانا۔
اگلے دن میں اپنی سہیلی کے ساتھ اس کے کزن کے دفتر چلی گئی۔ میں نے ارشد کو بتایا کہ عارف میرا کزن ہے اور پھوپھی جان بیوہ ہیں، جو بیٹے کی خواہش پوری نہ کر پانے کے باعث آزردہ رہتی ہیں۔ میں اپنی پھوپھی کی خوشی کے لیے آپ سے قرض حسنہ لینا چاہتی ہوں تاکہ ان کی پریشانی ختم ہو جائے۔ عارف کی نوکری لگ جائے گی تو وہ فوراً رقم ہمیں بھجوا دے گا، یوں میں آپ کا قرض اتار دوں گی۔
ارشد کچھ دیر سوچتا رہا، پھر اس نے اپنی میز کی دراز کھولی اور ایک خطیر رقم لفافے میں رکھ کر میرے حوالے کر دی۔ میں تو خوشی سے جیسے پاگل ہو گئی۔ یقین نہیں آتا تھا کہ ایک اجنبی آدمی مجھ پر اعتبار کر کے اتنی بڑی رقم میرے حوالے کر سکتا ہے۔ بہرحال، اس نے مجھ پر اعتبار کر لیا۔ اس لحاظ سے وہ ایک فرشتہ سیرت انسان نکلا۔
دفتر سے نکل کر میں سیدھی پھوپھی جان کے گھر گئی، میری سہیلی بھی ساتھ تھی۔ میں نے پھوپھی کو رقم کا لفافہ دیا اور کہا کہ رمشا میری بہت اچھی سہیلی ہے، اور یہ رقم میں نے اس سے ادھار لی ہے۔ اس کے والد مل اونر اور بہت امیر آدمی ہیں۔ ان کے لیے اتنی رقم کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔ آپ یہ عارف کو دے دیں تاکہ وہ ملک سے باہر جا سکے۔
پھوپھی رقم لینے پر تیار نہ تھیں۔ بڑی مشکل سے انہوں نے رقم لی۔ رمشا نے بھی انہیں کہا کہ جب عارف بھائی کی نوکری لگ جائے گی تو آپ یہ رقم واپس لوٹا دیجیے گا۔
جب عارف کو معلوم ہوا کہ میں نے اپنی سہیلی سے رقم کا انتظام کیا ہے، تو وہ بہت خوش ہوا اور فوراً بھاگ دوڑ کر کے بیرون ملک جانے کی تیاری میں لگ گیا۔ جلد ہی اسے ٹکٹ بھی مل گیا اور وہ ملک سے باہر چلا گیا۔
چھ برس بیت گئے… شروع میں وہ ہر خط میں لکھتا تھا کہ فکر نہ کریں، نوکری ملتے ہی رقم روانہ کر دوں گا۔ پھر ایک خط آیا کہ نوکری بھی مل گئی ہے۔ مگر اس کے بعد آہستہ آہستہ خط آنے بند ہو گئے۔ یوں چھ سال گزر گئے، مگر نہ عارف واپس آیا، نہ رقم بھیجی۔ پھوپھی جان اس کی فکر میں بیمار رہنے لگیں۔
اُدھر ارشد نے مجھ سے رقم کا تقاضا شروع کر دیا۔ پہلے جب کبھی میں اس کے دفتر جاتی تھی تاکہ وہ یہ نہ سمجھے کہ میں نے اس کا احسان بھلا دیا ہے، تو وہ بہت عزت سے پیش آتا اور کہتا کہ کوئی بات نہیں، رقم تو معمولی ہے۔ جب مرضی آئے، دے دینا۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ مگر اب اس کا رویہ بدل چکا تھا۔ وہ کہتا کہ رقم واپس ہونی چاہیے۔ ان دنوں پچاس ہزار بہت بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔ پھر یہ ان کے بزنس کے اصول کے خلاف بھی تھا کہ رقم اتنے عرصے تک کسی کے پاس پھنسی رہے، حالانکہ اسے معلوم تھا کہ میرے والد بیمار تھے، اور ان کی بیماری پر ہمارا سارا اثاثہ ختم ہو گیا تھا، مگر پھر بھی وہ نہ بچ سکے تھے۔
ایک اور سال بیت گیا… پھوپھی جان مایوس ہو کر بستر سے جا لگیں۔ ہمیں عارف کا سہارا تھا، اور وہ خط کا جواب تک نہ دیتا تھا۔ ارشد نے اب کہنا شروع کر دیا کہ اگر تم مجھ سے شادی کر لو تو میں قرض معاف کر دوں گا، کیونکہ پھر یہ رقم خودبخود تمہاری ہو جائے گی۔
ان دنوں میں سخت پریشان تھی۔ پھر ایک دن پھوپھی جان نے مجھے بلوا بھیجا۔ عارف کا ایک دوست بیرون ملک سے آیا تھا۔ اس نے بتایا کہ عارف سعودی عرب سے امریکہ شفٹ ہو گیا ہے اور وہاں اس نے شادی کر لی ہے۔ اب سعودی عرب کے پتے پر خط لکھنا بیکار ہے، کیونکہ وہ وہاں نہیں ہے۔ ہمارے خط اسے نہیں مل سکتے۔
یہ خبر سن کر میرے ہوش اڑ گئے۔ جس شخص کا میں نے سات برس انتظار کیا، وہ بے وفا نکلا۔ میرے والد صاحب بھی اسی انتظار میں چل بسے۔ پھوپھی اماں کا بھی اب کوئی نہیں تھا۔ میں کیسے انہیں تنہا چھوڑتی؟ عارف کے دوست نے اس کی وہ تصویریں بھی دکھائیں جن میں وہ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ اب اس خبر پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔
مجبور ہو کر میں نے امی جان کو ارشد کے بارے میں بتایا کہ عارف کی وجہ سے میں اس شخص کی قرض دار ہوں، اور عارف اب ہمارا نہیں رہا، جبکہ ارشد رقم کے عوض مجھ سے رشتے کا خواہش مند ہے۔ رمشا کی تو کب کی شادی ہو چکی تھی، وہ اپنے گھر جا چکی تھی اور اس کا پھر مجھ سے کوئی واسطہ یا رابطہ نہ رہا تھا۔
امی جان دو تین دن تک سوچتی رہیں، پھر ایک روز خود ارشد کے آفس چلی گئیں۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم واقعی میری بیٹی سے شادی کرنا چاہتے ہو، یا یہ سب کچھ محض تفریحِ طبع کے لیے ہے؟ ارشد نے کہا کہ میں آپ کی بیٹی کو پسند کرتا ہوں۔ آٹھ برس گزرنے کے باوجود میں نے کبھی آپ کی لڑکی سے کوئی غلط بات نہیں کی۔ آپ اپنی بیٹی سے پوچھ سکتی ہیں اور میرا یہ رویہ میری شرافت کی دلیل ہے۔ بے شک میں شادی شدہ اور بال بچے دار آدمی ہوں، مگر میرا وسیع کاروبار اور کافی دولت ہے۔ میں دوسری شادی کر کے آپ کی بیٹی کو خوش رکھ سکتا ہوں۔
امی جان نے سوچا کہ نجانے اب کوئی اچھا رشتہ ملے یا نہ ملے، لہٰذا انہوں نے ہاں کر دی۔ انہوں نے مجھے بھی سمجھایا کہ یہ شخص اچھا انسان معلوم ہوتا ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ تمہیں خوش رکھنے کی کوشش کرے گا۔ تم راضی ہو جاؤ، اب عارف تو لوٹ کر آنے والا نہیں۔ تمہاری پھوپھی کو میں خود منا لوں گی۔
اس طرح ارشد سے میری شادی ہو گئی۔ واقعی، اس نے مجھے خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی، اور وہ اچھا انسان بھی تھا۔ مگر وہ صرف دس برس زندہ رہے۔ زندگی نے ان سے وفا نہ کی۔ وہ ہارٹ اٹیک کے باعث چل بسے، اور میں بھری دنیا میں اپنے دو بچوں کے ساتھ بے سہارا رہ گئی۔
آج میں ایک اسکول میں ٹیچر ہوں۔ میرے دونوں بچے کالج میں پڑھ رہے ہیں۔ اس امید پر زندہ ہوں کہ وہ پڑھ لکھ کر اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے۔ میں تو یہی کہوں گی کہ دوسری شادی ہر لڑکی کو بہت سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے۔
(ختم شد)