شمع عرف شمو میری عزیز از جان دوست تھی، ہمارے گھر قریب تھے۔ میرا اس کا ساتھ پرائمری تک رہا۔ وہ ایک ذہین بچی تھی۔ تبھی ٹیچر زاس کو پسند کرتی تھیں۔ پانچویں کے بعد ہم شہر چلے گئے جبکہ شمو کی پڑھائی کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ وہ والدین کی اکلوتی اور لاڈلی اولاد تھی۔ ماں جہاں جاتی اسے ساتھ رکھتی۔ شمع کی پھوپی چند کوس پرے، ایک گائوں میں رہتی تھی، وہ بھی اُسے بہت چاہتی تھی۔ بہو بنانے کی چاہ رکھتی تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جن دنوں شمع بارہ برس کی تھی اس کا بیٹا دو سال کا تھا۔
جب اس کی پھوپی جنت بی بی نے شمو کو بہو بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو سب نے دانتوں تلے انگلیاں داب لیں۔ لیکن پھوپی بار بار اپنے بھائی اور بھاوج سے تقاضا کرتی رہی۔ بالآخر شمو کے باپ نے ماں جائی کی منت سماجت مان لی اور پندرہ سالہ بیٹی کوپانچ سالہ بھانجے سے بیاہ کر رخصت کر دیا۔ جبکہ دولہاؤ لہن کو ایجاب و قبول کا مفہوم بھی معلوم نہ تھا۔ جنت خاتون نے پہلے پہل بہو کا چائو کیا لیکن ایک دو ماہ بعد اُس نے رنگ بدلا ۔ اب وہ سارا دن گائوں میں گھومتی پھرتی اور شمو کام کاج میں جٹی رہتی۔ وہ شروع سے ہنس مکھ اور خوش اخلاق تھی۔ بات بات پر کھلکھلا پڑتی۔ اس کے پھو پاکو یہ بات سخت ناپسند تھی۔
نا بالغ بیٹے کی نو خیز نئی نویلی دلہن کو ہنستے کھلکھلاتے دیکھ کر گائوں کا کوئی بھی نوجوان بری نظر ڈال سکتا ہے۔ سب کو معلوم تھا کہ شمو کا خالہ زاد احسن اُسے بچپن سے چاہتا ہے۔ اس کا گھر بھی شمو کے پڑوس میں تھا۔ احسن اس کا ہم عمر تھا لیکن پھوپی نے اتنا پیچھا کیا کہ بھتیجی کو بہو بنا کر ہی ٹلی۔ شمونے ہوش سنبھالا تو اسے احساس ہوا کہ وہ تو ایک ادھوری دُلہن ہے۔ اس کا دولہا کسی طور اس کا ساتھی نہیں ہے۔ کیونکہ نیر سات سال کا ایک نا سمجھ لڑکا تھا جبکہ شمع اب سترہ برس کی دوشیزہ کا روپ دھار چکی تھی۔ وہ اپنی ہم عمر لڑکیوں کے شوہر دیکھتی تو حیران رہ جاتی لیکن وہ ایک بے زبان لڑکی تھی اور اس طرح کی لڑکیوں کو ہمیشہ اپنی خواہشوں کو قتل کرنا پڑتا ہے۔ اُسے اب رہ رہ کراحسن کی یاد ستاتی تھی جس کے ساتھ وہ بچپن میں کھیلا، اور لڑکپن میں گھنٹوں ندی کنارے کھیتوں میں گھوما کرتی تھی، جب دونوں اکٹھے بکریاں چراتے اور گئے توڑنے جاتے، کبھی شرط لگا کر بالیوں سے ہرے چنے نکالتے تھے۔ کہتے ہیں کہ انسان کو اپنا پہلا پیار بھی نہیں بھولتا مگر شمو کو بھلانا پڑا۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ پھوپی کے جس بیٹے کو وہ گود میں لے کر گھوما کرتی تھی وہ آئندہ اس کا شوہر بنے گا۔ وہ تو اس کو چھوٹا بھائی سمجھتی تھی۔ پھوپی کی محبت سے دھوکا کھا گئی۔ چالاک عورت نے اس وجہ سے اُسے بہو بنا یا تا کہ وہ اس کا گھر سنبھال لے۔
جنت بی بی بظاہر اچھی نظر آتی تھی مگر اندر سے اچھی نہ تھی۔ وہ یہ بات بھول گئی کہ اس کا کوئی گھر بھی ہے۔ اس نے سارا بوجھ شمو پر ڈال دیا تھا۔ ایک دن شمو کے سسر نے کہا کہ آج میری گاڑی کی سیٹوں کے کور دھو دینا۔ وہ ویگن چلاتا اور گائوں سے سبزیاں لاد کر شہر کی منڈی میں پہنچانے کا کام کرتا تھا۔ شمو سارا دن دوسرے کاموں میں ابھی رہی، اس کے ذہن سے یہ بات نکل گئی کہ سسر نے اُسے گاڑی کے کور دھونے کو کہا تھا۔ شام کو جب اس نے دیکھا کہ سیٹ کور ویسے ہی پڑے ہیں تو وہ برہم ہو گیا۔ بہو کو آواز دے کر پوچھا کہ شمو تم نے میرا کام کیوں نہیں کیا؟ میں بھول گئی تھی پھوپاجی … اس نے سہم کر کہا۔ وہ اپنے سسر ولید لالہ کے غصے سے بہت ڈرتی تھی۔ تب سُسر نے اسے بہت ڈانٹا یہاں تک کہ وہ زور زور سے رونے لگی، وہ اپنی آواز پر قابو نہ رکھ سکی۔ سسر بہو کو بلکتے سکتے دیکھ کر پریشان ہو گیا، اسے منانے کے لئے بولا.. رومت…. اچھا کل ضرور دھو دینا، اب چپ ہو جا… اور کھانا پکا لیا ہے تو مجھے دے دے۔
روتے روتے اس نے ہانڈی سے سالن نکالا اور چنگیری میں روٹیاں لا کر سسر کے سامنے رکھ دیں… وہ ابھی تک سسک رہی تھی۔ بھئی اب بس بھی کرو، اچھا چل تیار ہو جا۔ سیر کو چلے گی ؟ میں تمہیں گھمانے کے لیے لے چلتا ہوں۔ اچھے سے کپڑے پہن لے تب تک میں کھانا کھالوں، جانتی ہے آج گائوں کے باہر میلہ لگا ہے۔ کبھی دیکھا ہے تو نے میلہ ؟… میں دکھا لاتا ہوں چل ، بس اب تیار ہو جا۔ شاباش۔ وہ ابھی بچی جیسی ہی تھی، یہ سن کر خوش ہو گئی اور اپنے کمرے میں تیار ہونے چلی گئی۔ جب سے وہ اس گھر میں بہو بن کر آئی تھی پہلی بار اس کے سسر نے پیار سے بات کی تھی. وہ خوش تھی کہ پھو پانے آج پیار سے پکارا ہے۔ تیار ہو کر آگئی تو سسر سے کہا۔ پھو پا بھی گھر کا کام باقی ہے۔ بکریاں باندھتی ہیں اور پھوپی بھی گھر پر نہیں ہیں۔ بکریاں میں باندھ دوں گا … تیری پھوپی بھی ابھی آجائے گی تو چتا نہ کر۔ بس اب جلدی سے چل کر گاڑی میں بیٹھ شام ہونے والی ہے۔ راستے میں جنت کو بتاتے جائیں گے۔ راستے بھر سسر اس سے باتیں کرتا رہا۔ وہ خوش تھی اور حیران تھی کہ پہلے تو کبھی اس کے پھو پانے اس کے ساتھ باتیں نہ کی تھیں، آج کیسے اس کا دل نرم ہو گیا۔ گائوں کی حدود سے کچھ آگے اس نے گاڑی روک لی اور بولا کہ ٹائر پنکچر لگتا ہے۔ تم یہاں بیٹھوا بھی آتا ہوں، تھوڑی دور آگے ایک پیٹرول پمپ ہے۔ مجھے وہاں تک پیدل جانا ہو گا۔
اس نے حکم کی تعمیل کی اور ویگن سے اتر کر قریب پڑے پتھر پر بیٹھ کر اپنے کے سے اتر کر قریب پڑے پتھر پر بیٹھ کر اپنے سسر ولید کے لوٹ آنے کا انتظار کرنے لگی۔ کافی دیر گزر گئی ولید نہ لوٹا تو وہ گھبرانے لگی، ادھر اُدھر دیکھا وہاں کوئی بندہ بشر نہ تھا۔ اُسے ڈر لگنے لگا، شام ہو رہی تھ تھی اور وہ گھر سے کافی دور آچکی تھی۔ ہر طرف خاموشی چھائی تھی، اس نے کچھ دیر انتظار کیا، پھر اٹھ کر ادھر چل دی جدھر اس کے سسر نے اشارہ کیا تھا کہ آگے پیٹرول پمپ ہے وہاں سے ٹائر کو پینچر لگوانا ہے۔ تھوڑا سا آگے بڑھی تو ایک شخص سامنے سے آتاد کھائی دیا۔ وہ درمیانے قد کا تھا اور رنگت سانولی تھی۔ شموا سے دیکھ کر ڈر گئی۔ ڈرو نہیں میں برا آدمی نہیں ہوں ۔ تم اس ویرانے میں کیا کر رہی ہو۔ اپنے پھوپا کے ساتھ آئی تھی میلہ دیکھنے۔ ان کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا تو وہ لگوانے گئے ہیں اور مجھے گاڑی میں بٹھا گئے تھے۔ تو تم گاڑی کے اندر ہی بیٹھی رہتیں، باہر کیوں نکلیں ۔ ڈر لگ رہا تھا۔ انہوں نے آنے میں دیر کر دی ہے، کہتے تھے سامنے ہی پیٹرول پمپ ہے وہاں تک جارہا ہوں … ان کو دیکھنے نکلی تھی۔
پیٹرول پمپ قریب تو نہیں ہے ، یہاں سے کافی دور ہے، کم از کم آدھا گھنٹہ لگتا ہے وہاں پہنچنے میں ۔ آئو چلو میرے ساتھ میں تم کو لیے چلتا ہوں . شہواس کے ساتھ جانے سے گھبرا رہی تھی لیکن کیا کرتی۔ اگر گاڑی میں جا بیٹھتی تب بھی یہ آدمی ساتھ ہی لگارہتا۔ سوچا کہ کھلی جگہ میں رہنے سے خطرہ کم ہے، کم از کم بھاگ تو سکتی ہوں، کیا پتا آگے آبادی مل جائے۔ کافی چلنے کے بعد بھی جب پیٹرول پمپ دکھائی نہ دیا اور آبادی کے بھی آثار نہ ملے اُسے یقین ہو گیا کہ یہ اُسے غلط سمت میں لے جا رہا ہے۔ یہ خیال آتے ہی اسے سسر کی خفگی کا بھی خیال آگیا کہ جب ویگن میں اُسے نہ پائے گا تو کیا ہو گا۔ پس وہ الٹی سمت بھاگنے لگی، بھول گئی کہ ویگن کدھر کھڑی تھی، جب وہ بھاگی تو اجنبی بھی اس کے پیچھے بھاگا۔ یہ کہتے ہوئے لڑکی ٹھہر جانو ورنہ جنگل میں گم ہو جائو گی ۔ آگے رستہ خراب ہے ، پانی اور دلدل بھی ہے۔ جس قدر اس آدمی نے تعاقب کیا اور روکنا چاہا اتنی ہی تیزی سے وہ اور زیادہ بھاگتی گئی یہاں تک کہ ایسی جگہ پہنچ گئی جہاں سے سڑک دکھائی دینے لگی، وہ دوڑتی ہوئی سڑک پر آگئی کہ یہاں سے سواریاں گزرتی ہوں گی وہ کسی کو مدد کے لیے پکار سکے گی۔ اس وقت سڑک سنسان تھی اور دوڑنے کی وجہ سے اس کا سانس پھول گیا تھا۔ اتنے میں اجنبی بھی اس کے قریب پہنچ گیا۔ ٹھہر جائو پاگل لڑکی تم بہت دور آگئی ہو ، اب تمہارا سر تم کو نہیں ڈھونڈ سکے گا، واپس چلو میرے ساتھ تاکہ میں تم کو ویگن کے پاس پہنچادوں۔
نہیں تم جھوٹے ہو۔ تم مجھے نجانے کدھر لے جانا چاہتے تھے۔ میں تمہارے ساتھ ہر گز نہیں جائوں گی۔ کوئی سواری گزرے گی تو اپنے گائوں کا رستہ پوچھ لوں گی۔ ابھی وہ یہ بات کر رہی تھی کہ ایک رکشا ان کے قریب سے گزرا… لڑکی نے آواز دی مگر رکشے والے نے نہ سنی اور وہ اسے پکارتی رکشے کے پیچھے دوڑ پڑی۔ تعاقب کرنے والا شخص یہ صورت حال دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ وہ اُسے اس کے حال پر چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ شمونے پیچھے پلٹ کر نہ دیکھا وہ سمجھ رہی تھی کہ اجنبی ابھی تک اس کے پیچھے آرہا ہے، وہ چلاتی جارہی تھی رکشے والے … اے بھائی رو کو رکشا روکو، مجھے اس آدمی سے بچالو، یہ میرا پیچھا کر رہا ہے ۔ وہ مددمانگ رہی تھی، بالآخر رکشے والے کو رحم آگیا اور اس نے رکشا روک دیا۔ بھائی … میں رستہ بھول گئی ہوں۔
ایک آدمی میرے پیچھے پڑ گیا تھا۔ مجھے گھر پہنچادو۔ بیٹھ جائو۔ اس نے اشارہ کیا اور وہ رکشا میں بیٹھ گئی اتنا دوڑنے کے باوجود اب اُسے سردی لگ رہی تھی۔ مغرب ہو رہی تھی، رکشا ڈرائیور نے اپنی شمال اس کو دی اور بولا بیٹی یہ لپیٹ لو اور گھر کا پتا بتائو۔ مجھے پتا یاد نہیں ہے… اس نے گھبرا کر کہا۔ اُسے خیال آگیا کہ سسر کے سامنے اس آدمی کے ہمراہ جائے گی تو وہ بہت خفا ہو گا۔ اب میں گھر نہ جائوں گی۔ چاچا جی … اب میں میکے جائوں گی … میکہ کہاں ہے تمہارا۔ شمو نے گائوں کا نام بتایا تو بولا وہ تو کافی دور ہے میں تم کو وہاں نہیں پہنچا سکتا۔ میرے گھر چلنا ہے تو لیے چلتا ہوں، میری تین بیٹیاں ہیں اور میری بیوی رحم دل عورت ہے، وہ کل تمہارے ساتھ جائیں گی اور ہم تمہیں میکے چھوڑ آئیں گے۔ ٹھیک ہے چاچا وہ بولی … اپنے گھر لے چلو۔
رکشا والے کا نام قاسم تھا، وہ شمو کو گھر لے آیا جو قریبی شہر میں تھا۔ وہ کافی غریب آدمی تھا، مختصر بیوی کو احوال دیا۔ اس کی بیٹیوں نے شمو سے محبت سے بات کی اور کھانا دیا۔ وہ ان لڑکیوں کے ساتھ رات کو لیٹ گئی، کافی دیر تک نیند نہیں آئی۔ خوف کی وجہ سے کہ سسر برا بھلا ضرور کہے گا۔ ادھر جب اس کا سسر ولید پنچر لگوا کر آیا اس نے بہو کو ویگن میں نہ پایا۔ ادھر اُدھر دیکھا، پکارا مگر وہ نہ ملی۔ عصے میں گھر آگیا اور بیوی سے کہا کہ تیری بھتیجی بھاگ گئی ہے۔ میں نے کہا تھا کہ اس کا رشتہ مت لو۔ وہ جوان ہے جبکہ ہمارالڑکا ابھی بچہ ہے، نجانے کس کے ساتھ بھاگ نکلی ہے۔ جلد ہی یہ خبر سارے گائوں میں پھیل گئی کہ شمو گھر سے بھاگ گئی ہے۔ صبح سویرے ولید بیوی کو لے کر شمو کے والدین کو باخبر کرنے اُن کے گائوں روانہ ہو گیا۔ جب یہ وہاں پہنچے شمو میکے میں نہیں تھی، تب انہوں نے یہی سمجھا واقعی وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ ر رشتے داروں نے صلاح دی کہ پولیس میں رپورٹ درج کرادینی چاہیے لیکن پرچہ کس کے نام کٹواتے؟ کسی پر شک نہ تھا سوائے احسن کے … سبھی کو پتا تھا کہ احسن اور شمو ایک دوسرے کو چاہتے تھے۔ ان دنوں احسن کمانے شہر گیا ہوا تھا۔ انہوں نے اس کے خلاف اغوا کی رپورٹ درج کرادی۔
ادھر صبح ناشتے کے بعد قاسم کی بیوی نے کہا کہ رکشا میں ہی شمو کو اس کے والدین کے گھر لے جاتے ہیں۔ دونوں میاں بیوی اسے رکشا میں بٹھا کر گائوں لے جارہے تھے کہ ایک پولیس والے نے شمو کو دیکھا اور رکشار کواکر پوچھا کہ تم کون ہو اور کہاں جارہی ہو۔ وہ گھبرا گئی، بولی میں ان کی بیٹی ہوں اور ہم گھر جارہے ہیں … اس نے یہ نہ بتایا کہ وہ ان لوگوں کے پاس کیسے پہنچی اور کیا واقعہ ہوا ہے۔ اس کی گھبراہٹ سے پولیس والوں کو شک ہو گیا۔ وہ تھانے لے آئے جہاں قاسم نے ساری بات سچ سچ بتادی مگر پولیس نے ان کو نہ جا ں نے ان کو نہ چھوڑا اور کہا کہ جب تک معاملے کی تفتیش اور تصدیق نہیں ہو جاتی ہم آپ لوگوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔ انہوں نے علاقے کے بڑے تھانے میں فون کیا جہاں احسن پر شمو کے اغوا کا پرچہ درج ہو چکا تھا اور اس کی تلاش ہو رہی تھی۔
اس سارے معاملے سے بے خبر جب احسن گھر آیا تو اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد بچارے احسن کی شامت آگئی۔ اُدھر پولیس والے لڑکی پر دبائو ڈال رہے تھے کہ سچ بتادو کس کے ساتھ بھاگی ہو اور وہ شخص کہاں ہے ؟ رکشے والے اور اس کی بیوی کو انہوں نے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ جب ضرورت ہو گی آپ کو تھانے طلب کر لیا جائے گا۔ احسن سے الگ تفتیش ہو رہی تھی، اس نے کہا کہ میں ایک ہفتے سے شہر کی ایک فیکٹری میں موجود تھا جہاں ملازم ہوں۔ فیکٹری کے مالک اور میرے ساتھ کام کرنے والوں سے پوچھ کچھ کر لیں۔ ابھی یہ پوچھ کچھ چل رہی تھی کہ شمو کا باپ تھانے آیا اور بتایا کہ ان کی لڑکی مل گئی ہے اور گائوں کے تھانے میں موجود ہے۔ لڑکی کو لایا گیا اور اس نے تمام احوال پولیس افسر کو بتایا۔ تبھی ایک شخص اچانک وہاں آگیا۔ یہ رمضان تھا جو پولیس میں ملازم تھا اور تھانے دار کا قاصد تھا۔ اس نے شمو کو دیکھ کر کہا کہ یہ وہی لڑکی ہے جو مجھے ویرانے میں پریشان ملی تھی اور جس کا سسر ٹائر میں پینچر لگوانے چلا گیا تھا۔
قاصد کی گواہی پر پولیس والوں نے احسن اور شمو کے بیانات کو صحیح مان لیا اور شمو کو باپ گھر لے آیا۔ احسن کو بھی وہ چھڑا کر لے آئے ۔ اب باپ کی آنکھیں کھل گئیں کہ بہن کی محبت میں اس نے اپنی معصوم بیٹی پر کتنا بڑا ظلم کیا ہے۔ اس نے جنت خاتون کو مجبور کیا کہ شمو کو طلاق دے دی جائے۔ وہ لوگ نہ مانتے تھے تو حمید کو تنسیخ نکاح کا کیس کرنا پڑا۔ تب شمو کی جان چھٹی ۔ اس سارے المیے میں روشن پہلو یہ تھا کہ بے گناہ احسن اور شمو نا حق بد نام ہوئے تھے ۔ وہ بھاگی تھی اور نہ احسن نے اُسے اغوا کیا تھا۔ بہر حال بد نامی کا داغ تو لگ چکا تھا۔ اس بد نامی کو دھونا احسن اور شمودونوں کے والدین کے بس میں نہ تھا، سوا نہوں نے ایک انوکھا فیصلہ کر لیا، کیونکہ قریبی رشتے داری تھی۔
احسن سے شمو کی شادی کا فیصلہ … گائوں والوں نے اس فیصلے کو نا پسند کیا، ناک بھوں بھی چڑھائی لیکن شمو کے والد نے جرات سے کام لیا۔ اس نے کہا کہ جس کا جی چاہے ہم سے تعلق رکھے ، جس کا جی نہ چاہے نہ رکھے ، لیکن ہمیں تو اپنی اولاد کی خوشی عزیز ہے۔ ہماری اکلوتی بیٹی جس کا کوئی قصور نہیں ہے۔ قصور وار ہم ہیں تو سزاشمو کو کیوں ملے۔ یوں احسن اور شمو کی شادی ہو گئی اور دونوں شادی کے بعد شہر چلے گئے، کیونکہ وہاں احسن کی ملازمت تھی اور یہی بہتر تھا، ورنہ گاؤں والے طعنے دے دے کر ان کا جینا حرام کر ڈالتے ۔
(ختم شد)