ہولناک درندہ - دوسرا حصہ

Sublimegate Urdu Stories

براہ مہربانی پلے کا بٹن  ضرور دبائیں اور نیچے دی گئی کہانی پڑھیں۔ آپ کے تعاون کا بہت بہت شکریہ
👇👇


رتن سنگھ کے خواب اب اس کے لیے عذاب بن چکے تھے۔ ہر رات وہ وہی بھیڑیے کی شکل دیکھتا، جس کی آنکھیں گوپال کی آنکھوں سے ملتی تھیں۔ وہ خواب میں بھاگتا، لیکن اس کے پاؤں زمین سے جکڑے ہوتے۔ وہ چیخنا چاہتا، لیکن اس کی آواز اس کے گلے میں دب جاتی۔ صبح جب وہ اٹھتا، تو اس کا جسم پسینے سے شرابور ہوتا، اور اس کا دل خوف سے دھڑکتا۔ اس نے اپنے درباریوں سے کہا، "یہ کوئی جادو ہے! کوئی دشمن مجھے پاگل کرنا چاہتا ہے!" لیکن اس کی آواز میں وہ دھمک نہیں تھی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔

اس کے سپاہی بھی اب اس سے خوفزدہ تھے۔ سردار رام، جو جنگل سے زخمی واپس آیا تھا، اپنی بہادری کی کہانیاں اب نہیں سنانا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا، "وہ کوئی عام جانور نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں میں... کچھ عجیب تھا، جیسے وہ ہمیں جانتا ہو۔" سپاہیوں کے درمیان افواہیں پھیل گئیں کہ یہ میرا کی بددعا کا نتیجہ ہے۔ کچھ نے کہا کہ گوپال کی روح جنگل میں بھیڑیے کی شکل میں گھوم رہی ہے۔ دوسروں کا خیال تھا کہ یہ جنگل کی کوئی قدیم طاقت ہے، جو رتن سنگھ کے ظلم سے جاگ اٹھی ہے۔

رتن سنگھ نے ان افواہوں کو نظر انداز کیا۔ اس نے اعلان کیا، "میں اس عورت کو ختم کر دوں گا، کیونکہ اس کی بددعا نے میرے محل کو عذاب میں ڈال دیا ہے!" اس نے اپنی پوری فوج کو حکم دیا کہ وہ جنگل میں جا کر میرا کو ڈھونڈیں اور اسے مار دیں۔ اس نے اپنے سب سے وفادار جرنیل، بھیم سنگھ، کو اس مشن کی قیادت سونپی۔ بھیم سنگھ ایک بے رحم سپاہی تھا، جو رتن سنگھ کے ہر حکم پر آنکھیں بند کر کے عمل کرتا تھا۔ اس نے پچاس تربیت یافتہ سپاہیوں کے ساتھ جنگل کی طرف مارچ کیا، ہاتھوں میں تلواریں، نیزے، اور مشعلیں لیے ہوئے۔

لیکن جنگل ان کے لیے کوئی عام میدان جنگ نہیں تھا۔ جیسے ہی وہ گہرے حصے میں داخل ہوئے، ایک عجیب سی خاموشی نے انہیں گھیر لیا۔ پرندوں کی آوازیں غائب تھیں، اور ہوا میں خون اور موت کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ بھیم سنگھ نے اپنے سپاہیوں کو چوکنا رہنے کا حکم دیا۔ "وہ عورت کہیں یہیں چھپی ہے،" اس نے کہا۔ "ہم اسے ڈھونڈ کر رتن سنگھ کے سامنے پیش کریں گے۔" لیکن اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھتے، وہی ہولناک آواز گونجی، اتنی قریب کہ سپاہیوں کے دل دہل گئے۔ مشعلوں کی روشنی میں، انہوں نے ایک سائے کو حرکت کرتے دیکھا، اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ وہ اسے دیکھ بھی نہ سکے۔

اچانک، ایک سپاہی کی چیخ جنگل میں گونجی۔ مشعل کی روشنی میں وہ زمین پر پڑا تھا، اس کا جسم چیرا ہوا، خون ندی کی طرح بہہ رہا تھا۔ بھیم سنگھ نے اپنی تلوار نکالی اور چیخا، "کون ہے وہ؟ سامنے آؤ!" لیکن جواب میں صرف وہی آواز آئی، جو اب اور قریب تھی۔ ایک اور سپاہی پر حملہ ہوا، اس کی چیخ خاموشی کو چیر گئی۔ سائے نے تین سپاہیوں کو ایک ساتھ ختم کر دیا، ان کے جسموں سے خون بہہ رہا تھا۔ بھیم سنگھ نے اپنی تلوار سے وار کیا، لیکن اس کا وار ہوا میں خالی گیا۔ اچانک، ایک عجیب سی روشنی جنگل میں پھیلی، اور سائے نے پیچھے ہٹنا شروع کیا۔ بھیم سنگھ نے اپنے باقی ماندہ سپاہیوں کو جمع کیا اور چیخا، "بھاگو! یہ کوئی عام دشمن نہیں ہے!"

بھیم سنگھ اور چند سپاہی محل واپس پہنچے، ان کے چہرے خوف سے سفید، جسم زخموں سے چور۔ جب انہوں نے رتن سنگھ کو بتایا کہ پچاس سپاہیوں میں سے صرف دس واپس آئے، تو اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ "تم سب بزدل ہو!" اس نے چیخ کر کہا۔ "میں خود اس عورت کو مار دوں گا!" لیکن اسے معلوم تھا کہ جنگل کی وہ طاقت اسے محل میں نہیں مار سکتی۔ ایک پرانے پنڈت نے اسے بتایا تھا کہ اس کے باپ دادا نے محل کے چاروں طرف ایک روحانی حصار بنایا تھا، جو اسے کسی غیر فطری طاقت سے بچاتا ہے۔ پنڈت نے کہا تھا، "یہ حصار تمہارے گناہوں کی طاقت سے مضبوط ہے، لیکن اگر تم معافی مانگو، تو یہ کمزور ہو جائے گا۔"

رتن سنگھ نے پنڈت کی بات کو ہنسی میں اڑایا۔ "میرے گناہ میری طاقت ہیں!" اس نے کہا۔ اس نے مزید محافظ تعینات کر دیے اور ہر دروازے پر مشعلیں روشن کیں۔ لیکن ہر رات، وہ آواز محل کے قریب تر آتی، مشعلیں بجھ جاتیں، اور محافظ خوف سے ساکت ہو جاتے تھے۔ رتن سنگھ کے خواب اب اور خوفناک ہو چکے تھے—وہ سائے اب اس کے تخت کے قریب، اس کی گردن کے پاس دکھائی دیتے تھے۔

دوسری طرف، میرا جنگل کے ایک گہرے کونے میں پناہ لیے ہوئے تھی۔ اس کا جسم کمزور تھا، لیکن اس کا عزم مضبوط تھا۔ وہ اپنے ہونے والے بچے کے لیے جینا چاہتی تھی۔ اس نے ایک چھوٹی سی غار کو اپنا ٹھکانہ بنایا تھا، جہاں وہ رات کے وقت چھپ جاتی تھی۔ دن کے وقت، وہ پھل اور جڑی بوٹیاں ڈھونڈتی، جو اسے زندہ رکھتی تھیں۔ وہ ہولناک آواز اب اسے خوفزدہ نہیں کرتی تھی؛ اسے لگتا تھا کہ یہ اس کی بددعا کی آواز ہے، جو رتن سنگھ کی تباہی کا باعث بنے گی۔

ایک رات، جب چاند خون جیسا سرخ تھا، میرا نے اس پرانے مندر کی طرف رخ کیا جہاں اس نے وہ عجیب سا مجسمہ دیکھا تھا۔ مندر کے دروازے پر وہی نشان—ایک بھیڑیے کی شکل جس کی آنکھیں سرخ تھیں—اب اور واضح تھا۔ مندر کے اندر، اس نے مجسمے کے سامنے دعا مانگی: "اے جنگل کی طاقت! اگر تو میری بددعا سے جاگی ہے، تو رتن سنگھ کو سزا دے، لیکن میرے بچے کو محفوظ رکھ۔" اس کے الفاظ ختم ہوتے ہی، ایک تیز روشنی پھیلی، اور مجسمے کی سرخ آنکھیں چمکیں، جیسے وہ زندہ ہو۔ وہی ہولناک آواز گونجی، لیکن اب یہ میرا کے لیے ایک پیغام کی طرح تھی، جیسے کوئی کہہ رہا ہو، "تیرا بدلہ لیا جائے گا۔"

میرا نے عزم کیا کہ وہ اس طاقت کے ساتھ مل کر رتن سنگھ کو سزا دے گی، لیکن اسے خوف تھا کہ یہ طاقت اس کے کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہے۔ اس نے دوبارہ مجسمے کے سامنے دعا مانگی کہ یہ طاقت صرف ظالموں کو سزا دے۔ لیکن جنگل کی خاموشی نے کوئی جواب نہ دیا۔

رتن سنگھ نے ایک نئی چال چلی۔ اس نے اپنے جاسوسوں کو حکم دیا کہ وہ گاؤں والوں کے درمیان افواہیں پھیلائیں کہ میرا ایک جادوگرنی ہے، جو ایک شیطانی بچے کو جنم دینے والی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ گاؤں والے میرا کے خلاف ہو جائیں گے، اور وہ جنگل سے بھاگ کر باہر آ جائے گی، جہاں وہ اسے پکڑ سکتا ہے۔ میرا کو ان افواہوں کی خبر ہوئی جب اس نے گاؤں والوں کو جنگل کے کنارے پر بات کرتے سنا۔ وہ کہہ رہے تھے، "اس عورت کو پکڑنا ہوگا، ورنہ اس کا بچہ ہمیں تباہ کر دے گا!" میرا کے دل میں غصہ بھڑک اٹھا۔ "رتن سنگھ اب میرے بچے کو بھی نشانہ بنا رہا ہے،" اس نے سوچا۔ "میں اسے کامیاب نہیں ہونے دوں گی۔"

اسی رات، جب گاؤں والے جنگل کے کنارے پر میرا کو ڈھونڈنے آئے، وہی ہولناک آواز گونجی۔ سائے نے ان پر حملہ کیا۔ ان کے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور مشعلیں تھیں، لیکن وہ اس طاقت کے سامنے بے بس تھے۔ سائے نے کئی کو زخمی کر دیا، اور باقی بھاگ گئے۔ میرا، جو دور سے یہ دیکھ رہی تھی، سمجھ گئی کہ یہ طاقت اس کی حفاظت کر رہی ہے۔ لیکن اس کے دل میں خوف جاگ رہا تھا—یہ طاقت اب ہر اس شخص کو نشانہ بنا رہی تھی جو جنگل میں داخل ہوتا تھا۔ "اگر یہ بے قابو ہو گئی، تو کیا یہ میرے بچے کو بھی نقصان پہنچائے گی؟" اس نے سوچا۔

رتن سنگھ نے ایک جادوگر کو بلایا، جو جنگل کے راز جانتا تھا۔ جادوگر نے بتایا کہ یہ طاقت ایک قدیم دیوی کی روح ہے، جو ظلم کے خلاف جاگ اٹھی ہے۔ اس نے کہا، "یہ طاقت تمہارے محل میں نہیں آ سکتی، کیونکہ تمہارے باپ دادا کا روحانی حصار اسے روکتا ہے۔ لیکن اگر تم اس عورت کو جنگل سے باہر نکال سکو، تو تم اسے ختم کر سکتے ہو۔" رتن سنگھ نے فیصلہ کیا کہ وہ جنگل کے ایک حصے کو آگ لگا دے گا تاکہ میرا بھاگ کر باہر آ جائے۔ اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ جنگل کے کناروں پر آگ لگائیں۔

جب میرا نے جنگل میں آگ کی لپٹیں دیکھیں، تو اسے معلوم ہو گیا کہ رتن سنگھ اسے ختم کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ وہ اپنے پیٹ کو تھامے مندر کی طرف بھاگی، جہاں اسے لگتا تھا کہ وہ محفوظ ہوگی۔ مندر کے اندر، اس نے مجسمے کے سامنے دعا مانگی: "اے دیوی! میرے بچے کو بچا لے۔ یہ میری آخری امید ہے۔" اچانک، ایک عجیب سی روشنی پھیلی، اور وہی آواز گونجی۔ میرا کو لگا جیسے کوئی اسے بتا رہا ہو کہ اسے جنگل کے سب سے گہرے حصے میں ایک قدیم کنویں کی طرف جانا ہوگا، جہاں اس طاقت کا منبع تھا، اور وہیں اسے اپنے بچے کی حفاظت کا راز مل سکتا تھا۔

میرا نے اپنا خوف ایک طرف رکھا اور جنگل کے گہرے حصے کی طرف بڑھنے لگی۔ آگ کی لپٹیں جنگل کے کناروں تک پہنچ چکی تھیں، اور دھواں آسمان کو ڈھانپ رہا تھا۔ لیکن میرا کا عزم مضبوط تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کا بچہ اس کی واحد امید ہے، اور وہ اسے بچانے کے لیے کچھ بھی کرے گی۔

محل میں، رتن سنگھ کو جب خبر ملی کہ جنگل میں آگ لگائی جا چکی ہے، تو اسے لگا کہ وہ جیت گیا ہے۔ لیکن اسی رات، وہی آواز محل کے صحن سے گونجی۔ وہ اپنی تلوار اٹھا کر صحن میں پہنچا، جہاں اس کے محافظ زمین پر پڑے تھے، ان کے جسم زخموں سے چور۔ سائے کی شکل اب واضح تھی۔ ایک بھیڑیا، جس کی آنکھیں سرخ تھیں، اور جس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ کوئی اسے روک نہ سکتا تھا۔ رتن سنگھ نے وار کیا، لیکن سائے نے اسے زمین پر گرا دیا۔ اس سے پہلے کہ سائے اسے ختم کرتا، ایک عجیب سی روشنی پھیلی، اور سائے نے پیچھے ہٹنا شروع کیا۔

رتن سنگھ زخمی حالت میں اپنے کمرے میں واپس لایا گیا۔ اس کا چہرہ خوف سے سفید تھا، اور وہ بڑبڑا رہا تھا، "یہ کیسے ممکن ہے؟" اسے یقین ہو گیا تھا کہ یہ طاقت اسے کبھی سکون نہیں لینے دے گی۔ جنگل کی آگ بھڑک رہی تھی، اور میرا اس قدیم کنویں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ رتن سنگھ کا غرور اب بھی زندہ تھا، لیکن اس کی طاقت کمزور پڑ رہی تھی۔ جنگل کی وہ طاقت اور زیادہ طاقتور ہو چکی تھی، اور اس کا اگلا حملہ ابھی باقی تھا۔
👇👇
اگر کہانی پسند آئی ہو تو کمنٹ میں ضرور بتایئں شکریہ