جنگل میں آگ لگ چکی تھی۔ دھوئیں کے بادل چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے، اور لکڑیوں کے جلنے کی آواز ہر طرف گونج رہی تھی۔ میرا، اپنے پیٹ کو پکڑے، جنگل کے گہرے حصے کی طرف جا رہی تھی جہاں ایک پرانا کنواں تھا۔ اسے لگتا تھا کہ اس کنویں میں کوئی راز چھپا ہے جو اس کے بچے کو بچا سکتا ہے۔ اس کا جسم تھک چکا تھا، لیکن اس کے دل میں ایک ماں کی طاقت تھی جو اسے آگے بڑھنے پر مجبور کر رہی تھی۔ اس کے پاؤں پتھروں پر لڑکھڑا رہے تھے، لیکن اس کی آنکھوں میں امید کی چمک تھی جو رات کے اندھیرے کو چیر رہی تھی۔
آگ کی گرمی اس کے پیچھے بڑھ رہی تھی، اور رتن سنگھ کے سپاہی اسے ڈھونڈ رہے تھے۔ لیکن میرا کو یقین تھا کہ کنواں اسے کوئی راستہ دکھائے گا۔ اس نے اپنی سانسوں کو سنبھالا اور ایک پتھریلی پگڈنڈی پر چڑھنا شروع کیا۔ راستے میں اسے زمین پر کچھ سرخ دھبے نظر آئے، جیسے کوئی زخمی وہاں سے گزرا ہو۔ میرا نے ایک لمحے کے لیے رکنا چاہا، لیکن اس کے دل میں ایک آواز آئی: "آگے بڑھ، میرا۔
محل میں، رتن سنگھ کی حالت اب بہت خراب ہو چکی تھی۔ اس کا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا، اور اس کی آن
کھوں کے نیچے سیاہ حلقے بن گئے تھے۔ وہ اپنے بڑے سے تخت پر بیٹھا تھا، لیکن اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ ہر چھوٹی سی آواز اسے ڈرا دیتی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ کوئی اسے ہر وقت گھور رہا ہے۔ اس نے اپنے محافظوں سے غصے میں کہا، "تم سب بزدل ہو! ایک عورت اور ایک جانور سے ڈر رہے ہو؟" لیکن اس کی آواز میں وہ دھاک نہیں تھی جو پہلے اس کے دشمنوں کو خوفزدہ کرتی تھی۔
کھوں کے نیچے سیاہ حلقے بن گئے تھے۔ وہ اپنے بڑے سے تخت پر بیٹھا تھا، لیکن اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ ہر چھوٹی سی آواز اسے ڈرا دیتی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ کوئی اسے ہر وقت گھور رہا ہے۔ اس نے اپنے محافظوں سے غصے میں کہا، "تم سب بزدل ہو! ایک عورت اور ایک جانور سے ڈر رہے ہو؟" لیکن اس کی آواز میں وہ دھاک نہیں تھی جو پہلے اس کے دشمنوں کو خوفزدہ کرتی تھی۔
محافظ بھی اب اس سے ڈرنے لگے تھے۔ رات کو جب وہ محل کے صحن میں پہرہ دیتے، تو انہیں عجیب سی آوازیں سنائی دیتیں۔ جیسے کوئی زمین پر پنجے رگڑ رہا ہو یا کوئی دھیمی سی آہٹ ان کے کانوں تک پہنچ رہی ہو۔ ایک محافظ نے ہمت کر کے رتن سنگھ سے کہا، "راجا صاحب، یہ جنگل ہم سے کچھ مانگ رہا ہے۔ آپ نے جو ظلم کیا، اس کی سزا ہمیں مل رہی ہے۔" رتن سنگھ نے اسے غصے سے گھورا اور کہا، "چپ کر! یہ کوئی سزا نہیں، بس ایک جنگلی جانور ہے!" لیکن اس کے دل میں خوف کی ایک لہر اٹھ رہی تھی۔
اس نے ایک پرانے سادھو کو بلایا، جو جنگل کے راز جانتا تھا۔ سادھو نے اسے ایک چھوٹا سا پتھر کا تعویذ دیا اور کہا، "یہ تمہیں اس طاقت سے بچائے گا، لیکن صرف تب تک جب تک تم محل میں ہو۔" رتن سنگھ نے تعویذ کو گلے میں ڈال لیا، لیکن اس کے ہاتھ اب بھی کانپ رہے تھے۔ اسے لگتا تھا کہ اس کے محل کی دیواریں اب اس کی دشمن بن گئی ہیں۔
جنگل میں، میرا بالآخر اس پرانے کنویں تک پہنچ گئی۔ کنواں ایک خالی میدان میں تھا، جہاں چاروں طرف خشک ٹہنیاں بکھری پڑی تھیں۔ کنویں کے کناروں پر عجیب سے نقش بنے تھے۔ ایک بھیڑیے کی شکل، جس کی آنکھیں سرخ پتھروں سے بنی تھیں، جیسے مندر کے مجسمے پر تھیں۔ میرا نے کنویں کے پانی کی طرف دیکھا، جو اتنا گہرا تھا کہ اسے کچھ نظر نہ آیا۔ اسے لگا جیسے پانی اس سے کچھ کہنا چاہتا ہو۔
اسی وقت اسے اپنے پیٹ میں زور کا درد اٹھا۔ وہ زمین پر بیٹھ گئی، اس کا جسم پسینے سے بھیگ چکا تھا۔ "ابھی نہیں..." اس نے آہستہ سے کہا، لیکن درد بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ سمجھ گئی کہ اس کا بچہ اب آنے والا ہے۔ اس نے ایک درخت کا سہارا لیا اور اپنی ساری ہمت جمع کی۔ جنگل کی خاموشی اس کی چیخوں سے بھر گئی، لیکن کوئی اس کی مدد کو نہ آیا۔
درد کے بیچ، اس نے کنویں سے ایک ہلکی سی روشنی نکلتے دیکھی۔ یہ روشنی سبز تھی، جیسے جنگل کی روح اس سے بات کر رہی ہو۔ میرا نے آنکھیں بند کیں اور گوپال کو یاد کیا: "گوپال، میرے بچے کو بچا لے۔" اس کی دعا کے ساتھ ہی، ایک عجیب سی آواز جنگل میں پھیلی، جو اسے ڈراؤنی نہیں لگی بلکہ ہمت دیتی تھی۔
کئی گھنٹوں کی تکلیف کے بعد، میرا نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ اس نے اپنے بچے کو اپنی چادر میں لپیٹا اور اس کے ماتھے پر پیار کیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ "تیرا نام وجے ہوگا،" اس نے کہا، "کیونکہ تو میری امید ہے۔" جب بچے نے آنکھیں کھولیں، میرا نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ وہی چمک جو اس نے جنگل میں دیکھی تھی۔ اس کا دل دھڑک اٹھا۔ کیا اس کا بچہ اس طاقت سے جڑا تھا؟
آگ اب کنویں کے قریب پہنچ گئی تھی، اور دھواں میرا کے گلے کو چھید رہا تھا۔ اس نے اپنے بچے کو سینے سے لگایا اور کنویں کے پاس بیٹھ گئی۔ اس نے پانی میں جھانکا، اور اسے گوپال کا چہرہ دکھائی دیا، جو اسے پیار سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں نرم تھیں، جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ وہ اس کے ساتھ ہے۔ میرا نے دعا کی: "اے دیوی، میرے وجے کو اپنی پناہ دے۔"
اسی وقت، جنگل میں ایک زور کی آواز آئی۔ آگ کی لپٹیں آسمان تک جا رہی تھیں، اور رتن سنگھ کے سپاہی، جو میرا کو ڈھونڈنے آئے تھے، اب بھاگ رہے تھے۔ لیکن ایک عجیب سی طاقت نے انہیں روک لیا۔ یہ کوئی سایہ نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی موجودگی تھی جس نے ہوا کو سرد کر دیا۔ سپاہیوں کی چیخیں جنگل میں گونج رہی تھیں، اور وہ اس طاقت کے سامنے بے بس تھے۔ ان کے جسم زمین پر گر گئے، ان کا خون درختوں کی جڑوں میں سمایا۔
بھیم سنگھ، جو ابھی زندہ تھا، نے اپنا نیزہ اٹھایا اور چیخا، "یہ کیا ہے؟" لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتا، ایک زور دار دھکے نے اسے گرا دیا۔ اس نے ایک عجیب سی شکل دیکھی، جس کی آنکھیں سرخ تھیں، لیکن اس کی شکل بدل رہی تھی، جیسے وہ جنگل کا حصہ ہو۔ بھیم سنگھ نے بمشکل اپنی جان بچائی اور بھاگ گیا، لیکن اس کا جسم زخموں سے بھرا تھا۔
محل میں، جب رتن سنگھ کو پتا چلا کہ اس کے سپاہی پھر ناکام ہو گئے، تو وہ غصے سے پاگل ہو گیا۔ اس نے اپنے سادھو سے کہا، "تمہارا تعویذ کچھ نہیں کرتا! یہ طاقت اب میرے محل تک پہنچ گئی ہے!" سادھو نے سر جھکایا اور کہا، "راجا، یہ کوئی عام دشمن نہیں۔ یہ جنگل کی طاقت ہے جو تمہارے ظلم سے جاگ اٹھی ہے۔" رتن سنگھ نے اس کی بات کو نظر انداز کیا اور اپنی تلوار اٹھائی۔ "میں اس عورت کو خود ماروں گا!" اس نے چلایا۔
اس نے اپنے چند وفادار سپاہیوں کو ساتھ لیا اور جنگل کی طرف چلا۔ لیکن جیسے ہی وہ محل سے باہر نکلا، اسے ایک عجیب سی ٹھنڈک نے گھیر لیا۔ ہوا میں ایک بدبو تھی، جیسے موت اس کے قریب ہو۔ اس نے اپنا تعویذ مضبوطی سے پکڑا، لیکن اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ جنگل کے کنارے پر، اس نے اپنے سپاہیوں سے کہا، "ہم اس عورت کو پکڑ کر اس کی بددعا ختم کریں گے!" لیکن اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھتا، ایک عجیب سی آواز جنگل میں گونجی۔ ایک ایسی آواز جو نہ جانور کی تھی نہ انسان کی۔
اس طاقت نے رتن سنگھ کے سپاہیوں کو گھیر لیا۔ ان کی چیخیں ہوا میں گونج رہی تھیں، لیکن وہ اس کے سامنے بے بس تھے۔ رتن سنگھ نے اپنی تلوار سے وار کیا، لیکن اسے لگا جیسے وہ خالی ہوا سے لڑ رہا ہو۔ ایک عجیب سی طاقت نے اسے زمین پر گرا دیا۔ اس نے چیخا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتا، ایک روشنی نے اسے چکا چوند کر دیا، اور وہ طاقت پیچھے ہٹ گئی۔ رتن سنگھ زخمی حالت میں اپنے سپاہیوں کے ساتھ محل واپس بھاگا، لیکن اس کا چہرہ خوف سے سفید ہو چکا تھا۔
میرا، اپنے بچے وجے کو سینے سے لگائے، کنویں کے پاس بیٹھی تھی۔ اس نے پانی میں ایک بار پھر جھانکا، اور اسے گوپال کا چہرہ دکھائی دیا، جو اسے پیار سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں نرم تھیں، جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ وہ ہمیشہ اس کے ساتھ ہے۔ میرا نے اپنے بچے کی طرف دیکھا، اور اسے لگا جیسے گوپال کی روح اس کے بچے میں سمایا ہو۔
اسی وقت، کنویں سے ایک دھیمی سی آواز آئی، جیسے کوئی پانی کے اندر سے بول رہا ہو۔ میرا نے کان لگائے، اور اسے ایک آواز سنائی دی: "تیرا بچہ اس طاقت کا وارث ہے، لیکن یہ اسے خطرے میں بھی ڈال سکتا ہے۔ اسے جنگل سے دور لے جا، ورنہ سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔" میرا کے دل میں خوف اور امید ایک ساتھ جاگ اٹھے۔ وہ جانتی تھی کہ اس کا بچہ اس طاقت سے جڑا ہے، لیکن اسے اسے بچانا تھا۔ اس نے وجے کو مضبوطی سے پکڑا اور دعا کی: "اے دیوی، میرے بچے کو بچا لے۔"
آگ اب کنویں کے بالکل قریب تھی، اور میرا جانتی تھی کہ اسے اب بھاگنا ہوگا۔ اس نے اپنے بچے کو چادر میں لپیٹا اور جنگل کے دوسرے حصے کی طرف دوڑ پڑی۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ زیادہ دور جاتی، اسے ایک عجیب سی آواز سنائی دی۔ یہ وہ ڈراؤنی آواز نہیں تھی جو اسے پہلے سنائی دیتی تھی۔ یہ جیسے کوئی اس کے پیچھے چل رہا ہو۔
اس نے مڑ کر دیکھا، تو ایک بوڑھا آدمی اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، اور اس کی آنکھیں خالی تھیں۔ اس نے میرا سے کہا، "تیرا بچہ اس طاقت کا وارث ہے، لیکن یہ اسے خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اسے جنگل سے لے جا، ورنہ رتن سنگھ اسے چھین لے گا۔" میرا نے پوچھا، "تم کون ہو؟" لیکن وہ بوڑھا دھوئیں کی طرح غائب ہو گیا۔ میرا کا دل زور سے دھڑکا۔ کیا یہ کوئی بھوت تھا، یا کوئی اور راز اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا؟
محل میں، رتن سنگھ نے اپنے سادھو سے کہا کہ وہ ایک ایسی رسم کرے جو اس طاقت کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے۔ سادھو نے کہا، "راجا، اس کے لیے ہمیں اس عورت کے بچے کی ضرورت ہے۔ اس کی قربانی اس طاقت کو روک سکتی ہے۔" رتن سنگھ کے چہرے پر ایک ڈراؤنی مسکراہٹ آئی۔ "تو اس بچے کو پکڑو!" اس نے حکم دیا۔ اس نے اپنے جاسوسوں کو جنگل میں بھیجا، اور انہیں میرا اور اس کے بچے کو پکڑنے کا کہا۔
لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنی چال کامیاب کر پاتا، محل کے صحن سے ایک عجیب سی آواز گونجی۔ یہ ایک بچے کے رونے کی آواز تھی، جو دیواروں سے ٹکرا رہی تھی۔ رتن سنگھ نے اپنی تلوار اٹھائی اور صحن کی طرف بھاگا۔ وہاں اسے ایک عجیب سی روشنی دکھائی دی، جو اس کے تخت کے قریب سے نکل رہی تھی۔ اس نے اپنے محافظوں کو بلایا، لیکن وہ سب ڈر کے مارے ساکت تھے۔ روشنی کے بیچ، اسے ایک عورت کی شکل نظر آئی، جو میرا سے ملتی تھی، لیکن اس کی آنکھیں سرخ تھیں۔ اس نے رتن سنگھ سے کہا، "تیرے گناہ تجھے کھا جائیں گے۔"
رتن سنگھ نے چیخا، "یہ سب جھوٹ ہے!" لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتا، روشنی غائب ہو گئی، اور آواز بھی چلی گئی۔ لیکن اس کے دل میں ایک نیا خوف جاگ اٹھا۔ اس نے اپنا تعویذ دیکھا، جو اب گرم ہو رہا تھا۔ اس نے اسے پھینک دیا، لیکن اس کے ہاتھ پر ایک عجیب سا نشان بن گیا۔ ایک بھیڑیے کی شکل، لیکن اس کی آنکھیں اب نیلی تھیں۔
جنگل میں، میرا اپنے بچے کو لے کر ایک گاؤں کی طرف بھاگ رہی تھی جہاں وہ محفوظ ہو سکتی تھی۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ گاؤں تک پہنچتی، اسے ایک عجیب سی آواز سنائی دی۔ اس نے مڑ کر دیکھا، تو ایک نیا سایہ اس کے پیچھے تھا۔ یہ وہ سرخ آنکھوں والا بھیڑیا نہیں تھا۔ یہ کچھ اور تھا۔ ایک ایسی شکل جو نہ انسان تھی نہ جانور۔ اس کی آنکھیں نیلی تھیں، اور اس کی موجودگی سے ہوا ٹھنڈی ہو گئی۔ میرا نے اپنے بچے کو مضبوطی سے پکڑا اور چیخا، "تو کون ہے؟" لیکن وہ شکل اس کی طرف بڑھتی چلی آئی۔ میرا نے اپنی ساری طاقت جمع کی اور بھاگنا شروع کیا، لیکن اسے لگا جیسے یہ نیا دشمن اس کی بددعا سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔ کیا یہ رتن سنگھ کی کوئی نئی چال تھی، یا جنگل کی کوئی اور طاقت جاگ اٹھی تھی؟ کیا میرا اپنے بچے کو بچا پائے گی؟