ہولناک درندہ - آخری حصہ

Sublimegate Urdu Stories

براہ مہربانی پلے کا بٹن  ضرور دبائیں اور نیچے دی گئی کہانی پڑھیں۔ آپ کے تعاون کا بہت بہت شکریہ
👇👇


میرا اپنے چھوٹے سے بچے وجے کو سینے سے چمٹائے جنگل کی تاریک، پتھریلی پگڈنڈی پر بھاگ رہی تھی۔ اس کے پاؤں زخموں سے لہولہان تھے، خون اس کی ایڑیوں سے بہہ رہا تھا، لیکن اس کے دل میں ایک ماں کا عزم شعلہ ور تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے پیچھے ایک نیلی آنکھوں والی خوفناک بلا لگی ہوئی ہے—ایک ایسی ہستی جو رتن سنگھ کے سیاہ جادو سے جنم لے چکی تھی۔ اس کی نیلی آنکھیں رات کی تاریکی میں چمکتی تھیں، اور اس کی موجودگی سے جنگل کی ہوا یخ بستہ ہو رہی تھی۔ میرا نے وجے کی معصوم آنکھوں کی طرف دیکھا، جن میں ایک عجیب سی سرخ چمک تھی، اور دل ہی دل میں عہد کیا، "چاہے میری جان چلی جائے، میں تجھے اس بلا سے بچاؤں گی۔"

جنگل کی گھنی شاخوں سے چھن کر آنے والی چاندنی زمین پر عجیب سے سائے بناتی تھی۔ ہوا میں ایک عجیب سی بو تھی، ۔ میرا نے مڑ کر دیکھا تو وہ نیلی آنکھوں والی بلا ابھی بھی اس کے پیچھے تھی، اس کی چمکتی ہوئی نظریں اسے گھور رہی تھیں۔ میرا نے خوف سے چیخا، "ہمیں تنہا چھوڑ دے!" لیکن بلا نے کوئی جواب نہ دیا، بس آہستہ آہستہ قریب آتی رہی، اس کی سانسوں سے ایک عجیب سی سرسراہٹ جنگل میں گونج رہی تھی۔ میرا نے اپنی ساری طاقت جمع کی اور جنگل کے گہرے حصے کی طرف بھاگی، جہاں اسے ایک خستہ حال جھونپڑی نظر آئی، جس کی دیواریں وقت کی مار سے جھک چکی تھیں۔

جھونپڑی میں داخل ہوتے ہی میرا نے وجے کو ایک پرانے کمبل پر لٹایا اور دروازے کو اپنی پوری طاقت سے بند کیا۔ اس نے اپنی پھٹی ہوئی چادر سے دروازے کی درزوں کو بند کیا تاکہ باہر کی یخ بستہ ہوا اور وہ گندی بو اندر نہ آئے۔ باہر سے عجیب سی آوازیں آ رہی تھیں—پتوں کی کچلنے کی آہٹ، جیسے کوئی بھاری قدموں سے چل رہا ہو۔ وجے کی آنکھوں میں سرخ چمک اب بھی تھی، جو میرا کے دل میں خوف اور امید کا عجیب سا امتزاج جگاتی تھی۔ اس نے وجے کے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور سوچا، "یہ چمک کیا ہے؟ کیا یہ کوئی طاقت ہے یا رتن سنگھ کا جادو؟" اس نے آنکھیں بند کیں اور دعا مانگی، "اے جنگل کی طاقت، اگر تو میری طرف ہے، تو ہمیں بچا لے۔"

اسی لمحے، جھونپڑی کے دروازے پر زور دار دستک ہوئی۔ میرا کا دل دھڑک اٹھا، لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ اس نے جھونپڑی کے کونے میں پڑا ایک زنگ آلود کلہاڑا اٹھایا اور دروازے کی طرف بڑھی۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے، لیکن وجے کی ہلکی سی سانس اسے ہمت دے رہی تھی۔ دروازہ کھولتے ہی اسے ایک عجیب سی روشنی نظر آئی، اور اس روشنی میں ایک دوسری ہستی ظاہر ہوئی—ایک عظیم الشان بھیڑیا، جس کی آنکھیں سنہری چمک رہی تھیں۔ اس کی موجودگی سے جنگل کی ہوا گرم اور پرامن ہو گئی۔ میرا نے حیرت سے پوچھا، "تو کون ہے؟" بھیڑیے نے ایک گہری آواز میں جواب دیا، "میں گوپال ہوں، اس جنگل کا قدیم محافظ۔ تیری حفاظت میرا فرض ہے۔" میرا کے دل میں ایک عجیب سا سکون آیا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی، نیلی آنکھوں والی بلا جھونپڑی کے قریب پہنچ گئی۔

گوپال کی روح، جو اب بھیڑیے کے روپ میں تھی، نے غرّا کر بلا کا مقابلہ کیا۔ ا نیلی آنکھوں والی بلا نے ایک خوفناک چیخ نکالی اور گوپال پر حملہ کیا، لیکن گوپال نے ایک چھلانگ لگائی اور اسے زمین پر گرا دیا۔ دونوں ہستیوں کے درمیان جنگل میں ایک عظیم لڑائی شروع ہو گئی۔ بلا کی نیلی آنکھیں زہر بھری چمک سے جگمگا رہی تھیں، جبکہ گوپال کے پنجوں سے نکلتی ہوئی سنہری روشنی جنگل کو روشن کر رہی تھی۔ میرا نے وجے کو سینے سے لگایا اور جھونپڑی کے کونے میں دبک گئی، لیکن اس کی نظریں اس جنگ پر جمی تھیں۔

دوسری طرف، محل میں رتن سنگھ اپنے سنہری تخت پر بیٹھا تھا، لیکن اس کا جسم خوف سے کپکپا رہا تھا۔ اس کے ہاتھ پر ایک عجیب سا نشان—نیلی آنکھوں والا بھیڑیا—اب اس کی رگوں میں زہر کی طرح پھیل رہا تھا۔ اس نے اپنے سادھو کو بلایا اور غرایا، "یہ کیا جادو ہے جو مجھے کھا رہا ہے؟" سادھو نے سر جھکایا اور کہا، "راجا، یہ تیری سیاہ جادوئی طاقت کا نتیجہ ہے۔ تو نے جنگل کی مقدس زمین پر خون بہایا اور اس بلا کو جنم دیا، لیکن اب گوپال کی روح تیری اس غلطی کا بدلہ لے رہی ہے۔" رتن سنگھ نے غصے سے اپنی تلوار اٹھائی اور چیخا، "میں اس عورت اور اس کے بچے کو خود ختم کروں گا!" اس نے اپنے وفادار سپاہیوں کو جمع کیا اور جنگل کی طرف روانہ ہوا۔

جنگل کی سرحد پر پہنچتے ہی رتن سنگھ کو ایک عجیب سی آواز سنائی دی، جیسے کوئی اسے اس کے گناہوں کی یاد دلا رہا ہو۔ اس نے اپنا تعویذ پکڑا، لیکن وہ اب ٹھنڈا پڑ چکا تھا، جیسے اس کی جادوئی طاقت ختم ہو گئی ہو۔ اس کے سپاہیوں کے چہروں پر خوف نمایاں تھا، لیکن رتن سنگھ نے انہیں ڈانٹ کر آگے بڑھایا۔ وہ میرا کی جھونپڑی تک پہنچے۔ رتن سنگھ نے دروازے پر زور سے لات ماری اور چیخا، "باہر نکل، عورت! آج تیری اور تیرے بچے کی آخری رات ہے!" میرا نے وجے کو مضبوطی سے تھاما اور کلہاڑا اٹھا کر جواب دیا، "رتن سنگھ، تیرا جادو تجھے ہی تباہ کرے گا!"

اسی لمحے، جنگل کی زمین کانپ اٹھی۔ گوپال کی روح، جو اب بھیڑیے کے روپ میں تھی،بلا کو شکست دے کر جھونپڑی کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ اس کی آنکھیں رتن سنگھ کے سپاہیوں پر جمی تھیں۔ رتن سنگھ نے اپنی تلوار نکالی اور چیخا، " لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتا، گوپال نے ایک زوردار گرج کے ساتھ حملہ کیا۔ جنگل کی شاخیں حرکت میں آ گئیں، جیسے وہ گوپال کی طنابیں ہوں۔ شاخوں نے رتن سنگھ کے سپاہیوں کو جکڑ لیا، ان کے جسموں کو چیرتے ہوئے ان کی چیخیں جنگل میں گونج اٹھیں۔ ایک سپاہی نے رتن سنگھ کی طرف دیکھ کر چیخا، "راجا، ہمیں بچاؤ!" لیکن رتن سنگھ خود خوف سے منجمد ہو چکا تھا۔

گوپال نے رتن سنگھ کی طرف رخ کیا۔۔ رتن سنگھ نے اپنی تلوار بلند کی، لیکن گوپال نے ایک چھلانگ لگائی اور اسے زمین پر گرا دیا۔ رتن سنگھ کے ہاتھ پر نیلی آنکھوں والا نشان اب سرخ ہو کر جل رہا تھا، جیسے اس کی رگوں میں آگ بھڑک رہی ہو۔ گوپال نے ایک گہری آواز میں کہا، "تیرے گناہوں نے تجھے یہاں تک پہنچایا، رتن سنگھ۔ اب تیری سزا تیری موت ہے۔" جنگل کی زمین سے ایک بھنور اٹھا، جو رتن سنگھ کو اپنی طرف کھینچنے لگا۔ اس کی چیخیں جنگل میں گونج رہی تھیں، جیسے اس کا جسم ہزاروں سوئیوں سے چھیدا جا رہا ہو۔ بھنور نے اسے مکمل طور پر نگل لیا، اور اس کی آخری چیخ کے ساتھ جنگل میں خاموشی چھا گئی۔ رتن سنگھ اب اس دنیا کا حصہ نہیں رہا تھا۔

گوپال کی روح نے میرا کی طرف دیکھا۔ ، جیسے وہ ایک باپ کی طرح میرا اور وجے کو دیکھ رہا ہو۔ اس نے دھیمی آواز میں کہا، "میرا، تیرا بچہ اب محفوظ ہے۔ یہ جنگل اب تیرا گھر ہے۔ یہ کہہ کر وہ روشنی بن کر جنگل کی گہرائیوں میں غائب ہو گیا۔ میرا نے وجے کو سینے سے لگایا، اس کے معصوم چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ دیکھ کر اس کے آنسو بہہ نکلے۔ اس نے دعا کی، "اے گوپال، تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمیں بچا لیا۔"
میرا جھونپڑی سے باہر نکلی اور گاؤں کی طرف چلی۔ اس کے قدم اب ہلکے تھے، گاؤں والوں نے اسے دیکھتے ہی گلے لگا لیا اور اس کی کہانی سنی کہ کس طرح گوپال کی روح نے اسے رتن سنگھ کے جادو سے بچایا۔ انہوں نے میرا کی ہمت کی داد دی اور اسے اپنی سردار مان لیا۔ ایک بزرگ نے کہا، "میرا، تو نے ہمیں رتن سنگھ کے ظلم سے آزاد کرایا۔ یہ حویلی اب تیری ہے
(ختم شد)
👇👇
اگر کہانی پسند آئی ہو تو کمنٹ میں ضرور بتایئں شکریہ