شکر کرو حسن آ را، صرف نام کی ہی حسین ہے ۔ اللہ معاف کرے حسن آرا میں جو ذرا بھی حسن ہوتا تو اس نے قدم زمین پر نہیں رکھنے تھے۔ دماغ تو ابھی بھی ساتویں آسمان پر ہی رہتا ہے محترمہ کا ۔ یہ منجھلی چچی اور بے بی پھو پھو کی مشتر کہ رائے تھے حسن آرا کے بارے میں
خاندان بھر میں اپنے چڑ چڑے اور تیکھے مزاج کی وجہ سے مشہور حسن آرا خیر سے چار بھائیوں کے بعد جب دنیا میں آئی تو مانو اماں کی تو خوشی کی انتہا نہ رہی۔ بڑی منتیں مرادیں مانگی تھیں تب کہیں جاکر اوپر تلے کے چار بیٹوں کے بعد بیٹی کی صورت دیکھنا نصیب ہوئی تھی پہلی بار جب نرس نے حسن آرا کو اماں کی گود میں ڈالا تو زچگی کی وجہ سے نقاہت زدہ چہرے پر تفکر کی بھی کئی لکیریں نمودار ہوئیں۔
یہ کیا …؟ بیٹے تو سارے صاف رنگت کے تھے اماں خود بے حد گوری چٹی ، ابا بھی گندمی رنگت کے مالک تھے مگر بیٹی…
گہرا سانولا رنگ اور عام سے نقوش ۔ خیر اللہ کی مصلحت جان کر ننھی سی جان کو سینے سے لگا لیا۔ دادی نے چار عدد پوتوں کے بعد جب پوتی کی آمد کی خبرسنی تو خوشی سے نہال شاداں و فرحاں ڈھیروں مٹھائی لیے اسپتال آ پہنچیں مگر پوتی کو دیکھتے ہیں اوئی ماں کہتی ناک پر انگلی جما کر بیٹھ گئیں۔
اے بہو، سنگھاڑے تو نہیں کھا لیے تھے مجھ سے نظر بچا کر چاروں لڑکوں کی دفعہ بھی خوب نظر رکھی تھی میں نے تم پر کہ کچھ الٹا سیدھا نہ کھالواس حال میں ۔
نہیں اماں کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ ۔ اماں جو نڈھال سی لیٹی تھیں بیزاریت سے بولیں …….
پر دادی پر چنداں اثر نہ ہوا۔
ائے رہنے دو بہو، کتنا کہا تھا تم سے کہ اپنی اس پڑوسن سہیلی سے ملنا جلنا کم رکھو اس حال میں، پر تم کب سنتی ہو کسی کی ۔ خیر سے سارے ہی بچے گہری رنگت کے ہیں اس کے ۔ دادی کی اپنی ہی منطق تھی اماں نے بے بسی سے ابا کی طرف دیکھا جواب تک خاموش کھڑے تھے۔
ارے اماں کیوں فکر کرتی ہیں شکر ادا کریں کہ اللہ نے ہمیں اپنی رحمت سے نوازا ہے بس اچھے نصیبوں کی دعا کریں۔ ابا نے متانت سے کہتے ہوۓ بچی کو اٹھا کر دادی کی گود میں ڈال دیا۔
اۓ ہاۓ کیوں نہیں، اللہ خیر سے نصیب اچھے کرے میری بچی کے۔ دادی نے کئی بلائیں لے ڈالیں اور حکم صادر کر دیا کہ آج سے اور ابھی سے بچی کو سب حسن آرا کے نام سے پکاریں گے۔ گماں غالب تھا کہ نام کا اثر شخصیت پر ضرور پڑتا ہے۔
*******
اسپتال سے گھر آتے ہی دادی نے کمر کس لی دن میں دو دو بار بچی کو نہلاتیں۔ کئی کئی بار منہ رگڑ رگڑ کر دھلایا جا تا۔ روغن بادام کی مالش اور نہ جانے کون کون سے ٹوٹکے، سارا دن اماں کو بھی ساتھ لگاۓ رکھتیں۔ بڑھاپا تھا ننھی سی بچی کو اٹھاۓ رکھنے میں ہی ہانپ ہانپ جاتی تھیں۔
ائے بہو رنگ تو مانو بہت ہی پکا لگتا ہے کسی چیز سے نہیں کٹ رہا۔ تھک ہار کر تکیہ لگا کر لیٹ جاتیں مگر دوسرے ہی دن پھر نئے جوش اور ٹوٹکے کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوتیں۔ حسن آرا نے ہوش سنبھالا تو خود بھی دادی کے ساتھ جت گئی کتابوں رسالوں سے پڑھ کر ٹی وی پر دیکھ کر دونوں دادی پوتی ٹوٹکے آزماتی رہیں۔
حسن آرا جاڑا شروع ہو گیا ہے سنگترے کے چھلکے سکھا لے ایسا ابٹن پیس کے دوں گی دنوں میں رنگ نکھر آئے گا۔ جیسا جیسا دادی بتائی جاتیں حسن آرا کرتی جاتی یہ الگ بات ہے کہ پیدائش کے دن سے اب تک حسن آرا میں کوئی فرق نہ آیا تھا پر دادی نے ہمت نہ ہاری تھی۔
حسن آرا کی بڑھتی عمر کے ساتھ اماں کے وظائف بھی لمبے ہوتے جارہے تھے مگر قسمت پر ایسا قفل لگا تھا جو کسی کنجی سے نہ کھل رہا تھا اب تو حسن آرا نے بھی تھک ہار کر سارے ٹونے ٹوٹکے چھوڑ کر پارلر کی مصروفیت میں خود کوگم کر لیا تھا۔
********
عمر کا پینتیسواں برس لگا تو اماں نے کہہ سن کر ایک بار پھر وچولن کو بلا بھیجا۔ ہزارمنتیں ترلے کر کے منہ مانگے پیسوں کا لالچ دے کر کوئی مناسب رشتہ لانے کا کہا۔ دوسرے دن ہی وہ ایک بڑی بی کو ساتھ لیے چلی آئی۔ بڑی بی نے دوسال پہلے اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی کی تھی۔ بچے کی پیدائش پر ہونے والی پیچیدگی کی وجہ سے بہو چل بسی تھی۔ اس عمر میں ننھے سے بچے کے ساتھ گھر سنبھالنا ان کے لیے محال تھا چناں چہ سلجھی ہوئی خاندانی لڑکی کی تلاش میں سرگرداں تھیں ۔ جو گھر اور بچہ دونوں سنبھال لے۔
اماں کے اخلاق سے متاثر نظر آئیں ،خوش دلی سے ملیں، سرسری نظر حسن آرا پر ڈالی ایک آدھ بات کی اور چلی گئیں۔ کچھ دنوں بعد ہی وہاں سے ہاں کا عندیہ مل گیا۔
وچولن کو بھی اپنے پیسے کھرے کرنے کی جلدی تھی آنا فانا اماں ابا کو ساتھ لیا اور لڑکا دکھانے چل پڑی ۔ابا توصیف میاں کی متانت اور سنجیدگی سے متاثر ہوۓ۔ اماں کو بھی دھیمے مزاج کے سلجھے ہوۓ توصیف میاں بہت بھاۓ لیکن بیٹی کے مزاج سے ڈرتی تھیں کہ کہیں شادی شدہ ایک بچے کے باپ کا رشتہ سن کر انکار نہ کر دے۔ جانتی تھیں کہ جب نوعمری میں کوئی ڈھنگ کا رشتہ نہ ملا تو اس عمر میں تو کنوارے لڑکے کا رشتہ ملنا ناممکن ہی تھا۔ اماں نے خود ہی حسن آراء سے بات کرنے کی ٹھانی۔ رشتے کے تمام کوائف بمعہ توصیف میاں کی تعریف و توصیف کے سب حسن آراء کے سامنے رکھ دیے۔ حسن آرا بھی اب وقت کی نزاکت کو سمجھتی تھی ۔ مزاج میں بھی پہلے جیسے طنطنہ نہ رہا تھا سواماں ابا کی رضا اور خوشی کے آگے سر جھکا دیا۔
اندھیری رات اور حوس کا پجاری
شادی کی تیاریاں شروع ہوئیں گو کہ یہ توصیف میاں کی دوسری شادی تھی مگرحسن آرا کی تو پہلی ہی شادی تھی۔ سو اماں نے خوب ارمان نکالے اکلوتی بیٹی کی شادی پر …. شادی کے دوسرے دن توصیف میاں ایک خوب گول مٹول گورے بیٹے کو گود میں اٹھائے چلے آۓ۔ ڈرے سے معصوم سے بچے پر حسن آرا کو بہت ترس آیا۔ بڑھ کر کلیجے سے لگا لیا وہ بچہ جو پیدا ہوتے ہی ممتا جیسی عظیم نعمت سے محروم ہو گیا تھا۔ حسن آرا سے ایسا مانوس ہوا کہ ہر وقت اس کا پلو تھامے ساتھ ساتھ رہتا۔********
توصیف میاں ابھی ابھی دفتر سے لوٹے تھے اور حسب عادت اماں جان کی مزاج پرسی کے لیے ان کے کمرے میں موجود تھے۔
حسن آرا دل کی بہت حسین ہے اماں! ایک اطمینان سا ہو گیا ہے اب کوئی بے سکوئی نہیں رہی منے کی طرف سے ۔ دفتر میں بھی سکون سے اپنا کام کرتا ہوں ۔ توصیف میاں کے لہجے میں حسن آرا کے لیے ممنونیت اور عقیدت تھی تو اماں کے لیے میں بھی مان اور پیارتھا۔
انسانی لڑکی کی ایک جن سے محبت
دل کو لگتی بات کی ہے تو صیف میاں۔ حسن آرا نے منے کو بالکل سگی ماں جیسا پیار دیا ہے اللہ سکھی رکھے بچی کو…اور دروازے کی چوکھٹ پر چاۓ لے کر آتی حسن آرا دل تھامے کھڑی تھی… اتنی عمر بتادی ایک لا حاصل کے پیچھے۔ پتا نہیں تھا کہ تن اجلا نہ بھی ہوتو من کا اجلا پن آپ کے چاروں طرف نور کے چراغ روشن کر دیتا ہے۔
حسن کا جو خراج آج ملا تھا وہ انمول تھا۔ دوجلد باز آ نسو آنکھوں سے پھسل کر رخسار پر امڈ آئے تھے ساری زندگی اپنی تعریف کے لیے ترسنے والی حسن آرا کے لیے یہ احساس بے حد خوش کن تھا۔ کہ وہ بھی حسین ہے دل کی حسین-
سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا
0 تبصرے