یہ ایک سچا واقعہ ہے ۔جو میرے دوست کی بیوی کے ساتھ پیش آیا ۔وہ بتاتی ہیں کہ شادی کے بعد پانچ سالوں میں گاؤں نہیں گئیں۔ اس کا راز انہوں نے بعد میں کھولا ۔ بتاتی ہیں کہ میری بہن کی شادی تھی اور مجھے ضروری گاؤں جانا تھا ۔اس سے پہلے بھی کئی دفعہ گاؤں جانے کا ارادہ کیا لیکن پھر ملتوی کر دیتی کیونکہ میرا دل نہیں کرتا تھا ۔لیکن اب بہن کی وجہ سے جانا پڑا ۔جب وہاں پہنچی تو وہاں اک رونق لگ گئی ۔اگلی صبح رشتہ داروں سے ملنے نکلی تو راستے میں کسی نے میری چادر پکڑ لی پیچھے سے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو میرے سامنے ایک فقیرنی کھڑی تھی جس کا میلہ لباس. خشک ہونٹ. گندے بال تھے ۔اس کو دیکھ کر مجھے ایک جھٹکا لگا کہ یہ تو وہ تھی جس کے حسن پر پورے گاؤں کے لڑکے فدا تھے ۔جس کے سر سے کبھی دوپٹہ نہیں اترا تھا مگر آج وہ بیٹے سے بے نیاز کھڑی تھی۔ میں اسے پورے پانچ سال بعد دیکھ رہی تھی۔ وہ میری بہترین دوست سیما تھی۔
جس سے میری سترہ سال پرانی دوستی تھی ۔جس کے بغیر میرا اور میرے بغیر اس کا نا دل لگتا تھا اور نہ وقت گزرتا تھا ۔۔جس کی وجہ سے میری بڑی بہن میرے سے چڑتی تھی کہ مجھے لگتا ہے کہ میری جگہ اس نے لے لی ہے ۔۔اور کہتی تھی کہ تو میری کم اس کی سگی بہن زیادہ ہے
سیما ہمارے گھر کا ایک فرد تھی ۔۔ جب ہم بڑے ہوئے تو ہماری شادی کی باتیں چلنے لگیں ۔۔ لیکن وہ بہت گھبراتی اور فکرمند تھی. کیونکہ وہ چاہتی تھی کے ہماری شادی ایک ہی گھر میں ہو. وہ شادی کرکے کہیں مجھ سے دور نہیں جانا چاہتی تھی
ایک بار ایک شادی میں ہم لوگ شریک تھے تو ایک خاتون ہمارے پاس آکر ہمارے نام پتے پوچھنے لگی۔۔ میں نے اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی مگر کچھ دنوں بعد وہ خاتون اپنے دونوں بیٹوں کا ہمارے لیے رشتہ لے کر آگئی ۔۔ بڑے بھائی کا میرے لئے اور چھوٹے بھائی کا سیما کے لئے
۔میرے گھر والوں کو رشتہ بہت پسند آیا اور انہوں نے ہاں کر دی ۔۔سیما کے گھر والوں کی طرف سے بھی ہاں ہوگئی
۔شادی کے دن قریب آگئے ۔میری بڑی بہن نے مجھے سمجھایا تھا کہ اب تمہارا سیما کے ساتھ دو رشتے ہیں ۔۔ دیورانی جیٹھانی کا رشتہ ۔۔ جو نہایت نازک رشتہ ہے. اب تم لوگ ایک ساتھ رہو گے. تم دونوں کو ہر بات میں بہت برداشت سے کام لینا ہوگا ۔میں نے بہن کو کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا جو آپ سوچ رہی ہیں میرا اور سیمہ کا ساتھ بہنوں جیسا ہے ہمارا تو سالوں کا ارمان پورا ہو رہا ہے ۔۔ ہم دیورانی جیٹھانی بعد میں ہیں. دوست پہلے ہیں
۔میرے گھر والوں کو رشتہ بہت پسند آیا اور انہوں نے ہاں کر دی ۔۔سیما کے گھر والوں کی طرف سے بھی ہاں ہوگئی
۔شادی کے دن قریب آگئے ۔میری بڑی بہن نے مجھے سمجھایا تھا کہ اب تمہارا سیما کے ساتھ دو رشتے ہیں ۔۔ دیورانی جیٹھانی کا رشتہ ۔۔ جو نہایت نازک رشتہ ہے. اب تم لوگ ایک ساتھ رہو گے. تم دونوں کو ہر بات میں بہت برداشت سے کام لینا ہوگا ۔میں نے بہن کو کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا جو آپ سوچ رہی ہیں میرا اور سیمہ کا ساتھ بہنوں جیسا ہے ہمارا تو سالوں کا ارمان پورا ہو رہا ہے ۔۔ ہم دیورانی جیٹھانی بعد میں ہیں. دوست پہلے ہیں
خوبصورت اور جواں سالہ پڑوسن
۔میں اور سیما شادی کر کے اس گھر میں پہنچ گئے ۔۔زندگی بہت خوبصورت ہو گئی تھی ۔شادی کے ایک سال بعد میری گود میں میرا بیٹا اور سیمی کی گود میں اس کا بیٹا آگیا ۔ میرے میاں کی نوکری شہر میں لگ گئی تھی وہ پڑھے لکھے تھے اس لیے ان کو شہر میں ہی نوکری ملی تھی ۔وہ ضد کر رہے تھے کہ میں اور میرا بیٹا ان کے ساتھ شہر چلیں. جبکہ میرا دل کسی صورت شہر جانے کے لیے راضی نہیں تھا ۔۔آخر میرے شوہر شہر چلے گئے جب وہ آتے تو خوب سارے تحفے لاتے ۔ ہماری ایک بیٹی بھی ہوگئی. ۔۔ میرا بیٹا چار سال کا ہو گیا تھا ۔۔جس گھر میں ہم رہتے تھے اس گھر کے بیچ میں ایک چھوٹی سی دیوار تھی ۔۔ ایک حصہ میں میں اور ایک میں سیما رہتی تھی
۔طے یہ پایا کہ میں ولادت کے بعد شہر چلی جاؤں گی ۔جس دن یہ فیصلہ ہوا اس دن سیما میرے پاس آئی اور اداسی سے بولی کہ تم چلی جاؤ گی تو میرا دل کیسے لگے گا. ۔میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کے اس کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہر مہینے مجھے تم سب سے ملوانے آتے رہیں گے ۔اس نے کہا میں تم کو بہت یاد کرو گی ۔میں نے کہا کہ شہر کونسا دور ہے تم مجھ سے آ جایا کرنا ملنے ۔۔ میں بھی آ جایا کروں گی ۔پھر وہ میرے گلے لگی ہم دونوں بہت اداس تھے.
ایک خوفناک سفر مکمل اردو کہانی
شوہر کے چلے جانے کے بعد ہم سب اکٹھے بیٹھے شام کو چائے پی رہے تھے تو میرے دیور نے کہا کہ بھابھی تم چلی جاؤ گی تو اداسی ہو جائے گی ۔گھرسونا ہو جائے گا.. میں نے کہا، تم بھی چلو نا ۔وہ بولا، میں کیا کروں گا جا کر مجھے کوئی کام تو آتا نہیں۔ خیر بات یہی پر ختم ہو گئی
جن زادی کے ساتھ زیادتی
یہ حصے تو بس نام کے تھے ورنہ ہم اکٹھے رہتے تھے ۔۔ میں دوبارہ امید سے ہوگئی تھی مگر سیمی کے ہاں ایک بیٹے کے بعد دوبارہ اولاد نہیں ہوئی ۔اس بار میرے شوہر نے ضد پکڑ لی کہ تم میرے ساتھ شہر چلو یہاں اکیلی کیسے رہو گی ۔اور بڑے بیٹے کا داخلہ بھی اسکول میں کروانا ہے ۔میرے سارے سسرال والوں نے بھی کہا کہ وہ ٹھیک کہہ رہا ہے ناشکری مت کرو ۔سب کے سمجھانے پر مجھے مجبور ماننا پڑا مگر میں دل سے خوش نہیں تھی۔طے یہ پایا کہ میں ولادت کے بعد شہر چلی جاؤں گی ۔جس دن یہ فیصلہ ہوا اس دن سیما میرے پاس آئی اور اداسی سے بولی کہ تم چلی جاؤ گی تو میرا دل کیسے لگے گا. ۔میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کے اس کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہر مہینے مجھے تم سب سے ملوانے آتے رہیں گے ۔اس نے کہا میں تم کو بہت یاد کرو گی ۔میں نے کہا کہ شہر کونسا دور ہے تم مجھ سے آ جایا کرنا ملنے ۔۔ میں بھی آ جایا کروں گی ۔پھر وہ میرے گلے لگی ہم دونوں بہت اداس تھے.
ایک خوفناک سفر مکمل اردو کہانی
شوہر کے چلے جانے کے بعد ہم سب اکٹھے بیٹھے شام کو چائے پی رہے تھے تو میرے دیور نے کہا کہ بھابھی تم چلی جاؤ گی تو اداسی ہو جائے گی ۔گھرسونا ہو جائے گا.. میں نے کہا، تم بھی چلو نا ۔وہ بولا، میں کیا کروں گا جا کر مجھے کوئی کام تو آتا نہیں۔ خیر بات یہی پر ختم ہو گئیمیں اپنے شوہر کیساتھ شہر آگئی، میں جسمانی طور پر اب بھی بہت پرکشش تھی۔ ایک دن میرے شوہر کیساتھ ان کا ایک دوست بھی گھر آیا، مجھے چائے بنانے کا کہ کر میرا شوہر اور اس کا دوست باتیں کرنے لگے۔ میرے شوہر نے کبھی اپنے دوست کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ جب میں چائے لیکر کمرے میں پہنچی تو دونوں بہت اچھے موڈ میں باتیں کر رہے تھے۔ میں نے چائے اس کے سامنے رکھ دی اور جانے کے لیے مڑی تو میری شوہر نے اپنے دوست سے میرا تعارف کروانا شروع کر دیا۔
وہ کن انکھیوں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ گوری چٹی رنگت والا پھرپور نوجوان تھا۔ اس کی آنکھوں میں اپنائیت تھی۔ چائے ختم ہوئی تو دونوں کسی کام سے باہر چلے گے۔
اس کا امجد تھا، پھر اس کا کسی نہ کسی کام سے آنا جانا لگا رہا۔ میرے لیے ہر بار کوئی نہ کوئی تحفہ لیکر آتا۔ میری بہت عزت کرتا تھا، لیکن میں سمجھ نہ پائی کہ یہ سب کیوں کر رہا ہے۔ ابھی اس کی شادی بھی نہی ہوئی تھی۔
میرے شوہر کسی ضروری کام سے دو دن کے لیے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ رات کو اچانک گھر کی لائیٹ میں کوئی مسئلہ ہوا تو میں پریشان ہو گئی۔ فوراً اپنے شوہر سے رابطہ کیا تو اس نے تسلی دی کہ میں کچھ کرتا ہوں۔ ٹھیک ایک گھنٹے بعد دروازے پر دستک ہوئی تو میری پریشانی اور بڑی گئی، اندھیری اور سردی کی ٹھٹرتی رات میں بھی پسینہ آ گیا۔ خیر دروازے پرگئی اور پوچھا کہ کون ہے؟ باہر سے امجد کی آواز آئی کہ میں ہوں آپکے شوہر کا فون آیا تھا کہ گھر میں لائیٹ کا کوئی مسئلہ ہو گیا ہے اس لیے آیا ہوں۔ یہ سن کر میرے دل کو تسلی ہوئی تو میں نے اسے اندر بلا لیا۔
گھر میں اندھیرا پھیلا ہوا تھا، ٹارچ تھی نہیں موبائل کو لائٹ آن تھی۔ امجد نے اپنے موبائل کی لائیٹ آن کر کے میں سوئچ بورڈ چیک کرنا شروع کر دیا تو میں اپنے کمرے میں آگئی، رات کے گیارہ بج رہے تھے بچے تو سو گئے تھے لیکن میں جاگ رہی تھی اور امجد اپنا کام کر رہا تھا۔ کافی ٹائم گزر گیا مگر لائیٹ کا مسئلہ حل نہ ہو سکا۔
امجد نے کہا کہ کل صبح کسی الیکٹریشن کو بلا کر ٹھیک کروا دوں گا، میں نے سے کہا کہ آپ کے لیے چائے بناتی ہوں، اس کی موجودگی مجھے اچھی لگ رہی تھی۔ اکیلی عورت بچوں کیساتھ ہو تو ڈر لگا رہتا ہے۔ میں نے چائے بنائی اور کمرے میں آگئی۔ امجد ایک اچھا لڑکا تھا میرے شوہر کا خاص دوست تھا اس لیے میرے شوہر اس پر بہت اعتماد کرتے تھے۔
کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس رات کچھ ایسا بھی ہو سکتا تھا۔ امجد کے ساتھ رات کمرے میں موبائل لائٹ کی ہلکی سے روشنی میں وہ سب کچھ ہو گیا جس کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
ہوا کچھ ہوں کہ ہم چائے کیساتھ باتیں کئے جا رہے تھے اور میں نے امجد سے پوچھا کہ ابھی تک شادی کیوں نہیں کی، وہ کہنے لگا کہ ابھی کوئی ایسی ملی ہی نہیں جو میرے دل پر راج کر سکے۔ وہ کن انکھیوں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں اس وقت نائٹی پہنے ہوئے تھی۔ اس کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ وہ مجھے بہت پیار سے دیکھ رہا ہے اور اس کی آنکھوں میں حوس جنم لے رہی تھی، میری گھر میں اکیلی تھی ، بچے بھی سو چکے تھی اور اب جو ہونا تھا میں کچھ بھی نہ کر پائی، میں بہت بے بس ہو گئی۔
امجد کا داؤ چل گیا تھا اور اس اندھیری رات میں وہ حوس کا پجاری بن چکا تھا میری لاکھ منع کرنے کے باوجود اس پر حوس کا شیطان سوار تھا۔ وہ میری بہت قریب ہو گیا، یہ سب بس مذاق مذاق میں ہوا تھا پہلے باتیں پھر ہلکا سا ہنسی مذاق پھر اس نے میرا ہاتھ دیکھا کہ میرے شوہر مجھ سے کتنا پیار کرتے ہیں۔ اصل میں امجد جو جال پھینک رہا تھا میں اس سے واقف نہ تھی۔ وہ کہ رہا تھا کہ تمہارا شوہر بہت کنجوسی سے تمہیں پیار کرتا ہے حالانکہ آپ جتنی حسین اور جاذب نظر ہیں آپ کے لیے تو دن رات پیار ہی پیار ہونا چائیے۔
اس کی قربت میں، میں سب بھول گئی اور یہی میری غلطی تھی۔ اس نے اپنی حوس پوری کرنے کے لیے جو جال بچھایا تھا میں اس میں پھنس گئی، رات چار بجے تک ہم اک نشے میں ڈوبے رہے، وہ دیوانہ وار مجھے پیار کر رہا تھا اور میں مدہوش سی آنکھیں بند کیے لیٹی رہی۔ ایک طوفان آیا اور گزر گیا۔
پانچ بج گئے وہ جانا چاہتا تھا مگر اب میرا دل اسے جانے نہیں دے رہا تھا وہ مجھ پر اپنا سحر طاری کر چکا تھا۔ دل تھا کہ بھر ہی نہیں رہا تھا۔ صبح ناشتہ کے بعد وہ پھر آنے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 تبصرے