جن زادی کے ساتھ زیادتی


جن زادی کے ساتھ زیادتی

یہ رات کے دو بجے کا وقت تھا ۔۔۔ پورے گاوں میں ہر طرف اندھیرا پھیل چکا تھا ۔۔۔ اور اس اندھیرے میں تین دوست گاوں کے کھیتوں میں اپنی محفل لگائے بیٹھے تھے
وہ تینوں لڑکے روشن ، حمزہ ،اور عمران کافی پرانے دوست تھے ۔۔۔
ان تینوں سے محبت تو کوئی نہیں کرتا تھا لیکن نفرت پورا گاوں کرتا تھا۔۔۔ اور اس نفرت کے پیچھے بھی قصور ان تینوں لڑکوں کا تھا ۔۔۔۔
وہ تینوں لوفر آورارہ قسم کے لڑکے تھے ۔۔جو شراب ، سگریٹ اور ہر قسمی نشے کا شکار تھے ۔۔ اب ان سے محبت تو کوئی کر ہی نہیں سکتا تھا یہاں تک کہ ان کے اپنے گھر والے بھی ان سے تنگ تھے

اور وہ تینوں بھی کسی کی ۔محبت کے انتظار میں نہیں تھے انہوں نے بھی گاوں سے دور کھیتوں میں اپنی ایک علیحدہ دنیا بنائی ہوئی تھی تا کہ گاوں والے انہیں تنگ نہ کریں اور وہ گاوں والوں کو تنگ نہ کر سکیں۔ ۔۔ رات کو وہ لڑکے گاوں کے کھیتوں میں بیٹھ کر ساری رات نشہ کرتے ۔۔۔
لیکن ایک بار ان کی زندگی میں ایک ایسی عجیب و غریب رات آئی کہ ان کی زندگی ہی بدل گئی

یہ اس رات کی بات ہے جب وہ تینوں دوست کھیتوں میں بیٹھ کر نشہ کر رہے تھے ۔اور نشے میں گم تھے انہیں کسی کا ہوش نہیں تھا ۔۔ پھر اچانک کھیتوں میں کسی لڑکی کے پازیب کی آواز سنائی دی ۔۔۔
حمزہ نے پازیب کی آواز سن لی اور اپنے دوستوں سے بولا ۔۔۔۔
یار میں نے ابھی ابھی کسی لڑکی کی پازیب کی آواز سنی ہے ۔۔۔ '
روشن نے گھور کر حمزہ کو دیکھا اور لاپرواہی سے کہا ۔۔۔
تیرے کان بج رہے ہیں اتنی رات کو یہاں کون لڑکی ہو سکتی ہے کھیتوں میں ۔۔ ضرور تونے آج نشہ زیادہ کیا ہے ۔ '
حمزہ کی بات پہ روشن اور عمران کسی نے یقین نہیں کیا اور حمزہ بھی دوبارہ سگریٹ پینے میں مصروف ہو گیا یہ سوچ کر شاید واقعی آج اس نے نشہ زیادہ کر لیا ہو اس لئے اسے ایسی آواز سنائی دی ۔۔۔۔۔
وہ سب اس آواز کو نظر انداز کر ایک بار پھر سگریٹ پینے لگے ۔۔۔۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی لیکن ان سب کے جسم جیسے لوہے کے بنے ہوں انہیں کچھ محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد لڑکی کی پازیب کی آواز پھر سے سنائی دی ۔۔۔ اب کی بار وہ آواز تینوں دوست نے سن لی اور سب کے کان کھڑے ہو گئے ۔سب حیران ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔۔۔
۔۔حمزہ فورا بولا ۔۔
دیکھا ۔۔۔ میں نے کہا تھا ناں یہاں کسی لڑکی کی پازیب بج رہی ہے لیکن میری بات کوئی سنتا ہی نہیں ۔۔۔۔۔ '
عمران نے حیرانگی سے کہا
ابے یار یہاں سچ میں کسی پازیب کی آواز آ رہی ہے ۔۔۔ لگتا ہے کوئی لڑکی ہے یہاں پہ ۔۔۔۔۔ '
وہ تینوں دوست نشہ چھوڑ کر کھڑے ہوئے ۔۔۔۔
لیکن اتنی رات کو یہاں لڑکی کون ہو سکتی ہے ۔۔ کسی لڑکی کا رات کے دو بجے ان کھیتوں میں کیا کام ۔۔۔۔۔ '
روشن شیطانی مسکراہٹ سے بولا ۔۔۔۔

یہ تو اس لڑکی کو دیکھ کر ہی پتا چلے گا ۔۔۔ کہ وہ یہاں کیا کر رہی ہے ۔۔۔۔ ' وہ تینوں چلتے جا رہے تھے اور ادھر ادھر اس لڑکی کو ڈھونڈنے لگے ۔۔وہ اپنے نشے کا سامان وہیں چھوڑ کر اب صرف پازیب کی آواز والی کو ڈھونڈ رہے تھے۔۔ رات کا وقت تھا ہر طرف گھپ اندھیرا پھیل چکا تھا ۔۔۔ اور وہ تینوں لڑکے اس پازیب کی آواز کو سنتے ہوئے اس لڑکی کو تلاش کر رہے تھے ۔۔۔۔ پھر اچانک ان تینوں کو ایک درخت کے پیچھے بہت ہی خوبصورت لڑکی نظر آئی ۔۔۔۔
وہ سب حیران ہو کر اس لڑکی کو دیکھنے لگے ۔۔۔ اتنی خوبصورت لڑکی وہ اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھ رہے تھے ۔۔۔ جانے وہ کون تھی اور اتنی رات کو کھیتوں میں کیا کر رہی تھی ۔۔۔ انہوں نے پہلے تو کبھی کھیتوں میں کوئی لڑکی نہیں دیکھی تھی ۔۔۔۔۔
عمران نے اس لڑکی کو دیکھ کر حیرانی سے کہا ۔۔۔
او تیری یہ لڑکی کون ہے اور یہاں کیا کر رہی ہے ۔۔۔ '
حمزہ نے شاطرانہ انداز میں کہا ۔۔۔۔

مزید پڑھیں: ایک خوفناک سفر مکمل اردو کہانی

ابے جو بھی ہے ہمیں اس سے کیا ۔۔۔ چلو اس کے پاس چلتے ہیں اور اس سے بات کرتے ہیں ۔۔۔بہت ہی دھماکہ لڑکی ہے ۔۔۔ ایسی لڑکی تو پوری دنیا میں نہیں ہوگی ۔۔۔۔ '
حمزہ کی بات پہ وہ تینوں اس لڑکی کے پاس جانے لگے ۔۔۔ وہ لڑکی بھی ان تینوں کو دیکھ چکی تھی اور کافی حیران بھی تھی ۔۔۔۔وہ تینوں اس لڑکی کے پاس پہنچ کر بولے ۔۔۔۔۔
کون ہیں آپ اور اتنی رات کو یہاں کھیتوں میں کیا کر رہی ہیں ۔۔۔۔ '
وہ لڑکی اول تو ان تینوں کو وہاں دیکھ کر ہی کافی ڈر رہی تھی اور اب ان کے سوال سے مزید گھبرا گئی ۔۔۔۔ اور گھبراتے ہوئے بولی ۔۔۔۔
میں ۔۔۔ میں چلتی ہوں یہاں سے ۔۔۔ رات بہت ہو گئی ہے ۔۔۔ '
وہ لڑکی ان تینوں کو دیکھ کر وہاں سے جانے لگی جب عمران نے روشن کو کہنی مار کر کہا ۔۔۔
ابے یار اتنی اچھی لڑکی ملی ہے کیا اسے یونہی جانے دو گے ۔۔۔۔ اسے پکڑو آج کی رات ہم تینوں کا دل بہلائے گی ۔۔۔۔ '
حمزہ اور روشن عمران کی بات پر تیزی سے بھاگے اور اس لڑکی کے سامنے جا کر کھڑے ہو گئے ۔۔۔۔۔وہ لڑکی اس طرح اپنا راستہ روکے جانے پر حیران ہوئی ۔۔۔۔۔اور غصے سے بولی ۔۔۔۔
راستہ کیوں روکا ہے تم لوگوں نے میرا چلو ہٹو سامنے سے جانے دو مجھے ۔۔۔۔۔ '
عمران غور سے اس لڑکی کے جسم کا جائزہ لینے لگا پھر آوارگی سے بولا۔۔۔۔۔
ہٹ جائیں گے تمہارے راستے سے بھی اتنی جلدی کیا ہے ۔۔۔
زرا ہمارے ساتھ چلو ہمیں خوش کر دو پھر جانے دیں گے تمہیں '
اس لڑکی نے نظریں اٹھا کر گھورتے ہوئے ان تینوں لڑکوں کو دیکھا اور غصے سے بولی ۔۔۔۔
تم لوگ نہیں جانتے میں کون ہوں ۔۔۔ اگر تم تینوں کو پتا چل جائے میں کون ہوں تو یہاں کھڑے رہنے کی ہمت نہیں کر پاتے ۔۔۔۔ '
اس لڑکی کی بات پر وہ تینوں ہنسنے لگے۔۔۔پھر روشن بولا،چلو اب نخرے نہ کرو اور ہمارے ساتھ چلو آج کی رات ہمارے ساتھ گزارو پھر جہاں جانا ہے چلی جانا۔اب یہ نہ کہنا کہ تم شریف لڑکی ہوکیونکہ کوئی بھی شریف لڑکی اتنی رات کو کھیتوں میں نہیں گھومتی۔۔۔
روشن کی بات سن کر اس لڑکی نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا اور چیخ کر بولی،
مرو گے تم سب"جانتے نہیں میرے بارے میں کہ میں کون ہوں میں لڑکی نہیں ہوں میں ایک جن زادی ہوں
اس لڑکی کی بات پر تینوں دوست پھر زور زور سے ہنسنے لگے اور اس لڑکی کا مذاق اڑاتے ہوئے عمران بولا۔
اچھا تو تم جن زادی ہو،اچھا طریقہ ہے خود کو بچانے کا لیکن یاد رکھو آج ہم کسی قیمت پر تجھے چھوڑنے والے نہیں ہیں۔۔۔
وہ لڑکی عمران کی بات سن کر مزید غصے میں آ گئی اور اس نے ایک زوردار تھپڑ عمران کے منہ پر مارتے ہوئے کہا،،میں نے کہا نا میں انسان نہیں ہوں،سمجھ نہیں آرہی تم لوگوں کو،جانے دو مجھے دیر ہو رہی ہے، ہٹو میرے سامنے سے۔۔
عمران ایک تھپڑ کھا کر آگ بگولا ہو گیا اور اس نے لڑکی کو ایک دھکا دیا جس سے وہ کھیتوں میں جا گری۔
روشن اور حمزہ نے اس لڑکی کوبازؤں سے پکڑ لیا اور عمران اپنے کپڑے اتارنے لگا۔۔۔وہ لڑکی زور زور سے چیخ رہی تھی لیکن روشن اور حمزہ اسے قابو کیے ہوئے تھے...
عمران اگے بڑھتا جا رہا تھا شیطانی مسکراہٹ اسکے چہرے پر تھی.
جبکہ اس لڑکی کی آنکھوں میں خوف و ہراس پھیل گیا.
روشن اور زمان نے مضبوطی سے اس لڑکی کو اپنے قابو میں کیا ہوا تھا اور زمان نے لڑکی کہ منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کا منہ بند کیا تھا
کیونکہ لڑکی زور زور سے چلا رہی تھی ہیلپ ہیلپ ہیلپ
عمران ڈر بھی رہا تھا کہ کہیں کوئی آ نہ جائے کیونکہ پہلے بھی وہ چند ایسے واقعات میں پکڑا گیا تھا
لڑکی اب بھی چیخ رہی تھی
وہ کوشش کر رہی تھی کہ کسی نہ کسی طرح ان کے چنگل سے نکل جائے لیکن روشن اور زمان کی گرفت بہت مضبوط تھی اور روشن کا ایک ہاتھ اس کے بالوں پر تھا جس سے وہ آ ہستہ آہستہ مدھم پڑتی جا رہی تھی
عمران اب بالکل اس لڑکی کے پاس آ چکا تھا اور اس کے اگلے دونوں ہاتھ لڑکی کے گالوں پر پڑنے والے تھے کہ لڑکی نے لیٹے لیٹے ایک زور کی لات عمران کو ماری جو اس کے اوپر آ رہا تھا،
لات عمران کو بہت زور سے لگی اور وہ لڑکی پر آ گیا،
درد کی شدت سے عمران لوٹ پوٹ ہونے لگا،
ادھر روشن اور زمان اپنے ساتھی کی طرف لپکے اور لڑکی کو چھوڑ دیا جس سے لڑکی کو موقع مل گیا
اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اس میں طاقت نہ ہونے کے برابر تھی،اس کی آنکھوں کہ سامنے اندھیرا چھایا ہوا تھا،،،
زمان اور روشن عمران کو سنبھال رہے تھے لیکن اس کی حالت بہت خراب تھی،
روشن نے عمران کو سہارا دیا،
زمان بولا،
یار اس کو گھر لے چلتے ہیں اس کی حالت بہت خراب ہے،
لیکن
عمران جس کی آنکھوں میں ابھی بھی ہوس کی آگ تھی اور تکلیف میں ہونے کے باوجود بھی وہ بولا،
نہیں اب میں اس کو بالکل نہیں چھوڑوں گا،اب میں اس کا وہ حال کروں گا کہ اسے اپنے آپ سے بھی نفرت ہو جائیگی،
عمران کی اس بات پر زمان اور روشن کی آنکھوں میں بھی شیطانی چمک جاگ اٹھی اور وہ لڑکی کی طرف بڑھنے لگے جدھر انہوں نے لڑکی کو پھینکا تھا،،،
لیکن اچانک روشن چیخ کر بولا،،،
وہ دیکھو،وہاں تو لڑکی نہیں ہے
زمان بولا،کدھر چلی گئی،ڈھونڈو اسے
زمان کی بات سن کر روشن ادھر ادھر کھیتوں میں لڑکی کو تلاش کرنے لگا لیکن لڑکی کہیں نظر نہیں آئی
جب تھک ہار کر دونوں عمران کے پاس آئے تو ان کو ایک زور دار جھٹکا لگا،
عمران کی ادھ کٹی لاش کھیتوں میں پڑی ہوئی تھی سارے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور کٹی ہوئی گردن سے خون بہہ رہا تھا
جب ان دونوں نے اپنے ساتھی کی کٹی ہوئی لاش دیکھی تو ان کا دل دہل گیا
ان دونوں نے ایک بھیانک چیخ ماری اور گاؤں کی طرف دوڑ لگا دی،
صبح ہونے والی تھی،دونوں بہت ڈر چکے تھے،ان کی ہمت جواب دے چکی تھی،
اب ان کو یقین ہو رہا تھا کہ جس کے ساتھ ہم نے زیادتی کرنے کی کوشش کی وہ لڑکی نہیں تھی۔بلکہ ایک جن زادی تھی،اب ان دونوں کو اپنی موت یقینی نظر آ رہی تھی،دونوں کی آنکھوں سے نیند اڑ چکی تھی۔
ساری رات انہوں نے جاگ کر گزاری۔بار بار دوست کی موت کا منظر ان کی آنکھوں کے سامنے آ رہا تھا۔
جیسے تیسے رات گزر گئی،
ادھر صبح جب گاؤں والوں نے عمران کی لاش دیکھی تو گاؤں میں کہرام مچ گیا،
سارے لوگ بھاگے بھاگے کھیتوں کی طرف بھاگے اور عمران کی لاش کو عمران کے گھر لایا گیا،پولیس آئی لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا اور نہ ہی قاتل کا پتہ چلا،
عمران کو قبرستان میں دفن کر دیا گیا،
بات آئی گئی ہو گئی،لیکن زمان اور روشن کو پتہ تھا کہ ان کی خیر نہیں ہو گی،شام کو زمان نے روشن کو بلایا،زمان کی حالت بہت خراب تھی،
ادھر روشن بھی بیمار ہو چکا تھا کیونکہ دونوں نے ساری رات نیند نہیں کی تھی ڈر اور خوف کی وجہ سے۔۔۔
زمان بولا،کیوں نہ ہم ساری سٹوری گھر والوں کو بتا دیں،
روشن بولا،پاگل ہو گئے ہو،مروانا چاہتے ہو،؟
تمہیں پتہ ہے کیس پولیس کے پاس پہنچ چکا ہے،شکر ہے کہ ہم بھاگ نکلے عمران کی لاش کو چھوڑ کر،
سوچو اگر ہم عمران کی لاش کو گاؤں لے جاتے تو سب کا شک ہم پر آ جاتا اور ہم بے گناہ پھنس جاتے،
زمان بولا،ہاں یار یہ بات تو ہے،میں تو پہلے ہی کہ رہا تھا کہ چلو چلیں لیکن عمران نہیں مان رہا تھا،
اب دیکھا؟وہ اپنی غلطی میں خود مارا گیا،کیوں نہ ہم ایک کام کریں؟
روشن بولا,کونسا
تو زمان بولاکیوں نہ ہم تھانیدار کو ساری سٹوری بتا دیں جو ہمارے ساتھ کل رات پیش آیا،
لیکن روشن بولا,کیا تھانیدار ہماری بات مانے گا؟؟؟
تو زمان بولا،کیوں نہیں مانے گا۔بات کرنے میں کیا حرج ہے،بات کر کے دیکھ ہی لیتے ہیں صبح۔
روشن بولا ٹھیک ہے۔
دونوں اپنی راہ ہو لیے یہ اقرار کر کے کہ صبح تھانیدار کو ساری حقیقت بتا دیں گے لیکن ان کو کیا پتہ تھا کہ صبح ایک بھیانک خطرہ ان دونوں کی زندگی کو جہنم بنانے والا ہے۔۔۔

 دونوں اپنے گھروں کو چل دیے،

شام ہونے کو تھی،
زمان گھر میں داخل ہوا تو گھر میں کہرام برپا تھا،
زمان کے بھائی کا تین سالہ بیٹا گھر سے غائب تھا
سب اسے ڈھونڈنے میں لگے تھے لیکن نہیں مل رہا تھا،
آ گئے لوفر کہیں کے،
زمان کا بڑا بھائی بولا،
اب بچے کو ڈھونڈو میرا منہ کیا دیکھ رہے یو،
زمان بچے کو ڈھونڈنے لگ گیا،
وہ عشاء تک بچے کو ڈھونڈتے رہے لیکن بے سود،
زمان کو اب شک ہونے لگا تھا کہ کچھ گڑ بڑ ہے کیونکہ اتنا چھوٹا بچہ کدھر جا سکتا ہے جو چل بھی نہیں سکتا۔۔۔
اچانک باہر شور شرابہ شروع ہو گیا۔
سب باہر کی طرف بھاگے،باہر نکلے بہت سارے لوگ جمع تھے،،،
ایک بندے نے ہاتھ میں چھوٹا بچہ اٹھا رکھا تھا،
ارے یہ کیا،یہ کیسے،کدھر ملا او میری جان
زمان کا بھائی چیخنے لگا،،
سب کے رونگٹے لگ گئے اور گھر کے سارے فرد غم سے نڈھال ہو گئے،
ایک بندہ بولا،
جی یہ بچے کی لاش ایک گٹر میں تھی،بہت رو رہا تھا لیکن لگتا تھا کسی نے نیچے پاؤوں سے پکڑا ہوا تھا،
ہم بھاگے لیکن کسی نے گٹر کے اندر کھینچ لیا اور تھوڑی دیر بعد لاش پھر اوپر آ گئ۔۔۔
سب پر ہو کا عالم تھا سب کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔
بچے کی لاش کو گھر لایا گیا تو اندر بھی قیامت کا منظر تھا،
بچے کی ماں یہ دیکھ نہ سکی،ایک چیخ ماری اور وہاں گر گئی،
اس کو بے ہوشی کی حالت میں اٹھا یا گیا اور بچے کو بھی گھر لایا گیا،اس کو نہلایا گیا
بچے کی ماں کو ہسپتال لایا گیا،لیکن وہاں ایک قیامت کا منظر تھا،،،
بچے کی ماں دم چوڑ چکی تھی،
ماحول بدل چکا تھا۔جن زادی کی وجہ سے تین لاشیں گر چکی تھیں،تین دوستوں کی غلطی نے ایک ہنستے بنستے گھر میں صف ماتم بچھا دی تھی۔
غلطی جن زادی کی نہیں تھی۔غلطی ہوس کے مارے تین دوستوں کی تھی جن میں ایک عمران اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا،دوسرے زمان کے گھر میں آدھی رات کو قیامت کا منظر تھا اور تیسرا روشن گھر میں آرام سے سو رہا تھا،
بچے کی ماں کی لاش کو گھر لایا گیا،
صبح اس کو بچے کے ساتھ دفن کیا جانا تھا
زمان کی بہت بری حالت تھی۔وہ بار بار روئے جا رہا تھا،وہ خود پر لعنت کر رہا تھا،اسے لگ رہا تھا چھوٹے بچے کی اور اس کی ماں کی موت اس کی وجہ سے ہوئی ہو،
وہ اپنے بھائی کو کیا منہ دکھائے گا۔۔۔
وہ بہت دیر سے رو رہا تھا،اور یوں روتے اسے نیند آ گئی لیکن رات کے کسی پہر اس کی آنکھ کھل گئی۔
اسکو یوں لگا جیسے جن زادی اس کے خواب میں آئی ہو اور بول رہی ہو کہ ایسے کیسے سو گئے،
ابھی تو میں نے تجھے تیری ماں کا غم دکھانا ہے،
ابھی تو تجھے اپنے والد کا جنازہ اٹھانا ہے،
اسکے بعد تجھے تڑپاؤں گی،ابھی تو تیرا دوست بھی باقی ہے جس کو تیری بھیانک موت کی خبر سننی ہے،تم دونوں اتنی جلدی عمران کی موت بھول گئے،
یہ سب وسوسے زمان کے ذہن میں آ رہے تھے اور وہ پھر رونے لگ گیا،،،
اسے کیا پتہ تھا کہ ان پر قیامت تو اب آئے گی۔۔۔
صبح بچے اور اس کی ماں کو دفن کر دیا گیا،ہر ایک کی آنکھ اشکبار تھی سب رو رہے تھے۔
زمان کو بخار چڑھ چکا تھا،اس نے صبح سے کسی سے بات نہیں کی تھی اور نہ ہی کچھ کھایا پیا تھا،روشن کو صبح فوتگی کا علم ہوا،وہ زمان کے گھر آیا،
تعزیت کی اور زمان کے کمرے میں پہنچ گیا،زمان کمرے میں ایک طرف بیٹھا ہوا تھا،روشن اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا،اور دھیمی آواز سے بولا،،
یار بہت افسوس ہوا مجھے،یقین مانو جب سے یہ خبر سنی ہے مجھے تک ابھی تک یقین بھی نہیں آ رہا،
روشن کی بات زمان نے سن لی تھی لیکن چپ بیٹھا تھا،،،
روشن بولا،
دیکھ زمان یار،کب تک یوں خود کو تکلیف دو گے،چل اٹھ اور کچھ کھا پی لے،
لیکن زمان تھا کہ بولنے کا نام نہیں لے رہا تھا،
روشن بہت دیر تک اپنے دوست کے پاس بیٹھا رہا اور اس سے باتیں کرتا رہا لیکن زمان توجیسے صدیوں سے خاموش ہو،
آخرکار روشن گھر چلا آیا۔
جیسے تیسے کر کے دن گزر گیا اور رات ہو گئی اور یہ ان دونوں دوستوں کی زندگی کی بھیانک ترین رات ہونے والی تھی،،،
روشن رات کو سونے کی تیاری کر رہا تھا کہ اسے ماں نے آ کر اطلاع دی،
بیٹا گیٹ پر کوئی آیا ہوا ہے اور تمہیں بلا رہا ہے،
اوکے اماں میں دیکھتا ہوں،
روشن یہ بول کر گیٹ پر گیا،گیٹ کھولا،
باہر ایک بندہ کھڑا تھا،بندہ بولا،
تیرے دوست نے اپنی نسیں کاٹ لی ہیں اور اس کی حالت بہت خراب ہے،
کیا،؟ روشن چیخ کر بولا،
کدھر ہے وہ؟
مجھے لے چلو ادھر،
وہ بندہ اسے لیکر ہو لیا،اس کا رخ سیدھا کھیتوں کی طرف تھا،
روشن بولا،،یہ کدھر لیکر جا رہے ہو؟
زمان کدھر ہے،؟
وہ شخص بولا،وہ سامنے کھیتوں میں،
روشن اس کے پیچھے چلنے لگا،
وہ شخص بولا،وہ سامنے پڑی ہے لاش،
روشن نے سامنے دیکھا تو زمان کی لاش پڑی تھی جس کا گلا کٹا ہوا تھا،ہاتھ کی نسیں کٹی پڑی تھیں اور سر سے خون بہ رہا تھا،
روشن یہ دیکھ کر چیخ پڑا،
نہیں،یہ تو نے کیا کر لیا خود کے ساتھ،اور رونے لگ گیا،
اس نے نہیں بلکہ میں نے کیا ہے اس کے ساتھ،
پیچھے سے آواز آئی،
روشن نے پیچھے دیکھا تو وہی جن زادی کھڑی تھی،یہ دیکھ کر روشن کا دل دہل گیا،
اچانک روشن کو سب یاد آ گیا،یہ تو وہی جگہ تھی جہاں انہوں نے جن زادی کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی تھی اور جہاں عمران کو جن زادی نے مار ڈالا تھا،
جن زادی روشن سے بولی،
یاد کرو یہ وہی جگہ ہے،کچھ آیا یاد؟
تم لوگوں نے میرے بال پکڑے تھے میں نے تیرے دوست کا سر توڑ دیا،
تیرے دوست نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا میں نے اس کی نسیں کاٹ دیں،
تیرے دوست عمران کا میں نے گلا گھونٹا تھا،
بچے کو میں نے گٹر میں ڈال کر مارا تھا اور بچے کی ماں کی موت بھی میرے ہاتھوں ہوئی،
اب تیری باری ہے،
یہ کہ کر جن زادی روشن کی طرف بڑھی،،،،
جن زادی اپنا کام کر چکی تھی،اس کا انتقام پورا ہو چکا تھا،،،
صبح کو جب روشن اور زمان کی موت کی خبریں ملیں تو زمان کی ماں جو پہلے سے صدمے تھیں اپنے گھر میں تیسری لاش نہ دیکھ سکیں اور کوچ کر گئیں،
اسطرح ایک گھر سے دو دنوں میں چار جنازے نکلے،
زمان کا باپ پاگل ہو چکا تھا،روشن کی ماں اپنے بیٹے کے غم میں دیوانی ہو گئی،وہ رات کو گھر سے نکلی اور پھر کبھی نہ آئی،،،
ادھر عمران کا گھر بھی اجڑ چکا تھا،
زمان ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اور واحد کفیل تھا جس سے ان کے گھر میں فاقے آنے لگے۔۔۔
جن زادی اپنا انتقام پورا کر چکی تھی،لیکن ایک وعدہ جو اس نے زمان سے کیا تھا کہ تو اپنی ماں اور باپ کا جنازہ خود دیکھے گا وہ پورا نہ کر سکی کیونکہ زمان بالکل دیوانہ ہو گیا تھا۔اور وہ یہ صدمہ دیکھنے سے پہلے ہی چلا گیا۔۔۔
اس طرح ایک جن زادی کی وجہ سے تین خاندان برباد ہو گئے،،،
غلطی جن زادی کی نہیں تھی بلکہ ان تینوں کی تھی جن کی وجہ سے سزا ان کے گھر والوں کو ملی۔۔۔
ختم شد
عائشہ تاج مرتضی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے