ایک خوفناک سفر مکمل اردو کہانی


یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب کراچی میں ٹارگٹ کلنگ عام سی بات تھی ہر روز حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے تھے۔ میں کراچی کے علاقے گلستان جوہر کا رہائشی ہوں کئی بے گناہ لوگوں کو صرف نسل پرستی کی بنیاد پر قتل ہوتے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔


میں میٹرک مکمل کر چکا تھا اور انٹر کی پڑھائی کے لئے داخلہ لینا تھا حالات کو دیکھتے ہوئے مجھے میرے ابو نے گاؤں نانا کے گھر بھیج دیا تاکہ وہاں جاکر سکون سے اپنی تعلیم جاری رکھ سکوں۔ کالج میں داخلہ ہونے کے بعد میرا کوئی اچھا دوست نا بن سکا تو خوفناک ناول پڑھنا شروع کر دئیے۔ ان کہانیوں نے میرے اندر جنات کو دیکھنے کا شوق پیدا کردیا۔ بہت سے قصے سنے مگر کبھی دیکھ نا سکا۔ ایک دن میرے کزن کا موبائل خراب ہو گیا تو اس نے کہا کہ شہر چلتے ہیں موبائل لیکر آتے ہیں میں تیار ہوا تو سب گھر والوں نے جانے سے منع کیا مگر ہم نہ مانے تو مجبوراَ اجازت دینا پڑی۔ عصر کو وقت ہم گھر سے نکلے شہر پہنچ کر موبائل خریدا اور واپس آنے تک عشاء کا وقت ہو چکا تھا۔

گاڑی نہ ملنے پر ہم نے پیدل سفر شروع کردیا راستے میں ایک شارٹ کٹ راستہ بھی تھا میں نے کزن سے کہا کہ اس راستے سے چلتے ہیں ورنہ لیٹ ہو جائیں گے تو اس نے منع کر دیا اور کہا کہ آگے جنگل ہے اور یہاں ناپاک جنات کا بسیرا ہے بہت سے افراد یہاں سے مردہ حالت میں ملے ہیں مگر میں نہ مانا اور کہا کہ میں بھی جنات دیکھنا چاہتا ہوں آؤ آج انکے مہمان بنتے ہیں بڑی مشکل سے اسکو منایا جب ہم راستے پر چلنا شروع ہوئے اور تھوڑا سا آگے چلنے کے بعد جنگل شروع ہو گیا۔ جنگل میں داخل ہوتے ہی مجھے خوف آنے لگا مگر میں نے کزن پر ظاہر نہ کیا اور بات چیت کرتا رہا کہ اچانک ایک چیخ کی آواز سنائی دی جس پر ہم دونوں ڈر کر تھوڑا دور بھاگے اور ایک ٹیلے کی آڑ میں چھپ گئے تاکہ اگر کوئی ہو تو ہمیں دیکھ نا سکے۔

اچانک ہم نے دیکھا کہ ہمارے سامنے والے درخت سے کوئی چیز نیچے گری ہے ذرا سا غور کرنے پر ہم نے دیکا کہ وہ ایک پیارا سا بکری کا بچہ ہے ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ یہ یہاں کہاں سے آگیا کہ اچانک وہ گائے میں تبدیل ہوگیا۔
--------------------------
مزید پڑھیں: سہاگ کی پہلی رات 
-------------------------- 
اب مجھے بھی یقین ہو گیا کہ میرا کزن سچ کہہ رہا تھا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا وہ گائے آہستہ آہستہ ہماری جانب بڑھنے لگی تو ہم نے وہاں سے بھاگنا شروع کردیا کچھ دور بھاگنے کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ گائے کہیں نظر نہ آئی مگر ڈر کی وجہ سے ہم نے بھاگتے رہنا مناسب سمجھا لیکن اب ایک اور مصیبت سامنے کھڑی تھی کہ ہم گھر کا رستہ بھول چکے تھے بہت کوشش کرنے کےبعد بھی جب راستہ نہ ملا تو کزن نے مجھے برا بھلا کہنا شروع کردیا آخر جب وہ اپنا غصہ ٹھنڈا کر چکا تو اسنے مجھے گھر فون کرنے کا کہا مگر باوجود کوشش کے موبائل میں سگنلز نا آئے (گاؤں دیہات میں اکثر جگہوں پر سگنلز نہیں ہوتے)۔

ہم نے ایک بار پھر چلنا شروع کردیا آگے پانی دکھا تو سوچا کے پانی پی لیں مگر دونوں کی ہمت نہ ہوئی کہ آگے بڑھ سکیں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ہم نے آہستہ آہستہ آگے چلنا شروع کیا تو ایسا محسوس ہوا کہ ہمارے ساتھ کوئی چل رہا ہے تو ہمارے خوف میں مزید اضافہ ہوگیا اب مجھے جو قرآن مجید کی جو آیات یاد تھیں میں باوجود کوشش کہ انکو بھی پڑھ نہ سکا جب کہ میرا کزن خوف سے کانپتا ہوا مجھ سے لپٹ گیابڑی مشکل سے میں نے اسکو ہمت دی کہ یہ ہمارا وہم ہے لیکن دل میرا بھی نہیں مان رہا تھا آخر جا کر بڑی مشکل سے ہم نے پانی پیا اور وہاں سے چلنا شروع کردیا

آواز بدستور ہمارے ساتھ ہی تھی پھر اچانک کسی نے ہم دونوں کا نام لیکر آواز دی اور بلانا شروع کردیا کہ میری طرف آؤ ڈر تو لگ رہا تھا مگر انسانی فطرت کے مطابق تجسس جاگا اور میں نے کزن سے کہا کہ آؤ چل کر دیکھیں شاید کوئی مدد ہی مل جائے مگر اس نے جانے سے انکار کر دیا میں نے اس سے کہا کہ آپ رکو میں دیکھ کر آتا ہوں مگر وہ اس پر بھی نہ مانا ہم دونوں میں یہ بحث چل ہی رہی تھی کہ کسی لڑکی کی رونے کی آواز آنا شروع ہو گئی ایسا لگا کہ جیسے رونے والی لڑکی کو کوئی بہت اذیت دے رہا ہو میں نے وہاں سے آواز کی سمت دوڑ لگا دی پیچھے مڑ کر دیکھا تو کزن وہیں کھڑا چیخ کر مجھے بلا رہا تھا میں بھاگتا ہوا اس جگہ پہنچا تو دیکھا کہ وہاں ایک لڑکی بیٹھی ہوئی ہے اور روئے جا رہی ہے میں نے اسے مخاطب کیا کہ شاید یہ بھی ہماری طرح اس جنگل میں پھنس چکی ہے مگر کئی بار مخاطب کرنے پر بھی اس نے کوئی جواب نہ دیا تو میں اس کے قریب گیا مگر اسے ہاتھ لگانے سے ڈرتا رہا آخر ہمت کر کہ میں نے ایک لکڑی اٹھائی اور اس لڑکی کو آہستہ سے ہلایا تو اس کے سر اٹھانے پر ایسا لگا کہ کلیجہ حلق میں آگیا ہو اس کے گال گوشت سے خالی تھے آنکھیں لال سرخ سامنے کے دو دانت باہر کو نکلے ہوئے رنگت کالی سیاح تھی۔


جسم کے اندرونی اعضاء باہر کو نکلے ہوئے تھے اور وہ ایک شیطانی مسکراہٹ سے ہنس رہی تھی۔ مجھے اپنی موت یقینی نظر آئی مگر نہ جانے کیوں ایسا لگا کہ کوئی ہو جو کہہ رہا ہو کہ بھاگو تم بھاگ سکتے ہو میرے قدم خود با خود اٹھنے لگے اور میں بھاگتا ہوا بس اتنی آواز سن سکا کہ تم کب تک بھاگو گے تم بھاگ نہیں سکتے میں بھاگتا ہوا اس جگہ آیا جہاں کزن کو چھوڑ کر گیا تھا مگر اسکو وہاں نہ پا کر مزید ہمت نہ رہی کہ اب کیا کروں اگر اسکو کچھ ہو گیا تو میں گھر والوں کو کیا جواب دوں گا اس سے بہتر ہے کہ میں یہیں مر جاؤں میں اپنی موت کے لئے خود کو تیار کرنے لگا اور آخری امید کے طور پر قرآن کی آیات کو یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا تاکہ اگر مجھے یاد آجائیں تو کزن کو ڈھونڈنے کی کوشش کر سکوں مگر بہت کوشش کے بعد بھی مجھے یاد نہ آئیں تو میں وہیں بیٹھ کریہ سوچ کر رونے لگا کہ اگر میرا کزن زندہ نہ ہوا یا وہ گھر نہ پہنچا تو اس سب کا ذمہ دار میں ہوں گا اور اپنی مامی کو کیا جواب دوں گا ۔۔۔


--------------------------
مزید پڑھیں: بھوت بنگلہ ایک لڑکی کی کہانی
-------------------------- 
ابھی میں بیٹھا یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کروں کہ اچانک مجھے اسی لڑکی کی آواز دوبارہ سنائی دی میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تووہ لڑکی میری طرف ہی آرہی تھی اس کی چال میں لنگڑاہٹ تھی مگر پھر بھی اسے دیکھ کر ایک دہشت پیدا ہو گئی ایک پل کے لئے سوچا کہ گھر جا کر روز روز مرنے سے بہتر ہے کہ ایک ہی بار مر جاؤں اور خود کو اس کے حوالے کر دیا اس نے مجھے پکڑا تو ایسا لگا جیسے جسم میں جان ہی نہ ہو اس نے اپنے دانت منہ سے نکالے تو ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے میرے کان میں کہا ہو کہ نا امیدی کفر ہے اور جان جو اللہ کی امانت ہے خودکشی کرنا امانت میں خیانت یہ بات دل اور دماغ میں ایسے محسوس ہوئی کہ جیسے اندھیرے میں جگنو چمکا ہو اور میری زبان پر ایک دم اللہ کا نام آگیا۔ اس پاک نام کو لینے کی دیر تھی کہ اس لڑکی نے مجھے دہکا دے کر پھینک دیا اور چیخ مارتی ہوئی دور جا کر کھڑی ہو گئی اور غیض و غضب سے مجھے دیکھنے لگی پھر ایک دم غائب ہو گئی۔ اب مجھے تمام آیات یاد آتی جا رہی تھیں کوئی تھا جو شاید میری مدد کر رہا تھا میں کچھ دیر بیٹھ کر اپنے سانس بحال کرتا رہا اس دوران کوئی مسلسل میرے پاس رہا۔ اب مجھے کزن کوبھی ڈھونڈنا تھا میں واپس اسی جگہ گیا جہاں اسکو چھوڑ کر گیا تھا اور واپسی پر وہ مجھے وہاں نہیں ملا تھا


اب میں آیت الکرسی پڑھتا ہوا واپس اسی جگہ پہنچا تو ایک سمت خود ہی قدم چلنے لگے آگے جا کر دیکھا تو ایک چھوٹی سی کھائی میں ہارون(میرا کزن) پڑا ہوا تھا اور اس کا جسم زخموں سے بھرا ہوا تھا ایک چیز جس نے مجھے اپنی سمت متوجہ کیا وہ ایک تعویز تھا جب اسے اٹھا کر دیکھا تو اس پر میرا نام لکھا ہوا تھا میں نے فورا ہارون کے گلے میں دیکھا تو اس کے گلے میں بھی تعویز موجود تھا اب مجھے مکمل یقین ہو گیا کہ کوئی ہماری مدد کر رہا ہے اور میں نے وہ تعویز پہن لیا۔ کافی دیر کوشش کرنے کے بعد ہارون کو ہوش آگیا اس نے جیسے ہی مجھے دیکھا تو مجھ سے لپٹ گیا اسکو دلاسہ دینے پر اس نے مجھے بتایا کہ جہاں میں اسے چھوڑ کر گیا تھا وہا ں سے اسکوایک عورت گھسیٹتی ہوئی لے کر جا رہی تھی جسکا قد بہت لمبا تھااورلمبے بال زمین تک آرہے تھے اور وہ نہایت خوفناک شکل کی تھی اس کھڈے میں لاکر اس نے مجھے پھینکا تھا اور اپنے لمبے ناخنوں سے مجھے مار رہی تھی کہ اچانک ایک بزرگ کو دیکھا جنہوں نے اس چڑیل کو بالوں سے پکڑ لیا اور مجھ پر سے کھینچ کر پیچھے پھینک دیا وہ چڑیل ان بزرگ کو دیکھ کر انکی طرف لپکی مگر انھیں نقصان نہ پہنچا پائی اور اسکے بعد میں بے ہوش ہو گیا۔ کزن کی بات سن کر مجھ میں مزید ہمت آگئی کہ ہم اکیلے نہیں ہیں۔ میں نے ہارون کو سہارا دے کر اٹھایا اور اسکو پانی پلانے کے لئے لے گیا وہاں جاکر اسکے زخم دھوئے اسکو پانی پلایا تو دیکھا کہ سامنے سے ایک نوجوان لڑکی چلی آرہی ہے میں حیران ہوا کہ یہ کون ہے اور اتنی رات کو اس جنگل میں کیا کر رہی ہے۔


وہ ہمارے قریب آئی اور دیکھ کر رک گئی میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے مگر جواب میں وہ اچانک چڑیل کی شکل اختیار کر گئی اور ہارون کی حالت مزید خراب ہو گئی۔ اچانک اس چڑیل کی آواز آئی اگر وہ بوڑھا نہ آجاتا تو تو ابھی تک میری غذا بن چکا ہوتا تب مجھے سمجھ آئی کہ یہ وہی چڑیل ہے جس سے ہارون کو کسی بزرگ نے بچایا تھا۔
وہ ہمارے قریب آرہی تھی اور ایک بھیانک آواز میں ہنستی ہوئی کہہ رہی تھی کہ اب تم دونوں میرا کھانا بنو گے اب وہ بڈھا تمھیں بچا نہیں پائے گا ہمیں ہاتھ لگاتے ہی اسے ایک زوردار جھٹکا لگا اور وہ چیختی ہوئی پیچھے ہٹی اور کچھ پڑھنے لگی دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایک طوفان آگیا جب وہ طوفان تھما تو وہاں شیطانی مخلوق کا ایک ہجوم نظر آیا نہایت بھیانک چہروں والی مخلوق ہمیں اپنے خون کی پیاسی نظر آئی ان میں سے آدمی جس ک جسم بالکل ایک دن کے بچے جتنا تھا جبکہ اسکا سر ایسا تھا کہ وہ ایک پوری گائے کو آرام سے ایک نوالے میں کھا جائے۔ وہ ہمارے قریب آیا تو میرے کانوں میں پھر ایک آواز آئی آیت الکرسی پڑھ کر اپنے گرد حصار کھینچو میں نے ایسا ہی کیا اپنے اور ہارون کے گرد حصار کھینچا اتنے میں وہ بچہ نما شیطان ہمارے قریب آگیا وہ جیسے ہی حصار سے ٹکرایا تو دور جا گرا اور تڑپنے لگا اسے دیکھ کر دیگر مخلوق بھی ہمارے قریب نہ آئی وہ بچہ نما شیطان کچھ دیر تڑپنے کے بعد اٹھا تو ہم نے دیکھا کہ اسکا چہرہ جل کر مزید خوفناک ہو چکا تھا اس حالت میں بھی وہ غصہ کی شدت سے اپنے دیگ جیسے موٹے سر کو مار رہا تھا اور بین کر رہا تھا جبکہ ہمیں اسکی یہ حرکتیں دیکھ کر ہنسی آرہی تھی۔ ان میں سے ایک عورت آگے بڑھی جس کے بال بکھرے ہوئے تھے ناک غائب تھی ایک آنکھ بڑی اور ایک چھوٹی تھی زبان سانپ کی زبان کی طرح دو شاخہ تھی دانت بڑے بڑے اور ہاتھوں کی انگلیاں چاقو کی طرح تیز اور نوکدار تھیں ان تمام سے کہنے لگی آج تک کوئی اتنی دیر تک ہم سے بچ نہیں سکا مگر یہ دونوں ابھی تک نہ صرف زندہ ہیں بلکہ ہماری حدود سے نکلنے بھی والے ہیں ضرور ایسا کوئی پے جو انکو بچا رہا ہے ہمیں اسکو بھی ڈھونڈنا ہوگا۔


کالی تو بتا وہ شخص کیسا دکھتا تھا جس نے تجھ سے تیرا شکار چھینا تھا وہ چڑیل سامنے آئی جس نے ہارون کو زخمی کیا تھا کہنے لگی کہ وہ ایک بوڑھاشخص تھا سر پر کپڑا باندھا ہوا تھا اس جے مجھ سے شکا ر چھینا اگر میں بھاگ نہ جاتی تو وہ مجھے ختم کر ڈالتا وہ میرے پیچھے گھوڑا دوڑاتا ہوا بھی آیا مگر میں اس سے بچ کر بھاگ نکلی۔ پہر اسی بوڑھی چڑیل نے ایک اور چڑیل کو اشارہ کیا یہ وہی چڑیل تھی جس نے میرا پیچھا کیا تھا مگر اللہ کا نام سننے پر بھاگ گئی تھی وہ آگے آئی اور مجھے دیکھ کر کہنے لگی کہ اس پر میں نے جنگل میں داخل ہوتے ہی منتر پڑھ دیا تھا جس سے یہ آسانی سے میرے قابو میں آگیا تھا مگر اچانک اسے سب کیسے یاد آگیا کہ یہ مجھ سے بچ گیا اور اب یہاں کھڑا ہے ان دونوں چڑیلوں کی بات ختم ہونے پر بوڑھی چڑیل نے کہا کہ اب آپ سب جان چکے ہیں کہ یہ کیسے بچ رہے ہیں ہمیں انکو بچانے والی طاقت کو پہلے ختم کرنا ہوگا انکو ہم بعد میں بھی اپنی خوراک بنا سکتے ہیں۔ بوڑھی چڑیل نے ہمیں دیکھا اور کہا کہ مرتے دم تک ہم تمھارے پیچھے لگے رہیں گے جب تک کہ تم ختم نہ ہو جاؤ۔ ہم نے محسوس کیا کہ ہوا میں ایک بہت ہی فرحت بخش اور لظیف خوشبو آرہی ہے اور یہ بات ان جنات نے بھی محسوس کی اچانک ہم نے گھوڑے پر سوار ایک بزرگ کو اپنی جانب آتے دیکھا اس بزرگ کو دیکھ کر کالی چڑیل چیخنے لگی کے یہی ہے ہو جس نے انھیں بچایا وہ بزرگ ہمارے قریب آئے اور آرام سے گھوڑے سے اترتے ہوئے ہمارے قریب آگئے انہوں نے ہم سے کہا کہ آپ دونوں نے اس جنگل میں آکر غلطی کی اگر اللہ کو منظور نہ ہوتا تو آپ دونوں کب کا اس شریر مخلوق کا شکار ہو چکے ہوتے۔ ہم نے کہا کے آپ کون ہیں تو انہوں نے بات کرنے سے منع کردیا اور کچھ پڑھنے لگے۔


پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اچانک انہوں نے آنکھیں کھولیں تو انکی آنکھیں لال سرخ ہو رہی تھیں اور جس جس جن اور چڑیل پر انکی نظر پڑ رہی تھی اسکو آگ لگتی جا رہی تھی ماحول بھیانک چیخوں سے گونج رہا تھا ہمیں ایسا لگا جیسے یہاں جنگ چل رہی ہو۔ اچانک ہی ساری شیطانی مخلوق وہاں سے غائب ہو گئی صرف بوڑھی چڑیل وہاں رہ گئی اس نے بزرگ سے پوچھا تم کون ہو اور کیوں اپنی جان کے دشمن بن رہے ہو یہ دونوں لڑکے ہمارے حوالے کردو ورنہ تم بھی نہ بچو گے جواب میں بزرگ نے کہا کہ میں ایک بندہ خدا ہوں بہت سے لوگوں کا تم نے شکار کیا انکی جان لی اسی لیے مجھے یہاں بھیجا گیا کہ تمھیں سزا دی جائے اس سے پہلے کہ وہ بزرگ کچھ کرتے وہ چڑیل غائب ہو گئی۔ اب بزرگ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا کر کہا کہ اب وہ شریر مخلوق جا چکی ہے آپ دونوں آکھیں بند کریں ہم نے آنکھیں بند کی تو ایسا محسوس ہوا جیسے ہم بہت تیزی سے سفر کر رہے ہوں پھر اچانک آنکھیں کھولنے کا کہا گیا تو ہم نے آنکھیں کھول دیں اور دیکھا کہ ہم جنگل کی شروعات پر ہی کھڑے تھے جہاں سے ہم نے سفر شروع کیا تھا ۔۔۔


بزرگ نے کہا کہ میرے ساتھ آؤ اب وہ آپ دونوں کے دشمن بن چکے ہیں اب یہاں غلطی سے بھی مت آنا اور نہ ہی اپنے گلے سے تعویز اتارنا ورنہ نقصان اٹھاؤ گے ہارون نے کوشش کر کے بزرگ سے ایک سوال پوچھا جو میرے ذہن میں بھی موجود تھا بابا آپ کون ہیں آپ کو یہاں پہلے کبھی نہیں دیکھا تو وہ مسکرائے اور کہا کہ مجھے زیادہ بتانے کی اجازت نہی البتہ آپکو اتنا بتا دیتا ہوں کہ مجھے اس شریر مخلوق کو یہاں سے بھگانے یا پھر ختم کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے کیوں کہ اب انکا ظلم بڑھ چکا ہے۔ ہم نے کہا آپ ہمارے ساتھ ہمارے گھر چلیں تو انہوں نے منع کر دیا اور کہا کہ مجھے بہت کام کرنا ہے اب آپ جائیں تو میں نے بزرگ سے گزارش کی کہ سرف یہ بتا دیں آپ ہم تک کیسے پہنچے اور وہ کون تھا جو ہماری رہنمائی جنگل میں کر رہا تھا اور ہماری مدد کر رہا تھا اس پر بزرگ نے کہا کہ میں ایک عمل کے تحت ان شریر جنات کو اس جنگل میں قید کر رہا تھا تاکہ یہ یہاں سے بھاگ نہ سکیں اور اسی لئے میں نے اپنا موکل بھیجا تھا کہ وہ جا کر حالات کا جائزہ لے آئے میں ابھی عمل شروع کرنے بیٹھا ہی تھا کہ موکل نے آکر بتایا کہ اس جنگل میں دو انسان بھی موجود ہیں جن کی جان خطرے میں ہے اس لئے میں جنگل میں آیا اور اسی دوران آپ کے کزن پر حملہ ہوا تھا میں نے اسکی جان بچائی جب کہ عماد(موکل) کو آپکی طرف بھیج دیا۔


پھر انہوں نے کہا کہ آپ یہاں کیسے آگئے تو ہم نے انکو پوری بات بتائی جس پر وہ ہنس پڑے اور کہا کہ آپ انکے مہمان بننے نہیں بلکہ انکا کھانا بننے چلے گئے تھے۔ میں نے ان سے سوال پوچھا کہ آپ کس کے کہنے پر یہاں آئے ہیں تو وہ سنجیدہ ہوگئے اور کہا کہ آپ دونوں کو ڈھونڈتے ہوئے کچھ لوگ اس طرف آرہے ہیں اب آپ اٹھ کر یہاں سے جائیں بہت اصرار کرنے پر بھی انہوں نے ہمیں اپنے پاس رکنے نہ دیا ہم ان سے ملے اور میں اٹھا ہارون کو سہارا دیتا ہوا روڈپر چلنے لگا تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ ماموں اور دیگر لوگوں کو آتے دیکھا ماموں نے ہم دونوں کو دیکھا تو گلے لگا کر کہنے لگے کہ ہم تو ڈر ہی گئے تھے کے کوئی حادثہ تو نہیں ہوگیا یا تم لوگ جنگل کی طرف تو نہیں نکل گئے پھر پوچھا کہ ہارون تمہیں کیا ہوا جس پر ہارون نے ماموں کو سب بتا دیا ماموں نے ڈانٹا اور کہا کہ ان بزرگ کے پاس لے چلو جنہوں نے تمھاری جان بچائی جب ہم اس جگہ پہنچے جہاں بابا کو چھوڑا تھا تو اب وہاں کوئی نہیں تھا ہم حیران ہو گئے خیر ہمیں گھر لایا گیا خوب سننے کو ملیں اور آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو گیا۔ ایک دن بابا مجھے اچانک ملے اور انھوں نے مجھ سے کہا کہ یہاں کے تمام شریر جنات کو یا تو ختم کردیا ہے یا پھر وہ قید کر لئے گئے ہیں اب انکی سردارنی(بوڑھی چڑیل) رہ گئی ہے وہ فرار ہو چکی ہے جلد ہی اسکو بھی ختم کر دیا جائے گا۔ بس احتیاط رہے کہ جنگل میں جو جنات قید ہیں وہ اس صورت میں آزاد ہو جائیں گے جب کوئی انسان وہاں جاکر کسی بھی چیز کو چھوئے گا۔ اس لئے جب تک انکی سردارنی نہ پکڑی جائے تب تک کوئی غلطی سے بھی جنگل کی طرف نہ جائے یہ بات آپ مسجد کے امام کو بتا دیں تاکہ وہ لوگوں کو بتا سکیں۔ میں نے ایسا ہی کیا اور لوگوں نے اس پر عمل بھی کیا۔


ایک مہینہ ٹھیک سے گزرا پھر آہستہ آہستہ ایک نئی کہانی کی شروعات ہو گئی۔ آس پاس کے گاؤں دیہاتوں میں روز رات کو ایک عورت دکھنے لگی اور لوگوں کے گھروں سے جانور غائب ہونے لگے جب صبح انکو تلاش کیا جاتا تو انکی لاشیں جنگل کے پاس ملتیں انکو جگہ جگہ سے کھایا ہوا ہوتا جسم کے ٹکڑے جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہوتے۔ آخر گاؤں سے کچھ دور ایک شہر سرصوبہ شاہ میں ایک شاہ صاحب سے رابطہ کیا گیا انہون نے حصاب کر کے بتایا کہ جنگل کے جنات آزاد نہیں ہوئے بلکہ انکی سردارنی دیگر جنات کے ساتھ مل کر انھیں آزاد کروانا چاہتی ہے اور یہ تبھی ہوگا جب کوئی انسان اپنی مرضی سے اس جنگل میں داخل ہوگا آپ سب احتیاط کریں اور اپنے جانوروں کو اندر باندھیں اور صحن میں سونے سے گریز کریں۔ 


سب نےہی انکی باتوں پر عمل کیا مگر کچھ دنوں بعد تمام گاؤں میں اعلانات ہونے شروع ہو گئے معلوم کرنے پر پتا چلا کہ جنگل کے قریب ایک انسان کی لاش ملی ہے۔ جب ہم جنگل کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ لاش کے اوپر کپڑا ڈالا گیا تھا چونکہ ان حادثات سے ہمارابھی تعلق تھا تو لوگ ہمیں بھی برا بھلا کہنے لگے مگر میرے بڑے کزن زبیر کے بیچ میں آجانے سے سب کو خاموش ہونا پڑا۔ ہم آگے گئے تو دیکھا کہ مرنے والے شخص کی لاش کا بہت برا حال تھا جگہ جگہ سے اس کے جسم کو کھایا گیا تھا۔ ہر علاقے میں اعلان کروانے پر چند افراد ہمارے گاؤں اپنے اہک پیارے کو ڈھونڈتے ہوئے آئے اور جب ان کو وہ لاش دکھائی گئی تو وہ غم سے بے حال ہو گئے پھر ذرا سمبھلنے پر بتایا کہ مرنے والا انکا بھائی ہے اور کل رات گھر سے لڑ کر باہر نکلا تھا جس کے بعد واپس نہیں آیا آج اعلان سننے پر یہاں آئے تو ہمارا بھائی ہمیں اس حال میں ملا۔


اب سب گاؤں والے دوبارہ شاہ صاحب کے پاس بھاگے تو انہوں نے حساب کر کے بتایا کہ تمام قیدی جنات آزاد ہو چکے ہیں اور بہت زیادہ غصے میں ہیں آپ سب اپنے اپنے گھروں پر آیت الکرسی کا حصار کر کے سوئیں تاکہ وہ شریر جنات کوئی نقصان نہ کر سکیں اور عشاء کے بعد کوئی اپنے گھر سے نہ نکلے۔ دو تین دن یوں ہی گزر گئے ایک رات میں عشاء کی نماز ادا کرکے مسجد سے نکل ہی رہا تھا کہ اچانک بہت تیز ہوا چلنے لگ گئی اور کچھ ہی دیر میں بارش شروع ہو گئی۔ میرا گھرمسجد سے دوری پر تھا میں نے مسجد بند کرکے گھر کی جانب چلنا شروع کیا تو مجھے محسوس ہوا کے میرے ساتھ کوئی چل رہا ہے بارش کی وجہ سے میں نے اپنا وہم سمجھا مگر احتیاط کے طور پر آیت الکرسی کا ورد شروع کردیا۔ بارش میں بھیگ تو رہا تھا ساتھ ہی وضو کی ہھی نیت کر لی۔ کچھ دور گیا تھا کہ اچانک چیخ کی آواز سنائی دی میں ایک دم ڈر گیا پھر آہستہ آہستہ پیچھے مڑ کر دیکھا تو بوڑھی چڑیل اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ کھڑی ہوئی غصے سے مجھے دیکھ رہی تھی جبکہ ایک چڑیل جل رہی تھی۔ بوڑھی چڑیل نے ایک جن کی طرف اشارہ کیا تو وہ میری جانب تیزی سے آیا مگر وہ بھی مجھے چھوتے ہی جل گیا۔ اچانک مجھے گھوڑے کے چلنے کی آواز آئی جو کافی دور سے آرہی تھی وہ آواز سنتے ہی بوڑگی چڑیل نے اپنے ساتھیوں سے بھاگنے کو کہا اور جاتے جاتے میری جانب دیکھ کر کہا کہ ہر بار تو ہم سے بچ نہیں پائے گا اگر تو خود کو ہمارے حوالے کر دے تو باقی سب بچ جائیں گے میں نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ گائب ہوگئی۔


میں نے گھر کی جانب دوبارہ چلنا شروع کردیا تو آہستہ آہستہ گھوڑے کی آواز بھی غائب ہو گئی۔ میں نے گھر جاکر پوری بات ہارون کو بتائی تو اس نے مجھے واپس کراچی جانے کا مشورہ دیا مگر میں نہ مانا۔ رات کو جب سویا تو میرے کمرے کے باہر سے رونے کی آواز آنا شروع ہو گئی ایسا لگا جیسے کسی عورت کو مارا جا رہا ہو پھر وہ آواز بھیانک آوازوں میں تبدیل ہوگئی پھر کچھ ہی دیر بعد گھوڑے کی آواز سنائی دی تو وہ رونے کی آواز بند ہو گئی۔ پھر تو روز کا معمول بن گیا کبھی بلیوں کے لڑنے کی آوازیں آتیں کبھی عورت کے رونے کی کبھی کوئی مدد کے لئے پکارتا غرض کے ہر طرح سے لوگوں کو تنگ کر کے گھروں سے باہر نکالنے کی کوشش کی جاتی پھر اچانک ایک واقعہ رونما ہوا پاس کے گاؤں میں ایک لڑکی شہر سے گئی اسکی گاؤں میں شادی تھی تمام گاؤں والوں نے اسے سمجھایا کے رات کو کچھ بھی ہو جائے دروازہ مت کھولنا ایک رات تو وہ گزار سکی مگر دوسری رات وہ شریر مخلوق کا شکار ہو گئی۔ صبح جب میں اٹھا تو ماموں کو اداس دیکھا ماموں سے وجہ پوچھی تو ماموں نے بتایا کہ جس لڑکی کی شادی تھی وہ اس شریر مخلوق کا شکار ہو چکی ہے۔ جب ہم اس لڑکی کے گھر پہنچے تو صحن میں ہی اس لڑکی کی لاش رکھی ہوئی تھی اس پر چادر ڈالی گئی تھی۔ چادر کے اوپر سے ہی معلوم ہو رہا تھا کے لاش کا کوئی حصہ بھی صحیح نہیں صرف ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ ہے جس پر چادر ڈالی گئی ہے۔ جنازے کے بعد ہم لڑکی کے دادا کے پاس گئے جو ماموں کے پہچان والے تھے اور وہیں کے رہائشی تھے۔


ان سے حادثے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ رات کو اسے اپنے منگیتر کی آواز آئی جس پر وہ اپنی چھوٹی بہن کو لیکر صحن میں چلی گئی اور دروازے کے باہر سے منگیتر کی آواز آنے پر کے دروازہ کھولو مجھے اندر آنے دو کب سے انتظار کر رہا ہوں اس لڑکی نے سب کچھ بھول کر دروازہ کھول دیا اور باہر کسی کو نہ دیکھ کر دروازے سے باہر نکل گئی چھوٹی بہن نے جاکر سب گھر والوں کو بتایا جب تک گھر والے پہنچتے اس لڑکی کو کسی نے پکڑ کر گھسیٹ لیا جبکہ لڑکی کے خاندان کو جو کہ شہر سے آیا تھا ان تمام کو ہم نے پکڑ کر روک لیا کے اگر تم لوگ باہر جاؤ گے تو تم سب بھی مارے جاؤ گے۔ ہمیں بہت افسوس ہوا مگر اس لڑکی کے دادا بھی بالکل ٹھیک کہہ رہے تھے کیوں کے یہاں تو شریر جنات کا پورا قبیلہ آباد تھا۔


آہستہ آہستہ لوگ گاؤں کو چھوڑ کر شہر جانے لگ گئے اس مصیبت کا ہمیں ابھی تک کوئی حل نہیں ملا تھا بہت سے عاملوں سے رابطہ کیا مگر کوئی اس کام میں ہاتھ ڈالنے کو تیار نہ تھا جس سے رابطہ کرتے وہ صرف اتنا بتا دیتا کے یہ جنات نہایت خطرناک ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ مزید طاقتور ہوتے جارہے ہیں مگر کوئی بھی اس کا حل نہ بتا سکتا۔ ماموں بھی سوچ رہے تھے کے اب یہاں رہنا مشکل ہوتا جارہا ہے جان بچا کر راولپنڈی چلے جانا چاہیےجب کے مجھے اپنے کالج کی فکر بھی تھی مگر کچھ بول نہیں سکتا تھا کیوں کہ اس سارے مسئلے کی کہیں نا کہیں وجہ میں بھی تھا نہ میں جنگل میں جاتا اور نہ وہ میرے دشمن بنتے خیر کیا کر سکتے تھے جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ رات کو میں اپنے کمرے میں جاکر سو گیا تھوڑی دیر بعد مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کمرے میں کوئی موجود ہو میں ایک دم اٹھا تو دیکھا کے میرے سامنے وہی بزرگ کرسی پر بیٹھے مسکرا رہے تھے میں نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے جواب دیا پھر میں نے انھیں تمام حالات کے بارے میں آگاہ کرنا چاہا تو انہوں نے کہا کے انھیں تمام حالات معلوم ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کے کب تک ان جنات کو ختم کر دیا جائے گا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ایک چِلا کر رہے ہیں جس کے بعد اس شیطان قبیلے کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا میں نے ان سے مزید بات کرنا چاہی تو انہوں نے کہا جیسا میں کہوں غور سے سنو آپ یہاں سے نہیں جاؤ گے کیوں کہ وہ شریر مخلوق آپ کی دشمن ہے اگر آپ چلے گئے تو پھر وہ بھی آپ کے پیچھے یہاں سےچلے جائیں گےاور دوسرے علاقوں میں جاکر تباہی پھیلائیں گے میں نے کہا ماموں کو کیسے مناؤں گا تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کے وہ خود ہی مان جائیں گے اور مجھے ایک پتھر دیا کے اگر ضرورت پڑے تو اس پتھر کو زمین پر مارنا میں آجاؤں گا اگر نہ آسکا تو مدد پہنچ جائے گی یہ کہہ کر مجھے حکم دیا کے اب آپ سو جاؤ اللہ حافظ اتنا کہہ کر انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھا تو مجھے پھر کوئی ہوش نہ رہا۔


صبح جب اٹھا اور ناشتہ کرکے ماموں کے پاس گیا کے دیکھوں ماموں شہر جانے کے بارے میں کیا کہتے ہیں بات کرنے پر ماموں نے کہا کے ہم نہیں جا رہے کیونکہ تم نے کالج بھی جانا ہوتا ہے اور گاؤں کے لوگوں کو بھی اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ کچھ دن بالکل ہی خاموشی ہو گئی تو سب گاؤں کے لوگ خوش ہو گئے کہ شاید وہ جنات یہاں سے جا چکے ہیں اور مزید کچھ دن گزر جانے پر بھی کوئی واقعہ رونما نہ ہوا اور نہ ہی کوئی آواز وغیرہ آئی تو میں بھی یہی سمجھنے لگا کے شاید بزرگ نے ان کو ختم کر دیا ہے۔ میں نے حقیقت جاننے کے لئے وہ پتھر زمین پر رگڑا مگر کچھ نہ ہوا میں بڑٓا پریشان ہوا بار بار آزمانے پر بھی کچھ نہ ہوا تو میں یہ سمجھا کہ شاہد وہ بزرگ مجھ کو بیوقوف بنا کر گئے ہیں۔


میں نے وہ پتھر الماری میں رکھ دیا۔ شام کے وقت ہارون اور میں میچ کھیلنے گئے اور شارٹ پڑنے پر میں گیند اٹھانے گیا تو دیکھا کہ وہاں ایک چھوٹا بچہ بیٹھا مجھے اپنی طرف بلا رہاہے میں نے اس بچے کو شریر جنات میں سے کوئی ایک سمجھا اور آیت الکرسی پڑھ کر اپنے اوپر پھونک لی اور اس بچے کے پاس چلا گیا اس بچے نے مجھے سلام کیا تو مجھے حیرت کا ایک جھٹکا لگاکہ میں اسے جن سمجھ رہا تھا لیکن یہ مسلمان ہے پر کس کا بیٹا ہے اسے پہلے گاؤں میں نہیں دیکھا ابی میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ وہ بچہ مسکرایا اور کہنے لگاذیادہ مت سوچو کے میں کون ہوں آپ نے بابا کو بلایا تھا تو میں آپکے پاس آیا ہوں آپکو کیا کام ہے تب مجھے سمجھ آئی کے اس بچے کو بزرگ نے بھیجا ہے میں نے گاؤں کے سارے حالات اس کو بتائے اور اس سے پوچھا کہ کیاسب ٹھیک ہو گیا ہے یا پھر مصیبت موجود ہے تو اس بچے نے مجھے کہا کے آپ تھوڑی دیر رکو میں آتا ہوں اور وہ ایک جھاڑی کے پیچھے چلا گیا میں نے بھی یہ سوچ کر اسکا پیچھا شروع کیا کے شاید بزرگ یہیں کہیں موجود ہوں تو ان سے خود بات کرلوں مگر جب میں جھاڑی کے پیچھے گیا تو وہ بچہ وہاں موجود نہیں تھا۔ میں گیند لیکر واپس چلا گیا اور ہم دوبارہ میچ کھیلنے لگ گئے تھوڑی دیر بعد گیند دوبارہ وہیں جا گری جہاں پہلے گری تھی میں لینے گیا تو بچہ وہاں موجود تھا اس نے مجھے کہا کہ بابا نے پیغام بھیجا ہے کے آپ سب محتاط رہنا کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔


ہم میچ کھیل کر گھر آئے اور کھانا وغیرہ کھا کر میں نے عشاء کی نماز کی تیاری کی نماز پڑھ کر گھر واپس آرہا تھا راستے میں مجھے وہی بزرگ مل گئے انہوں نے کہا کے چلہ مکمل ہو گیا ہے اب انکا خاتمہ کرنا باقی ہے آپ محتاط رہنا وہ آپ پر حملہ کرنے کی کوشش ضرور کریں گے۔ آپ نے اب انکو ختم کرنے میں میرا ساتھ دینا ہے اب جب وہ گاؤں پرحملہ کریں تو آپ نے فورا مجھے بلالینا ہے تاکہ اب انکو ختم کیا جاسکے کیونکہ انکی سردارنی چھپی ہوئی ہے اور وہ گاؤں پر حملہ کرنے کے وقت ہی اپنے قبیلے کے ساتھ ہوتی ہے۔ میں نے حامی بھر لی اور گھر چلا گیا ایک ہفتہ آرام سے گزرا حالات معمول پر آنے لگ گئے اور لوگوں نے تمام احتیاطیں بھلا دیں اچانک ایک رات گاؤں پر حملہ ہو گیا اور رات میں سوتے ہوئے 6 سے 7 افراد کو وہ شریر جنات اپنے ساتھ لے گئے صبح جب ہمیں معلوم ہوا تو ہم انکے گھروں میں گئے اور تفصیل معلوم کی تو پتا چلا کہ مرنے والوں نے اپنے گھروں کے گرد حصار کرنا چھوڑ دیا تھا جسکی وجہ سے وہ مارے گئے اور ان کے گھر والے کمروں سے نہ نکلنے کی وجہ سے بچ گئے۔ جب میں نے اور دیگر گاؤں کے لڑکوں نے دیکھا تو کمروں میں آیت الکرسی لگی ہوئی تھی ہم تمام گاؤں والے جنگل کی طرف گئے تو دیکھا کے 6 افراد کی باقیات وہاں پڑی ہوئی تھیں جن کو نوچ نوچ کر کھایا گیا تھا کسی کا سر نہیں تھا کسی کے بازو غرض کے ہر مرنے والے کا جسم کا کوئی نہ کوئی حصہ غائب تھا۔ ہمیں بہت دکھ ہوا مگر سب کچھ ہمارے اختیار سے باہر تھا ان کا جنازہ ادا کیا گیا اور سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔


اب میں اور ہارون رات کو باری باری جاگتے ایک سوتا تو دوسرا جاگتا جب دوسرے کو نیند آتی تو پھلا جاگ جاتا تاکہ ہمیں حملہ ہونے کی صورت میں وقت پر پتہ چل جائے اور ہم فورا بزرگ کو بلا لیں کچھ دن گزر جانے پر کچھ بھی نہ ہوا پھر ایک دن اچانک حملہ ہوا تو میں نے بزرگ کو بلانے کی غرض سے الماری سے فورا پتھر نکالا اور اسکو زمین پر رگڑا تو وہ بچہ کمرے کے باہر سے اندر داخل ہوا اور ہمیں یہ کہہ کر اچانک واپس چلا گیا کہ میں ابھی آتا ہوں تھوڑی ہی دیر گزری تھی باہر ایک زوردار جنگ کی آواز آنا شروع ہوگئی جیسے دو ملک آپس میں لڑ پڑے ہوں ہارون اور میں نے کمرے سے باہر نکل کر دیکھا تو ہمیں کوئی نظر نہ آیا مگر جنگ کی آواز مسلسل آرہی تھی پھر ہمیں اچانک ہوا میں شعلے نظر آنے لگے جیسے کسی کو جلایا گیا ہو ایک دم وہ بچہ ہمارے پاس آیا اور کہا کہ آپ دونوں جاکر دو چاقو لے آؤ ہم نے ایسا ہی کیا جب واپس آئے تو اس بچے نو دونوں چاقو لیکر اس پر کچھ پڑھا اور ہمیں دے کر کہا کے اب آپ دونوں بھی لڑائی میں شامل ہو جاؤ ہارون نے اس بچے سے کہا کہ ہم اس شریر مخلوق کو دیکھیں گے کیسے تو اس نے ہم پر کچھ پڑھ کر پھونکا اور ہمیں تمام منظر نظر آنے لگا شیطان مخلوق بہت بڑی تعداد میں تھی جبکہ بزرگ کے ساتھی انکی بانسبت کم تھے اور دونوں طرف سے ہوا میں لڑا جا رہا تھا ہم ہوا میں نہیں اڑ سکتے تھے اس لیے ہم نے جنگ کو دیکھنے پر اکتفاء کیا اس موقعے پر کزن مزاح کرنے سے بعض نہ آیا اور کہنے لگا مخانے(پاپ کارن) لے آتے ہیں فلم بھی دیکھیں گے اور کھائیں گے بھی میں نے اسے ڈانٹ دیا اور پتھر اٹھا کر اس پر کلمہ طیبہ پڑھ کر شریر مخلوق پر مارنا شروع کردیا وہ پتھر جس شریر مخلوق کو لگتا وہ ہوا میں سے نیچے گر جاتی اور ہارون اس پر چاقو کا وار کر دیتا جس سے وہ فورا جل جاتی۔ کچھ شریر جنات ہم پر حملہ کرنے کی غرض سے آئے مگر ہمارے گلے میں تعویز ہونے کی وجہ سے ہمیں ہاتھ لگاتے ہی جل جاتی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس لڑائی کا رخ ہی تبدیل ہو گیا اب شریر مخلوق تعداد میں کم رہ گئی لیکن وہ شریر بوڑھی چڑیل ہمیں کھیں نظر نہ آئی اور نہ ہی وہ بزرگ ہمیں نظر آئے جب شریر جنات نے دیکھا کہ سب فنا ہو جائیں گے تو انہوں نے اپنے ہتھیار پھینک دئیے اور خود کو گرفتار کروا دیا۔


شریر جنات میں سے ایک جن آگے بڑھا جو شاید ان بچ جانے والے جنوں میں سب سے بڑا تھا اس نے کہا کے یہاں ماجود اپنے سالار کو بلاؤ مجھے ان سے بات کرنی ہے تو وہ بچہ آگے بڑا اور ایک دم اپنا روپ بدلنے لگا جب وہ اپنی اصل شکل میں آگیا تو ہم اسکو دیکھ کر حیران ہر گئے اس وقت ہم نے اس بچےکو اصل حالت میں دیکھا وہ نہایت ہی خوبصورت پروں والا لمبے قد کا ایک جن تھا اسکا چہرہ چمک رہا تھا منہ پر نہایت سلیقے سے داڑھی تھی سر پر 2 سینگ تھے اور اسکے جسم سے مہک اٹھ رہی تھی جبکہ اسکے ایک ہاتھ میں نیزہ تھا جو ایک طرف سے نیزے کی طرح کا جب کے دوسری طرف سے تلوار کی طرح تیز تھا ہوہ آگے بڑھا اور اس شریر مخلوق کے موجودہ سالار سے کہا کہ میں ان تمام کا سالار ہوں کہو کیا کہنا ہے مگر جب تک بابا نہیں آجاتے تمھرا نہ ہی کوئی مطالبہ مانا جا سکتا ہے اور نہ ہی تمھیں چھوڑا جا سکتا ہے۔ اس شریر جن نے کہا کہ اگر تم ہمیں چھوڑ دو تو ہم تمھیں یہ بتا سکتے ہیں کے ہماری سردارنی بوڑھی چڑیل کہاں گئی ہے کیوں کہ ہم اسے پسند نہیں کرتے مگر وہ سب سے ذیادہ ظاقتور تھی اس لئے ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ شریر سالار نے کہا کے میں نے اسے منع کیا تھا کہ اگر کوئی انسان ہماری حد سے نکل کر جا چکا ہے تو ہمیں اس کے آنے کا انتظار کرنا چاہیے نہ کے گاؤں پر حملہ کرنا چاہیے اور تم ویسے بھی انسانوں کو بہت نقصان پہنچاتی ہو کہیں یہ نہ ہو کہ روحانی طاقتیں ہمارے خلاف کوئی قدم نہ اٹھا دیں


مگر وہ نہ مانی اور آج وہی ہوا جسکا میں نے اسے کہا تھا ہمارے کافی ساتھی صرف اسکی ضد کی خاطر مارے گئے جب کے وہ بوڑھی چڑیل جانتی تھی کے روحانی طاقتیں ہمارے خلاف کھڑی ہو چکی ہیں۔ تمام بات سن کر روحانی طاقتوں کے سالار (وہ بچہ) جن نے کہا کے تم جو بھی کہہ لو مگر تم نے انسانوں کو نقصان پہنچایا ہے تمھارا فیصلہ بابا خود کریں گے۔ تھوڑی دیر انتظار کیا تو بزرگ ایک گھوڑے پر آتے ہوئے نظر آئے وہ ہمارے قریب آئے تو دیکھا کہ وہ بہت جلال میں ہیں سب ہی خاموش ہو گئے اور انتظار کرنے لگے کے بزرگ خود کچھ بتائیں گے مگر جب انہوں نے کچھ نہ بتایا تومیں نے آگے بڑھ کر سلام عرض کیا انہوں نے میری طرف دیکھا اور انکا جلال کم ہوتا گیا اور انہوں نے مسکرا کر سلام کا جواب دیا۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا بوڑھی چڑیل پکڑی گئی کے نہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ پکڑی جاتی مگر وہ ایک چال کھیل گئی جس کی زد میں محلف (روحانی طاقتوں کی طرف سے سالار)کا بھائی آگیا اور شہید ہوگیا۔ بزرگ نے ہمیں بتایا کے شہید ہونے والا جن ہی جنگل میں آپکی مدد کو پہنچا تھا اور غائب حالت میں آپکی مدد کرتا رہا تھا۔


ہم سب کو بہت رنج ہوا خاص طور پر مجھے اور ہارون کو کیونکہ شہید ہونے والے جن نے ہماری جان بچائی تھی میں آگے بڑھا اور محلف کے پاس جاکر اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو اس نے اپنا روپ دوبارہ بدل لیا اور بچے کے روپ میں واپس آگیا میں نے اسے گلے لگایا اور دلاسہ دیا پھر ہارون نے بھی ایسا ہی کیا مگر وہ کچھ نہ بولا صرف سر جھکا کر کھڑا رہا اور جب ہم پیچھے ہٹے تو وہ اپنے اصل روپ میں واپس چلا گیا بزرگ نے بھی اس سے تعزیت کی اور کہا کہ وہ شہید ہوا ہے اور شہید زندہ ہوتا ہے مگر ہمیں اسکی زندگی کی خبر نہیں ہوتی۔ اس نے انسانیت کے لئے اور نیکی اور بدی کی جنگ میں شہادت پائی ہے تو ہمیں اداس نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسکے درجات کی بلندی کے لئے دعا کرنی چاہیے۔ کچھ دیر خاموشی رہنے کے بعد بزرگ نے محلف سے پوچھا کہ انکو کیوں زندہ رہنے دیا اگر انکو ابھی چھوڑ دیا تو یہ دوبارہ شر پھیلائیں گے جس پر محلف جن نے تمام بات بزرگ گو بتا دی بزرگ نے شریر جن کے سالار سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمھیں فنا نہ کیا جائے تو بوڑھی چڑیل کا بتا دو کہ وہ کہا جاتی ہے۔


شریر سالار نے بزرگ کو دیکھا اور کہا کہ مجھے فکر نہیں کہ میں مارا جاؤں پر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ روحانی طاقتیں ضرور اسے بھی ڈھونڈ لیں گی اس لئے ایک گزارش کروں گا اگر آپ مان جائیں تو آپکا احسان ہوگا۔ بزرگ نے کہا کہ ہولو جو بولنا چاہتے ہو تو شریر جن بولا کے اگر آپ ہمیں آزاد کردیں تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہم جنگل میں واپس چلے جائیں گے اور آبادی کی طرف دوبارہ کبھی نہیں آئیں گے اور نہ کبھی کسی انسان کو نقصان پہنچائیں گے پہلے ہی ہمارا بہت نقصان ہو چکا ہے۔ آپ کو اپنی بات کا یقین میں اس چیز سے دلاتا ہوں کہ میں ایک ایسا منتر جانتا ہوں کہ اگر میں وہ پڑھ لوں تو میں دیگر چھپے
ہوئے جنات کو دیکھ سکتا ہوں چاہے وہ جتنا بھی چھپ جائے اور جنگل میں وہ منتر پڑھ کر میں نے ان دو لڑکوں(میں اور ہارون) کی مدد کے لئے بھیجے جانے والے جن کو میں نے دیکھ لیا تھا مگر میں جانتا تھا کہ اگر میں نے اس پر حملہ کیا تو مارا جاؤں گا کیونکہ ایک تو وہ مجھ سے ذیادہ طاقتور تھا اور دوسرا اس جن کے پیچھے روحانی طاقتوں کا ہاتھ تھا۔ ایک امید یہ بھی تھی کہ اس بوڑھی چڑیل سے ہمیں روحانی طاقتیں ہی نجات دلا سکتی ہیں کیونکہ وہ اپنی سرداری قائم رکھنے کے لئے دیوتاوں کو چھوڑ کر شیطان کے ساتھ مل چکی تھی اور ہم اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے۔ میں اسکا نائب ہوں مگر اس سے جان چھڑانا چاہتا ہوں اگر ہم آبادی پر حملہ نہ کرتے تووہ پورے قبیلے کو برباد کر دیتی۔


بزرگ نے تمام باتیں سننے کے بعد کہا کہ ٹھیک ہے اگر تم جنگل کو چھوڑ کر کسی آبادی سے دور علاقے میں چلے جاؤ تو میں تو کو آزاد کر دوں گا۔ جس پر اس شریر جن نے کہا کہ ہم نہیں جا سکتے کیوں کہ ہمارا قبیلہ بہت پرانا یہاں آباد ہے ہم نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا تھا مگر جب سے ہمارا سردار فنا ہوا اور بوڑھی چڑیل نے اسکی جگہ لی تو تب سے انسانی گوشت کھایا جا رہا ہے اور اس نے پورے قبیلے پر لازم کر دیا ہے کہ اگر انسانی گوشت نہ کھاؤ گے تو پورا قبیلہ فنا ہو جائے گا۔ بزرگ نے تمام بات سننے کے بعد کہا کے ٹھیک ہے تم یہاں جنگل میں رہ سکتے ہو مگر تم نے وعدہ کیا ہے کہ تم اور تمھارا قبیلہ کبھی انسانوں کی آبادی کی طرف نہیں آؤ گے اور نہ کسی انسان کو نقصان پہنچاؤ گے اس نے وعدہ کیا اور کہا کہ گاؤں کے لوگوں کو کہہ دینا کہ وہ بھی رات کے وقت جنگل اور آبشار کی طرف نہ آئیں کیوں کہ اگر کوئی شریر جن میری غیر موجودگی میں کسی انسان پر حملہ کردے تو میں اسے بچا نہ پاؤں گا کیونکہ میرا قبیلہ انسانی گوشت کا عادی ہو چکا ہے البتہ اس جن کو فنا کر دیا جائے گا اور نہ ہی جنگل اور اس کے آس پاس کے علاقے میں سے کسی چیز کو اپنے گھر لے جائیں اور نہ ہی وہاں کی کسی چیز کو نقصان پہنچائیں بزرگ نے کہا ٹھیک ہے اب تم آزاد ہو تو اس شریر سالار جن نے بتایا کے آبشار سے تھوڑا آگے جانے پر ایک خشک تالاب آتا ہے جو گول پیالے کی شکل میں ہے اس پر گول ہی ترتیب میں سفیدے کے درخت بھی لگے ہوئے ہیں آپ جب وہاں جاؤ گے تو آپکو ایک درخت سب سے اونچا نظر آئے گا آپ اس پر چڑھ کر اپنے پیچھے درخت کی بالکل سیدھ میں دیکھیں گے تو آپکو ایک درخت میں ایک سوراخ نظر آئے گا آپ اس سوراخ کے پاس جاکر اس سوراخ میں ابلتا ہوا پانی ڈالنا تو ایک سانپ تیزی سے باہر کی جانب نکلے گا آپ اس سانپ کو پکڑ لینا اور اسکی دم کاٹ کر اپنے پاس رکھ لینا جبکہ باقی سانپ کو ایک شیشی میں بند کر دینا کیوں کہ اس بوڑھی چڑیل کی طاقتیں اس سانپ میں ہیں آپ جیسے ہی یہ عمل کریں گے جو میں نے بتایا ہے تو بوڑھی چڑیل کا حصار جو اس نے اپنے گرد باندھ رکھا ہے ٹوٹ جائے گا اور اسکی طاقت آدھی ہو جائے گی اگر آپ اس سانپ کو جلا دیں گے تو اسکی ساری طاقتیں ختم ہو جائیں گی مگر وہ چھپ جائے گی اور دوبارہ طاقتیں حاصل کرنے کی کوشش شروع کردے گی۔


اس لئے آپ نے سانپ کو جلانا نہیں ہے بلکہ اس سانپ کو بند رکھنا ہے تاکہ وہ سانپ کو حاصل کرنے آپ کے پاس ضرور آئے تاکہ اپنی طاقتیں بحال کرسکے۔ جب وہ آپکے پاس آئے تو آپ اسکو قابو کر سکتے ہو۔ یہ کہہ کر وہ شریر جن سالار اور اسکے ستھی غائب ہو گئے۔ بزرگ مجھے اور ہارون کو کہا کہ آپ لوگوں سے کل ملتا ہوں ہمیں وہیں چھوڑ کر اپنے تمام ساتھیوں کو لیکر غائب ہو گئے۔
دوسرے دن اچانک مجھے کسی نے جگا دیا میں نے دیکھا تو محلف جن کو دیکھا اس نے مجھے کہا کہ گھر سے باہر آجاؤ تمام گھر والوں کو لیکر۔ میں فورا گیا اور سب گھر والوں کو گھر سے باہر لے گیا سب نے ہی اپنے اوپر آیت الکرسی پڑھ کر پھونک لی۔ جب باہر گیا تو بزرگ نے ایک خوبصورت سی لڑکی کو زنجیروں سے باندھا ہوا تھا اور اسکا منہ کالے کپڑے سے باندھا گیا تھا بزرگ نے مجھے پاس بلا کر کہا مسجد میں اعلان کروا کر سب گاؤں والوں کو بلا لو میں نے ایسا ہی کیا جب تمام گاؤں آگئے تو لوگوں نے شور مچانا شروع کردیا کہ پاگل بوڑھے اس لڑکی کو چھوڑ دے کیسی خوبصورت لڑکی کو زنجیروں میں باندھا ہوا ہے بزرگ مسکا دئیے قریب تھا کہ گاؤں والے بزرگ پر چڑھ دوڑتے میں نے کہا کے انہوں نے ہی جنگل میں ہماری جان بچائی تھی اس پر بزرگ پرجلال آواز میں بولے دل کے اندھو! یہی وہ چڑیل ہے جس کے حکم پر جنات نے تمھارے عزیزوں کو اپنی خوراک بنایا مگر لوگ نہ مانے تو بزرگ نے کہا اب اسکا اصل روپ دیکھنے کے لئے تیار ہو جاؤ اور اس لڑکی سے کہا کہ اپنی اصل شکل میں آجا نہیں تو فنا کر دوں گا جس پر اس لڑکی نے اپنا روپ بدل لیا۔ اسکے روپ بدلتے ہی کمزور دل کے افراد بیہوش ہوگئے اور جو ذرا ہمت والے تھے وہ پیچھے ہٹ گئے ان کے چہروں پر بھی خوف ظاہر تھا۔


شاید بزرگ اور بوڑھی چڑیل کے درمیان جنگ ہوئی تھی کیونکہ اب وہ پہلے سے ذیادہ بھیانک لگ رہی تھی رنگت کوئلے کی طرح کالی ہو چکی تھی جسم سے جگہ جگہ سے ایک کالے رنگ کا بدبودار مائع نکل رہا تھا جس سے نہایت ناگوار بدبو آرہی تھی، بال کانٹوں کی طرح کھڑے ہوئے تھے اسکو اس حالت میں دیکھ کر مزید خوف آرہا تھا بزرگ نے کہا اس چڑیل کو میں پکڑتے ہی ختم کر سکتا تھا مگر میں اسے یہاں اس لئے لے آیا کہ جن ماؤں کے بچوں کو اس چڑیل نے اپنی غذا بنایا وہ مائیں اور بہنیں اسے خود سزا دیں پھر تمام لوگوں کو کہا کہ سب لوگ لکڑیاں لیکر جنگل کے پاس جمع ہو جاؤ تمھاری جان کو کوئی خطرہ نہیں۔ سب لوگوں نےاپنے اپنے گھروں سے لکڑیاں جمع کیں اور جنگل کی جانب چل پڑے جنگل کے پاس پہنچے تو بزرگ نے حکم دیا کہ تمام لکڑیوں کو ایک جگہ جمع کرو اور بیچ میں ایک لکڑی ایسی لگاؤ کہ اس چڑیل کو اس پر باندھ کر کھڑا رکھا جاسکے۔ سب نے ایسا ہی کیا پھر بزرگ نے اس چڑیل کو ان لکڑیوں کے ساتھ باندھ دیا اور جنگل کی جانب رخ کر کے کہا کہ دیکھ لو اپنی سردارنی کا انجام اگر تم نے کسی نے بھی انسانوں کو یا دیگر مخلوق کو نقصان پہنچایا تو تمھیں اس سے ذیادہ اذیت دی جائے گی۔ دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کی شروعات پر غلیظ جانور اور ناپاک پرندے جو قد میں کافی بڑے تھے نمودار ہوگئے۔


بزرگ نے تمام لوگوں کو کہا کہ ایک ایک پتھر اٹھاؤ اور اس پتھر پر کلمہ طیبہ پڑھ کر پھونک لو تمام لوگوں نے ایسا ہی کیا اور بزرگ نے تمام لوگوں کو اس چڑیل کے آس پاس کھڑا کر کہ کہا کہ میں حصار کینچ رہا ہوں تاکہ کوئی بھی اسکا ساتھی ہو تو اس کی مدد کو نہ آسکے سب نے انکی ہدایات پرعمل کیا اور پھر تمام لوگوں نے اس چڑیل کو پتھر مارنا شروع کر دئیے۔ کلمہ پڑھے ہوئے پتھر اس بوڑھی چڑیل کو جہاں بھی لگتے تو اسکے جسم کے اندر سوراخ کر دیتے جس سے وہ اتنی بھیانک آواز سے چیختی کے تمام علاقہ گونج اٹھتا۔ جب بزرگ نے دیکھا کہ اب وہ فنا ہونے کے قریب ہے تو بزرگ نے محلف جِن کو آگے بلایا اور کہا کہ اب کوئی انسان اس چڑیل کو نہ مارے پھر محلف کو کہا کہ اس بدبخت شیطان کی پوجاری چڑیل نے تمھارے بھائی کو شہید کیا اب تم اپنے بھائی کا بدلہ لو۔ محلف جن آگے بڑھا اور اپنی نیزہ نما تلوار کو اٹھا کر اس چڑیل کی گردن کو اس کے جسم سے الگ کردیا اور پھر اس کے سر کو اپنے نیزے کی نوک میں پرو دیا اور ایک درد بھری چیخ ماری تو اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے میں آگے بڑھا اور اسکے پاس گیا تو اس نے مجھے کہا کہ میں ٹھیک ہوں بس بھائی کی ذرا یاد آگئی تھی اور تھوڑی دیر میں خاموش ہو گیا پھر بزرگ نے کہا کہ اب اس چڑیل کو آگ لگا دو تاکہ اس کا قصہ تمام ہو جائے جس پر محلف نے اس چڑیل کے مردہ جسم کو آگ لگادی۔ جب تمام کام ختم ہوا تو بزرگ ایک جانب چل پڑے میں انکے پیچھے بھاگا تو وہ ایک درخت کے پیچھے ہو گئے جب میں اس درخت کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ بزرگ غائب ہوچکے تھے انھیں بہت ڈھونڈا مگر وہ کہیں نہ ملے تو میں واپس تمام گاؤں والوں کے پاس آگیا تمام بات انھیں بتائی تو سب لوگ اداس ہوگئے کہ بزرگ نےہمیں خدمت کا موقع نہیں دیا میں نے دیکھا کہ محلف جن جو اب کسی کو نظر نہیں آرہا تھا وہ ایک جگہ اداس کھڑا تھا میں اسکے پاس گیا تو اس نے کہا کہ میں تھوڑی دیر آپ کے ساتھ رکوں گا پھر اجازت چاہوں گا۔


میں نے کہا کہ آپ میرے ساتھ ہمیشہ رہو کہیں مت جاؤ تو اس ے کہا کہ میرا کام بہت ہے جس طرح آپ لوگوں کی مدد کرنے ہم آئے تھے اسی طرح اور بھی انسانوں کو ہماری مدد کی ذرورت ہے۔ میں نے کہا کہ پھر آپ ہم سے ملنے آیا کرنا تو اس پر بھی اس نے کہا کہ مجھے اجازت نہیں بڑی مشکل سے آپ سے بات کرنے کے لئے بابا سے وقت لیا تھا۔ محلف جن کی یہ بات سن کر دل بہت اداس ہو گیا پھر اچانک محلف جن نے مجھے کہا کہ میرا وقت ختم میں چلتا ہوں اللہ حافظ۔ اسکی یہ بات سن کر میں اسے آوازیں دیتا رہا مگر کوئی جواب نہ آیا تو میں گھر واپس آگیا۔ صبح آس پاس کے تمام گاؤں میں خوشیاں منائی جا رہی تھیں اور جن کے پیارے ان سے بچھڑ چکے تھے وہ انکی قبروں پر فاتحہ خوانی کے لئے جا رہے تھے مگر میں اداس تھا کیونکہ محلج جن سے ایک انسیت سی ہو گئی تھی مگر اب وہ میرے ساتھ نہیں تھا۔ میں نے اپنی انٹر تک کی پڑھائی مکمل کی اور واپس کراچی آگیا۔ مگر آج بھی مجھے محلف جن کا انتظار ہے کہ وہ شاید مجھ سے ملنے آئے مگر وہ پتا نہیں کہاں ہوگا اور کس کی مدد کر رہا ہوگا۔
  
--------------------------
مزید پڑھیں: خوفناک گڑیا کا انتقام 
-------------------------- 


Urdu Stories Keywords

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories for adults only, Urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے