بھوت بنگلہ ۔ ایک لڑکی کی دلچسپ مکمل اردو کہانی

اس کا گھر بھوت بنگلے کے نام سے جانا جاتا تھا آخر وہ اس حال کو کیونکر پہنچی یا اسے یہاں تک کون لایا یہ اسرار کے پردے میں چھپا راز تھا پھر اس کی زندگی بدلی تو وہ دنیا میں واپس آ گئی اسے واپس لانے والا کون تھا یہ بھی ایک راز تھا جس سے وہ خود بھی ناواقف تھی-
ہزاروں گز قطع اراضی پر بنا وہ بنگلہ اس علاقے میں بھوت بنگلے کے نام سے مشہور تھا- مدتوں سے رنگ و روغن نہ ہونے کی وجہ سے در و دیوار نے سیاہی مائل رنگت اختیار کر لی تھی- باہر لگا بڑا سا فولادی گیٹ اور اس پر لگا لیٹر بکس زنگ آلودہ ہو چکا تھا- لان کی گھاس کو ایک عرصے سے تراشا نہیں گیا تھا اور اس میں خود رو جھاڑ جھنکار اگ آئے تھے- لان کے ایک جانب قد آدم پنجرے نصب تھے جن میں انواع و اقسسام کے پرندے موجود تھے-
یہ بنگلہ ایک لڑکی کی ملکیت تھا جس کا نام سارا ہاشوانی تھا- تیس بتیس سالہ سارا عجیب و غریب وضع قطع رکھنے والی لڑکی تھی- پڑوس میں وہ کسی سے ملتی جلتی نہیں تھی- کافی عرصے سے کسی نے اس کی شکل نہیں دیکھی تھی اور کسی کو اس کے بنگلے میں جانے کی اجازت نہیں تھی- آ س پاس کے لوگوں کا خیال تھا کہ سارا کوئی بہت بدصورت عورت ہے یا کوئی مریضہ ہے جو اپنے عیوب چھپانے کے لئے بنگلے میں روپوش رہتی ہے- صرف ایک کل وقتی ملازمہ زینب تھی جو اس کے ساتھ رہتی تھی- تقریباً پچاس سالہ زینب ایک خرانٹ عورت تھی جو کسی کو بنگلے کے اس پاس پھٹکنے بھی نہیں دیتی تھی- وہ ہی اس کی خدمت گزاری اور گھریلو کام کاج انجام دیتی تھی-
کبھی یہ گھرانہ بے حد متمول اور خوش و خرم ہوا کرتا تھا- روشن ہاشوانی کا شمار بے حد دولتمند اور کاروباری فرد کے طور پر ہوا کرتا تھا- سارا جب چھ سال کی تھی تو ہاشوانی صاحب مختصر علالت کے بعد وفات پا گئے تھے- ان کی وفات کے بعد ان کا بھائی شمس ہاشوانی جو کافی عرصے سے بیرون ملک مقیم تھا- ان کے کاروبار وغیرہ کی دیکھ بھال کے لیے وہاں آ گیا تھا- اس کے وہاں آتے ہی سب کچھ گڑ بڑ ہو گیا تھا- اس چالاک اور عیار شخص نے بنگلے اور کاروبار پر اپنا قبضہ جما لیا تھا- اور ان دونوں ماں بیٹی کو بنگلے کے ایک حصے میں محصور کر دیا تھا- شمس نے پڑوسیوں سے بھی ہر طرح کا تعلق ختم کر دیا تھا-
سارا کے والد نے یہ بنگلہ اور تمام کاروبار اپنی زندگی میں ہی سارا کے نام کر دیا تھا- جو اسے اٹھارہ سال کی عمرمیں ملنے والی تھیں- ان کے ایک ایڈوکیٹ دوست مبین ملک اس تمام معاملے کے نگران تھے- یوں شمس کی ایک نہیں چلی تھی- اب اسے اس وقت کا انتظار کرنا تھا جب تک تمام جائیداد سارا کو مل نہ جائے-
ابھی اس کے والد کے انتقال کو ایک سال ہی ہوا تھا کہ اس کی ماں بھی اسے چھوڑ کر کہیں چلی گئی تھی پھر سنا گیا کہ اس نے کسی سے شادی کر لی تھی- دو تین سال بعد وہ اپنی بیٹی سے ملنے آئ تھی مگر شمس نے اسے سارا سے ملنے نہیں دیا تھا اور وہ روتی دھوتی واپس چلی گئی تھی پھر کسی نے اسے نہیں دیکھا تھا-
چچا نے اس واقعے کا پورا فائدہ اٹھایا تھا اور اسے خوب ڈرایا دھمکایا تھا اور اسے بار بار یہ احساس دلایا تھا کے وہ اتنی بری ہے کہ ماں جیسی ہستی بھی اسے چھوڑ کر چلی گئی- سوچا جا سکتا ہے کہ اس حادثے کا سارا پر کیا اثر ہوا ہوگا- بچے ایسے میں خود کو قصور وار سمجھتے ہیں اور ایسے موقع پر اس کے قریب سہارا دینے کے لیے اس کا کوئی ہمدرد بھی موجود نہیں تھا- شاید اس نے یہی سوچا ہوگا کہ وہ کسی کی محبت کے لائق نہیں تھی ورنہ اس کی ماں اسے چھوڑ کر کیوں جاتی- بہرحال وجہ کچھ بھی ہو وہ اندر ہی اندر گھٹتی چلی گئی تھی-
وقت تیزی سے گزر رہا تھا- ان دنوں اس نے انٹر میڈیٹ کا امتحان دیا تھا- چچا کی کڑی نگرانی میں اس نے تعلیم کے یہ مدارج طے کیے تھے- جوانی اس پر ٹوٹ کر آئ تھی- درمیانے قد بھرے بھرے جسم گوری رنگت، خوبصورت پیشانی اور بڑی بڑی روشن آنکھوں کا نام سارا تھا- جو بھی اسے دیکھتا، دیکھتا ہی رہ جاتا تھا-
اس دن وہ اپنے چچا کے ساتھ کہیں جا رہی تھی جب اسی محلے میں کارنر کے بنگلے میں رہنے والے ڈاکٹر رضا نے سارا کو پہلی بار دیکھا تھا- ڈاکٹر رضا ان دنوں اپنی میڈیکل کی تعلیم مکمل کر کے ہاؤس جاب کر رہا تھا- سرخ لباس نے گوری رنگت میں گھل کر سارا کے حسن کو شعلے کی طرح دھکا دیا تھا- وہ اس پر سے نظریں ہٹا نہیں سکا تھا اور دل تھام کر رہ گیا تھا-سارا اسے بہت پیاری لگی تھی-
ان دنوں سارا کے بہت رشتے آ رہے تھے جنہیں اس کا چچا کسی نہ کسی بہانے ٹال دیتا تھا- رضا نے بھی اپنی امی کو سارا کے رشتے کے لیے بھیجا تھا- سارا انہیں بھی بہت پسند تھی اور رضا ان کا اکلوتا بیٹا تھا-رضا کے والد وفات پا چکے تھے- جب وہ رشتہ لے کر گئیں تو شروع میں تو شمس نے ٹال مٹول سے کام لیا تھا پھر کچھ دن بعد یہ کہ کر صاف انکار کر دیا تھا کہ رضا سارا کو پسند نہیں ہے-
یہ سن کر رضا کا دل بری طرح ٹوٹ تھا پھر کچھ عرصے بعد والدہ کے اصرار پر اور ان کی پسند کے مطابق رضا نے شادی کر لی تھی اور ملک سے باہر چلا گیا تھا- نہ اس کی کوئی دوست تھی اور نہ ہی پڑوسیوں سے کوئی مل جول تھا- کسی نے اسے اس بھنور سے نکلنے کی کوشش نہیں کی اور کس کے پاس اتنا ٹائم تھا کہ وہ توجہ دیتا-سارا کا چچا بہت بد مزاج اور خرانٹ تھا محلے میں سب اس سے ڈرتے تھے-اسی لیے ان لوگوں سے دور رہتے تھے- سارا کے تمام کاروبار اور آمدنی پر چچا کا قبضہ تھا اور اب اس کی نظر سارا کی جائیداد پر تھی جو جلد ہی سارا کو ملنے والی تھی اور رہی سارا تو وہ اس کی اجازت کے بغیر سانس بھی نہیں لیتی تھی-
قدرت کے کھل نرالے ہوتے ہیں- انسان سوچتا کچھ ہے ہوتا کچھ اور ہے- اس کے چچا کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا- ایک رات ہارٹ اٹیک سے اس کی اچانک موت واقع ہو گئی اور اس کے سارے منصوبے دھرے رہ گئے-
چچا کے مرنے کے بعد ایک بار پھر پڑوسیوں نے سارا کو سمجھا نے کی کوشش کی تھی مگر اب اسے کسی کا اعتبار نہیں رہا تھا اور لوگوں کے پاس اتنی فرصت نہیں تھی جو اس کے لیے کچھ سوچتے آخر سب نے اسے اکیلا چھوڑ دیا اور وہ اپنے اندر سمٹتی چلی گئی-
سارا کے بنگلے کے بالکل سامنے جنید عرف جو جو کا مکان تھا- جوجو سولہ سترہ سال کا ایک توانا اور شوخ و شریر لڑکا تھا- اس کا کمرہ مکان کی اوپری منزل پر واقع تھا- جہاں ایک کھڑکی سے سارا کا بنگلہ صاف نظر آتا تھا- کھڑکی میں کھڑے ہو کر بنگلے کا نظارہ کرنا جوجو کا دلچسپ مشغلہ تھا-
جب رات کی تاریکی گہری ہو جاتی تو اس وقت بنگلے کی کھڑکیوں اور دروازوں پر پڑے پردوں سے چھن کر روشنی باہر آتی تھی اور یہ احساس دلاتی تھی کہ ان کے پیچھے کوئی وجود موجود ہے- سارا بہت کم باہر نکلتی تھی- وہ باہر جاتی بھی تو کبھی سر اٹھا کر کسی کی جانب نہیں دیکھتی تھی- بد رنگ، بد ہییت لباس بکھرے بالوں اور اجڑے حلیے نے اس کے خوبصورت نقوش کو بھی دھندلا دیا تھا- نہ جانے وہ قیدیوں کی سی زندگی کیوں گزر رہی تھی- کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ آدم بیزار ہے اور کچھ کا خیال تھا کہ تنہا رہنے کے باعث وہ نفسیاتی مریضہ بن گئی ہے- بہرحال وجہہ کچھ بھی ہو اپنے بنگلے کی طرح وہ بھی ایک پر اسرار شخصیت تھی-
ہر پر اسرار شے دلچسپ ہوتی ہے-جوجو بھی اسرار کے یہ پردے اٹھانا چاہتا تھا- اس وقت بھی وہ کھڑکی میں کھڑا سارا کے بنگلے کی سمت دیکھ رہا تھا-وہ کافی دیر سے وہاں کھڑا تھا- اس نے سر اٹھا کر اس کھڑکی کی جانب دیکھا اس امید پر کہ شاید وہ سارا کی جھلک دیکھ لے لیکن وہاں کھڑکیاں اور دروازے ہمیشہ کی طرح بند تھے اور ان پر دبیز پردے پڑے ہوئے تھے- ان اندھے شیشوں کے آر پار کچھ دکھائی نہ دیتا تھا- اس نے اکثر دیکھا تھا دن کے وقت تو بنگلے کی اوپری منزل جہاں سارا کا کمرہ اور جس کی کھڑکیاں اور بالکونی کا دروازہ ہمیشہ بند رہتا تھا البتہ رات کو کبھی کبھی کھڑکیوں کے ایک دو پٹ کھل جاتے اور گرمیوں میں اکثر بالکونی کا دروازہ بھی کھل جایا کرتا تھا-مگر پھر بھی تاریکی سیاہ پردے کی طرح پڑی رہتی تھی-
کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ بالکونی کے ساتھ والے کمرے میں روشنی کھڑکی کے شیشوں سے ٹکرا کر باہر آنے کی کوشش کرتی اور پھر کمرے کی محدود فضاؤں میں ہی اپنی مالکہ کی طرح قید ہو کر رہ جاتی- سارا نے خود کو خاموشی اور اسرار کے دبیز پردوں میں چھپا رکھا تھا- مگر یہ خاموشی چیخ رہی تھی اور یہ چیخ جوجو سن رہا تھا-وہ دیکھ رہا تھا کھڑکیوں کے اندھے شیشوں پر روشنی کے زاویے بدل رہے تھے اور وہ ادھر سے ادھر کسی بے چین روح کی طرح بھٹک رہی تھی-
"جوجو......... جوجو" اسی وقت جوجو کی امی کی آواز آئ اور کچھ دیر بعد وہ کمرے میں آ گئیں -
" جوجو میں کب سے تمہیں آوازیں دے رہی ہوں اور تم یہاں کھڑے ہو......... کیا دیکھ رہے ہو؟" وہ اس کے نزدیک چلی آئ تھیں-
"وہ دیکھیں امی کتنی ویرانی ہے وہاں" اس نے سارا کے گھر کی جانب اشارہ کیا- " وہ ایسی کیوں ہے؟ اس تنہائ سے اس کا دل نہیں گھبراتا- اس کے گھر میں نہ فون ہے نہ ٹی وی بیرونی دنیا سے اس کے رابطہ کا کوئی ذریعہ نہیں ہے- وہ کیسے رہتی ہو گی امی-؟"
" میں جب یہاں آئ تھی انہیں دنوں اس کے ڈیڈی کی ڈیتھ ہوئی تھی- ان کے انتقال کے بعد اس کا چچا یہاں آ گیا تھا اور اس نے آتے ہی سارا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا- وہ بڑا ظلم کرتا تھا ان ماں بیٹی پر یہ سب منظر ہمارے گھر سے نظر آتا تھا مگر ہم بے بس تھے ان مظلوموں کی کوئی مدد نہیں کر سکتے تھے-"
" سارا نے شادی کیوں نہیں کی؟" جوجو نے کہا -
وہ ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی بیٹا- وہ بہت خوبصورت تھی- شروع میں تو اس کے بہت رشتے آتے تھے بلکہ کئی تو محلے والوں کی طرف سے بھی گئے تھے-"
" پھر-"
" مجھے تو لگتا ہے اس کی دولت اور جائداد پر قبضہ کرنے کے لیے ہی اس کے چچا نے سب کو بھگا دیا ہو گا- چچا کی نظر اس کی دولت پر تھی وہ دولت جو خود چچا کے کام نہ آ سکی-"
" امی چچا کے مرنے کے مرنے کے بعد وہ شادی کر سکتی تھی-"
"اسے شاید کسی پر اعتبار نہیں رہا ہو گا- وہ یہ سمجھتی ہوگی کہ کوئی بھی اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے- بہرحال چھوڑو اس قصے کو تم چلو کھانا کھاؤ -" اس کی امی نے کہا اور دروازے کی سمت بڑھیں -
" میرا دل چاہتا ہے کہ اسے اس قید تنہائ سے کھینچ کر باہر کی دنیا میں لے آؤں اور اسے بتاؤں کہ زندگی کیا ہوتی ہے-" جوجو نے کہا اور اپنی امی کے پیچھے کمرے سے باہر نکل گیا-
***************************
قد آور مظبوط بازوؤں اور چوڑے سینے والا خوبرو ڈاکٹر رضا پندرہ سال کا طویل عرصہ ملک سے باہر گزار کر حال ہی میں پاکستان واپس آیا تھا- وہ اپنی والدہ کی اچانک موت کی وجہ سے آیا تھا اور اب اس نے یہیں رہنے بسنے کا فیصلہ کر لیا تھا- رضا بھی سارا کے امیدواروں میں سے ایک امیدوار تھا مگر بقول اس کے چچا کے سارا کے انکار سے دلبرداشتہ ہو گیا تھا اور اس نے اپنی والدہ کی پسند کے مطابق شادی کر لی تھی مگر قسمت کی ستم ظریفی تھی کہ یہ شادی زیادہ عرصے نہیں چل سکی تھی اور آج کل وہ تنہا زندگی گزار رہا تھا- دن میں وہ ایک مشہور و معروف اسپتال میں جاب کرتا تھا اور اکثر شام کو وہ گھر کے نزدیک واقع پارک میں دیکھا جاتا تھا- جہاں محلے کے دیگر افراد بھی باقائدگی سے جایا کرتے تھے-
وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ سارا نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی اور وہ عجیب و غریب زندگی گزا ر رہی تھی-اسے سارا کے بارے میں بڑا تجسس تھا مگر کہیں سے اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں مل سکیں تھیں- وہ جب سے آیا تھا سارا کو کہیں آتے جاتے بھی نہیں دیکھا تھا-
رضا جب بھی اس بنگلے کے قریب سے گزرتا تو سر اٹھا کر زنگ آلودہ گیٹ کی جانب ضرور دیکھتا- اس امید پر کہ شاید کسی دن اس کی جھلک دیکھ لے- لیکن گیٹ ہمیشہ بند رہتا تھا- نہ جانے اب وہ کیسی ہوگی؟ کیا آج بھی وہ اتنی ہی خوبصورت ہوگی جیسے پہلے تھی- وہ اکثر سوچا کرتا تھا مگر اس سے رابطے کا کوئی ذریعہ اسے نظر نہیں آتا تھا- وہ اسی سوچ میں سرگرداں رہتا تھا-
روشن ہاشوانی کی اکلوتی بیٹی ان کی تمام دولت اور جائیداد کی تنہا وارث حسن و جمال کا پیکر سارا سب سے الگ تھلگ تھی-جتنے منہ تھے اتنی باتیں تھیں - لیکن ان باتوں سے رضا کی تشفی نہیں ہوتی تھی- وہ خود اس سے ملنا چاہتا تھا- اس سے بات کرنا چاہتا تھا- وہ اس سے آج بھی اتنی ہی محبت کرتا تھا اور یہ محبت برسوں پر محیط تھی -وقت اور فاصلے بھی اس کی محبت کی شدتوں کو کم نہیں کر سکے تھے-
**********************************
اس دن عجیب واقعہ ہوا تھا -جوجو اور بلال اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ باہر کرکٹ کھل رہی تھے- جب بلال کے ایک تیز شاٹ مارنے کے نتیجے میں بال سارا کے بنگلے کی دیوار کراس کرتی ہوئی اس کے لان میں کہیں جا گری تھی- لڑکوں میں سے کوئی اس بھوت بنگلے میں جانے کو تیار نہیں تھا- کھیل جاری رکھنے کے لیے بال ضروری تھی-ایسے میں جوجو آگے بڑھا تھا اور بال لانے کے لیے دیگر لڑکوں کی مدد سے وہ بنگلے کی دیوار پھلانگ کر اندر کود گیا تھا- کافی دیر وہ لان میں بال تلاش کرتا رہا مگر وہ نہیں ملی- بری طرح اگی ہوئی جھاڑ جھنکار اور جھاڑیوں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ اسے برسوں سے تراشا نہیں گیا ہے-لان کی حالت بہت ابتر تھی- تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ لان عبور کر کے لکڑی سے بنے سال خوردہ منقش دروازے کے قریب آیا- بال کی تلاش وہ فراموش کر چکا تھا- اس نے دروازے کو دھکا دیا تو وہ ایک تیز چرچراہٹ کی آواز کے ساتھ کھلتا چلا گیا-وہ اندر آ گیا- یہ ایک بہت بڑا ہال نما کمرہ تھا-برسوں سے دروزے کھڑکیاں بند ہونے کی وجہ سے ایک مخصوص سی مہک وہاں بسی ہوئی تھی-
ابھی اسے وہاں آئے کچھ ہی لمحے ہوئے تھے کہ ہال کی ایک جانب بنی سیڑھیوں سے اسے ایک خرانٹ آواز سنی دی-
" اے کون ہو تم؟ اور اندر کیسے آئے؟"
جوجو نے چونک کر سیڑھیوں کی جانب دیکھا-وہاں زینب کھڑی تھی-
" وہ........ .......ہماری بال یہاں آ گئی تھی-" وہ جھجکتا ہوا بولا-
"بھا گو یہاں سے ......... کوئی بال وال نہیں ہے یہاں-" زینب سیڑھیاں اترتے ہوئے اس کے قریب پہنچی-
" کیا ہوا زینب کون ہے وہاں؟" اسی وقت سارا اندر کسی کمرے سے ہال میں آئ - بد ہئیت اور اجاڑ حلیے میں وہ خوفناک لگ رہی تھی-
" میں جنید ہوں - آپ کے سامنے والے گھر میں رہتا ہوں- ہماری بال آپ کے بنگلے میں آگئی تھی- وہ تلاش کرنے آیا تھا- باہر میرے دوست انتظزار کر رہے ہیں-" وہ سٹپٹا کر بولا-
" تم گیٹ پھلانگ کر آئے ہو؟" اس نے انتہائی غصے سے آنکھیں نکالیں- "نکلو یہاں سے اور اپنے دوستوں سے بھی کہ دینا اگر کوئی بنگلے کے اس پاس نظر آیا تو اچھا نہیں ہو گا-" وہ خونخوار لہجے میں چیخی - وہ تیزی سے پلٹا اور باہر کی سمت دوڑ لگا دی-
سنو-" سارا نے اسے آواز دی- وہ ٹھٹک کر رک گیا اور مڑ کر اس کی طرف دیکھا-
" تم صفیہ آپا کے بیٹے ہو؟" اس بار اس نے قدرے نرم لہجے میں کہا - جوجو نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ بولی"آئندہ یہاں نہیں آنا-"
وہ تیز قدموں سے باہر نکل گیا- جیسے ہی وہ بیرونی گیٹ سے باہر نکلا اس کے سارے دوستوں نے اسے گھیر لیا- اس نے تمام روداد انہیں کہہ سنائی-
" بال ملی؟" ایک دوست نے جلدی سے پوچھا-
"نہیں یار وہ شاید کسی پنجرے کے نیچے گم ہو گئی مجھے نظر نہیں آئ -"
" لیکن تو اندر کیوں گیا تھا؟" بلال نے کہا-
" بس ایسے ہی میں اسے دیکھنا چاہتا تھا- جوجو نے کہا-
" چڑیل کہیں کی اسے تو سبق سکھانا چاہیے -" بلال نے کہا-
ویسے غلطی تو ہماری ہے میں بغیر اجازت اس کے گھر میں گھسا تھا-" جوجو نے کہا
" ہماری نیت تو بری نہیں تھی-" ایک نے کہا-
"سبق تو سکھانا پڑے گا- اس نے دھمکی کیوں دی؟" بلال نے کہا -
" ایک آئڈیا ہے میرے پاس-" جوجو نے مسکراتے ہوئے کہا-
"وہ کیا؟" بلال نے اس کی طرف دیکھا-
"بعد میں بتاؤں گا-" جوجو نے معنی خیز نظروں سے اسے دیکھا تھا-
" تم لوگ ابھی تک یہاں کھڑے ہو- بھگو یہاں سے-" زینب جو گیٹ بند کرنے نہ جانے کب وہاں پہنچی تھی غرّا کر بولی تو وہ سب اپنے اپنے گھر کی سمت چلے گئے-
**************************
بنگلے میں رات آھستہ آھستہ گزرتی جا رہی تھی- وہ بیڈ پر لیٹی تھی- نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی- اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے اس کے دلی جذبات کا اظہار ہو رہا تھا-
وہ کیسے جیتے جی مر گئی تھی- سب اسے چھوڑ گئے تھے یہاں تک کے اس کی پیاری ماں بھی اسے چھوڑ گئی تھی- وہ منحوس تھی چچا نے اسے یہی بتایا تھا- الفاظ کے تیروں نے اسے کیا سے کیا بنا دیا تھا-کوئی اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا- اسی لیے اس نے خود کو ان سب کی نظروں سے چھپا لیا تھا-پندرہ سال سے وہ اس چار دیواری میں قید تھی اور یہ خود ساختہ قید تھی وہ خود کو سزا دے رہی تھی-
" یہ گوشہ نشینی مجھے مار ڈالے گی- میں نے کوئی گناہ نہیں کیا مگر ایک گناہ گار کی طرح منہ چھپائے بیٹھی ہوں-" وہ بڑبڑائی-
وہ بدصورت نہیں تھی- اس میں کوئی عیب بھی نہیں تھا- پھر بھی وہ دوسروں کے سامنے آنے سے کتراتی تھی- پندرہ سال پہلے اس کے حسن میں غضب کا نکھار آیا تھا- کیا اب بھی وہ حسن باقی ہے؟ اس نے سوچا- وہ اٹھی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سسا منے جا کھڑی ہوئی -دھندلے آئنے میں اس کا عکس مزید دھندلا گیا تھا- اس کے سامنے الجھے بالوں ویران آنکھوں والی ایک اول جلول سے حلیے والی عورت کھڑی تھی- یہ وہ سارا تو نہیں تھی- اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ سارا کہاں گم ہو گئی تھی- وہ وہاں سے پلٹ کر آھستہ آہستہ چلتی ہوئی کھڑکی کی جانب آ گئی- جیسے ہی اس نے کھڑکی کھولی سامنے اس کی نظر جوجو کے گھر کی طرف گئی جہاں جوجو کھڑکی میں کھڑا اسی کی جانب دیکھ رہا تھا- وہ شاید اسے دیکھ کر مسکرایا تھا- سارا نے کھڑکی بند کر دی اور کمرے میں ادھر ادھر چکر لگانے لگی-
**************************
" وہ اپنے آپ کو کیوں چھپا رہی ہے- اسے کیا ڈر ہے؟ میں اس کے بارے میں کیوں سوچے جا رہا ہوں؟" وہ بیڈ پر لیٹا تھا- اس نے آنکھیں بند کر لیں- سوچتے سوچتے اس کی پیشانی پر شکنیں ابھر آئیں - سارا مجسم اس کے خیالوں میں آ گئی تھی- پندرہ سال پہلے اس نے سارا کو دیکھا تھا- اس وقت وہ ایک خوب صورت دوشیزہ تھی-
" مجھے صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے اور اس سے رابطے کا کوئی ذریعہ تلاش کرنا چاہئے پھر اس تک پہنچنے کا راستہ بن جائے گا-" اس نے سوچا پھر وہ اٹھا اور آھستہ آھستہ چلتا ہوا کھڑکی کے قریب آیا اور دوربین اٹھائی اور سارا کے بنگلے کی سمت دیکھنے لگا- آخر شب کی ہواؤں میں خنکی آ گئی تھی- باہر تاریکی تھی صرف اوپری منزل کی کھڑکیاں روشن تھیں- ان کے پیچھے وہ پر اسرار ہستی شاید جاگ رہی تھی- ادھر اس کی آنکھوں سے بھی نیند اڑ گئی تھی اور ادھر روشن شیشے رت جگا منا رہے تھے-
یہ دوسرے دن کا واقعہ تھا- صبح رضا حسب معمول اسپتال جا رہا تھاجب سارا کے بنگلے کے قریب سامنے سے اچانک آنے والی ایک تیز رفتار کار سے بچنے کے لیے رضا نے اسٹیئرنگ گھمایا تو اس کی کار بے قابو ہو گئی اور بنگلے کے زنگ خوردہ فولادی گیٹ سے جا ٹکرائی - وہ گیٹ شاید اسی ٹکر کا منتظر تھا-اس کا ایک پٹ ٹوٹ کر زمین بوس ہو گیااور اس پر لگے ہوئے لیٹر بکس کا دروازہ کھل گیااور مختلف بلز اور کاغذات وغیرہ آ س پاس بکھر گئے- گیٹ ٹوٹنے اور گرنے کی آواز خاصی زوردار تھی- رضا نے گاڑی روکی اور نیچے اتر آیا- اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے- اسی وقت سارا کی ملازمہ زینب نہ جانے کہاں سے نکل کر گیٹ پر آ گئی اور لگی شور مچانے-
" یہ آپ نے کیا کیا؟ سارا بی بی کو پتا چلا تو خیر نہیں؟"
" خدا کے لیے چپ ہو جاؤ .......... میں اسے ٹھیک کروا دوں گا-" رضا نے جلدی سے کہا-
" کیسے ٹھیک کروائیں گے؟ کب ٹھیک کروائیں گے اور جب تک ہم کیا کریں گے؟ سمجھ میں نہیں آتا کے محلے والوں کو کیا ہو گیا ہے- کل وہ شریر لڑکے گھر میں کود آئے اور آج آپ نے گیٹ توڑ دیا- میں سارا بی بی کو اٹھاتی ہوں- وہ سو رہی ہیں- وہ خود ہی نمٹیںگی-" زینب نے تیز لہجے میں کہا
" میں نے کہا نا میں ٹھیک کروا دوں گا- ابھی اسپتال جا کر ملازم کو بھیجتا ہوں- وہ ٹھیک کر دے گا-انہیں اٹھانے ضرورت نہیں ہے-" رضا نے نرم لہجے میں رسانیت سے سمجھایا- زینب بڑبڑاتے ہوئے لیٹر بکس کے قریب بکھرے ہوئے کاغذات سمیٹ کر لے گئی-
وہ سارا کے کمرے میں آئ دیکھا وہ کھڑکی کے قریب کھڑی تھی- اس نے کاغذات ٹیبل پر رکھے اور کہا-
"آپ نے دیکھا وہ نکڑ پر والے ڈاکٹر نے ہمارا گیٹ توڑ دیا-"
"ہاں میں دیکھ رہی تھی .......... سنو وہ ملازم کو بھیج دے تو اپنی نگرانی میں گیٹ ٹھیک کروا دینا-"
" ٹھیک ہے...........ناشتہ تیار ہے-آپ ابھی کریں گی یا کچھ دیر بعد؟" زینب نے کہا-
" لے آؤ-" اس نے کہا اور ٹیبل کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھ گئی- زینب چلی گئی- وہ کاغذات دیکھنے لگی-کاغذات الٹ پلٹ کرتے ہوئے اس کی نظر ایک لفافے پر پڑی- اسے دیکھ کر وہ چونکی اس پر کوئی مہر وغیرہ نہیں تھی-لفافے پر صرف اس کا نام لکھا تھا -یعنی یہ خط کہیں سے پوسٹ نہیں گیا تھا بلکہ کسی نے جان بوجھ کر اس کے لیٹر بکس میں ڈالا تھا- اس نے لفافہ چاک کیا یہ خط تھا-سارا کے چہرے پر شدید حیرت تھی اسے خط لکھنے والا کون تھا-اس نے پڑھنا شروع کیا-
" پیاری سارا
یہ خط پڑھ کر تم یقیناً حیران ہو رہی ہو گی- تمھاری حیرانی بجا ہے- اس لیے کہ تمہیں پتا ہی نہیں کہ میں کون ہوں؟ تو سنو دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں تمہیں خط لکھ رہا ہوں- میں تم سے محبت کرتا ہوں-آج سے نہیں برسوں سے-جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا تو اس دن تم بہت خوبصورت لگ رہی تھیں- تمہارا بے مثال حسن دھک رہا- اسی لمحے میں تمھاری محبت میں گرفتار ہو گیا تھا-تمہارا وہ حسین چہرہ آج بھی میرے خیالوں میں موجود ہے اور وہ پیاری سی مسکان جو اس چہرے پرکھلی ہوئی تھی آج بھی ہے یا نہیں........
صرف تمہارا.........
خط لکھنے والے نے اپنا نام نہیں لکھا تھا-اس نے الٹ پلٹ کر خط دیکھا-
"کس نے کیا ہے یہ بیہودہ مذاق-" اس نے سوچا- خط پھاڑنے کے ارادے سے اس نے کاغز بلند کیا پھر رکی اور خط دوبارہ پڑھنے لگی- ایک بار دو بار پھر متعدد بار پڑھ ڈالا-اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب لکھنے والا کون ہے- وہ اٹھی تھی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کھڑی ہوئی آئینے میں اپنے عکس کو دیکھا تو خط کے الفاظ اس کے ذہن میں ابھرے-وہ پیاری سی مسکان جو اس چہرے پر کھلی ہوئی تھی آج بھی ہے یا نہیں-مسکرانے کی کوشش میں اس کے لب بھینچ کر رہ گئے اور آنکھوں کی ویرانی کچھ اور بڑھ گئی-شاید اس کے ہونٹ مسکرانا بھول چکے تھے-اسی وقت زینب ناشتے کی ٹرے اٹھائے کمرے میں آئ تو سارا نے جلدی سے خط مٹھی میں دبا لیا-
" ناشتہ ٹیبل پر رکھ دو اور تم جاؤ-" سارا نے کہا
زینب کے جانے کے بعد وہ کرسی پر آ بیٹھی اور دوبارہ خط پڑھنے لگی-پھر ایک لمبی سانس لے کر اس نے کاغزٹیبل پر ایک طرف ڈالا اور کرسی کی پشت سے سر ٹکا دیا- اس کا ذہن بری طرح الجھا ہوا تھا-
********************************
اسپتال پہنچتے ہی رضا نے ملازم کو گیٹ ٹھیک کرنے بھیج دیا تھا-شام کو جب وہ گھر واپس آ رہا تھا تب اس نے دیکھا کہ گیٹ کو نصب کر دیا گیا تھا-اور لیٹر بکس بھی بھی اپنی جگہ لگا دیا گیا تھا-اس نے اطمنان کی سانس لی اور کار کی رفتار تیز کردی-
دو تین دن گزرے تھے- سارا بہت بے چینی محسوس کر رہی تھی-اس راز سے پردہ نہیں اٹھا تھا کہ اسے وہ خط کس نے لکھا تھا-اس دن اس نے لیٹر بکس کھولا تو وہاں خط رکھا تھا-اس نے جلدی سے لفافہ اٹھا لیا اور ادھر ادھر دیکھا مگر اس پاس کوئی موجود نہیں تھا-وہ اپنے کمرے میں آ گئی خط کھولا تو اس میں لکھا تھا-
پیاری سارا
تم نے شاید میرے پہلے خط کو مذاق سمجھا ہو گا- لیکن یہ مذاق نہیں ہے- میں اپنے دلی جذبات ہر صورت تم تک پہنچانا چاہتا ہوں-اس لیے خط لکھنے پر مجبور ہوں کیونکہ تم سے رابطے کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے-نہ تم کسی سے ملتی ہو نہ سامنے آتی ہو-نہ جانے یہ خط تم تک پہنچ بھی رہے ہیں یا نہیں-لیکن پھر بھی میں تمہیں خط لکھتا رہوں گا-جب تک تمیں میری محبت پر یقین نہ آ جائے-تم سوچ رہی ہو گی کہ اتنے عرصے میں،میں نے تم سے رابطہ کیوں نہیں کیا تو سنو-میں یہاں نہیں تھا-لیکن اس تمام عرصے میں،میں تمہیں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں بھول سکا اور اس تمام عرصے میں دل نے بہت کہا کہ تمہیں دل کی بات بتا دوں مگر ہر بار رک گیا-یہ سوچ کر کہ تمھاری شادی ہو گئی ہو گی-یہاں آ کر پتا چلا کے تم نے ابھی تک شادی نہیں کی لیکن یہ پتا نہیں چلا کے تم نے شادی کیوں نہیں کی-بہرحال اب میں خود کو روک نہیں پایا-میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کے پچھلے طویل عرصے میں صرف اور صرف تم میرے خیالوں میں رہی ہو-میں تمھارے بارے میں سوچتا رہا ہوں-تمہاری وہ خوبصورت آنکھیں،ریشمی زلفیں اور دلکش سراپا آج بھی میری آنکھوں میں مجسم نظر آتا ہے-پیاری سارا میں آج بھی تم سے اتنی ہی محبت کرتا ہوں جیسے پہلے کرتا تھا-
صرف تمہارا..............
خط پڑھ کر وہ گم صم سی ہو گئی تھی-اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا-اس کی سانسوں کی رفتار تیز ہو گئی تھی-کمرے میں اسے گھٹن کا احساس ہو رہا تھا-وہ اٹھی اور تمام کھڑکیاں اور دروازے کھول دیے -وہ پھر کرسی پر آ بیٹھی اور ایک بار پھر خط پڑھنے لگی- وہ خط اس نے سینکڑوں بار پڑھ ڈالا تھا پھر وہ اٹھی اور آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی-اس نے برش اٹھایا اور بال سنوارنے لگی-کھڑکی سے آنے والی سنہری دھوپ میں اس کے عارض چمک رہے تھے-
" وہ کون تھا؟اور اس نے کب اور کہاں اسے دیکھا تھا؟" سوچ سوچ کر سارا کا ذہن تھک چکا تھااگر یہ مذاق تھا تو بڑا سنگین مذاق تھا اور اس کا مقصد کیا تھا؟یہ وہ سوال تھا- جس کا سارا کے پاس کوئی جواب نہیں تھا-
ایک ہفتہ گزر گیا تھا-وہ روز ہی لیٹر بکس دیکھ رہی تھی مگر وہ خالی تھا-کوئی خط نہیں آیا تھا-اس نے آ س پاس بھی نظر رکھی ہوئی تھی اور تو اور راتوں کو اٹھ کر بھی وہ کھڑکی سے نیچے جھانکتی رہتی تاکہ خط لیٹر بکس میں ڈالتے ہوئے وہ اس شخص کو پکڑ سکے جس نے اس کا چین و سکون برباد کر دیا تھا-اس دن وہ لیٹر بکس بند کر کے پلتٹی تو دیکھا سامنے بلال اور جنید غالباً کالج سے آ رہے تھے- وہ اسے گیٹ پر دیکھ کر ٹھٹک گئے تھے-پھر مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئے تھے-
"یار سارا اتنی بری بھی نہیں-اچھی خاصی خوبصورت ہے اگر اسے ڈھنگ کا لباس پہنا دیا جائے اور ہلکا سا میک اپ کر دیا جا ئے تو بہت پیاری لگے گی-"
"ہاں کہتا تو تو ٹھیک ہے-نہ جانے وہ ایسا حلیہ کیوں بنائے رکھتی ہے-"بلال نے کہا -
اوکے بلال شام کو ملتے ہیں-" جنید نے بلال سے ہاتھ ملایا اور اپنے گھر کی جانب قدم بڑھا دیئے-بلال نے سر ہلایا اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا-
"اگلے دن سارا نے لیٹر بکس کھولا تو خط وہاں موجود تھا-وہ دیکھ کر حیران رہ گئی تھی-اس پورے ہفتے اس نے کڑی نگرانی کی تھی مگر خط رکھنے والے کو پکڑ نہیں سکی تھی-نہ جانے اس شخص نے کب وہ خط وہاں رکھا تھا-بہرحال وہ وہیں پرندوں کے پنجروں کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھ گئی اور بے تابی سے خط کھولااور پڑھنے لگی لکھا تھا-
پیاری سارا
تمہیں یک طرفہ خطوط لکھنا پاگل پن نہیں تو کیا ہے-مگر میں پھر بھی لکھتا رہتا ہوں اور تمہیں سوچتا رہتا ہوں-میں اکثر خود سے سوال کرتا ہوں کہ اگر تم مجھے مل گئی ہوتیں اور ہماری شادی ہو جاتی تو ہماری زندگی کیسیہوتی اور میرا دل جواب دیتا ہے بہت خوبصورت- دراصل زندگی تو وہی ہوتی جو تمہارے ساتھ گزرتی یہ بھی کوئی زندگی ہے ویران اور اداس-
میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں سارا کہ میں تم سے بہت قریب ہوں اتنا کے جب چاہوں تمہارے سامنے آ سکتا ہوں مگر ڈر لگتا ہے کہ کہیں تم یہ نہ کہہ دو کہ تمہاری زندگی میں اب میری کوئی جگہ نہیں ہے-میں نے ایک طویل عرصہ صرف تمہاری یادوں کے سہارے گزارا ہے-اور اب میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا اور دنیا بھر کی خوشیاں میں تمہارے قدموں میں ڈھیر کر دینا چاہتا ہوں-تمہارے حسین چہرے کی وہ پیاری مسکان آج بھی میرے خیالوں میں موجود ہے-میرا چہرہ تو شاید تمہیں یاد بھی نہیں ہوگا-
تمہارا..............
سارا نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور خط تہہ کرکے لفافے میں ڈال دیا اور کرسی کی پشت سے سر ٹکا دیا-اس کی نظریں دور خلاؤں میں کچھ تلاش کر رہی تھیں-زینب جو نہ جانے کب وہاں آئ تھی اسے جو یوں بیٹھے دیکھا تو چونک گئی پھر پرندوں کو دانا ڈالنے کے لیے پنجروں کی جانب بڑھی-کافی دیر گزر گئی تھی-سارا اپنے خیالات میں ڈوبی ہوئی تھی-زینب پنجروں کی صفائی وغیرہ کر کے واپس پلٹی اور اس کے سامنے سے گزری تو سارا اپنے خیالات سے چونکی اور اس کی طرف دیکھا جو سر جھکائے اندر کی سمت جا رہی تھی-سارا نے آواز دی-
"زینب-"
"جی" وہ اس کے قریب چلی آئ -
"تم نے کسی کو بنگلے کے آ س پاس منڈلاتے ہوئے تو نہیں دیکھا؟"
"نہیں-" اس نے کہا پھر کچھ سوچ کر بولی-"ہاں ایک دو بار ڈاکٹر رضا کو ہمارے بنگلے کے سامنے کھڑے دیکھا ہے-وہ اکثر رات میں وہاں کھڑا آپ کے کمرے کی کھڑکی کو تکتا رہتا ہے-"
"اچھا-" اس نے حیرت سے کہا-پھر کچھ دیر بعد بولی "ٹھیک ہے تم جاؤ -"
وہ کچھ دیر وہاں بیٹھی سوچتی رہی-رضا سے اس کی ملاقات کب اور کہاں ہوئی تھی اسے بالکل یاد نہیں تھا-ہاں اسے یہ یاد تھا کہ رضا کی والدہ کافی عرصے پہلے اس کے رشتے کے سسلے میں اس کے گھر آئ تھیں-مگر پھر کیا ہوا تھا اور اس کے چچا نے کیوں انکار کیا تھا اسے کچھ پتا نہیں تھا-
"تو وہ تم ہو ڈاکٹر رضا-" اس نے دھیرے سے کہا پھر اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی اور اس خط کو باقی خطوط کے ساتھ ٹیبل پر ڈال دیااور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آ کھڑی ہوئی-وہ دیر تک آئینے میں اپنے عکس کو تنقیدی نظروں سے دیکھتی رہی پھر نہ جانے دل میں کیا آیا کہ الماری کے قریب آئ اسے کھولا اور اپنے ملبوسات دیکھنے لگی-جو برسوں سے وہاں رکھے تھے-اس نے ایک ایک کر کے ہینگر باہر نکالے اور بیڈ پر ڈھیر کر دیئے-سارے لباس آؤٹ آف فیشن ہو چکے تھے-اس نے ہاتھ بڑھایا اور سرخ لباس اٹھا لیا-آئینے کے سامنے آئ اور لباس خود سے لگا کر آئینے میں دیکھا-کمرے کی محدود روشنی میں لباس کی سرخی اس کے رخساروں پر جھلملا رہی تھی-وہ اپنے عکس کو محویت سے دیکھ رہی تھی-ایسے جیسے وہ اپنے آپ کو نہیں بلکہ کسی اجنبی لڑکی کو دیکھ رہی ہو اور پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو-ادھ کھلی کھڑکی سے خنک ہوائیں اس کے ریشمی بالوں سے کھل رہی تھی-وہ مسکرا دی-
****************************
جنید اور بلال جنید کے گھر کے باہر کھڑے باتیں کر رہے تھے جب بلال کی نظر بڑی سی سیاہ چادر میں لپٹی سارا پر پڑی تھی جو تیز قدموں سے چلتی کہیں جا رہی تھی-
"ارے یہ کہاں جا رہی ہے؟" بلال نے حیرت سے کہا-جنید کی پشت سارا کی جانب ہونے کی وجہ سے وہ اسے دیکھ نہیں سکا تھا-
"کون؟" وہ تیزی سے پلتا اور سارا کو دیکھ کر حیرت زد رہ گیا-
"کسی کام سے جا رہی ہو گی-" جنید نے کہا-
"لیکن یہ تو کبھی گھر سے نکلتی ہی نہیں تو پھر آج کیسے؟"
ان کی حیرت بھری نظریں اس کا تعاقب کرتی رہیں-سارا کے قدم لمحے بھر کے لیے ڈاکٹر رضا کے گھر کے سامنے رکے اس نے ایک نظر سر اٹھا کر اس کے گھر کی سمت دیکھا پھر آگے بڑھ گئی-
وہ ایک طویل عرصے کے بعد کھلی فضا میں سانس لے رہی تھی-سب کچھ اسےعجیب لگ رہا تھا-ہر نظر اسے اپنی جانب گھورتی نظر آ رہی تھی- وہ جھجکتی ہوئی مگر تیز قدموں سے چلتی وہاں سے دور نکل آئ تھی-
یہ ایک بہت بڑا اور مشھور شاپنگ مال تھا-جہاں وہ بڑے عرصے کے بعد شاپنگ کے لیے آئ تھی-وہ اپنے لیے کپڑے خریدنے ایک بوتیک میں گھسی اور کچھ دیر کھڑی ادھر ادھر دیکھتی رہی-اسے دیکھ کر ایک سیلز گرل اس کی طرف بڑھی-
"مے آئ ہیلپ یو میڈم؟" لڑکی نے کہا-
"مجھے اپنے لیے کچھ ڈریسز چاہیے-" اس نے جھجکتے ہوئے کہا-
" آئیں میرے ساتھ-"لڑکی کی رہنمائی میں اس نے کچھ ڈریسز پسند کے تھے-
"آپ چاہیں تو چینجنگ روم میں جا کر چیک کر سکتی ہیں-"لڑکی نے کہا تو ایک ڈریس اٹھا کر وہ چینجنگ روم میں چلی گئی-کچھ در بعد نیا ڈریس پہنے وہ باہر لگے قد آدم آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر خود کو تنقیدی نظروں سے دیکھنے لگی-بہترین تراش کا یہ لباس اس پر سج گیا تھا-
"میڈم آپ بہت خوبصورت لگ رہی ہیں-"لڑکی نے ستائشی نظروں سے اسے دیکھا-سارا نے چونک کر اسے دیکھا-کتنی مہربان تھی وہ لڑکی اور کتنا احترم تھا اس کے لہجے میں-یہ وہ دنیا تو نہیں تھی ہو اس نے سوچی تھی-
یہاں سے اس نے تین چار لباس خریدے تھے-وہاں سے نکل کر وہ ایک بیوٹی پارلر میں چلی گئی-جہاں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا تھا-وہ ہر ایک کو حیرت سے دیکھ رہی تھی-سب اس کی مدد کر رہی تھور اس کا حلیہ سدھا رنے میں جاتی ہوئی تھیں-کچھ دیر بعد ایک مختلف سارا ان کے سامنے تھی-برسوں کی بے توجہی نے جس حسن کو گہنا دیا تھا وہ اب دمک رہا تھا-
آھستہ آھستہ اس کا اعتماد بہال ہو رہا تھا- سب کچھ اسے اچھا لگ رہا تھا-اس دن اس نے ڈھیروں شاپنگ کر لی تھی-اس شاپنگ مال میں آئے اسے کئی گھنٹے گزر گئے تھےاور اسے زوردار بھوک لگی تھی-وہ اسی شاپنگ مال میں وقع ایک ریسٹورنٹ میں آ گئی اور ڈٹ کر کھانا کھایا پھر ویٹر کو بل ادا کر کے شاپنگ بیگز اٹھائے اور باہر نکل آئ -
وہ شاپنگ مال کے باہر کھڑی سواری کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھ رہی تھی-جب اس کی نظر اس ویٹر لڑکے پر پڑی جسے کچھ دیر پہلے وہ ریسٹورنٹ میں دیکھ چکی تھی وہ لڑکا دوڑتا ہوا اس کی جانب آ رہا تھا-یہ دیکھ کر وہ خوف زد ہو گئی تھی نہ جانے وہ کس ارادے سے آ رہا تھا-کچھ ہی دیر میں وہ اس کے نزدیک آ گیا اور اس کا پرس آگے بڑھاتے ہوئے بولا-
"میڈم آپ اپنا پرس ٹیبل پر بھول آئ تھیں-اس نے پرس تھا ما اور کھول کر دیکھا-پرس نوٹوں سے بھرا ہوا تھااس نے کچھ نوٹ نکالے اور ویٹر کی طرف بڑھائے-
نہیں جی یہ میں نہیں لے سکتا-" لڑکا جلدی سے بولا "رکھو یہ میں اپنی خوشی سے دے رہی ہوں-اس نے نوٹ اس کے ہاتھ میں پکڑائے جو اس نے تھام لیے تھے-یہ دنیا اتنی ڈراؤنی نہیں تھی جتنا وہ سمجھتی تھی-پھر وہ کس دنیا میں جی رہی تھی-اسے یوں لگ رہا تھا جیسے برسوں کی قید سے اسے آزادی مل گئی ہو-
اس دن جنید اور اور بلال کالج سے واپس آ رہے تھے جب سارا کے بنگلے کے سامنے سے گزرے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بنگلے کے سارے دروازے اور کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں اور لان میں ایک جانب گھر کا سامان دھرا تھا-جنید ٹھٹک کر رک گیا تھا-سامان کے قریب زینب کھڑی ہوئی تھی-
"چل بھائی رک کیوں گیا؟"بلال نے کہا تو جنید بولا تو جا میں ذرا پتا کر کے آتا ہوں سارا نے گھر کا سامان باہر کیوں نکالا ہے-بلال بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چلا گیا-جنید کھلے گیٹ سے اندر داخل ہو گیا-
"سارا میڈم کہیں شفٹ ہو رہی ہیں کیا؟ یہ سامان کیوں نکالا ہے؟" جنید نے زینب کے قریب آ کر استفسار کیا-
"کیوں تمہیں کیا مطلب کچھ خریدنا ہے تو بولو-نہیں تو چلتے بنو یھاں سے-" زینب نے کہا -
"سارا میڈم کہاں ہیں؟" وہ اندر جاتے ہوئے بولا "سنو کہاں جا رہے ہو؟ تم اندر نہیں جا سکتے-" زینب اس کے پیچھے لپکی لیکن اس نے زینب کی ایک نہیں سنی اور تیز قدموں سے اندرچلا گیا-اسی وقت سارا سیڑھیاں اترتی ہال میں آ گئی-جہاں جنید کھڑا حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا-یہ وہ سارا تو نہیں تھی جسے کچھ عرصے پہلے جنید نے دیکھا تھا-اس وقت وہ بلیک اور ریڈ کنٹراسٹ کے صوت میں انتہائی خوبصورت لگ رہی تھی-
"تم یہاں کیا کر رہے ہو؟"
"آپ کہیں جا رہی ہیں کیا؟" جنید نے پوچھا-"باہر سامان......."
"نہیں........ کچھ کا ٹھ کبا ڑ نکالا ہے-" سارا نے مسکراتے ہوئے کہا -
"اچھا-" اس نے اطمنان کی سانس لی اور تیزی سے باہر نکل گیا-وہ حیرانی سے اسے جاتا دیکھتی رہی-
دو تین دن گزرے تھے کہ اس دن صبح سویرے زینب نے وہ خط اسے لا کر دیا تھا-خط دیکھ کر اسے ایک انجانی سی خوشی ہوئی تھی-ان خطوط نے تو اس کی دنیا ہی بدل دی تھی وہ کیا سے کیا ہو گئی تھی-انہیں وہ باربار پڑھتی تھی-زینب کے جاتے ہی اس نے بے تابی سے لفافہ چا ک کیا اور خط پر نظریں دوڑانے لگی-
سارا
میں نہیں جانتا کہ تمہیں خط لکھنا چاہیے یا نہیں مگر ہر بار میں دل کے ہاتھوں مجبور ہو جاتا ہوں-بہت دل کو سمجھاتا ہوں مگر یہ نہیں مانتا-تنہا زندگی گزرنا آسان نہیں ہے-نہ جانے تم کیسے یہ زندگی گزار رہی ہو گی-بہرحال تم اس دنیا میں ہو اور یہ دنیا،خوشی اور محبت سب تمہارے سامنے باہیں پھیلائے کھڑے ہیں-بس انہیں آزمانے کی دیر ہے -سارا میں تم سے محبت کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا بغیر کسی وجہ کے اور بغیر کسی مقصد کے-تم اس وقت بھی میرے خیالوں میں ہو اور سنہری دھوپ نے تمہیں اپنی بانہوں میں جکڑ رکھا ہے یہ دھوپ نہیں میرا وجود ہے سارا-
صرف تمہارا-
وہ خط پڑھنے میں محو تھی اور ایک خوبصورت مسکا ن اس کے ہونٹوں پر پھیلی ہوئی تھی-وہ اٹھی اور کھڑکی میں آ کھڑی ہوئی-سامنے اپنے کمرے کی کھڑکی میں جنید کھڑا تھا-سارا کو اپنی جانب دیکھتے پا کر اس نے ہاتھ لہرایا تھا-سارا نے بھی مسکراتے ہوئے ہاتھ لہرایا-
جنید کے ایگزام ہو رہے تھے اور وہ بری طرح پڑھائی میں مصروف تھا--اس دن وہ پیپر کی تیاری کر رہا تھا اور اس کی امی کھڑکی میں کھڑی باہر جھانک رہی تھیں اسی وقت وہ اچانک بولیں-
"یہ سارا کی کا یا پلٹ کیسے ہو گئی؟ لگتا ہے اس نے گوشہ نشینی ترک کر دی-میں نے اکثر اسے شام کو باہر ٹہلتے دیکھا ہے-اس وقت بھی شاید سیر کے لیے نکلی ہے-" یہ سنتے ہی وہ اچھل کر بیڈ سے اترا اور کھڑکی کے نزدیک آ گیا-ان دونوں کی نظریں سارا پر پرمرکوز تھیں-جو سڑک پر خراماں خراماں چلی جا رہی تھی-سیاہ چادر میں لپٹا اس کا گورا چہرہ چمک رہا تھا اور سفید اور نازک ہاتھ بتا رہے تھے کہ وہ ایک خوبصورت دوشیزہ کے ہاتھ ہیں-
ڈاکٹر رضا جو غالباً اس وقت واک کے لیے نکلا تھا-اسے دیکھ کر حیرت زد رہ گیا تھا-جیسے ہی اس کی نظریں سارا کے حسین چہرے پر گئیں وہ ایک ساعت کے لیے سانس لینا بھول گیا-گلابی چہرہ گلاب کی پتیوں جیسے نازک ہونٹ.ستون ناک بڑی بڑی کٹورہ سی آنکھیں رضا کو دیکھ رہی تھیں اور رضا انہیں دیکھ رہا تھا-
آج اتنے طویل عرصے کے بعد اس نے سارا کو دیکھا تھا-پہلے اس نے جس سارا کو دیکھا تھا وہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ وہی تھی- اب بھی اس کے چہرے سے وہی بھولا بسرا چہرہ جھانک رہا تھا-وہ نزاکت اور شگفتگی کا ایک جیتا جاگتا نمونہ تھی-اس کے جسم کی شادابیاں آج بھی برقرار تھیں-وہ پتھر کی طرح سکت ہو گیا تھا-سارا ایک لمحہ کے لئے اس کے سامنے رکی تھی-پھر آھستہ قدموں سے چلتی آگے بڑھ گئی تھی--کچھ دور جا کر نہ جانے اس کے دلمیں کیا آیا کہ وہ واپس پلٹی اور آھستہ قدموں سے چلتی اپنے گھر کی سمت بڑھی-چلتے چلتے وہ رضا کے سامنے رک گئی اور الجھن آمیز نظروں سے اسے دیکھنے لگی-اس کی جھیل جیسی آنکھوں میں کئی سوال تھے-رضا سحر زدہ سا اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا-سارا نے نظریں جھکا لیں اور آگے بڑھ گئی-اور رضا بت بنا وہیں کھڑا اسے دور تک جاتے دیکھتا رہا-اس واقعے کے اگلے دن سارا کو وہ خط موصول ہوا جو اس کا آخری خط تھا-
پیاری سارا
یہ میرا آخری خط ہے جو تم تک پہنچے گا-مجھے خوشی ہے کہ تم نے میری محبت قبول کر لی ہے- مجھے اپنی محبت پر بھروسہ ہے کیونکہ یہ دل کا رشتہ ہے-احساس کا رشتہ ہے-اسے کوئی ختم نہیں کر سکتا-اور پیاری سارا جب کبھی بھی تم خود کو اکیلا پاؤ تو گھبرانا نہیں اور نہ ہی اداس ہونا بس مجھے سوچنا تم ہمیشہ مجھے خود کے قریب پاؤ گی-
ہمیشہ کے لیے تمہارا..........
پھر بہت سارے دن گزر گئے-سارا نے محلے میں میل ملاقاتیں شروع کر دی تھیں-رضا سے بھی وقتاً فوقتاً ملاقاتیں ہوتی تھیں- اور جنید ہائیر اسٹڈیز کے لیے ملک سے باہر چلا گیا تھا-
وہ پانچ سال بعد وطن واپس آیا تھا-اٹھارہ سالہ کھلنڈرے لڑکے سے جنید ایک خوبرو نوجوان میں تبدیل ہو چکا تھا-ائیرپورٹ پر اس کی امی اسے لینے آئ تھیں جو پہلے سے کچھ کمزور ہو گئی تھیں-انہوں نے بڑھ کے اسے گلے لگایا تھاوہ اپنے گھر کی جانب جا رہے تھے اور جب وہ اپنے محلے میں داخل ہوئے تو جنید کو سب بدلہ بدلہ سا لگ رہا تھا-جہاں سارا کا ویران بنگلہ تھا وہاں اب ایک شاندار عمارت کھڑی تھی-وہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا-
"سارا نے اپنا مکان بنوایا ہے امی؟" جنید نے پوچھا-
"نہیں اس نے اپنا بنگلہ فروخت کر دیا تھا-اب یھاں کوئی اور فیملی رہتی ہے-"
"کیا؟کب؟"جنید نے چونکا-
تمہارے جانے کے ایک سال بعد.........جاتے ہوئے وہ کسی سے مل کر بھی نہیں گئی-کسی کو اس کے بارے میں کچھ نہیں پتا کہ وہ کہاں گئی؟"
اس نے شادی نہیں کی؟ وہ تو ٹھیک ہو گئی تھی اور سب سے ملنے جلنے لگی تھی-" جنید نے کہا
"نہیں شادی تو نہیں کی تھی اس نے..........اور ہان ڈاکٹر رضا بھی تو چلے گئے-انہوں نے بھی اپنا مکان فروخت کر دیا تھا بلکہ سارا سے پہلے ہی وہ یہاں سے چلے گئے تھے- شاید بیرون ملک ہی چلے گئے ہوں گے-"انہوں نے خیال ظاہر کیا-یہ سب سن کر وہ ازحد پریشان ہو گیا-
"ارے تمہیں کیا ہوا کیوں پریشان ہو گئے؟"اس کے چہرے پر چھائی پریشانی کی تحریر دیکھ کر اس کی امی نے کہا -
"اسے کسی نے تلاش نہیں کیا ؟"اس نے دھیرے سے کہا -
"کون کرتا اس کا دنیا میں ہے ہی کون؟"گھر آ گیا تھا-جہاں سب اہل خانہ اس کے استقبال کے لیے موجود تھے-
وہ بہت بے چین تھا اور سارا کو بے قراری سے تلاش کر رہا تھا-ہر اس جگہ اس نے اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی جہاں امکان ہو سکتا تھا مگر یوں لگتا تھا جیسے اسے زمین نگل گئی ہو یا آسمان کھا گیا ہو-
اس کی زندگی کا واحد مقصد یہ رہ گیا تھا کہ سارا کو تلاش کرے - جانے وہ کس حال میں ہے-زندہ بھی ہے یا.........خدا نہ کرے-اس نے دل میں آئے اس خیال کو رد کیا تھا-
جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا اس کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی-اس کی سمجھ میں آ رہا تھا کہ اس نے سارا کے ساتھ کیا کیا تھا-اس نے اسے محبت بھرے خطوط لکھ تھے-اس وقت تو اسے پتا بھی نہیں تھا کہ محبت کیا ہوتی ہے اور اب جب وہ سمجھ سکتا تھا کہ محبت کیا ہوتی ہے اور کسی پر بھروسہ کرنا کیا ہوتا ہے انتظار کیا ہوتا ہے تو یہ بھی سمجھ میں آیا تھا کہ بھروسہ ٹوٹنے پر کیا گزرتی ہے اور دل کا ٹوٹنا کیا ہوتا ہے-وہ خط سارا کے لیے کیا تھے اسے اب احساس ہو رہا تھا-
"یہ میں نے کیا کیا اس کے ساتھ؟" اس نے سوچا-وہ ان دنوں اسے سوشل میڈیا پر تلاش کر رہا تھا-وہ تو نہیں ملی تھی مگر اس کے والد کے ایڈوکیٹ دوست مبین ملک مل گئے تھے-ان سے اس کی بات چیت ہوئی اور ان کا ایڈریس ملا تو دوسرے دن ہی وہ ان سے ملنے پہنچ گیا-
مبن ملک ان دنوں ریٹائرڈ زندگی گزر رہے تھے-جب اس نے انہیں اپنے وہاں آنے کا مقصد بتایا تو وہ بولے-
"بھئی میں سارا کی اجازت کے بغیر اس کا ایڈریس اور رابطہ نمبر تو تمہیں نہیں بتا سکتا مگر اتنا ضرور کر سکتا ہوں کہ تمہارا نمبر اس تک پہنچا دوں-"یہ سن کر اسے قدرے اطمنان ہوا تھا کہ وہ ٹھیک ہے اور اسی شہر میں کہیں رہتی ہے-اس نے اپنا موبائل نمبر وغیرہ ایک چٹ پر لکھ کر دے دیا تھا اور وہاں سے رخصت ہو گیا تھا-
کئی دن گزر چکے تھےمگر وہ فون کال نہیں آئ تھی-جس کا وہ شدت سے منتظر تھا-پھر کئی ہفتے گزر گئے سارا کا فون نہیں آیا اور اب تو وہ مایوس ہو چلا تھاکہ اس دن اچانک اس کے موبائل کی گھنٹی بجی-
"ہیلو........... کون ہیں آپ؟" ایک اجنبی نسوانی آواز نے اسے چونکا دیا-
"مم........میں..........آپ کون بول رہی ہیں؟"
سارا نے نمبر کنفرم کیا"آپ اس نمبر سے بات کر رہے ہیں؟"
"جی"
"کون ہیں آپ؟"
"آپ بتائیں محترمہ کال آپ نے کی ہے"
"میں وہی ہوں جسے آپ تلاش کر رہے ہیں-"مبن ملک صاحب نے مجھے یہ نمبر دیا تھا-کیا میں جان سکتی ہوں کہ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟"اس کا دل تیزی سے دھڑکا-
"میں جنید........"
"اوہ جوجو تم.......؟"پھر دیر تک دونوں باتیں کرتے رہے اور سارا نے اسے اپنے گھر انوائٹ کیا تھا-
اگلے دن وہ سارا کے بے حد شاندار بنگلے میں جو شہر کے ایک پوش ایریا میں وقع تھا ڈرائنگ روم میں اس کے مقابل صوفے پر بیٹھا تھا-گلابی لباس میں اپنے گلابی وجود کے ساتھ وہ بہت خوبصورت اور باوقار لگ رہی تھی-اس کے استفسار پر وہ اپنی روداد سنا رہی تھی-
"یقین کرو جنید ان خوبصورت خطوط نے مجھے میرے ہونے کا احساس دلایا تھااور میری زندگی بدل کر رکھ دی تھی-" سارا نے کہا-اسی وقت ایک تین چار سال کا خوبصورت سا بچا دوڑتا ہوا اندر آیا اور ممی کہتا ہوا سارا سے لپٹ گیا-
"انکل سے ہاتھ ملاؤ سمیر-" سارا نے بچے سے کہا -"یہ میرا بیٹا ہے-"
"کہاں ہو سارا کون آیا ہے؟"ڈاکٹر رضا کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولے-
یہ میرے ہزبینڈ ہیں رضا-تم تو انہیں جننتے ہو-"
"ارے جنید آیا ہے-" وہ آگے بڑھے اور اس سے بغل گیر ہو گئے-
"تو آپ کو وہ مل گیا؟" جنید نے سارا سے کہا -
"خط لکھنے والا تو نہیں ملا مگر محبت مل گئی-"سارا نے رضا کی جانب دیکھتے ہوئے کہا جو محبت پاش نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا-
"بھئی میں تو اس شخص کا شکر گزار ہوں جس نے سارا کو وہ خطوط لکھ تھے-ورنہ یہ قیدیوں جیسی زندگی گزا رتی رہتی اور مجھے کبھی نہ ملتی-کیوں سارا؟"
اور جنید سوچ رہا تھا-آپ کو وہ کبھی نہیں ملے گا-اس کا اس دنیا میں کوئی وجود نہیں ہے-کیونکہ اسے تو اس نے اپنے خیالوں میں تخلیق کیا تھا-
"لیکن تم بتاؤ مجھے کیوں ڈھونڈ رہے تھے؟"سارا نے کہا تو وہ گڑبڑا گیا-پھر سنبھل کر بولا-
"اپنی شادی پر آپ لوگوں کو انوائٹ کرنا تھا-" دونوں نے اسے مبارک باد دی تھی-اور جنید نے ان کے خوشیوں سے سرشار چہروں کو دیکھ کر اطمینان کی سانس لی تھی- (ختم شد )

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے