جب میری شادی ظفر سے ہوئی تو میری نند کا نکاح میرے بھائی نوشیرواں سے کر دیا گیا تھا۔ رخصتی دو سال بعد ہونی تھی کیونکہ نوشیرواں ابھی پڑھ رہے تھے۔ والد صاحب اور ماموں ہمیشہ سے گاؤں میں رہے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ دونوں کی زمین مشترک تھی البتہ والد صاحب کی دو بسیں اور ایک پیٹرول پمپ بھی تھا، جو والد صاحب کے ایک رشتہ دار کی نگرانی میں چلتا تھا۔
نوشیرواں بھائی چونکہ پڑھائی کے سلسلے میں لاہور میں ہی رہتے تھے، اس لئے پیٹرول پمپ کی آمدنی وہی سنبھالتے تھے۔ یہ کہنا سچ ہوگا کہ وہ اس آمدنی کے مالک بنے ہوئے تھے۔ والد صاحب نے ان کو کہہ رکھا تھا کہ تم مناسب خرچہ لے لیا کرو اور باقی رقم بینک میں جمع کر دیا کر۔ بابا جان کو پیسے کی پروانہ تھی۔ سوچا تھا کہ بیٹا کاروبار میں دلچسپی لے گا تو کچھ تجربہ حاصل کرلے گا۔ ان دنوں میرے بھائی کی عمر بیس برس تھی۔ بابا جان سمجھ رہے تھے کہ کشمالہ جیسی اچھی لڑکی سے نوشیرواں کا نکاح کر کے انہوں نے گویا بیٹے کو کھونٹے سے باندھ دیا ہے اور اب اس کے کہیں جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کشمالہ خوبصورت تھی، بھائی کو پسند بھی تھی تبھی تو نکاح کر لیا تھا۔ میری اس ماموں زاد میں بلاشبہ کوئی کمی نہ تھی، البتہ وہ شروع سے گاؤں میں رہی تھی، اس لیئے شہری لڑکیوں جیسی ہوشیار نہ تھی، تاہم خوشحال گھرانے سے تعلق کے سبب پہننے اوڑھنے کا سلیقہ اور رکھ رکھاؤ ایسا تھا کہ پڑھی لکھی لڑکیوں سے زیادہ اچھی لگتی تھی۔ میٹرک پاس تھی۔ کالج نہ پڑھ سکی کہ ہمارے گاؤں میں کالج تھا ہی نہیں۔
بابا جان نے گلبرگ کے علاقے میں بنگلہ بنوا کر بھائی کے سپرد کر دیا تھا۔ کچھ دنوں بعد انہوں نے بابا جان کو بتایا کہ بنگلہ کرایے پر دے دیا ہے کیونکہ کالج سے دور پڑتا تھا اور اتنے بڑے بنگلے میں اکیلے کیسے رہتے ؟ لہذا کالج کے پاس ہی ایک کمرے کا مکان لے لیا ہے۔ بابا جان نے یہ معاملہ بیٹے پر چھوڑ دیا اور خود تحقیق کرنے نہ گئے ۔ اس دوران ایک لڑکی عنبرین سے بھائی کی ملاقات ہو گئی ۔ یہ لڑکی بھائی کے پڑوسی کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے آتی تھی۔ وہ ایک غریب فیملی سے تھی۔ اس کے والد تقسیم کے وقت نئے وطن کی طرف آتے ہوئے شہید ہو گئے تھے، بیوہ ماں اور ایک چھوٹا بھائی تھا۔ ان لوگوں نے بچپن سے مفلسی کے دکھ دیکھے تھے۔ میرے بھائی نوشیرواں ایک رحم دل انسان تھے۔
ایک روز وہ کالج سے لوٹ رہے تھے کہ، عنبرین کو دیکھا جو تیز تیز قدموں سے تقریبا بھاگی جارہی تھی۔ اس کے پیچھے دو بدمعاش آرہے تھے، جو اس کے تعاقب میں تھے۔ یہ دیکھ کر بھائی نے عنبرین کے پاس گاڑی روک دی۔ وہ جانتے تھے کہ یہ لڑکی اس وقت پڑوسی کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے آتی ہے۔ انہوں نے پوچھا۔ کیا بات ہے؟ کیوں گھبرائی ہوئی ہو؟ اتنے میں وہ لڑ کے نزدیک آگئے تو بھائی نے عنبرین سے کہا۔ تم گاڑی میں بیٹھوں میں ان سے نمٹ لوں ۔ جو نہی نوشیرواں ان کے قریب گئے، وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ بھائی کی رہائش تھوڑی دور ہی تھی ، وہ عنبرین سے بولے کہ تم گاڑی میں بیٹھی رہو، میں تم کو گلزار صاحب کے گھر پر اُتار دوں گا۔ پانچ منٹ کی مسافت پر گھر تھا، وہاں پہنچے تو دیکھا کہ دروازے پر تالا لگا ہوا ہے۔ وہ پریشان ہو کر بھائی کو دیکھنے لگی۔ نوشیرواں نے کہا۔ کوئی بات نہیں گلزار صاحب والوں کو ایمر جنسی میں جانا پڑا ہوگا۔ تم ڈرو نہیں، میں تمہیں، تمہارے گھر ڈراپ کر دیتا ہوں۔ وہ دوبارہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ جب گھر کے دروازے پر اترنے لگی تو بولی۔ آپ میری امی سے مل لیجئے ، ورنہ وہ پونچھیں گی کہ کس کے ساتھ آئی ہو۔ یوں بھائی اس کے ساتھ گھر کے اندر چلے گئے، اس کی امی سے ملے ، احوال پوچھا اور کہا کہ بیٹی کو اتنی دور اکیلے مت بھیجا کریں ۔ باہر کے حالات آپ کو نہیں پتا۔
آپ کی بچی بہت سیدھی سادی ہے۔ کیا کروں بیٹا امالی مجبوری نہ ہوتی تو کیوں باہر جانے دیتی ۔ اسکول سے آکر ٹیوشنز پڑھاتی ہے تو خرچہ چلتا ہے، اس کا بھائی بھی پڑھ رہا ہے اور کوئی کمانے والا نہیں ہے۔ اس طرح بھائی نے اس گھرانے کو سہارا دینے کی ٹھان لی اور ان کی مالی مدد کرنے لگے۔ عنبرین کے بھائی کو موٹر سائیکل لے کر دی تا کہ وہ بہن کو سہولت سے لے جا سکے۔ اس لڑکے کا نام عمر تھا۔ وہ ماں کا واحد سہارا تھا لیکن قسمت پر کسی کا بس نہیں۔ جو پہلے سے دکھی ہوتے ہیں، زیادہ دکھ بھی ان ہی کو ملتے ہیں، سو اس بیوہ دکھیاری کے بیٹے کو نیا موٹر سائیکل راس نہ آیا اور وہ ایکسیڈنٹ میں ختم ہو گیا۔ وہ تو جیتے جی مرگئی ۔ بھائی پر بھی اس کا بہت اثر ہوا اور انہوں نے ان ماں بیٹی کا مستقل سہارا بننے کی ٹھان لی۔ وہ بیوہ عورت تو پہلے ہی بیٹی کے رشتے کے لئے پریشان تھی ۔ اس نے فورا ہاں کہہ دی اور بیٹے کی وفات کے ڈیڑھ ماہ بعد آس پڑوس کے دو چار لوگوں کو بلا کر عنبرین کا نکاح نوشیرواں سے پڑھوا دیا۔ اس خاتون نے لڑکے کے رشتہ داروں کی غیر موجودگی کو بھی اہمیت نہ دی۔ یوں بھائی نے والدین سے چھپ کر شادی کر لی اور ان ماں بیٹی کو لے کر بنگلے میں آگئے۔
ساس، اپنے بیٹے کو یاد کر کے بہت غمزدہ رہتی تھی اور نوشیرواں ان کی دل جوئی کرتے۔ انہیں گاڑی بھی لے دی اور ڈرائیور رکھ دیا۔ عنبرین نے گاڑی چلانا سیکھ لی تو وہ خود ڈرائیو کر کے ماں کو باہر لے جاتی ۔ جب تک نوشیرواں نے ایم ایس سی کیا، وہ دو بچوں کے باپ بن چکے تھے اور ہمیں اس امر کی کانوں کان خبر نہ ہوسکی۔ ہم تو گاؤں میں رہتے تھے۔ یہ تمام عرصہ بھائی صاحب نے بہت احتیاط اور رازداری سے گزارا۔ بابا جان کا ارادہ تھا کہ تعلیم مکمل کرلے تو بیٹے کو پیٹرول پمپ سونپ کر ان کی شادی کشمالہ سے کر دیں گے اور وہ شہر والے بنگلے میں چلی جائے گی۔ خبر نہ تھی کہ وہاں تو پہلے سے ہی ایک بہو، پوتا پوتی کے ساتھ موجود ہے۔ ایک دن میرے شوہر نے مجھے کہا کہ ہم شہر شفٹ ہو جاتے ہیں۔
وہاں تمہارے بابا کا بنگلہ ہے۔ کشمالہ بیاہ کر وہاں چلی جائے تو ہم بھی اُس کے ساتھ رہنے لگیں گے۔ چونکہ ہمارے بچے اسکول جانے کے لائق ہو چکے تھے لہذا میں نے صلاح دی۔ ہمیں انہی دنوں شفٹ ہو جانا چاہئے کیونکہ یہ داخلوں کا سیزن ہے۔ انہوں نے اتفاق کیا اور ہم شہر میں شفٹ ہو گئے ۔ بھائی نے بتایا ہوا تھا کہ بنگلے میں کرایے دار ہیں، لہذا ہم نے کرایہ پر گھر لے کر قریب کے ایک اسکول میں اپنے بچوں کا داخلہ کروا دیا۔ انہی دنوں بھائی کا ایم بی بی ایس کا رزلٹ آگیا اور بابا جان ان کی شادی کی تیاریوں میں لگ گئے۔ ایک روز میرا گزر بابا جان کے بنگلے کی طرف ہوا تو سوچا کہ دیکھوں تو کون لوگ بنگلے میں کرایے پر رہتے ہیں؟ گیٹ پر بیل دی۔ ذرادیر میں گیٹ کھل گیا اور ملازمہ نے پوچھا۔ آپ کون ہیں۔ میں نے کہا کہ نوشیرواں صاحب کی مہمان ہوں۔ ملازمہ مجھے اندر لے گئی۔ عنبرین کمرے سے نکل کر آگئی اور پوچھا آپ کون ہیں اور کہاں سے آئی ہیں؟ میں نے بتایا کہ نوشیرواں میرے بھائی ہیں۔ اس نے شاید صورت حال بھانپ لی، کہنے لگی کہ میں ان کی کرایے دار ہوں، میرے شوہر دبئی میں ہوتے ہیں۔
وہ مجھے اچھی لگی تھی۔ میں نے اُسے بتایا کہ نوشیرواں کی شادی ہو رہی ہے اور میں ادھر اس کی شادی کی خریداری کے سلسلے میں آئی تھی۔ وہ کہنے لگی کہ کیا آپ مجھے اپنے بھائی کی شادی میں نہ بلائیں گی؟ کیوں نہیں ۔ تو پھر پتا لکھ دیجئے ۔ کچھ دنوں بعد وہ ہمارے گھر آئی لیکن دوبارہ نہ آئی۔ شاید بھائی نے منع کر دیا ہو۔ بچوں کی چھٹیاں تھیں میں بھی گاؤں چلی گئی اور اُسے دوبارہ نہیں ملی۔ جب میرے پاس ڈرائیور نہ ہوتا تو بھائی اپنا ڈرائیور لے آتے، وہ میرے بچوں کو اسکول چھوڑ دیتا۔ ایک روز میرے بیٹے نے بتایا۔ امی ماموں کا ڈرائیور پہلے دو بچوں کو ان کے گھر چھوڑتا ہے پھر ہمیں لاتا ہے۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ دو بچے کون ہیں؟ ڈرائیور سے پوچھا۔ اس نے کہا۔ بیگم صاحبہ میرا ایک دوست ڈرائیور ہے۔ کبھی اس کی کوئی مجبوری ہوتی ہے تو میں اس کے صاحب کے بچوں کو اسکول سے لے لیتا ہوں۔ میں خاموش ہو گئی۔ ایک روز پھر سے گلبرگ کی طرف جانا ہوا۔ میں نے دیکھا بھائی کی گاڑی بنگلے کے گیٹ پر رکی ہوئی ہے اور دو بچے اتر کر اندر چلے گئے۔ تب میں نے ڈرائیور کو سختی سے ڈانٹا۔ اس نے بتا دیا کہ بی بی یہ آپ کے بھائی نوشیرواں کے بچے ہیں۔ یہ سنتے ہی میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے۔ میری شادی وٹے سٹے میں ہوئی تھی۔ سو یہ بات تو طے تھی کہ اب کشمالہ کا معاملہ کھٹائی میں پڑنے والا ہے۔ اگر اسے طلاق ہوئی تو مجھے بھی طلاق ہو جائے گی۔ اگر اس پر سوتن ہے تو ظفر بھی مجھ پر سوتن لا ڈالے گا کیونکہ بھائی کا نکاح تو کشمالہ سے ہو چکا تھا۔
مجھے معاملات کی گمبھیرتا کا اس قدر خوف ہوا کہ دو دن بخار میں پڑی رہی ۔ بہت سوچنے کے بعد میں ایک دن پھر ان کے بنگلے پر گئی۔ عنبرین وہاں موجود تھی۔ میں نے پوچھا کہ میرا بھائی کہاں ہے؟ وہ بولی۔ مجھے خبر نہیں۔ تبھی وہ مجھے ایک بیڈ روم میں نظر آگئے۔ میں نے کہا۔ بھائی تم نے یہ کیا کیا ؟ اپنا گھر تو بسالیا۔ اب میرا اور کشمالہ کا کیا بنے گا ؟ وہ ہاتھ جوڑ کر بولے۔ آپا مجھے معاف کر دو۔ میں نے بہت مجبوری میں یہ شادی کی تھی۔ کیا تمہیں اپنے بچپن کی منگیتر کا پاس نہیں تھا، جو تمہاری منکوحہ اور میری نند بھی ہے۔ کیا ہم اتنے رشتے توڑ سکتے ہیں؟ میں عنبرین کو بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا۔ اس کا میرے سوا اس دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔ یہ بہت دکھی اور میرے بچوں کی ماں ہے۔ بتاؤ میں کیا کروں ؟ میں خود گھر والوں سے چھپ چھپ کر تنگ آگیا ہوں۔ اچھا ہوا، تم کو پتا چل گیا ہے۔
بے شک جائیداد ملے نہ ملے، مجھے بابا جان سے کچھ نہ چاہئے۔ ارے بھائی! اصل چیز تو تمہارا کشمالہ سے نکاح ہے۔ کیا اُسے طلاق دو گے؟ تب کیا ممانی مجھے اپنے گھر میں رہنے دیں گی؟ یا اس سے شادی کر کے نکاح کی لاج رکھو گے۔ تب میرا شوہر بگڑے گا کہ میں بھی تم پر سوتن لاتا ہوں۔ نوشیرواں بھائی نے سر پکڑ لیا اور میں روتی ہوئی گھر آگئی ۔ گھر آئی تو دل پھٹ رہا تھا۔ ہمت کر کے ظفر کو بتا دیا اور رونے لگی۔ کچھ دیر گم صم رہنے کے بعد وہ بولے۔ فکرمت کرو، میں تم کو چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ہمارے بچے ہیں۔ ہم یوں ان کو برباد نہ کریں گے۔ یہ میرا تمہارا نہیں، صرف میری بہن اور امی ابا کا معاملہ ہے۔ اب ان لوگوں کو منانا اور سمجھانا ہے۔ پہلے بھائی سے تو پوچھو جو اتنے سالوں سے میری بہن کو منکوحہ بنا کر انتظار میں بٹھایا۔ میں نے نوشیرواں کو فون کیا کہ میرے گھر آجاؤ، ظفر سے بات کرلی ہے۔ یہ کشمالہ کے بڑے بھائی ہیں۔ یہاں جو فیصلہ ہوگا، وہی سب کو ماننا ہوگا۔ نوشیرواں، بچوں اور عنبرین کے ساتھ آگئے۔ آتے ہی عنبرین میرے بھائی کے قدموں میں بیٹھ کر بولی ۔ بھائی ! ہمیں معاف کر دیجئے اور اپنی بہن کشمالہ کے پاس لے چلئے۔ میں آپ کے والدین کے قدموں میں بیٹھ کر نوشیرواں کی معافی کی درخواست کروں گی۔ مجھے علم نہ تھا کہ یہ پہلے سے نکاح کئے ہوئے ہیں، نہ میری ماں کو خبر تھی ورنہ وہ بھی میری شادی ان کے ساتھ نہ کرتیں۔
اب اگر آپ نے ہمیں معاف نہ کیا، تو سزا مجھے اور میرے بچوں کو ملے گی۔ ظفر اور میں نے ایک ساتھ ان کے بچوں کی طرف دیکھا اور ان معصوموں پر پیار آ گیا۔ اپنا ہی خون تھا۔ ماں کی باتیں سن کر وہ رونے لگے تھے، میں بھی رو پڑی۔ ابھی ہم یہ باتیں کر رہے تھے کہ کشمالہ اپنے چھوٹے بھائی مظہر کے ساتھ آگئی ۔ وہ شہر ، شادی کا سامان خرید نے آئی تھی۔ اس کی اچانک آمد پر ہم ہکا بکا رہ گئے۔ بھابھی ! یہ کون ہیں؟ اس نے مجھ سے پوچھا۔ نوشیرواں دم سادھے بیٹھے تھے ، تب ظفر کو بتانا پڑا کہ یہ نوشیرواں کے بیوی بچے ہیں۔ تبھی عنبرین نے اس کے قدموں پر ہاتھ رکھ دیئے اور کہا۔ کشمالہ باجی! میری کوئی خطا نہیں۔ جو کہنا ہے، ان سے کہئے، مجھے معاف کر دیجئے ۔ میں آپ کی نوکر بن کر رہوں گی ۔
کشمالہ کا چہرہ سرخ اور آنکھوں میں آنسو اٹکے ہوئے تھے۔ عجب دلدوزسین تھا۔ اس کا غصہ کیوں نہ نکلتا ؟ دل بری طرح ٹوٹا تھا اور مان بھی ۔ میں بھی عجب کیفیت سے گزر رہی تھی ۔ ایک طرف پیاری نند تھی، جو ماموں زاد بھی تھی۔ اس کے آنسو گر رہے تھے اور یوں چپ تھی۔ دوسری جانب عنبرین کی حالت پر بھی ترس آتا تھا۔ کشمالہ دوسرے کمرے میں جا کر بیٹھ گئی تھی۔ میں اس کے پاس گئی اور کہا۔ تم ہاتھ منہ دھولو کشمالہ، ہم اس کا کوئی حل نکالتے ہیں۔ وہ بولی ۔ اچھا برا، جو مرضی حل نکالتی رہو، مجھے واپس جانا ہے ابھی۔ مظہر سے کہئے، مجھے گاؤں چھوڑ آئے۔ ٹھیک ہے، میں کہتی ہوں ۔ اُسے کچھ کھا لینے دو، تم بھی چائے پیالی پی لو، ابھی تو سفر سے آئی ہو مگر اس نے واپس جانے کی ٹھان لی تھی، چلی گئی۔ اس نے نوشیرواں کی بات سننے سے انکار کر دیا تھا۔ ظفر اسے روکتے رہ گئے مگر وہ رکنے والی نہ تھی کیونکہ غم کا طوفان ہی اتنا بڑا تھا۔ ظفر اور میں پریشان تھے اور نوشیرواں، اس کا حال کیا لکھوں۔
مجھے گاؤں جانا تھا، لیکن نوشیرواں کے بچے بیوی اکیلے تھے، وہ ان کو میرے سپرد کر کے ظفر کے ساتھ گاؤں چلے گئے تا کہ وہاں حالات کو سنبھالا جا سکے ۔ عنبرین نے الگ رونا مچایا ہوا تھا۔ کہتی تھی۔ باجی مجھ کو اب صرف آپ کا آسرا ہے۔ خدا کے لئے مجھے اور بچوں کو نوشیرواں سے جدا نہ ہونے دینا۔ خدا کی قسم، مجھے طلاق ہوئی تو زہر کھا کر مر جاؤں گی۔ ایک ہفتہ کے انتظار کے بعد ظفر واپس آئے اور بتایا کہ مردوں سے زیادہ عورتوں نے عنبرین کی طلاق کے لیئے شور مچایا تھا۔ سب کی ہمدردیاں ظاہر ہے کشمالہ کے لئے تھیں اور اس کی ایک ہی شرط ہے کہ جب تک عنبرین کو طلاق نہ ہو گی، میں نہیں مانوں گی۔ بے شک نوشیرواں بچے لے آئے ، ہم اُن کو پال لیں گے مگر سوتن کو میں برداشت نہیں کر سکتی۔
تب میں نے یہ آخری حربہ آزمایا۔ میں ظفر کے ساتھ نوشیرواں کے بچوں کو لے کر گاؤں چلی گئی اور ان کو کشمالہ کی گود میں ڈال کر کہا کہ لو، پہلے ان کو دیکھو۔ اگر انہیں پال سکتی ہو تو ٹھیک ہے، ہم بچے عنبرین سے لے کر اس کو طلاق کروا دیتے ہیں۔ بچے پریشان تھے۔ کشمالہ رونے لگی تو اُسے دیکھ کر وہ بھی رونے لگے ۔ ایک کی عمر پانچ اور دوسرے کی چار سال تھی۔ بڑا والا کشمالہ کے آنسو پوچھنے لگا اور چھوٹی گڑیا نے اس کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور بولی۔ آنٹی، آپ نہ رویئے ۔ بڑے نے بھی کہا۔ ہاں آنٹی، آپ بابا جانی کے ساتھ رہئے۔ ہم اپنی امی کو لے کر دور چلے جائیں گے۔ میں نے بچوں کو بتا دیا تھا کہ یہ آپ کی دوسری امی ہیں اور اس لئے روتی ہیں کہ آپ کے بابا جانی نے، آپ کی امی سے شادی کر لی ہے۔ بچے کم سن ضرور تھے مگر سمجھ دار تھے ۔ وہ جس طرح کشمالہ کی اشک شوئی کر رہے تھے، اپنی پیاری پیاری باتوں سے اس کا غم کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے، یہ حیران کن تھا۔
ان کو دیکھ کر میری امی بھی رورہی تھیں، جو پہلے عنبرین کو طلاق دلوانے کے حق میں تھیں ، اب مہر بہ لب تھیں۔ اس کے بعد مردوں کی میٹنگ ہوئی۔ نوشیرواں کو لعنت ملامت کی گئی، برا بھلا کہا گیا، جو میرے بھائی نے سر جھکا کر سنا۔ بالآخر ماموں نے فیصلہ دیا۔ نوشیرواں کی کشمالہ سے شادی ہوگی اور وہ اُسے بھی شہر میں اپنے ساتھ رکھے گا لیکن علیحدہ گھر میں۔ چونکہ دوسری بیوی سے دو بچے ہو چکے ہیں، لہذا اُسے بے شک طلاق نہ دے مگر ہماری بیٹی کا ہر طرح سے خیال رکھنا اُس کا فرض ہے۔ مرد ایک سے زیادہ شادیاں کرتے ہیں ، ہمارے بڑوں نے بھی کیں، لہذا لازم نہیں کہ اس کہانی کو کسی المیے کے ساتھ بند کریں۔ بے شک یہ وٹے سٹے کا معاملہ سہی، مگر میں اب اس رواج کو بدلوں گا۔ یہ کہہ کر ماموں نے اپنے آنسو پونچھے تو نوشیرواں نے ان کے پیروں پر ہاتھ رکھ کر معافی مانگی۔
ظفر نے بھی سکون کا سانس لیا کہ عنبرین کا بھی قصور نہ تھا۔ اس نے لو میرج نہیں کی تھی، صرف ماں کے فیصلے کو مانا تھا۔ یہ ساری کہانی عجیب و غریب نہیں تھی لیکن نہ بھلانے والی تھی۔ نوشیرواں نے ماموں سے جو وعدہ کیا، اس پر عمر بھر کار بند رہے۔ کشمالہ نے بھی سوتن کا گھاؤ لیا۔ دونوں بھا بھیاں اچھی ہیں، دونوں مجھے عزیز ہیں ۔ اگر عنبرین نے سر جھکا کر زندگی گزاری تو کشمالہ نے بھی انسانیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ کبھی کبھی زندگی میں بڑے مشکل فیصلہ کرنا پڑتے ہیں۔ تبھی اچھے لوگ جب حوصلے سے کام لیتے ہیں تو مسئلے سلجھ جاتے ہیں اور ایسے لوگوں کو ہی خاندانی کہا جاتا ہے۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
1 تبصرے
Bhot ala
جواب دیںحذف کریں