زہریلی ناگن اور شادی کی رات

 

 زہریلی ناگن اور شادی کی رات

تحریر: سلجیتا قریشی
 
زندگی کے ہزاروں رنگ ہیں اور ہر رنگ کو حقیقت پسندی سے قبول کرنے میں ہی عافیت ہے۔ اکثر لوگ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ خطرہ ٹل گیا یا وقت بدل جائے گا مگر یہ ہی سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے، جب تک آنکھیں کھلتی ہیں تب تک ہر منظر بدل چکا ہوتا ہے، آنکھیں اس منظر سے آشنا نہیں ہوتیں اور پھر آپ اندھوں کی طرح ہی زندگی گزار دیتے ہیں۔ فیصلے کی گھڑی میں حقیقت سے منہ موڑنے والے ہمیشہ کے لیے اندھے بن جاتے ہیں۔

کمرے میں ٹہل ٹہل کر اس کی ٹانگیں شل ہو گئیں مگر کوئی حل اسے نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اپنی الجھنیں کس سے بیان کرے کیونکہ بظاہر کوئی خاص بات نہیں تھی اگر کسی سے کہتی بھی تو شاید اس کی کم عقلی یا نادانی کوہی دوش دیا جا تا۔

ہمیشہ سے سنتی آئی تھی کہ سسرال کسی امتحان گاہ سے کم نہیں ، آپ سو میں سے سونمبر لینے والی تیاری کر کے بھی کمرہ امتحان میں آؤ تو بھی پاس نہیں ہوسکو گے، سسرال وہ جگہ ہے جہاں اونٹ کو سوئی کے سوراخ میں سے گزارا جاتا ہے۔
بھابھی کہتی تھیں خاوند سرہانے کا سانپ ہوتا ہے جو کسی وقت بھی ڈس لیتا ہے، خاوند پر اندھا اعتماد اس کے ڈنک کو اور زہر یلا بنادیتا ہے۔

وہ سسرال سے متعلق کہاوتیں سچ ہوتی دیکھ چکی تھی اوراب چاہتے ہوئے بھی شہریار سے بات نہیں کر پارہی تھی کیونکہ وہ خاوند کا بدلتا روپ دیکھنے کی سکت نہیں رکھتی تھی۔ ہر روز بات کرنے کا قصد کرتی اور ہر روز ارادہ مٹی کا ڈھیر ثابت ہوتا۔ زندگی عجب کشمکش میں پھنس چکی تھی ، کوئی راہ سجھائی دے رہی تھی اور نہ کوئی راستہ نظر آ رہا تھا۔ وہ تھک ہار کرکرسی پہ بیٹھ گئی تھی-

سنینا تین بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی ۔ ماں بچپن میں وفات پا گئی تو گھر کی ذمہ داری علیم صاحب پر آن پڑی- تن تنہا اولاد کی پرورش نہایت مشکل تھی۔

سارے خاندان نے مل کر دوسری شادی پر زور ڈالا ، سارے حالات سمجھتے ہوۓ بھی وہ دوسری شادی یہ آمادہ نہ ہوئے تھے۔ وہ معصوم بچوں پہ سوتیلا رشتہ نہیں تھوپنا چاہتے تھے کسی نہ کسی طریح دو سال نکالے اور بڑے بیٹے کے انٹر کرتے ہی بھتیجی سے شادی کروا دی۔ ان کا فیصلہ سب کو ورطہ حیرت میں ڈال گیا مگر وقت نے ثابت کیا کہ ان کا فیصلہ درست تھا۔ مریم نہایت سلجھے اخلاق کی مالک تھی اور اس نے آتے ہی گھر میں عورت کی کمی کو پورا کر دیا۔ علیم صاحب کا خیال رکھنا ، دیوروں کی ضروریات پوری کرنا مگر جس بات نے ان سب کومطمئن کیا تھاوہ سنینا کے متعلق اس کا رویہ تھا اور یہ رویہ ہمیشہ قائم رہاتھا۔علیم صاحب کی وفات کے بعد بھی وہ سنیا کی پرچھائیں بنی رہی اور دیورانیوں کی آمد کے بعد بھی اس کی حیثیت مسلم رہی تھی ۔

وقت کا کام گزرنا ہے اور وہ گزرتا چلا گیا، وہ کالج میں پہنچ گئی، بھائیوں کے بچے اسکول جانے گئے مگر جو درخت علیم صاحب لگا گئے تھے اس کی گھنی چھاؤں اتنے سال گزرنے کے بعد بھی قائم تھی۔ اس کی شادی کا وقت آیا تو مریم نے وہ کچھ کیا کہ دیکھنے الے دم بخودرہ گئے ، وہ بھابھی کم اور ماں زیادہ لگتی تھی۔ رشتہ مہم شروع ہوئی تو بہتر سے بہترین کا انتخاب کیا گیا۔ مریم نے سنینا کو صرف پیار نہیں دیا تھا بلکہ تربیت بھی کی تھی ، ہر وہ سبق جو ماں اپنی بیٹی کو دیتی ہے وہ اس نے اسے پڑھایا تھا۔ سسرال رخصت کرتے ہوۓ وہ یوں روئی تھی جیسے جگر کا ٹکڑا نکال دیا ہو۔

پیار اور لاڈ میں پلیسنینا سسرال میں گھبرا رہی تھی۔ مریم کی لاڈلی ہر ہنر میں طاق سہی مگر سسرال کے اسباق نہیں پڑھ پارہی تھی ۔ جب بھی شہریار سے بات کرنے کا سوچتی تب ہی نئے وسوسے دل میں ڈیرہ ڈال لیتے تھے۔ اتنے دن کی سوچ بچار سے کچھ حاصل نہیں ہوا تھا اور اب اس کا صرف ایک ہی حل تھا اور وہ مریم کی گود تھی ۔اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے وہ عشا کے بعد ساس کے کمرے میں چلی آئی۔
آؤ بیٹی! وہاں کیوں کھڑی ہو؟ اسے دروازے کے پاس کھڑے دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھیں اور بیڈ پر اپنے ساتھ اس کے بیٹھنے کے لیے جگہ بنانے لگیں۔
جی امی دراصل مجھے آپ سے اک بات کرنی تھی ۔ شہریار کے بے حد اصرار پہ اس نے ساس کو امی کہنا شروع کر دیا اور ان کا رول اسے بھی مطمئن کر گیا تھا۔
تو بیٹی اتنی تمہید باندھنے کی کیا ضرورت ہے۔ بے فکر ہو کر بات کرو۔ سردی کے باعث اس کے اوپر بھی کمبل اوڑھا دیا، ان کے خیال پر وہ بے ساختہ مسکرائی۔
امی کافی دن ہو گئے میں گھر رہنے نہیں گئی ، مریم کی بہت یاد آرہی ہے ۔ کیا میں کچھ دن رہنے چلی جاؤں؟ اس نے ہچکچاتے ہوۓ بات مکمل کی تھی ۔ ارے بیٹی اس میں بھلا پوچھنے والی کیا بات ہے، تم شہر یار سے کہتیں وہ چھوڑ آتا۔ اس کا یوں اجازت مانگنا انہیں نہال کر گیا۔

نہیں امی- مریم کہتی ہیں بڑوں سے اجازت لیتے ہیں آگاہ نہیں کرتے ۔ اس نے مریم کے کہے الفاظ دہرادیے۔
ماشاءاللہ۔ اللہ ایسی بہو سب کو دے، یقین کرو تمہاری لاکھ موہنی صورت تھی مگر مجھے تو مریم کی صلاحیتوں نے باندھ لیا اور اسی لیے میں نے تمہارے میکے کا در پکڑ لیا کہ جس کے زیر سایہ تمہاری تربیت ہوئی اس کی فہم و فراست کا تو سارا زمانہ قائل ہے۔ وہ بھی مریم کی تعریفیں شروع کر چکی تھیں اور سنینا کا چہرہ ہمیشہ کی طرح کھل اٹھا۔ پر بیٹی مجھے یہ بات سمجھ میں آتی کہ تم مریم کا نام کیوں لیتی ہو؟ وہ تم سے کئی سال بڑی ہے، ماں کی طرح پالا ہے،ایسے نام سے مخاطب کرنا اچھا نہیں لگتا ۔ ہر کسی کی طرح انہوں نے بھی وہی سوال کیا۔

امی مجھے شروع سے مریم کہنے کی عادت ہے۔ میں خود نہیں سمجھ پاتی کہ میں کیوں ایسا کرتی ہوں حالانکہ باقیوں کو بھابھی ہی کہتی ہوں اور پھرمجھے میرے سوال کا جواب مل گیا۔ میری ماں ، بھابھی ، دوست اور دنیا کا ہر رشتہ ان کے وجود سے منسوب ہے، میں ان کو ہر رشتے کے حوالے سے مخاطب نہیں کر سکتی اس لیے میں صرف مریم کہتی ہوں ۔اس نے تفصیل سے ساس کو جواب دیا اور شہر یار سے بات کرنے کے لیے کمرے میں واپس آ گئی۔

اف ……شہر یارا تنا پھیلاوا کیوں پھیلایا ہوا ہے؟ پتا نہیں آپ کے وہ طور طریقے کدھر گئے جس کی دھوم پہلے دن سے ہر بندے کے منہ سے سن رہی ہوں ۔ اس نے کوفت بھری نظروں سے شہریار کو دیکھا۔ شہریارالماری میں سردیے کھڑا تھا اور کپڑوں کا ڈھیر بیڈ پر بکھرا پڑا تھا۔
مرد جتنا بھی سگھڑ ہو بیوی ملنے کے بعد بگڑ جاتا ہے اس لیے تم میرے طور طریقوں کی کہانیاں بھول جاؤ، مجھے اچھا لگتا جب تم میری پھیلائی ہوئی چیزیں سمیٹتی ہو- شہریار شرارتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
تو اپنے اس شوق سے پر ہیز کریں ورنہ میرے بعد آپ کو ہی مشکل ہو گی ۔ اس کی مطلوبہ شرٹ نکال کر باقی کپڑے دوبارہ نہ کرتے ہوئے اس نے کہا۔
کیا مطلب تمہارے بعد؟ تم کدھر جا رہی ہو؟ اس کی بات سے وہ چونکا تھا۔
یہ ہی بتانے آرہی تھی مگر آپ کا پھیلاوا د یکھ کر بھول گئی ، میں اداس ہورہی تھی تو سوچا گھر رہ آتی ہوں ۔
ابھی امی سے اجازت لے کر آ رہی ہوں اور اب آپ صبح جاتے ہوۓ مجھے گھر چھوڑ تے جائیے گا۔ باتوں کے دوران سارے کپڑے سمٹ گئے تھے اور کھلتے چہرے کے ساتھ شہریارکوصبح کا پلان بتانے لگی۔
تمہاری شادی مجھ سے ہوئی ہے یا امی سے؟ اس نے اچا نک سنینا سے سوال کیا۔
کیا مطلب؟ اس کے سوال پر وہ مدھم سا مسکرادی۔

میں مذاق نہیں کر رہا، تم میری بیوی ہو مجھ سے اجازت لینی چاہیے مگر یہاں الٹا ہی حساب ہے۔ ساری منصوبہ بندی ہو چکی ہے اور مجھے اب صرف اطلاع دی جارہی ہے، تمہیں مجھےآگاہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں امی کو ہی کہنا چھوڑ آئیں گی۔ وہ غصے سے بولتا واش روم میں گھس گیا اور وہ حیرانی سے منہ دیکھتی رہ گئی ۔
اس گھر میں سب کچھ ہی عجیب تھا۔ اس نے ہمیشہ دیکھا تھا کہ جب بھی مریم کہیں جاتی ابو سے اجازت لیتی اور بھائی بلا چوں چراں حکم بجا لاتے اور ابو کے بعد چھوٹی بھابھیاں مریم کو بتاتیں اور کس کی جرات کہ انکار کرے۔ مریم نے ہمیشہ بڑوں کی عزیت کرنا سکھایا اور وہ عزت اس نے شہریار کی ماں کو دی تھی مگر یہ کوشش اس کے گلے پڑ رہی تھی۔وہ جب بھی ساس سے کچھ کہتی تو اس کا رویہ یوں ہی ہوتا پر اب تو وہ کھل کے بول گیا تھا۔ اس صورت حال میں اس کا جانا قطعی مناسب نہیں تھا، ساری خوشی خاک ہوگئی تھی۔

وہ سونے سے پہلے کئی دفعہ شہر یار سے بات کرنے کی کوشش کر چکی تھی مگر ناراضی ہنوز قائم تھی۔ صبح بھی اس کا رویہ ویسا ہی رہا، ناشتے کی میز پہ ساس نے جانے کی بابت پوچھا تو وہ اپنی جگہ چورسی بن گئی۔
امی میں پھر بھی چلی جاؤں گی ۔ مختصر سا جواب دے کر وہ کچن میں چلی آئی۔ اس کی غیر موجودگی میں جانے ماں بیٹے میں کیا بات ہوئی کہ جب وہ چاۓ لے کر باہرنکلی تو خاموشی زیادہ بڑھ چکی تھی۔
بیٹی تیار ہو جاؤ شہر یار چھوڑ آتا ہے اور خبر دار اب تم نے سنینا کو کچھ کہا۔ شہر یار نے سر ہلا دیا تو نہ چاہتے ہوۓ وہ تیار ہونے چل دی۔ آدھے گھنٹے کا سفر خاموشی سے کٹا، اس کے اترنے کے بعد بنا اک لفظ کہے وہ گاڑی بھگا لے گیا۔ اس کا دل کٹ کے رہ گیا، آنکھوں کی نمی خشک کرتے ہوۓ وہ علیم ہاؤس میں داخل ہوگئی۔

اسے دیکھ کر سب بچے خوش ہو گئے ، وہ بھی کافی عرصے بعد آئی تھی تو بچوں کے جھرمٹ میں بیٹھ گئی اور وہ سارے کھیل کھیلنے شروع کر دیے جو شادی سے پہلے اس کا معمول تھا۔ وہ بچوں کے ساتھ اتنی مگن رہی کہ دوپہر سے رات ہونے کا پتا ہی نہیں چلا اور بچوں کے سونے کا وقت ہو گیا۔
سنینا رہوگی یا شہریار لینے آۓ گا۔ بچہ پارٹی جا چکی تھی اور اب سب بڑے اکٹھے بیٹھے تھے۔ خشک میوہ جات کی ٹرے باری باری سب کے پاس جارہی تھی ، وہ کاؤچ پہ ہیٹر کے سامنے بیٹھی تھی جب بھائی جان نے شہر یار کے متعلق پوچھا۔
بھائی جان آج تو ممکن نہیں ان کا آنا کیونکہ وہ کچھ مصروف تھے، میں فون یہ بات کر کے کنفرم کرلوں گی۔ وہ کئی دفعہ شہر یار کو کال کر چکی تھی مگر کال نہیں اٹھائی گئی اوراب تو نمبر ہی بند جا رہا تھا۔ بھائی جان سے بہانہ کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔

چلوتمہارا اپنا گھر ہے جب تک جی کرے رہو۔ ٹی وی سے نظر ہٹا کر چھوٹے بھائی نے کہا۔ ایک ایک کر کے سب اٹھتے گئے اور لاؤنج میں وہ اکیلی اپنی سوچوں کے ساتھ بیٹھی رہ گئی۔
کئی لمحوں بعد اس نے دوبارہ موبائل پکڑا اور شہر یارکو کال کی مگر دوسری طرف صرف بیل کی کرخت آواز سنائی دے رہی تھی مطلوبہ آواز کا دور ، دور تک نام ونشان نہیں تھا۔ اس نے وقت دیکھا تو بارہ کا ہندسہ موبائل اسکرین پر روشن تھا، اس وقت تک شہر یارسونے کے لیے لیٹ جاتے تھے اور یہ ہی تسلی اس نے خود کو دی تھی۔ وہ اپنی سوچوں میں اس قدر مکن تھی کہ مریم کے آنے کا اندازہ ہی نہیں ہوا۔

نینا تمہیں باتیں چھپانے کی عادت کب سے پڑگئی؟ مریم اکثر اسے نینا کہتی تھی۔
نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ۔ لہجے کو معتدل کرتے ہوۓ اس نے ان کی طرف چہرہ کرلیا۔
بہانے بنانا ہر وقت سودمند نہیں ہوتا ۔اس نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا،ٹھنڈے ہاتھ پہ اس کا پر حدت میں بہت بھلا محسوس ہوا۔

مریم الجھنیں بہت ہیں مگر بتانے کی کوشش کروں تو ہرالجھن بے نام ہو جاتی ہے ۔ وہ اب بھی کشمکش میں تھی ۔
ہرالجھن پے نام ہی ہوتی ہے مگر جب سلجھتی ہے تو اسے کوئی نہ کوئی نام مل جا تا ہے ۔ تم بات کا آغاز کرو انجام خود ہو جائے گا ۔ اس نے دھیرے سے اس کا ہاتھ دبا کر تسلی دی تھی۔

مریم زندگی کے نئے سفر پہ ہرلحہ آپ کی ہدایات میرے ساتھ رہیں، میں نے آپ کی ہر بات مل کیا۔ مگر کچھ امتحان میں پاس نہیں کرسکی ، اب مجھے دوبارہ سے امتحان پاس کرنے کے گر سکھائیں۔“ گھنٹوں کے گرد بازوؤں کا گھیرا بنا کر بیٹھی وہ بہت آزردہ لگ رہی تھی۔

مریم زندگی کے نئے سفر پہ ہرلحہ آپ کی ہدایات میرے ساتھ رہیں، میں نے آپ کی ہر بات پہ عمل کیا۔ مگر کچھ امتحان میں پاس نہیں کرسکی ، اب مجھے دوبارہ سے امتحان پاس کرنے کے گر سکھائیں۔ گھٹنوں کے گرد بازوؤں کا گھیرا بنا کر بیٹھی وہ بہت آزردہ لگ رہی تھی۔

سنینا ہرلڑ کی یہ سب کچھ برداشت کرتی ہے اتنی جلدی ہار نہیں مانتے۔چلو بتاؤ کیا ہوا ہے؟ ان کا نرم لہجہ اسے پرسکون کر گیا۔
مریم میں نے ہر بات میں امی کا مشورہ اہم سمجھا کیونکہ آپ نے کہا تھا بڑوں کو ان کے مقام سے نیچے نہیں لانا چاہیے اور آپ نے ٹھیک ہی کہا تھا مگر شہر یار کو یہ پسند نہیں ، وہ چاہتے ہیں میں ان سے راۓ لوں اور ان کی مانوں اگر ایسا کرتی ہوں تو امی کا مان ٹوٹ جاۓ گا۔ ابھی کچھ دن پہلے مجھ سے ڈنر سیٹ کی پلیٹ ٹوٹ گئی تو امی کو بہت برا لگا، وہ مجھے ڈانٹے لگیں تو شہر یار نے مجھے جہیز کے برتن نکالنے کو کہہ دیا تا کہ میں احتیاط سے کام لوں۔ میں نے ایسا نہیں کیا، امی سے معافی مانگ لی تو مجھے معلوم ہوا کہ ان کا ردعمل جائز تھا کیونکہ وہ ان کے خاوند کی نشانی تھا اور آخری نشانیاں تو سنھیالی جاتی ہیں نا ،اگر کچھ ٹوٹ جاۓ تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ میں نے ساری بات شہریار کو بتائی تو وہ بگڑ گئے کہ میں ان کی بات کے بعد کیوں اس سے وضاحت مانگنے گئی مگر مریم اللہ جانتا ہے کہ میں ان کی دل آزاری پر شرمندہ تھی۔ مریم کے ہاتھوں میں ہاتھ دیے وہ بولتی چلی گئی۔

یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے، لوگوں اور رشتوں کو
سمجھنے کے لیے بہت وقت درکار ہوتا ہے، زیادہ لوگوں
کو سمجھنے سے اچھا ہے تم اتنی آسان بن جاؤ کہ سب
تمہیں سمجھنے لگیں۔ مریم کا دھیما لہجہ رات کے سکوت یں ارتعاش پیدا کر رہا تھا۔
مریم آپ بھی تو بہو تھیں مگر ابا آپ کا کتنا خیال رکھتے تھے، ہم سب بہن بھائی آپ کی دل آزاری کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے، ہمارا ہر معتبر حوالہ آپ ہیں ۔ اس نے سوالیہ نظروں سے مریم کو دیکھا تو ان کے تاثرات نا قابل فہم محسوس ہوئے۔
زندگی کا نیا سفرکسی کے لیے آسان نہیں ہوتا یوں سمجھو کہ لڑکی اک طویل سڑک کی مسافر بن جاتی ہے جس کے اختتام سے بھی نا بلد ہوتی ہے، کب خطرناک موڑ آ جائیں ، کب دشت میں کھو جاۓ کب نخلستان میں قدم رکھ دے، کب پہاڑوں کی قید میں پھنس جائے اور کب برفیلی چٹانوں میں چنوا دی جاۓ ، اسے کچھ علم نہیں ہوتا۔ مریم کسی سوچ میں کھوئی بوتی جارہی تھی ۔
میں نہیں جانتی تائی کے ساتھ میری امی کی کیا رنجش تھی یا دیورانی جیٹھانی میں کیسا تعلق تھا مگر وہ رنجشیں آج تک میں بھگت رہی ہوں ۔ تایا جان بہت اچھے تھے ان کے دل میں مجھے اس گھر میں بیاہ کے لانے کی وجہ کوئی انتقامی کاروائی نہیں تھی مگر پھر بھی میں نے رنجشوں کا قصاص ادا کیا، دس سال میں اس گھر کی کوئی چیز استعمال نہیں کرتی کہ کہیں تائی کی نشانیاں سنبال نہ پاؤں میں نے پانی بھی پیا تو اپنے گھر سے لاۓ گلاس میں مگر کبھی اف تک نہیں کی- کئی سال ہر رات میں یہ سن کے سوتی تھی کہ تائی کی موت کی ذمہ دار میری ماں تھیں، مائیں دنیا کے لیے کتنی بھی بری ہوں مگر بچوں کی جنت ہوتی ہیں۔ کئی سال لگے سنینا مجھے اس مقام پر پہنچنے کے لیے، سب کا اعتماد جیتنے کے لیے میں نے اپنی انا ماردی اور اگر رشتوں کو بچانا ہو تو سب سے پہلے آنا ہی ماری جاتی ہے۔ میں راستے میں پڑا پتھر بنی رہی اورلوگوں کی ٹھوکروں نے مجھے پارس بنادیا۔ اندھیرے لاؤنج میں صرف سنینا کی سسکیاں گونج رہی تھیں، مریم بالکل خاموش ہو چکی تھی ۔
مریم ہم سب کو معاف کر دیں، یہ آپ کی خاموش صدائیں ہیں جو آج پلٹ کر مجھ تک آ گئی۔ آپ کی کھائی ہرٹھوکر کی زد میں آج میں ہوں۔ پلیز مریم معاف کر دیں۔ وہ یک دم اٹھ کر مریم کے پاؤں میں بیٹھ گئی ، اپنے خاندان کا مثالی مجسمہ چھن سے ٹوٹ گیا تھا۔

میں تو جان سے گئی

میری صدائیں تم تک نہیں آئیں پاگل بلکہ میری دعائیں آئی ہیں۔ تمہیں بھی وہی راستہ ملا جس کی میں مسافر تھی اور جو ایک دفعہ کسی راستے پر سفر کر لے وہ رہنما بن جاتا ہے۔ اس نے اسے اٹھا کے اوپر بٹھا لیا تھا-
صبح سویرے تمہارے بھائی کو کہوں گئی کہ تمہیں گھر چھوڑ آئیں، شہر یار کو ہماری گڑیا کے بغیر تیار ہو کے آفس جانا مشکل لگے گا نا۔‘‘ مریم نے محبت سے اسے گلے لگالیا۔ بیٹیاں انا کے پر چم تان کر کھڑی اچھی نہیں لگتیں اور اچھی بیٹی چکنی مٹی کی طرح ہوتی ہے جسے کسی بھی سانچے میں ڈالو وہ اسی شکل میں ڈھل جاۓ ۔ مریم کی مدھم آواز خاموشی میں گونج رہی تھی اور لاؤنج کے اندھیرے میں کھڑاک وجود مطمئن سا واپس مڑ گیا۔

گھر کی مالکن اور بے بس ملازم

وہ دبے قدموں کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ صبح کا وقت اس کے لیے نہایت مشکل ہوتا تھا، امی جوڑوں کے درد کے باعث چلنے میں دشواری محسوس کرتی تھیں تو پہلے ان کو وضوکر وا کر نماز پڑھاتی اور پھر ناشتا کھلا کر کمرے کا رخ کرتی تھی ۔ شہریارکوآفس کے لیے اٹھانا جان جوکھوں کا کام تھا کیونکہ ہلکی سی آہٹ سے شہر یار کے پہلو میں سویا ایک سالہ احمد بھی اٹھ جاتا اور پھر سنینا ایک منٹ کے لیے بھی نہیں ہل سکتی تھی۔
اس وقت بھی شہریار کی ساری چیزیں سمیٹتے دوسرے کمرے میں آ گئی اور شہریار کے تیار ہونے تک ناشتا تیار کر لیا تھا۔ اتنی تیزی سے سب کرتے وہ چکرا کے رہ جاتی تھی۔
کیا افلاطون پیدا کیا ہے تم نے؟ کمزے سے ہی ہجرت پر مجبور کر دیا۔ شہریار روز صیح احمد کے متعلق ایسے ارشادات نازل فرما تا اور وہ صرف مسکرانے پر اکتفا کرتی ۔
اچھا سنو- باجی کچھ دنوں کے لیے رہنے آرہی ہیں، تم بھی میکے رہنے نہیں گئیں ۔امی کے پاس باجی ہوں گی ، تم تیاری کر لو میں رات میں چھوڑ دوں گا ۔ ناشتا کرتے ہوۓ شہر یار نے اسے کہا۔
ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی – چاۓ کپ ۔ میں ڈالتے ہوۓ اس نے کہا۔ تم پہلے امی سے پوچھ لینا پھر تیاری کرنا ۔ اس نے مدھم آواز سے کہا مگر آواز اتنی ضرور تھی جو نینا کے کانوں تک پہنچ گئی۔

اندھیری رات اور حوس کا پجاری

آپ نے کہہ دیا تو کافی ہے نا۔ سنینا نے چاۓ کا کپ اس کے آگے رکھتے ہوۓ کہا اور اس پل شہر یار نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
ادھر بیٹھو، میری بات سنو۔ سنینا نے نافہم نظروں سے اسے دیکھا۔ مجھے ادراک ہو گیا ہے کہ اپنے حقوق کا پرچار کرتے میں کتنے فرائض سے بھاگ رہا تھا، اپنی مردانگی کے زعم میں نہ صرف تمہارا گناہ گار بنا بلکہ دل ہی دل میں امی کے متعلق بھی غلط سوچتا رہا۔ مجھے اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہنا سواۓ اس کے کہ میں تمہارے حق میں بہترین بننے کی کوشش کروں گا۔ اس کے ہاتھ تھامے وہ شکستہ لہجے میں بول رہا تھا۔

انسانی لڑکی کی ایک جن سے محبت

اچھا چھوڑیں۔ آپ بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گئے ، میں امی سے پوچھ لوں گی ۔ اپنی خوشی چھپاتے ہوۓ وہ جلدی سے بولی کیونکہ شہریار کی شرمندگی بھی اسے گوارا نہیں تھی۔ مجھے آپ کی تابعداری کا اندازہ تھا اس لیے میں پہلے ہی پوچھ چکا ہوں۔ وہ ہنستے ہوۓ بولا تو اس نے مصنوعی گھوری سے شہریارکود یکھا اور ہنس دی۔

میں مجبور تھی ۔ اردو کہانی

اس کی واپسی کا فیصلہ زندگی کو بہت سہل بنا گیا تھا۔ وہ چکنی مٹی بن گئی اور ہر وہ شکل اختیار کرتی گئی جو مجازی خدا کو پسند تھی ۔ آج شہریار کی بات سے اسے احساس ہوا کہ وہ بھی مریم بن گئی تھی۔ پتھر سے پارس بننے کا سفر مشکل ضرور ہوتا ہے مگر اچھا رہنما اور دعائیں ساتھ ہوں تو پارس بنا ناممکن نہیں ہے۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے