گھر کی مالکن اک اخلاقی کہانی

New Urdu Stories


باجی کام ہو گیا اب میں جائوں؟”
سلمہ (میری خادمہ)نے پوچھا۔
“ہاں ٹھیک ہے کل وقت پر آجانا۔” میں نے جواب دیا۔
“باجی جی میں نے آپ سے کبھی چند طے شدہ روپوں کے علاوہ کبھی کچھ نہیں مانگا۔۔ آج مانگوں؟”
اس نے ڈرتے ہوے پوچھا
ہاں سلمہ کہو کیا چاہیے۔
“باجی بڑے صاحب کے اگر کوئی پرانے کپڑے ہوں تو دے دیجیے۔”
بڑے صاحب کے کپڑے؟ تم انکا کیا کرو گی؟ میں نے حیرت سے پوچھا۔
“باجی کل ناں میرے مرد کی سالگرہ ہے اسکو تحفہ دوں گی۔
پر سلمہ وہ تو پرانے ہیں۔

“باجی پتہ تو اسکو بھی ہے کہ میری اتنی اوکات نہیں کہ اسکے لیے نئے کپڑے خریدوں۔ وہ مجھ سے بہت پیار کرتا ہے ان ہی سے خوش ہو جائے گا کہہ دوں گی لنڈے سے لیے ہیں۔”

میں ان کی محبت اور تعلق دیکھ کر حیران تھی میں نے پوچھا اچھا وہ بھی تمہیں کچھ دیتا ہے؟

“دیتا ہے ناں” اس نے بہت خوشی اور جزباتی انداز میں کہا!

“یہ جو آپ کے گھر میں بلی ہے یہ مجھے بہت پیاری لگتی ہے ایک رات ہم لیٹے ہوئے تھے تو نہ جانے کیوں میں نے اس سے آپ کی بلی کا ذکر کیا کہ باجی کے گھر میں بلی ہے مجھے بہت پسند ہے۔ اگلے روز جب میں گھر گئی تو وہ جھلّا میرے لیے ایک بلی لایا ہوا تھا وہ آپکی والی جتنی پیاری تو نہیں پر باجی وہ مجھے میری جان سے زیادہ عزیز ہے پتہ ہے کیوں؟ کیونکہ میں جانتی ہوں کہ اسے بلیوں سے بہت ڈر لگتا ہے پتہ نہیں کیسے اسنے گلی سے پکڑی ہوگی کیسے اسے گھر لایا ہوگا اور جب میں گھر پہنچی تو وہ اسے دودھ پلا رہا تھا۔ آپکو پتہ ہے باجی ہمیں خود دودھ پیئے ہوئے مدت بیت گئی پر وہ اسکے لیے پتہ نہیں کہاں سے لے آیا صرف اس لیے کہ مجھے پسند ہے؟

میں نے پوچھا سلمہ بلی کا تو بہت خرچہ ہوتا ہے تم کیسے پورا کرتے ہو؟ کہنے لگی “باجی وہ غریب کے گھر کی بلی ہے اسکو بھی ہماری طرح حالات سے سمجھوتہ کرنا آتا ہے وہ صبح نکلتی ہے اور شام کو گھر میں داخل ہوتی ہے بیمار ہو جائے تو خود ہی ٹھیک ہو جاتی ہے کسی علاج معالجہ کی ضرورت نہیں پڑتی گھر میں کھانا نہ ملے تو باہر سے ہی جیسے تیسے پورا کر آتی ہے۔ آپکو پتہ ہے جب سے وہ ہمارے گھر آئی ہے ہم میاں بیوی کے پیار میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ ایک تو ہم دو بھوکے مل کر کبھی کبھی اس ایک بھوکی کی بھوک مٹا دیتے ہیں اس لیے اللہ ہم پر زیادہ مہربان ہیں دوسرا یہ کے اس بلی نے ہمیں وفاداری سکھائی ہے کہ آسائشیں ہوں یا نہ ہوں جس سے ایک بار نباہ کر لیا جائے اس سے منہ نہیں موڑتے۔

ایک بار ہم اس کوقصائی کی دکان کے باہر چھوڑ آئے کہ یہاں اسکا پیٹ بھی بھر جائے گا اور خوش رہے گی پر ہمارے گھر پہنچنے سے پہلے ہی وہ ہمارے گھر کے باہر بیٹھی ہوئے تھی اس نے ہمیں سکھایا کے محبوب چاہے چھوڑ دے دھتکار دے، مار دے یا توڑ دے اسکو چھوڑا نہیں کرتے۔”

مجھے سلمہ کی باتیں سن کر خوشی بھی ہو رہی تھی اور دکھ بھی۔ خوشی اس بات کی کہ سچے لوگ اور سچی محبت آج بھی دنیا میں موجود ہے اور دکھ اس بات پر کہ عموما محبت جتنی غریب ہو اتنی ہی سچی ہوتی ہے مگر میں تو امیر ہوں آج یہ امیر ایک غریب پر رشک کر رہی تھی۔ یہ عالی شان صوفا مجھے اپنی قبر محسوس ہو رہا تھا میرا دل چاہ رہا تھا کہ یہ قبر کھلے اور میں اس میں دفن ہو جائوں۔

میں نے بات آگے بڑھانے اور اپنے دل کی تشفی کے لیے اس سے پوچھا کہ تمہاری سب باتیں بجا ہیں لیکن کیا تمہیں نہیں لگتا کہ اگر دولت ہو تو محبت کرنے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے؟ اس نے حیرت سے میری جانب دیکھا میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ کچھ بھی بول کر ایک بار پھر مجھے لاجواب کر دے اور میری انا کی پھر سے دھجیاں اڑ جایئں اس لیے میں نے اسکے کچھ کہنے سے پہلے ہی کہا کہ دیکھو ناں ایک رئیس زادہ جس کے پاس گاڑی یا چلو موٹر سائیکل ہی ہو وہ اپنی بیوی کو کہیں بھی کبھی بھی لے کر جا سکتا ہے وہ مسکرائی اور بڑے تحمل سے کہنے لگی!

“جب آپ بڑے صاحب کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھتی ہوں گی تو صرف آپ انہیں کمر سے پکڑتی ہوں گی اور گاڑی میں تو یہ بھی نہیں۔ پر جب میں اپنے خاوند کے ساتھ سڑک پر پیدل چلتی ہوں تو ہم نے بہت فخر سے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما ہوتا ہے”

میں سٹپٹا سی گئی اور اپنی شرم کو چھپانے کے لیے اتراتے ہوئے کہا آج ہم کے-ایف-سی جائیں گے۔ وہ کہنے لگی

“سنا ہے وہاں کا تو کھانا اور ماحول بہت اچھا ہوتا ہے باجی آپ خوب مزہ کیجیے گا۔”

میری باتوں کا اس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا میں نے اسکو طیش دلانے کے لیے کہا۔تم کیا کرتی ہو جب تمہارا کچھ اچھا کھانے کا من ہوتا ہے۔

باجی میرا ہر کھانا ہی اچھا ہوتا ہے۔تیمور کے ہاتھ سے کھائے ہوئے لقمے کی لزت کے بعد مجھے کسی کے-ایف-سی کی طلب نہیں رہتی۔ سنا ہے زندگیوں میں سکون نہ ہو تو لوگ کے-ایف-سی جا کر بھی صرف لڑتے ہی ہیں۔ اس نے مجھے ہمیشہ کی طرح لاجواب کر دیا تھا اب میرے پاس نہ کہنے کو کچھ تھا نہ پوچھنے کو۔ ڈرتے ڈرتے میں نے اس سے آخری سوال پوچھا۔ سلمہ! یہ سب کیوں، کیسے اور کس کو ملتا ہے؟

“باجی یہ سب رب کریم کی دین ہوتی یے۔ لیکن کسی بھی چیز کے حصول کے لیے توکل بہت ضروری ہے۔ توکل سے احساس ہوتا ہے کہ آپکو اپنے اللہ پر کتنا بھروسہ ہے۔ توقل امیر یا غریب کی مراث نہیں۔ اسی طرح خوشیوں کا تعلق بھی بھی کسی امیر یا غریب کے ساتھ نہیں خوش ہر وہ انسان ہوتا ہے جس کو اپنے رب پر بھروسہ ہو اور جسکو تھوڑے میں گزارہ کرنا آجائے آگے بڑھنے کی کوشش بھی ایک صبر طلب کام ہے اگر اس میں صبر نہ ہو تو انسان کی ضروریات اور خواہشات بڑھتی ہی رہتی ہیں اور اس لیے کبھی اسکو اپنا آج جینے اور جو آج اس کے پاس ہے اس کا مزہ لینا نصیب نہیں ہوتا۔

پر عموماََ یہ ہی دیکھا گیا ہے کہ غریب کی زندگی کتنی ہی بدحال کیوں نہ ہو محبت آسودہ حال ہی ہوتی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہمیں تھوڑے میں گزارہ کرنا آتا ہے۔ غریب کا ذہن انہی خیالات کا آشیانہ ہوتا ہے جبکہ امیر کو کبھی کوئی سوچ آتی ہی نہیں شاید انکا دماغ ان کے پیٹ مین ہوتا ہے وہ بس اپنے پیٹ سے ہی سوچتے ہیں ان کا پیٹ ان کو صبر و تحمل سے کام لینے نہیں دیتا اور ہماری تو شادی ہو یا میت ہم سمجھوتہ ہی کرتے ہیں۔ ہماری پیدائش سمجھوتہ، ہماری موت سمجھوتہ اور ان کے بیچ بھی بس سمجھوتہ۔ اس لیے ہم خوش رہتے ہیں ہمیں پھٹی ہوئی چٹائی پر بھی اتنی اچھی نیند آتی ہے جتنی آپکو اس مہنگے پلنگ پر بھی نہیں آتی ہوگی۔”

میں نے سوال کیا سلمہ! ان سب باتوں کا ادراک کب ہوا؟

باجی جب میری شادی ہوئی میں دلہن بنی کمرے میں بیٹھی تھی، تیمور آئے! میرے پاس بیٹھ گئے، ہماری پسند کی شادی تھی تو میں نے بڑی بے باکی سے کہا کہ جب تک محبوبہ تھی کہتا تھا شادی کر لے آج تیری دلہن بنی تیرے سامنے بیٹھی ہوں تو گھونگھٹ بھی نہیں اٹھا رہا، وہ چپ تھا، اسکی خاموشی پر مجھے بہت ہنسی آرہی تھی میری ہنسی میرے رونے میں تب تبدیل ہوئی جب اس نے کانپتی آواز میم کہامنہ دکھائی! میں سمجھ گئی تھی جو شخص اپنی شادی کے دن بھی مزدوری پر گیا ہو وہ کیا منہ دکھائی دے سکتا ہے؟ میرے آنسو یہ سوچ کر تھم ہی نہیں رہے تھے کہ انسان کس قدر مجبور ہو جاتا ہے۔ خدا کا بیشمار شکر کہ میرے چہرے پہ گھونگھٹ تھا اگر آج وہ میرے آنسو دیکھ لیتا تو ساری زندگی خود سے نفرت کرتا۔ امیر آدمی کے لیے اپنی محبت ثابت کرنا کتنا آسان ہے نا باجی ایک گاڑی ایک انگھوٹی یہ ایک موبائل اور بس محبت ثابت۔جبکہ غریب آدمی کو اپنی محبت ثابت کرنے کے لیے اپنی جان دینی پڑتی ہے۔

تاریخ اس چیز کی گواہ ہے۔

پر میں تاریخ بدل دوں گی۔ میں توڑ دوں گی سب رسمیں میں بغاوت کروں گی سب رواجوں سے میں بنوں گی وہ عورت جسکی محبت پاک ہوگی۔ ہر چیز سے پاک۔ ہوس،مطلب،جھوٹ،دغا اور دولت۔۔۔۔۔ اور یہ سوچتے ہی میں نے اپنا ہاتھ گھونگھٹ کے اندر لے جا کر اپنے آنسو صاف کیے اور یہ چھپ کر آنسو صاف کرنے کی مہارت مجھ میں بچپن سے ہی تھی۔

میں نے اپنا گھونگھٹ ہٹایا اسکو لیٹایا اور اسکے سینے پہ سر رکھ کر لیٹ گئی۔ اسکی دھڑکن سے لگ رہا تھا جیسے دل پھٹ جائے گا۔

میں نے کہا شکریہ تیمور

اسنے دبی آواز اور حیرت بھرے لہجے میں پوچھا کس لیے؟ میں نے کہا اتنی اچھی منہ دکھائی کے لیے۔ اس لمحے کے لیے میں ایک مدت تڑپی ہوں۔ اللہ سے ہر سجدے میں تمہیں مانگا ہے۔ آج تم اس قدر قریب ہو کہ میں تمہارے جسم کی خوشبو تک محسوس کر رہی ہوں۔ اس سے بڑھ کر منہ دکھائی کیا ہو سکتی ہے بھلا؟

وہ خاموش تھا اور اسکی خاموشی مجھے کھا رہی تھی میں نے اسکو سمجھایا، مجھے تم چاہیے تھے تیمور، صرف تم۔ میری اور کوئی خواہش نہیں تھی۔اور خواہشات جتنی کم ہوں زندگی اتنی ہی پر سکون ہوتی ہے۔

آگے بڑھنے کی طلب سب کو ہے، زندگی کو بہتر ہر انسان بنانا چاہتا ہے سہولیات زندگی اور ضروریات زندگی ہر انسان کو درکار ہوتی ہیں اور ہونی بھی چاہیں انکی اہمیت سے میں انکار نہیں کر سکتی،اور ہم ساتھ مل کر اپنی ضروریات پوری کرنے کی کوشش بھی کریں گے لیکن جب تک ہمارے پاس یہ سب نہیں ہے تب تک صبر و شکر کے ساتھ مسکرائیں گے اور جی بھر کے مسکرائیں گے۔

میں بڑی بڑی کوٹھیوں میں جھاڑو پوچا کرنے جاتی ہوں میں نے ان ہوادار محلات میں بھی لوگوں کا دم گھٹتے دیکھا ہے کیونکہ انسان کی خواہش کی کوئی انتہا نہیں ہوتی یہ کمینہ نفس ہمیشہ بہتر سے بہتر مانگتا ہی رہتا ہے اسکے پیٹ کی دوزخ کبھی ٹھنڈی نہیں ہوتی اس لیے کم ہو یا زیادہ مجھے پرواہ نہیں، مجھے جو چاہیئے تھا اللہ نے مجھے عطا فرما دیا ہے۔ تم تھے میرا مقصد باقی سب تو ضروریات ہیں، میں اپنے مقصد کو اپنی ضروریات کی خاطر چھوڑ نہیں سکتی، ضروریات مقصد کو پانے کے لیے ہوتی ہیں مقصد ضروریات کو پانے کے لیے نہیں، میں آج اپنے مقصد کے حصول کے بعد خوش ہوں بہت خوش اور ہمیشہ رہوں گی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے