میں مجبور تھی ۔ اردو کہانی

Romantic Stories in Urdu 

میں مجبور تھی ۔ اردو کہانی

میرا نام عنائزہ ہے
میری پیدائش کے دو سال بعد میری ماں خالقِ حقیقی سے جا ملیں،،
میرے پاس اس دنیا میں صرف ایک ہی رشتہ ہے اور ہیں میرے پاپا "موسیٰ انصاری"،،
میرے مطابق دنیا میں شاید ہی کوئی باپ اپنی بیٹی سے اس قدر پیار کرتا ہو،، انہوں نے مجھے ماں اور باپ دونوں کے ہی پیار سے نوازہ،،
کہا جائے تو میرے پاپا میرے آئیڈیل ہیں،،
مگر آج یوں اچانک میرے پاپا نے مجھے خود سے بہت دور کر دیا،،
انہوں نے کہا کہ وہ آج سے اکیس سال پہلے کا کیا ہوا وعدہ نبھا رہے ہیں کہ میری پیدائش پر ان کے دوست نے مجھے اپنے بیٹے کے لیے مانگا تو پاپا نے وعدہ کیا وقت آنے پر میری بیٹی تمہارے بیٹے کی ہی دلہن بنے گی،،
میری چھوٹی سے چھوٹی خوشی کا خیال رکھنے والے میرے پاپا جو مجھے کانٹا چبھنے پر خود تڑپ اٹھتے تھے آج ایک ہی بار میری تمام خوشیوں اور خواہشوں کا گلہ گھونٹ کر مجھے یہاں بھیج دیا ایک انجان شخص کے ساتھ پوری زندگی گزارنے لے لیے،،

نیو یاک میں آج میرا پہلا دن ہے،،،
کچھ وقت پہلے میرا ایک ایسے شخص کے ساتھ نکاح ہو چکا ہے جس کے بارے میں کچھ جاننا تو دور کی بات مجھے اس کا نام بھی نکاح نامہ پر سائن کرتے وقت معلوم ہوا،،،
"روحان ارسم"
وہ شخص کیسا ہو گا؟
کیسا دکھتا ہو گا؟
کیسے مزاج کا ہو گا؟
میرے ساتھ اس کا کیسا رویہ ہو گا؟
وہ صوفے پر بیٹھی ٹھنڈ سے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں کو مسلتی اس کے بارے میں سوچ رہی تھی جب ملازمہ اس کے سر پر آن کھڑی ہوئی،،،
بیگم صاحبہ آئیں آپ کو صاحب کے کمرے تک چھوڑ دوں،،،
عنائزہ بھاری سرخ لہنگا سمبھالتے ہوئے اٹھی اور اس کے ساتھ چلنے لگی،،،
اس کے دل کی دھڑکن اس وقت عروج پر تھی،،
لاؤنج سے گزرتے ہوئے عنائزہ کی نظر ایک بڑی سی گلاس وال کی طرف پڑی جو نیویارک کا منظر پیش کر رہی تھی،،،

آسمان سے گرتی سنو جسے دیکھنے کا عنائزہ کو بچپن سے ہی شوق تھا آج وہ یہ منظر اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہی تھی مگر اس وقت اس کا دل کسی قسم کے بھی جذبات سے عاری تھا،،،
ان کی فیملی کہاں ہے عنائزہ سنو فالنگ سے نظر ہٹا کر گھر کو دیکھتے ہوئے بولی،،،
بڑی بیگم صاحبہ جو صاحب کی دادی تھیں کچھ دن پہلے ان کا انتقال ہو گیا،،، ملازمہ نے جواب دیا
اوہ بہت افسوس ہوا،،، عنائزہ کو اس وقت اپنی جان کے لالے پڑے تھے کسی اور کی فکر کہاں تھی،،،
"اور باقی فیملی" سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس نے سرسری طور پر پوچھا
یہ رہا صاحب کا کمرہ وہ اس کی بات کا جواب دیے بغیر واپس مڑ گئی یہ بات عنائزہ کو کچھ عجیب لگی،،،
عنائزہ نے اپنا رخ کمرے کی طرف کیا وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ شخص اس وقت کمرے میں موجود ہے یا نہیں،،،
اندر جانے کے خیال سے اس کی ہتھیلیاں بھیگنے لگیں،،،
ایک لمبا سانس کھینچتے ہوئے اس نے دروازے کا ہینڈل گھمایا اور ایک آواز کے ساتھ دروازہ کھلتا چلا گیا،،،
اس نے کمرے کے اندر قدم رکھا،،،
اتنا سادہ کمرہ اس نے شاید پہلی بار دیکھا تھا
سفید بیڈ شیٹ، گلاس وال کے ساتھ لٹکے سفید پردے، فرنیچر میں یہاں صرف تین ہی چیزیں تھیں "بیڈ، صوفہ اور وارڈ ڈروب"
اوہ میرے خدایا نہ جانے یہ شخص کیسا ہو گا،،، ایک ڈر کے ساتھ عنائزہ نے اپنا دوسرا قدم اندر رکھا،،
اب وہ دروازہ بند کر کے کمرے کا مزید جائزہ لینے لگی جب صوفے کے پیچھے سے اسے کچھ آہٹ سنائی دی،،،
وہ بے آواز قدموں سے صوفے کی جانب بڑھنے لگی اور سامنے کا منظر دیکھ کر اس کا دل دیہک کر رہ گیا،،،
ایک لڑکا جو اپنے گھٹنوں میں چہرہ چھپائے یوں ڈر رہا تھا جیسے کبوتر کا بچہ بلی کے ڈر سے آنکھیں موندے بیٹھا ہو،،،
کیا یہی وہ شخص ہے جس کے ساتھ میرا نکاح ہوا ہے؟ ایک سوال جو عنائزہ نے خود سے کیا تھا،،،
کون ہیں آپ؟
عنائزہ نے اسے مخاطب کرنے کی ناکام کوشش کی
وہ مزید اپنا چہرہ گھٹنوں میں چھپانے لگا اس کی دبی دبی سسکیوں کی آواز عنائزہ کی سماعت میں پڑی،،،
ر۔۔روحان،،
عنائزہ نے اس کا نام پکارا تا کہ وہ کنفرم کر سکے کیا یہی وہ شخص ہے جس کے وہ نکاح میں ہے،،،
روحان نے ڈرتے ڈرے اپنا چہرہ گھٹنوں سے اوپر اٹھایا،،،
خوبصورتی کی ایک ایسی مثال جسے دیکھ کر عنائزہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں،،،
ماتھے پر گرتے سنہری بال،،، ایسی سبز آنکھیں کہ جن کی خوبصورتی بیان نہ کی جا سکے،،، خوف سے کپکپاتے باریک سرخ لب جن کے نیچے بائیں جانب چھوٹا سا سیاہ تل تھا،،، دودھیا رنگت جو ہاتھ لگانے سے شاید میلی ہو جاتی،،،
پ۔۔پلیز مجھ سے دور رہو م۔۔۔میرے قریب مت آنا،،، وہ عنائزہ سے اس طرح خوف کھا رہا تھا جیسے وہ انسان نہیں ایک چڑیل ہو
عنائزہ اسے دیکھ کر پریشان ہونے لگی آخر ایسا کیسے ہو سکتا ہے تقریباً چھبیس سال کا ایک جوان لڑکا اس طرح سے کیسے ڈر سکتا ہے
روحان،،،
اس نے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا
ن۔۔نہیں پ۔۔پلیز پاس م۔۔مت آنا،،، وہ کسی بچے کی طرح ہچکیوں سے رونے لگا
حیرت زدہ ہو کر عنائزہ ایک ایک قدم اس سے پیچھے اٹھانے لگی جب وہ بیڈ کے سائیڈ ٹیبل سے ٹکرائی،،،
اس کی نظر ٹیبل پر پڑی جہاں ایک میڈیکل فائل تھی،،،
عنائزہ نے کپکپاتے ہاتھوں سے فائل اٹھا کر کھولی،،،
کہ اس کی نظر ایک جگہ آکر ٹھہر گئی
"Human phobia"
(یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں مریض انسانوں سے ہی ڈرتا ہے ان کے وجود سے خوف کھاتا ہے ان سے دور بھاگنا چاہتا ہے اور وہ ہر وقت اکیلا رہنا پسند کرتا ہے)
عنائزہ کے ہاتھ سے فائل گری وہ بیڈ سے ٹیک لگائے زمین پر بیٹھی
کیوں پاپا آخر کیوں کیا آپ نے میرے ساتھ ایسا،،، اس کے خواب اس کی آنکھوں سے بہنے لگے تھے،،
اب کمرے میں ایک نہیں دو لوگ رو رہے تھے،،
روحان نے ہاتھ کی پشت سے اپنی سبز نم آنکھوں کو صاف کیا اور سہما ہوا عنائزہ کی طرف دیکھنے لگا،،
اس کو یہ تو معلوم تھا کہ آج اس کا عنائزہ نام کی لڑکی کے ساتھ نکاح ہوا ہے مگر اس نے یہ نکاح اپنی مرضی سے نہیں کیا تھا،،
روحان کی دادو دردانہ بیگم جو روحان کے قریب تھیں اس کا خیال رکھتی تھیں،،
روحان ان سے خوفزدہ نہیں ہوتا تھا ایک اس کی دادو ہی تو تھی اس کی دنیا جو اسے چھوڑ کر جا چکی تھیں،،
انہوں نے مرنے سے پہلے روحان سے وعدہ لیا کہ وہ پاکستان سے آنے والی عنائزہ نام کی لڑکی کے ساتھ نکاح کرے گا،،
روحان کے لاکھ انکار کے باوجود بھی دردانہ بیگم نے اسے راضی کر لیا تھا،،
اپنا کام پورا کرنے کے بعد ان کی زندگی کی مہلت ختم ہو گئی اور روحان اکیلا رہ گیا،،
آج دردانہ بیگم کو دنیا سے رخصت ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا اور ان سات دنوں کے دوران روحان ڈر کے مارے اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلا تھا،،
وہ نہ تو ڈھنگ سے کچھ کھا رہا تھا نہ ہی اپنا خیال رکھ رہا تھا تب سے اس کی زبان سے بس ایک ہی لفظ ادا ہو رہا تھا "دادو" ،،،
اب بھی وہ روتے روتے دادو دادو کہہ رہا تھا کہ عنائزہ نے اس کی طرف حقارت بھری نظروں سے دیکھا،،،
پتہ نہیں میرے کس گناہ کی سزا ہو تم،،، عنائزہ نے روحان کی طرف دیکھتے ہوئے اونچی آواز میں کہا
روحان اس کی بات سن کر مزید خوفزدہ ہونے لگا اور کھسکتا ہوا دیوار کے کونے میں جا بیٹھا،،،
پاپا یہ کیا کیا آپ نے مجھے یہاں ایک مریض کی دیکھ بھال کے لیے آیا بنا کر بھیج کر دیا،، اس نے ماتھے پر ہاتھ رکھا
روحان نے اس کی باتیں سن کر پھر سے رونا شروع کیا اس کی سسکیاں پھر سے عنائزہ کے کانوں میں پڑنے لگیں،،
چپ کرو،،، عنائزہ چلّائی
روحان کی سسکی اس کے منہ میں ہی رہ گئی خوف سے وہ کانپنے لگا،،،
اس کے سرخ ہونٹ کا نچلا تل ہونٹوں کی کپکپاہٹ کے ساتھ کپکپا رہا تھا،،،
اگر وہ ایک مریض نہ ہوتا تو عنائزہ اپنی قسمت پر رشک کرتی،،،
غصے کے ساتھ وہ اٹھی اور وارڈ دروب کھولے ایک سادہ سا سوٹ نکالا اور واش روم گھس گئی،،،
روحان نے دھندلاتی آنکھوں سے اسے واش روم جاتے دیکھا اور اپنی آنکھیں صاف کیں،،،
تقریباً پندہ منٹ بعد وہ ٹاول سے بال خشک کرتی نکلی اور روحان کو وہیں بیٹھا پایا،،،
اٹھو بیڈ پر سو جاؤ،،، وہ تلخ لہجے سے بولی
وہ معصوم جو ویسے ہی اس سے ڈر رہا تھا اس کے غصے سے مزید خوف کھانےگا،،،
روحان جانتا تھا کہ اسے عنائزہ کے ساتھ بیڈ شیئر کرنا پڑے گا اس ڈر سے اس نے عنائزہ کی ایک نہ سنتے ہوئے اپنے گھٹنوں میں چہرہ چھپایا،،،
تمہیں ایک بار میں بات سمجھ نہیں آتی کیا،،، وہ چلّائی
روحان کی حالت بگڑ رہی تھی وہ چہرہ چھپائے بیٹھا رہا،،،
عنائزہ نے ٹاول ایک سائیڈ رکھا اور تیز قدموں سے اس کی طرف آئی،،،
ابھی اور اسی وقت اٹھو یہاں سے،،، وہ مسلسل چلّا رہی تھی
روحان کی طرف سے کوئی ردِعمل نہ پا کر عنائزہ نے اسے کندھے سے پکڑ کر جھنجھوڑا،،،
ایک دم سے روحان نے چہرہ اوپر کیا اور عنائزہ کو دھکا دے کر کمرے سے باہر نکل گیا،،،
عنائزہ کا ماتھا دیوار کے ساتھ لگا وہ اپنا سر پکڑتے ہوئے وہیں بیٹھ گئی،،،
ملازمہ نے روحان کو باہر کے گیٹ کی طرف بھاگتے ہوئے دیکھا تو فورن اس کے پیچھے بھاگی،،،
روحان بابا رک جائیں،،، اس نے آواز لگائی مگر روحان کسی کی سننے والا نہ تھا
وہ ہانپتا ہوا گیٹ کھول کر باہر نکل گیا،،،
اس وقت بھی سنو فالنگ ہو رہی تھی ملازمہ روحان کے لیے پریشان ہوئی،،
ملازمہ واچ مین (جو اس کا شوہر تھا) کے روم میں اس کے سر پر آن کھڑی ہوئی،،،
تم سو مر لو شفیق اور روحان بابا باہر نکل گئے ہیں پتہ ہے نا کتنا گھنا جنگل ہے باہر،،،
وہ اس کے پاس کھڑی یوں چلّائی کہ شفیق ہڑبڑا کر اٹھا،،،
کیا ہوا عقیلہ کیوں نیند خراب کر رہی ہو،،،
روحان بابا بھاگ گئے ہیں جنگل کی طرف جلدی اٹھو اور ڈھونڈو انہیں،،، عقیلہ پریشانی سے بولی
کیا روحان بابا گھر سے باہر نکل گئے اللہ خیر کرے اب تو دردانہ بیگم بھی نہیں ہیں جو انہیں لاڈ پیار سے سمجھا کر واپس لے آتیں تھیں روحان بابا میری بات کیسے مانیں گے تمہیں تو پتہ ہی ہے کتنا ڈرتے ہیں وہ سب سے،،،
شفیق یہ بات بڑی پریشانی کی ہے اب ہم کیا کریں ہم نے انہیں ڈھونڈ بھی لیا تو وہ کبھی ہمارے ساتھ نہیں آئیں گے،،، عقیلہ پریشان ہوئی
تم ایسا کرو بیگم صاحبہ کو بلا کر لاؤ وہی انہیں واپس لے کر آئیں گی،،،
ہاں یہ ٹھیک ہے میں ابھی بلا کر لاتی ہوں،،، شفیق کے کہنے پر عقیلہ اندر کی طرف بھاگی
عنائزہ اپنے ماتھے پر بینڈیج لگا رہی تھی جب عقیلہ تیزی سے کمرے میں داخل ہوئی،،،
بیگم صاحبہ روحان بابا جنگل کی طرف بھاگ گئے ہیں،،،
تو،،، عنائزہ لاپرواہی سے بولی
عقیلہ اس کی بات پر حیران ہوئی،،،
تو آپ ہمارے ساتھ چلیں انہیں ڈھونڈ کر واپس گھر لائیں،،،
میرے پاس فالتو وقت نہیں ہے مجھے نیند آرہی ہے،،، وہ بیڈ کی طرف چل دی
عقیلہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی،،،
جاتے ہوئے دروازہ بند کر دینا،،، عنائزہ نے کمفرٹر اوپر لیتے ہوئے کہا
عقیلہ خاموشی سے مڑی اور دروازہ بند کیا،،،
اب وہ واپس شفیق کے پاس آئی،،،
بیگم صاحبہ کدھر ہیں،،، شفیق نے پوچھا
انہوں نے تو آنے سے انکار کر دیا اور سو گئی ہیں،،،
کیا،،، شفیق کو عقیلہ کی بات سے صدمہ لگا
عقیلہ چلو ہمیں روحان بابا کو ڈھونڈ کر کیسے بھی گھر لے کر آنا ہو گا،،،
ہاں اللہ سب خیر کرے بس روحان بابا ہماری بات مان جائے،،،
وہ دونوں خیریت کی دعا کرتے ہوئے گیٹ سے باہر نکل گئے،،،

روحان بابا،،،
روحان بابا،،،
وہ پچھلے ایک گھنٹے سے برف پہ چلتے ہوئے اسے آوازیں لگاتے ہوئے ڈھونڈ رہے تھے مگر روحان کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا،،،
روحان بابا کدھر ہو آپ اللہ کے لیے سامنے آجائیں گھر چلتے ہیں،،،
عقیلہ اونچی آواز میں بولی
رات کے دس بجے کا وقت تھا اور وہ ہاتھوں میں ٹارچ لیے اسے ڈھونڈنے کی کوشش میں لگے تھے،،،
اس وقت اگر روحان مل جاتا تو یہ معجزہ ہی ہوتا،،،
جنگل میں جانور نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کسی قسم کا ڈر نہیں تھا،،،

عنائزہ ایک گھنٹے سے سونے کی کوشش کر رہی تھی مگر اسے نیند نہیں آرہی تھی،،،
اس کی ازداوجی زندگی اس طرح کی ہو گی اس نے کبھی سوچا نہیں تھا،،،
اس نے اپنے شوہر کے بارے میں کیا کیا خواب دیکھ رکھے تھے،،،
روحان خوبصورت تو بے حد تھا مگر عنائزہ کے سامنے اس کی خوبصورتی کے آگے اس کی بیماری بھاری پڑ گئی،،،
اس نے لیمپ آن کر کے گھڑی کو دیکھا جو رات کے گیارہ بجا رہی تھی،،،
اسے روحان کا خیال آیا کہ نہ جانے وہ اتنی رات گئے کہاں ہو گا،،،
پھر اپنے ذہن کو جھٹکتے ہوئے پھر سے کمفرٹر اوڑھے لیٹ گئی،،،
دس منٹ تک لیٹے رہنے کے بعد بھی اس کے ذہن سے روحان کا خیال نہ گیا،،،
اس کے سامنے روحان کی روتی ہوئی سبز آنکھوں کا منظر آنے لگا،،،
افف کیا مصیبت ہے،،، وہ چِڑتی ہوئی بستر سے اٹھی اور گلاس وال کی طرف آئی،،،
سفید پردے ہٹا کر دیکھا تو سنو فالنگ ہو رہی تھی،،، اتنی ٹھنڈ دیکھ کر ہی عنائزہ کو کپکپی طاری ہوئی،،،
اتنی ٹھنڈ روحان کیسے برداشت کر رہا ہوگا اس نے تو کوٹ بھی نہیں پہنا،،، اس نے دل میں کہا
وہ مڑی اور وارڈ ڈروب سے دو اوور کوٹ اٹھائے ایک خود پہنا اور دوسرا روحان کے لیے،،،
ایک ہاتھ میں کوٹ اور دوسرے ہاتھ میں ٹارچ پکڑے وہ کمرے سے باہر نکل گئی،،،
اس نے آس پاس ملازمہ کو دیکھا جو کہیں نظر آئی اس سے عنائزہ کو معلوم ہو چکا تھا کہ وہ روحان کو ڈھونڈنے کے لیے گئی ہے،،،
گھر کے اندرونی دروازے سے باہر نکلتے ہی ٹھنڈ نے اسے اپنے گھیرے میں لیا،،،
وہ کپکپاتی ہوئی گیٹ کی طرف بھاگی،،،
گیٹ سے نکلتے ہی دائیں جانب گھنے جنگل کو پایا، ایک پل کے لیے تو وہ خوفزدہ ہوئی پھر ہمت کرتی ہوئی جنگل میں داخل ہوئی،،،
ٹارچ کو دائیں بائیں پھیرتی وہ اسے ڈھونڈنےگی،،،
روحان،،، اس نے آواز لگائی
جنگل میں مکمل خاموشی تھی عنائزہ کا دل دھک دھک کر رہا تھا ایک تو وہ جنگل میں پہلی بار داخل ہوئی تھی دوسرا اتنی رات میں تو اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا،،،
روحان بابا،،،
عنائزہ کو عقیلہ کی آواز آئی،،،
ملازمہ،،،
عنائزہ نے اسے پکارا کیوں کہ وہ اس کا نام نہیں جانتی تھی وہ آج ہی تو یہاں آئی تھی،،،
عقیلہ اس کی آواز سن کر اس کی طرف بڑھنے لگی اور عنائزہ بھی اس طرف چلنے لگی جہاں سے عقیلہ کی آواز آئی تھی،،،
اچانک عنائزہ کسی چیز سے ٹکرائی اور برف سے بھری زمین پر گری اس نے ٹارچ اس چیز کی طرف گھمائی،،،
روحان،،، بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا
روحان آدھا برف میں اور آدھا برف سے باہر بے ہوش پڑا تھا اس کا جسم کسی مردے کی طرح اکڑ چکا تھا،،،
ملازکہ جلدی یہاں آؤ روحان مل گیا ہے،،، عنائزہ نے آواز لگائی
عقیلہ بھی شفیق کو آوازیں لگاتی اس کی طرف بھاگی،،،
عنائزہ روحان کے اوپر سے برف ہٹا رہی تھی جب عقیلہ وہاں پہنچی،،،
یا اللہ رحم،، بے ساختہ عقیلہ کے منہ سے نکلا وہ بھاگتی ہوئی روحان کے پاس آئی
روحان بابا،، وہ اس کا چہرہ تھپتھپاتی ہوئی رونے لگی اسے یوں روتا دیکھ کر عنائزہ حیران ہوئی کہ ایک ملازمہ ہو کر اسے روحان کی اتنی فکر کیسے،،،
شفیق پہنچا اور روحان کی حالت دیکھ کر پریشان ہوا،،،
تم روحان کو اٹھاؤ میں اسے کوٹ پہناتی ہوں،،، عنائزہ بولی
شفیق نے روحان کو اٹھایا اور عنائزہ نے اس کے اوپر کوٹ ڈال کر اسے ڈھانپا تا کہ وہ مزید ٹھنڈ اور برف سے بچ سکے،،،
اب ان کا رخ گھر کی طرف تھا،،،

دس منٹ کا سفر زمین پر پڑی برف کی وجہ سے پندرہ منٹ میں طے ہوا،،،
شفیق نے روحان کو اس کے کمرے میں لا کر بستر پر لیٹایا،،،
شفیق جلدی ڈاکٹر کو فون کر کے آؤ،،، عقیلہ بولی
شفیق باہر کی طرف بھاگا،،،
عقیلہ نے روحان کے اوپر کمفرٹر دیا اور ہیٹر تیز کیا،،، عنائزہ ان دونوں کا اتنا پریشان ہونا دیکھ کر حیران ہو رہی تھی
عقیلہ سگنل کا مسئلہ بن رہا ہے فون نہیں ہو سکتا میں ڈاکٹر کو بلانے جا رہا ہوں،،، شفیق بھاگتا ہوا دروازے میں کھڑا ہوا
یہ سگنل کا مسئلہ بھی آج ہی بننا تھا اچھا تم جاؤ کوشش کرنا جلدی آجاؤ،،، عقیلہ بولی
ہاں میں گاڑی لے کر ہی جا رہا ہوں جلدی آجاؤں گا،،، شفیق کہہ کر مڑا
بیگم صاحبہ میں باہر جاتی ہوں آپ ڈاکٹر کے آنے سے پہلے روحان بابا کے کپڑے بدل دیں،،،
کیا،،، اس کی بات پر عنائزہ کو منہ کھلا
یہ کام صرف آپ ہی کر سکتی ہیں،،، وہ بیچارہ سا منہ بنا کر بولی
مگر،،،
دیکھیے بیگم صاحبہ یہ سوچنے کا وقت نہیں ہے وہ پہلے ہی ٹھنڈ سے بے ہوش ہو چکے ہیں میں باہر جا رہی ہوں آپ ان کا چینج کروا دیں،،، عقیلہ اس کی بات کاٹ کر اپنی سناتی ہوئی دروازہ بند کر کے باہر جا چکی تھی
عنائزہ پریشان سی کھڑی اب سوچ رہی تھی کیا کرے اس نے ایک نظر روحان کی طرف دیکھا
ٹھنڈ کی شدت سے اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا،،،
عنائزہ نے ایک لمبا سانس کھینچا اور وارڈ ڈروب سے ایک ڈریس نکال کر بیڈ کی طرف آئی،،،
اس نے روحان کے اوپر سے کمفرٹر ہٹایا اور اسے دیکھنے لگی،،،
بے حد خوبصورت،،، عنائزہ کے دل نے کہا ، پھر جلدی سے اپنے خیال کو جھٹکا
اس نے لائٹ آف کی اور روحان کی شرٹ کھولنے لگی،،،
اس کے سینے سے ٹکراتی عنائزہ کی انگلیاں اس کے دل کی دھڑکن کو بڑھا رہی تھیں،،،

اس نے پوری طاقت سے اٹھا کر روحان کا سر اپنے کندھے پر رکھا اور شرٹ اتار کر دوسری شرٹ پہنائی،،،
اب اس نے اسے لیٹایا اور شرٹ کے بٹن بند کیے،،،
دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے باقی کے کپڑے چینج کیے اور لائٹ آن کی،،،
روشنی ہوتے ہی اس کی نظر روحان کے ہونٹ کے نیچے کالے تل پر آکر ٹھہر گئی،،،
کوئی اتنا خوبصورت کیسے ہو سکتا ہے،،، عنائزہ کا دل پھر سے بولا
بیگم صاحبہ ڈاکٹر آگئے ہیں،،، باہر سے عقیلہ کی آواز آئی
لے آؤ اندر،،، عنائزہ نے کہتے ہوئے روحان کے اوپر کمفرٹر دیا
ڈاکٹر اندر داخل ہوا اور روحان کا چیک اپ کرنے لگا،،،
بخار بہت تیز ہے انہیں زیادہ سے زیادہ ہیٹ دیں ورنہ نمونیہ ہو سکتا ہے،،، ڈاکٹر بولا
اس نے اپنے باکس سے کچھ میڈیسنز نکال کر عنائزہ کو پکڑائیں اور سمجھانے لگا،،،
ڈاکٹر صاحب اور کوئی فکر کی بات تو نہیں،،، عقیلہ پریشانی سے بولی
اگر ہیٹ نہ ملی تو فکر کی بات ہے،،، ڈاکٹر نے کہتے ہوئے اپنا باکس اٹھایا اور شفیق کے ساتھ باہر ہو لیا
بیگم صاحبہ،،،
عقیلہ ابھی بولی ہی تھی کہ عنائزہ نے اسے ٹوکا،،،
ہاں دے رہی ہوں میڈیسنز اور خیال بھی رکھوں گی اب تم جاؤ،،،
جی اچھا،،، عقیلہ کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی،،،
عنائزہ نے پانی میں ٹیبلیٹس ملا کر چمچ سے روحان کو پلائیں اور اس کے آس پاس کمفرٹر دباتی ہوئی اٹھی،،،
اپنی سائیڈ پر آکر وہ لیٹ گئی اس کی نظریں اب بھی روحان پر ہی تھیں،،،
اس کے ذہن میں ڈاکٹر کی بات آئی کہ روحان کو ہیٹ نہ دی گئی تو اسے نمونیہ ہو سکتا ہے،،،
اس نے ہیٹر فل کیا اور پھر سے روحان کو دیکھنے لگی،،،
سنہری بال،،، اس کے سنہری بال دیکھ کر عنائزہ کا دل چاہا کہ ان میں انگلیاں پھیرے
دل کی مانتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ اس کے سنہری بالوں کی طرف بڑھایا اور آہستہ سے انگلیاں پھیرنے لگی،،،
روحان کے جسم میں ایک کپکپی طاری ہوئی شاید وہ اب بھی ٹھنڈ کے حصار میں تھا،،،
عنائزہ کھسک کر اس کے قریب ہوئی اور اسے اپنے حصار میں لیا،،،
کب اس پر نیند کا غلبہ طاری ہوا اسے خبر نہ ہوئی،،،

گلاس وال سے آتی روشنی سے روحان کی آنکھیں آدھی کھلیں،،،
اسے اپنے ادر گرد کسی کا حصار محسوس ہوا اس نے جھٹ سے پوری آنکھیں کھولیں اور خود سے لپٹی عنائزہ کو دیکھا،،،
اس کا دل دھک دھک کرنے لگا شاید اس بار خوف کے ساتھ ایک اور احساس بھی شامل تھا
 
.............................
............................ 
............................ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے