آنسوؤں کا حساب

Sublimegate Urdu Stories

یہ اس وقت کی بات ہے جب میری عمر صرف دو سال تھی۔ میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ میرے والد کو ریلوے میں ملازمت ملنے کے باعث ہم راولپنڈی منتقل ہوگئے تھے۔ والد کی رات کی ڈیوٹی کبھی کبھار ہوتی، اور وہ صبح آٹھ بجے گھر لوٹ آتے۔ ایسی صبحوں میں وہ سارا دن گھر پر رہتے، اور میں ان کے ساتھ وقت گزار کر بہت خوش ہوتی۔ لیکن میری والدہ راتوں کو اکیلے گھر میں رہتے ہوئے پریشان رہتیں۔ ایک جوان اور اکیلی عورت ہونے کے ناطے انہیں ہر وقت یہ خوف ستاتا کہ معاشرے کے درندے انہیں بری نظروں سے دیکھتے ہیں۔

ایسی ہی ایک بھیانک رات، جب والد اپنی ڈیوٹی پر تھے، میں اور میری والدہ اپنے کمرے میں سو رہے تھے۔ میں اس وقت ایک ناسمجھ بچی تھی، لیکن میری والدہ ایک خوبصورت اور نوجوان عورت تھیں۔ وہ میرے والد سے بے پناہ محبت کرتی تھیں۔ انہوں نے والد سے پسند کی شادی کی تھی، اور اس کے لیے اپنا سب کچھ، حتیٰ کہ اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو بھی چھوڑ دیا تھا۔

اس رات، جب آدھی رات کا وقت تھا، میں اپنی والدہ کے ساتھ لپٹ کر سو رہی تھی۔ میری نیند ایسی گہری تھی جیسے جنت کی پریاں مجھے جھولا جھلا رہی ہوں۔ لیکن مجھے کیا خبر تھی کہ آنے والی چند گھڑیاں میری زندگی سے میری والدہ کو ہمیشہ کے لیے چھین لینے والی ہیں۔

رات کے گہرے اندھیرے میں تین ڈاکو ہمارے گھر میں گھس آئے۔ انہوں نے میری والدہ کو یرغمال بنا لیا۔ میں اس وقت کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی اور صرف رونے کے سوا کچھ نہ کر سکی۔ بعد میں مجھے ان تمام ہولناک واقعات کا علم ہوا۔ ڈاکوؤں نے گھر سے والدہ کے زیورات اور وہ جمع پونجی لوٹ لی جو میرے ماں باپ نے میرے مستقبل کے لیے سنبھال کر رکھی تھی۔ اگر وہ صرف مال و دولت لوٹ کر چلے جاتے، تو شاید یہ نقصان برداشت ہو جاتا۔ لیکن جاتے جاتے ان ظالموں نے میری والدہ کی عزت کو تار تار کر دیا۔

ان تین ڈاکوؤں میں سے ایک ان کا سردار تھا۔ جاتے وقت اچانک اس کے دل میں شیطانی خیال آیا۔ وہ واپس پلٹا، میری والدہ کے منہ پر ہاتھ رکھا، اور ان کی چیخ کو دبا دیا۔ والدہ نے بہت مزاحمت کی، لیکن ان کی آواز ان کے گلے میں ہی دب کر رہ گئی۔ میں بستر پر بیٹھی رو رہی تھی، جبکہ باقی دو ڈاکو میری والدہ کی بے بسی پر ہنس رہے تھے۔ اس سردار ڈاکو نے میری والدہ کو زبردستی دوسرے کمرے میں لے جا کر دروازہ بند کر لیا۔ اس ظلم اور بربریت کے لمحات میں میری والدہ نے ناقابل برداشت اذیت سہی۔ وہ ڈاکو مال و دولت کے ساتھ گھر کی عزت بھی لوٹ کر فرار ہو گئے۔

میری والدہ ایک نہایت شریف اور باپردہ عورت تھیں۔ اپنی عزت لٹ جانے کا صدمہ وہ برداشت نہ کر سکیں اور اسی کمرے میں انہوں نے دم توڑ دیا۔ اگلی صبح جب والد گھر لوٹے، انہوں نے دروازہ کھلا پایا۔ میں روتے روتے بستر پر سو گئی تھی۔ گھر کا سامان بکھرا پڑا تھا۔ والد پریشانی اور حیرت میں ڈوب کر والدہ کو آوازیں دینے لگے۔ ان کی آواز سن کر میری آنکھ کھلی، اور والدہ کو اپنے پاس نہ پا کر میں پھر سے رونے لگی۔

اچانک والد نے ساتھ والے کمرے میں قدم رکھا تو ان کا جسم وہیں ساکت ہو گیا۔ ان کے سامنے ان کی محبوب بیوی برہنہ حالت میں مردہ پڑی تھیں۔ والد کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ سب کیسے ہو گیا۔ وہ خون کے آنسو روتے ہوئے خود کو سنبھالنے کی کوشش کرنے لگے اور جلدی سے والدہ کے جسم کو ڈھانپا۔

یہ خبر آہستہ آہستہ پورے محلے میں پھیل گئی۔ ہر سننے والا حیران و پریشان ہمارے گھر کی طرف دوڑا۔ محلے کے چند معززین نے والد کو مشورہ دیا کہ یہ ڈکیتی اور قتل کی واردات ہے، اس لیے فوراً پولیس کو اطلاع دینی چاہیے۔ والد، جو اپنے ہوش و حواس کھو چکے تھے، سر جھکائے خاموشی سے آنسو بہاتے رہے۔ ایک ہمسائے کی مدد سے پولیس کو بلایا گیا۔ پولیس نے موقع پر کوئی خاص شواہد نہ پائے۔ سرسری تفتیش اور اہل محلہ سے پوچھ گچھ کے بعد وہ والدہ کی لاش کو ہسپتال لے گئے، جہاں پوسٹ مارٹم ہوا۔ اسی شام والدہ کو دفنا دیا گیا۔

اب میرے لیے والد کے سوا کوئی نہ تھا۔ وہ مجھے بے حد چاہتے تھے۔ وہ مجھے سینے سے لگائے اس علاقے کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔ والد نے وہ ملازمت ترک کر دی اور اپنے آبائی گاؤں میں اپنے بڑے بھائی، یعنی میرے چچا، کے پاس رہنے چلے گئے۔ چچا کی کچھ زمینیں تھیں، جن میں والد کا بھی حصہ تھا۔ چچا نے والد کی بہت دلجوئی کی، انہیں اپنے پاس رکھا، اور ان کی تمام ضروریات پوری کیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے والد کے لیے ایک گھر بھی بنوا دیا۔

وقت گزرتا رہا۔ جب میں پانچ سال کی ہوئی تو چچا کے بیٹے، عمر دراز، کے ساتھ سکول جانے لگی۔ وہ اس وقت آٹھ سال کا تھا اور تیسری جماعت کا ذہین طالب علم تھا۔ میں اس کے ساتھ کھیلتی اور زیادہ تر وقت اس کے ساتھ گزارتی۔ اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا، جس کی وجہ سے میں بھی کتابیں لے کر اس کے پاس بیٹھ جاتی۔

جب میں آٹھ سال کی ہوئی تو چچا اور چچی نے والد کو دوسری شادی کے لیے قائل کرنا شروع کر دیا۔ چچا اپنے بھائی سے بے حد محبت کرتے تھے اور ان کی تنہائی انہیں برداشت نہ تھی۔ وہ والد کو اداس نہیں دیکھ سکتے تھے۔ آخر کار ان کے اصرار پر والد نے دوسری شادی کے لیے ہامی بھر لی۔ ان کی دوسری بیوی ثمرین، چچی کی چھوٹی بہن، ایک لائق، سمجھدار، اور بڑوں کا ادب کرنے والی لڑکی تھی۔ مجھے اپنی نئی ماں بہت پسند آئی۔ وہ میرا بہت خیال رکھتی تھیں، اور میں انہیں "مما" کہتی تھی۔

مما نے گھر کو اس طرح سنبھالا کہ برسوں بعد میں نے والد کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی۔ انہوں نے ہم باپ بیٹی کی زندگیوں کو دوبارہ خوشیوں سے بھر دیا۔ جب میں دس سال کی ہوئی تو اللہ نے مجھے ایک پیارے سے بھائی، سلمان، کی صورت میں تحفہ دیا۔

وقت تیزی سے گزر گیا، اور میں سترہ سال کی ہو گئی۔ سلمان اس وقت سات سال کا تھا۔ لیکن ایک المناک حادثے نے میری ماں ثمرین اور والد کو مجھ سے چھین لیا۔ یہ میری زندگی کا سب سے بڑا صدمہ تھا۔ میں ایک بار پھر تنہا ہو گئی، لیکن اب میں سمجھدار ہو چکی تھی۔ زندگی کے نشیب و فراز سے نمٹنے کا ہنر مجھے کچھ حد تک آ چکا تھا۔ چچا اور ان کے خاندان کے سہارے کے بغیر شاید ہم بہن بھائی اس دنیا کی بھیڑ میں کہیں کھو گئے ہوتے۔ لیکن چچا نے ہمیں سنبھال لیا اور ہمیں اپنے خاندان کا حصہ بنایا۔

وقت آہستہ آہستہ گزر رہا تھا، اور میں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی۔ اللہ نے مجھے حسن کے ساتھ شرم و حیا اور سلیقہ بھی عطا کیا تھا۔ عمر دراز کالج کی تعلیم مکمل کر کے مزید پڑھائی کے لیے شہر چلا گیا تھا۔ اکثر چچا اور چچی کی باتیں سن کر میں شرما جاتی، جب وہ عمر دراز کے لیے میرے بارے میں سوچتے۔ چچی کہا کرتیں، "گھر کی لڑکی گھر میں ہی رہے گی۔ ماشاءاللہ، شمائلہ مجھے بہت پسند ہے۔ میں اسے کہیں باہر نہیں بھیج سکتی۔ اپنے عمر دراز سے ہی اس کی شادی کروں گی۔" ان کی باتیں سن کر میرے دل میں خوشی کے لڈو پھوٹتے، ایک عجیب سا سرور میری روح کو چھو لیتا۔

میں بھی عمر دراز کو پسند کرتی تھی، لیکن یہ پسندیدگی محبت یا چاہت کی وہ شکل نہیں تھی جو عام ہوتی ہے۔ یہ ایک پاکیزہ رشتہ تھا، جو احترام، قدر، اور خیال پر مبنی تھا۔ شاید یہ محبت سے بھی آگے کی کوئی چیز تھی۔ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے، عمر دراز نے کبھی مجھے نظر بھر کر نہیں دیکھا۔ وہ ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتا کہ گھر میں ایک جوان لڑکی ہے، اور کوئی غلط فہمی نہ ہو۔ اس کی یہی خوبی میرے دل میں گھر کر گئی تھی۔ میں اسے اپنا جیون ساتھی بنانے کے خواب دیکھتی، اور جب چچا اور چچی کی زبانی اس کے اور میرے بارے میں باتیں سنتی، تو دل سے اللہ کا شکر ادا کرتی۔

وقت نے پلٹا کھایا، اور میں اکیس سال کی ایک خوبصورت دوشیزہ بن گئی، جس نے پورے گھر کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ عمر دراز نے یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کر لی تھی اور چھٹیوں میں گھر آیا کرتا۔ جب وہ آتا، میں چھپ جاتی اور اس سے شرماتی، کیونکہ مجھے یقین تھا کہ چچا اور چچی اس کی شادی کہیں اور نہیں کریں گے۔ انہوں نے میرے لیے اسے چن لیا تھا۔

اس بار جب عمر دراز گھر آیا، تو وہ لمبی چھٹی پر تھا، کیونکہ اس کے نتیجے کا اعلان ہونے میں ایک ماہ باقی تھا۔ اس کے بعد شاید وہ ملازمت کے لیے دوبارہ شہر چلا جاتا۔ مجھے خبر ملی کہ چچا اور چچی اس سے میرے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔ جب بھی گھر میں ہم دونوں کے بارے میں کوئی گفتگو ہوتی، میرے کان کھڑے ہو جاتے، اور میں چھپ کر ان کی باتیں سنتی۔

اس بار جب چچا اور چچی نے عمر دراز سے میرے بارے میں پوچھا، تو وہ کافی دیر تک خاموش بیٹھا رہا۔ میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں کہ وہ جواب کیوں نہیں دے رہا۔ بالآخر جب اس نے منہ کھولا، تو اس کے الفاظ نے میرے ارمانوں کو چکنا چور کر دیا۔ میرے خوابوں کا شیش محل پل بھر میں زمین بوس ہو گیا۔ اس نے کہا، "امی جان، میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔ اور جب کروں گا، تو شہر کی کسی پڑھی لکھی لڑکی سے کروں گا۔ میں نے کبھی شمائلہ کے بارے میں اس طرح نہیں سوچا۔ میں اس کی بہت عزت کرتا ہوں۔ میرا ابھی شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اگر آپ شمائلہ کا رشتہ کسی اچھی جگہ کرنا چاہتے ہیں، تو کر دیجیے۔"

عمر دراز کی یہ باتیں سن کر چچا اور چچی خاموش ہو گئے۔ وہ ایک دوسرے کے چہرے دیکھتے رہے، جیسے ان کا خواب ٹوٹ گیا ہو۔ عمر دراز اتنا کہہ کر گھر سے باہر چلا گیا، لیکن میرے دل کے دریچوں میں ہمیشہ کے لیے اندھیرا چھا گیا۔ وہ خواب اور ارمان جو میں نے اس کے لیے سجائے تھے، بکھر کر رہ گئے۔ میں اندر سے ٹوٹ رہی تھی، دل چاہتا تھا کوئی مجھے سمیٹ لے۔ ساری زندگی جس کی راہ دیکھی، اس نے بیچ راہ میں مجھے چھوڑ دیا۔

چچا جان اور چچی جان سمجھ چکے تھے کہ شمائلہ اب جوان ہو چکی ہے، اور اسے زیادہ دیر گھر میں نہیں بٹھایا جا سکتا۔ وہ شمائلہ اور اس کے چھوٹے بھائی سلمان کے سرپرست تھے، اور دونوں بہن بھائی ان کی ذمہ داری تھے۔ سلمان ابھی تعلیم حاصل کر رہا تھا، لیکن شمائلہ کے لیے اب ایک اچھا رشتہ ڈھونڈنا ضروری ہو گیا تھا۔ عمر دراز کے صاف انکار نے ان کی آنکھیں کھول دی تھیں، اور وہ اب شمائلہ کے مستقبل کے لیے فکر مند تھے۔
٭٭٭
اس بات کو تیسرا دن گزرا تھا جب نہ جانے میرے دل میں کیا سوجھا کہ میں عمر دراز کے کمرے میں چلی گئی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں اس کی موجودگی میں اس کے کمرے میں گئی تھی۔ اس سے پہلے، جب وہ گھر پر نہ ہوتا، تو میں خود اس کے کمرے کی صفائی کرتی تھی۔ لیکن جب وہ گھر آتا، تو میں اپنے کمرے تک محدود ہو جاتی۔ آج، میں اس کے روبرو کھڑی تھی، آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر لیے۔ میں اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ آخر اس نے میری برسوں کی امیدوں اور محبت کے بندھن کو کیسے پل بھر میں توڑ دیا؟ وہ خوابوں کا شیش محل، جسے میں نے سالوں پروان چڑھایا تھا، کیوں مٹی کا ڈھیر بن گیا؟ لیکن یہ سارے سوال میری آنکھوں سے آنسوؤں کی صورت بہہ رہے تھے۔

عمر دراز حیران اور پریشان میری طرف دیکھ رہا تھا۔ آخر اس نے پوچھ ہی لیا، "شمائلہ، تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟ تم کیوں رو رہی ہو؟ کیا تمہیں کوئی چیز چاہیے؟" اس کی بات سن کر میں فوراً وہاں سے پلٹ آئی۔ اپنے آنسوؤں کو دل میں سمیٹنا چاہتی تھی، لیکن وہ رکنے کا نام نہ لے رہے تھے۔ اپنے کمرے میں جا کر میں بستر پر گر پڑی اور آنسوؤں سے تکیہ تر کر دیا۔ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی، لیکن لفظ گلے میں اٹک کر رہ گئے۔

عمر دراز پریشانی کے عالم میں میرے کمرے کے دروازے تک آیا، لیکن گھر میں کوئی اور موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس کے لیے اندر قدم رکھنا ایک بڑا امتحان تھا۔ کچھ دیر بعد وہ واپس اپنے کمرے میں چلا گیا۔ شاید اس نے میرے آنسوؤں کی خاموش زبان سمجھ لی تھی۔
٭٭٭
شام کو جب چچا اور چچی گھر لوٹے، تو سب صحن میں بیٹھ کر خوشگوار انداز میں باتیں کر رہے تھے۔ میں نے اپنے آنسوؤں کو دل میں دفن کر لیا تھا اور خاموش ہو گئی تھی۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر چچا اور چچی کو پتا چلا کہ میں نے عمر دراز کے لیے اتنا روئی ہوں، تو وہ میرے بارے میں کیا سوچیں گے۔ شرم و حیا نے مجھے اپنے ارمانوں اور خوابوں کو دل میں سمیٹنے پر مجبور کر دیا۔ میں نے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجا لی، تاکہ میری وجہ سے وہ پریشان نہ ہوں۔
رات کے کھانے پر سب اکٹھے بیٹھے تھے۔ میں چھوٹے چھوٹے نوالے حلق سے اتارنے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن اندر سے میرا دل مر چکا تھا۔ بے بسی کی تصویر بنی، میں چپکے سے سب کی نظروں سے بچ کر عمر دراز کو پل بھر کے لیے دیکھ لیتی اور فوراً نظر جھکا لیتی۔ وہ بے فکری سے نوالے توڑ کر کھا رہا تھا، جیسے اسے دنیا جہان کی کوئی پروا نہ ہو۔ اسے ذرا خبر نہ تھی کہ اس کی خاطر میرے ارمانوں کی بستی اجڑ رہی تھی۔

کھانے کے بعد چچا جان نے عمر دراز سے پوچھا، "بیٹا، اب آگے کا کیا ارادہ ہے؟ تعلیم مکمل کر لی ہے، ملازمت کرو گے یا اپنا کاروبار شروع کرو گے؟" عمر دراز نے نظریں اٹھائیں اور ایک پل کے لیے میری طرف دیکھا۔ میری آنکھوں میں تیرتے آنسو شاید اس نے دیکھ لیے تھے، کیونکہ اسی لمحے ہماری نظریں چند لمحوں کے لیے مل گئیں۔ شاید اس کے دل میں میرے لیے رحم جاگ اٹھا۔ وہ چچا سے مخاطب ہوا، "ابا جان، میں نے تعلیم نوکری کے لیے نہیں، بلکہ کاروبار کے لیے حاصل کی تھی، تاکہ دنیا کے لین دین اور اونچ نیچ کو سمجھ سکوں۔ میرا ارادہ اپنا کاروبار شروع کرنے کا ہے۔ ساتھ ساتھ آپ کی زمینوں کو بھی سنبھالوں گا۔ اور جب کاروبار مستحکم ہو جائے گا، تو پھر شادی کے بارے میں سوچوں گا۔"

شادی کا لفظ اس کی زبان سے نکلتے ہی میری نظریں غیر ارادی طور پر اس کے چہرے کی طرف اٹھ گئیں۔ ایک بار پھر ہماری آنکھیں مل گئیں۔ میری آنکھوں کی معصومیت اور بے بسی میں اسے شاید کچھ پیار اور التجا نظر آئی۔ اس نے چچا اور چچی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، "میں نے بہت سوچا ہے۔ شہر کے لوگ اور شہری زندگی ہماری زندگی سے بہت مختلف ہے۔ ہم اپنے رسم و رواج اور اخلاقیات کے پابند ہیں۔ اگر ہم اس چار دیواری سے باہر نکل کر اپنی زندگی بسانے کی کوشش کریں، تو شاید کامیاب نہ ہوں۔ لیکن اگر ہم اپنی زندگی ان لوگوں کے ساتھ گزار دیں جو ہمارے لیے سب کچھ ہیں، تو اس سے بہتر زندگی کا تصور ہو ہی نہیں سکتا۔"
چچا اور چچی اس کی بات سن کر بہت خوش ہوئے۔ انہیں فخر تھا کہ ان کے بیٹے نے نہ صرف تعلیم حاصل کی، بلکہ اخلاقیات اور اچھی سوچ بھی اپنائی۔ کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔ پھر عمر دراز نے اپنے والدین سے کہا، "اماں، ابا جان، آپ کی خوشی سے بڑھ کر میرے لیے کچھ نہیں۔ آپ نے میرے لیے جو سوچا، وہی بہتر ہے۔ جیسا آپ کہیں گے، ویسا ہی کروں گا۔ آپ جہاں چاہیں میری شادی کر دیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے ہمیشہ میرے لیے شمائلہ کا انتخاب کیا ہے، تو جیسا آپ چاہیں، ویسا کر لیں۔"

اس کی بات سن کر میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میرے ٹوٹے ہوئے ارمانوں کے محل دوبارہ تعمیر ہونے لگے تھے۔ چچا اور چچی کچھ کہتے، اس سے پہلے میں وہاں سے اٹھ گئی۔ میں سمجھ چکی تھی کہ عمر دراز نے میرے حق میں فیصلہ کر لیا ہے۔ اپنے کمرے میں جا کر بھی میرا دل باہر کی باتوں پر لگا رہا۔

چچا اور چچی نے سلمان کی طرف دیکھا اور کہا، "بیٹا سلمان، تم بھی ہمارے بیٹے کی طرح ہو اور ہمیں بہت عزیز ہو۔ تمہاری رائے ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اگر تمہیں کوئی اعتراض نہ ہو، تو ہم عمر دراز اور شمائلہ کی شادی کر دیتے ہیں۔" سلمان سر جھکائے بیٹھا تھا۔ وہ اٹھ کر چچا کے پاس گیا، ان کو اپنے بازوؤں میں بھر لیا، اور بولا، "میں تو آپ کا چھوٹا سا بیٹا ہوں۔ آپ جو بھی کریں گے، وہ ہم بہن بھائیوں کے لیے بہترین ہو گا۔ آپ کے احسانات ہم پر بے شمار ہیں۔ ہم میں اتنی ہمت نہیں کہ آپ کے سامنے سر اٹھا سکیں۔ شمائلہ کے لیے جو فیصلہ کریں گے، مجھے منظور ہے۔"

چچا اور چچی کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ چچی نے سلمان کی پیشانی چومی اور اسے گلے لگا لیا۔ اس لمحے، میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا، جیسے برسوں کی تاریکی کے بعد ایک نئی صبح طلوع ہوئی ہو۔
٭٭٭
حشمت اللہ اور سکینہ بی بی کے گھر میں آج خوشیوں کا سماں تھا۔ انہوں نے اپنے بیٹے عمر دراز کے لیے جو خواب دیکھے تھے، وہ آج پورے ہو رہے تھے۔ وہ شمائلہ کو بے حد پسند کرتے تھے، کیونکہ وہ ان کے ہاتھوں میں پلی بڑھی تھی۔ ایسی باوقار، سلیقہ شعار، اور فرمانبردار بہو انہیں کہیں اور مل ہی نہ سکتی تھی۔ عمر دراز بھی اپنے فیصلے پر نہایت خوش تھا۔ وہ زندگی کے جس راستے پر چلنا چاہتا تھا، اور جیسی لڑکی کو اپنا جیون ساتھی بنانا چاہتا تھا، وہ اسے اپنے گھر میں ہی مل گئی تھی۔ بہت سوچ بچار کے بعد اس نے شمائلہ کے حق میں فیصلہ کیا تھا۔
آج شمائلہ دلہن بن کر خود کو دنیا کی خوش نصیب ترین لڑکی سمجھ رہی تھی، اور حقیقتاً وہ خوش نصیب ہی تھی۔ اس نے اپنی سچی چاہت، اپنے ارمانوں، اور اپنے جذبات کو اپنی آنکھوں کی خاموش زبان سے عمر دراز کے دل تک پہنچا دیا تھا۔ اس کی آنکھوں نے عمر دراز کو سب کچھ سمجھا دیا کہ اس کے دل میں کیا ہے، اور وہ اس سے کتنی گہری محبت کرتی ہے۔ شاید عمر دراز بھی جان چکا تھا کہ یہ دیوانی لڑکی اس کے عشق میں اس قدر گرفتار ہے کہ اس کے بغیر شاید جینا بھی گوارہ نہ کرے۔

پورا دن دھوم دھام سے گزر گیا۔ بارات گھر کے ایک کونے سے نکلی اور دوسرے کونے میں جا پہنچی۔ گویا ایک کمرے سے بارات روانہ ہوئی اور دوسرے کمرے میں جا کر ٹھہری۔ چند قریبی مہمانوں کی موجودگی میں عمر دراز اور شمائلہ کا نکاح پڑھا دیا گیا۔ وہ رات نہایت حسین تھی، اور اس میں شمائلہ کا دل، جو صرف عمر دراز کے لیے دھڑکتا تھا، اپنی پوری رعنائی کے ساتھ موجود تھا۔ وہ دل ہمیشہ اسی کے لیے تڑپتا رہے گا۔

عمر دراز جب کمرے میں داخل ہوا تو اس نے دروازہ بند کر لیا۔ پلنگ پر گھونگھٹ میں سمٹی ہوئی شمائلہ کے پاس جا کر وہ بیٹھ گیا۔ گھونگھٹ کے پیچھے اس کا چہرہ چاند کی مانند چمک رہا تھا۔ عمر دراز خود کو خوش نصیب سمجھ رہا تھا۔ چند لمحے وہ اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ جیسے ہی اس نے گھونگھٹ اٹھایا، شمائلہ نے اپنی گول مٹول، بڑی بڑی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا، جیسے اس کا شکریہ ادا کر رہی ہو، اور اپنے رب کا بھی شکر گزار ہو کہ اس نے اس کی دلی مراد پوری کر دی۔ عمر دراز کو ہمیشہ کے لیے اس کا بنا دیا تھا۔
یہ آنکھوں کی زبان وہی سمجھ سکتے ہیں جو سچا پیار کرتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے، شکووں اور شکایتوں سے لے کر پیار و محبت کی باتوں تک، دل کی ہر بات کرتے رہے۔ وقت گزرنے کا پتا ہی نہ چلا۔ عمر دراز نے شمائلہ کو اپنی باہوں میں سمیٹ لیا۔ شمائلہ نے اس کے گرم بازوؤں میں جو سکون اور سرور پایا، وہ اس نے زندگی میں پہلے کبھی محسوس نہ کیا تھا۔

شمائلہ کی آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن یہ خوشی کے آنسو تھے۔ وہ اپنے رب کے حضور جھک کر شکر ادا کرنا چاہتی تھی کہ اس نے اسے اتنا بڑا انعام عطا کیا۔ اس رات، شمائلہ کا دل اطمینان سے بھر گیا، جیسے برسوں کی تڑپ اور انتظار کے بعد اسے اس کا مقدر مل گیا ہو۔
(ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ